سلیمانی

سلیمانی

جمعرات کے دن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی جانب گامزن انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل کشتیوں پر جارحیت کر کے اس میں شریک تمام امدادی کارکنوں اور اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس حملے نے ماضی میں حنظلہ کشتی پر صیہونی جارحیت کی یاد تازہ کر دی ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے امدادی سامان لے کر غزہ جا رہی تھی۔ صیہونی رژیم کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ صمود فلوٹیلا میں شامل تمام افراد مقبوضہ فلسطین میں قید ہیں اور ان کی صحت بالکل درست ہے۔ لیکن صیہونی وزارت خارجہ کا یہ بیان عالمی سطح پر انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے پائے جانے والے غم و غصے کو کم نہیں کر سکا اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے انجام پا رہے ہیں۔ مظاہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ جاری رکھے جانے پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
 
مزاحمتی فلوٹیلا کی آواز
بدھ کی شام انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا جو غزہ کے ساحل سے تقریباً 139 کلومیٹر دور تھا صیہونی فوج کی یلغار کا نشانہ بن گیا۔ اس میں پانچ سو کے قریب افراد سوار تھے جن میں چند اراکین پارلیمنٹ، وکیل اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی شامل تھے۔ اخبار گارجین کے مطابق اس فلوٹیلا کا مقصد غزہ کا محاصرہ توڑنا تھا اور وہ اپنے ساتھ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے۔ صیہونی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے سرگرم کارکن گرتا تونبرگ کو دیکھا جا سکتا ہے جو "آلما" نامی کشتی کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور صیہونی فوجیوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا۔ صمود فلوٹیلا میں شامل کچھ کشتیاں تو غزہ سے چودہ یا پندرہ کلومیٹر فاصلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن آخرکار صیہونی فوج نے انہیں روک دیا۔
 
آزادی کی لہروں پر
ابتدائی رپورٹس کے مطابق صمود فلوٹیلا میں شامل "میکنو" نامی کشتی غزہ ساحل کے قریب فلسطینی پانیوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ صمود فلوٹیلا میں شامل افراد نے بتایا کہ میکنو کشتی سے ہمیں یہ پیغام ملا کہ "ہمیں ساحل دکھائی دے رہا ہے۔" فلوٹیلا میں ترکی سے تعلق رکھنے والے کارکن رمضان تونچ نے بتایا: "میں آپ کو یہ اچھی خبر سنانا چاہتا ہوں کہ شدید رکاوٹوں کے باوجود ہماری ایک کشتی غزہ پہنچ گئی ہے اور اس نے وہ کام کر دکھایا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔" بعد میں موصول ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے غزہ ساحل سے تقریباً 17 کلومیٹر دور صیہونی فوج نے روک دیا اور اس میں سوار افراد کو کتسیعوت جیل منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک بڑا جیل ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
 
صیہونزم کی قید میں
انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل وہ افراد جو صیہونی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور حتی مغربی شہری بھی اس فلوٹیلا میں موجود تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کی وجہ سے اسرائیل سے نفرت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ صمود فلوٹیلا کے گرفتار شدگان میں آئرلینڈ کے 9 شہری بھی شامل ہیں جن میں شین فن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس ایندروز بھی ہیں۔ اسی طرح اٹلی کے دو رکن پارلیمنٹ، فرانس سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اما فورو، پولینڈ کے رکن پارلیمنٹ فرانسسک استرچفسکی اور برطانوی فضائیہ کے ریٹائرڈ 72 سالہ پائلٹ میلکم داکر بھی اس فلوٹیلا میں شامل تھے۔ میلکم داکر صمود فلوٹیلا میں شامل "ایل این" نامی کشتی چلا رہے تھے۔
 
20 سالہ محاصرے پر خاموشی کا اختتام
غاصب صیہونی رژیم نے 2007ء میں غزہ کے الیکشن میں حماس کی فتح کے بعد غزہ کی پٹی کے خلاف محاصرے کا آغاز کیا تھا اور 2009ء میں محاصرے کی شدت بڑھا دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ اب تک کئی بار اس محاصرے کی مذمت کر چکی ہے اور اسے "انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی" قرار دے چکی ہے۔ صمود انٹرنیشنل فلوٹیلا میں شامل افراد اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ان کا اقدام غیر مسلح اور غیر فوجی اقدام ہے اور صرف انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔ یاد رہے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا جرم جانا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کئی کوششیں انجام پا چکی ہیں۔ 2010ء میں غزہ کی جانب گامزن مرمرہ کشتی پر صیہونی فوج کے کمانڈوز نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دسیوں ترک شہری شہید ہو گئے تھے۔
 
صیہونیوں کے خلاف عالمی احتجاج
غاصب صیہونی فوج کی جانب سے صمود فلوٹیلا میں شریک تمام افراد کو گرفتار کر لینے کے بعد یورپ سمیت پوری دنیا میں صیہونی رژیم کے خلاف وسیع احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اسپین کی حکومت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ صمود فلوٹیلا میں شریک افراد کی سلامتی یقینی بنائے۔ اٹلی میں عظیم احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں بیس لاکھ کے قریب مظاہرین نے شرکت کی۔ اسی طرح کے مظاہرے برسلز، ایتھنز اور برلن میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ عالمی رائے عامہ کے دباو میں آکر برطانوی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن صیہونی رژیم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر صمود فلوٹیلا میں شامل افراد کو آزاد کر دے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی صمود فلوٹیلا پر صیہونی فوج کے حملے کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔

تحریر: علی احمدی

 اسپیکر قومی اسمبلی محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ روس اور چین نے سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین کی حیثیت سے ایک سرکاری بیان میں اس بات پر زور دیا کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی غیر قانونی ہے اس کی تعمیل لازمی۔ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران بھی خود کو ان غیر قانونی قراردادوں پر عمل کرنے کا پابند نہیں سمجھتا۔

