سلیمانی

سلیمانی

ایوان صدر کے شعبہ ٹیکنالوجی کے سربراہ حسین شہرابی نے نجی شعبے کی کامیابیوں اور صلاحیتوں کی نمائش میں رہبر انقلاب کے دورہ کے موقع پر "کوثر" نامی سیٹلائٹ کے جدید ورژن لانچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سیٹلائٹ  اگلے ایرانی سال کی پہلی ششماہی میں خلا میں بھیجا جائے گا۔

کوثر 1.5 سیٹلائٹ جو کہ ملکی ماہرین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، دراصل دو سیٹلائٹس کوثر اور ھدھد کا اپ گریڈ ورژن ہے، جو  گزشتہ 5 نومبر کو لانچ کیے گئے تھے۔ یہ دونوں سیٹلائٹس اپنے ریموٹ سینسنگ اور انٹرنیٹ آف تھنگز کے ساتھ زراعت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

حسن شہرابی نے مزید کہا کہ ان سیٹلائٹس کے نہ صرف ٪85 سے زیادہ اجزاء مقامی ہیں بلکہ ان سیٹلائٹس کا پورا ڈیزائن بھی مقامی ماہرین نے تیار کیا ہے  اور یہ منصوبہ مکمل طور پر مقامی سمجھا جاتا ہے۔

گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال کے دوران سامنے آنے والے حالات نے بہت سارے حقائق منظرعام پر لائے ہیں۔ اس دوران اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ایسے ایسے انسان سوز جرائم انجام دیے جن کی مثال یا تو انسانی تاریخ میں نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو وہ ہلاکو خان، چنگیز خان اور ہٹلر جیسے بھیڑیا صفت انسانوں کے اقدامات میں ملتی ہے۔ ان واقعات نے ثابت کر دیا کہ اکیسویں صدی کی تہذیب یافتہ دنیا میں بھی وحشیانہ پن، بربریت اور درندگی پائی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، صیہونی حکمرانوں نے غزہ میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس میں جو کچھ کیا ہے وہ اکیسویں صدی میں تہذیب و تمدن کے برخلاف اقدامات قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح ان واقعات نے اقوام متحدہ کی عدم افادیت کو بھی ثابت کر دیا ہے۔
 
یاد رہے اقوام متحدہ ایسا بین الاقوامی ادارہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور تباہ کن جنگوں کی روک تھام کے لیے تشکیل پایا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذمہ داران غزہ جنگ کے دوران انجام پانے والی نسل کشی اور بربریت کے خلاف نہ صرف مناسب اقدامات انجام دینے میں ناکام رہے بلکہ انہوں نے ان انسان سوز جرائم پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مناسب ردعمل اور تادیبی کاروائیاں بھی انجام نہیں دیں اور یہ سہل انگاری خود کو دنیا میں جمہوریت کے محافظ قرار دینے والے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے دباو پر انجام پائی ہے۔ لیکن اب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔
 
غزہ کے شجاع عوام اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے مجاہدین نے خالی ہاتھ اور شدید ترین دباو کے باوجود غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور یہ ہمارے زمانے میں تلوار پر خون کی فتح کا بہترین مصداق ہے۔ غزہ کے واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ کس طرح ایک شجاع قوم اپنی استقامت اور مزاحمت کے ذریعے جابر ترین طاقتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ غزہ میں ایک بے دفاع اور نہتی قوم نے صرف اور صرف محدود اسلامی ممالک جیسے ایران، یمن، لبنان، عراق اور ایک حد تک شام کی مدد کے ذریعے عالمی استکباری طاقتوں سے مقابلے کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لہذا گذشتہ ڈیڑھ سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں درج ذیل چند نکات قابل غور ہیں:
 
1)۔ بنجمن نیتن یاہو، جس نے حماس کو نابود کرنے کا دعوی کیا تھا عملی طور پر خود حماس سے ہی دوبارہ جنگ بندی معاہدہ انجام دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس زندہ ہے اور نیتن یاہو اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پایا۔
2)۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس یہ ظاہر کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ ایک مزاحمتی گروہ ہونے کے ناطے امریکہ سمیت اسرائیل کی حامی عالمی طاقتوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ان مغربی طاقتوں کی تحقیر ہے جو خود کو دنیا کی سپر پاورز کے طور پر متعارف کرواتی پھرتی ہیں۔
3)۔ دنیا بھر کے انسان اور عالمی رائے عامہ غزہ جنگ کے دوران بہت اچھی طرح امریکی حکمرانوں اور ان کے دیگر اتحادی ممالک کے دوغلے معیاروں کو پہچان چکے ہیں۔
 
