سلیمانی

سلیمانی

آیات و روایات میں توبہ کے ارکان کیا ہیں ؟

مختصر جواب:

حقیقت توبہ یہ ہے کہ انسان نافرمانی سے ایسی اطاعت کی طرف پلٹ آتا ہے جو گزشتہ اعمال پر پشیمانی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اس پشیمانی اور علم کا لازمہ یہ ہے کہ گناہ اس کے اور اس کے حقیقی محبوب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ، مستقبل میں گناہوں کو ترک کرنے کا ارادہ اور اس کی تلافی ان سب کو ختم کردیتی ہے ، اسی دلیل کی بناء پر قرآن مجید نے بہت سی آیات میں ان معنی کی تکرار کی ہے اور ان میں توبہ کو اصلاح اور تلافی کے ساتھ قرار دیا ہے ۔

یعنی جہاں تک اس میں طاقت ہے وہ اپنے اندر اور باہر سے گزشتہ گناہوں کے برے آثار کو ختم کردیتا ہے اور اگر کسی کے حقوق کو پائمال کیا ہے اور ان کی تلافی ہوسکتی ہے تو تلافی کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں یہ معنی بارہا بیان ہوئے ہیں جن میں اصلاح کو تلافی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔

١۔  سورہ بقرہ کی ١٦٠ویں آیت میں الہی آیات کو چھپانے اور ان کی سخت سزا کی طرف اشارہ کرنے کے بعدفرمایا ہے : '' اِلاَّ الَّذینَ تابُوا وَ اَصْلَحُوا وَ بَیَّنُوا فَاُولیِکَ اَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَ اَنَا التَّوّابُ الرَّحیمُ '' ۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ چھپایا ہے اس کو ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ کو قبول کرلوں گا ۔

٢۔  سورہ آل عمران کی ٨٩ ویں آیت میں ارتداد (ایمان کے بعد کافر ہونے )کے مسئلہ اور اس کی سخت سزا کو بیان کرنے کے بعد فرمایاہے : '' اِلاَّ الَّذِینَ تابُوا مِنْ بَعْدِ ذلِکَ وَ اَصْلَحُوا فَاِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَحیمٌ'' ۔ علاوہ ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کرلی کہ خدا غفور اور رحیم ہے ۔

٣۔  سورہ نساء کی ١٤٦ ویں آیت می

مفصل جواب:

حقیقت توبہ یہ ہے کہ انسان نافرمانی سے ایسی اطاعت کی طرف پلٹ آتا ہے جو گزشتہ اعمال پر پشیمانی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اس پشیمانی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان مستقبل میں گناہوں کو ترک کرنے اور گزشتہ کی تلافی کا ارادہ کرلیتا ہے ۔ خداوندعالم سورہ بقرہ کی ١٦٠ویں آیت میں فرماتا ہے : جو لوگ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کریں اور جو چھپا رکھا تھا اس کو ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ کو قبول کرلوں گا اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہوں۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں : توبہ کرنے والے انسان کی چار علامتیں ہیں : ١۔ (آئین اور بندگان) خدا کی خیرخواہی کے لئے ، ٢ ۔ ترک باطل، ٣۔ ملازمت حق اور ٤ ۔ کار خیر کرنے کیلئے بہت زیادہ کوشش کرنا ۔

مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کا دفتر

ایران انقلاب اسلامی کی 46ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ آج ایران کہاں کھڑا ہے، اقتصادی پابندیوں، امریکی سازشوں، دشمن کی مکاریوں، جنگیں مسلط کرنے سے لیکر اردگرد آگ کے الاؤ روشن کرنے کے باوجود دشمن انقلاب کی ترقی کی روک سکا ہے، نہ انقلاب کو کمزور کرسکا ہے، بلکہ انقلاب آئے روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور آج انقلاب اسلامی اپنی چھیالیسویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ایران کی اس ترقی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مغرب اور ایران مخالف ممالک کا میڈیا بھی مجبور ہوگیا ہے کہ ایران کی ترقی کے پہلووں کو نمایاں کرے۔ انقلاب روشنی ہے اور روشنی کو چھپایا نہیں جا سکتا ہے۔ انقلاب خوشبو ہے اور خوشبو چھپ نہیں سکتی۔

مختلف مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران کی کامیابیاں بیان کی ہیں۔ ذیل میں قارئین کیلئے ایران کی ترقی کے وہ چند پہلو پیش کئے جا رہے ہیں، جس کا اعتراف دشمنوں نے کیا ہے، جبکہ ایران اس سے بھی کئی درجے آگے ہے اور ایک مضبوط قوت کے طور پر مشرق وسطیٰ میں کھڑا ہے۔ برطانیہ کی بین الاقوامی خبر ایجنسی ’’ایران انٹرنیشنل‘‘ کے مطابق ایران دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے۔ ایران دنیا کی چار طاقتور ترین بحری افواج میں شامل ہے۔ ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے، جو سمندری جہاز تیار کرتا ہے اور دنیا کا طاقتور ترین سنگل شاٹ رائفل "باهر" تیار کرنیوالا ملک ہے۔ ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے، جو جنگی جیٹ طیارے (کوثر) تیار کرتا ہے۔ ایران امریکہ کے بعد ہائی ایلٹیٹیوڈ سولر اسٹریٹجک ہوائی جہاز بنانیوالا دوسرا ملک ہے۔ ایران خلا میں جاندار بھیجنے والا چھٹا ملک ہے۔

ایران دنیا کے جدید ترین جاسوسی ڈرون کو نشانہ بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ میں طب کا مرکز ہے۔ ایران نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ سٹیم سیل ریسرچ کے میدان میں دنیا کا تیسرا ملک ہے۔ ایران کے پاس دنیا کا تیسرا بہترین عضو پیوند مرکز ہے، جس کی ایک مثال شیراز کا نمازی ہسپتال ہے۔ ایران ذیابیطس کے زخموں کے علاج کیلئے "این جی پارس" اور ایڈز کو کنٹرول کرنیوالی دوا "آیمود" تیار کرنیوالا دنیا کا واحد ملک ہے۔ ایران ترقی اور جدت کے میدان میں دنیا کا تیز ترین ملک ہے۔ ایران کے پاس دنیا کی دوسری طاقتور سائبر فوج ہے، اکانومسٹ کی رپورٹ میں اس کی تفصیل شائع کی گئی ہے۔ ایران دنیا کا سب سے بڑا میتھانول پروڈیوسر ہے۔ ایران پتھر سے کاغذ بنانے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔

ایران دنیا کا واحد ملک ہے، جو ہائی فریکوئنسی الیکٹرک سرجیکل ڈیوائس تیار کرتا ہے۔ ایران دنیا کے 227 ممالک میں سے 37 ویں نمبر پر ایک بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، جیسا کہ عالمی اقتصادی پالیسی کے شعبے کی رپورٹ میں تفصیلاً اس کا جائزہ پیش گیا ہے۔ ایران لینیر ایکسلریٹر ریڈییشن ڈیوائس بنانیوالا دنیا کا دوسرا ملک ہے۔ ایران ایکواکلچر کے میدان میں مشرق وسطیٰ میں پہلے اور دنیا میں 18 ویں نمبر پر ہے۔ ایران لیزر ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے 5 ممالک میں شامل ہے۔ ایران انسانی ترقی کے اشاریئے میں ترقی کے لحاظ سے دنیا کا تیز ترین ملک ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹ میں بتایا گیا ہے۔ ایران بانجھ پن کے علاج کے میدان میں دنیا کے جدید ترین ممالک میں شامل ہے۔ ایران سٹیم سیل ریسرچ کے میدان میں دنیا کے 15 ممالک میں شامل ہے۔

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ایران غیر ملکی طلبہ کو قبول کرنے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے تیز ترین ملک ہے۔ ایران کے جوہری سائنسدانوں نے ایک قسم کی الجی تیار کی ہے، جس کی ہر گرام قیمت 390 ڈالر ہے، یعنی فی کلو تقریباً 390,000 ڈالر، آپ خود حساب لگا سکتے ہیں کہ یہ فی کلو کتنے ارب تومان بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایران اپنی سرزمین پر منشیات کیخلاف جنگ کرنے والا پہلا ملک ہے۔ ایران دنیا کے سخت ترین اور وسیع پیمانے پر پابندیوں کے باوجود دنیا کا سب سے لچکدار، مزاحم اور ترقی پذیر ملک ہے۔ ایران دنیا کا سب سے بڑا میتھانول پروڈیوسر ہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے، جس کی حکومت کا نظام 98 فیصد ووٹوں کیساتھ اسلامی جمہوریہ کے طور پر طے کیا گیا ہے، جو بہت سے ممالک کیلئے ایک مثال ہے۔

ایران دندان سازی کے میدان میں دنیا کے 12 ممالک میں شامل ہے اور امریکہ اس میدان میں ایران سے بہت پیچھے ہے۔ ایران ان ممالک میں شامل ہے، جو اپنی 95 فیصد ادویات خود تیار کرتا ہے۔ اگر کچھ کمی ہے تو وہ صرف 5 فیصد ادویات میں ہے۔ انگلینڈ کے اخبار دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایران سیاسی، فوجی اور اقتصادی طاقت کے لحاظ سے دنیا کا تیرہواں ملک ہے۔ ایران اقوام متحدہ کے چارٹ کے مطابق زندگی کی امید میں اضافے کے لحاظ سے دنیا کا تیز ترین ملک ہے۔ دشمن طاقتوں نے ایرانی قوم کو کمزور اور متزلزل کرنے کیلئے اس کیخلاف شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ خود امریکی حکمرانوں کے بقول یہ پابندیاں مفلوج کر دینے والی پابندیاں ہیں۔ ایران سے جوہری معاہدہ کرکے پھر اس کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ آج ایران نے دشمن کی تمام تر پابندیوں کو شکست دیدی ہے۔

ایران ایف اے ٹی ایف کے بغیر تیل بیچ رہا ہے اور اس سے حاصل ہونیوالی آمدن وصول کر رہا ہے۔ ایران کی موجودہ حکومت نے پروڈکشن بڑھانے اور ملک کو اقتصادی میدان میں مضبوط بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ ایسے تمام کارخانوں کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے، جو خسارے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ آج ایران کو دشمن کی دھمکیوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ آج ایران خود مختاری اور آزادی کی برکت سے علم کی بلند چوٹیاں سر کرچکا ہے اور مختلف علمی شعبوں میں اس کا شمار دنیا کے پہلے 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ علم کے میدان میں تیز رفتار ترقی اس بات کا باعث بنی ہے کہ دشمن ایرانی دانشوروں اور سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ پر اتر آئے۔ دفاعی شعبے میں ایران کی ترقی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ایران کے دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بقول ایران "ڈیٹرنس" کے مرحلے سے عبور کرکے "پہلے اقدام انجام دینے" کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
 
 
تحریر: تصور حسین شہزاد


مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یایہ عقیدہ دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے ؟
جیسا کہ بعض منکرین مہدویت کاکہنا ہے : عقیدہ مہدویت کی اصل یہودیوں وغیرہ کے عقاید میں ہے جہاںسے مسلمانوں میں سرایت کرگیا ہے ورنہ اس عقیدے کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے (المہدیہ فی الاسلام ، ص ۸۰۴۔)
جواب
مہدویت یعنی ایک عالمی نجات دھندہ کا تصور اس وقت سے ہے جب کہ اسلام نہیں آیا تھا اوریہ تصور صرف اسلام میں محدود نہیں ہے ، ہاں اس کی تفصیلی علامتوں کی اسلام نے اس طرح حدبندی کی ہے کہ وہ ان آرزووں کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے ، جو دینی تاریخ کی ابتداءہی سے عقیدہ مہدویت سے وابستہ کی گئی ہیں ، جوتاریخ کے مظلوموں اور دبے ہوئے انسانوں کے احساسات کو ابھارنے کے لئے ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے غیب پرایمان وعقیدے کو واقعیت میں بدل دیا ہے اوراسے مستقبل سے حال میں پہنچادیا ہے اور مستقبل بعید کے نجات دہندہ کو موجودہ نجات دہندہ پر ایمان میں بدل دیا ہے (بحوث حول المہدی ، ص ۳۱ باقر الصد (رح) تھوڑا لفظی رد وبدل کے ساتھ )۔
مختصر یہ کہ عقیدہ مہدویت سارے مذاہب وادیان اور ملتوں میں موجود ہے اوروہ ایسے ہی
طاقتورغیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں البتہ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ہندوں کے مذہبی رہنما ” شاکونی“ کی کتاب سے نقل ہوا ہے کہ ” دنیا کا خاتمہ سید خلایق دو جہاں ” کِش “ [پیامبر اسلام ]ہوگا جس کے نام ستادہ [ موعود] خدا شناس ہے۔
اسی طرح ہندوں کی کتاب ” وید“ میں لکھا ہے ” جب دنیا خراب ہو جائے گی تو ایک بادشاہ جس کا نام ” منصور “ ہے آخری زمانے میں پیدا ہوگا اورعالم بشریت کا رہبر وپیشوا ہوگا۔اوریہ وہ ہستی ہے جو تمام دنیا والوں کو اپنے دین پر لائے گا۔
اورہندوں ہی کی ایک اور کتاب ” باسک “ میں لکھا ہے ” آخری زمانے میں دین ومذہب کی قیادت ایک عادل بادشاہ پر ختم ہوگی جو جن وانس اور فرشتوں کا پیشوا ہوگا، اسی طرح ” کتاب پاتیکل“ میں آیا ہے جب دنیا اپنے آخری زمان کو پہنچے تو یہ پرانی دنیا نئی دنیامیں تبدیل ہوجائے گی اوراس کے مالک دو پیشواوں ” ناموس آخرالزمان [ حضرت محمد مصطفی اور ” پشن[ علی بن ابی طالب ] کے فرزندہوں گے جس کا نام راہنما ہوگا۔(۔ستارگان درخشان ، ج۴۱، ص ۲۳۔)
اوریہی ہے جیسے زردتش مذہب میں اسے ” سوشیانس“ یعنی دنیا کو نجات دلانے والا ، یہودی اسے ” سرور میکائلی “ یا ” ماشع“ عیسائی اسے ” مسیح موعود“ اور مسلمان انہیں ” مہدی موعود(عج) “ کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا۔
اسلام میں اس کی بھر پور طریقے سے شناخت موجود ہے ، جب کہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل شناخت نہیں کرائی ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگر مذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود(عج) یعنی امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے فرزند پر منطبق ہوتے ہیں ۔
( آفتاب عدالت ، ابراہیم امینی ، مترجم نثار احمد خان زینپوری ، ص ۳۸ ، ۴۸۔)
مختصر یہ کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان ومذاہب کا مشترکہ عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اورتمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس مطابقت میں اختلاف ہے ۔