اسپیکر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی کا ہمارا حق آج بھی بین الاقوامی قانون سے منظور شدہ ہے۔

  انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی ملک ان غیر قانونی قراردادوں کی بنیاد پر ایران کے خلاف کارروائی کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایران کی جانب سے سنگین اور جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس غیر قانونی اقدام کے پیچھے جو تین یورپی ممالک ہیں انہیں بھی ہمارے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 آفیسرز یونیورسٹی میں کمیشن افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ دشمن جان لے کہ ایرانی قوم اپنی صلاحیتوں، توانائيوں اور اعلی نظریات سے فتح حاصل کرے گی۔

 کمیشن افسران سے خطاب کرتے میجر جنرل امیر حاتمی کا آپ نے ایک ایسے وقت میں فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا جب دشمن نے اپنی نادانی اور غلط حساب کتاب کی بنیاد پر وطن عزیز کی سلامتی، ارضی سالمیت، آزادی اور اسلامی نظام کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن اسے عظیم ایرانی قوم کی استقامت اور مسلح افواج کی مزاحمت کے نتیجے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بری فوج کے سربراہ نے کہا کہ ہماری طاقتور افواج  نے قوم کی حمایت اور سپریم کمانڈر کی دانشمندانہ قیادت میں دشمن  کے دانت کھٹے کر دیئے اور اسے شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔

 مسجد اعظم قم میں 27 ستمبر 2025 کو درسِ فقہ کے اختتام پر آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام «لَا یَمْنَعُ الضَّیْمَ الذَّلِیلُ» کی روشنی میں کہا کہ جس قوم کا یقین یہ ہو کہ دنیا کی زندگی چند سانسوں کی مہمان ہے اور شہادت ’’روح و ریحان‘‘ ہے، وہ کبھی بھی دھمکیوں اور دباؤ سے مرعوب نہیں ہوتی۔ اسلام کا بھی یہی پیغام ہے کہ عزت اور مزاحمت کے ساتھ جیا جائے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’پتھر جہاں سے آیا ہے وہیں واپس پھینکو، مرد بنو اور مردانہ زندگی بسر کرو۔‘‘

انہوں نے کہا کہ روایاتِ معصومینؑ کے مطابق انسان اپنی عزت و آبرو کا مالک مطلق نہیں بلکہ اللہ کی امانت دار ہے، جس طرح عورت کی عصمت اور ناموس الٰہی امانت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص اپنی یا کسی مومن کی آبرو کو ذلت کے ساتھ برباد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے امام معصوم علیہ السلام کا فرمان نقل کیا کہ: «إنَّ اللّه فَوَّضَ إلَی المُؤمِنِ اُمورَهُ کُلَّها، و لَم یُفَوِّضْ إلَیهِ أن یَکونَ ذَلیلاً» یعنی خدا نے مؤمن کے تمام امور اس کے سپرد کیے ہیں، مگر اسے کبھی ذلت برداشت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح ایک قوم کو بھی حق نہیں کہ وہ خود کو ذلیل کرے اور اپنی اجتماعی عزت کو پامال کرے۔

آخر میں آپ نے دعا کی کہ خداوند متعال اہل بیت علیہم السلام کی آبرو کے صدقے اس ملک کو ظہور امام زمانہؑ تک ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے۔

25 ستمبر 2025ء کی شام جب سورج خلیج بیروت میں غروب ہو رہا تھا تو لبنان کے دارالحکومت میں قومی علامت سمجھی جانے والی مستحکم چٹان "الروشہ" شہید سید حسن نصراللہ کی تصویر سے چمکنے دمکنے لگی۔ ہزاروں کی تعداد میں لبنانی شہریوں نے ضاحیہ کے جنوبی محلوں سے لے کر دور دراز گاوں بقاع تک عظیم اجتماع تشکیل دیا تاکہ اس طرح حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی منا سکیں۔ شہید سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی عظیم الجثہ تصاویر الروشہ چٹان پر چمکیں اور عظیم اجتماع نے اتحاد اور استقامت کے نعرے لگاتے ہوئے دنیا بھر کو ایک واضح پیغام پہنچایا۔ اگرچہ لبنان حکومت نے اس اجتماع کی تشکیل کے لیے بہت ہی محدود پیمانے پر اجازت دی تھی اور الروشہ چٹان پر شہدائے حزب اللہ کی تصاویر کی اجازت بھی نہیں دی تھی لیکن یہ عظیم اجتماع میں تبدیل ہو گیا۔
 
لبنانی شہریوں کا یہ عظیم اجتماع محض ایک برسی کے اجتماع سے ماوراء تھا اور اس میں ایسے اجتماعی عزم راسخ کا مظاہرہ کیا گیا جو جنگ کی تباہ کاریوں اور اقتصادی بحران کی شدت میں اپنی خودمختاری اور وقار کے لیے جدوجہد پر زور دیتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نواز لبنانی وزیراعظم نواف سلام نے اس عظیم اجتماع کو اجازت نامے سے "واضح خلاف ورزی" قرار دیا اور اس کی انتظامیہ میں شامل افراد کو فوراً گرفتار کر کے ان کے خلاف عدالتی کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ لبنانی وزیراعظم نے حتی وزیر داخلہ، وزیر انصاف اور وزیر دفاع کو بھی فوری اقدام کا حکم دیا اور اس عظیم اجتماع کو "غیر قانونی" قرار دے دیا۔ یہ انتہاپسندانہ ردعمل نہ صرف اندرونی اختلاف کی علامت ہے بلکہ اس پالیسی کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو لبنانی حکومت نے مغربی طاقتوں کی غلامی میں اپنا رکھی ہیں۔
 
