سلیمانی

سلیمانی

Wednesday, 14 September 2022 08:18

اربعین پیدل مارچ

امام حسین ؑ دین اسلام کو بچانے والے
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!
پیغمبر آخر الزمان حضرت محمدمصطفی نے چودہ سوسال قبل دنیا کو دین اسلام سے متعارف کرایا۔ آپ نے اور آپ کے اہل بیت اطہار ؑ نے اس دین کی نشرواشاعت اور حفاظت جس انداز سے کی، اس کی مثال نہیں ملتی، مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک کا سفر ان قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے، جب دنیا تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس میں بسنے والے غفلت کی نیند میں تھے۔ استعمار اور ظلم نے لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کردیا تھا۔ تو ایسے میں حضرت امام حسین ؑنے اپنے مقدس خون سے دیا روشن کرکے سوئی ہوئی انسانیت کو بیدار کیا اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو آزاد کرایا۔
فرزند رسول امام مظلوم نے پیکر عزم و ہمت بن کر میدان کربلا میں جہاد کا وہ عملی نمونہ پیش کیا جو کہ آج پندرھویں صدی کے انسان کو جھنجھوڑ کر کہہ رہا ہے کہ اے مظلومو! یہ نہ سوچو کہ تم کمزور ہو، اس لئے کہ میری شہادت مظلوم کے لئے راہ نجات ہے، پیغام حریت (آزادی) ہے اور ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا ایک طریقہ معین کرتی ہے ، دنیائے اسلام کی تاریخ میں سانحہ کربلا کی نوعیت کا کوئی واقعہ نہیں ملتا، 61 ہجری میں پیش آنے والا یہ واقعہ وہ سانحہ ہے جس کے ذریعے خاندان رسالت نے عالم انسانیت کے لئے ایک نہایت عظیم درسگاہ کا اہتمام کیا تھا ، دس محرم 61 ھ کو امام مظلوم ؑ نے اپنی شہادت سے عین قبل ایک صدا بلند کی”کوئی ہے جو ہماری مدد کرے۔“ لیکن جب کوئی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھا، تو آپؑ نے بے اختیار فرمایا: اگر میرے نانا محمد کا دین میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آو ¿ اور مجھ پر ٹوٹ پڑو، اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید الشہداءؑ کا مدد کے لئے پکارنا اپنی حفاظت کے لئے نہیں تھا بلکہ بلکتی ہوئی انسانیت اور سسکتی ہوئی شریعت کی حفاظت اور اسے حیات ابدی (ہمیشہ رہنے والی) بخشنے کے لئے تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا سے لے کر اب تک اسلام کی حفاظت و حمایت کے لئے یہی سوچ کر اگر قدم اٹھایا گیا کہ ”ہر روزعاشورہ ہے اور ہر زمین کربلا ہے۔“ تو وہ قدم ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوا، اسی لئے مولانا محمد علی جوہر کا کہنا بجا ہے کہ ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔“
کربلا محض ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک بھی ہے، اس لئے کہ امام حسین ؑ نے بیعت یزید سے انکار محض ذاتی اور انفرادی حد تک نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا: مجھ جیسا حسین ؑ تجھ جیسے یزید کی بیعت نہیں کر سکتا، اس طرح یہ مسئلہ حضرت امام حسین ؑ اور یزید کا مسئلہ بننے کی بجائے حسینیت اور یزیدیت کا ابدی(ہمیشہ رہنے والا) مسئلہ بن گیا:
حسین ؑ ایک شخص کا نام ہے اور حسینیت حسین ؑ کا وہ عظیم الشان کردار ہے، جس کا عظیم المثال مظاہرہ دنیا کے سامنے کربلا کے میدان میں ہوا، جہاں امام حسین ؑ لوگوں کو بتاتے رہے:
” ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔“
امام حسین ؑ مکہ سے روانگی کے وقت اور راستہ میں لوگوں کو یہ بتاتے رہے کہ ہم حکومت یا ریاست کی خاطر یا مال غنیمت کی لالچ میں نہیں جارہے ہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے لئے جارہے ہیں ، جو کہ معاشرے کی اصلاح ہے۔
آج جب کہ پھر انسانیت کی کشتی صہیونیت کے طوفان میں پھنس رہی ہے، ظلم بڑھتا جارہا ہے ، باطل کا سیلاب بڑھتا چلا آرہا ہے، دنیا پرستی، فرقہ واریت ، بے حیائی اور دیگر جاہلانہ تعصبات پوری طاقت کے ساتھ دنیا کو اپنے چنگل میں دبوچ رہے ہیں ، خود غرضی اور نفس پرستی آزادی کے مدمقابل ہے، طاقتور کمزور کو دبا رہا ہے، انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں ، ایسے نازک حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نئے جوش اور ولولے کے ساتھ مقصد امام حسین ؑ کو سمجھتے ہوئے زندہ عزم اور جوان ارادوں کے ساتھ حسینیت کے بھولے ہوئے سبق کو دہرائیں اور امام حسین ؑ نے آزادی، مساوات اور اخوت کی جو آواز بلند کی تھی، اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔
دوستو! ایام عزا میں ہمیں امام حسین ؑ کے پیغام کو سمجھنا چاہیے، ہمیں اسلام کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس راہ میں صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ میں مقیم عالمہ سیدہ بشری بتول نقوی نے اربعین حسینی کی مناسبت سے اپنے ایک بیان میں اربعین حسینی کو زمینہ سازی برائے ظہور امام زمان (عج) قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں "علامات المومن خمس صلاتہ احدی خمسین و زیارت الاربعین وتختم بالیمین تعفیر بالجبین والجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم"مومن کی پانچ علامات میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔

انہوں نے یہ سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا زیارت اربعین فقط زیارت اور ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے؟ نہیں بلکہ جسقدر یہ عظیم اجتماع کی صورت میں تمام عالم کی توجہ کا مرکز ہے عین اسی طرح عظیم درسگاہ اور عظیم مقصد کیلے مقدمہ سازی برائے ظہور عج کا مصداق ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیارت اربعین کے فراز میں امام زمان کی نصرت کیلے ان الفاظ میں آمادگی کا عہد کیا جاتا ہے "و اشھد انی بکم مومن و بایابکم موقن بشرایع دینی و خواتیم عملی و قلبی لقلبکم سلم وامر لامرکم متبع و نصرتی لکم معدتہحتی باذن اللہ لکم" اربعین حسینی درحقیقت سید الشہدا علیہ السلام کے عظیم مقصد کو زندہ رکھنا حق کا معیت اور اس عظیم الشان مقصد کو جاری رکھنے کی نیت سے امام زمان عج تعالی شریف کی نصرت کیلے آمادگی کا مقدمہ ہے۔

انہوں نے امام خمینی رح کہ قول کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ ایک قاعدہ ہے کہ جب تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز ایک ہی ہو اور لوگوں کے دل اس طرف والہانہ و عاشقانہ انداز میں تڑپ رہے ہیں تو یہ کیفیت و کار انسانی ہرگز نہیں ہوسکتا یہ کار خداوند عالم ہے۔لہذا اربعین حسینی کار خدا ہے کہ لوگ امام عالی مقام ع کے ہدف کو ادامہ دیتے ہوئے وقت کے امام عج کی نصرت کیلے زمینہ سازی انجام دے رہے ہیں انشاءاللہ۔ "یالیتنی کنت معکم فافوز فوزا عظیما"یعنی امام زمان عج کی نصرت درحقیت امام عالی مقام علیہ السلام کی نصرت ہے۔ اللہ تبارک تعالی ہمیں اس عظیم مقصد کی نصرت و معیت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

