سلیمانی

سلیمانی

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے غرب اردن کے مختلف شہروں منجملہ نابلس اور قباطیہ پر صیہونی فوجیوں کی جارحیت کے مقابلے میں فلسطینی مجاہدین کی بہادری، شجاعت و دلیری کی قدردانی کی۔

تحریک حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں نے فلسطینی علاقوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جبکہ فلسطینی جیالوں نے جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

تحریک حماس کے ترجمان نے کہا کہ غاصب صیہونیوں کو سیاسی و سیکیورٹی بحران کا سامنا ہے اور وہ فلسطینیوں کی استقامت کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہں رکھتے۔

اس سے قبل فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں کی جارحیت اور ظلم و ستم پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطین کی تحریک استقامت شہدا کا خون ہرگز پایمال نہیں ہونے دے گی۔

واضح رہے کہ آج غرب اردن میں غاصب صیہونی فوجیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو فلسطینی شہید اور 9 زخمی ہوئے تھے۔

ستر برسوں سے زائد عرصے سے فلسطین کے مظلوم عوام کے بنیادی اور فطری حقوق کو روندنے پر مصر غاصب صیہونی حکومت اب تک لاتعداد انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر چکی ہے جس میں قتل و غارت، مکانات کی مسماری، باغات اور زرعی اراضی کی تباہی، ناجائز قبضہ، گرفتاری، ظلم و بربریت، جسمانی ایذائیں، اقتصادی محاصرہ اور دیگر بہت سے اعصاب شکن اقدامات شامل ہیں۔

 

 فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے نجراں کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔

 

نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے ۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔

 

کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ۔

 

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی(ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت(ص)  کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔

 

اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔

 

-جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں ۔

 

-اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔

 

-اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔

 

- اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے

 

۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔

 

- آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔

 

پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ :

 

-عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔

 

اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}

 

اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔

 

آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔

 

ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سنا:

 

اے عیسائیو! اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے ۔فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}

 

اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئ ۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ : اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ)اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔

سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئےہیں اور دوسرے ہاتھ سےحسن علیہ السلام کوپکڑ کر بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کا عموزاد بھائی ، حسنین کا بابا اور فاطمہ کا شوہر علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

 

صحرا میں ہمھمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو ، پیغمبر اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔ دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔ اس بیچ بڑے پادری نے کہا : میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں وہ بھی اپنی جگہ سے کھستا ہوا نظر آئے گا اگر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔ دوسرے نے کہا تو پھراس کا سد باب کیا ہے ؟

 

جواب ملا اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔

یہ دن اسلام کی فتح کا دن ہے اسی لئے مسلمان اس دن عید مناتے ہیں اور تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔

 

 
 

 

 

نجران کے عیسائی اوران کاباطل دعویٰ )آل عمران/۶۱)

”)پیغمبر!)علم کے آجانے کے بعدجو لوگ تم سے)حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں)کٹ حجتی کریں،ان سے کہ دیجئے کہ چلوہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کودعوت دیں اورپھرخداکی بارگاہ میں دعا کریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“
آیہء شریفہ میں گفتگونجران کے عیسائیوں کے بارے میں ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کوخداجانتے تھے اوران کے بغیرباپ کے پیداہونے کی وجہ سے ان کے خدا ہونے کی دلیل تصورکرتے تھے۔اس سے پہلی والی آیت میں ایاہے:
)آل عمران/۵۹)
”بیشک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہا کہ ہوجاؤ تو وہ خلق ہوگئے۔“
مذکورہ آیت ان کے دعوے کوباطل کرتی ہے۔یعنی اگرتم لوگ حضرت عیسی بن مریم علیہماالسلام کے بارے میں بغیرباپ کے پیداہونے کے سبب ان کے خدا ہونے کے قائل ہوتوحضرت آدم علیہ لسلام ماں اورباپ دونوں کے بغیرپیداہوئے ہیں،اس لئے وہ زیادہ حقدار وسزاوارہیں کہ تم لوگ ان کی خدائی کے معتقدہوجاؤ۔
اس قطعی برہان کے باوجود انہوں نے حق کوقبول کر نے سے انکارکیااوراپنے اعتقادپرڈٹے رہے۔
بعدوالی آیت میں خدائے متعال نے پیغمبراکرم (ص) سے مخاطب کر کے حکم دیاکہ انھیں مباہلہ کرنے کی دعوت دیں۔
اگرچہ اس آیت)آیہء مباہلہ)کے بارے میں بہت سی بحث ہیں،لیکن جوبات یہاں پرقابل توجہ ہے،وہ اہل بیت علیھم السلام،خاص کرحضرت علی علیہ السلام کے بارے میں چندنکات ہیں،جوآنحضرت (ص) کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے تھے۔
مذکورہ آیہء شریفہ اوراس سے مربوط احادیث کی روشنی میں ہونے والی بحثیں مندرجہ ذیل پانچ محورپر استوارہے:
۱۔پیغمبراکرم (ص) ماٴمورتھے کہ مباہلہ کے لئے کن لوگوں کواپنے ساتھ لائیں؟
۲۔ان کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کامقصدکیاتھا؟
۳۔آیہء شریفہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے آنحضرت (ص) کن افراد کواپنے ساتھ لائے؟
۴۔آیہء مباہلہ میں حضرت علی علیہ السلام کامقام اوریہ کہ آیہء شریفہ میں حضرت علی علیہ السلام کونفس پیغمبر (ص)کہا گیاہے نیزاس سے مربوط حدیثیں۔
۵۔ان سوالات کا جواب کہ مذکورہ آیت کے ضمن میں پیش کئے جاتے ہیں۔

پہلامحور

 آیہء مباہلہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلام (ص) کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:
الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟
ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے ۱ اوراس سے مرادخودآنحضرت (ص) ہیں،اس لئے آنحضرت (ص) کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرت (ص) اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے
۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔
کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔
اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”اٴبنائناونسائناواٴنفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔
لیکن”اٴبناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

انفس،

نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرت (ص) کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلام (ص) کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”اٴنفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟
اگر چہ”اٴنفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میںصرف رسول اللہ (ص) کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”اٴنفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرت (ص) پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:
۱۔”اٴنفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔
۲۔جملہءآنحضرت (ص) کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔
اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میںغفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اٴخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔
۳۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد پیغمبراسلام (ص) کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبر (ص) اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرت (ص) کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرت (ص) کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔
پیغمبراکرم (ص) کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلام (ص) کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔
اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:
”وفيه دليل لاشيئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء“۱
”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“
آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:
”و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله (ص) ممّا لايمتری فيهامؤمن والنصب جازم الايمان“۲
”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہ (ص) کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“
اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبر (ص) سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔۳
اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرم (ص) کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں
آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’اٴبناء“،”نسا ء“ اور”اٴنفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔
آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔
آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔
لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرم (ص) اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلام (ص) اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرت (ص) کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔
اگرکہاجائے کہ:میں”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:
)ہود/۴۵)
”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“
یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:
اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“
اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرت (ص) کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلام (ص) کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔
دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میںذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:
”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: يامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن يزيل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولايبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ يوم القيامة۔“4
”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“
غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:
۱۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔
۲۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔
۳۔اس واقعہ سے آنحضرت (ص) کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرت (ص) سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔
اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”اٴبنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”اٴنفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلام (ص) مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:
الف:وہ احادیث جن میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔
ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔
ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میںذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔
مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱۔اہل سنّت کی حد یثیں:
چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

 صحیح مسلم)۱)سنن ترمذی)۲)اورمسنداحمد)۳)میںیہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:
۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر
۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت
”حدثنا قتيبة بن سعيد و محمد بن عباد۔۔۔ قالا: حدثنا حاتم )و هو ابن اسماعيل ) عن بکير بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبيه، قال: اٴمر معاويه بن اٴبی سفيان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰه (ص) فلن اٴسبّه۔ لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم۔سمعت رسول للّٰه (ص) يقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازيه فقال له علیّ: يا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبيان؟ فقال له رسول اللّٰه (ص):اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟و سمعته يقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الراية رجلاً يحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله۔ قال: فتطاولنا لها۔ فقال: اُدعو الی علياً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عينه ودفع الراية إليه،ففتح اللّٰه عليه۔
ولماّنزلت هذه الايةدعا
رسول اللّٰه-صلی اللّٰه عليه وسلم -علياًوفاطمةوحسناًوحسيناً،
فقال:اللّهمّ هؤلائ اهلی“۔
”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۱۔میں نے پیغمبرخدا (ص) سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟ ۲۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرت (ص) اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:< قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم۔۔۔>توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“
اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلهمّ ھٰؤلاء اٴ ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”اٴبناء“”نساء“اور”اٴنفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۲۔”اٴبناء“”نساء“و”اٴنفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”اٴبناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”اٴنفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت (ص) کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرت (ص) کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلام (ص) کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

 فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:
”روی اٴنّه - عليه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - عليه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم۔ فقالوا: يا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتيک۔
فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴيهم - :يا عبدالمسيح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم يا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبياً قط فعاش کبيرهم و لا نبت صغيرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبيتم إلاّ الإصرار علی دينکم و الإقامة علی ما اٴنتم عليه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم۔ و کان رسول اللّٰه (ص)خرج وعليه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسين واٴخذ بيد الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - عليه السلام - خلفها، و هو يقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: يا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن يزيل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا يبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی يوم القيامة۔ ثمّ قالوا: يا اٴبا القاسم! راٴينا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دينک فقال:- صلوات اللّٰه عليه - فإذا اٴبيتم المباهلة فاسلموا يکن لکم ما للمسلمين، و عليکم ما علی المسلمين، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن ديننا علی اٴن نؤدّی إليک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثين درعاً عادية من حديد، فصالحهم علی ذلک۔وقال: والّذی نفسی بيده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازير و لاضطرم عليهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطير علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی يهلکوا و روی اٴنّه - عليه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -عليه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسين -عليه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - عليها السلام - ثمّ علی - عليه السلام - ثمّ قال:واعلم اٴنّ هذه الرواية کالمتّفق علی صحّتها بين اٴهل التّفسير والحديث۔“5
”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میںغوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔
جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا: ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

 اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔اس حدیث میںرسول (ص) کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرت (ص) آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میںذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:
الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”اٴبناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”اٴ نفسنا“ہے۔
ب:یہ کہ رسول خدا (ص) اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔
ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔
۲۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا“یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین ۱کہنااوریہ وہی
۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔
چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:
یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں)جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔
۳۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

 ایک اورحدیث جس میں”اٴبنائنا“،”نسائنا“اور”اٴنفسنا“کی لفظیںصرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:
”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتيقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعيد، اٴنا يحی بن ذکريا بن شيبان، اٴنا يعقوب بن سعيد، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفيان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبيعی، عن عاصم بن ضمرةوهبيرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب يوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ عليهم بمالايستطيع قُرَشيّهم و لا عربيّهم و لا عجميّهم ردّه و لا يقول خلافه۔ ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبير و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قريش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفيکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا۔ قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه عليه وسلم - غيری، إذ آخی بين المؤمنين فاٴخی بينی و بين نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لا۔قال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفيکم مطهَّرغيری،إذسدّ رسول اللّٰه (ص) اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إليه عمّه فقال: يا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا۔ قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الراية إلیّ يوم خير فقال : لاٴعطينّ الراية إلی من يحبّ اللّٰه و رسوله و يحبّه اللّٰه و رسوله، و يوم الطائر إذ يقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إليک ياٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“
غيری؟ 6 قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد قدم بين يدی نجواه صدقة غيری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لا۔قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم من قتل مشرکی قريش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غيری؟ قالوا:اللّهمّ لا۔قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد دعا رسول اللّٰه (ص) فيالعلم و اٴن يکون اُذنه الو اعية مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فيکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰه (ص) فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰه (ص) نفسه و إبناء اٴنبائه و۔۔۔غيری؟ قالوا:اللّٰهم لا۔۔۔“7
اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:
”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسول (ص) کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے
میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔ انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں)تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟
پیغمبر (ص) نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟
انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسول (ص) کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟
انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے پیغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو منسوخ کر دیا؟
انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش اورعرب کے مشرکین کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ میں قتل کیاہو؟
انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق میں پیغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ میں دعاکی ہواوراذن واعیہ)گوش شنوا)کا خدا سے مطالبہ کیاہو،جس طرح میرے حق میں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ہے جوپیغمبراکرم (ص)سے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپیغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بیٹوں کواپنے بیٹے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔“
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مباہلہ میں شریک ہو نے والے افراد،کہ جنھیں پیغمبراکرم (ص)اپنے ساتھ لائے تھے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسین )علیہم السلام)کی ذات تک محدود ہیں۔

حدیث کامعتبرراورصحیح ہونا:

 ا ہل سنت کی احادیث کے بارے میں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہیں،اوران احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے میں یعنی مباہلہ میں صرف پنجتن آل عبا)پیغمبر کے علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسین علیہم السلام)ہی شا مل تھے اس حوالے سے صرف حاکم نیشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
وہ اپنی کتاب”معرفةعلوم الحدیث“۱میں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقل کرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی علیہ السلام،”نسائنا“سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہااور”اٴبناء نا“سے حسن وحسین علیہما السلام مراد لیتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اور دوسروں سے اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بیت(ع)کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:”ہؤلائ اٴبنائناواٴنفسنا ونسائنا“کے سلسلہ میں یاددہانی کراتاہے۔8
چنا نچہ اس باب میں اصحاب کے ایک گروہ جیسے جابربن عبداللہ،ابن عباس اور امیرالمؤمنین کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہیں،اس مختصرکتاب میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم حاشیہ میں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنے ہی پر اکتفاکرتے ہیں9

۲۔شیعہ امامیہ کی احادیث شیعہ روایتوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بہت سی فراوان احادیث موجود ہیں،یہاں پرہم ان میں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

پہلی حدیث

 امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عیسائی پیغمبراسلام (ص) کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گیاوہیں پرگھنٹی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑھنا شروع کےا۔اصحاب نے کہا:اللہ کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد میںیوںعمل کررہے ہیں!آپ نے فرما یا: انھیں عمل کر نے دو۔
جب نمازسے فارغ ہوئے،پیغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہمیں آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہو؟

النيشابوری/ج۳/ص۲۱۳/دارالمعرفة بيروت،تلخيص المستدرک/ج۳/ص۱۵۰/دارالمعرفة بيروت،جامع احکام القرآن/قرطبی/ج۴/ص۱۰۴/دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۶۹داراحياء التراث العربی،الجامع الصحيح للترمذی/ج۵/ص۵۹۶/دارالفکر، الدرالمنثور/ج۲/ص۲۳۳۔۲۳۰/دارالفکر، دلائل النبوة ابونعيم اصفهانی/ص۲۹۷، ذخائر العقبی/ص۲۵/مؤسسةالوفائ بيروت، روح المعانی/ج۳/ص۱۸۹/داراحيائ التراث العربی، الرياض النضرة/ج۳/ص۱۳۴/دارالندوة الجديد بيروت، زاد المسير فی علم التفسير/ج۱/ص۳۳۹/دارالفکر، شواهد التنزيل/حاکم حسکانی/ج۱/ص۱۶۷۔۱۵۵/مجمع احيائ الثقافة الاسلامية، صحيح مسلم/ج۵/ص۲۳/کتاب فضائل الصحابة/باب فضائل علی بن ابی طالب /ح۳۲/مؤ سسة عزّالدين، الصواعق المحرقة/ص۱۴۵/مکتبة القاهرة، فتح القدير/ج۱/ص۳۱۶/ط مصر )به نقل احقاق)، فرائد السمطين/ج۲/ص۲۳،۲۴/مؤ سسةالمحموديبيروت، الفصول المهمة/ص۲۵۔۲۳،۱۲۶۔۱۲۷/منشورات الاعلمی، کتاب التسهيل لعلوم التنزيل /ج۱/ص۱۰۹/دارالفکر، الکشاف/ج۱/دارالمعرفة بيروت، مدارج النبوة/ص۵۰۰بمبئی)به نقل احقاق)،المستدرک علی الصحيحن/ج۳/ص۱۵۰/دارالعرفةبيروت،مسند احمد/ج۱/ص۱۸۵/دار صادربيروت، مشکوةالمصابيح/ج۳/ص۱۷۳۱/المکتب الاسلامی، مصابيح السنة/ج۴/ص۱۸۳/دارالمعرفة بيروت، مطالب السئول/ص۷/چاپ تهران، معالم التنزيل /ج۱/ص۴۸۰/دارالفکر، معرفة اصول الحديث/ص۵۰/دارالکتب العلمية بيروت، مناقب ابن مغازلي /ص۲۶۳/المکتبة الاسلامية تهران

آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، میں خدا کارسول ہوں اورعیسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہیںوہ کھاتے اورپیتے ہیں نیزقضائے حاجت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہیں تواس کاباپ کون ہے؟
پیغمبرخدا (ص) پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہیں اورکھاتے اورپیتے ہیں…اورنکاح کرتے ہیں۔
آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم علیہ السلام کا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتیں نازل فرمائیں:
(آل عمران /۶۱)
”عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہاہوجاتو وہ پیداہوگئے…اے پیغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہدیجئے کہ ٹھیک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بھی اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں پھرخداکی بارگاہ میں دونوں ملکردعاکریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“
پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا:”میرے ساتھ مباہلہ کرو،اگر میں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوں پرعذاب نازل ہوگااوراگرمیں نے جھوٹ کہاہوگاتومجھ پر عذاب نازل ہوگا“
انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پیش کیاہے اورمباہلہ کوقبول کیا۔جب وہ لوگ اپنے گھروں کولوٹے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کے لئے تشریف لا ئیں ،تووہ پیغمبرنہیں ہیں،اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مباہلہ کریں گے،لیکن اگر وہ اپنے اہل بیت)علیہم السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئیں توہم ان کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے۔
صبح کے وقت جب وہ میدان مباہلہ میں اگئے تودیکھاکہ پیغمبر (ص) کے ساتھ علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام ہیں۔اس وقت انہوں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ان سے کہاگیا:وہ مردان کاچچا زادبھائی اورداماد علی بن ابیطالب ہیں اور وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسین )علیہماالسلام)ہیں۔
انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کیا اورآنحضرت (ص)سے کہا:”ہم آپ کی رضایت کے طا لب ہیں۔ہمیں مباہلہ سے معاف فرمائیں۔“آنحضرت (ص) نے ان کے ساتھ صلح کی اورطے پایاکہ وہ جزیہ اداکریں۔10

دوسری حدیث

 سیدبحرانی،تفسیر”البرہان“میں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:
”حضرت)امام رضا علیہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساتھ)عترت وامت میں فرق اورعترت کی امت پرفضیلت کے بارے میں)اپنی گفتگو میں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال

ان افرادکے بارے میں بیان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکیزگی کے مالک ہیں،اور خدااپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بیت کو اپنے ساتھ لائیں اورفرماتاہے:
علماء نے حضرت سے کہا: آیہ میں’اٴنفسنا“سے مرادخودپیغمبر (ص) ہیں!امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔بلکہ”اٴنفسنا“ سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص) نے بنی ولیعہ سے فرمایا: ”اٴولاٴبعثنّ إليهم رجلاً کنفسی“یعنی:”بنی ولیعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے، ورنہ میں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔“
”اٴبنا ء نا“ کے مصداق حسن وحسین)علیہماالسلام)ہیں اور”نساء نا“سے مراد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اوریہ ایسی فضیلت ہے،جس تک کوئی نہیں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندی ہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہیں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئی حاصل نہیں کرسکتاہے۔یعنی علی(علیہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابرقراردیا۔11

تیسری حدیث

 اس حدیث میں،ہارون رشید،موسی بن جعفر علیہ السلام سے کہتاہے:آپ کس طرح اپنے آپ کوپیغمبر (ص) کی اولادجانتے ہیں جبکہ انسانی نسل بیٹے سے پھیلتی ہے اورآپ پیغمبر (ص) کی بیٹی کے بیٹے ہیں؟
امام )علیہ السلام )نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت چاہی ۔ہارون نے کہا:اس مسئلہ میں اپ کواپنی دلیل ضروربیان کرنا ہو گی آپ فرزندان،علی علیہ السلام کا یہ دعوی
ہے آپ لوگ قرآن مجیدکامکمل علم رکھتے ہیں نیز آپ کا کہنا ہے کہ قرآن مجیدکاایک حرف بھی آپ کے علم سے خارج نہیں ہے اوراس سلسلہ میں خداوندمتعال کے قول:12
سے استدلال کرتے ہیں اوراس طرح علماء کی رائے اوران کے قیاس سے اپنے آپ کوبے نیاز جانتے ہو!
حضرت)امام مو سی کاظم علیہ السلام)نے ہارون کے جواب میں اس آیہء شریفہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوحضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت تایاگیا ہے:
< و من ذرّيته داود و سليمان و اٴيوب و يوسف و موسی و هارون و کٰذلک نجزی المحسنين زکريا و يحی و عيسی وإلياس۔۔۔>13
”اورپھرابراھیم کی اولاد میں داؤد،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون قراردیا اورہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کوجزادیتے ہیں۔اورزکریا،یحیٰ،عیسیٰ اورالیاس کو بھی رکھاجوسب کے سب نیک عمل انجام دینے والے ہیں ۔“
اس کے بعد امام (علیہ السلام)نے ہارون سے سوال کیا:حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کاباپ کون تھا؟اس نے جواب میں کہا:عیسیٰ(علیہ السلام)بغیرباپ کے پیداہوئے ہیں۔امام (ع)نے فرمایا:جس طرح خدائے متعال نے جناب عیسی کوحضرت مریم(سلام اللہ علیہا)کے ذریعہ ذریت انبیاء)علیہم السلام)سے ملحق کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے ذریعہ پیغمبراکرم (ص)سے ملحق فرمایاہے۔
اس کے بعد حضرت(ع)نے ہارون کے لئے ایک اور دلیل پیش کی اور اس کے لئے
آیہء مباہلہ کی تلاوت کی اورفرمایا:کسی نے یہ دعوی نہیں کیاہے کہ مباہلہ کے دوران، پیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکو زیر کساء داخل کیاہو۔اس بناء پر آیہء شریفہ میں”اٴبنائنا“سے مرادحسن وحسین) علیہماالسلام) ”نسائنا“سے مرادفاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور”اٴنفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں۔14