حزب اللہ، دشمنوں کی آنکھ میں کانٹا
اس ٹکراو کی گہرائی کو جاننے کے لیے ہمیں شہید سید حسن نصراللہ کے تاریخی کردار کا جائزہ لینا پڑے گا۔ سید مقاومت، جو ستمبر 2024ء میں غاصب صیہونی رژیم کے دہشت گردانہ اقدام میں مقام شہادت پر فائز ہوئے نہ صرف حزب اللہ کے قائد تھے بلکہ غاصبانہ قبضے کے خلاف لبنان کی جدوجہد کی علامت بھی تھے۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کی قیادت کرتے ہوئے 2000ء میں لبنان کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلوائی اور اس کے بعد 2024ء کی وسیع صیہونی جارحیت سمیت کئی جنگوں میں حزب اللہ لبنان کو ناقابل تسخیر قلعے میں تبدیل کر دیا۔ ان کی شہادت دیگر ہزاروں لبنانی شہریوں کی شہادت کے ہمراہ تھی اور اس نے لبنانی معاشرے کو گہرا صدمہ پہنچایا لیکن اس کے باوجود حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے سامنے جھکنے کی بجائے نئے جذبے سے مسلح جدوجہد جاری رکھی جس کے باعث وہ دشمن کی آنکھوں میں کانٹا بنا ہوا ہے۔
 
غیر ملکی اثرورسوخ کا سایہ
شہید سید حسن نصراللہ کی برسی پر پابندی کا اقدام محض ایک اندرونی ردعمل نہیں ہے بلکہ اس وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس کی بنیادیں بیرونی دباو پر استوار ہیں۔ مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک کی مدد سے امریکہ نے کئی سال پہلے سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکہ نے نئی لبنانی حکومت کو مالی امداد کی فراہمی بھی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے سے مشروط کر رکھی ہے اور حتی قطر اور سعودی عرب کی جانب سے لبنان کو تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے دی جاری والی امداد بھی اسی خاطر روک رکھی ہے۔ تھامس براک نے اپنے ایک بیان میں لبنان کو "حزب اللہ کو کنٹرول کرنے کے کھیل کا گراونڈ" قرار دیا ہے اور جنوبی لبنان کے دفاع میں حزب اللہ کا کردار ختم کر دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
 
یہ منصوبہ 2025ء میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں ایک ٹف ٹائم ٹیبل دیا گیا ہے: لبنان آرمی کو اس سال کے آخر تک جنوبی لبنان، بیروت اور بقاع کے علاقوں کو اسلامی مزاحمت کے اسلحے سے عاری بنانا ہے۔ یہ دباو واضح طور پر اسرائیلی مفادات کی خاطر ڈالا جا رہا ہے۔ اسرائیل جو اب بھی جنوبی لبنان کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے اور نومبر 2024ء میں ہونے والی جنگ بندی کی بارہا خلاف ورزی کر چکا ہے، اب بھی لبنان پر ڈرون اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کر کے جنوبی لبنان کو ایک "بفر زون" کے طور پر استعمال کرنے کے درپے ہے۔ تھامس براک کی بنجمن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام سے مسلسل ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل اسرائیل کا پیش کردہ ہے۔ نواف سلام کی سربراہی میں موجودہ لبنانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ایک مہرے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
 
مزاحمت اور صبر، لبنان کی خودمختاری کے ستون
اس دباو کے مقابلے میں لبنان کی شیعہ برادری حزب اللہ کی سربراہی میں مزاحمت اور صبر کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مئی 2025ء کے بلدیاتی الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کی لیکن حکومت سے براہ راست ٹکر لینے سے گریز کیا۔ اس حکمت عملی کی وجہ کمزور ہونا نہیں بلکہ قومی اتحاد کا تحفظ ہے۔ حزب اللہ لبنان نے ملک بھر میں وسیع فلاحی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس کے تحت اسپتال اور اسکول تعمیر کیے گئے ہیں اور لبنانی شہریوں کی بھرپور مدد کی جاتی ہے۔ حزب اللہ قومی سطح پر مذاکرات کی حامی ہے لیکن مسلح ہونے کو ریڈ لائن تصور کرتی ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے اس بارے میں کہا تھا: "مزاحمت لبنان کے دفاع کے لیے ہے اور وہ اقتدار کے پیچھے نہیں ہے۔" لبنان آج ایک بڑے امتحان سے روبرو ہے۔ کیا وہ بیرونی طاقتوں کے دباو کا مقابلہ کامیابی سے کر پائے گا یا نواف سلام کی حکومت مزاحمت کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟

تحریر: فاطمہ مرادی

Sunday, 28 September 2025 12:27

انا علی العھد

ہاں ہم اپنے عہد پر قائم ہیں___ 
اس عہد پر جو ہم نے ایک مرد الہیٰ سے کیا___
یہ خون کا عہد ہے___
اس مرد الہیٰ سے 
جو ظلمتوں کی سیاہ راتوں میں عزمِ حسینی کا روشن چراغ تھا
جسے 
دار و رسن کی سختیاں
دشمنوں کی گیدڑ بھبھکیاں
اہل ستم کی دھمکیاں
خنجر و شمشیر کی چمک
نیزہ و سنان کی دمک 
زریں تاجوں کی چمک
 بارودی گولوں کی بارش
آستیں کی سانپوں کی سازش
کوئی بھی چیز 
 اُس مردِ آہنی کے قدم نہ روک سکی___