ایران کے خارجہ اقتصادی تعلقات کے ہیڈکوارٹر میں ترکمنستان میں ہونے والی ایرانی اشیاء کی نمائش اور عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہدی صفاری نے کہا  کہ نمائش کے انعقاد کے لئے پرائیویٹ سیکٹر اور ایرانی تجارتی ایلچی کی شرکت بہت اہم ہے۔

ایران ترکمنستان تجارتی تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجارتی امور میں نائب ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکمنستان کو ایرانی تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات کی فراہمی کے لئے ایک  ایم او یو پر دستخط ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ہم نے اس سال  عراق کو تقریبا 14بلین ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔

 

زاہدان۔ ارنا-  ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے اربعین ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگست مہینے سے اب تک 18 ہزار 95 پاکستانی زائرین ریمدان اور میر جاوہ سرحدوں کے ذریعے اس صوبے میں داخل ہوکر وہاں سے کربلائے معلی کی زیارت کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔

"جواد قنبری" نے ہفتہ کے روز ارنا نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے 9 ہزار 593 افراد، دشتیاری شہر میں واقع ریمدان سرحدی گذرگاہ کے ذریعے اور 7 ہزار 226 افراد بھی میرجاوہ سرحدی گذرگاہ کے ذریعے صوبے سیستان و بلوچستان میں داخل ہوگئے ہیں اور اکثر بس کے ذریعے قم اور مشہد مقدس روانہ ہوگئے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب متعلقہ اداروں اور عوام کے مختلف گروہوں کے تعاون سے پاکستانی زائرین کی خدمات کی فراہمی کی جاتی ہے اور پچھلے چند مہینوں سے ریمدان اور میرجاوہ کی سرحدوں سے ایران میں 2 ہزار پاکستانی زائرین کی آمد کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اور ضروری انفراسٹرکچر بالخصوص ریمدان کی سرحد پر تعمیر کیا گیا ہے۔

صوبے سیستان و بلوچستان کے اربعین ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے کہا کہ رواں سال میں پہلی بار کیلئے ریمدان سرحد کو زائرین کے داخلے کیلئے تعین کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرجاوہ سرحدی گذرگاہ کے ذریعے آنے والے پاکستانی زائرین کی تعداد میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے آخری داخلے کے مرحلے کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی ہے، جس کی بڑی وجہ اس ملک کی حالیہ سیلاب ہے اور ہم ان سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ان کی ستر سالہ سلطنت ایسے مختلف انسان سوز اور مجرمانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے جو ان کے یا ان کے ماتحت افراد کے حکم پر دنیا بھر کے مختلف مقامات پر انجام پاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے وقت اقتدار سنبھالا جب دنیا میں برطانیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ایران میں تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو قومیانے کی تحریک تھی۔ ایرانی قوم خدا کی جانب سے عطا کردہ حق یعنی تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو بوڑھی لومڑی برطانیہ کے تسلط سے آزاد کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ملکہ الزبتھ دوم کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ہی ان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹس نے امریکی حکام کے تعاون سے ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے بغاوت کی منصوبہ بندی انجام دی۔
 
ایران میں یہ جمہوری حکومت ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں برسراقتدار تھی اور امریکہ اور برطانیہ کی نظر میں اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ملک میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو قومیانے کی کوشش کر رہے تھے۔ 19 اگست 1953ء کو انجام پانے والی اس بغاوت کے نتیجے میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں برطانیہ اور امریکہ کو ایرانی تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے مزید 25 برس کا موقع میسر ہو گیا۔ جب برطانیہ میں ملکہ الزبتھ دوم کی فرمانروائی کا دور شروع ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں برطانیہ کی معیشت تباہ حال ہو چکی تھی۔ لہذا اس نے مجبور ہو کر استعماری طاقت کا ایک حصہ امریکہ کے سپرد کر دیا۔ اگرچہ اس عرصے میں برطانیہ بتدریج اپنی کالونیاں کھوتا چلا گیا لیکن اس نے اپنا اثرورسوخ ہر گز کم نہیں ہونے دیا۔
 