چوتھی حدیث

 اس حدیث میں کہ جسے شیخ مفیدنے”الاختصاص“میںذکرکیاہے۔موسی بن جعفرعلیہ السلام نے فرمایا:پوری امت نے اس بات پراتفاق کیاہے کہ جب پیغمبراکرم (ص) نے اہل نجران کومباہلہ کے لئے بلایا تو زیر کساء)وہ چادر جس کے نیچے اہل بیت رسول تشریف فرما تھے (علی، فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔اس بنائ پرخدائے متعال کے قول:< فقل تعالوا ندع اٴبنائنا و اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم> میں ”اٴبنائنا“سے حسن وحسین)علیہماالسلام)”نسائنا“سے فاطمہ سلام اللہ علیہااور ”اٴنفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔15

شیخ محمدعبدہ اوررشیدرضاسے ایک گفتگو

 صاحب تفسیر”المنار“پہلے تو فر ما تے ہیں کہ”روایت ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے مباہلہ کے لئے علی(ع)وفاطمہ(س)اوران کے دو نوں بیٹوں کہ خدا کا ان پر درودو سلام ہوکاانتخاب کیااورانھیں میدان میں لائے اور ان سے فرمایا:”اگرمیں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا“روایت کوجاری رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ مسلم اورترمذی کو بھی نقل کرتے ہیں اس کے بعد کہتے ہیں:
استادامام)شیخ محمدعبدہ)نے کہاہے:اس سلسلہ میںروایتیں متفق علیہ ہیں کہ پیغمبر (ص) نے مباہلہ کے لئے علی(ع)فاطمہ(س)اوران کے بیٹوں کومنتخب کیا ہے اورآیہء شریفہ میں لفظ”نسائنا“ فاطمہئ کے لئے اورلفظ”اٴنفسنا“ کا استعمال علی کے لئے ہواہے۔لیکن ان روایتوں کاسرچشمہ شیعہ منابع ہیں)اورانہوں نے یہ احادیث گھڑلی ہیں)اور اس سے ان کا مقصدبھی معلوم ہے۔وہ حتی الامکان ان احادیث کو شائع و مشہور کرنا چاہتے ہیں اوران کی یہ روش بہت سے سنّیوں میں بھی عام ہو گئی ہے!لیکن جنہوں نے ان روایتوں کوگھڑا ہے،وہ ٹھیک طریقہ سے ان روایتوں کو آیتوں پر منبطق نہیں کرسکے ہیں،کیونکہ لفظ”نساء“کا استعمال کسی بھی عربی لغت میں کسی کی بیٹی کے لئے نہیں ہواہے،بالخصوص اس وقت جب کہ خود اس کی بیویاں موجودہوں،اور یہ عربی لغت کے خلاف ہے اوراس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ ”اٴنفسنا“سے مراد علی (ع)کو لیا جائے“16
استاد محمدعبدہ کی یہ بات کہ جن کا شمار بزرگ علماء اورمصلحین میں ہوتا ہے انتہائی حیرت انگیزہے۔باوجوداس کے کہ انھوں نے ان روایتوں کی کثرت اوران کے متفق علےہ ہونے کو تسلیم کیا ہے،پھربھی انھیں جعلی اور من گھڑت کہاہے۔
کیاایک عام مسلمان ،چہ جائیکہ ایک بہت بڑاعالم اس بات کی جرائت کرسکتاہے کہ ایک ایسی حقیقت کوآسانی کے ساتھ جھٹلادے کہ جورسول اللہ (ص) کی صحیح ومعتبر سنّت میں مستحکم اور پائداربنیادرکھتی ہو؟!اگرمعتبرصحاح اورمسانیدمیںصحیح سندکے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں کہ جواہل سنّت کے نزدیک قرآن مجیدکے بعددومعتبرترین کتابوں میں سے ایک شمارہوتی ہے،اس طرح بے اعتبارکی جائے،تومذاہب اسلامی میں ایک مطلب کوثابت کرنے یامستردکرنے کے سلسلہ میں کس منبع و ماخذپراعتماد کیا جا سکتا ہے ؟اگر ائمہ
مذاہب کی زبانی متوا تراحادیث معتبرنہیں ہو ں گی توپھرکونسی حدیث معتبرہوگی؟!
کیاحدیث کوقبول اورمستردکرنے کے لئے کوئی قاعدہ و ضابط ہے یاہرکوئی اپنے ذوق وسلیقہ نیزمرضی کے مطابق ہرحدیث کوقبول یامستردکرسکتاہے؟کیایہ عمل سنّت رسول (ص)کے ساتھ زیادتی اوراس کامذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟
شیخ محمدعبدہ نے آیہء شریفہ کے معنی پردقت سے توجہ نہیں کی ہے اورخیال کیاہے کہ لفظ ”نسائنا“حضرت فاطمہ زہراء )سلام اللہ علیہا )کے بارے میں استعمال ہواہے۔جبکہ”نسائنا“خوداپنے ہی معنی میں استعمال ہواہے،رہاسوال رسول خدا (ص) کی بیویوں کا کہ جن کی تعداداس وقت نوتھی ان میں سے کسی ایک میں بھی وہ بلند مرتبہ صلاحیت موجودنہیں تھی اورخاندان پیغمبر (ص) میں تنہاعورت،جوآپ کے اہل بیت میں شمارہوتی تھیں اورمذکورہ صلاحیت کی مالک تھیں،حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)تھیں،جنھیں انحضرت (ص) اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے۔17
”اٴنفسنا“کے بارے میں اس کتاب کی ابتداء میں بحث ہوچکی ہے انشا اللہ بعد والے محور میں بھی اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی ۔

ایک جعلی حدیث اوراہل سنّت کااس سے انکار

مذکورہ روایتوں سے ایک دوسرامسئلہ جوواضح ہوگیاوہ یہ تھاکہ خامس آل عبا)پنجتن پاک علیہم السلام)کے علاوہ کوئی شخض میدان مباہلہ میں نہیں لایاگیا تھا۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظربعض کتابوں میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کی گئی روایت کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہے،جس میں کہاگیاہے کہ پیغمبراکرم (ص) ابوبکراوران کے فرزندوں،عمراوران کے فرزندوں،عثمان اوران کے فرزندوں اورعلی علیہ السلام اوران کے
فرزندوں کواپنے ساتھ لائے تھے۔
ایک تو یہ کہ علماء ومحققین،جیسے آلوسی کی روح المعانی میںیادہانی کے مطابق،یہ حدیث جمہورعلماء کی روایت کے خلاف ہے،اس لئے قابل اعتمادنہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اس کی سندمیں چند ایسے افرادہیں جن پرجھوٹے ہونے کاالزام ہے،جیسے:سعیدبن عنبسہ رازی،کہ ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال18 میںیحییٰ بن معین کے حوا لے سے کہاہے کہ:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والا ہے“اورابوحاتم نے کہاہے کہ:”وہ سچ نہیں بولتاہے۔“اس کے علاوہ اس کی سندمیںھیثم بن عدی ہے کہ جس کے با رے میںذہبی کاسیراعلام النبلاء19میں کہناہے:ابن معین اورابن داؤدنے کہاہے:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والاہے“اس کے علاوہ نسائی اوردوسروں نے اسے متروک الحدیث جانا ہے۔
افسوس ہے کہ مذکورہ جعلی حدیث کاجھوٹامضمون حضرت امام صادق اورحضرت امام باقر )علیہماالسلام)سے منسوب کر کے نقل کیاگیاہے!

چھوتھامحور علی(ع)نفس پیغمبر (ص)ہیں

گزشتہ بحثوں میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ”اٴنفسنا“سے مرادکاخودپیغمبراکرم (ص) نہیں ہوسکتے ہیں اورچونکہ مذکورہ احادیث کی بناء پرمباہلہ میں شا مل ہونے والے افرادمیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام تھے،لہذاآیہء شریفہ میں”اٴنفسنا“کامصداق علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔یہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی واضح بلکہ برترین فضیلتوں میں سے ہے۔
قرآن مجید کی اس تعبیرمیں،علی علیہ السلام ،نفس پیغمبر (ص)کے عنوان سے پہچنوا ئے گئے ہیں۔چونکہ ہرشخص کاصرف ایک نفس ہوتا ہے،اس لئے حضرت علی علیہ السلام کاحقیقت میں نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا بے معنی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق،اطلاق حقیقی نہیں ہے بلکہ اس سے مرادماننداورمماثلت ہے۔چونکہ یہاں پریہ مماثلت مطلق ہے اس لئے اس اطلاق کاتقاضاہے کہ جوبھی خصوصیت اورمنصبی کمال پیغمبراکرم (ص)کی ذات میں موجود ہے وہ حضرت علی علیہ السلام میں بھی پاےاجانا چاہئے،مگر یہ کہ دلیل کی بناء پرکوئی فضیلت ہو،جیسے آپ پیغمبرنہیں ہیں۔رسا لت و پیغمبری کے علاوہ دوسری خصوصیات اورکمالات میں آپ رسول کے ساتھ شریک ہیں،من جملہ پیغمبر (ص) کی امت کے لئے قیادت وزعامت اورآنحضرت (ص) کی سارے جہاں،یہاں تک گزشتہ انبیاء پرافضلیت۔اس بناء پرآیہء شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پردلالت کر نے کے علاوہ بعد از پیغمبر ان کی امت کے علاوہ تمام دوسرے انبیاء سے بھی افضل ہو نے پر دلالت کرتی ہے۔

آیت کے استدلال میں فخررازی کابیان فخررازی نے تفسیرکبیرمیں لکھاہے:
”شہرری میں ایک شیعہ اثناعشری شخص۱ معلم تھاا س کاخیال تھاکہ حضرت علی(علیہ السلام) حضرت محمدمصطفی (ص)کے علاوہ تمام انبیاء)علیہم السلام)سے افضل وبرترہیں، اور یوں کہتاتھا:جوچیزاس مطلب پردلالت کرتی ہے،وہ آیہء مباہلہ میں خدا وندمتعال کایہ قول ہے کیونکہ”اٴنفسنا“ سے مرادپیغمبراکرم (ص) نہیں ہیں،کیونکہ انسان خودکونہیں پکارتاہے۔اس بناء پر نفس سے مرادآنحضرت (ص) کے علاوہ ہے اوراس بات پر اجماع ہے کہ نفس سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام) ہیں لہذاآیہئ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفس علی(علیہ السلام)سے مراد درحقیقت نفس پیغمبر (ص)ہے،اس لئے ناچار آپ کا مقصدیہ ہے کہ نفس علی نفس رسول کے مانندہے اوراس کالازمہ یہ ہے کہ
۱۔یہ بزرگ مرد،کہ جس کے بارے میں فخررازی نے یوں بیان کیاہے،جیسے کہ اس کی زندگی کے حالات کی تشریح کتابوں میں کی گئی ہے،شیعوں کے ایک بڑے مجتہداورعظیم عقیدہ شناس اورفخر رازی کے استادتھے۔مرحوم محدث قمی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:شیخ سدید الدین محمودبن علی بن الحسن حمصی رازی ،علّامہ فاضل، متکلم اور علم کلام میں کتاب”التعلیق العراقی“کے مصنف تھے۔شیخ بہائی سے ایک تحریرکے بارے میںروایت کرتاہے کہ وہ شیعہ علماء ومجتہدین میں سے تھے اورری کے حمص نامی ایک گاؤں کے رہنے والے تھے،کہ اس وقت وہ گاؤںویران ہوچکاہے۔ )سفینة البحار،ج۱،ص۳۴۰،انتشارات کتاب خانہ محمودی)
مرحوم سیدمحسن امین جبل عاملی کتاب”التعليق العراقی،یاکتاب المنقذمن التقليد“کے ایک قلمی نسخہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس پرلکھا گیاتھا:”اٴنهامن إملائ مولانا ا لشيخ الکبير العالم سديد الدّين حجّةالاسلام والمسلمين لسان الطائفةوالمتکلمين اسد المناظرين محمودبن علی بن الحسن الحمصی ادام اللّٰه فی العزّبقائه وکبت فی الذّلّ حسدته واعداه۔۔“یعنی :یہ نسخہ استاد بزرگ اوردانشورسدیدالدین حجةالاسلام والمسلمین، مذہب شےعیت کے تر جمان اور متکلمین،فن منا ظرہ کے ماہرمحمود بن علی بن الحسن الحمصی کااملا ہے کہ خدائے متعال اس کی عزت کو پائدار بنادے اور اس کے حاسدوں اور دشمنوں کو نابودکردے۔ )اعیا الشیعہ ،ج۱۰،ص۵ہ۱،دارالتعارف للمطبو عات،بیروت)
فیروزآبادی کتاب”القاموس المحیط“میں کہتاہے:”محمودبن الحمصی متکلم اخذ عنہ الامام فخر الدین“)القاموس المحیط،ج۲،ص۲۹۹،دار المعرفة،بیروت)
فیروزآبادی کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم عقیدہ شناس فخررازی کا استاد تھالیکن فخررازی نے اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔
یہ نفس تمام جہت سے اس نفس کے برابرہے۔اوراس کلیت سے صرف دوچیزیں خارج ہیں:ایک نبوت اوردوسرے افضلیت،کیونکہ اس پر سب کااتفاق ہے کہ علی(علیہ السلام)پیغمبرنہیں ہیں اور نہ ہی وہ پیغمبر (ص) سے افضل ہیں۔ان دومطالب کے علاوہ،دوسرے تمام امور ومسائل میں یہ اطلاق اپنی جگہ باقی ہے اوراس پراجماع ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیائے الہٰی سے افضل ہیں،لہذاعلی(علیہ السلام)بھی ان سب سے افضل ہوں گے۔“
مزید اس نے کہاہے:
”اس استدلال کی ایک ایسی حدیث سے تائید ہوتی ہے،جس کو موافق ومخالف سب قبول کرتے ہیں اوروہ حدیث وہ قول پیغمبراکرم (ص) ہے کہ جس میں اپ نے فرمایا:جوآدم(علیہ السلام)کو ان کے علم میں،نوح(علیہ السلام)کوان کی اطاعت میں اورابراھیم(علیہ السلام)کو ان کی خُلّت میں،موسیٰ(علیہ السلام)کوان کی ہیبت میں اورعیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی صفوت میں دیکھناچاہے تواسے علی بن ابیطالب(علیہ السلام)پرنظرڈالناچاہئے۔“
فخررازی نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے مزید لکھاہے:
”شیعہ علماء مذکورہء آیہء شریفہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ علی(علیہ السلام)تمام اصحاب سے افضل ہیں۔کیونکہ جب آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی (علیہ السلام)نفس رسول (ص)کے مانند ہے،سواء اس کے جو چیزدلیل سے خارج ہے اورنفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اصحاب سے افضل ہے،لہذانفس علی(علیہ السلام)بھی تمام اصحاب سے افضل قرار پائیگا“
فخررازی نے اس استدلال کے ایک جملہ پراعتراض کیا ہے کہ ہم اس آیہء شریفہ سے مربوط سوالات کے ضمن میں آیندہ اس کاجواب دیں گے۔

علی(ع)کونفس رسو ل جاننے والی احادیث

 حضرت علی علیہ السلام کونفس رسول (ص)کے طورپرمعرفی کرنے والی احادیث کوتین گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:
پہلاگروہ:
وہ حدیثیں جوآیہء مباہلہ کے ذیل میں بیان ہوئی ہیں:
ان احادیث کا ایک پہلو خامس آل عبا علیہم السلام کے مباہلہ میں شرکت سے مربوط تھا کہ جس کو پہلے بیان کیاگیاہے اوریہاں خلاصہ کے طورپرہم پیش کرتے ہیں:
الف:ابن عباس آیہء شریفہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”وعلی نفسہ“”علی(ع)نفس پیغمبر)ص)ہیں۔“یہ ذکرآیہء مباہلہ میں ایاہے۔ 20
ب:شعبی ،اہل بیت،علہیم السلا م کے بارے میں جابر بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:”اٴبناء نا“ سے حسن وحسین)علیہم السلام)”نساء نا“سے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”اٴنفسنا“سے علی بن ابیطالب)علیہ السلام ) مرادہیں۔21
ج:حاکم نیشابوری،عبداللہ بن عباس اوردیگر اصحاب سے،پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ مباہلہ میں علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لانے والی روایت کومتواترجانتے ہیں اورنقل کرتے ہیں کہ”اٴبناء نا“سے حسن وحسین علیہم السلام،”نساء نا“سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہااور”اٴنفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔22
د۔حضرت علی علیہ السلام کی وہ حدیث،جس میں اپ(ع)اصحاب شوریٰ کوقسم دے کراپنے فضائل کا ان سے اقرار لیا ہے آپ فرماتے ہیں:
”نشدتکم اللّٰه هل فيکم اٴحد اٴقرب إلير سول اللّٰه (ص) فی الرحم ومن جعله رسول اللّٰه نفسه وإبناء ه ۔۔۔غيری؟“ 23
”یعنی:میں تمھیں خداکی قسم دیتاہوں!کیا تم لوگوں میں قرابت اور رشتہ داری کے لحاظ سے کوئی ہے جومجھ سے زیادہ رسول اللہ (ص)کے قریب ہو؟کوئی ہے جسے آنحضرت (ص)نے اپنانفس اوراسکے بیٹوں کواپنابیٹاقراردیاہو؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے کہ ہم میں کوئی ایسا،نہیں ہے۔“
دوسراگروہ:وہ حدیثیں جوقبیلہء بنی ولیعہ سے مربوط ہیں:یہ احادیث اصحاب کے ایک گروہ جیسے ابوذر،جابربن عبداللہ اورعبداللہ بن حنطب سے نقل ہوئی ہیں۔ان حدیثوں کامضمون یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے)ابوذر کے بقول) فرمایا:
”ولینتہینّ بنوولیعہ اٴولاٴبعثَنّ إلیہم رجلاًکنفسی یمضی فیہم اٴمری فیقتل المقا تلہ ولیسبی الذریة۔۔۔24
قبیلہء بنی ولیعہ کواپنے امور سے باز آجاناچاہئے،اگر انھوں نے ایسانہیں کیاتو میں ان کی طرف اپنے مانند ایک شخص کوبھیجوں گا جومیرے حکم کوان میں جاری کرے گا۔جنگ کرنے والوں کو وہ قتل کرے گااوران کی ذرّیت کواسیربنائے گا۔
عمر،جو میرے پیچھے کھڑے ہو ئے تھے انہوں،نے کہا:آنحضرت (ص) کااس سے مرادکون ہے؟میں نے جواب دیاتم اور تمہارادوست)ابوبکر) اس سے مرادنہیں ہے تو اس نے
اس کے محقق نے اس ضمن میں کہاہے:اس حدیث کی سند میں موثق راوی موجود ہیں۔
المنصف لاٴبن اٴبی شیبتہ، ج۶، ص۳۷۴، دارالتاج، المعجم الاٴوسط للطبرانی،ج۴،ص۴۷۷،مکتبة المعارف،الریاضی۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ”المعجم الاوسط“میں عمداً یا غلطی سے ”کنفسی“کے بجائے”لنفسی“آیا ہے،اورھیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے ” کنفسی“روایت کی ہے۔مجمع الزوائد۔مجمع الزوائد ھیثمی ،ج۷،ص۱۱۰،دارالکتاب العربی و ص۲۴۰،دارالفکر۔
کہاکون مرادہے؟میں نے کہا:اس سے مرادوہ ہے جواس وقت اپنی جوتیوں کو پیوندلگانے میں مصروف ہے۔کہا تو پھرعلی(علیہ السلام)ہیں جواپنی جویتوں کوٹانکے میں مصروف ہیں۔تیسراگروہ:وہ حدیثیں جوپیغمبر)ص)کے نزدیک محبوب ترین افراد کے بارے میں ہیں۔
بعض ایسی حدیثیں ہیں کہ جس میں پیغمبراکرم صل (ص) سے سوال ہوتاہے کہآپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟جواب کے بعدآنحضرت (ص) سے علی(علیہ السلام)کی محبوبیت یاافضلیت کے بارے میں سوال کیاجاتاہے۔پیغمبراکرم (ص)اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں:”إنّ ہذایساٴلنی من النفسی“یعنی:یہ سوال مجھ سے خود میرے بارے میں ہے!یعنی علی(علیہ السلام)میرانفس ہے۔25ان میں سے بعض احادیث میں،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)پیغمبراسلام (ص)سے سوال کرتی ہیں،کیاآپنے علی(علیہ السلام)کے بارے میں کچھ نہیں فرمایاہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
”علیّ نفسی فمن راٴیتہ اٴن یقول فی نفسہ شیئاً26“
یعنی:علی(علیہ السلام)میرانفس ہے تم نے کس کودیکھاہے،جواپنے نفس کے بارے میں کچھ کہے؟یہ احادیث عمروعاص،عائشہ اورجد عمروبن شعیب جیسے بعض اصحاب سے نقل ہوئی ہیں۔
اس طرح کی حدیثیں مختلف زبانوں سے روایت ہوئی ہیں اوران کی تعدادزیادہ ہے۔جس سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ علی علیہ السلام،نفس پیغمبر (ص)ہیں اورآیہئ شریفہ کی دلالت پرتاکیدکرتی ہے، سواء اس کے کہ کوئی قطعی ضرورت اورخارجی دلالت کی وجہ سے اس اطلاق سے خارج ہوا جائے)جیسے نبوت جواس سے خارج ہے)لہذاآنحضرت (ص)کے
دوسرے تمام عہدے من جملہ تمام امت اسلامیہ پر آپ (ص)کی فضیلت نیز قیادت وزعامت ا س اطلاق میں داخل ہے۔

پانچواں محور آیت کے بارے میں چندسوالات اور ان کے جوابات

آلوسی سے ایک گفتگو:

 آلوسی،اپنی تفسیر”روح المعانی 27 “میں اس آیہء شریفہ کی تفسیر کے سلسلہ میں کہتاہے:
”اہل بیت پیغمبر (ص)کے آل اللہ ہونے کی فضیلت کے بارے میں اس آیہء شریفہ کی دلالت کسی بھی مومن کے لئے ناقابل انکارہے اوراگرکوئی اس فضیلت کوان سے جداکرنے کی کوشش کرتا ہے تویہ ایک قسم کی ناصبیت وعنادہے اورعناد و ناصبیت ایمان کے نابود کر نے کاسبب ہے۔“

شیعوں کااستدلال

 اس کے بعد)آلوسی)آیہء مذکورہ سے رسول خدا (ص)کے بعدعلی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کے سلسلہ میں شیعوں کے استدلال کوبیان کرتاہے اوراس روایت سے استنادکرتاہے کہ آیہء کریمہ کے نازل ہونے کے بعد پیغمبراسلام (ص) مباہلہکے لئے علی،فاطمہ،اورحسنین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لائے،اس کے بعدکہتاہے:
”اس طرح سے”اٴبناء نا“کا مراد سے حسن وحسین)علیہماالسلام)،”نساء نا“سے مرادفاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”اٴنفسنا“سے مرادعلی(علیہ السلام)ہیں۔جب علی(علیہ السلام)نفس رسول قرار پائیں گے تو اس کا اپنے حقیقی معنی میں استعمال محال ہو گا)کیونکہ
حقیقت میںعلی علیہ السلام خودرسول اللہ (ص)نہیں ہوسکتے ہیں) لہذا قھراً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت (ص) کے مساوی اورمماثل ہیں۔چونکہ پیغمبراسلام (ص)امورمسلمین میں تصرف کرنے کے سلسلہ میں افضل اوراولٰی ہیں،لہذا جو بھی ان کے مماثل ہو گاوہ بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح سے پوری امت کے حوالے سے حضرت علی(علیہ السلام)کی افضیلت اورامت پر ان کی سرپرستی اس آیہء شریفہ سے ثابت ہوتی ہے۔“

شیعوں کے استدلال کے سلسلہ میں الوسی کاپہلااعتراض

 اس کے بعدآلوسی شیعوں کے استدلال کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے:شیعوں کے اس قسم کے استدلال کاجواب یوں دیاجاسکتاہے:
ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ”اٴنفسنا“سے مراد حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)ہوں گے،بلکہ نفس سے مرادخودپیغمبر (ص)ہی ہیں اورحضرت امیر (علیہ السلام) ”اٴبنائنا“میں داخل ہیں کیونکہ دامادکوعرفاًبیٹاکہتے ہیں۔
اس کے بعدشیعوں کے ایک عظیم مفسرشیخ طبرسی کابیان نقل کرتاہے کہ انہوں نے کہاہے کہ”اٴنفسنا“سے مرادخودپیغمبر (ص) نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کونہیں بلاتاہے،اس نے)شیخ کی)اس بات کوہذیان سے نسبت دی ہے؟!