وہ جس کی آنکھوں میں
شہادت کی چمک تھی،
اور دل میں عشقِ حق کی تپش۔
سید حسن نصر اللہ!___
وہ سید لبنانی
جس کی استقامت نے ہمیں بتایا
کہ مردانگی جسم کی طاقت نہیں،
عزم و ہمت و ارادہ کی طاقت ہے 
جو روح سے متعلق ہے____ 
اور روح 
اتنی عظیم ہوتی ہے کہ اسے ہزاروں ٹن بارود گرا کر بھی نہیں مارا جا سکتا.
اس لئے کہ مردان الہیٰ کا جسم تو ان کے لئے ایک قفس کی صورت ہوتا ہے۔۔
روح جب بڑی ہو جائے تو جسم میں کہاں رکتی ہے؟۔۔۔

سچ کہا متنبی نے 
"وَإِذا كانَتِ النُفوسُ كِباراً
تَعِبَت في مُرادِها الأَجسامُ
"
بات یہاں کہاں ختم ہوتی ہے، بات کا آغاز یہاں سے ہے کہ جو بیش قیمت ہے، وہ جہاں بھی ہو، غریب ہے، چاہے اپنوں ہی کے درمیان کیوں نہ ہو، اس کا خریدار تو بس خدا ہے۔
"وهكذا كنت في أهلي وفي وطني
إِنَّ النَفيسَ غَريبٌ حَيثُما كانا
"
حسن نصراللہ (رح) کی ذات بھی ایسے ہی گوہر نایاب کی مانند تھی
جس کی قدر زمانے نے نہ کی، بالکل اس کے آقا و مولا علی (ع) کی طرح 
جس کے لئے جارج جرداق نے کہا
"*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر دور کو ایک علی (ع) مل جاتا*" 
آج ہم کہہ سکتے ہیں "*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر قوم کو ایک "نصراللہ" مل جاتا کہ ہمیں ہر ایک سے زیادہ اس کی ضرورت ہے*

وہ مرد مجاہد___
 جو  
اہل حق کے نام یہ پیغام چھوڑ گیا
کہ خوں بہے تو بہے،
جذبہ حق پرستی کبھی نہ تھمے
وفا کبھی نہ مرے
مظلوموں کی مدد سے ہاتھ کبھی نہ کھنچے
چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
"نحن شیعه علی ابن ابی طالب"  
کہنا آسان ہے__
ثابت کرنے کے لئے عزم "نصر اللہیٰ" چاہیئے 
وہ عزم____
 جو منوں ٹن بارود اور اسلحوں کی کھیپوں سے نہ دب سکا
"نعیم قاسم" کی شکل رخِ ظالم پر "طمانچہ" بن کر زندہ ہے۔
اور دنیا بھر میں عزم نصر اللہیٰ رکھنے والے جیالوں کی صورت ظالموں کی نیندیں اڑا رہا ہے

سچ ہے 
ظلم کی راتیں طویل ہو جائیں___ 
تو ایک 86 سالہ بوڑھا
نویدِ سحر لئے
خاک شفا پر سر کو خم کرکے 
جب سر اٹھاتا ہے
تو دنیا کے ظالموں کے سر
اس کے سامنے اعلان عاجزی کے ساتھ جھک جاتے ہیں اور جب وہ "*یا علی*" کہہ کر 
آگے بڑھتا ہے۔
*بنام نام حیدر جنگ آغاز می گردد
علی (ع) با ذوالفقار حیدر به خیبر باز می گردد"
 تو اہل ستم کے چہرے دھواں دھواں ہو جاتے ہیں___

اور وہ ثابت کر دیتا ہے
ہزاروں گیدڑ مل کر وہ کچھ نہیں کرسکتے جو بوڑھا شیر اپنی انگڑائی سے کر گزرتا ہے
وہ ثابت کرتا ہے کہ اگر مردانگی ہو
اور اپنے عہد پر قائم رہا جائے تو ایک اکیلا انسان
تاریخ بدل سکتا ہے
 مسلم خوابيدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھي ہو. وہ چمک اٹھا افق، گرم تقاضا تو بھی ہو.
 مانا کہ ظلم و ستم کے محاذ پر محاذ کھل رہے ہیں
 برہنہ جارحیت کا عفریت معصوموں کی لاشوں پر بھمہیت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے
لیکن حسینیت کا پرچم لئے 
اب بھی کچھ جیالے بساط حریت پر جمے ہوئے اپنے اس عہد پر قائم ہیں
جو عہد انہوں نے سید مقاومت سے کیا۔ جو خون کا عہد ہے 
*انا علی العہد*

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے اپنے پیام میں فرمایا ہے کہ شہادت جہاد کا ثمر ہے، چاہے آٹھ سالہ دفاع ہو، چاہے 12 روزہ دلیرانہ جنگ، چاہے لبنان، غزہ ہو یا فلسطین، جہاد ملی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے روز "مهمانی لاله‌ها" یعنی جنت کے پھول یا پھولوں کی دعوت کے عنوان سے دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ یہ جہاد اور شہادت کا جلوہ ہے، جس سے اقوام کو جلا ملی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام جو ملک بھر میں شہداء کی قبروں کی صفائی، عطر چھڑکنے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کی تقاریب میں "جنت کے پھول" کے عنوان سے جاری کیا گیا۔ اس پیغام کو شہداء و ایثار گران کی فاونڈیشن میں رہبر انقلاب کے نمائندہ حجت الاسلام موسوی مقدم نے گلزار شہداء، بہشت زہراؑ تہران میں پڑھ کر سنایا۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم
اس سال مختلف مقامات پر اسلامی مزاحمت کی راہ پر چلنے والی سرکردہ شخصیات اور بہادر جوانوں کی شہادت کی بدولت ہفتہ دفاع مقدس ایک نئی جہت اختیار کرچکا ہے۔ شہادت جہاد کا صلہ و ثمر ہے، چاہے 8 سالہ دفاع میں، 12 روزہ جنگ ہو یا لبنان، غزہ اور فلسطین میں جدوجہد، قومیں انہی کاوشوں سے ارتقا پاتی اور انہی شہادتوں سے جلا حاصل کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ حق کی فتح اور باطل کے زوال کے بارے میں خدائی وعدے پر یقین رکھیں اور خدا کے دین کی نصرت کے لئے اپنے فریضے کو انجام دیتے رہیں۔
سید علی خامنہ ای
2 مہر 1404
 