4)۔ اس وقت ایک عالمی ادارہ ہونے کے ناطے اقوام متحدہ اس اہم سوال سے روبرو ہے کہ کیا وہ اپنی ان ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کامیاب رہی ہے جو اقوام متحدہ کے منشور میں بیان ہوئی ہیں یا اس میں ناکام رہی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ عملی طور پر فلسطینی قوم کے خلاف انجام پانے والے بہیمانہ جرائم جیسے نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، قتل عام اور انہیں جبری طور پر جلاوطن کر دینا وغیرہ کی روک تھام میں بری طرح ناکامی کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی رہنما اور ممالک جو ہر عالمی مسئلے میں اقوام متحدہ کے ذریعے اقدامات انجام دینے پر زور دیتے ہیں اس وقت موجودہ حالات کے جوابدہ ہیں اور انہیں ان تمام نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے۔
 
5)۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو مختلف پہلووں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر قانونی میدان میں وہ بہت کمزور ہو گیا ہے اور گوشہ نشین کا شکار ہو چکا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سمیت کچھ صیہونی حکمرانوں پر عالمی عدالت انصاف کی جانب سے غزہ میں نسل کشی جیسے جنگی جرم کا ثابت ہو جانا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہو اور یوآو گالانت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانا اس کی واضح دلیل ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی غاصب صیہونی رژیم بحرانی ترین حالات کا شکار ہے۔ عالمی رائے عامہ میں اسرائیل آئندہ طویل عرصے تک ایک نسل پرست، جنگ طلب اور جرائم پیشہ رژیم کے طور پر جانا جائے گا۔ مذکورہ بالا تمام اسباب اسرائیل کی جعلی رژیم کی نابودی اور خاتمے میں تیزی کا باعث بنیں گے۔
 
 
 تحریر: ڈاکٹر عباس مقتدائی
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف، جنرل "محمد باقری" نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان عسکری و سیکورٹی عمل میں تعاون کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ دونوں ممالک اکثر مسائل میں مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی علاقائی و عالمی سطح پر مزید مستحکم ہو گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار آج شام اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ جنرل محمد باقری نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال خطے میں بہت اہم مسائل کا مشاہدہ کیا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان و ایران کو عالم اسلام کے دو اہم ممالک کی حیثیت سے جنوبی اور مغربی ایشیاء میں نازک صورت حال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران و اسلام آباد کے درمیان نہایت وسیع تعلقات ہیں۔ اکثر مسائل پر ہمارا نکتہ نظر ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے۔ نیز اس سفر کے دوران بھی علاقائی مسائل پر ہم خیالی ہمارا ہدف ہے تا کہ ہم عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔

جنرل محمد باقری نے کہا کہ خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم نے آپس میں اچھے معاہدے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں ممالک ہر وقت سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں تاکہ سرحدوں پر ایک دوسرے کے تعاون سے دونوں ممالک کی عوام کے اقتصادی مفاد کو وسعت دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے اس دورے کے اہم ترین موضوعات میں بارڈرز، دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں اور مسلح افواج کے درمیان تعلقات میں وسعت شامل ہے۔ واضح رہے کہ آرمی چیف کی باضابطہ دعوت پر جنرل محمد باقری ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد کے ہمراہ اپنے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ جہاں وہ بری و فضائی افواج کے سربراہان، صدر، وزیراعظم اور وزیر دفاع سے جدا جدا ملاقات کریں گے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جنرل محمد باقری کا اپنی تعیناتی کے دوران یہ تیسرا دورہ پاکستان ہے۔
 
 
 