اس اعتراض کاجواب

 آلوسی اپنی بات کی ابتداء میں اس چیز کو تسلیم کرتاہے کہ آیہء کریمہ پیغمبر (ص)وکے خاندان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اس فضیلت سے انکار کو ایک طرح کے بغض و عناد سے تعبیر کرتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم فضیلت کوآنحضرت (ص) کے خاندان سے منحرف کرنے کے لئے کس طرح وہ خودکوشش کرتاہے اوراپنے اس عمل سے اس سلسلہ میں بیان کی گئی تمام احادیث کی مخا لفت کرتا ہے اورجس چیز کوابن تیمیہ نے بھی انجام نہیں دیاہے)یعنی”اٴنفسنا“کے علی علیہ السلام پرانطباق سے انکارکرنا)اسے انجام دیتا ہے۔
اگرچہ ہم نے بحث کی ابتداء میں”اٴنفسنا“کے بارے میں اوریہ کہ اس سے مراد خودپیغمبراسلام (ص) نہیں ہوسکتے ہیں،بیان کیاہے،لیکن یہاں پر بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر”اٴنفسنا“سے مرادخودپیغمبراسلام (ص)ہوں اورعلی علیہ السلام کو”اٴبناء نا“کے زمرے میں داخل کر لیا جائے تو یہ غلط ہے اور دوسرے یہ کہ خلاف دلیل ہے۔
اس کاغلط ہونااس لحاظ سے ہے کہ آیہء شریفہ میں”بلانا اپنے“حقیقی معنی میں ہے۔اور جوآلوسی نے بعض استعمالات جیسے”دعتہ نفسہ“کورائج ومرسوم جا ناہے،اس نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ اس قسم کے استعمالات مجازی ہیں اوران کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آیہء مذکورہ میں کوئی ایسا قرینہ موجودنہیں ہے،بلکہ یہاں پر”دعتہ نفسہ“کے معنی اپنے آپ کو مجبوراورمصمم کرناہے نہ اپنے آپ کو بلانااورطلب کرنا۔
اس کے علاوہ”اٴبنائنا“ کے زمرے میں امیرالمؤمنین(علیہ السلام)کو شامل کر نا صرف اس لئے کہ وہ آنحضرت (ص)کے داماد تھے گویالفظ کو اس کے غیر معنی موضوع لہ میں ہے اور لفظ کواس کے معانی مجازی میں بغیر قرینہ کے حمل کر تاہے۔
اس لئے”اٴبناء نا“کا حمل حسنین علیہما السلام کے علاوہ کسی اورذات پر درست نہیں ہے اور”اٴنفسنا“کا لفظ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اورپر منطتبق نہیں ہو تاہے۔
اگرکہاجائے کہ:کونسامرجح ہے کہ لفظ ”ندع“کا استعمال اس کے حقیقی معنی میں ہو اور”اٴنفسنا“کااستعمال حضرت علی علیہ السلام پر مجازی ہو؟بلکہ ممکن ہے کہا جائے”اٴنفسنا“خودانسان اوراس کی ذات پراطلاق ہو جوحقیقی معنی ہے اور”ندع“کے معنی میں تصرف کر کے ”نحضر“کے معنی لئے جائیںیعنی اپنے آپ کوحاضرکریں۔
جواب یہ ہے کہ:اگر”ندع“ کا استعمال اپنے حقیقی معنی ہےں ہوتوایک سے زیادہ مجاز در کارنہیں ہے اوروہ ہے”اٴنفسنا“کا حضرت علی علیہ السلام کی ذات پراطلاق ہو نالیکن اگر”ندع“کو اس کے مجاز ی معنی پر حمل کریں تو اس سے دوسرے کا مجاز ہونابھی لازم آتاہے یعنی علی علیہ السلام کا ”اٴبناء نا“پراطلاق ہونا،جوآنحضرت صلی (ص)کے داماد ہیں اوراس قسم کے مجاز کے لئے کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔
لفظ ”اٴنفسنا“ کے علی علیہ السلام کی ذات پر اطلاق ہونے کا قرینہ ”ندع“ و ”اٴنفسنا“ کے درمیان پائی جا نے والی مغایرت ہے کہ جوعقلاًوعرفاً ظہور رکھتی ہے۔اس فرض میں”ندع“بھی اپنے معنی میں استعمال ہواہے اور”اٴبناء نا“بھی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہواہے۔
لیکن یہ کہ آلوسی کی بات دلیل کے خلاف ہے،کیونکہ اتنی سا ری احادیث جونقل کی گئی ہیںوہ سب اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ”اٴنفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں اوریہ دعویٰ تواترکے ذریعہ بھی ثابت ہے 28 لہذاوہ سب احادیث اس قول کے خلاف ہیں۔

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسرااعتراض

 شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسراجواب یہ ہے:اگرفرض کریں کہ”اٴنفسنا“کا مقصداق علی(علیہ السلام)ہوں،پھربھی آیہء شریفہ حضرت علی(ع)کی بلافصل خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔کیونکہ”اٴنفسنا“ کااطلاق حضرت علی(ع)پراس لحاظ سے ہے کہ نفس کے معنی قربت اورنزدیک ہو نے کے ہیں اوردین و آئین میں شریک ہونے کے معنی میں ہے اوراس لفظ کا اطلاق حضرت علی(ع)کے لئے شاید اس وجہ سے ہوان کا پیغمبر (ص) کے ساتھ دامادی کارشتہ تھااوردین میں دونوں کا اتحادتھا۔اس کے علاوہ اگرمقصودوہ شخص ہوجوپیغمبراکرم
(ص)کے مساوی ہے تو کیامساوی ہونے کامعنی تمام صفات میں ہے یابعض صفات میں؟اگر تمام صفات میں مساوی ہونامقصود ہے تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام)پیغمبر (ص)کی نبوت اورخاتمیت اورتمام امت پرآپکی بعثت میں شریک ہیں اوراس قسم کامساوی ہونامتفقہ
طورپرباطل ہے۔اوراگرمساوی ہونے کامقصدبعض صفات میں ہے یہ شیعوں کی افضلیت وبلا فصل امامت کے مسئلہ پردلالت نہیں کرتاہے۔

اس اعتراض کا جواب

 آلوسی کے اس اعتراض واستدلال کا جواب دیناچند جہتوں سے ممکن ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ:”نفس کے معنی قربت و نزدیکی“اوردین وآئین میں شریک ہوناکسی قسم کی فضیلت نہیں ہے،جبکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ایک حدیث کے مطابق سعدبن ابی وقاص نے معاویہ کے سامنے اسی معنی کوبیان کیااوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سبّ وشتم سے انکار کی دلیل کے طورپر پیش کیاہے۔

دوسرے یہ کہ :نفس کے معنی کا اطلاق دین و آئین میں شریک ہونایارشتہ داری وقرابتداری کے معنی مجازی ہے اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اوریہاں پرایسا کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ:جب نفس کے معنی کااطلاق اس کے حقیقی معنی میں ممکن نہ ہوتواس سے مرادوہ شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہواوریہ جا نشینی اورمساوی ہو نا مطلقاًہے اوراس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف اورعہدے شامل ہیں،صرف نبوت قطعی دلیل کی بناء پراس دائرہ سے خارج ہے۔

چوتھے یہ کہ:اس صورت میں آلوسی کی بعد والی گفتگو کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ مساوات تمام صفات میں ہے یا بعض صفات میں،کیونکہ مساوات تمام صفات میں اس کے اطلاق کی وجہ سے ہے،صرف وہ چیزیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کو قطعی دلیلوں کے ذریعہ خارج و مستثنی کیا گیا ہے جیسے نبوت و رسالت ۔لہذا پیغمبراکرم (ص) کی افضیلت اور امت کی سر پرستی نیز اسی طرح کے اور تمام صفات میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر کے شریک نیز ان کے برابر کے جا نشین ہیں ۔

شیعوں کے استدلال پر آلوسی کا تیسرا عتراض

 آلوسی کا کہنا ہے:اگریہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت پر کسی اعتبار سے دلالت کرتی بھی ہے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ:حضرت علی(ع)پیغمبر (ص) کے زمانہ میں امام ہوں اوریہ متفقہ طورپر باطل ہے۔ییی
اگر یہ خلافت کسی خاص وقت کے لئے ہے تو سب سے پہلی بات یہ کہ اس قید کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیںیعنی حضرت علی(ع)ایک خاص وقت، میں کہ جوان کی خلافت کازمانہ تھا،اس میں وہ اس منصب پرفائزتھے۔

اس اعتراض کاجواب

سب سے پہلی بات یہ کہ :حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی آنحضرت صل (ص)کے زمانہ میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو بہت سی احادیث سے ثا بت ہے اورا س کے لئے واضح ترین حدیث،حدیث منزلت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر (ص) کی نسبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ہارون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، واضح ر ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے جانشین تھے کیوں کہ قرآن مجید حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ذکر کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ”اٴخلفنی فی قومی“ 29 ”تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“
اس بناء پر جب کبھی پیغمبر اکرم (ص) حاضر نہیں ہو تے تھے حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہو تے تھے )چنانچہ جنگ تبوک میں ایساہی تھا)اس مسئلہ کی حدیث منزلت میں مکمل وضاحت کی گئی ہے۔30
دوسرے یہ کہ:حضرت علی علیہ السلام کا نفس پیغمبر (ص) قرار دیا جانا جیسا کہ آیہء شریفہ مباہلہ سے یہ مطلب واضح ہے،اوراگر کوئی اجماع واقع ہو جائے کہ آنحضرت کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام آپ کے جانشین نہیں تھے،تویہ اجماع اس اطلاق کوآنحضرت (ص) کی زندگی میں مقید و محدود کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پریہ اطلاق آنحضرت (ص) کی رحلت کے وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ باقی ہے۔
لہذایہ واضح ہوگیا کہ آلوسی کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اورآیہء شریفہ کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر بلا منا قشہ ہے۔

فخررازی کا اعتراض:

فخررازی نے اس آیہء شریفہ کے ذیل میں محمودبن حسن حصمی31کے استدلال کو ،کہ جو انھوں نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی گزشتہ انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے،ٰٰنقل کرنے کے بعد)ان کے استدلال کو تفصیل سے ذکر کیا ہے)اپنے اعتراض کو یوں ذکر کیا ہے:
ایک تویہ کہ اس بات پراجماع قائم ہے کہ پیغمبر (ص)غیرپیغمبرسے افضل ہو تا ہے۔
دوسرے: اس بات پر بھی اجماع ہے کہ)علی علیہ السلام)پیغمبرنہیں تھے۔مذکورہ ان
دومقدموں کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیہء شریفہ حضرت علی(علیہ السلام)کی گزشتہ انبیاء)علیہم السلام)پرافضلیت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

فخررازی کے اعتراض کا جواب ہم فخررازی کے جواب میں کہتے ہیں:
پہلی بات یہ کہ ا س پر اجماع ہے کہ ہر ”نبی غیر نبی سے افضل ہے“اس میں عمومیت نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کریں کہ ،ہر نبی دوسرے تمام افرادپر حتی اپنی امت کے علاوہ دیگر افراد پر بھی فوقیت وبرتری رکھتا ہے بلکہ جو چیز قابل یقین ہے وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت سے افضل ہوتا ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ کہاجائے:”مرد عورت سے افضل ہے“ ا ور یہ اس میں معنی ہے کہ مردوں کی صنف عورتوں کی صنف سے افضل ہے نہ یہ کہ مردوں میں سے ہرشخص تمام عورتوں پرفضیلت وبر تری رکھتا ہے۔اس بناء پراس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جو مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ:مذکورہ مطلب پر اجماع کاواقع ہونا ثابت نہیں ہے،کیونکہ شیعہ علماء نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اوروہ اپنے ائمہ معصو مین) علیہم السلام) کو قطعی دلیل کی بناء پر گزشتہ انبیاء سے برتر جانتے ہیں۔
ابوحیان اندلسی نے تفسیر”البحرالمحیط 32“میں شیعوں کے استدلال پرآیت میں نفس سے مراد تمام صفات میں ہم مثل اور مساوی ہو ناہے)فخررازی 33 کا ایک اور اعتراض نقل
کیا ہے جس میں یہ کہا ہے:
”نفس کے اطلاق میں یہ ضروری نہیں ہے تمام اوصاف میںیکسانیت ویکجہتی
ہو،چنانچہ متکلمین نے کہا ہے:” صفات نفس میں یک جہتی اوریک سوئی یہ متکلمین کی ایک اصطلاح ہے،اورعربی لغت میںیکسانیت کابعض صفات پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔عرب کہتے ہیں:”ہذامن اٴنفسنا“یعنی:یہ”اپنوں میں سے ہے،یعنی ہمارے قبیلہ میں سے ہے۔“
اس کاجواب یہ ہے کہ تمام صفات یابعض صفات میں یکسا نیت ویکجہتی یہ نہ تو لغوی بحث ہے اور نہ ہی کلامی ،بلکہ یہ بحث اصول فقہ سے مربوط ہے،کیونکہ جب نفس کا اس کے حقیقی معنی میں استعمال نا ممکن ہو تو ا سے اس کے مجازی معنی پر عمل کرنا چاہٴے اور اس کے حقیقی معنی سے نزدیک ترین معنی کہ جس کو اقرب المجازات سے تعبیرکیا جاتا ہے )کواخذ کر نا چا ہیئے اور”نفس“کے حقیقی معنی میں اقرب المجازات مانندو مثل ہوناہے۔
یہ مانندو مثل ہونامطلق ہے اوراس کی کوئی محدودیت نہیں ہے اوراس اطلاق کاتقاضاہے کہ علی علیہ السلام تمام صفات میں پیغمبراکرم (ص) کے مانندو مثل ہیں،صرف نبوت ورسالت جیسے مسائل قطعی دلائل کی بناپراس مانندو مثل کے دائرے سے خارج ہیں۔اس وضاحت کے پیش نظرتمام اوصاف اورعہدے اس اطلاق میں داخل ہیں لہذامن جملہ تمام انبیاء پرفضیلت اورتمام امت پرسرپرستی کے حوالے سے آپ (علیہ السلام)علی الاطلاق رسول (ص) کے ما نندہیں۔

ابن تیمیّہ کا اعتراض

 ابن تیمیّہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پرعلامہ حلی کے استدلال کوآیہء مباہلہ سے بیان کرتے ہوئے کہتاہے:
”یہ کہ پیغمبراکرم (ص)مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ اورحسن وحسین )علیہم
السلام)کو اپنے ساتھ لے گئے یہ صحیح حدیث میں ایاہے 34 ،لیکن یہ علی(علیہ السلام)کی امامت اور ان کی افضلیت پردلالت نہیں کر تاہے،کیونکہ یہ دلالت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کے پیغمبر (ص)کے مساوی ہونے پردلالت کرے حالانکہ آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص پیغمبر (ص)کے مساوی نہیں ہے،نہ علی(علیہ السلام)اورنہ ان کے علاوہ کوئی اور۔
دوسرے یہ کہ”اٴنفسنا“کالفظ عربی لغت میں مساوات کا معنی میں نہیں ایاہے 35 اورصرف ہم جنس اور مشابہت پردلالت کرتاہے۔اس سلسلہ میں بعض امور مشابہت،جیسے ایمان یادین میں اشتراک کافی ہے اوراگرنسب میں بھی اشتراک ہوتواور اچھا ہے۔ اس بناپرآیہئ شریفہمیں”اٴنفسنا“ سے مرادوہ لوگ ہیں جودین اورنسب میں دوسروں سے زیادہ نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے آنحضرت (ص)۔ بیٹوں میں سے حسن وحسین)علیہما السلام)اور عورتوں میں سے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اورمردوں میں سے علی)علیہ ا لسلام)کواپنے ساتھ لے گئے اورآنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے ان سے زیادہ نزدیک ترکوئی نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ مباہلہ اقرباء سے انجام پاتاہے نہ ان افرادسے جوانسان سے دورہوں،اگرچہ یہ دوروالے افرادخداکے نزدیک افضل وبرترہوں۔
ابن تیمیہ کہ جس نے رشتہ کے لحاظ سے نزدیک ہونے کا ذکرکیاہے اوردوسری طر ف پیغمبر (ص)کے چچاحضرت عباس کہ جورشتہ داری کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کی بہ نسبت زیادہ قریب تھے اورزندہ تھے۔ کے بارے میں کہتاہے:
”عباس اگرچہ زندہ تھے،لیکن سابقین اولین)دعوت اسلام کو پہلے قبول کر نے والے) میں ان کا شمارنہیں تھااورپیغمبراکرم (ص) کے چچیرے بھائیوں میں بھی کوئی شخص علی(علیہ السلام)سے زیادہ آپ سے نزدیک نہیں تھا۔اس بنا پرمباہلہ کے لئے علی(علیہ السلام)کی جگہ پرُ کر نے والاپیغمبر (ص)کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو آپ انتخاب کرتے یہ مطلب کسی بھی جہت سے علی(علیہ السلام)کے آنحضرت (ص)سے مساوی ہونے پردلالت نہیں کرتاہے۔“

ابن تیمیّہ کے اعتراض کا جواب ابن تیمیہ کاجواب چندنکتوں میں دیاجاسکتاہے:
۱۔ اس کا کہناہے:”پیغمبر (ص)کے مساوی ومانند کوئی نہیں ہوسکتا ہے“۔اگرمساوی ہونے کا مفہوم و مقصدتمام صفات،من جملہ نبوت و رسالت میں ہے تویہ صحیح ہے۔لیکن جیسا کہ بیان ہوا مساوی ہونے کا اطلاق پیغمبر (ص)کی ختم نبوت پر قطعی دلیلوں کی وجہ سے مقید ہے اوراس کے علاوہ دوسرے تمام امورمیں پیغمبر کے مانند و مساوی ہونا مکمل طورپراپنی جگہ باقی ہے اوراس کے اطلاق کو ثابت کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی یہ بات کہ”اٴنفسنا“کا لفظ عربی لغت میں مساوات کے معنی کا اقتضاء نہیں کر تا ہے“صحیح نہیں ہے اگرچہ اس نے قرآن مجید کی چند ایسی آیتوں کو بھی شاہد کے طورپر ذکرکیا ہے جن میں”اٴنفسهم یااٴنفسکم“کا لفظ استعمال ہوا ہے،حتی کہ ان آیتوں میں بھی مساوی مراد ہے۔مثلاًلفظ”ولاتلمزوا اٴنفسکم“يعنی”اپنی عیب جوئی نہ کرو“جب لفظ”اٴنفس“کا اطلاق دوسرے افرادپرہوتاہے،تومعنی نہیںرکھتاہے وہ حقیقت میں خودعین انسان ہوں۔ناچاران کے مساوی اورمشابہ ہونے کامقصد مختلف جہتوں میں سے کسی ایک جہت میں ہے اور معلوم ہے کہ وہ جہت اس طرح کے استعمالات میں کسی ایمانی مجموعہء یاقبیلہ کے مجموعہ کا ایک جزو ہے۔
اس بناء پران اطلاقات میں بھی مساوی ہونے کالحاظ ہوا ہے ،لیکن اس میں قرینہ موجودہے کہ یہ مساوی ایک خاص امر میں ہے اوریہ اس سے منافات نہیں رکھتاہے اور اگر کسی جگہ پرقرینہ نہیں ہے تومساوی ہونے کا قصد مطلق ہے،بغیراس کے کہ کوئی دلیل اسے خارج کرے۔