 
 

مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا ۞ "مومنوں میں کچھ ایسے (ہمت والے) مرد ہیں، جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا، جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذر پوری کردی اور ان میں سے بعض منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنے وعدہ میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔" وہ جب گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ وارث منبر سلونی کی صدا ہے، جو دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کے الفاظ، ان کا انداز، ان کی حرکیات، ان کے گفتگو کے اشارے ہر ایک تو بغور دیکھے، سمجھے جاتے اور ان کے مطالب نکالے جاتے، ان کی تشریحات کی جاتیں، ان کی ہر ایک بات، ہر ایک جملہ کی تفسیریں کی جاتیں۔۔۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ سید الشہداءؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے گریہ کی کیفیت میں دکھائی دیتے، جبکہ ایک جہادی تنظیم کے سربراہ کے طور پر ان کا آنسو بہانا شاید بہت سوں کے نزدیک دشمن کو خوش کرنے کا موقع دینا سمجھا جاتا ہے، مگر یہ ان کی فکر باطل ہے، اس لیے کہ وہ جن کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے تھے، وہ خود کئی ایک بار شہدائے کربلا کا تذکرہ گریہ کیساتھ کرتے اور سنتے ہیں۔

ان کی شخصیت کا اس سے بڑا اثر اور کیا ہو کہ وہ دنیا میں رہبر معظم امام خامنہ ای کے بعد دوسری شخصیت تھے، جن کے الفاظ کی قدر، ان کی منزلت، ان کی ارزش، ان کی اہمیت اور اثر پذیری تھی۔ ایسی ہی اثرپذیری و صداقت و سچائی جیسی ولی امر المسلمین کے الفاظ کی ہے، وہ ولی امر المسلمین کی طرح ایک آس تھے، ایک امید تھے، ایک اعتماد تھے، ایک آسرا تھے۔۔۔ جن لوگوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی۔۔۔ کیساتھ کام کیا ہے، ان سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس دور کو یاد کریں تو میری اس بات کو بخوبی سمجھ اور درک کرسکتے ہیں۔ شہید مقاومت کی شخصیت پوری دنیا کے مقاومین کیلئے ایک اعتماد، ایک قرار، ایک امید، ایک یقین کی مانند تھی۔ اللہ نے انہیں جو عزت و شرف عطا کیا تھا، وہ کسی اور کے حصہ میں شاید ہی آئے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔۔ "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ" ﴿۲۹﴾انفال "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔"

سید حسن نصراللہ نے اپنا عہد نبھایا، وہ عہد نبھانے والوں میں سے تھے، ان کا خالص ہونا، وہ تقویٰ کی اس منزل پہ فائز تھے، جہاں پر اللہ کریم اپنے متقی بندوں کو فرقان عطا کرتا ہے۔ فرقان یعنی حق و باطل میں تمیز، یعنی غلط و صحیح کا ادراک۔ لوگ ساری عمر گزار دیتے ہیں اور انہیں حق کے رستے کی پہچان و معرفت نہیں ہوتی، وہ اس راستے کی نا فقط معرفت رکھتے تھے بلکہ اس پر گامزن تھے اور اسی کے داعی تھے۔ ان کی ہر گفتگو، ہر تقریر، ہر خطاب میں ولایت فقیہ کا درس، اس سے تمسک، اس سے توسل اور اس سے برملا مرتبط ہونا ظاہر ہوتا تھا، جبکہ ہمارے ہاں لوگ اس کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں بلکہ ولی فقیہ کے اختیارات، ان کے مختلف ایشوز پر انہیں مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ سید مقاومت ایسے نا تھے، وہ ولی امر المسلمین کے مطیع تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت اور لبنانی قوم کو جس مقام پر پہنچایا، اس کی بدولت انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔

بلا شبہ ان کی قربانی اہل فلسطین کیلئے تھی، وہ ہمیشہ ارض مقدس فلسطین کی ناجائز قابض اسرائیل سے آزادی کے متمنی اور اس کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم رکھتے تھے اور اسی پر گامزن تھے۔ جو شخص اسرائیل، جسے دنیا ایک عالمی طاقتور فوجی ریاست سمجھتی ہے، جس کے سامنے عرب و عجم لیٹ چکے ہوں، اس کی حیثیت مکڑی کے کمزور جالے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کو عملی طور پر سید نے ثابت بھی کیا۔ کئی ایک ایسے مواقع ان کی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں، جب انہوں نے اپنے اس خیال و قول کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ بالخصوص قیدیوں کی رہائی کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے وقت تو اسرائیل کی بے بسی کا تماشا بارہا دیکھا گیا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی عجیب شخصیت تھی کہ وہ کسی حکومتی عہدے پر فائز نا تھے، مگر جب ان کا بیروت میں خطاب ہونا ہوتا تو اعلیٰ حکومتی عہدیدار، بعض ممالک کے سفیر، دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ و سیاسی شخصیات فرنٹ لائن میں تشریف فرما ہوتے۔ در حالی کہ یہ خطاب اکثر اوقات کسی خفیہ مقام سے لائیو ہوتا تھا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہو کس قدر موثر و موثق تھے۔سید حسن نصراللہ شہید جنہیں آج بھی شہید لکھتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے، عالم جوانی میں جب حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے، تب سے وہ اسرائیل و معاون ممالک و ایجنسیز کے نشانہ پر تھے۔ اللہ نے انہیں بارہا قاتلانہ حملوں اور سازشوں سے محفوظ رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ جہاد و شہادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کیلئے شہادت کا تاج سر پر سجانا ہمیشہ زندگی کا اولین مقصد و خواہش ہوتی ہے۔ اس راہ کے راہی اس کیلئے تڑپتے ہیں، دعا و مناجات کرتے ہیں۔ نا وہ گھبراتے ہیں، نا ڈرتے ہیں، نا راستہ سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ اس کے باوجود شخصیات کا چلے جانا تحریکوں، تنظیموں اور انقلابوں کیلئے کسی بھی طور سود مند نہیں ہوتا۔ بعض شخصیات اس مقام و منزلت پر فائز ہوتی ہیں کہ ان کا وجود مبارک ہی بہت سی برکات و الطاف الہیٰ کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا نورانی وجود ہر ہر لمحہ تاریک راہوں میں روشن دیئے کی مانند راستہ بھٹکنے سے بچاتا ہے۔