 تحریر: ڈاکٹرمحمود حسین حیدری


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ مِنَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ۔ (کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲ ، صفحہ۶۴۴،رقم الحدیث : ۳۵۷۴۲۱)
’’ میری امت کا سب سے بہترین عمل انتظار ہے ‘‘۔
ایک عالمی مصلح کے ظہور اور پوری دنیا پر اس کی حکومت کے قیام کا تصور تمام ادیان میں پایا جاتا ہے مگر ان تمام میں محکم اور مستدل عقلی ودینی نظریہ، مکتب تشیع کا ہے جس کے مطابق وہ مصلح امام مہدی (ع)ہے جن کی ولادت سنہ۲۵۵ ہجری میں ہوچکی ہے اورمصلحت الٰہی کے تحت پردہ غیب میں ہے اورو ہ خود حکم الٰہی کے منتظر ہیں تاکہ اسلام کو پوری دنیا میں نافذ کر سکے۔
خدا وند عالم نے دین اسلام کو قیامت تک کے لئے آخری شریعت کے طور پر نازل کیا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کو ہی انسانیت کے لئے نجات اور ابدی سعادت قرار دیا ہے اور وحی ونبوت کا سلسلہ پیغمبر اسلام (ص) پر ختم کرکے دین کی حفاظت اور نشروفروغ کے لئے سلسلہ امامت کو جاری کیا اور آئمہ علیہم السلام نے اہداف رسالت کے تحقق اور اسلام کی نشر واشاعت کی اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کیا اور اس راہ میں پیش آنے والی تمام تر مشکلات کو برداشت کیا اور اس راہ میں گیارہ آئمہ علیہم السلام نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور خداوندعالم نے بارہویں آخری حجت کوغیب کے پردہ میں رکھا ہے تاکہ اس عالمی وعدہ کی تکمیل ہوسکے جس کی انسان کو ہروقت آرزو رہی ہے یعنی عدل وانصاف پر مبنی ایک الٰہی حکومت کا قیام۔
اب جبکہ دین الہٰی قرآن وسنت اور سیرت آئمہ کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے اور امام ظہور کے بعد اسی تعلیمات کو اپنی اصلی شکل میں معاشرے میں نافذ کریں گے تو منتظرین امامؑ کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ وہ اس رسالت و پیغام کو پھیلانے کی جدوجہد کریں جن کا آئمہ علیہم السلام ہم سے تقاضا کرتے ہیں ۔
دعائے ندبہ میں امامؑ کے ان اہداف اور مقاصد کا بیان ہے جس میں امامؑ کامنتظر آپؑ کے ظہور کے لئے فریاد واستغاثہ کرتے ہیں تاکہ وہ ہدف پورا ہوجائے۔امامؑ کے فراق میں یہ فریاد اسلام کی آوازہے جو ابتدائے بشریت سے ہی تمام انبیاءؑ اور ان کے پیروکاروں کی آرزو اور حرکت وجدوجہد کا محور رہا ہے اور اسی ہدف کے لئے انہوں نے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے اور یہی مقصد اپنے مکمل اور عالمی روپ میں امامؑ کے ظہور کے وقت عمل میں آئے گا۔
دُعائے ندبہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ:
۔۔۔۔ کہاں ہے وہ ہستی جو ظلم وستم کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے تیار ہے؟
کہاں ہے وہ بزرگوار جو آ   کر کجیوں اور نقائص کی اصلاح کرے؟
کہا ں ہے وہ شخصیت کہ جس سے ظلم وستم کے ازالہ کی امیدیں وابستہ ہیں؟
کہاں ہے کہ جو واجبات وسنن الہٰی کی تجدید کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے؟
کہاں ہے وہ ہستی کہ جو ملت وشریعت کو پلٹانے کے لئے انتخاب کیا گیا ہے؟
کہاں ہے وہ ہستی کہ جس سے قرآن اورحدود قرآن کو ازسرنو زندہ کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں؟
کہاں ہے وہ دین کی نشانیوں اور اہل دین کوزندہ کرنے والی ہستی؟
ان جملات میں ظلم وستم کے خاتمہ،کجیوں اور نقائص کے اصلاح،دین وشریعت کو اپنی حقیقی شکل میں پلٹانے،حدودِقرآن کو زندہ کرنا اور دین اسلام کی سربلندی کو امامؑ کے عالمی قیام کا ہدف قرار دیا ہے۔
اس کے بعد دعائے ندبہ کے عبارات میں امامؑ کو شرک ونفاق کی بنیادیں ڈھانے،انحراف واختلاف کی شاخوں کو کاٹنے، انحراف،ہویٰ وہوس کے آثار کو محوونابود کرنے،سرکشوں اور جباروں کو نابود کرنے اوراہل عناد وگمراہوں کی بیخ کنی کرنے کے لئے ظہور کی دعا کی گئی ہے اور انہی اہداف کی تکمیل کے لئے ہر دور میں انبیا،آئمہ اور فقہاء وعلماء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور مذکورہ امور ہی انسانیت کی نجات وکامیابی اور ابدی سعادت کا ضامن ہے جس کو اسلام نے انسانوں کے لئے پیش کیا ہے۔
اوریہ انحرافات،اختلافات،کفر ونفاق اور دین سے دوری معاشرے میں اپنے عروج پر ہے۔عشق ومحبت میں امامؑ کے انتظار کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان برائیوں کے خاتمے اور امامؑ کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔انتظار کا مطلب یہ نہیں کہ امامؑ کے نام پر نا معقول رسومات واعمال انجام دی جائیں جو فلسفہ انتظار سے نابلد افراد کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جس نے دیگر مکاتب کے سامنے مکتب تشیع کے حقیقی چہرے کو د اغدار کرنے کے ساتھ اس مذہب کی فکری،اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کو نظروں سے اوجھل کردیا ہے بلکہ انتظا ر کا اصلی مطلب یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی،اس کی تعلیمات کے فروغ،عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور مستکبرین جہاں کے خلاف عملاً جدوجہد کو اپنی زندگی کا محور قرار دے اور فریضہ امر بالمعروف اور تبلیغ دین اس کی زندگی کا سب سے اہم ہدف ہو۔
دور حاضر میں اس کی واضح مثال امام خمینیؒ کی شخصیت ہے جنہوں نے انتظار کے حقیقی فلسفے کو سمجھا اور عملاً اس کے لئے جدوجہد کی بالآخر ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے کردار وعمل،جدوجہد،وحدت کلمہ،اتحاد واتفاق،ایثار وقربانی اور امر بالمعروف کے ذریعے امامؑ کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں۔