۲۔ابن تیمیہ نے قرابت یا رشتہ داری کو نسب سے مر تبط جانا ہے،یہ بات دودلیلوں سے صحیح نہیں ہے:
سب سے پہلے بات تو یہ، مطلب آیہء شریفہ ”نسائنا ونسا ئکم“سے سازگار نہیں ہے،کیونکہ ”نسائنا“کا عنوان نسبی رشتہ سے کوئی ربطہ نہیں رکھتا ہے۔البتہ یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا آنحضرت (ص) کی دختر گرامی تھیں اورآپ سے نسبی قرابت رکھتی تھیں،کیونکہ واضح ہے کہ آنحضرت (ص) سے ”بنا تنا“ ”ہماری“ بٹیاں)جو نسبی قرابت کی دلیل ہے)کے ذریعہ تعبیر نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ”نساء نا“کی تعبیر آئی ہے،اس لحاظ سے چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی عورتوں میں سے ہیں اس لئے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور عورت کہ جو اس لائق ہوکہ مباہلہ میں شریک ہو سکے وجود نہیں رکھتی تھی ۔
دوسرے یہ کہ اگرمعیارقرابت نسبی اور رشتہ داری ہے توآنحضرت (ص) کے چچاحضرت عباس(ع)اس جہت سے آنحضرت (ص) سے زیادہ نزدیک تھے لیکن اس زمرے میں انھیں شریک نہیں کیاگیاہے!
۔جیساکہ پہلے بیان کیاگیاہے۔
اس لحاظ سے قرابت،یعنی نزدیک ہونے سے مرادپیغمبراکرم (ص)سے معنوی قرابت ہے۔جس کاابن تیمیّہ نے مجبورہوکراعتراف کیاہے اورکہتاہے:
”علی(علیہ السلام)سابقین اوراولین میں سے تھے،اس لحاظ سے دوسروں کی نسبت آنحضرت (ص)سے زیادہ نزدیک تھے۔“
احادیث کی روسے مباہلہ میں شامل ہو نے والے افرادپیغمبراسلام (ص) کے خاص رشتہ دارتھے کہ حدیث میں انھیں اہل بیت رسول علیہم السلام سے تعبیرکیاگیاہے۔
ان میں سے ہرایک اہل بیت پیغمبر)علیہم السلام)ہونے کے علاوہ ایک خاص عنوان کا مالک ہے،یعنی ان میں سے بعض”اٴبنائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض”نسائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض دوسرے”اٴنفسنا“کے عنوان میں شامل ہیں۔
مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ”اٴنفسنا“کے اطلاق سے نسبی رشتہ داری کا تبادر وانصراف نہیں ہوتاہے اورعلی علیہ السلام کاپیغمبرخدا (ص) کے مانندومساوی ہو ناتمام صفات،خصوصیات اورعہدوں سے متعلق ہے،مگریہ کہ کوئی چیزدلیل کی بنیادپراس سے خارج ہوئی ہو۔
اہل بیت علیہم السلام کے مباہلہ میں حاضر ہو نے کامقصدواضح ہوگیاکہ مباہلہ میں شریک ہونے والے افرادکی دعارسول خد ا (ص) کی دعاکے برابرتھی اوران افراد کی دعاؤں کا بھی وہی اثرتھاجوآنحضرت (ص) کی دعاکاتھااوریہ اس مقدس خاندان کے لئے ایک بلندوبرترمرتبہ ومقام ہے۔
___________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔
۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔
۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔
4۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔
5۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔
6۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“
7۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر
8۔معر فة علوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیة،بیروت
9۔احکام القرآن /جصاص/ج۲/ص۱۴دارالکتاب العربی بیروت، اختصاص مفید/ص۵۶/من منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة، اسباب النزول /ص۶۸/دارالکتب العلمیة بیروت،اسد الغابة/ ج۴/ ص۲۵/ داراحیائ التراث العربی بیروت الا صابہ/ج۲/جزء ۴/ص۲۷۱، البحر المحیط/ج۳/ ص۴۷۹/ داراحیائ التراث العربی بیروت،البدایة و النھایة/ ج۵/ ص۴۹ دارالکتب العلمیة بیروت، البرھان/ ج۱/ص۲۸۹/ مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، التاج الجامع للاصول/ ج۳/ ص۳۳۳/داراحیاء التراث العربی بیروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج۴۲/ص۱۳۴/ دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص۱۷/ چاپ نجف، تفسیر ابن کثیر/ج۱/ص۳۷۸/دارالنعرفة بیروت،تفسیربیضاوی/ج۱/ص۱۶۳/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیرخازن) الباب التاٴویل) /ج۱/ص۲۳۶/دارالفکر، تفسیر الرازی/ج۸/ص۸۰/داراحیاء التراث العربی بیروت، تفسیرالسمر قندی) بحرالعلوم)/ج۱ص/۲۷۴دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر طبری/ ج۳ /ص۳۰۱۔۲۹۹/دالفکر،تفسیر طنطاوی/ ج۲/ ص۱۳۰/ دارالمعارف القاہرة، تفسیر علی بن ابراہیم قمی /ج۱/ص۱۰۴، تفسیر الماوردی/ ج۱/ ص۳۸۹و۳۹۹/ مؤسسة ظالکتب الثقافیة/ دارالکتب العلمیة بیروت، التفسیر المنیر/ج۳/ ص۲۴۵ ،۲۴۸، ۲۴۹/ دارالفکر، تفسیرالنسفی) در حاشیہئ خازن)/ ج۱/ ص۲۳۶/دارالفکر،تفسیر
10۔تفسیر علی بن ابراھیم،مطبعة النجف ،ج۱،ص۱۰۴،البرہان ج۱،ص۲۸۵
11۔تفسیر البرہان،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہئ مطبو عاتی اسما عیلیان
12۔انعام/۳۸
13۔انعام/۸۴۔۵
14۔البرہان ،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہ مطبو عاتی اسماعیلیان
15۔الاختصاص،ص۵۶،من منشورات جماعةالمدرسین فی الحوزةالعلمیة
16۔المنار،ج ۳،ص۳۲۲،دارالمعرفة بیروت
17۔اس سلسلہ میں بحث ،آیہء تطہیرکی طرف رجوع کیا جائے ۔
18۔روح المعانی،ج۳،ص۱۹۰،داراحیائ التراث ا لعربی
19۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۵۴،دارالفکر
20۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت
21۔اسباب النزول،ص۴۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت
22۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت
23۔تاریخ مدینتہ دمشق،ج۴۲،ص۴۱۳۱،دارالفکر
24۔السنن الکبیر للنسائی،ج۵،ص۱۲۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت۔
25۔جامع الاحادیث،سیوطی،ج۱۶،ص۲۵۷۔۲۵۶،دارالفکر،کنز العمال،ج۱۳،ص۱۴۳۔۱۴۲،مؤسسہ الرسالہ
26۔مناقب خوارزمی،ص۱۴۸،مؤسسہ النشرالاسلامی،مقتل الحسین علیہ السلام،ص۴۳،مکتبہ المفید۔
27۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،داراحیائ التراث العربی
28۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت
29۔اعراف /۱۴۲
30۔اس سلسلہ میں مصنف کا پمفلٹ”حدیث غدیر،ثقلین ومنزلت کی روشنی میں امامت“ملاحظ فرمائیں۔
31۔شیعوں کاایک بڑا عقیدہ شناس عالم جس کا پہلے ذکرآیا ہے۔
32۔البحرالمحیط،ج۲،ص۴۸۱،مؤسسہ التاریخ العربی ،داراحیائ التراث العربی
33۔اگرابوحیان کارازی سے مقصودوہی فخررازی ہے توان اعتراضات کواس کی دوسری کتابوں سے پیداکرناچاہئے،کیونکہ تفسیرکبیرمیں صرف وہی اعتراضات بیان کئے گئے ہیں جوذکرہوئے۔
34۔ابن تیمیہ نے قبول کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں”انفسنا“مذکورہ حدیث کے پیش نظر علی علیہ السلام پرانطباق کرتاہے
35۔ابن تیمیہ نے اپنی بات کے ثبوت میں قرآن مجیدکی پانچ آیتوں کوبیان کیاہے،من جملہ ان میں یہ آیتیں ہیں:
الف۔و لولا إذسمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنات باٴنفسہم خیراً)نور/۱۲”آخرایساکیوں نہ ہواکہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کوسناتومومن ومومنات اپنے بارے میں خیرکاگمان کرتے“مقصودیہ ہے کہ کیوں ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پراچھاگمان نہیں رکھتے ہیں۔ب۔”ولا تلمزوا اٴنفسکم“)حجرات/۱۱)”آپس میں ایک دوسرے کوطعنے بھی نہیں دینا“

مؤلف: مجمع جہانی اہل البیت ذرائع: اقتباس ازکتاب: امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

 مسلمانوں کی علمی مرکزیت صدیوں سے بحث و گفتگو کا موضوع بنی ہو‏ئی ہے اور یہ سوال ہمیشہ پیش آتارہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے وہ کونسی ہستیاں ہیں جو علمی لحاظ سے مرکزیت اور مرجعیت رکھتی ہیں۔ مسلمان جس قدر صدر اسلام کے زمانے سے دورہوتے جارہے ہیں اس بحث کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوتاجارہا ہے اسی طرح ان کے مابین اتحاد کی ضرورت بھی روز بروز زیادہ محسوس ہوتی جارہی ہے ۔قرآن کریم اور سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی اتحاد کے اساسی اور حقیقی محور ہیں۔لھذا ایسے علمی مرجع ومرکز کا تعین ضروری ہے جو قرآن وسنت کی تفسیر کرسکے اور ان کے معانی سے نقاب ہٹاسکے اور اپنی مستحکم رائے سے فقہی اور کلامی اختلافات کو ختم کرسکے۔ زیر نظر تحقیق میں ہم اس علمی مرجعیت کا مصداق اہل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرض کرتے ہوئے بحث کا آغاز کرتے ہیں ۔اس انحصار کا فائدہ یہ ہےکہ ہماری بحث واضح اور شفاف حدود میں پیش کی جائے گي اور ہم پراکندگي نیز تشتت آراء سے بھی محفوظ رہیں گے ۔یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہماری بحث مستحکم اور متقن دلیلوں پر استوارہے۔ یہ دلیلیں اس وقت پیش کی جائيں گی جب قرآن و سنت کی نظر میں علمی مرجعیت کا تذکرہ کیا جائے گا۔کیونکہ قرآن وسنت پر کسی اسلامی فرقے کو اختلاف نہيں ہے اورسب ان پر متفق ہیں اور ان ہی سے استدلال کرتے ہيں۔بنابریں اس بحث سے ہمارا ہدف اہل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علمی مرجعیت و مرکزیت ثابت کرنا ہے۔ ہم نے اپنی اس کاوش میں اہل سنت کی کتب حدیث، فقہ، و تاریخ سے شیعہ کتب سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔کیونکہ شیعہ اہل بیت علیھم السلام کی مرجعیت علمی میں کسی طرح کا شک نہیں کرتے یہ ان کے نزدیک ایک مسلمہ اصل ہے ۔ہماری اس بحث کے وہ لوگ مخاطب ہیں جنہيں اس اصل میں شک وتردید ہے ۔ہم اپنی بحث کو مکمل علمی معیارات پرپیش کررہے ہیں تاکہ ایسا نتیجہ پیش کریں کہ جس پر ہرمنصف انسان اتفاق کرے گا۔

 


اس مشترکہ مقصد میں کامیابی سے مسلمانوں کے تاریخی اختلافات حل ہوسکتے ہیں اور ایسا مشترکہ میدان فراہم ہوسکتا ہےجسمیں مسلمان دورحاضراور مستقبل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتے ہيں۔اسکے علاوہ اسلامی معارف کے ایک عظیم حصےکوضایع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے جس کو مسلمانوں کی اکثریت نظرانداز کردیتی ہے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی جبکہ وہ معارف کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ۔

 



قرآن و سنت کی نظر میں مسلمانوں کی علمی مرجعیت علمی

مرجعیت سے مراد جیسا کہ اشارہ کیاگيا وہ نقطہ مشترک ہے جس پر مسلمانوں کا اتفاق ہواور جو ان کے اختلافات، خاص طورسے فقہی اور اعتقادی اختلافات کو ختم کرسکے ۔یہ مرجعیت قرآن و سنت کے حقائق کواس طرح بیان کرتی ہےکہ جس سے مسلمانوں میں کوئي اختلاف پیدانہیں ہوتا۔چونکہ قرآن کریم اورسنت نبوی علی صاحبھا آلاف التحیۃ والثنا پر مسلمانوں کا بھرپور اتفاق ہے آئیے خود ان ہی سےمعلوم کرتے ہیں کہ اس مرجعیت کی نشانیاں کیا ہیں اور اس کو کیسے پہچانا جائے گا۔یہاں پر ہم حجیت ادلہ کی اصولی بحث نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے اصول بنایاہےکہ کسی بھی قیمت پرمتفقہ اصولوں خاص طورسے احادیث ونصوص کی دلالت وحجیت سے متعلق اصولوں سے خارج نہیں ہونگے ۔ہم نے مرجعیت علمی کے بارےمیں قرآنی آیات اور سنت نبوی کا استقراءکرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہےکہ ان نصوص میں اھل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرجعیت علمی کے علاوہ کسی اور مرجعیت علمی کی طرف بات نہیں کی گئي ہے ۔گرچہ بعض ضعیف روایات موجود ہیں جن پر مسلمانوں کو اختلاف ہے لھذا ہم ان کا سہارا نہیں لیں گے اور ان نصوص پر تکیہ کریں گے جن پرسارے مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔
ہم نے اپنی بحث کے لئے جو حدود معین کی ہیں ان کی اساس پر ادلہ کتاب وسنت پر ایک نظرڈالتے ہیں تاکہ بحث طولانی اور ملال آور نہ ہواور ہم اپنے مقصد سے نزدیک بھی ہوتے جائيں ۔
سب سے پہلے ان آيات کتاب مجید کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی تفسیر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی گئ ہے ۔
قرآن کریم میں اھل بیت رسول اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی علمی مرجعیت ۔



1۔آیت ذکر ۔


فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۔(النحل 43-انبیاء 7)
اگر نہیں جانتے ہوتو اھل ذکر سے سوال کرو۔
ابن جریر طبری کی تفسیر میں ان کی سند سے جابر جعفی سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئي تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا "نحن اھل الذکر "ہم اھل ذکر ہیں ۔2
حارث کہتے ہیں کہ :
سالت علیا عن هذه الآیة "فاسئلوا اهل الذکر "فقال والله انا نحن اهل الذکر نحن اهل الذکر نحن اهل العلم و نحن معدن التاویل و التنزیل(3)
میں نے علی علیہ السلام سے اس آيت کے بارےمیں سوال کیا کہ فاسئلوا اھل الذکر سے مراد کونسے افراد ہیں؟ آپ نے فرمایا خداکی قسم ہم اھل ذکر ہیں ہم اھل ذکر ہیں ہم اھل علم ہیں اور ہم معدن تاویل وتنزیل ہیں ۔


راسخون فی العلم ۔

ومایعلم تاویله الاالله والراسخون فی العلم 4۔
قرآن کی تاویل کو خدا اور راسخون فی العلم کےسوا کوئي نہيں جانتا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ہےکہ :این الذین زعموا انهم الراسخون فی العلم دوننا،کذبوا بغیاعلیناان رفعنا الله ووضعهم واعطانا وحرمهم وادخلنا و اخرجهم بنا یستطعی الهدی و یستجلی العمی 5۔
کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ ۔نہ ہم۔حاملان علم قرآن ہیں۔جھوٹ اور ستم سے جو ہم پرروارکھا ہواہے ۔خدا نے ہمیں رفعت عطا کی ہے اور انہیں نیچا کیا ہے ہمیں عطا کیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے ہمیں اپنے کنف عنایت مین لیا ہے اور انہیں اس سے دور رکھا ہے ۔لوگ ہمارے سہارے راہ ہدایت پر چلتےہیں اور تاریک دل ہم سے نور حاصل کرتے ہيں ۔


3۔علم کتاب کس کےپاس ہے؟

و یقول الذین کفروا لست مرسلاقل کفی بالله شهیدا بینی وبینکم و من عنده علم الکتاب 7۔
اور یہ کافر کہتےہيں کہ آپ رسول نہیں ہیں توکہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خداکافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے ۔
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ساءلت رسول الله عن هذہ الآیة قال ذاک اخی علی ابن ابیطالب 8۔
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آيت کےبارےمیں سوال کیا توآپ نے فرمایا "وہ میرے بھائي علی ابن ابیطالب ہیں "۔


4۔آیت تطہیر ۔

انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا۔9۔
بس اللہ کا ارادہ یہ ہےکہ اے اھل بیت تم سے ہربرائي کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہےکہ "انا واهل بیتی مطهرون من الذنوب ۔میں اور میرے اھل بیت گناہوں سے پاک ہیں ۔10۔
آپ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے"انا وعلی والحسن و الحسین و تسعة من ولد الحسین مطهرون معصومون۔11۔
میں علی حسن اور حسین اور حسین کی اولاد میں نو افراد پاک پاکیزاور معصوم ہیں ۔
آيت تطھیر اھل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحق میں خاص الخاص عنایت خداوندی کوبیان کرتی ہے اور یہ تاکید کرتی ہےکہ اھل بیت علیھم السلام ہر طرح کی لغزش و انحراف سے دورہیں تاکہ انسان ان کی اتباع کرسکے اور اپنے اختلافات حل کرنے کے لئے ان سے رجوع کرسکے ۔


5۔اجر رسالت ۔

قل لااسئلکم علیه اجرا الاالمودة فی القربی ۔12۔
آپ کہ دیجیے میں اپنی تئيس سالہ رسالت کے عوض کچھ نہیں چاہتامگر یہ کہ تم میرے قریبی افراد سے محبت کرو۔
عبداللہ ابن عباس سے روایت ہےکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارےمیں پوچھا گيا کہ "من ھم القربی " قال " علی فاطمہ و ابناھما" میرے قریبی افراد علی و فاطمہ اور ان کے دوبیٹے ہیں ۔13۔
سعید بن جبیر کہتےہیں کہ اھل قربی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیے اھل بیت ہیں 14۔
یہ آيت دلوں اور عقلوں کو اھل بیت رسول اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑدیتی ہے اور تاکید کرتی ہےکہ اھل بیت کی محبت ہی اجررسالت ہے اور ان کودوست رکھنا ۔کم از کم علمی لحاض سے۔حقیقی مودت ہے ۔
قرآن کریم میں آیک اور آيت ہے جس سے ہم یہ استدلال کرسکتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور محبت میں ملازمہ پایاجاتا ہے یہ آیت ہے :
"ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله ۔15۔اے رسول کہ دین اگر تم مجھے چاہتے ہوتو میری پیروی کرو تاکہ خدا بھی تمہیں دوست رکھے۔


سنت نبوی میں اھل بیت کی روسے اھل بیت کی علمی مرجعیت ۔
1۔حدیث کساء

حدیث کساء آیت تطھیر کی تفسیرکرتی ہے اور یہ بیان کرتی ہےکہ آيت تطھیر میں اھل بیت سے کونسی ہستیاں مراد ہیں۔ ابن عباس روایت کرتےہیں کہ "اخذ رسول الله ثوبه فوضعه علی علی و فاطمة و حسن وحسین و قال انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا16۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عباعلی و فاطمہ حسن حسین پرڈال دی اور فرمایا"خدا نے ارادہ کیا ہے تم سے اے اھل بیت ہرطرح کے رجس کو دوررکھے گاجسطرح دوررکھنے کا حق ہے ۔
ام سلمہ کہتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئي تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی فاطمہ حسن و حسین کو اپنے پاس بلایا اور ان پر خیبری عباڈال دی اور فرمایا اللهم هولاءاهل بیتی اللهم اذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا۔
خدا یا یہ میرے اھل بیت ہیں انہیں ہربرائي سے دوررکھ اور پاک وپاکیزہ کرجیسے پاک کرنے کاحق ہے۔
اس کےبعد ام سلمہ کہتی ہیں میں نے آپ سے سوال کیا کہ الست منهم کیا میں ان میں شامل نہیں ہوں ۔آپنے فرمایا تم نیک خاتوں ہو۔17۔
اس حدیث کو عطاابن یسار ،ابو سعید خدری ، ابوھریرہ ، حکیم ابن سعد ، شہر اب حوشب ،عبداللہ ابن مغیرہ ،عطاء ابن ابی ریاح، عمرہ ابن افعی ، حضرت علی ابن الحسین زین العابدین علیھما السلام نے ام سلمہ سے روایت کی ہے ۔
اس حدیث کو صفیہ بنت شیبہ اورعوام ابن حوشب
نے تمیمی اور ابن عمیر نے ام المومنین عایشہ سے اس طرح نقل کیا ہے ۔
"خرج النبی غداه و علیه مزط مرحل من شمراسود فجاء الحسن ابن علی فادخله ،ثم جاء الحسین فدخل معه ثم جاءت فاطمہ فادخلها، ثم جاء علی فادخله ثم قال انمایرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا۔18۔
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے عالم میں جبکہ آپ سیاہ اون سے بناہوا لباس زیب تن کئے ہوئے تھے باہر تشریف لائےاس کے بعد حسن ابن علی وارد ہوئے آپ نے انہيں اپنی ردا میں جگہ دی اور اس کے بعد حسین ابن علی آئے آپ نے انہیں بھی اپنی ردا میں جگہ دی اس کےبعد فاطمہ آئيں آپ نے انہیں بھی اپنی ردا میں جگہ دی اور اسکے بعد علی آئے آپ نے انہیں بھی اپنی ردا میں داخل کرلیا اس کےبعد فرمایا :انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا۔
بہت سے صحابہ نے حدیث کساء کی روایت کی ہے انمیں ابوسعید خدری ،ابو برزہ ، ابوالحمراء، ابو لیلی انصاری ، انس بن مالک ،براء بن عازب ، ثوبان ، جابر ابن عبداللہ انصاری ، زید بن ارقم ، زینب بنت ابی سلمہ ،سعد بن ابی وقاص، صبیح مولی ام سلمہ، عبداللہ ابن جعفر، عمرابن ابی سلمہ ،عمرابن خطاب وغیرہ ۔
ان راویوں کی روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ اھل بیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد علی و فاطمہ حسن وحسین علیھم السلام ہیں اور ان روایات کی اسناد صحاح ستہ اور اھل سنت کے دیگر جوامع حدیث سے نقل کی گئي ہیں ۔(19)