سید حسن نصراللہ شہید کیلئے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سب راہ استقامت، راہ القدس، راہ مقاومت کے راہی ان کے قدموں کے نشانوں پر چلتے ہوئے تاریک راستوں میں چل رہے تھے کہ ان کے وجود کو ناپید پایا ہے۔ ایک بار تو ہمیں ایسا لگا کہ منزل کھو دینگے، راستہ سے بھٹک جائیں گے، تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پائوں مارتے مارتے ہمیں قرآن مجید کی آیہ مبارکہ کانوں میں پڑتی ہے۔ فرمان الہیٰ ہے: "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ" ﴿۳۲﴾ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا، مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے، اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔" اور پھر دوسری آیہ کریمہ۔۔ "وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏"، "اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ، اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔" (سورہ آل عمران) اور یہ شعر بھی یاد آرہا ہے۔۔
قتل کرنا سہل سمجھے ہیں مرا صاحب چہ خوش
یہ نہیں سمجھے، دو عالم خوں بہا ہو جائے گا

بھلا کربلا کے اس حقیقی وارث کے جسم پر ٹنوں کے حساب سے بارود ڈالنے سے کیا ان کو دفن کرسکے ہیں، ہرگز نہیں، جس شان کے ساتھ سید کا جنازہ اٹھا، جس عظمت و سربلندی کیساتھ انہیں رخصت کیا گیا، جس محبت کیساتھ ان کی تدفین و تشیع ہوئی، بھلا وہ کسی کو نصیب ہوئی ہے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

 ہندوستانی حکام نے ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے کہ اس کی ریفائنریوں کی جانب سے روسی تیل کی درآمد میں نمایاں کمی کی وجہ سے  واشنگٹن  کی یہ ذمہ داری ہے کہ  وہ نئی دہلی کو ایران اور وینزویلا سے خام تیل خریدنے کی اجازت دے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک باخبر ذریعہ نے بلومبرگ کو بتایا کہ اس ہفتے امریکہ کا دورہ کرنے والے ہندوستانی وفد نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اس درخواست کو دہرایا۔

باخبر ذرائع کے مطابق، ہندوستانی وفد نے زور دیا ہے کہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک  روس، ایران اور وینزویلا سے ہندوستانی ریفائنریوں کو تیل کی فراہمی ایک ساتھ بند ہونے سے  تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب روسی تیل کی خریداری پر گزشتہ چند مہینوں میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور واشنگٹن کا الزام ہے کہ دہلی حکومت ، روس سے تیل خرید کرکے  یوکرین جنگ  اس کا ساتھ دے رہی ہے۔

ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔
     

12 اگست 2025 کو صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کا ایک انٹرویو آئی-24 نیٹ ورک پر نشر ہوا جس میں انھوں نے واضح طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خیال کا ذکر کیا اور اسے اپنا روحانی اور تاریخی مشن قرار دیا۔ یہ واضح بیان درحقیقت مزاحمت کے حامیوں کے اس نظریے کی تصدیق کرتا ہے کہ صیہونی حکومت زمینی اور سیکورٹی کی توسیع کے درپے ہے اور یہ توسیع محض 1948 اور 1967 کے مقبوضہ علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے جبک کئی عرب اور غیر عرب گروہ اور ممالک دو ریاستی حل اور صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے خیال کے حامی ہیں تاکہ مغربی ایشیا کے خطے میں ثبات و استحکام پیدا ہو سکے اور وہ اس بنیاد پر مزاحمت کو خطے کے لیے ایک مہنگی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ اس معاملے کی صحیح سمجھ، خطے کے حالات کے زیادہ درست تجزیے پر منتج ہو سکتی ہے۔

'گریٹر اسرائیل' کا خیال ایک مرکزی نظریے کے طور پر، اسرائیل کی زمینی توسیع پسندی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خیال، جس کی جڑیں "ارض اسرائیل" (سرزمین اسرائیل) کے تصور کی غلط مذہبی اور تاریخی تشریحوں میں پیوست ہیں، توسیع پسندی کے دائرۂ کار اور جغرافیا کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اس خیال کی ترویج کرنے والے، پیدائش، اعداد، تثنیہ اور حزقیایل جیسی کتابوں کے حوالوں کی بنیاد پر نیل سے فرات تک کے علاقوں پر دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نظریاتی تناظر، توسیع پسندانہ اقدامات کو روحانی اور تاریخی جواز فراہم کرتا ہے اور اسے ایک خالص سیاسی پروگرام سے ایک تشخصی مشن میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مغرب، یہاں تک کہ عالم اسلام کی بیشتر تحریروں میں اس بات کی کوشش کی گئي ہے کہ اس نظریے کو دائیں بازو کے انتہا پسند صیہونی دھڑوں سے جوڑا جائے جو صیہونی حکومت کے سیاسی اقتدار پر حاکم اصل دھڑے سے الگ ہیں۔ تاہم اگر بغور دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نظریہ اسرائیل کے اسٹریٹجک فیصلوں اور عملی اقدامات کا محرّک رہا ہے۔ اسی سوچ کے ذریعے عسکریت پسندی، وسیع پیمانے پر سیکورٹی اداروں کی تشکیل، مختلف طرح کے سیکورٹی بفر زونز کی تعمیر، علاقائی سیکورٹی آرڈرز کی تشکیل، صیہونی کالونیوں کی تعمیر اور مقبوضہ علاقوں پر فوجی کنٹرول جیسی پالیسیوں کو نہ صرف جائز ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کی راہ میں ضروری قدم قرار دیا جاتا ہے۔