ایسی صورتحال میں برطانیہ نے عالمی سیاست کے میدان میں درپردہ رہ کر بالواسطہ طور پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنا لی۔ اگرچہ برطانیہ بظاہر سویز کے اکثر مشرقی حصوں سے دستبردار ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی برطانیہ کی ان گذشتہ کالونیوں میں برطانوی حکومت کی مرضی کے بغیر اہم فیصلہ جات انجام نہیں پاتے تھے۔ عملی طور پر "دولت مشترکہ ممالک" یا Commonwealth countries وہ کوڈ ورڈ تھا جو ملکہ برطانیہ کے استعماری تسلط کیلئے بروئے کار لایا جاتا تھا۔ جس جگہ بھی حریت پسند انسان بوڑھی لومڑی برطانیہ کے اثرورسوخ کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرتے تھے انہیں ملکہ برطانیہ کی مسلح افواج کی جانب سے آہنی ہاتھ کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ 1960ء کے عشرے میں یمن کے انقلابی عوام نے آبنائے باب المندب پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی حکومت حرکت میں آ گئی اور انقلابی عناصر کی پکڑ دھکڑ کا کام شروع ہو گیا۔
 
یمن میں انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے ٹارچر سیل تشکیل دیے گئے۔ انقلابیوں کو برہنہ کر کے فریزر والے کمروں میں ڈال دیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں ان کی بڑی تعداد ٹی بی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی گئی۔ قیدیوں کے جسم کو سگریٹ سے جلانا، انہیں برہنہ کر کے نیزے پر بٹھانا، ان سے جنسی زیادتی انجام دینا وغیرہ وہ انسان سوز جرائم تھے جو ملکہ الزبتھ دوم کی زیر نگرانی انجام پاتے تھے۔ سمندر کے اس پار کینیا وہ ملک تھا جس کی عوام نے اپنے قدرتی ذخائر پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی وہاں انقلابی تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ برطانوی استعمار نے محض انقلاب کے خوف سے 15 لاکھ افراد کو بیگاری کے کیمپوں میں قیدی بنا دیا۔ ان کیمپوں میں کینیائی عوام سے زبردستی موت کی حد تک مزدوری کروائی جاتی تھی۔
 
بیگار کیمپوں میں قید افراد کی بڑی تعداد شدید حالات کو برداشت نہ کر سکی اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بڑی تعداد میں مزدوروں کو برطانوی گماشتوں نے سزائے موت دے دی۔ تاریخی دستاویزات میں بیماری کا شکار ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد 2 ہزار ذکر کی گئی ہے جبکہ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی لاکھ افراد کو برطانوی گماشتوں نے قتل کر دیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد برطانیہ نے محسوس کیا کہ ایران اس کے اثرورسوخ سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ لہذا ایران کے انقلابی اور مسلمان عوام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کا آغاز کر دیا۔ ملکہ برطانیہ کے گماشتوں کے مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ صرف ایشیا اور افریقہ تک محدود نہیں بلکہ برطانوی تسلط کے خلاف اٹھنے والے یورپی عوام بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں تھے۔
 
1970ء سے 2000ء تک شمالی آئرلینڈ میں ملکہ برطانیہ کے سپاہیوں نے تین سو سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا۔ یہ سب عام شہری تھے اور برطانوی فوجیوں کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھے۔ قتل ہونے والے افراد میں کیتھولک پادری، بوڑھی خواتین، بچے اور حتی بچیاں تک شامل تھیں۔ بعد میں ان تمام برطانوی سپاہیوں کو ملکہ برطانیہ نے معاف کر دیا۔ 1955ء سے 1959ء کے درمیان جزیرہ قبرص میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برطانوی فوجیوں نے 3 ہزار سے زائد شہریوں کو قید کر کے شدید ترین ٹارچر کا نشانہ بنایا۔ پکڑے جانے والے افراد کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا اور ملکہ برطانیہ کے گماشتے جس پر شک کرتے اسے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی بن گیا اور مغربی ایشیا میں فوجی جارحیت کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔

تحریر: محمد جواد اخوان

 اس سے قبل الجزیرہ کی فلسطینی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ 11 مئی 2022 کو مغربی کنارے کے جنین پناہ گزین کیمپ پر صہیونیوں کے حملے کی خبر کی کوریج کرتے ہوئے پریس کور کی موجودگی کے با وجود اس کے فوجیوں کی براہ راست گولی لگنے سے شہید ہو گئی تھیں۔

ناجائز صہیونی ریاست انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کے سائے میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے

غفران وراسنہ نامی 31 سالہ فلسطینی خاتون جو مقامی ریڈیو اسٹیشنوں میں کام کرتی ہیں، یکم جون کو جیل سے رہائی کے بعد الخلیل کے شمال میں واقع العروب پناہ گزین کیمپ کے دروازے پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں۔

مقبوضہ فلسطین میں میڈیا کے مختلف اداروں کے صحافیوں کے قتل سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 1948 میں فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے صہیونی فوج نے تمام بین الاقوامی معیارات اور میڈیا کے کام سے متعلق کنونشنز کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بحران کے علاقوں میں 72 صحافیوں کو قتل کیا ہے۔.

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق، اس ملک کے مختلف ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کو ہمیشہ دو اطراف سے خطرات لاحق رہتے ہیں، جن میں سے ایک صہیونی فوج اور دوسرا انتہا پسند صہیونیوں (حریدی) کی طرف سے ہے۔

صہیونیوں کی میڈیا سرگرمیوں کے دوران صحافیوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کی گرفتاری اور قید کے علاوہ تشدد اور دیگر قسم کے ناروا سلوک ہیں۔

فلسطینی صحافیوں کی حمایت کرنے والی کمیٹی کی جانب سے 6 ستمبر کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست کی جیلوں میں تین خواتین سمیت مختلف میڈیا اداروں کے 21 صحافی قید ہیں۔

ناجائز صہیونی ریاست انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کے سائے میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے

اس کمیٹی کے بیان کے مطابق، آزادی صحافت کی ضمانت دینے والے بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود حراست میں لیے گئے صحافیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے اور انہیں ہر قسم کے جبر اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جن میں خاندان کے دورے اور علاج شامل ہیں۔

صہیونی فوج کی جانب سے میڈیا کے صحافیوں کی مستقل نظربندی اور فوجی عدالتوں میں ان کا مقدمہ چلانے کے علاوہ صہیونی فوج مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں کو ان کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے دوران عارضی طور پر گرفتار بھی کرتی ہے۔

اس سلسلے میں صہیونی فوج نے 3 ستمبر کو الخلیل کے شمال مشرق میں تسنیم نیوز ایجنسی کے نامہ نگار منتصر نصار اور ان کی فوٹوگرافی ٹیم کو عارضی طور پر گرفتار کر لیا۔

مقبوضہ فلسطین میں فریڈم سینٹر کی ڈائریکٹر حلمی الاعرج نے صحافیوں کے قتل اور گرفتاری کے حوالے سے کہا کہ صہیونی اہلکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔

انہوں نے ان جرائم کی دستاویز کرنے اور انہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں پیش کرنے میں فلسطینی عوام کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہوں نے جرم کیا ہو، اسرائیلی صحافیوں کو قتل کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔

فلسطین میں آزادی کے مرکز کے ڈائریکٹر نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اداروں کو صحافیوں کے خلاف اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات اور جنگی مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کے حوالے سے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔

الاعرجی نے کہا کہ بدقسمتی سے صہیونیوں کے تمام جرائم کے باوجود ہم بین الاقوامی برادری کی خاموشی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیار کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اسرائیل کے جرائم اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں جبکہ اس ریاست نے اس فلسطینی نژاد امریکی صحافی کے قتل کے حوالے سے ابو عاقلہ کی شہادت اور اس کے ہمہ گیر حمایتی کے طور پر امریکہ کی درخواست کے بعد کوئی وضاحت دینے سے انکار کر دیا ہے، اس معاملے پر امریکہ کی جانب سے تنقید کی گئی ہے۔

فلسطینی سیاست دان حنان عشراوی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ واضح مبہم، غلط معلومات اور جھوٹ۔ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی ذمہ دار اسرائیلی فوج نے خود کو بری کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ اس وقت ہے جب اسرائیل نے پیر کو اعتراف کیا تھا کہ ایک فوجی نے صحافی شیرین ابو اکلے کو غلطی سے قتل کر دیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے ابو عاقلہ کو قتل کیا اور فوج کی رپورٹ ایک پردہ پوشی ہے۔

ایکنا نیوز- نیوز ایجنسی نون، کے مطابق امریکی محقق «سم کمپل»، اربعین حسینی پر ریسرچ کے لیے  گذشتہ روز کربلا میں پہنچے ہیں۔

کمپل کا کہنا تھا کہ وہ اربعین میں شرکت کے لیے کربلا آئے ہیں: «اربعین پر کربلا آیا ہوں اور یہاں رش کش بے مثال ہے یہ عظیم ترین انسانی اجتماع شمار ہوتا ہے».

 

انکا کہنا تھا: میں زمین کے گرم ہونے پر ریسرچ کررہا ہوں اور معلوم ہوا کہ اس حوالے سے آستانہ حسینی بھی خدمات انجام دیں رہا ہے جنمیں انکا کھیتی باڑی پروگرام شامل ہے۔

 

امریکن محقق نے آستانہ حسینی کے پروگراموں کو سراہتے ہوئے کہا: لگتا ہے کہ یہ مذہبی ادارہ فعال ترین ادارہ ہے جو کوشش کررہا ہے کہ زمین کے گرم ہونے کے حوالے سے کردار ادا کریں اور صحراوں کو کھیتی باڑی سے قابل استفادہ بنا رہا ہے۔/

 

ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی کمانڈ اینڈ پلاننگ ڈویژن کو تحقیقات اور جمع کردہ معلومات کی بنیاد پر یقین تھا کہ یمن کے پاس تھوڑے سے اسکڈ اور توچکا میزائل ہیں جن کو جنگ کی آغاز ہی میں فضائی حملے کرکے نابود کر دیا گیا جس کے بعد سعودی عرب یمن کے ممکنہ جوابی کاروائیوں سے محفوظ ہو گیا ہے۔

2019ء میں یمنیوں نے شارٹ اورمیڈیم رینج بیلسٹک میزائل توچکا، قاہر اور برکان سے سعودی حملات کا جواب دینا شروع کیا جن کو سعودی عرب کے دعوے کے مطابق پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں وال اسٹریٹ جنرل نے ایک عجیب خبر لگائی کہ سعودی پیٹریاٹ میزائل کا سعودی ذخیرہ ختم ہونے والا ہے جب کہ سعودی عرب نے 1990کے عشرے میں 2500 سے زیادہ پیٹریاٹ میزائل خریدے تھے جن میں سے ہر میزائل کی قیمت 30 لاکھ ڈالر تھی۔ اسی دوران ایک اور خبر آئی کہ سعودی عرب نے یونان سے دو پیٹریاٹ میزائل کے لانچر بہت بھاری قیمت کے عوض ادھار پر لینے کی درخواست کی ہے۔

یاد رہے کہ ان میزائلوں کو چلانے کے لئے یونانی عملہ کے 120 افراد کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔

رپورٹ میں ڈیفنس سیکورٹی تعاون ایجنسی کی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید بتایا گیا کہ اسی سال سعودی عرب نے 300 پیٹریاٹ دفاعی نظام کے میزائل ماڈل پیک 2 جم 3 بلین ڈالر کے عوض خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ ان خریدے گئے میزائلوں میں سے ہر میزائل کی قیمت 10ملین ڈالر تھی جب کہ 2017ء میں ان میزائلوں سے ایڈوانس پیک 3 میزائل سعودی عرب نے 4 ملین ڈالر فی میزائل کے ریٹ سے امریکی کمپنی ریتھیان سے خریدے تھے۔

ماہرین کے مطابق یہ سعودی عرب کی طرف سے اس کمپنی کو رشوت تھی کہ ایمرجنسی بنیادوں پر ان میزائلوں کی فراہمی کو یقینی بنائے اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں جلدی ان میزائلوں کو ریاض کے حوالے کرے۔

15 اپریل 2021ء میں انصار اللہ یمن نے میزائلوں اور خودکش ڈرون کے ذریعے سعودی عرب کے جنوبی علاقے جیزان کے ایک انتہائی حساس مقام پر ایک حملہ کیا، سعودی فوجی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے ایک پریس کانفرنس میں اس حملے کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ حملہ 4 ڈرون اور 5 میزائلوں سے ایک غیر فوجی مرکز یعنی جیزان شہر کی یونیورسٹی پر کیا گیا ہے اور سارے ڈرون اور میزائل پیٹریاٹ میزائلوں کےذریعے سے تباہ کر دئیے ہیں اور حملے کی جگہ سے اٹھنے والے شعلے ان ڈرون طیاروں اور میزائلوں کے ٹکڑے گرنے کے بعد بھڑک اٹھنے والی آگ کا نتیجہ ہیں۔

گزشتہ روز ایک ٹوئٹر کے اکاؤنٹ پر کچھ تصاویر شائع کی گئیں جہاں پر انصاراللہ یمن نے 15اپریل 2017ء کو حملہ کیا تھا جو نہ صرف سعودی عرب بلکہ پیٹریاٹ بنانے والی کمپنی اور امریکہ کے لئے شدید شرمندگی کا باعث بن گئی ہیں۔ان تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ انصاراللہ نے جیزان میں پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم کی سائیٹ پر حملہ کیا تھا جو اسی جیزان یونیورسٹی کے قریب واقع تھی۔

انصاراللہ یمن نے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو چکمہ دینے کے لئے پہلے چند راکٹ اس جگہ فائر کئے تھے جن کو روکنے کےلئے یہ نظام خودکار طریقے سے فعال ہوا تھا، پھر اُس کے بعد ڈرون طیاروں نے ان  میزائلوں کو فائر کرنے والی بیٹریوں میں سے ایک کو حملہ کرکے نابود کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ انصاراللہ یمن نے سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل ریفائنری آرمکو پر بھی ڈرون حملات انجام دیئے تھے جن کو میزائل دفاعی نظام روکنے میں ناکام ہوگیا تھا اور تیل کے پیداواری نظام میں خلل پیدا ہونے کے باعث سعودی عرب کو ایک زبردست جھٹکا لگا تھا۔

ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے کہا ہے کہ سپاہ کے لئے یہ باعث اعزاز ہے کہ وہ ملکی ساختہ دفاعی آلات اور ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہے اور شہید سلیمانی بحری جنگی جہاز غیر معمولی خصوصیات کا حامل ہے جو ملک کے اندرہی تیار کیا گیا ہے۔

کیٹاماران ان بحری جہازوں کو کہا جاتا ہے جن کے ایک سے زیادہ ہل ہوتے ہیں اور شہید سلیمانی جنگی بحری جہاز انکیٹ کیٹاماران کشتی ہے اور دنیا میں صرف تین ممالک ایسے ہیں جو ایلمونیئم سے 60 میٹر لمبا بحری جہاز ڈیزائن اور تعمیر کر سکتے ہیں اور ایران ان میں سے ایک ہے۔