– رہبر انقلاب اسلامی نے آج صبح دفاعی صنعت کے ماہرین، ذمہ دران اور سائنسدانوں سے ملاقات میں  دفاعی میدان میں پیشرفت جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس سال دشمن کی ابلاغیاتی بمباریوں کے سائے میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں کو عظیم ملی کارنامہ قرار دیا اور اس کی قدردانی نیز قوم کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ فرمایا کہ عوام نے دشمن کی دھمکیوں کے مقابلے میں اپنے اتحاد، تشخص، شخصیت اور ایرانیوں کی توانائی و پائیداری کو ثابت کردیا

 ارنا کے مطابق اس ملاقات سے قبل  رہبر انقلاب اسلامی اورمسلح افواج کے سپریم کمانڈرآیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقتدار1403 نمائش میں، ایران کی دفاعی صنعت کے ماہرین اور سائنسدانوں کی تیار کردہ مصنوعات کا ایک گھنٹے تک معائنہ کیا

   اس نمائش میں فضائی دفاع کے جدید ترین وسائل، بیلسٹک اور کروز میزائل اور اسمارٹ، فضائی اسلحے اور ڈرون طیارے نیز بحریہ کے جدید ترین جنگی وسائل اور فلوٹنگ سسٹمس رکھے گئے ہیں۔  

 اس معائنے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی دفاعی صنعت کے ماہرین، ذمہ دار عہدیداران اور سائنسدانوں سے خطاب میں اس سال  اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ملت ایران کی عظیم اور تاریخی عید قرار دیا اوراس عظیم دن کی مبارکباد پیش کی ۔  

 آپ نے فرمایا کہ کسی بھی انقلاب میں یہ بات نظر نہيں آتی کہ قوم چھیالیس برس گزرجانے کے بعد بھی اس طرح سڑکوں پر نکل کر جشن منائے۔

 آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سخت سردی اور سوزناک  سرد ہواؤں  کے باوجود  قوم کے سبھی طبقات ، مرد وزن بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے اس طرح سڑکوں پر نکل پڑنے کو عوامی اور ملی قیام قرار دیا اور فرمایا کہ اس سال کی تقریبات، اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی بہترین تقریبات تھیں۔

آپ نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلی سے صدر مملکت  کے خطاب کو شفاف اور راستہ دکھانے والا قرار دیا اوربانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نیز انقلاب  کے اصلی مالکین یعنی ایرانی عوام کے خلاف دشمن کی تسلسل کے ساتھ  جاری ابلاغیاتی بمباری اور نرم جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  فرمایا کہ ان حالات میں سبھی شہروں اور دیہی بستیوں میں عوام  سڑکوں پر آئے ، اپنی بات کہی اوراپنا موقف بیان کیا۔

 رہبر انقلاب اسلامی نے اس نمائش کو جس کا خطاب سے پہلے معائنہ فرمایا تھا، بہترین اور اعلی ترین نمائش قراردیا ۔

 آپ نے دفاعی صنعت کے سبھی سائنسدانوں، ماہرین، عہدیداروں اور کارکنوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کو بھی ان توانا فرزندان قوم کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

آپ نے ملک و قوم کی سلامتی کے دفاع کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ آج ایران کی دفاعی توانائی زباں زد خاص و عام ہے، انقلاب کے چاہنے والے اس پر فخر کرتے ہیں اور دشمن خوفزدہ ہیں اور یہ حقیقت ملک کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ  ایک زمانے میں عالمی سامراجی طاقتیں، کئی گنا قیمت پر بھی  ایران کو  دفاعی ضرورت کا سامان نہیں دیتی تھیں   فرمایا کہ اب وہی طاقتیں، ایران سے کہتی ہیں کہ اپنے فوجی وسائل فروخت نہ کرو۔

آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں کہتے تھے " نہیں بیچیں گے" اور اب کہتے ہیں کہ " نہ بیچو" ، ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور یہ ہمارے  ذہین اور ماہر نوجوان سائنسدانوں کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی مستقل پابندیوں کے پیش نظر دفاعی پیشرفت کو غیر معمولی قرار دیا اور فرمایا کہ آج ایران کی دفاعی صنعت کی پوزیشن ایسی ہے کہ جو پرزہ بھی وہ نہ دیں، ہمارے نوجوان ، ملک کے اندر اس بہتر تیار کرلینے پر قادریں۔  

 مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے اپنے خطاب میں دفاعی صنعت میں پیشرفت جاری رہنے پر زور دیا اور فرمایا کہ  دفاعی صنعت کی پیشرفت، دنیا میں  ہماری دفاعی طاقت کا درجہ بلند ہونے کا با‏عث ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر قناعت کرلیں اور رک جائيں، کیونکہ ہم نے زیرو سے کام شروع کیا اور اگرچہ ہم نے بہت زیادہ کام کئے اور پیشرفت کی ہے لیکن ابھی بہت سے معاملات میں اگلی صف سے دور ہيں۔

آپ نے فوجی ترقی میں اگلی صفوں تک پہنچنے کو قران کے " واعدوا لھم ما استطعتم من قوہ"کے حکم  پر استوار قرار دیا اور فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں حد اکثر  اور مسلسل تیاری بدخواہوں کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لئے ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ پیشرفت سبھی فوجی شعبوں میں جاری رہنی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی زمانے میں میزائلوں کی دقت کے لئے ہمارے مد نظر ایک سطح اور حد تھی تو آج ہمیں اس کو بڑھادینے کی ضرورت ہے، یہ کام ہونا چاہئے۔  

 آپ نے نئی نئی ایجادات اور نہ رکنے کو  دفاعی صنعت میں پیشرفت کا لازمہ قرار دیا اور فرمایا کہ  ایجادات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایجادات کا مطلب دوسروں کے کاموں کی تکمیل نہیں نہيں ہے بلکہ  اس کا مطلب وہ کام ہیں جو انجام نہیں پائے ہیں اور انسان کی سرشت میں نہفتہ نا شناختہ توانائیوں کو فعال کرنا ہے جیسے الیکٹریسٹی ، انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس وغیرہ کا انکشاف اور ایجاد ہے جس نے دنیا کے سامنے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ 

Wednesday, 12 February 2025 20:28

فلسطین برائے فروخت نہیں


نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں، جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ امریکی صدر کے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ غزہ پر امریکی و صیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی، تاکہ غزہ کو خالی کریں۔

غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہوچکی ہے۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آکر آباد ہونے لگے ہیں۔ غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی دراصل پوری دنیا کے لئے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے لئے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی، ہم دیں گے اور یہ قربانی انہوں نے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکی کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کر دی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے، اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بنا کر پیش کیا جائے، تاکہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا امریکی بھرم باقی رہ جائے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی اس مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکہ کی بالادستی کے خاتمہ کو یقینی بنا کر دم لیں گے اور طاقت کے مرکز کو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔ غزہ پر قبضہ کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کے لئے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوں نے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لئے غاصب اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی۔؟

کیا یہ سب کچھ بغیر کسی منصوبہ کے تھا۔؟ آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے، تاہم امریکی حکومت اس غزہ کے علاقہ کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی، لیکن آخر یہ شہر کس کے لئے بنایا جائے گا۔؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لئے ہیں۔؟ لہذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔؟ کیا امریکی تسلط اس قدر آسان ہوگا کہ امریکی حکومت آسانی سے غزہ پر قبضہ کر لے گی۔؟ حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لئے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ ان کے لئے ایک ترنوالہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکہ کو انکار میں جواب دیا ہے، جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب یمن ہے، جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کے لئے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہوگا۔

کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے۔؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں از سر نو جنگ شروع ہو جائے، جس کے لئے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دیئے جا رہے ہیں، جس کے بعد امریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی کمزور ہوچکی ہے، جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات او بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔ بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جو کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔

فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدر کو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔ اب امریکہ اس میدان میں آکر غزہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے، جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اور دہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔

یہاں پر ایک نقطہ جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پر امریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا۔ اگر غزہ نہیں رہا تو پھر کوئی بھی نہین بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی۔ تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود اس خطرناک کینسر کو کہ جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

Wednesday, 12 February 2025 20:24

اسرائیل کا جنگ بندی پر حملہ

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں 2 لاکھ خیمے اور 60 ہزار تعمیر شدہ گھروں کا داخلہ روک دیا اور اس کے بعد مظلوم فلسطینی شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کی راہ میں شدید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ غاصب صیہونی فوج پندرہ ماہ تک غزہ کی پٹی پر لاحاصل فوجی جارحیت کے بعد جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے پیر 10 فروری کے دن اعلان کیا ہے کہ صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث جنگ بندی کے تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کو نامعلوم مدت تک روک دیا گیا ہے۔ یاد رہے جنگ بندی کے تیسرے مرحلے کے تحت ہفتہ 15 فروری کے دن حماس اور صیہونی رژیم کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ انجام پانا تھا۔
 
غزہ کی پٹی میں بحران شدید ہو جانے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی سے فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس پر غاصبانہ قبضے کے منحوس عزائم کا اظہار کیا ہے اور یوں جنگ بندی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا خطے کے عرب ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے لیکن حماس اور تل ابیب کے درمیان جاری جنگ بندی معاہدہ شدید تزلزل کا شکار ہو گیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے سن حماس کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے طوفان الاقصی نامی عظیم فوجی آپریشن انجام دیا جس کے نتیجے میں "مسئلہ فلسطین" ایک بار پھر اسلامی دنیا کی پہلی ترجیح بن گیا۔ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے 2019ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بقول ریاض اور تل ابیب کے تعلقات معمول پر آنے میں صرف 6 ماہ کا وقت درکار تھا لیکن ٹرمپ کو 2020ء کے صدارتی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اس کے بعد حماس کے طوفان الاقصی آپریشن نے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے میں مزید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ مغربی ایشیا کے کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر ناجائز قبضے کا ارادہ ظاہر کر کے خلیج عرب ریاستوں کے حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے فوری اقدامات انجام دیں۔ دوسری طرف عرب حکمران غزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے ناطے تل ابیب سے غیر مشروط طور پر تعلقات بحال کرنے سے کترا رہے ہیں۔
 
اخبار اکونومسٹ اپنی رپورٹ میں ابراہیم معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کی صورت میں اپنی حکومت کے مستقبل سے پریشان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سابق صدر انور سادات کا انجام عرب حکمرانوں کے لیے وحشت کا باعث بن چکا ہے۔ لہذا اسرائیل واشنگٹن کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد مغربی کنارے میں فوجی جارحیت انجام دے رہا ہے تاکہ عرب ممالک کو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بجائے فلسطین اتھارٹی کی بقا پر راضی کیا جا سکے جو فلسطینیوں کو فراہم کیے جانے والی کم ترین مراعات ہو گی۔ تل ابیب حکام مغربی ایشیا میں اپنی متزلزل پوزیشن مضبوط بنانے کے درپے ہیں اور عرب ممالک کی حمایت سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی فوج کی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔" متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برخلاف سعودی حکمران عوامی رائے عامہ کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں۔
 