اس نظریے کی حامل جماعتیں اور تحریکیں اسے سرکاری پالیسی میں تبدیل کر کے توسیع پسندانہ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سیاسی عزم فراہم کرتی ہیں اور اسے زمین پر ناقابل تردید آبادیاتی اور جغرافیائی حقائق کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ یقیناً یہ نقطۂ نظر زیادہ عمیق اور گہرا ہے اور گریٹر اسرائیل کے نظریے کو محض انتہا پسند اور ذیلی گروہوں سے متعلق سمجھنا ایک سطحی اور گمراہ کن تجزیہ ہے جو زمینی حقائق اور صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 27 مارچ 1992 کو رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیان میں فرمایا: "صیہونی اپنے اہداف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے 'نیل سے فرات تک' کے اپنے اعلان کردہ ہدف کو واپس نہیں لیا ہے۔ ان کا ارادہ اب بھی یہی ہے کہ وہ نیل سے فرات تک کے علاقے پر قبضہ کر لیں! البتہ، صیہونیوں کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ پہلے دھوکے اور مکر و فریب سے اپنے قدم مضبوط کریں اور جب ان کا قدم جم جائے تو دباؤ، حملے، قتل و غارت اور تشدد کے ذریعے جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھیں! جب بھی ان کا سامنا کسی سنجیدہ مقابلے سے ہوتا ہے، خواہ وہ سیاسی مقابلہ ہو یا فوجی تو وہ رک جاتے ہیں اور دوبارہ فریب اور سازش کی راہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مکر کے ذریعے ایک قدم اور آگے بڑھ سکیں! جب وہ ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں تو دوبارہ وہی دباؤ اور تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو وہ ساٹھ ستر سال سے آج تک کرتے آ رہے ہیں۔"

اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صیہونی حکومت کے اقدامات

یہ نظریہ، چاہے خفیہ اور چاہے اعلانیہ، صیہونزم کی اسٹریٹیجی پر حاکم ایک بڑے نظریے میں تبدیل ہو چکا ہے جو اس حکومت کے اصل سیاسی اور عسکری دھڑوں کے اقدامات کا تعین کرتا ہے۔ مندرجہ ذیل باتوں کو اس کے مصادیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

  1. سرکاری عہدے داروں کے بیانات: نیتن یاہو کے علاوہ دیگر سرکاری عہدے داروں نے بھی گریٹر اسرائیل کے بارے میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں سب سے اہم بن گورین کا بیان ہے۔ اس حکومت کے بانی اور پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین کا، اپنے بیٹے آموس کو 5 اکتوبر 1937ء کو پیئل کانفرنس کے بعد لکھا گیا خط سب سے واضح دستاویزات میں سے ایک ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کا خیال ایک ذیلی آرزو نہیں تھی بلکہ شروع ہی سے صیہونی منصوبے کے اصل معماروں کے ذہنوں میں موجود ایک منصوبہ تھا جس نے ان کے روڈ میپ کو طے کر دیا تھا۔ بن گورین نے اس خط میں لکھا تھا: "(پیئل کمیشن کی تجویز کے مطابق) ایک جزوی یہودی ریاست، ہماری منزل نہیں ہے، بلکہ اس راہ کا محض آغاز ہے ... ہم اپنی طاقت بڑھائیں گے اور طاقت میں کسی بھی طرح کا اضافہ، پوری سرزمین کو اپنی ملکیت میں لینے میں ہماری مدد کرے گا ... ہم (سرحدوں کی) تقسیم کا خاتمہ اور پورے فلسطین میں اپنا پھیلاؤ بند نہیں کریں گے۔"

ایہود اولمرٹ نے بھی 29 مارچ 2006 کو الیکشن کے بعد کھل کر کہا تھا: "ہزاروں سال سے ہم گریٹر اسرائیل کے خواب کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ سرزمین ہمیشہ کے لیے، اپنی تاریخی سرحدوں کے ساتھ ہماری روح کے ساتھ جڑی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اپنے دلوں کو ان جگہوں سے جدا نہیں کریں گے جو ہماری ثقافت کا گہوارہ ہیں اور جہاں سے ایک قوم کے طور پر ہماری سب سے قیمتی یادیں وابستہ ہیں۔"

ان بیانوں سے پتہ چلتا کہ صیہونی حکومت کے سرغنہ، چاہے ان کی سیاسی اور مذہبی سوچ جیسی بھی ہو، آخر کار گریٹر اسرائیل کے خیال کو خطے پر تسلط کے لیے یہودیوں کے بڑے نظریے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور گریٹر اسرائیل کا دعویٰ صیہونیوں کے درمیان کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے۔