علم کلام میں عقاید کے بارے میں بحث ہوتی ہے اس طرح علم کلام وہ علم ہے جس میں اسلامی عقائد سے بحث کی جاتی ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس پر اعتقاد رکھنا اور ایمان لانا ضروری ہے۔ اس میں وہ نظریات سکھائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر دینی عقائد کو ثابت کیا جاتا ہے یا یہ وہ علم ہے جس میں اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ممکن احوال کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔اس طرح کہ علم کلام میں اللہ کی صفات کمالیہ اور صفات جمالیہ پر بحث کی جاتی ہے۔اس علم میں سب سے پہلے بہت ہی دقیق اور حکمت والی دلیلوں سے اللہ کے وجود کی معرفت کے ضروری ہونے کو ثابت کیا جاتا ہے اور پھر اللہ کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔

اس علم کے اہم مباحث میں سے یہ ہے کہ ان دلیلوں کو بیان کیا جائے جو خالق کے وجود کو ثابت کریں کہ وہ اس کائنات کے بنانے والا ہے۔ایسا خاص ادلہ کے ساتھ ممکن ہے جو بہترین انداز میں پیش کی گئی ہوں ہم یہاں پر چند کو ذکر کریں گے۔

پہلی دلیل:انسان کی فطرت سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے:

انسان کی فطرت سلیمہ جس پر وہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کا تقاضا کرتی ہے اور فطرت وہ عقل ہے جو خواہشات سے داغدار نہ ہو،اسی طرح اس یہ سب سے پہلے انسان کو اپنے وجود کے سبب پر غور کا کہتی ہے اور پھر خالق پر وجود پر غور کا حکم دیتی ہے۔کچھ ایسے امور ہیں جن کی طرف ہر صاحب عقل کی سوچ جاتی ہے اور کوئی صاحب عقل ان کا انکار نہیں کر سکتا بالخصوص وہ سوالات انسانی نفس میں موجود ہوں تو وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان سوالات پر غور و فکر کیا جائے اور تحقیق کر کے ان کو حل کیا جائے۔

ان سوالات پر غور و فکر کر کے ان کے جوابات کو تلاش کرنا ہی در اصل خالق،مخلوق اور زندگی کی معرفت حاصل کرنا ہے۔

دوسری دلیل: یقینی اور محتمل نقصان سے بچنا:

عقل کسی بھی نقصان سے بچنے کا حکم دیتی ہے اگرچہ اس کا فقط احتمال ہی کیوں نا ہو۔اگر وہ نقصان ایسا ہو جس کے بارے میں مصلحین کی بڑی تعداد،فلاسفہ اور اہل عقل فضلاء کی بڑی تعداد نے بھی کہا ہو تو عقل اس سے بچنے کا کہتی ہے۔اسی طرح ایک بڑی حقیقت کے طور پر سامنے ہو جیسے اللہ تعالی کا وجود جو اس کائنات کا خالق ہےاس کو ماننے اور نہ ماننے کے  اثرات بہت زیادہ ہوں۔ لوگوں کو اس خالق پر ایمان لانے کی دعوت دینا،اس کی اطاعت کرنا،اس کے احکامات کو ماننا اور اس کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔اسی طرح کچھ اثرات اور بھی ہیں جیسے یہ عقیدہ کہ اگر خالق نہیں ہے تو انسان کی زندگی مرنے ختم ہو جائے گی مگر یہ زندگی کا اختتام نہیں ہے اللہ کے ہاں ایک اور زندگی ہے اور اس زندگی کی مثال ایک پل جیسی ہے جس کے ذریعے سے انسان ایک اور ابدی زندگی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے انسان جس عالم میں منتقل ہوتا ہے وہ عالم آخرت ہے۔اس آخرت کی زندگی کا دارو مدار اس دنیا کی زندگی میں کیے گئے اعمال پر ہے۔

یہ واضح ہے کہ ان امور کے بارے میں سب سے پہلے انسان کی فطری عقل  بحث کرتی ہے یہ انسان کے لیے غور و فکر اور تدبر کا مقام بھی ہے جب انسان کے سامنے کچھ سوالات جیسے خود انسان کی تخلیق کا سوال وغیرہ آتا ہے تو عقل سوچتی اور غور و فکر کرتی ہے۔