2:حدیث ثقلین :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "انی تارک فیکم ما ان تمسکتم به لن تضلوا بعدی،احدهما اعظم من آخر کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی ،ولن یفترقا حتی یردا علی الحوض ،فانظروکیف تخلفونی فیهما۔(20)
میں تمہارے درمیاں ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگران سے متمسک رہوگے تومیرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک جو دوسرے سے بڑی ہے کتاب خدا ہے وہ ایسی مضبوط رسی ہے جسے آسمان سے زمیں پربھیجاگياہے۔دوسری میری عترت اور میراخاندان ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پروارد ہوجائيں،پس ہوشیاررہنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔
یہ حدیث ان الفاظ میں بھی وارد ہوئي ہے ۔"انی قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر :کتاب الله تعالی وعترتی ، فانظروا کیف تخلفونی فیهما،لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ۔(21)
میں تمہارے درمیاں دوگرانبھا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت ،ان میں ایک، دوسرے سے بڑی ہے خبردار میرے بعد تم ان کےساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے مگر یہ کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائيں۔
حدیث ثقلین میں اھل بیت علیھم السلام کو قرآن کا ھمسر قراردیا گيا ہے۔یہ حدیث تینتیس صحابیوں سے مروی ہے جنمیں ابو ایوب انصاری ،ابوذر غفاری، ابو سعید خدری، ابو شریح خزاعی، ابو قدامہ انصاری، ابو ھریرہ، ام سلمہ، انس بن مالک، خزیمہ ذو الشھادتین، سعد ابن ابی وقاص، زید ابن ثابت، سلمان فارسی ، عبدالرحمن ابن عوف ، عبداللہ ابن عباس ، عمرابن خطاب اور عمرابن عاص شامل ہیں۔22۔
حديث ثقلین کے بارےمیں اھل سنت کے بعض علماء نے کہا ہےکہ اس حدیث میں مرجعیت سے مراد فقہی مرجعیت ہے۔محمد ابو زھرہ کا کہنا ہے کہ "لایدل علی امامة السیاسة وانه ادل علی امامة الفقه والعلم ۔23۔ہم یہاں پر حدیث کی دلالت کےبارےمیں بحث نہیں کریں گے اور اھل بیت کی علمی امامت ہی پراکتفا کریں گے جس پر فریقین کا اتفاق ہے ۔
اس حدیث کے بارےمیں ابو احمد یعقوب کا کہنا ہے کہ انہوں نے حدیث ثقلین کی اھل سنت کی اہم ترین کتابوں میں ایک سو پچاسی مصادر سے تخریج کی ہے ۔اور ان تمام حدیثوں میں کتاب اللہ والعترہ کے الفاظ موجودہيں اور ان کتابوں میں یہ بھی صراحت کی گئ ہے کہ عترت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت ہیں ،جن کے نام حدیث کساء اور حدیث ثقلین سمیت مختلف مقامات پر مختلف احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔24۔


3۔حدیث رفع اختلاف ۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا"انت تبین لامتی ما اختلفوا فیه بعدی "25۔
"اے علی میرے بعد امت میں پیداہونے والے اختلافات کو تم حل کروگے۔


4۔حضرت علی امت کی عالم ترین فرد ۔

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ :قال رسول صلی الله علیه وآله وسلم اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب ۔26۔
آپ نے فرمایا ہےکہ میرے بعد اس امت میں سب سے زیادہ علم والے علی ابن ابی طالب ہیں ۔


مسلم اول۔

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے فرمایا:اما ترضین انی زوجتک اول المسلمین اسلاما و اعلمهم علما۔ 27۔
کیا تم خوش نہيں ہوکہ میں نے تمہاری شادی ایسے شخص سے کی ہے جو سب سے پہلا مسلمان اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے ۔


امان امت :

عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:النجوم امان لاهل الارض من الغرق و اهل بیتی امان لامتی می الاختلاف ۔28
ستارے اھل زمیں کو غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور میرے اھل بیت امت کو اختلاف سے امان میں رکھیں گے ۔


حدیث سفینہ

ابوذر غفاری کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :الا ان مثل اهل بیتی فیکم کسفینة نوح فی قومه فمن رکبها نجا،ومن تخلف عنها غرق۔29۔
جان لو کہ تمہارے درمیاں میرے اھل بیت کی مثال کشتی نوح کی ہے جو اس پر سوار ہوگا نجات پاجائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا غرق ہوجائے گا۔
اھل بیت علیھم السلام سب سے زیادہ کتاب وسنت کا علم رکھتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔
انا نحن اهل البیت اعلم بماقال الله ورسوله۔30۔
ہم اھل بیت کتاب خدا اور سنت رسول سے سب سے زیادہ واقف ہیں ۔


شجر نبوت:

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
نحن شجرة النبوة ومحط الرسالةومختلف الملائکة و معادن العلم و ینابیع الحکم ۔31۔
ہم اھل بیت شجرہ نبوت، مقام رسالت، منزل ملائکہ،معدن علم ودانش اور حکمت کا سرچشمہ ہیں۔
رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین بارہ ہیں۔
جابر ابن سمرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے:لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعۃ اویکون علیکم اثنی عشرخلیفۃ کلھم من قریش۔32۔
یہ دین اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ قیامت نہیں آجائے گي اور بارہ خلیفہ جو سب قریش سے ہونگے تم پرحکومت کریں کے ۔
عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ اصحاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خلفاء کے عدد کےبارےمیں سوال کیا توآپنے فرمایا:اثنی عشرکعدہ نقباء بنی اسرائیل ۔وہ بارہ خلیفہ ہونگے نقباء بنی اسرائیل کے عدد کے برابر۔33۔
اھل سنت اور اھل تشیع کی کتابوں میں بہت سی حدیثیں ہیں جو الفاظ میں مختصر سے اختلاف کےساتھ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بنابریں مسلمانوں کا اتفاق ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء یا نقباء یا امراء یا ائمہ بارہ ہیں اور سب کے سب قریش سے ہیں اور ان کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صریح احادیث سے ہوا ہے ۔بنی اسرائيل کے نقباء سے خلفاء کو تشبیہ دینے کا مقصد بھی ان کے عدد کا تعین کرنا ہے ۔اس کےعلاوہ یہ احادیث قیامت تک دین کے باقی رہنے نیز قیامت تک امامت کے جاری رہنے پر تاکید کرتی ہیں۔صحیح مسلم ميں بھی اسی مضمون کی ایک روایت ہے ۔
خلفاء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی علیہ السلام سے لیکرحضرت مھدی علیہ السلام تک معین کرنے والی روایات بعض صحاح اور مسانید میں پائي جاتی تھیں جس سے واضح ہوتا ہےکہ ان کا جعل کرنا محال ہے۔اس کےعلاوہ وہ روایتیں جو اھل سنت سے منقول ہیں وہ ان کے نزدیک قابل قبول ثقہ اور صحیح ہیں ۔34۔
مجموعی طورپر ان آیات وروایات کی حجیت سے ہمیں جو نتیجہ حاصل ہوتاہے وہ یہ ہے کہ اسلامی مذاھب کو اپنی خصوصیات سے دستبردارہوئے بغیر ایک پلیٹ فارم پرمتحد ہوجاناچاہیے ۔


فصل دوم ۔
اہل بیت علیھم السلام کے علم کا سرچشمہ ۔

فصل اول میں جن روایات کا ہم نے جائزہ لیا ان سے اھل بیت علیھم السلام کی طہارت اور علمی مرجعیت ثابت ہوتی ہے ۔
علامہ محمد تقی حکیم کہتے ہیں ۔
ائمہ اھل البیت علیھم السلام کی زندگي کے حقائق اور ان حدیثوں کی دلالت میں مکمل ہماہنگي پائي جاتی ہے اور دونوں دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ علیھم السلام صاحب عصمت اور اعلم زمانہ تھے بالخصوص وہ ائمہ جنہیں نہایت سخت حالات کاسامنا تھاجیسے حضرت امام تقی ،حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیھم السلام ۔یہ امر اس بات کا بہترین موید ہے کہ سنت (قول ،فعل اور تقریر)ائمہ علیھم السلام کو بھی شامل ہے اور یہاں پرہم خلیل ابن احمد فراہیدی کی عقلی دلیل پیش کرسکتے ہیں جو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے بارےمیں پیش کی ہے ۔
ان(حضرت علی ) کا سب سے بےنیاز رہنا اور سب کا ان (حضرت علی )کا محتاج ہونا ان کی امامت کی دلیل ہے ۔یہ استدلال ہم سارے ائمہ کے لئے پیش کرسکتےہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہےکہ ائمہ اھل بیت نے کسی کے سامنے زانوے ادب تہ نہیں کیا ہے۔اور وہ کسی بھی طرح سے کسی کے محتاج نہیں رہے ہیں ۔یہ بات ہمیں اس اہم نکتے کی طرف رہنمائي کرتی ہےکہ اگر اھل بیت نے کسی کے سامنے زانوے ادب تہ نہیں کیا تو ان کے علم کا سرچشمہ کیا ہے؟انہوں نے کس سے علم حاصل کیا ہے؟
صحیح روایات اور احادیث کاجائزہ لینے سے واضح ہوتا ہےکہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کے علم کا سرچشمہ ان چار موارد میں منحصر ہے ۔


1۔قرآن کریم :

متعدد روایات ہیں جو اس بات پرتاکید کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے اھل بیت ہی ہیں جو قرآن کے حقائق ،معانی اور اھداف سے کما حقہ واقف ہیں ۔ان روایات میں سے ایک یہ ہےکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "من عندہ علم الکتاب کے بارےمیں فرمایا ہےکہ اس سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔36۔ اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "انا هو الذی عنده علم الکتاب"میں ہی ہوں جس کےپاس علم کتاب ہے۔37۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ "نحن الذین عندناعلم الکتاب و بیان مافیه"ہم اھل بیت ہی ہیں جن کے پاس علم کتاب اور اسمیں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا علم ہے ۔38۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ "علی یعلم الناس من بعدی تاویل القرآن و مالایعلمون "علی میرے بعد لوگوں کو تاویل قرآن اور جوکچھ نہیں جانتے اس کی تعلیم دینگے۔39۔
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام تاکید کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ "سلونی عن کتاب الله فانه لیس میں آیة الا وقد عرفت بلیل نزلت ام بنهار فی سهل ام جبل "مجھ سے کتاب خدا کےبارےمیں سوال کرو ،میں ہرآيت کے بارےمیں جانتاہوں خواہ وہ رات میں نازل ہوئي ہویا دن میں، دشت میں نازل ہوئي ہو یا پہاڑی پر ۔40۔
عبداللہ ابن مسعود نے روایت کی ہےکہ "ان القرآن نزل علی سبعة احرف مامنها حر‌ف الا له ظهرو بطن و ان علی ابن ابی طالب عنده علم الظاهرو الباطن۔41۔
قرآن سات حرفوں پرنازل ہوا ہے اور انمیں ایسا کوئي حرف نہیں جسکا ظاہر اور باطن نہ ہواور علی ابن ابی طالب کے پاس ظاہر اور باطن کا علم ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن سے پوچھو،سوال کرو ،آپ کا ارشاد ہے "ذالک القرآن فاستنطقوه ،ولن ینطق ،ولکن اخبرکم ،الا ان فیه علم ما یاتی ۔ یہ قرآن ہے اس سے سوال کرو تاکہ وہ تم سے کلام کرے وہ ہرگز کلام نہیں کرے گالیکن میں میں تمہيں بتاتاہوں، جان لوکہ قرآن میں آيندہ کا علم ہے ۔42۔
مذکورہ بالا روایات سے صراحتا یہ بات معلوم ہوتی ہے اھل بیت علیھم السلام کویہ امتیاز حاصل ہےکہ انہیں کے پاس علم قرآن ہے اور اگر کسی کو علم قرآن حاصل کرنا ہوتواسے در اھل بیت علیھم السلام پرآنا ہوگا۔
 


2۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ذات اقدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اھل بیت علیھم السلام کے علم کا دوسرا سرچشمہ ہے اس سلسلے میں سب زیادہ مشہور حدیث جو فریقین کی کتابوں میں منقول ہے یہ ہے "انامدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة والحکمة فلیات الباب " میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔جو علم اور حکمت کا طالب ہےاسے دروازے سے آنا ہوگا ۔43۔
ایک اور حدیث ہے :انادارالعلم وعلی بابها ۔ یا انا دارالحکمة و علی بابها۔ "میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں " یا "میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں "۔44۔45۔
حاکم، بریدہ اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب (علیہ السلام )سے فرمایا"ان الله تعالی امرنی ان ادنیک و لااقصیک و ان اعلمک وان تعی و حق علی الله ان تعی، فنزل قوله تعالی وتعیها اذن واعیه "آپ فرماتے ہیں خدانے مجھے حکم دیا ہے تمہیں اپنے آپ سے نزدیک لاتاجاوں اور تمہیں دورنہ کروں اور تمہیں تعلیم دوں اور تم مجھ سے علم حاصل کرو۔اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ تم علم حاصل کرو اور سمجھو ۔اس موقع پر یہ آيت نازل ہوئي "اور محفوظ رکھنے والے کان سن لیں "۔46،47۔
جب بھی لوگ حضرت علی علیہ السلام سے ان کے علم بےکران کے سرچشمہ کے بارےمیں سوال کرتے اور پوچھتے کہانہوں نے کہاں سے علم حاصل کیا ہے تو آپ فرماتے "وما سوی ذالک فعلم علمه الله نبیه فعلمنیه و دعا لی بان یعیه صدری و تضطم علیه جوانحی ۔آپ فرماتے اس کے علاوہ بھی علم ہے جس کی تعلیم خدا نے اپنے رسول کودی تھی اور انہوں نے مجھے عطافرمایا اور میرے لئے دعا کی کہ میرا سینہ اس علم سے مالا مال ہوجائے اوروہ میرے سینے میں سماجائے۔48۔
بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے علم کا وارث بنایااور حضرت علی علیہ السلام نے حضرات حسنین علیھما السلام کو اس کے بعد ہرامام نے اپنے بعد کے امام کو اس علم کا وارث بنایا۔حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا "ماارث منک یا رسول الله "تو آپ نے فرمایا "ماورث الانبیاء من قبل :کتاب ربهم وسنة نبیهم ۔
حضرت علی علیہ السلام نے آپ سے پوچھا میں آپ سے وراثت میں کیا پاوں گا، آپ نے فرمایا،تمہیں میری وراثت میں وہی چیزیں ملیں گی جو انبیاء ماسلف چھوڑا کرتے تھے یعنی کتاب خدا اور اپنی سنت ۔49۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت مروی ہےکہ آپ نےفرمایا :ان الله علم رسوله الحلال و الحرام و التاویل و علم رسول الله علمه کله علیا"اللہ نے اپنے رسول کو حلال وحرام اور تاویل قرآن کا علم عطا کیا اور آپ نے یہ ساراعلم علی علیہ السلام کو عطافرمایا۔50۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اھل بیت کا علم ان کے ذاتی نظریات کا غماز نہيں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث ہے ۔آپ فرماتے ہیں ۔لوکنا نفتی الناس براينا و هوانا لکنا من الهالکین ،ولکنا نفتیهم بآثار من رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم واصول علم عندنا نتوراثها کابر عن کابر نکنزها کما یکنزهولاء ذهبهم و فضتهم ۔
اگر ہم لوگوں کو اپنی ہوا و ھوس کے مطابق فتوی دیتے تو بے شک ہلاک شدگان میں شامل ہوجاتے لیکن ہم تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جوعلم ہمیں ان سے ملا ہے اس کے مطابق لوگوں کو فتوی دیتے ہیں۔ اور جو علم ہمارے پاس ہے وہ بعد والے امام کو وراثت میں ملتاہے ۔ہم اس علم کو اسی طرح سنبھال کررکھتے ہیں جسطرح لوگ سونا چاندی سنبھال کررکھتے ہيں۔51۔
 


3۔امام ماقبل ۔

ائمہ اھل بیت علیھم السلام میں ہر امام اپنے ماقبل امام سے ہی علم حاصل کرتاہےاور یہ علم ان کی مخصوص میراث ہے ۔ائمہ معصومین اپنے علم سے اپنے بعض خاص اصحاب کو بھی ان کی استعداد و صلاحیت کے مطابق کچھ عطافرماتےہیں ۔اس سلسلے میں بہت سی روایات وارد ہوئي ہیں۔52۔
 


4۔ذاتی آگہی اور تجربے ۔

ائمہ طاہرین میں سے ہرایک کو اپنی زندگي میں خاص تجربوں اور حالات سے گذرنا پڑا ان تجربوں سے ان کی علمی صلاحیت میں اضافہ ہوتاتھا۔یہ تجربے ان کو انسانی زندگي سدھارنے کی راہ میں حاصل ہوتےتھے ۔ہرامام کے تجربے دوسرے امام کے لئے مشعل راہ ہوتےتھےاور ان کا ھدف بھی ایک ہی ہوتاتھاگرچہ ائم معصومین اپنے زمانے کےلحاظ سے خاص وسائل وذرایع استعمال کیا کرتے تھے ۔53
ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی زندگي کے اس انسانی پہلو پرتوجہ کرنا ان کی طبیعت بشری کو سمجھنے کےلئے نہایت ضروری ہے۔ اھل بیت علیھم السلام کےان پہلووں کو سمجھنے سے یہ یقین ہوتاہےکہ وہ بھی خدا کےبندے تھے تاہم خدا نے انہیں خاص نعمتوں سے نوازا تھا جن سے دوسرے لوگ محروم تھے۔دراصل اھل بیت علیھم السلام کےبارےمیں غلو کا سرچشمہ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کے علم اور حقیقی شخصیت کو سمجھنے سے قاصر تھےاوران کی شخصیت سے اس قدر حیران اور مبہوت ہوجاتےتھے کہ غلو میں گرفتار ہوجاتے۔لوگ اھل بیت علیھم السلام کی ذوات مقدسہ میں ایسے علوم اورکرامات دیکھتے تھے جو عام انسان کے بس کی بات نہیں تھے لھذا ان کے بارےمیں غلو کرنے لگتے تھے۔ ائمہ علیھم السلام نے اپنی احادیث و روایات میں اپنی انسانی اور بشری حقیقت پرتاکید کی ہے اور یہ سمجھایا ہےکہ انہیں ذاتا علم غیب حاصل نہیں ہےبلکہ انہیں جوکچھ عطا ہوا ہے بارگاہ ربوبی سے عطاہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےواسطے سے خدا نے انہیں ساری فضیلتیں اور کمالات عطاکئےہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتےہیں: "علم الغیب الذی لایعلمه احد الا الله وماسوی ذالک فعلم علمه الله نبیه فعلمنیه" خدا کے علاوہ کوئي علم غیب کا حامل نہیں ہے ،اس کے علاوہ خدا نے سب کچھ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیم فرمایا ہے اور انہوں نے وہ سب کچھ مجھےتعلیم فرمایا ہے ۔54۔
حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ طاہرین نے غلو کرنے والوں پرلعنت کی ہے۔البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا نے ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو اپنی رحمت خاصہ میں شامل کیا ہے اور مختلف مواقع پرانہیں حقیقت تک پہنچانے کےلئے انہیں الھام کی نمعت سےبھی نوازتاہے ۔اس کے برخلاف ہمیں کوئي دلیل نہیں ملی ہے ۔


فصل سوم :


امت میں اھل بیت علیھم السلام کی علمی منزلت ۔

بے پناہ علمی اختلافات گروہ بندیوں اور گوناگوں فقہی وکلامی مکاتب کےباوجود مسلمانوں نے ہمیشہ اھل بیت علیھم السلام کی خاص منزلت و مقام کا اعتراف کیا ہے اور اس کا لحاظ رکھا ہے انہیں تمام صحابہ اور تابعین نیز فقہاسے برترو بہتر سمجھاہے۔تاریخ و حدیث و فقہ کی کتابیں اس حقیقت کی گواہ ہیں۔ اگر بنوامیہ اور بنوعباس کی ظالمانہ اور مکروفریب سے بھری چالیں نہ ہوتیں تو اھل بیت کی یہ منزلت امت اسلام کے دل میں مستحکم واستوار رہتی ۔اموی اور عباسی حکومتوں نے جو حقیقت سے کوسوں دورتھیں حقیقت کو توڑمڑوڑ کرپیش کرنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ اھل بیت علیھم السلام اور ان کی مرکزیت سے لوگوں کی توجہ ہٹاکر دوسروں کی طرف موڑسکیں۔
ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے بعض صحابہ، تابعین اور فقہا کی شہادتیں پیش کریں گے ۔ان شہادتوں سے واضح ہوجائے گا کہ اھل بیت علیھم السلام کی شان میں کتاب و سنت کے نصوص اور مسلمانوں کی منصفانہ رائے ان کی عظمت و بزرگواری سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں ۔


خلفاءکے زمانےمیں حضرت علی علیہ السلام کی علمی منزلت

 1۔حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے بعد خلافت راشدہ کا زمانہ آتاہے ۔حضرت ابوبکر نے اس وقت کے پیچیدہ حالات میں بہت سے مسائل اور سیاسی مشکلات اور شرعی مسائل میں مولائے کائنات سے رجوع کیا ،ابو بکرنے اھل ردہ سے جنگ میں بھی مولائے کائنات سے صلاح و مشورہ کیا تھا ۔ 56


2۔ حضرت عمر کی خلافت کے دوران :