اندرونی سطح پر صیہونی حکام شدید بحرانی حالات سے روبرو ہیں۔ صیہونی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیروں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر جنگ بندی کے تیسرے اور چوتھے مرحلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ استعفی دے دیں گے جس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ٹوٹ جائے گی۔ اگر موجودہ حکومت ٹوت جاتی ہے تو یہ بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہو گی۔ شدت پسند صیہونی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ العربی الجدید کے مطابق صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیر بیزلل اسموتریچ نے اسرائیلی حریدیوں کی پالیسیوں اور اسٹریٹجی کے ادارے کی دسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حماس کے خلاف دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی، پانی اور انسانی امداد روک کر غزہ والوں پر جہنم کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: "اگر حماس ہفتے کے دن دوپہر تک اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید جنگ کا آغاز کر دے گی جو حماس کی مکمل شکست تک جاری رہے گی۔" بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی موخر کر دینے کے اعلان کے بعد اس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کے اردگرد فوج کو ریڈ الرٹ جاری کر دے اور حملے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے کہا کہ یہ اقدام انجام پا رہا ہے اور بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی صورت میں وہ بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ سے شروع کر دیں گے۔
 
 
تحریر: علی احمدی

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اس فانی زندگی کو راہ خدا میں قربان کر دیتے ہیں اور اس کےعوض ابدی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔خدا کی خوشنودی کی خاطر ہر وقت ہر لمحہ ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اورباطل قوتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے خدا کی معرفت اوراحکام خداوندی کی ترویج کرتے ہیں۔ کربلا بھی معرفت خداوندی رکھنے والوں اورراہ حق کے متلاشیوں کا امتحان گاہ تھا۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام ،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔یہ وہ کردار کے نمونے ہیں جنھوں نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو اس عظیم درسگاہ سے فیضیاب کرایا۔ معصوم بچوں سے لے کر کڑیل جوانوں تک، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جو ہمیشہ کے لئے تاریخ کا روشن باب بن گئے۔
کربلا کے میدان میں ایک جوان ایسا بھی تھا جو سیرت و صورت اورگفتار و کردار میں شبیہ پیغمبر تھے۔ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا تھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے اس کائنات میں ایسی قربانی پیش کی کہ تمام دنیا دھنگ رہ گئی۔ آپ ایسے باپ کے فرزند تھے جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناز تھا ،جس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری بن گئے۔اس عظیم باپ کا فرزند تھا جس نے دنیا والوں کو جینا سکھایا اورباطل قوتوں کے سامنے قیام کر نا سکھایا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ فرزند تھے ایک فرزند جدا ہو گیا ۔علم نبوت سے معلوم تھا کہ یوسف زندہ ہے لیکن فراق پسر میں اس قدر گریہ کیا کہ آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی۔صبر ایوب اس وقت ختم ہوا جب عزت نفس کا معاملہ پیش آیا لیکن قلب حسین علیہ السلام پر قربان کہ اکبر جیسے کڑیل جوان فرزند کو جو شبیہ رسول،رشک یوسف اور فخر جناب اسماعیل تھےشہید ہوتے اپنے آنکھوں سے دیکھا۔حضرت علی اکبر علیہ السلام کی صورت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا فرزند عطا کیا جو سیرت اورصورت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔آپ کی والدہ حضرت لیلی عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔(۱)
حضرت علی اکبر علیہ السلام کے بارے میں ابو الفرج نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن امیر معاویہ اپنی خلافت کے دور میں سوال کیا کہ خلافت کے لئےلائق سب سے زیادہ کون شخص ہے؟ خوشامدی درباری کہنے لگے ہم تو تیرے علاوہ کسی کو خلافت کے لئے لائق نہیں سمجھتے۔ معاویہ کہنے لگا ایسا نہیں بلکہ سب سے زیادہ خلافت کے لئے لائق علی ابن الحسین یعنی علی اکبر ہے۔ جن کا نانا رسول خدا ہے جو شجاعت بنی ہاشم،سخاوت بنی امیہ اور دیگر خوبیوں کا حامل ہے۔(۲)
حضرت علی اکبر علیہ السلام نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی ہر وقت اپنے والد گرامی کے ساتھ دین اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کرتے رہے۔آپ بھی دیگر جوانان بنی ہاشم کی طرح عازم کربلا ہوئے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مختلف مواقع پر قریب الوقوع موت کے حوالہ سے اپنے اصحاب سے گفتگو کی تب کڑیل جوان نے اپنے بابا سے سوال کیا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ؟ باپ نے جوان بیتے کے سوال پر فرمایا: بیٹے ہم حق پر ہیں تب اس جوان نے کہا بابا: اگر ہم حق پر ہیں تو ہمیں کیا پرواہ کہ موت ہم پر آ پرے یا ہم موت پر جا پڑیں۔جناب علی اکبر علیہ السلام شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہونے کے لئے بے قرار تھے۔
