قیام کربلا، درس حریت

Rate this item
(0 votes)
قیام کربلا، درس حریت
واقعہ کربلا بنی نوع انسان کی تاریخ کا انوکھا سانحہ ہے، جو 10 محرم الحرام 61 ہجری سے پہلے رونماء ہوا اور نہ ہی بعد میں ہوگا۔ بڑی جدوجہد اور قربانی کے واقعات تو موجود ہیں، مگر ایسے نہیں، جیسے فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام نے لازوال قربانی پیش کی۔ صدیوں سے کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی پر تبصرے ہو رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کربلا کے موضوع پر تشنگی آج بھی باقی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
تحریک پاکستان کے رہنماء، معروف شاعر اور صحافی مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا:
قتل حسین ؑاصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

روزنامہ ہمدرد کے ایڈیٹر مولانا محمد علی جوہر نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ جب اسلام پر مشکل وقت آجائے اور مسند اقتدار پر بیٹھے افراد اپنی مرضی کرنے لگیں، لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے، حق کی حمایت میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہ ہو تو قربانی دینا واجب ہو جاتا ہے، تاکہ لوگ دین مبین کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ معاشرے میں ایک گروہ واقعہ کربلا میں یزید کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جبکہ اسلام کے ماننے والوں کی غالب اکثریت کربلا کے شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کربلا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو کربلا کو برپا کرتے رہنا ہوگا، یعنی قربانی دیتے رہنا ہوگی۔ تاریخ انسانیت میں کربلا جیسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ امام حسین علیہ السلام نے کمال انتظامات کیساتھ یزید کیخلاف قیام کیا اور کربلا میں وارد ہوئے، جس میں ہر صنف انسانیت کا کوئی نہ کوئی کردار موجود ہے۔

چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغرؑ سے لیکر 80 سال کے ضعیف حبیب ابن مظاہرؓ جیسے انسان بھی کربلا میں مردوں کی نمائندگی کرتے اور شہادت کا درجہ پاتے نظر آتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے رشتوں کے حوالے سے بہن، بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور سیاہ فام جون جیسے غلام سے لیکر حرؓ جیسے کمانڈر بھی واقعہ کربلا میں قربان ہوگئے۔ آج دنیا کے اندر کہیں بھی آزادی کیلئے کوئی سماجی یا مذہبی تحریک ہو یا آمریت کیخلاف سیاسی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس کے لیڈر تحریک کربلا سے متاثر ہو کر یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی طرح جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے وہ کربلا کے شہداء کی اقتداء میں جان دینے کو بھی تیار ہیں۔

تصور کریں کہ عاشورہ محرم 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کا کوئی ساتھی نظر نہیں آتا تھا، سب یزید کیساتھ کھڑے تھے، جبکہ اب صدیوں کا عرصہ گزر چکا ہے، آج کربلا کی یاد منانے اور اسے زندہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی یزید کے ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آتا، وہ جو یزید کیلئے کوئی تھوڑا بہت نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں، وہ بھی اس کے عمل کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے حق میں مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ کربلا نے انسان کو اتنا بیدار کیا ہے کہ حسینیت کا پیروکار ہونے کیلئے مسلمان نہیں، انسان ہونا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام صرف مسلمانوں ہی کیلئے نہیں، غیر مسلموں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں، وہ محسن انسانیت ہیں۔ ہر انصاف پسند اور غیرت مند انسان امام عالی مقام کی مظلومیت اور قربانی سے متاثر ہے۔ تکریم انسانیت اور آزادی کی جو بھی تحریکیں چلتی ہیں یا کہیں بنی نوع انسان کے شعور اور انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے، مذہب و دین کے حوالے سے تشنہ فکر افراد کی رہنمائی صرف کربلا ہی سے ہوتی ہے۔

چھٹے تاجدار امامت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ”ہر دن عاشور ہے اور ہر زمین کربلا ہے۔ ان کے جد بزرگوار امام حسین ؑنے جس انداز سے قربانی دی، وہ آج بھی آزادی کی تحریک چلانے والے گروہوں، جماعتوں اور اقوام کو کربلا سے منسلک کرتی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فکر کربلا سے حاصل کی ہے۔ کرہ ارض پر نظر دوڑائیں کہ آج کے دور میں جتنی بھی تحریکیں دنیا میں چل رہی ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جب امام حسینؑ مکہ سے کوفہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے اس لمبے سفر میں جہاں امام رُکے تو بہت سے قبائل نے آپ کیساتھ ملاقاتیں کیں، مگرآپ نے کسی سے نہیں کہا کہ ٓاپ میرے ہمسفر بنیں، آپ کو اقتدار میں آکر فلاں عہدہ دوں گا، بلکہ وہ واشگاف الفاظ میں کہتے تھے کہ مجھے دین محمدی (ص) کو بچانا ہے اور یہ بھی کہا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور یہ درس پوری دنیا کیلئے ہے، یعنی بندگان خدا حق کی حفاظت کیلئے باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔

امام عالی مقام کربلا کی طرف سفر کے دوران بار بار اعلان کرتے رہے اور ساتھیوں کو حالات سے آگاہی دیتے رہے کہ یزیدی فوج کے ہاتھوں ہماری شہادت یقینی ہے، جو واپس جانا چاہے، چلا جائے۔ شب عاشور تو آپ نے اپنے اصحاب باوفا کو اکٹھا کرکے پھر حالات سے آگاہی دی اور چراغ بجھا دیا اور کہا کل ہم شہید ہو جائیں گے، جو جانا چاہتا ہے، چلا جائے، مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا، مگر حیرت ہے کہ امام کے جانثاروں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ حتیٰ کہ مسلم ابن عوسجہ کا جواب تاریخی تھا  ”اے امام! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ 70 مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا“ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے قربانی کی ایسی شاندار مثال پیش کی کہ دنیا یاد کرتی ہے۔

آج حماس کی مزاحمتی تحریک کو دیکھ لیں، جس کے نوجوان امام حسین علیہ السلام کی راہ کو اپناتے ہوئے شہادت قبول کر رہے ہیں، مگر اسرائیل کی بالادستی اور اس کا قبضہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بار بار واضح کر رہے ہیں کہ وہ ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ وہ آج کے یزید اور شمر کیخلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ اسی طرح لبنانی فلسطینی یمنی اور عراقی مزاحمتی تحریکیں مکمل طور پر امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا پیغام انسانیت کے ہر طبقے کیلئے ہے۔ مختلف مکاتب فکر اور مذاہب خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، نواسہ رسول سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے لوگ بھی امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتے اور ان سے درس حریت لیتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ جو کربلا سے رہنمائی لیکر جدوجہد کرتا ہے، وہ فکر حسینؑ سے دور نہیں، بلکہ منسلک ہے۔ حماس اور حزب اللہ لبنان کی شہید قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح عصر حاضر میں فکر حسینیؑ کے قافلہ سالار ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ یزید وقت نے انہیں قتل کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کے دعوے کئے مگر ناکام رہے۔
 
 
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
Read 5 times