حضرت عمر ابن خطاب ہر مشکل مسئلے میں حضرت علی علیہ السلام سے مدد مانگتےتھے خواہ وہ فقہی مسئلہ ہوتایا پھر اجتماعی اور سیاسی۔ حضرت علی علیہ السلام کے بارےمیں حضرت عمر کے بیانات سے پتہ چلتاہےکہ وہ سب سے زیادہ حضرت علی علیہ السلام کے علم ودانش اور آپ کی منزلت سے آشنا تھے ۔ حضرت عمر نے متعدد مقامات پریہ جملے کہےہیں ۔
1۔ اعوذ بالله ان اعیش فی قوم لست فیهم یا اباالحسن۔57۔
اے ابوالحسن میں خدا سے پناہ مانگتاہوں کہ مجھے ایسی قوم میں رہنا پڑے جسمیں آپ نہ ہوں ۔
2۔لولاعلی لهلک عمر۔59
اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔
3۔ انت یا علی خیرهم فتوی۔60۔
اے علی آپ مسلمانوں میں سب سے بہتر فتوی دیتےہیں ۔
4۔ اللهم لاتنزل بی شده الا و ابوالحسن الی جنبی۔61
خدایا مجھے کسی سخت مشکل میں نہ ڈالنا مگریہ کہ ابوالحسن میرے پاس ہوں ۔
5۔ یا ابوالحسن لاابقانی اللہ لشدہ لست لها ولافی بلد لست فیه۔62
اے علی خدا مجھے ایسی مشکل کے وقت زندہ نہ رکھے جسے حل کرنے کے لئے آپ موجود نہ ہوں اور نہ اس شہرمیں رکھے جہاں آپ نہ ہوں ۔
6۔یاابن ابی طالب فمازلت کاشف کل شبهة و موضع کل حکم۔63
اے ابن ابی طالب آپ ہمیشہ شبہات کا ازالہ کرنے والے اور احکام بیان کرنے والے ہیں ۔
7۔اعوذ بالله من معضلة لیس لها ابو الحسن ۔64۔
میں خدا سے پناہ مانگتاہوں ایسی مشکل سے جس کے حل کرنے کے لئے ابو لحسن نہ ہوں ۔
8۔لاابقانی الله بعدک یا علی ۔65۔
اے علی تمہارے بعد خدا مجھے زندہ نہ رکھے ۔
حضرت عمر کے ان تمام اقوال سے پتہ چلتاہےکہ حضرت علی علیہ السلام خلفاء کے زمانے کے عقیدتی ،سیاسی اور فقہی مسائل کوحل کرنے والے واحد فرد تھے۔اس سلسلے میں ایک قابل غور واقعہ مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداکا تعین کرنا ہے۔عمر ابن خطاب نے جب مسلمانوں کی تاریخ کا مبداء معین کرنے ک ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ ، آپ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کو مسلمانوں کی تاریخ کا مبدا قراردیں ،حضرت عمرنے ان کا یہ مشورہ پسند کیا اور ہجرت کو مسلمانوں کی تاریخ کی ابتدا قراردیا۔ 66۔
حضرت عمر نے جب ایران کو فتح کرنے کاارادہ کیاتو اس بارےمیں بھی حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کیا ۔
3۔تیسرے خلیفہ کے دور میں بھی حضرت علی علیہ السلام ہی متعدد مسائل حل فرمایا کرتےتھے ،تاریخ و حدیث کی کتابیں ان واقعات سے بھری پڑی ہیں۔67۔


4۔حضرت عائشہ ام المومنین اور علم علی علیہ السلام کا اعتراف

ام المومنین عائشہ بھی جب ان سے احکام شرعی پوچھے جاتے تو لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرنے کو کہتیں اور فرماتیں علیک بابن ابی طالب لتساءلہ۔68۔ آپ سائل سے کہتیں جاواس سوال کو ابن ابی طالب سے پوچھو۔
یا پھر فرماتیں ائت علیا فانه اعلم بذالک منی۔69۔
جاو علی سے پوچھو وہ مجھ سے زیادہ جانتےہیں ۔


5۔علی ابن ابی طالب اور سعدبن ابی وقاص ۔

حاکم نے اپنی سند سے قیس ابن ابی حازم سے روایت کی ہےکہ ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کررہاتھا، سعد ابن ابی وقاص نے اسکی ملامت کی اور کہا الم یکن اول من اسلم؟او لم یکن اول من صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟او لم یکن اعلم الناس؟
کیا علی اسلام لانے والے پہلے شخص نہیں ہیں؟کیاوہ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز اداکی اور کیا وہ سب سے زیادہ عالم نہیں ہیں؟70۔
تاریخ گواہ ہےکہ حضرت علی علیہ السلام کا مشہور ترین لقب "امام " ہے ۔
قارئين کرام جس طرح سے ہم نے حضرت علی علیہ السلام کے علمی مرجع ومرکز ہونے کے بارےمیں تاریخی شواہد پیش کئے ہیں اسی طرح آپ کی ذریت یعنی حضرت امام حسن علیہ حضرت امام حسین حضرت امام زین العابدین اور دیگر تمام ائمہ اھل بیت علیھم السلام کے علمی مرجعیت اور مرکزیت کےبارےمیں ناقابل انکار تاریخی شواہد ہیں۔


ائمہ مذاھب کے نزدیک اھل بیت کی علمی عظمت

مختلف اسلامی مذاھب کے ائمہ اور بزرگ فقہاء نے اھل بیت علیھم السلام بالخصوص حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی ہے ۔حافظ بن عقدہ نے چار ہزار فقہاء اور محدثین کے نام ذکرکئےہیں جنہوں نے آپ سے روایت حدیث کی ہے یا آپ کے سامنے زانوے ادب تہ کیا ہے۔76۔
حافظ بن عقدہ نے ان فقہاء ومحدثین کی کتابوں کےنام بھی ذکرکئےہیں ان لوگوں میں مالک بن انس اصبحی ، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت،77 یحی بن سعید، ابن جریح،سفیان ثوری ، شعبہ ابن الحجاج، عبداللہ ابن عمرو ، روح ابن قاسم ، سفیان ابن عینیہ، اسماعیل ابن جعفر، ابراھیم ابن طحان اوربہت سے دیگر افراد شامل ہیں ۔ 78
ابو حنیفہ کایہ قول کہ " لولا السنتان لهلک النعمان"79 ان دوبرسوں کی طرف اشارہ جب انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے درس میں شرکت کی تھی ۔ابو حنیفہ کے اس قول سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کس قدر اپنے زمانوں کی علمی فضا پرحاوی اور اثرگذارتھے۔
مالک بن انس کہتےہیں کہ :
مارات عین ولا سمعت اذن ولاخطر علی قلب بشر افضل من جعفرابن محمد الصادق علما و عبادة و ورعا۔80۔
نہ کسی آنکھ نے یہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورنہ کسی نے یہ تصورکیا ہےکہ جعفرابن محمد صادق سے کوئي علم، عبادت و ورع میں افضل ہوسکتاہے۔
الازھر یونیورسٹی کے معروف استاد اور عالم دین شیخ محمد ابو زھرہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی مرجعیت کوان الفاظ میں بیان کرتےہیں "کان ابو حنیفه یروی عن الامام الصادق ویراه اعلم الناس باختلاف الناس و اوسع الفقهاء احاطة وکان مالک یختلف الیه دارسا وراویا ومن کان له فضل الاستاذیه علی ابی حنیفه و مالک فحسبه ذالک فضلاولایمکن ان یوخر عن نقص ولا یقدم علیه غیره عن فضل ۔وهوفوق هذا حفید علی زین العابدین الذی کان سید اهل المدینة فی عمره فضلا و شرفاو دینا و علما وقد تتلمذ له ابن شهاب الزهری و کثیرون من التابعین وهو ابن محمد الباقرالذی بقر العلم و وصل الی لبابه فهو ممن جمع الله تعالی له الشرف الذاتی و الشرف الاضافی بکریم النسب والقرابة الهاشمیه والعترة المحمدیة ۔
ابو حنیفہ امام صادق سے روایت کیاکرتےتھے اور انہیں لوگوں کے اختلافات سے سب سے زیادہ واقف کار اور فقہاء میں سب سے زیادہ عالم سمجتھےتھے ۔مالک بھی ان کےپاس کبھی نقل روایت توکبھی حصول علم کے لئے آیا کرتےتھے اور جس کو ابو حنیفہ اور مالک پرفضل استادی حاصل ہویہ فضل اس کےلئے کافی ہےوہ کسی سے پیچھے نہيں رہ سکتے اورنہ فضیلت میں ان پرکسی کو برتری حاصل ہوسکتی ہے ۔سب سے زیادہ صاحب فضل علی ابن الحسین زین العابدین کے پوتےہیں جواھل مدینہ کے سردار اور فضل و شرف ودین وعلم میں سب سے آگے تھے ابن شہاب زھری اور بہت سے تابعین نے ان کے سامنے زانوے ادب تہ کیا ہے۔وہ محمد باقر کے بیٹےہیں جنہوں نے علم کا سینہ چاک کیا اور اسکی حقیقت تک رسائي حاصل کی ۔خدا نے انہیں نسبی اور ذاتی شرف عطاکیا ہے وہ بنی ہاشم اور عترت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہیں۔


فصل چہارم :

علوم اھل بیت علیھم السلام کے عینی جلوے۔
1۔دانشوروں کےساتھ علمی مناظرے۔

ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی مبارک زندگیاں علمی سرگرمیوں سے بھری پڑی ہیں ۔ وہ میدان علم کے شہسوار تھے اور قرآن کی روشنی میں علمی گفتگو اور مناظرےمیں یگانہ روزگار ۔بعض اوقات دشمن اور حکام جور انہيں اذیت پہنچانے کےلئے علمی مناظروں کا انتظام کیا کرتےتھے اور بعض اوقات یہ مناظرے لوگوں کو جہل کی تاریکی سے نکال کرعلم وحقیقت کی روشنی میں لےجانے کےلئے بھی ہواکرتےتھے۔ اور بعض اوقات جب محدثین، فقہااور درباری علماء سوالوں کےجواب سے عاجزآجاتے تھے تو اھل بیت علیھم السلام کے دروازے پرآتےتھے اور ان سے اپنے مسائل کا حل حاصل کرتےتھے ۔ائمہ اھل بیت علیھم السلام کے علمی مناظروں کو بعض علماء نے مستقل کتابی شکل میں جمع کیا ہے ۔
ان مناظروں میں سب سے اہم نکتہ یہ ہےکہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو کبھی شکست نہیں ہوئي اورنہ انہیں کسی طرح کی مشکل کا سامنا کرناپڑا بلکہ انہوں نے کوہ استوار کی طرح ہرطرح کے مسائل منجملہ علمی مناظروں کا سامنا کیا اورخدا کے فضل وکرم سے ہرامتحان میں سرخرو ہوئے۔ یادرہے ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی بعض شخصیتوں جیسے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو کمسنی میں (نوسال) ہی دشمنوں کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ہمیشہ کامیاب رہے ۔ان مناظرات کے اعلی علمی معیاراور زمانے کے بزرگ ترین اور عالم ترین افراد کے مقابلے میں ائمہ اھل بیت علیھم السلام کا کامیاب رہنا ان کے بلامنا‌زعہ علمی مرجع ہونے کی دلیل ہے ۔


حضرت علی علیہ السلام کے علمی مناظرات ۔

سب سے پہلے، میدان علم میں قدم رکھنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ آپ نے یہود و نصاری سے متعدد مناظرے کئےہیں گویا مناظرہ کرنا آپ کی زندگي کا ایک اہم کام بن گیا تھا ۔ آپ نے غالیوں سے بھی مناظرے کئےہیں تاکہ انہیں توبہ کرنے کی طرف راغب کرسکیں۔ اس کےعلاوہ آپ نے ان لوگوں سے بھی مناظرے کئےہیں جنہوں نے آپ کی بیعت قبول کرنے سے انکارکردیاتھا اور اجماع امت سے نکل گئےتھے۔حضرت علی علیہ السلام امت کو سوال کرنے کی طرف راغب کرتےتھے آپ کا یہ قول نہایت مشہور ہےکہ "سلونی قبل ان تفقدونی"۔مجھے کھونے سے قبل مجھ سےجوچاہے سوال کرلو۔
آپ کے بعد حضرات حسنین علھیماالسلام نے بھی آپ ہی کی روش پرزندگي گذاری اور لوگوں کے مسائل حل کرتے رہے ۔


حضرت امام حسن کے مناظرات :

مرد شامی کے ساتھ حضرت امام حسن علیہ السلام کا مناظرہ نہایت معروف ہے۔ اس مرد شامی کو معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کا امتحان لینے کےلئے کچھ سوالات دے کربھیجاتھا۔حضرت علی علیہ السلام نے اسے حضرت امام حسن کے پاس بھیج دیا اور آپ نے اس کے تمام سوالوں کا شافی جواب دیا۔85۔
حسن بصری کے ساتھ قضاو قدر کے بارےمیں امام حسین علیہ السلام کا مناظرہ بھی تاریخ میں مشہور ہے۔86۔


حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے مناظرات۔

اپنی بحث کو طوالت سے بچاتےہوئے یہاں پرحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے اہم مناظرے نقل کررہےہیں ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ استثنائي زمانہ قراردیاجاسکتاہے۔آپ کو معارف اسلام کی تبلیغ کرنے کا نسبتا مناسب موقع ملاتھا اور آپ نے وقت سے فائدہ اٹھاکر حقیقی اسلام کی ترویج کی ۔
ابوحنیفہ نعمان کے ساتھ آپ کا ایک مناظرہ ہے جو منصور دوانیقی کے دربار میں انجام پایاتھا۔
ابو حنیفہ خود کہتےہیں کہ"میں نے جعفرابن محمد سے زیادہ عالم کسی کو نہیں پایا جب منصور نے انہیں بلایا تو میرے پاس اپنےایلچی کو بھیجا اور پیغام دیا کہ لوگ جعفر ابن محمد کے گرویدہ ہورہےہیں ان سے پوچھنے کےلئے سخت اورمشکل سوالات تیارکرو میں نے منصور کے کہنے پرچالیس سوالات تیاررکئے ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں جب منصور حیرہ میں تھا تو اس نے مجھے بلابھیجا،جب میں اس کےمحل پہنچا تودیکھتاہوں جعفر ابن محمد اس کےدائيں طرف بیٹھے ہوئےہیں۔میں نے جب جعفرابن محمد کی طرف دیکھا تو مجھ پران کے رعب وجلال کاایسا اثرپڑاجیسا منصورکودیکھنے سے بھی نہیں پڑا تھا۔ میں نے سلام کیااور بیٹھ گيا، منصورنے ان کی طرف دیکھ کرکہا اباعبداللہ یہ ابوحنیفہ ہیں۔انہوں نے اثبات میں جواب دیا اس کےبعد مجھ سے مخاطب ہوکرکہنے لگا ابوحنیفہ اپنے سوالات پیش کریں، میں نے ایک ایک سوال کرنا شروع کیا،جعفرابن محمد ہرایک سوال کا جواب دیتے اوراھل مدینہ، اپنا نظریہ اور میرے نظریے کی طرف اشارہ کرتے۔وہ کبھی ہمارے نظریے کی تائيد کرتےتوکبھی اھل مدینہ کی اور کبھی سب کی مخالفت کرتےمیں نے پورے چالیس سوال کرلئے اور انہوں نے تمام سوالون کےجوابات دیئے ۔اس کےبعد ابوحنیفہ کہتےہیں کہ "کیا ہم نے نہیں کہا ہے کہ سب سے زیادہ عالم وہ ہوتاہےجو مختلف نظریات کا علم رکھتاہو"

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کے صدر جو بایڈن مشرق وسطی میں کسی قسم کا خلا باقی رکھنا نہیں چاہتے تا کہ روس یا ایران اور چین اسے پر کرسکیں۔

رپورٹ کے مطابق جیک سلیوان نے ان خیالات کا اظہار کولوراڈو میں ایسپین سیکورٹی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے یوکرین جنگ کے متعلق دعوی کیا کہ روس اپنے ان اصلی اسٹریٹیجک مقاصد کو عملی جامہ پہنانے پر قادر نہیں رہا ہے کہ جو یوکرین کے حوالے سے صدر ولاڈیمر پیوٹن کی طرف سے طے کئے گئے ہیں۔

سلیوان نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امریکہ، یوکرین کے صدر ولاڈیمر زیلنسکی کی سلامتی کے حوالے سے بھی پریشان ہے کیونکہ بقول زیلنسکی انہیں ایک بے رحم دشمن کا سامنا ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے اس سے پہلے بھی ایران اور روس کے معمول کے دو طرفہ تعاون کے خلاف مختلف دعوے کئے تھے اور کہا تھا کہ دنیا کو تہران اور ماسکو کے مابین گہرے ہوتے تعلقات کو ایک سنجیدہ اور گہرا خطرہ تصور کرنا ہوگا۔

جیک سلیوان نے روسی صدر پیوٹن کے حالیہ دورہ ایران کو بھی غیر معمولی کہتے ہوئے مزید دعوی کیا تھا کہ روس اور ایران کے یوکرینیوں کو ہلاک کرنے کی غرض سے گہرے ہوتے تعلقات ایسا مسئلہ ہے کہ جسے دنیا کو ایک گہرے خطرے کے طور پر دیکھنا ہوگا۔

حوزہ / ایران کے شہر سنندج کے اہل سنت امام جمعہ نے کہا: اہل سنت اور اہل تشیع مسلمانوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے اور وہ عالمی صیہونزم ہے۔ اس منحوس اور جعلی حکومت سے مقابلے کے لئے عالم اسلام کی حقیقی وحدت کی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے شہر سنندج کے اہل سنت امام جمعہ مولوی محمد امین راستی نے اہل سنت دینی طلاب کو درس اخلاق دیتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتے کردستان میں وحدت اسلامی کے موضوع پر ایک قابلِ تحسین کانفرنس منعقد ہوئی۔

انھوں نے کہا: اس قسم کی کانفرنسز کا انعقاد دنیائے اسلام کی بیداری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

شہر سنندج میں اہل سنت امام جمعہ نے مزید کہا: اس کانفرنس میں اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء نزدیک سے ایک دوسرے کے ساتھ آشنا ہوئے اور ایک دوسرے کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لیے تجاویز دیں۔

اس اہلسنت عالم دین نے کہا: اس کانفرنس میں جو فیصلے کیے گئے دنیائے اسلام میں انہیں عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔

مولوی محمد امین راستی نے کہا: آج دشمن جدید روشوں سے استفادہ کر کے دنیائے اسلام کی ثقافتی اور اعتقادی بنیادوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔

انہوں نے کہا: امید ہے کہ عالم اسلام بہت جلد بصیرت حاصل کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔

سنندج میں اہل سنت امام جمعہ نے کہا: ایک طرف دشمن نے اسلامی تشخص کو نشانہ بنایا ہوا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک نے غاصب اسرائیل کے مقابلے میں بچوں والی سیاست اپنا رکھی ہے کہ اس سے عالم اسلام کو بہت زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اہل سنت اور اہل تشیع مسلمانوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے اور وہ عالمی صیہونزم ہے۔ اس منحوس اور جعلی حکومت سے مقابلے کے لئے عالم اسلام کی حقیقی وحدت کی ضرورت ہے۔

یکنا نیوز- قرآنی کے انیسویں سورے کا نام «مریم» ہے جسمیں ۹۸ ایات ہے اور یہ سولویں پارے میں موجود ہے۔ یہ مکی سورہ ترتیب میں چوالیسواں پارہ ہے جو رسول گرامی(ص) پر نازل ہوا۔

حضرت مریم(س) کی زندگی کی داستان آیات ۱۶ سے ۲۷ اور ۳۴ میں بیان کی گیی ہے اور اسی وجہ سے اس سورہ کو «مریم» کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

سوره مریم میں دو خصوصیات ہیں: ایک یہ کہ عظیم انبیاء اور داستان مریم بیان کرتے ہوئے لفظ

«اُذْکُر» یعنی یاد کرو استعمال کیا گیا ہے اور دوم یہ کہ لفظ «رحمان» خدا کی صفت اس سورہ میں ۱۶ بار آیا ہے جو خدا کی وسیع رحمت کی عکاسی کرتا ہے اور بالخصوص انبیاء اور مومنین پر خدا کی رحمت کی کھلی نشانی ہے۔

علامه طباطبایی تفسیر المیزان میں اس سورے کی تفسیر میں خوشخبری اور انتباہ کو اہم ترین حصہ قرار دیتے ہوئے بیان کیا ہے۔ سورہ مریم میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

نعمتوں کے حامل گروہ جسمیں انبیاء، خدا کے منتتخب بندے اور ہدایت یافتہ لوگ ہیں اور ان میں عمل صالح بجا لانے اور توبہ کرنے والوں کو شامل کیا گیا ہے اور تیسرے گروہ میں گمراہ اور شیطانی عمل کرنے والے لوگ شامل ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے غاصب صہیونی فوج کی جانب سے دمشق کے مضافات میں گزشتہ رات ہونے والے وحشیانہ میزائل حملوں کی شدید مذمت کی۔ ان حملوں میں دس افراد شہید و زخمی ہوئے۔  

 وزارت خارجہ کے ترجمان نے شہدا کے خاندانوں کو تعزیت پیش کرتے ہوئے شام کی حکومت اور عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی رجیم کی شام پر مسلسل جارحیت اور حملے اس ملک کی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی اور تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی سرے عام خلاف ورزی ہے۔

ناصر کنعانی نے عالمی برادری، ذمہ دار بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی صہیونی رجیم کے غیرقانونی اقدامات کے سامنے سوالیہ خاموشی پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر لازم ہے کہ صہیونی رجیم کے پے در پے جرائم اور پرخطر طرز عمل کے مقابلے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے زور دے کر کہا کہ شام پر صہیونی رجیم کے مسلسل حملے اس ملک کی سلامتی اور قومی اقتدار کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مسلح دہشت گردوں کی مدد اور انہیں شام کی سرزمین میں تحفظ فراہم کرنے اور تقویت دینے کی کوشش ہے۔ یہ امر پورے خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے

ولادت باسعادت

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بتاریخ ۷/ صفرالمظفر ۱۲۸ ھ مطابق ۷۴۵ ء یوم شنبہ بمقام ابواجومکہ اورمدینہ کے درمیان واقع ہے پیداہوئے (انوارالنعمانیہ ص ۱۲۶ ،واعلام الوری ص ۱۷۱ ،جلاء العیون ص ۲۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۲ ،روضة الشہداء ص ۴۳۶) ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ پیداہوتے ہی آپ نے ہاتھوں کوزمین پرٹیک کر آسمان کی طرف رخ کیااورکلمہ شہادتین زبان پرجاری فرمایا آپ نے یہ عمل بالکل اسی طرح کیا،جس طرح حضرت رسول خداصلعم نے ولادت کے بعدکیاتھاآپ کے داہنے بازوپرکلمہ تمت کلمة ربک صدقا وعدلا لکھاہواتھا آپ علم اولین وآخرین سے بہرہ ورمتولدہوئے تھے آپ کی ولادت سے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کو بیحد مسرت ہوئی تھی اورآپ نے مدینہ جاکراہل مدینہ کودعوت طعام دی تھی (جلاء العیون ص ۲۷۰) ۔ آپ دیگرآئمہ کی طرح مختون اورناف بریدہ متولدہوئے تھے۔