روز عاشور جوانان بنی ہاشم کی طرح جناب علی اکبر علیہ السلام نے بھی میدان جنگ میں جانے کے لئے اپنے بابا سے اجازت طلب کی۔پھوپھی زینب(س) کی اجازت پر امام حسین علیہ السلام نے بھی اجازت دی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام جب میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے تو مہربان باپ نے ایک مایوسانہ نگاہ اس جوان پر کی اورروتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کیا:{ اللهم اشهد علی هولاءِ القوم، فقد برز علیهم غلام، اَشبهُ الناس خَلقاً و خُلقاً و منطقاً برسول الله۔۔۔ }۔(۳)
اے میرے پروردگار ؛ اس قوم پر گواہ رہنا کہ ان کی طرف مبارزہ اورجنگ کے لئے ایسے جوان کو بہیج رہا ہوں جو خلق و گفتار و کردار میں تیرے نبی سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے۔جب ہم تیرے نبی کی زیارت کا مشتاق ہوتے تو اس جوان کے چہرے پر نظر کرتے۔”اللهم فامنعهم برکات الارض و فرقهم تفریقاً و مزقهم و اجعلهم طرایق قدداً و لا ترض الولاه عنهم أبداً، فانهم دعونا لینصرونا ثم عدوا علینا یقاتلونا"۔خدایا ان سے زمین کی برکتیں روک لے اور انہیں متفرق و پراگندہ کر دے۔۔۔۔۔ادھر جناب جناب علی اکبر علیہ السلام کربلا کے میدان میں خورشید تابان کی طرح افق میدان پر طلوع ہوئے اور کچھ عرصہ میدان کو اپنے نور کی شعاع سے جو جمال پیغمبر کی خبر دیتا تھا منور کیا۔دیکھنے والے ان کے جمال سے فریفتہ ہو گئے اور ہر نظر ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے میدان کربلا میں فوجی یزیدی کے سامنے یہ رجز پڑھا:
أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن بیت الله آولی با لنبیّ
أضربکَم با لسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هاشمیّ عَلَویّ
وَ لا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَاللهِ لا یَحکُمُ فینا ابنُ الدّعی۔(۴)
میں علی ابن الحسین ہوں۔کعبہ کی قسم ہم نبی سے زیادت قربت رکھتے ہیں ۔میں تمہیں تلوار سے ماروں گا یہاں تک کہ وہ ٹیڑھی ہو جائے۔ جناب علی اکبر علیہ السلام دشمنوں پر حملے پر حملہ کرتے رہے اوربدبختوں کو جہنم واصل کرتے رہے۔جس طرف رخ کرتے لاشوں کے انبار لگ جاتے۔بڑی بہادری کے ساتھ لڑے مگر سورج کی گرمی،پیاس کی شدت اورزخموں کی کثرت نے آپ کو تھکا دیا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام میدان سے واپس بابا کی خدمت میں آئے اورعرض کیا: بابا پیاس کی شدت ہے اگر ممکن ہو تو ایک گھونٹ پانی پلا دیجئے۔بیٹے کی آخری تمنا باپ پوری نہ کر سکا۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے اشک بھری آنکھوں کے ساتھ فرمایا: بیٹا تھوڑی دیر جنگ کرو بہت جلد نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے کوثر کی پانی سے سیراب کر دیں گے۔
ایک روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے اپنی زبان مبارک جناب علی اکبر علیہ السلام کے دہان مبارک میں رکھ دئیے لیکن کس طرح پیاس بجھ جاتی کیونکہ امام حسین علیہ السلام خود تین دن کے پیاسے تھے۔بیٹے نے کہا: بابا آپ تو مجھ سے زیادہ پیاسے ہیں ۔ جناب علی اکبر علیہ السلام ایک دفعہ پھر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔یزیدی فوج کو علی مرتضیٰ کی یاد تازہ کرائی لیکن دشمن جو تعداد میں بہت زیادہ تھے چاروں طرف سے آپ پر حملہ ور ہوئے۔یوں میدان کربلا میں آفتاب کربلا غروب ہو گیا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی روح پرواز کر گئے اورآپ حوض کوثر پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کوثر کے پانی سے سیراب ہوگئے۔آپ کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "ولدی عَلَی الدّنیا بعدك العفا"(۵)۔بیٹا تیرے بعد دنیا اوردنیا کی زندگی پر خاک ہو۔ عاشورا کے دن بنی ہاشم کے جوانوں میں سے سب سے پہلے جناب علی اکبر علیہ السلام شہید ہوئے اور زیارت شہدائے معروفہ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیل مِن نَسل خَیْر سلیل۔(۶)
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنی پاک جوانی دین مقدس اسلام کی سر بلندی پر قربان کر دی اورقیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر اسلام کے لئے جوانوں کی ضرورت ہو تو جوان اپنی جوانی کو قربان کر نے سے دریغ نہ کرے۔یوں کربلا کے میدان سے جوانی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اگرچہ جوان باقی رہ گئے۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے صبح عاشور اذان دے کر قیامت تک ایک آفاقی پیغام فضاوں اور ہوا کے حوالہ کر دیا جو آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اذان علی اکبر کی یاد تازہ کر ا رہا ہے اورحق شناس انسانوں کو باطل قوتوں کے مقابلہ میں اٹھنے اورقیام کرنے کا پیغام دے رہاہے۔