انسان کی عقل ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرتی جن میں نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہو۔اس خوف کا احتمال حقائق میں غور و فکر کا نتیجہ ہے،ضرر کا خوف ہی اس باعث بنا ہے کہ انسان غور و فکر کرے اور سوچے جبکہ یہ  نقصان کا اندیشہ تواتر کے ساتھ ایسے لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو صاحبان عقل و دین ہیں اگرچہ اس نقصان کا احتمال ضعیف ہی کیوں نہ ہوتا اہل عقل کو اس سے بچنا چاہیے تھا۔

عقل کا کام ہے وہ کبھی بھی ان مقامات کو ایسے ہی نہیں چھوڑتی جہاں سے اسے نقصان کا اندیشہ ہو وہ غور و فکر کرتی ہے اوربڑی دقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔عقل جانچ پڑتال کر کے اس کے درست و غلط ہونے کو پرکھتی ہے اس وقت تک سعی کو جاری رکھتی ہے جب تک اسے دلیل میسر نہ آجائے اور صحیح غلط کا پتہ نہ چل جائے۔عقل و منطق کا یہ تقاضا ہے کہ انسان احتمال کی تحقیق کرے یہ احتمال کس کی طرف سے آیا ہے اسے نظرانداز نہ کرے خود احتمال کی تحقیق کرے مثلا ایک بچہ بھی کہے تو بھی غور کرے۔جب بچوں کی بات کو عقل نظر انداز نہیں کرتی جن کا زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا تو انبیاء، مرسلین ،حکماء، مصلحین،فلاسفہ اور اہل عقل و منطق کی بات کو عقل کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟اگر ان سب کی آواز پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا تو عقل سے انحراف ہے اور اپنی تقدیر کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔

تیسری دلیل:نعمت دینے والے کا شکریہ ضروری ہے:

ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خالق اور اپنے بنانے والے کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں۔ یہ ایک اخلاقی اور ادبی مسئلہ ہے یہ عقیدتی مسئلہ بعد میں بنتا ہے۔خالق نے انسان کو اتنی نعمتیں دی ہیں کہ وہ ان کو شمار نہیں کر سکتا اور ہر طرف سے نعمتوں میں گھرا ہوا ہے۔اس کی نعمتوں کا سلسلہ انسان کی زندگی سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔کسی بھی ضمیر کا مالک انسان ہو وہ ان نعمتوں کا انکار نہیں کر سکتا۔ہر صاحب عقل کی سوچ و فکر یہ کہتی ہے کہ ایسی ڈھیروں نعمتیں دینے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جب تک ہم اس نعمتیں عطا کرنے والے کو پہچان نہیں لیں گے اس وقت تک ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔اس طرح ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ان نعمتوں کے خالق کی معرفت حاصل کریں جو اللہ تعالی ہے اور ہر خیر کی بنیاد وہی ہے۔وہی علم و مرتبہ کی بنیاد ہے اور سب سے پہلا علم خالق کی معرفت ہی ہے اور پھر یہ جانا جائے کہ اس خالق کے احکامات کیا ہیں؟ وہ کن چیزوں کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟اس کو وظائف اور تکالیف شرعیہ کا نام دیا جاتاہے ان میں سے کچھ ایسے اخلاقی احکام ہیں جن کا تعلق اجتماعی حقوق سے ہے جیسے یہ جاننا کہ وہ کونسے حقوق ہیں جو ہم نے ادا کرنے ہیں اور کون سے حقوق و واجبات ہیں۔نبی انسانیت حضرت محمد ﷺ سے مروی ہےایک اعرابی کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاجس نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا مجھے غرائب علم کی تعلیم دیں؟ کیا تم نے اصل علم کو حاصل کر لیا ہے کہ تم غرائب علم کا سوال کر رہے ہو؟ اعرابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اصل علم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی اس طرح معرفت حاصل کرنا جیسا اس کی معرفت حاصل کرنے کا حق ہے۔اعرابی نے پوچھا اللہ کی ایسی معرفت جس میں حق معرفت ادا ہو جائے وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اس کو کسی مخلوق جیسا یا  مخلوق کی شبیہ جیسا نہ جاننا اور اسے واحد و یکتا قرار دینا،وہ ظاہر و باطن ہے ،وہ اول آخر ہے ،اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،اس کی نظیر کوئی نہیں اور یہ اللہ کا حق معرفت ہے۔

 پاسداران انقلاب فوج کی  بحریہ کے بحری جہازوں کے ایک زمین دوز مرکز کی رونمائی آئی آر جی سی کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی کی موجودگی میں کی گئی۔