  1. فلسطینی علاقوں کو صیہونی حکومت میں ضم کرنے کے منصوبے: غرب اردن اور جولان کی پہاڑیوں کو 55 سال سے زیادہ عرصے سے غاصبانہ فوجی قبضے میں باقی رکھنا اور انھیں سرکاری طور پر باقاعدہ ضم کرنے کی کوششیں اس بات کی گواہ ہیں۔ یہ غاصبانہ قبضہ صرف ایک عارضی سیکورٹی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زمین، وسائل (خاص طور پر پانی) اور لوگوں پر کنٹرول کا ایک انٹگریٹیڈ سسٹم ہے جو صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ منصوبے کو نافذ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیبر پارٹی کے ایک اہم وزیر، یگال آلون نے 1967 کی جنگ کے فوراً بعد غرب اردن کو اسرائيل میں شامل کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت وادئ اردن کو "اسرائیل کی سلامتی کی سرحد" کے طور پر مستقل طور پر اسرائیل کی سرزمین میں شامل کیا جانا تھا۔ اسٹریٹیجک زاویے سے یہ وادی، مشرق اور بین النہرین (موجودہ عراق) کی طرف پہلا قدم سمجھی جاتی تھی۔
  2. عسکری اور سیکورٹی اقدامات: علاقائی توسیع والے فوجی اور سیکورٹی اقدامات، جیسے 1956 اور 1967 کی جنگوں میں صحرائے سینا پر غاصبانہ قبضے کے لیے سیکورٹی اقدامات اور شام میں "ڈیوڈ کوریڈور" بنانے کے لیے فوجی کارروائیاں، 'نیل سے فرات تک' کے ہدف کو عملی شکل دینے کے سب سے واضح اقدامات سمجھے جا سکتے ہیں۔
  3. صیہونی کالونیوں کی تعمیر: صیہونی حکومت میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کو تمام پارٹیوں سے بالاتر ایک قومی منصوبے کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ دائیں بازو کی جماعتیں ان کالونیوں کی سب سے زیادہ تشہیر کرتی ہیں لیکن غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر "بائیں بازو" یا لیبر پارٹی جیسی نام نہاد "اعتدال پسند" جماعتوں کے برسر اقتدار ہونے کے زمانے میں بھی وسیع پیمانے پر جاری رہی ہیں۔ مثال کے طور پر 1967 کی جنگ کے بعد صیہونی کالونیوں کی تعمیر کی سب سے بڑی لہر لیبر پارٹی کی لوئی اشکول حکومت کے دور میں شروع ہوئی۔ اسحاق رابین، جو بظاہر امن پسند شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، خود کئی صیہونی کالونیوں کے بانیوں میں سے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی کالونیوں کی تعمیر، جغرافیائی اور آبادیاتی حقائق کو بدلنے اور "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کو تدریجی طور پر آگے بڑھانے کا ایک اسٹریٹیجک ذریعہ ہے، چاہے حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو۔

گریٹر اسرائيل کے نظریے کے ممکنہ نتائج

اگر "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کا سنجیدگی سے مقابلہ نہ کیا گیا اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت نہ کی گئی تو یہ علاقائی اور اسلامی اور عرب ممالک میں داخلی سطح پر بحرانوں اور چیلنجوں کا باعث بن سکتا ہے جن میں سب سے اہم یہ ہیں:

  1. خطے کے حقائق پر مبنی علاقائی سسٹمز کی تباہی: اس نظریے کے عملی جامہ پہننے کا مطلب موجودہ سرحدوں اور متعدد ممالک کی قومی خودمختاری پر اثرانداز ہونا ہے جن میں فلسطین، اردن، شام، لبنان اور مصر اور سعودی عرب کے کچھ حصے شامل ہیں۔ یہ صورتحال خطے کو عدم تحفظ کے ایک مستقل گرداب میں دھکیل دے گی اور ایران اور ترکی جیسے اطراف کے علاقے وسیع پیمانے پر غیر ملکی مداخلت میں گھر جائیں گے۔ اس منصوبے کا نفاذ خطے کے تمام ممالک اور یہاں تک کہ عالمی طاقتوں کی بلاواسطہ یا بالواسطہ شرکت کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے آغاز کے مترادف ہوگا۔
  2. عدم استحکام میں اضافہ: 'گریٹر اسرائيل' کے نظریے کے عملی جامہ پہننے کا کم ترین اثر اطراف کے ممالک کی خودمختاری کی کمزوری کی شکل میں سامنے آئے گا۔ قومی حکومتوں کا خاتمہ اور ان کی جگہ صیہونیوں کے پٹھو افراد کا آنا اقتدار میں شدید خلا پیدا کرے گا۔ اس کے نتیجے میں داخلی جھڑپیں، بغاوتیں اور نسلی و مذہبی جنگیں ہوں گی جن کا محور ملک کے اندر اور ملک کے باہر کی قوتوں کے نیٹ ورک ہوں گے۔
  3. انسانی المیہ: اس منصوبے کے عملی جامہ پہننے کے لیے نسلی تصفیے، جبری جلا وطنی اور نسل کشی کی ضرورت ہوگی جو، اس وقت جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگی۔ یہ چیز دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دے گی۔ اس سے پناہ گزینوں اور آوارہ وطنوں کا ایک عظیم سیلاب آ جائے گا جو نہ صرف خطے بلکہ یورپ اور پوری دنیا کو ایک عدیم المثال بحران سے دوچار کر دے گا۔
  4. ثقافتی ورثے کی تباہی: گریٹر اسرائيل کا منصوبہ خطے کے سب سے مالامال ثقافتی ورثے اور قدیم تمدنوں کے خاتمے کا باعث بنے گا اور قوموں کی تاریخی شناخت مٹا دے گا۔ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر کی گئی تحریفوں کو پیش کیا جا سکتا۔

کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ نظریہ، جس کی صیہونی حکام نے واشگاف لفظوں میں تایید کی ہے، علاقائی سسٹمز کی تباہی، انسانی المیے اور ثقافتی ورثے کی نابودی پر منتج ہو سکتا ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ بنابریں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔

 

تحریر: حسین آجر لو، بین الاقوامی روابط کے محقق