حوالہ جات
۱۔اعلام النّساء المومنات محمد حسون و امّ علی مشکور، ص 126/مقاتل الطالبین ابوالفرج اصفہانی، ص 52۔
۲۔ مقاتل الطالبین، ص 52/منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی، ج 1، ص 373 و ص 464۔
۳۔ مقتل الحسین خوارزمی. ج2،ص30۔
۴۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375/ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459۔
۵۔منتہی الآمال، ج 1، ص 375۔
۶۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375۔

تحریر:ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کچوروی

جوانی انسان کی صلاحیتوں کے نکھار،حقیقی اوربامقصد زندگی کا آغاز اور ہر قسم کے کمالات وکامیابیوں کے آسمان تک جانے کازمانہ ہے۔اسی لیے جوان اور جوانی کو روایات میں خداوندتعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت قرار دی گئی ہے۔ جوان کا دل شفاف وپاک آئینہ کی مانند ہے۔اگر درست راہ کی جانب رہنمائی اور اپنی منزلت وحیثیت کو سجھ کر استفادہ کر لے تو یقیناً بلندیوں کو پاسکتے ہیں۔
تاریخ میں ایسے جوانوں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں ایسے کارنامے انجام دئیےکہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ وجاوید ار دوسروں کے لیے نمونہ عمل قرار پائے۔
انہی جوانوں میں سے نمایاں حضرت علی اکبرؑ علیہ السلام تھے۔روایات کے مطابق 11شعبان المعظم کو مدینہ میں امام حسین سید الشہداءؑ کے گھر لیلیٰ بنت ابی مرہ کے بطن سے علی اکبرؑ کی ولادت اور تربیت اہل بیت کے پاکیزہ گھرانے میں ہوئی۔
آپؑ کے شکل وشمائل،سیرت وکردار،انداز بیان سے پیغمبر ختمی مرتبت کاعکس جھلکتے تھے۔اسی لیے سید الشہداءؑ فرماتے تھے:جب بھی ہم پیغمبرؐ  کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ان کی جانب نگاہ کرتے۔
کربلامیں ان جہاد کے بعد آسمان کی طرف رخ کر کے امام عالی مقام نے دعا کی:
«بارالٰہا!اس قوم پر گوار رہنا،ایسا جوان دشمن کی جانب جارہا ہے جوشکل،کردار وانداز بیان میں تیرے رسول کے شبیہ ہے۔جب بھی ہم تیرے رسول کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ہم ان کی جانب دیکھتے۔»(مقتل لہوف)
علی اکبرؑشجاعت،جذبہ جہاد،دینی وسیاسی بصیرت اور معرفت ہر لحاظ سے ایک کامل جوان تھے اور کربلا کے سخت میں میدان میں آپ کی شخصیت آشکار نمایاں ہوئی۔
علی اکبرؑ کی معرفت وبصیر ت کی مثال قصر بنی مقاتل پر امامؑ نے گھوڑے کی زین پر خواب سے بیدار ہونے کے بعد جب اناللہ وانا الیہ راجعون کی تین بارتلاوت کی توآپ نے وجہ پوچھی توامامؑ نےجواب دیا میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک سوار کہہ رہاہے کہ یہ کاروان موت کی جانب رواں دواں ہے،تو علی اکبرؑ نے پوچھا:بابا کیا ہم حق پر نہیں؟امامؑ نے جواب دیا کیوں نہیں۔
تو علی اکبرؑ کاتاریخی جواب تاریخ میں نقش ہوا۔
اذاً لانبالی ان نموت محقین۔(نفس المہموم, ص203)
یعنی راہ حق میں ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔
معاشرے کا سب سے اہم کردار جوان ہیں۔اسی لیے ہمیشہ دشمنوں نے بھی جوانوں کواپنے مذموم اہداف کا ذریعہ بنایا ہے۔
اسلام نے بھی جوان وجوانی کی اہمیت،مقام ومنزلت،ذمہ داری ومشکلات کو سب سے زیادہ مدنظر رکھا ہے۔اور اس سلسلے میں قرآن وتاریخ کے اعلیٰ وروشن اور کامل نمونے ہمارے سامنے پیش کئے ہیں۔جن میں سے ایک کامل،پاکیزہ وجامع نمونہ علی اکبرؑ کی شخصیت وکردار ہے۔
یوم ولادت علی اکبرؑ اور روز جوان کے موقع پر ہم اس عظیم خاندان عصمت وطہارت کے صالح جوان کی فداکاری،شجاعت،بصیرت اورجہادی زندگی سے درس لیں،اپنی جو انی کوسیرت علی اکبرؑ کےمطابق اسلام،قرآن وسیرت معصومینؑ میں ڈھالنے کی جانب توجہ دیں۔
اپنے مقام وہدف زندگی کوسمجھیں۔فانی،لہو ولعب اور فضول امور میں زندگی کو خرچ کرنے کی بجائے خدا کی رضایت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی کو گزارنے کو اپنا شیوہ قرار دیں۔
جوانوں کو سیرت علی اکبرؑ پر چلتے ہوئے وقت کے امامؑ کی معرفت،وقت وضرورت پڑھنے پر دینی اقدار وناموس کا دفاع،صبر وتحمل اور فداکاری میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔کسی صورت حق ودین کی راہ میں قربانی سے دریغ نہ کرے۔یہی علی اکبرؑ کا پیغام ہے۔

مولانا سکندر علی بہشتی

ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، سی این این کے حوالے سے، اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ کی ریلی آج بروز پیر پورے ملک میں عوام کی بھرپور شرکت کے ساتھ منعقد ہوئی۔ یہ ریلی تہران کے ساتھ ساتھ ملک کے 1400 اضلاع، شہروں اور 35,000 سے زائد دیہاتوں میں بھی منعقد کی گئی۔ عوام کی وسیع شرکت کو بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں کوریج ملی۔

 

لبنان کے المیادین چینل نے تہران میں ہونے والی ریلی کو براہ راست نشر کیا، جبکہ المنار چینل نے بھی اس کا آغاز ہوتے ہی کوریج دی۔ لبنان کے العہد چینل نے رپورٹ کیا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ کے موقع پر عوامی جشن منعقد کیے گئے۔ اس چینل نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فتح کے موقع پر حاج قاسم میزائل کی نمائش کا بھی ذکر کیا۔

دوسری جانب، روسی خبر رساں ایجنسی ریانووستی نے ایران کے مختلف شہروں میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں اور عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کی اطلاع دی۔ ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ایران کے مختلف شہروں، بشمول تہران، میں آج صبح پیر کے روز عوام کی وسیع شرکت کے ساتھ ریلیوں کا آغاز ہوا۔ ریانووستی نے مزید کہا کہ ایرانی حکام نے ان عوامی سرگرمیوں کے بڑے پیمانے پر انعقاد پر زور دیا ہے، اور ان ریلیوں کو ایک سیاسی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو ملک کی حکومت اور اس کے علاقائی و بین الاقوامی مؤقف کے لیے عوامی حمایت کو ظاہر کرتا ہے۔

بازتاب جهانی جشن ۴۶ سالگی پیروزی انقلاب اسلامی

خبر رساں ایجنسی کے مطابق، مختلف علاقوں سے آنے والے شرکاء کی ایک بڑی تعداد نے ایرانی پرچم اور شہید قاسم سلیمانی، جو کہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سابق کمانڈر تھے، کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ، اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی (رح) کی تصاویر بھی عوام کے ہاتھوں میں نظر آئیں۔ ریانووستی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہر سال یہ ریلیاں عوام کی ان اصولوں سے وفاداری کے اظہار کے لیے منعقد کی جاتی ہیں، جن پر یہ انقلاب قائم ہوا تھا۔

بازتاب جهانی جشن ۴۶ سالگی پیروزی انقلاب اسلامی

روسی خبر رساں ایجنسی اسپوتنیک نے بھی اپنی رپورٹ میں ایران کے مختلف علاقوں میں 22 بہمن کی تقریبات کے انعقاد کا ذکر کیا اور کہا کہ ایرانی عوام نے آج (پیر) ملک بھر میں اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ کے موقع پر بڑے عوامی مظاہروں میں شرکت کی۔ اسپوتنیک نے مزید لکھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب 7 جنوری 1979 کو برپا ہوا، جس نے امریکہ کی حمایت یافتہ شاہی حکومت کا خاتمہ کر کے ملک کو امام خمینی (رح) کی قیادت میں ایک اسلامی جمہوریہ میں تبدیل کر دیا۔

بازتاب جهانی جشن ۴۶ سالگی پیروزی انقلاب اسلامی

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی رپورٹ کیا کہ ہزاروں ایرانیوں نے 1979 کے اسلامی انقلاب کی سالگرہ منائی۔ ایجنسی کے مطابق، یہ پہلی ریلی ہے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر بنے ہیں اور انہوں نے تہران کے خلاف اپنی "زیادہ سے زیادہ دباؤ" مہم کو دوبارہ شروع کیا ہے۔

بازتاب جهانی جشن ۴۶ سالگی پیروزی انقلاب اسلامی

 ایجنسی نے مزید لکھا کہ اس سال ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کی تقریبات ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہیں جب ملک شدید اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جو اس کی معیشت کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے وقت میں لگائی جا رہی ہیں جب ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر کسی معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں۔/

.