اس تقریب میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل سلامی نے ایک  خطاب  میں کہا: "آج ہم نے پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے معزز کمانڈر کے ساتھ جس کمپلیکس کا معائنہ کیا، وہ ان بہت سے کمپلیکسز میں سے ایک ہے جہاں پاسداران انقلاب اسلامی کے جنگی بحری جہاز اور میزائل لانچ کرنے والے  اور بارودی سرنگ بچھانے والے بحری جہاز رکھے جاتے ہيں۔

میجر جنرل سلامی نے مزید کہا: "اگرچہ یہ کمپلیکس جس کا آج عزیز ایرانی قوم مشاہدہ کر رہی ہے ایک شاندار کمپلیکس ہے، لیکن یہ آئی آر جی سی کی بحریہ کی پوری دفاعی طاقت کے سامنے ایک چھوٹا سا  نمونہ ہے۔"

 انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کی جنگی اور دفاعی صلاحیت میں روز بروز اضافے  کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: "ان بحری جہازوں کی جنگی صلاحیت اور ان پر نصب میزائل سسٹم ان متعدد جنگی جہازوں کے علاوہ ہیں جو اس وقت خلیج فارس میں ہمارے وطن کی آبی سرحدوں   کے تحفظ کے لیے گشت کر رہے ہیں

جنرل سلامی نے کہا : "خدا کے فضل سے،پاسداران انقلاب اسلامی کی  بحریہ میں گزشتہ اور موجودہ برسوں میں، اس فورس کے ساز و سامان اور ہتھیاروں  کی مقدار اور معیار دونوں میں ہی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔"

میجر جنرل حسین سلامی نے اپنی بات  جاری رکھتے ہوئے کہا: "خدا کے فضل سے، کشتی رانی کی رینج، جہازوں کی رفتار، ان جہازوں پر نصب میزائلوں کی رینج، ان کا نشانہ ، اور ان کی تباہ کن طاقت ، ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت ہوئي ہے۔"

جنرل سلامی نے کہا ہے ہم اپنے عزم و ٹھوس ارادے کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی کے ایک حکم پر، ایرانی قوم کی عظمت کے دفاع اور مختلف دفاعی شعبے میں نئي تاریخ رقم کرنے کے لئے تیار ہيں۔

ایکنا نیوز، عربی ۲۱ نیوز کے مطابق عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی نے لاس اینجلس میں آتش‌سوزیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خدا کی قدرت کا مظہر ہے، جو ظالموں اور متکبروں کو ان کے غرور کے سبب سزا دیتا ہے۔

مفتی الخلیلی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کو جهنم میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی، لیکن اس کے بعد خود ان کے ملک کے مختلف حصوں میں آگ بھڑک اٹھی، اور یہ آگ سردی کے موسم میں لگی، جہاں جدید ترین حفاظتی نظام بھی موجود تھے۔

الخلیلی نے حضرت علی علیہ السلام کے خطبہ مالک اشتر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: إِيَّاکَ وَ مُسَامَاةَ اللهِ فِي عَظَمَتِهِ، وَالتَّشَبُّهَ بِهِ فِي جَبَرُوتِهِ، فَإِنَّ اللهَ يُذِلُّ کُلَّ جَبَّار وَ يُهِينُ کُلَّ مُخْتَال (خبردار! خود کو عظمت میں خدا کے برابر کرنے اور جبروت میں اس سے مشابہت اختیار کرنے سے بچو، کیونکہ خدا ہر جابر کو ذلیل اور ہر متکبر کو رسوا کرتا ہے)۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز سے قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی قیدی رہا نہ ہوئے تو مشرق وسطیٰ کو جہنم میں بدل دیا جائے گا۔

لاس اینجلس میں آتش‌سوزی نے چند دنوں میں خشک موسم اور 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہوا کے باعث ہزاروں ہیکٹر اراضی کو خاکستر کر دیا۔ ان آگوں نے شہری علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیل گئی۔/

فلسطین کس کا ہے!؟

فلسطین کس کا ہے؟ فلسطینی عوام کون ہیں؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ ملت فلسطین کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حق ہے۔ کوئی بھی عدالت، کوئی بھی مرکز، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔

 

فلسطین کی مدد، سب کی اولین ذمہ داری!

جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے ملت لبنان اور حزب اللہ لبنان پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غزہ کی اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کر رہی ہے۔ یہ ان کا فریضہ تھا، انہیں یہ کرنا ہی تھا۔

 

فلسطین کا دفاع اور انکی مدد، قانونی فریضہ!

یہ تو اسلامی حکم بھی ہے، عقل کا تقاضہ بھی ہے اور بین الاقوامی اور عالمی منطق بھی ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین کے لئے لڑ رہے ہیں، ان کا دفاع قانونی ہے، ان کی مدد قانونی ہے۔

 

 

آیت اللہ العظمی خامنہ ای ، عہد بصیرت

 رہبر معظم انقلاب کے بیانات کے وہ اقتباسات جو غزہ کے عوام کی حتمی فتح سے متعلق ہیں، پیش کیے جا رہے ہیں۔

"غزہ کا معاملہ ایک طرف مظلومیت کا معاملہ ہے، تو دوسری طرف طاقت کا معاملہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ یہ لوگ ہتھیار ڈال دیں، سر تسلیم خم کر دیں، لیکن انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے، سر تسلیم خم نہیں کیا... یہی صبر اور توکل انہیں کامیابی تک پہنچائے گا؛ یہی چیز انہیں فتح دلائے گی اور بالآخر وہ میدان کے فاتح ہوں گے۔" (۱۴۰۲/۸/۳)

 

"غزہ کے معاملے میں طوفان الاقصی کے واقعات کے بارے میں پیش گوئیاں بتدریج پوری ہو رہی ہیں۔ شروع سے ہی دنیا کے دوراندیشوں کی پیش گوئی، خواہ یہاں ہو یا کہیں اور، یہی تھی کہ اس معاملے میں فلسطینی مزاحمت فتح یاب ہوگی، اور وہ جو شکست کھائے گا وہ ملعون صہیونی حکومت ہوگی۔" (۱۴۰۲/۱۰/۱۹)

 

"ان شاء اللہ خداوند متعال یہ فتح تمام امت اسلامی کو مستقبل قریب میں دکھائے گا اور دلوں کو خوش کرے گا، اور فلسطینی قوم اور مظلوم اہل غزہ کو بھی ان سب کے سر فہرست ان شاء اللہ خوش و خرم کرے گا۔" (۱۴۰۲/۱۱/۰۳)

 

"«اِنَّ وَعدَ اللَهِ حَق»؛ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔وَ لا یَستَخِفَّنَّکَ الَّذینَ لا یوقِنون‌، اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے، وہ اپنی منفی باتوں سے تمہیں متزلزل اور کمزور نہیں کر سکتے۔ اور ان شاء اللہ حتمی فتح، جو کہ زیادہ دور نہیں، فلسطین اور فلسطینی عوام کی ہوگی۔" (۱۴۰۲/۰۸/۱۰)

غزہ پر صہیونی حکومت کی جانب سے 15 مہینے مسلسل ظالمانہ حملوں اور جارحیت کے باوجود صہیونی حکومت اپنے اہداف میں بری طرح ناکام ہوگئی اور بالاخر حماس کی شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی پر راضی ہوگئی۔

قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کیا اور کہا کہ صہیونی حکومت نے جنگ بندی کے معاہدے سے اتفاق کیا ہے۔

اس سے پہلے صہیونی حکومت حماس کی مکمل نابودی کے اعلان کے ساتھ جنگ بندی سے انکار کررہی تھی تاہم فلسطینی مقاومتی تنظیم نے حالیہ مہینوں کے دوران مزید افرادی قوت حاصل کرلی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی حکومت جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوگئی۔

حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو فلسطین پر سات دہائیوں سے جاری صہیونی قبضے کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے طوفان الاقصی آپریشن کیا تھا اور سینکڑوں صہیونیوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو یرغمال بنایا تھا۔

طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت نے غزہ پر پوری قوت کے ساتھ حملہ کردیا تھا۔ نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ حماس کی مکمل نابودی تک غزہ پر حملے جاری رہیں گے۔ حماس کی نابودی اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کے بعد صہیونی حکومت جنگ بندی پر مجبور ہوگئی ہے۔