اسم گرامی،کنیت،القاب

آپ کے والدماجدحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے خداوندمتعال کے معین کردہ نام ”موسی“ سے موسوم کیاعلامہ محمدرضالکھتے ہیں کہ موسی ،قبطی لفظ ہے اورمواورسی سے مرکب ہے موکے معنی پانی اور”سی“ کے معنی درخت کے ہیں اس نام سے سب سے پہلے حضرت کلیم اللہ موسوم کئے گئے تھے۔
اوراس کی وجہ یہ تھی کہ خوف فرعون سے مادرموسی نے آپ کواس صندوق میں رکھ کر دریامیں بہایاتھاجو”حبیب نجار“ کابنایاہواتھا اوربعدمیں ”تابوت سکینہ“ قرارپایا، تووہ صندوق بہہ کرفرعون اورجناب آسیہ تک پانی کے ذریعہ سے ان درختوں سے ٹکراتاہواجوخاص باغ میں تھے پہنچاتھا لہذا پانی اوردرخت کے سبب سے ان کانام موسی قرارپایاتھا (جنات الخلود ص ۲۹) ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن،ابوابراہیم،ابوعلی ابوعبداللہ تھی اورآپ کے القاب کاظم،عبدصالح،نفس زکیہ،صابر،امین، باب الحوائج وغیرہ تھے ”شہرت عامہ“ کاظم کوہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بدسلوک کے ساتھ احسان کرتے اورستانے والے کومعاف فرماتے اورغصہ کوپی جاتے تھے، بڑے حلیم،بردباراوراپنے ظلم کرنے والے کومعاف کردیاکرتے تھے(مطالب السول ص ۲۷۶ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۲ ،روضة الشہداء ص ۴۳۲ ،تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲) ۔
 

لقب باب الحوائج کی وجہ

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے عبدصالح اورخداسے حاجت طلب کرنے کے ذریعہ ہونے کی وجہ سے آپ کوباب الحوائج کہا جاتاہے،کوئی بھی حاجت ہوجب آپ کے واسطے سے طلب کی جاتی تھی توضرور پوری ہوتی تھی ملاحظہ ہو(مطالب السول ص ۲۷۸ ، صواعق محرقہ ص ۱۳۱) ۔
فاضل معاصرعلامہ علی حیدررقمطرازہیں کہ حضرت کالقب باب قضاء الحوائج یعنی حاجتیں پوری ہونے کادروازہ بھی تھا حضرت کی زندگی میں توحاجتیں آپ کے توسل سے پوری ہوتی تھیں شہادت کے بعدبی یہ سلسلہ جاری رہااوراب بھی ہے ”اخبارپایزالہ آباد ۱۰/ اگست ۱۹۲۸ ءء میں زیرعنوان ”امام موسی کاظم کے روضہ پرایک اندھے کوبینائی مل گئی“ ایک خبرشائع ہوئی ہے جس کاترجمہ یہ ہے کہ حال ہی میں روضہ کاظمین شریف پرجوشہربغدادسے باہرہے ایک معجزہ ظاہرہواہے کہ ایک اندھااوربوڑھا”سید“ نہایت مفلسی کی حالت میں روضہ شریف کے اندرداخل ہوااورجیسے ہی اس نے امام موسی کاظم کے روضہ کی ضریح اقدس کواپنے ہاتھ سے مس کیاوہ فوراچلاتاہواباہرکی طرف دوڑا ”مجھے بینائی مل گئی“ میں دیکھنے لگاہوں، اوراس پرلوگوں کابڑاہجوم جمع ہوگیااوراکثرلوگ اس کے کپڑے تبرک کے طورپرچھین جھپٹ کرلے گئے اس کوتین دفعہ کپڑے پہنائے گئے اورہردفعہ وہ کپڑے ٹکڑے ہوکرتقسیم ہوگئے آخرروضہ شریف کے خدام نے اس خیال سے کہ کہیں اس بوڑھے سیدکے جسم کونقصان نہ پہنچے اس کواس کے گھرپہنچادیا ۔
اس کابیان ہے کہ بغدادکے ہسپتال میں اپنی آنکھ کاعلاج کررہاتھا بالآخرسب ڈاکٹروں نے یہ کہہ کرمجھے ہسپتال سے نکال دیاکہ تیرا مرض لاعلاج ہوگیاہے اب اس کاعلاج ناممکن ہے تب میں مایوس ہوکر روضہ اقدس امام موسی کاظم علیہ السلام پرآیااوریہاں آپ کے وسیلہ سے خداسے دعاکی ”بارالہاتجھے اسی امام مدفون کاواسطہ مجھے ازسرنوبینائی عطاکردے“ یہ کہہ کرجیسے ہی میں نے روضہ کی ضریح کومس کیا میری آنکھوں کے سامنے روشنی نمودارہوئی اورآوازآئی ”جاتجھے پھرسے روشنی دیدی گئی“ اس آوازکے ساتھ ہی میں ہرچیزکودیکھنے لگا،تمام لوگ اس امرکی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ضعف العمرسیداندھاتھا، اوراب دیکھنے لگاہے (اخبارانقلاب لاہور،اخباراہل حدیث امرتسر مورخہ ۲۴/ اگست ۱۹۲۸ ءء ۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے روضے پرچلاجاتاہوں اوران کی قبرپردعاکرتاہوں میری مشکل حل ہوجاتی ہے (مناقب جلد ۳ ص ۱۲۵ طبع ملتان)۔


باشاہان وقت

آپ ۱۲۸ ھ میں مروان الحماراموی کے عہدمیں پیداہوئے اس کے بعد ۱۳۲ ھ میں سفاح عباسی خلیفہ ہوا(ابوالفداء) ۱۳۶ ھ میں منصور دوانقی عباسی خلفہ بنا ۱۵۸ ھ میں مہدی بن منصورمالک سلطنت ہوا( حبیب السیر) ۱۶۹ ھ میں ہادی عباسی کی بیعت کی گئی (ابن الوردی) ۱۷۰ ھ میں ہارون الرشید عباسی ابن مہدی خلیفہ وقت ہوا ۱۸۳ ھ میں ہارون کے زہردینے سے امام علیہ السلام بحالت مظلومی قیدخانہ میں شہیدہوئے (صواعق محرقہ اخبارالخلفاء بن راعی)۔


نشوونمااورتربیت

علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ آپ کی عمرکے بیس برس اپنے والدبزرگوار حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے سایہ تربیت میں گزرے ایک طرف خداکے دئیے ہوئے فطری کمال کے جوہراوردوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبرکے بتائے ہوئے مکارم الاخلاق کی یاد کوبھولی ہوئی دنیامیں ایساتازہ کردیاکہ انھیں ایک طرح سے اپنابنالیااورجس کی بناپر”ملت جعفری“ نام ہوگیاامام موسی کاظم نے بچپنا اورجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس آغوش میں گزارا،یہاں تک کہ تمام دنیاکے سامنے آپ کے ذاتی کمالات وفضائل روشن ہوگئے اورامام جعفرصادق علیہ السلام نے اپناجانشین مقررفرمادیاباوجودیکہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجودتھے، مگرخداکی طرف کامنصب میراث کاترکہ نہیں ہے بلکہ ذاتی کمال کوڈھونڈتاہے سلسلہ معصومین مین امام حسن کے بعدبجائے ان کی اولادکے امام حسین کاامام ہونااوراولادامام جعفر صادق علیہ السلام میںبجائے فرزنداکبرکے امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف امامت کامنتقل ہونا اس کاثبوت ہے کہ معیارامامت میں نسبی وراثت کومدنظرنہیں رکھاگیاہے (سوانح موسی کاظم ص ۴) ۔


آپ کے بچپن کے بعض واقعات

یہ مسلمات سے ہے کہ نبی اورامام تمام صلاحیتوں سے بھرپورمتولدہوتے ہیں،جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی عمرتین سال کی تھی ،ایک شخص جس کانام صفوان جمال تھا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرمستفسرہواکہ مولا،آپ کے بعدامامت کے فرائض کون اداکرے گا، آپ نے ارشادفرمایاائے صفوان!تم اسی جگہ بیٹھواوردیکھتے جاؤجوایسابچہ میرے گھرسے نکلے جس کی ہربات معرفت خداوندی سے پرہو،اورعام بچوں کی طرح لہوولعب نہ کرتاہو،سمجھ لیناکہ عنان امامت اسی کے لیے سزاوارہے اتنے میں امام موسی کاظم علیہ السلام بکری کاایک بچہ لیے ہوئے برآمدہوئے اورباہرآکراس سے کہنے لگے ”اسجدی ربک“ اپنے خداکاسجدہ کریہ دیکھ کر امام جعفرصادق نے اسے سینہ سے لگالیا(تذکرةالمعصومین ص ۱۹۲) ۔
صفوان کہتاہے کہ یہ دیکھ کرمیں نے امام موسی سے کہا،صاحبزادے !اس بچہ کوکہئے کہ مرجائے آپ نے ارشادفرمایا :کہ وائے ہوتم پر،کیاموت وحیات میرے ہی اختیارمیں ہے (بحارالانوارجلد ۱۱ ص ۲۶۶) ۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے مسائل دینیہ دریافت کرنے کے لیے حسب دستورحاضرہوئے اتفاقا آپ آرام فرمارہے تھے موصوف اس انتظارمیں بیٹھ گئے کہ آپ بیداہوں توعرض مدعاکروں ،اتنے امام موسی کاظم جن کی عمراس وقت پانچ سال کی تھی برآمدہوئے امام ابوحنیفہ نے انہیں سلام کرکے کہا: اے صاحبزادے یہ بتاؤکہ انسان فاعل مختارہے یاان کے فعل کاخدافاعل ہے یہ سن کرآپ زمین پردوزانو بیٹھ گئے اورفرمانے لگے سنو! بندوں کے افعال تین حالتوں سے خالی نہیں ،یاان کے افعال کا فاعل صرف خداہے یاصرف بندہ ہے یادونوں کی شرکت سے افعال واقع ہوتے ہیں اگرپہلی صورت ہے توخداکوبندہ پرعذاب کاحق نہیں ہے،اگرتیسری صورت ہے توبھی یہ انصاف کے خلاف ہے کہ بندہ کوسزادے اوراپنے کوبچالے کیونکہ ارتکاب دونوں کی شرکت سے ہواہے اب لامحالہ دوسری صورت ہوگی،وہ یہ کہ بندہ خودفاعل ہے اورارتکاب قبیح پرخدااسے سزادے۔بحارالانوارجلد ۱۱ ص ۱۸۵) ۔
امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے اس صاحبزادے کواس طرح نمازپڑھتے ہوئے دیکھ کران کے سامنے سے لوگ برابرگزررہے تھے امام جعفرصادق علیہ السلام سے عرض کیاکہ آپ کے صاحبزادے موسی کاظم نمازپڑھ رہے تھے اورلوگ ان کے سامنے سے گزررہے تھے، حضرت نے امام موسی کاظم کوآوازدی وہ حاضرہوئے، آپ نے فرمایابیٹا! ابوحنیفہ کیاکہتے ہیں ان کاکہناہے کہ تم نمازپڑھ رہے تھے اورلوگ تمہارے سامنے سے گزررہے تھے امام کاظم نے عرض کی باباجان لوگوں کے گزرنے سے نمازپرکیااثرپڑتاہے، وہ ہمارے اورخدا کے درمیان حائل تونہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ تو”اقرب من حبل الورید“ رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ،یہ سن کرآپ نے انھیں گلے سے لگالیا اورفرمایااس بچہ کواسرارشریعت عطاہوچکے ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۶۹) ۔
ایک دن عبداللہ ابن مسلم اورابوحنیفہ دونوں واردمدینہ ہوئے، عبداللہ نے کہا،چلوامام صادق علیہ السلام سے ملاقات کریں اوران سے کچھ استفادہ کریں، یہ دونوں حضرت کے دردولت پرحاضرہوئے یہاں پہنچ کردیکھاکہ حضرت کے ماننے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے ،اتنے امام صادق علیہ السلام کے بجائے امام موسی کاظم برآمدہوئے لوگوں نے سروقدتعظیم کی، اگرچہ آپ اس وقت بہت ہی کمسن تھے لیکن آپ نے علوم کے دریابہانے شروع کیے عبداللہ وغیرہ نے جوقدرے آپ سے دورتھے آپ کے قریب جاتے ہوئے آپ کی عزت ومنزلت کاآپس میں تذکرہ کیا،آخرمیں امام ابوحنیفہ نے کہا کہ چلومیں انھیں ان کے شیعوں کے سامنے رسوااورذلیل کرتاہوں، میں ان سے ایسے سوالات کروں گا کہ یہ جواب نہ دیے سکیں گے عبداللہ نے کہا، یہ تمہاراخیال خام ہے ،وہ فرزند رسول ہیں ،الغرض دونوں حاضرخدمت ہوئے، امام ابوحنیفہ نے امام موسی کاظم سے پوچھا صاحبزادے، یہ بتاؤکہ اگرتمہارے شہرمیں کوئی مسافر آجائے اوراسے قضاحاجت کرنی ہوتوکیاکرے اوراس کے لیے کونسی جگہ مناسب ہوگی حضرت نے برجستہ جواب فرمایا:
”مسافرکوچاہئے کہ مکانوں کی دیواروں کے پیچھے چھپے، ہمسایوں کی نگاہوں سے بچے نہروں کے کناروں سے پرہیزکرے جن مقامات پردرختوں کے پھل گرتے ہوں ان سے حذرکرے۔
مکان کے صحن سے علیحدہ، شاہراہوں اورراستوں سے الگ مسجدوں کوچھوڑکر،نہ قبلہ کی طرف منہ کرے نہ پیٹھ ،پھراپنے کپڑوں کو بچاکرجہاں چاہے رفع حاجت کرے یہ سن کرامام ابوحنیفہ حیران رہ گیے ،اورعبداللہ کہنے لگے کہ میں نہ کہتاتھا کہ یہ فرزندرسول ہیں انہیں بچپن ہی میں ہرقسم کاعلم ہواکرتاہے (بحار،مناقب واحتجاج)۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام مکان میں تشریف فرماتھے اتنے میں آپکے نورنظرامام موسی کاظم علیہ السلام کہیں باہر سے واپس آئے امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایابیٹے! ذرااس مصرعہ پرمصرعہ لگاؤ”تنح عن القبیح ولامزتودہ“ آپ نے فورامصرعہ لگایا ”ومن اولیتہ حسنا فزدہ“ بری باتوں سے دوررہو اوران کاارادہ بھی نہ کرو ۲ ۔ جس کے ساتھ بھلائی کرو،بھرپورکرو“ پھرفرمایا! اس پرمصرعہ لگاؤ ”ستلقی من عدوک کل کید“ آپ نے مصرعہ لگایا ”اذاکاوالعدوفلاتکدہ“ (ترجمہ) ۱ ۔ تمہارادشمن ہرقسم کامکروفریب کرے گا ۲ ۔ جب دشمن مکروفریب کرے تب بھی اسے برائی کے قریب نہیں جانا چاہئے (بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۳۶۶) ۔


حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت

۱۴۸ ھ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی وفات ہوئی، اس وقت سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بذات خودفرائض امام کے ذمہ دارہوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پرمنصوردوانقی بادشاہ تھا یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعدادسادات مظالم کانشانہ بن چکے تھے تلوارکے گھاٹ اتارے گئے دیواروں میں چنوائے گئے یاقیدرکھے گئے ،خودامام جعفرصادق علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اورمختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھی، یہاں تک کہ منصورہی کابھیجاہوازہرتھا جس سے آپ دنیاسے رخصت ہوئے تھے۔
ان حالات میں آپ کواپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھا کہ حکومت وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے آخری وقت اخلاقی بوجھ حکومت کے کندھوں پررکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیارفرمائی،کہ اپنی جائیداداورگھربارکے انتظامات کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقررفرمائی جس میں پہلاشخص خود خلیفہ وقت منصورعباسی تھا، اس کے علاوہ محمدبن سلیمان حاکم مدینہ، اورعبداللہ افطح جوامام موسی کاظم کے سن میں بڑے بھائی تھے ،اورحضرت امام موسی کاظم اوران کی والدہ معظمہ حمیدہ خاتون۔
امام کااندیشہ بالکل صحیح تھا،اورآپ کاتحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا،چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاح منصورکوپہنچی تواس نے پہلے توسیاسی مصلحت سے اظہاررنج کیا،تین مرتبہ اناللہ واناالیہ راجعون ،کہا اورکہاکہ اب بھلاجعفرکامثل کون ہے؟ اس کے بعدحاکم مدینہ کولکھاکہ اگرجعفرصادق نے کسی شخص کواپنا وصی مقررکیاہوتواس کاسرفوراقلم کردو، حاکم مدینہ نے جواب میں لکھاکہ انہوں نے توپانچ وصی مقررکئے ہیں جن میں سے پہلے آپ خودہیں، یہ جواب سن کر منصوردیرتک خاموش رہااورسوچنے کے بعدکہنے لگاکہ اس صورت میں تویہ لوگ قتل نہیں کئے جاسکتے اس کے بعددس برس منصورزندہ رہا،لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام سے کوئی تعرض نہ کیا، اورآپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے یہ بھی تھاکہ اس زمانہ میں منصورشہربغداد کی تعمیرمیں مصروف تھاجس سے ۱۵۷ ھ یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی،اس لیے وہ امام موسی کاظم کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوالیکن اس عہدسے قبل وہ سادات کشی میں کمال دکھاچکاتھا۔
علامہ مقریزی لکھتے ہیں کہ منصورکے زمانے میں بے انتہاسادات شہیدکئے گئے ہیں اورجوبچے ہیں وہ وطن چھوڑکر بھاگ گئے ہیں انہیں تارکین وطن میں ہاشم بن ابراہیم بن اسماعیل الدیباج بن ابراہیم عمربن الحسن المثنی ابن امام حسن بھی تھے جنہوں نے ملتان کوعلاقوں میں سے مقام”خان“میں سکونت اختیارکرلی تھی (النزاع والتخاصم ص ۴۷ طبع مصر)۔
۱۵۸ ھ کے آخرمیں منصوردوانقی دنیاسے رخصت ہوا،اوراس کابیٹامہدی تخت سلطنت پربیٹھا،شروع میں تواس نے بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کی عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤنہیں کیا مگرچندسال بعدپھروہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور ۱۶۴ ھ میں جب وہ حج کے نام سے حجازکی طرف گیاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیااورقیدکردیاایک سال تک حضرت اس کی قیدمیں رہے پھراس کواپنی غلطی کااحساس ہوااورحضرت کومدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیاگیا۔
مہدی کے بعداس کابھائی ہادی ۱۶۹ ھ میں تخت سلطنت پربیٹھا اورصرف ایک سال ایک ماہ تک اس نے سلطنت کی ، اس کے بعدہارون الرشیدکازمانہ آیاجس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کوآزادی کی سانس لینانصیب نہیں ہوئی (سوانح امام موسی کاظم ص ۵) ۔
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ درجہ امامت پرفائزہوئے اس وقت آپ کی عمربیس سال کی تھی (اعلام الوری ص ۱۷۱) ۔


حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعض کرامات

واقعہ شقیق بلخی علامہ محمدبن شافعی لکھتے ہیں کہ آپ کے کرامات ایسے ہیں کہ ”تحارمنہاالعقول“ ان کودیکھ کرعقلیں چکراجاتی ہیں ،مثال کے لیے ملاحظہ ہو؟ ۱۴۹ ھ میں شقیق بلخی حج کے لیے گئے ان کابیان ہے کہ میں جب مقام قادسیہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک نہایت خوب صورت جوان جن کارنگ سانولہ (گندم گوں) تھا وہ ایک عظیم مجمع میں تشریف فرماہیں جسم ان کاضعیف ہے وہ اپنے کپڑوں کے اوپر ایک کمبل ڈالے ہوئے ہیں اورپیروں میں جوتیاں پہنے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعدوہ مجمع سے ہٹ کر ایک علیحدہ مقام پرجاکربیٹھ گئے، میں نے دل میں سوچا کہ یہ صوفی ہے اورلوگوں پرزادراہ کے لیے باربنناچاہتاہے ،میں ابھی اس کی ایسی تنبیہ کروں گاکہ یہ بھی یادرکھے گا،غرضیکہ میں ان کے قریب گیاجیسے ہی میں ان کے قریب پہنچاہوں،وہ بولے ائے شقیق بدگمانی مت کیاکرویہ اچھاشیوہ نہیں ہے، اس کے بعدوہ فورااٹھ کرروانہ ہوگئے ،میں نے خیال کیاکہ یہ معاملہ کیاہے انہوں نے میرانام لے کرمجھے مخاطب کیااورمیرے دل کی بات جان لی
اس واقعہ سے میں اس نتیجہ پرپہنچاکہ ہونہ ہویہ کوئی عبدصالح ہوں بس یہی سوچ کرمیں ان کی تلاش میں نکلااوران کاپیچھاکیا، خیال تھاکہ وہ مل جائیں گے تومیں ان سے کچھ سوالات کروں گا،لیکن نہ مل سکے،ان کے چلے جانے کے بعدہم لوگ بھی روانہ ہوئے ، چلتے چلتے جب ہم ”وادی فضہ“ میں پہنچے توہم نے دیکھاکہ وہی جوان صالح یہاں نمازمیں مشغول ہیں اوران کے اعضاء وجوارح بیدکی مانندکانپ رہے ہیں اوران کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں میں یہ سوچ کران کے قریب گیاکہ اب ان سے معافی طلب کروں گاجب وہ نمازسے فارغ ہوئے توبولے ائے شفیق خداکاقول ہے کہ جوتوبہ کرتاہے میں اسے بخش دیتاہوں اس کے بعدپھرروانہ ہوگئے اب میرے دل میں یہ یقین آیاکہ یقینا یہ بندہ عابد،کوئی ابدال ہے ،کیوں کہ دو باریہ میرے ارادہ سے اپنی واقفیت ظاہرکرچکاہے میں نے ہرچندپھران سے ملنے کی سعی کی لیکن وہ نہ مل سکے جب میں منزل زبالہ پرپہنچاتودیکھاکہ وہی جوان ایک کنویں کی جگت پربیٹھے ہوئے ہیں اس کے بعدانہوں نے ایک کوزہ نکال کرکنوئیں سے پانی لیناچاہا،ناگاہ ان کے ہاتھ سے کوزہ چھوٹ کرکنوئیں میں گرگیا،میں نے دیکھاکہ کوزہ گرنے کے بعدانہوں نے آسمان کی طرف منہ کرکے بارگاہ احدیت میں کہا:
میرے پالنے والے جب میں پیاساہوتاہوں توہی سیراب کرتاہے اورجب بھوکاہوتاہوں توہی کھانادیتاہے خدایا!اس کوزہ کے علاوہ میرے پاس کوئی اورکوزہ نہیں ہے ،میرے مالک! میرا کوزہ پرآب برآمدکردے،اس جوان صالح کایہ کہناتھاکہ کنوئیں کاپانی بلندہوااوراوپرتک آگیاآپ نے ہاتھ بڑھاکر اپناکوزہ پانی سے بھراہوالے لیااوروضوفرماکر چاررکعت نمازپڑھی، اس کے بعدآپ نے ریت کی ایک مٹھی اٹھائی اورپانی میں ڈال کرکھاناشروع کردیایہ دیکھ کرمیں عرض پردازہواجناب والا! مجھے بھی کچھ عنایت ہومیں بھوکاہوں آپ نے وہی کوزہ میرے حوالے کردیاجس میں ریت بھری تھی خداکی قسم جب میں نے اس میں سے کھایاتواسے ایسالذیذستوپایاجیسامیں نے کھایاہی نہ تھا، پھراس ستومیں ایک خاص بات یہ تھی کہ میں جب تک سفرمیں رہابھوکانہیں ہوا اس کے بعدآپ نظروں سے غائب ہوگئے ۔
جب میں مکہ معظمہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک بالو(ریت) کے ٹیلے کے کنارے مشغول نمازہیں اورحالت آپ کی یہ ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں اوربدن پرخضوع وخشوع کے آثارنمایاں ہیں آپ نمازہی میں مشغول تھے کہ صبح ہوگئی ، آپ نے نمازصبح ادافرمائی اوراس سے اٹھ کرطواف کاارادہ کیا،پھرسات بارطواف کرنے کے بعد ایک مقام پرٹہرے میں نے دیکھاکہ آپ کے گردبیشمارحضرات ہیں اورسب بے انتہاتعظیم وتکریم کررہے ہیں ،میں چونکہ ایک ہی سفرمیں کرامات دیکھ چکاتھا اس لیے مجھے بہت زیادہ فکرتھی کہ یہ معلوم کروں کہ یہ بزرگ ہیں کون؟ انہوں نے کہاکہ یہ فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم ہیں،میں نے کہابے شک یہ صاحب کرامات جومیں میں نے دیکھے وہ اسی گھرانے کے لیے سزاوارہیں (مطالب السول ص ۲۷۹ ،نورالابصارص ۱۳۵ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۳ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ، ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔
مورخ ذاکرحسین لکھتے ہیں کہ شقیق ابن ابراہیم بلخی کاانتقال ۱۹۰ ھ میں ہواتھا ( تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۵۹) ۔
امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ عیسی مدائنی حج کے لیے گئے اور ایک سال مکہ میں رہنے کے بعدوہ مدینہ چلے گئے ان کاخیال تھا کہ وہاں بھی ایک سال گزاریں گے، مدینہ پہنچ کرانہوں نے جناب ابوذرکے مکان کے قریب ایک مکام میں قیام کیا۔
مدینہ میں ٹہرنے کے بعد انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے وہاں آناجاناشروع کیا،مدائنی کابیان ہے کہ ایک شب کوبارش ہورہی تھی اورمیں اس وقت امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا، تھوڑی دیرکے بعد آپ نے فرمایاکہ اے عیسی تم فورااپنے مکان چلے جاؤکیونکہ ”انہدم البیت علی متاعک“ تمہارامکان تمہارے اثاثہ پرگرگیاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں یہ سن کرمیں فورامکان کی طرف گیا، دیکھاکہ گھرگرچکاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں،دوسرے دن جب حاضرہواتوامام علیہ السلام نے پوچھاکہ کوئی چیزچوری تونہیں ہوئی ،میں نے عرض کی صرف ایک طشت نہیں ملتا جس میں وضو کیاکرتاتھا، آپ نے فرمایاوہ چوری نہیں ہوا،بلکہ انہدام مکان سے پہلے تم اسے بیت الخلاء میں رکھ کربھول گئے ہو،تم جاؤاورمالک کی لڑکی سے کہو،وہ لادے گی، چنانچہ میں نے ایساہی کیا اورطشت مل گیا(نورالابصارص ۱۳۵) ۔
علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک صحابی کے ہمراہ سو دینارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بطورنذرارسال کیاوہ اسے لے کرمدینہ پہنچا، یہاں پہنچ کراس نے سوچاکہ امام کے ہاتھوں میں اس جاناہے لہذا پاک کرلیناچاہئے وہ کہتاہے کہ میں نے ان یناروں کوجوامانت تھے شمارکیا تووہ نناوے تھے میں نے ان میں اپنی طرف سے ایک دینارشامل کرکے سوپورا کردیا،جب میں حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایاسب دینارزمین پرڈال دو،میں نے تھیلی کھو ل کرسب زمین پرنکال دیا ، آپ نے میرے بتائے بغیراس میں سے میرا وہی دینارجومیں نے ملایاتھا مجھے دیدیا اورفرمایا بھیجنے والے نے عددکالحاظ نہیں کیا بلکہ وزن کالحاظ کیاہے جو ۹۹ میں پوراہوتاہے۔
ایک شخص کاکہناہے کہ مجھے علی بن یقطین نے ایک خط دے کرامام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا،میں نے حضرت کی خدمت میں پہنچ کر ان کاخط دیا، انہوں نے اسے پڑھے بغیرآستین سے ایک خط نکال کرمجھے دیااورکہا کہ انہوں نے جوکچھ لکھاہے اس کایہ جواب ہے (شواہدالنبوت ص ۱۹۵) ۔
ابوبصیرکابیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام دل کی باتیں جانتے تھے اورہرسوال کاجواب رکھتے تھے ہرجاندارکی زبان سے واقف تھے (روائح المصطفی ص ۱۶۲) ۔
ابوحمزہ بطائنی کاکہناہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ حج کوجارہاتھا کہ راستہ میں ایک شیربرآمدہوا،اس نے آپ کے کان میں کچھ کہاآپ نے اس کواسی کی زبان میں جواب دیااوروہ چلاگیا ہمارے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنی شیرنی کی ایک تکلیف کے لیے دعاکی خواہش کی، میں نے دعاکردی اوروہ واپس چلاگیا(تذکرة المعصومین ص ۱۹۳) ۔


حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے اخلاق وعادات اورشمائل واوصاف

علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس مقدس سلسلہ کی ایک فردتھے جس کوخالق نے نوع انسانی کے لیے معیارکمال قراردیاتھا اسی لیے ان میں سے ہرایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واصاف کامرقع تھا ،بےشک یہ حقیقت ہے کہ بعض افرادمیںبعض صفات اتنے ممتازنظرآتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پرنظرپڑتی ہے چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ ضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب کاظم قراردیاگیاجس کے معنی ہیں غصہ کوپینے والا،آپ کوکبھی کسی نے ترش روئی اورسختی کے ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا اورانتہائی ناگوارحالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظرآئے مدینہ کے ایک حاکم سے آپ کوسخت تکلیفیں پہنچیں یہاں تک کہ وہ جناب امیرعلیہ السلام کی شان میں بھی نازیباالفاظ استعمال کیاکرتاتھا ، مگرحضرت نے اپنے اصحاب کوہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا۔
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایت کی اورکہاکہ اب ہمیں ضبط کی تاب نہیں ہمیں ان سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے، توحضرت نے فرمایاکہ میں خوداس کاتدارک کروں گا اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس اس کی زراعت پرتشریف لے گئے اورکچھ ایسا احسان اورحسن سلوک فرمایا کہ وہ اپنی گستاخیوں پرنادم ہوا، اوراپنے طرزعمل کوبدل دیا حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھاکہ جومیں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھاتھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرناچاہتے تھے سب نے کہایقینا حضورنے جوطریقہ اختیارفرمایا وہی بہترتھا اس طرح آپ نے اپنے جدبزرگوارحضرت امیرعلیہ السلام کے اس ارشاد کوعمل میں لاکردکھلایاجوآج تک ”نہج البلاغہ“میں موجودہے کہ اپنے دشمن پراحسان کے ساتھ فتح حاصل کروکیونکہ یہ دوقسم کی فتح میں زیادہ پرلطف کامیابی ہے بے شک اس لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے اوراسی لیے حضرت علی نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایاہے کہ ”خبردار! یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیارنہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا۔
یقیناایسے عدم تشددکے موقع کوپہنچاننے کے لیے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام کوحاصل تھی، مگریہ اس وقت میں ہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایساعمل ہوچکاہوجواس کے ساتھ انتقامی تشددکاجوازپیداکرسکے لیکن اگراس کی طرف سے کوئی اقدام ابھی ایسانہ ہواہو تویہ حضرات بہرحال اس کے ساتھ احسان کرناپسندکرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ہواوراسے ایسے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش سے بھی کوئی عذرنہ مل سکے بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جوجناب امیرعلیہ السلام کوشہیدکرنے والاتھا آخروقت تک جناب امیرعلیہ السلام احسان فرماتے رہے اسی طرح محمدبن اسماعیل کے ساتھ جوامام موسی کاظم علیہ السلام کی جان لینے کاباعث ہوا، آپ احسان فرماتے رہے یہاں تک کہ اس سفرکے لیے جواس نے مدینہ سے بغدادکی طرف خلیفہ بنی عباسی کے پاس امام موسی کاظم علیہ السلام کی شکایتیں کرنے کے لیے کیاتھا ساڑھے چارسودیناراورپندرہ سودرہم کی رقم خودحضرت ہی نے عطافرمائی تھی جس کووہ لے کر روانہ ہواتھا۔
آپ کوزمانہ بہت ناسازگارملاتھا نہ اس وقت وہ علمی دربارقائم رہ سکتاتھا جوامام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانہ میں قائم رہ چکاتھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی پس آپ کی خاموش سیرت ہی تھی جودنیاکوآل محمدکی تعلیمات سے روشناس بناسکتی تھی آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثربالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امرکے متعلق کوئی سوال نہ کیاجائے آپ گفتگومیں ابتداء بھی نہ فرماتے تھے ، اس کے باوجودآپ کی علمی جلالت کاسکہ دوست اوردشمن سب کے دل پرقائم تھا اورآپ کی سیرت کی بلندی کوبھی سب مانتے تھے۔
اس لیے عام طورپرآپ کواکثرعبادت اورشب زندہ داری کی وجہ سے عبدصالح کے لقب سے یادکیاجاتاتھا آپ کی سخاوت اورفیاضی کابھی شہرہ تھا اورفقراء مدینہ کی اکثرپوشیدہ طورپرخبرگیری فرماتے تھے ہرنمازصبح کی تعقیبات کے بعد، آفتاب کے بلندہونے کے بعد سے پیشانی سجدہ میں رکھ دیتے تھے اورزوال کے وقت سراٹھاتے تھے قرآن مجیدکی نہایت دلکش اندازمیں تلاوت فرماتے تھے خودبھی روتے جاتے تھے اورپاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آوازسے متاثرہوکر روتے تھے (سوانح موسی کاظم ص ۸ ، اعلام الوری ۱۷۸) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کایہ طریقہ تھا کہ آپ فقیروں کوڈھونڈاکرتے تھے اورجوفقیرآپ کومل جاتاتھا اس کے گھرمیں روپیہ پیسہ اشرفی اورکھانا پانی پہنچایاکرتے تھے اوریہ عمل آپ کارات کے وقت ہوتاتھا اس طرح آپ فقراء مدینہ کے بے شمارگھروں کاآذوقہ چلارہے تھے اورلطف یہ ہے کہ ان لوگوں تک کویہ پتہ نہ تھاکہ ہم تک سامان پہنچانے والاکون ؟ یہ رازاس وقت کھلاجب آپ دنیاسے رحلت فرماگئے (نورالابصارص ۱۳۶ طبع مصر)۔
اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۴ میں ہے کہ آپ ہمیشہ دن بھرروزہ رکھتے تھے اوررات بھرنمازیں پڑھاکرتے تھے علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ آپ بے انتہاعبادت وریاضت فرمایاکرتے تھے اورطاعت خدامیں اس درجہ شدت برداشت کرتے تھے جس کی کوئی حدنہ تھی۔
ایک دفعہ مسجدنبوی میں آپ کودیکھاگیاکہ آپ سجدہ میں مناجات فرمارہے ہیں اوراس درجہ سجدہ کوطول دیاکہ صبح ہوگئی (وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۱۳۱) ۔
ایک شخص آپ کی برابربلاوجہ برائیاں کرتاتھا جب آپ کواس کاعلم ہواتوآپ نے ایک ہزاردینار(اشرفی) اس کے گھرپربطورانعام بھجوادیا(روائح المصطفی ص ۲۶۴) جس کے نتیجہ میں وہ اپنی حرکت سے بازآگیا۔


خلیفہ ہارون الرشید عباسی اورحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

۱۵/ ربیع الاول ۱۷۰ ھ کومہدی کابیٹا ابوجعفرہارون الرشیدعباسی خلیفہ وقت بنایاگیااس نے اپناوزیراعظم یحی بن خالدبرمکی کوبنایااورامام ابوحنیفہ کے شاگردابویوسف کوقاضی قضاة کادرجہ دیا،بروایتے ذاہبی اس نے اگرچہ بعض اچھے کام بھی کئے ہیں لیکن لہوولعب اورحصول لذت ممنوعہ میں منفردتھا، ابن خلدون کاکہناہے کہ یہ اپنے دادامنصورکے نقش قدم پرچلتاتھا فرق اتناتھا کہ وہ بخیل تھا اوریہ سخی، یہ پہلاخلیفہ ہے جس نے راگ راگنی اورموسیقی کوشریف پیسہ قراردیاتھا ،اس کی پیشانی پرسادات کشی کابھی نمایاں داغ ہے علم موسیقی کاماہرابواسحاق ابراہیم موصلی اس کادرباری تھا ۔
حبیب السیرمیں ہے کہ یہ پہلااسلامی بادشاہ ہے جس نے میدان میں گیندبازی کی اورشطرنج کے کھیل کاشوق کیااحادیث میں ہے کہ شطرنج کھیلنا بہت بڑا گناہ ہے جامع الاخبارمیں ہے کہ جب امام حسین کاسردرباریزیدیمں پہنچاتھاتووہ شطرنج کھیل رہاتھا تاریخ الخلفاء سیوطی میں ہے کہ ہارون رشیداپنے باپ کی مدخولہ لونڈی پرعاشق ہوگیا اس نے کہامیں تمہارے باپ کے پاس رہ چکی ہوں، تمہارے لیے حلال نہیں ہوں ہارون نے قاضی ابویوسف سے فتوی طلب کیا انہوں نے کہاآپ اس کی بات کیوں مانتے ہیں یہ جھوٹ بھی بول سکتی ہے اس فتوے کے سہارے سے اس نے اس کے ساتھ بدفعلی کی ۔
علامہ سیوطی یہ بھی لکھتے ہیں کہ بادشاہ ہارون نے ایک لونڈی خریدکراس کے ساتھ اسی رات بلااستبراء جماع کرنا چاہا،قاضی ابویوسف نے کہاکہ اسے اپنے کسی لڑکے کوہبہ کرکے استعمال کرلیجئے علامہ سیوطی کاکہناہے کہ اس فتوی کی اجرت امام ابویوسف نے ایک لاکھ درہم لی تھی علامہ ابن خلکان کاکہناہے کہ ابوحنیفہ کے شاگردوں میں ابویوسف کی نظیرنہ تھی اگریہ نہ ہوتے توامام ابوحنیفہ کاذکربھی نہ ہوتا۔
تاریخ اسلام مسٹرذاکرحسین میں بحوالہ صحاح الاخبارمرقوم ہے کہ ہارون الرشیدکادرجہ سادات کشی میں منصورسے کم نہ تھا اس نے ۱۷۶ ھ میں حضرت نفس زکیہ علیہ الرحمة کے بھائی یحی کودیوارمیں زندہ چنوادیاتھا اسی نے امام موسی کاظم کواس اندیشہ سے کہ کہیں یہ ولی اللہ میرے خلاف علم بغاوت بلندنہ کردیں اپنے ساتھ حجازسے عراق میں لاکر قیدکردیااور ۱۸۳ ھ میں زہرسے ہلاک کردیا۔
علامہ مجلسی تحفة الزائرمیں لکھتے ہیں کہ ہارون الرشیدنے دوسری صدی ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی قبرمطہرکی زمین جتوائی تھی اورقبرپرجوبیری کادرخت بطورنشان موجودتھا اسے کٹوادیاتھا ،جلاء العیون اورقمقام میں بحوالہ امالی شیخ طوسی مرقوم ہے کہ جب اس واقعہ کی اطلاع جریرابن عبدالحمیدکوہوئی توانہوں نے کہا کہ رسول خداصلعم کی حدیث”لعن اللہ قاطع السدرة“بیری کے درخت کاٹنے والے پرخداکی لعنت ہو، کامطلب اب واضح ہوا(تصویرکربلا ص ۶۱ طبع دہلی ص ۱۸۳۸) ۔

 

ہارون الرشیدکاپہلاحج اورامام موسی کاظم علیہ السلام کی پہلی گرفتاری

مورخ ابوالفداء لکھتاہے کہ عنان حکومت لینے کے بعد ہارون الرشیدنے ۱۷۳ ھ میں پہلے پہل حج کیا علامہ ابن حجرمکی تحریرفرماتے ہیں کہ ”جب ہارون الرشیدحج کوآیاتولوگوں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں چغلی کھائی کہ ان کے پاس ہرطرف سے مال چلاآتاہے ،اتفاق سے ایک روزہارون رشیدخانہ کعبہ کے نزدیک حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقی ہوا اورکہنے لگاتم ہی ہوجن سے لوگ چھپ چھپ کربیعت کرتے ہیں امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایاکہ ہم دلوں کے امام ہیں اورآپ جسموں کے،ہارون رشیدنے امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھاکہ تم کس دلیل سے کہتے ہوکہ ہم رسول اللہ کی ذریت ہیں حالانکہ تم علی کی اولادہواورہرشخص اپنے داداسے منتسب ہوتاہے ناناسے منتسب نہیں ہوتا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ خدائے کریم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے ”ومن ذریتہ داؤد وسلیمان وایوب وزکریاویحی وعیسی“ اورظاہرہے کہ حضرت عیسی بے باپ کے پیداہوئے تھے توجس طرح محض اپنی والدہ کی نسبت سے ذریت انبیاء میں ملحق ہوئے اسی طرح ہم بھی اپنی مادرگرامی حضرت فاطمہ کی نسبت سے جناب رسول خداکی ذریت ٹہرے، پھرفرمایا کہ جب آیہ مباہلہ نازل ہوئی تومباہلہ کہ وقت پیغمبرنے سواعلی اورفاطمہ اورحسن وحسین کے کسی کونہیں بلایا اوربفحوائے ”ابنانا“ حضرت حسن وحسین ہی رسول اللہ کے لیے بیٹے قرارپائے (صواعق محرقہ ص ۱۲۲ ،نورالابصار ص ۱۳۴ ،ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ ہارون رشیدحج کرنے کے بعد مدینہ منورہ آیااورزیارت کے لیے روضہ مقدسہ نبوی پرحاضرہوا اس وقت اس کے گردقریش اوردیگر قبائل عرب جمع تھے،نیزحضرت امام موسی کاظم بھی ساتھ تھے ہارون رشیدنے حاضرین پراپنافخرظاہرکرنے کے لیے قبرمبارک کی طرف ہوکرکہا، سلام ہوآپ پرائے رسول اللہ ،اے ابن عم(میرے چچازادبھائی) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ سلام ہو، آپ پرائے میرے پدربزرگوار! یہ سن کرہارون کے چہرہ کارنگ فق ہوگیا،اوراس نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ہمراہ لے جاکر قیدکردیا(وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۱۳۱ ، تاریخ احمدی ص ۳۴۹) ۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں آپ ہارون رشیدکے قیدخانہ میں تھے ہارون نے آپ کاامتحان کرنے کے لیے ایک نہایت حسین وجمیل لڑکی، آپ کی خدمت کرنے کے لیے قیدخانہ میں بھیجدی حضرت نے جب اسے دیکھاتولانے والے سے فرمایاکہ ہارون سے جاکر کہہ دینا کہ انہوں نے یہ ہدیہ واپس کیاہے اورکہاہے کہ ”بل انتم بہدیتکم تفرحون“ وہ عطائے توبہ لقاء تواس سے تم ہی خوشی حاصل کرو، اس نے ہارون سے واقعہ بیان کیا، ہارون نے کہا کہ اسے لے جاکروہیں چھوڑآؤ، اورابن جعفرسے کہوکہ نہ میں نے تمہاری مرضی سے تمہیں قیدکیاہے اورنہ تمہاری مرضی سے تمہارے پاس یہ لونڈی بھیجی ہے، میں جوحکم دوں وہ کرناہوگاالغرض وہ لومڑی حضرت کے پاس چھوڑ دی گئی
چند دنوں کے بعد ہارون نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر پتہ لگائے کہ اس لونڈی کا کےا رہا اس نے جو قید خانے میں جا کر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا اور بھاگا ہوا ہارون کے پاس آکر کہنے لگا کہ وہ لونڈی توزمین پر سجدہ مےں پڑی ہوئی ”سبّوح قدّوس“ ۔کہہ رہی ہے۔اور اس کا عجیب حال ہے ۔ہارون نے حکم دیا کہ اسے اس کے سامنے پیش کیا جائے ، جب وہ آئی تو بالکل مبہوث تھی ،ہارون نے پوچھا کہ بات کیا ہے ،اس نے کہا کہ جب میں حضرت کے پاس گئی اور میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوئی ہوں ،تو آپ نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ لوگ جب کہ میرے پاس موجود ہیں مجھے تیری کیا ضرورت ہے ،میں نے جب اس سمت کو نظر کی تو دیکھا کہ جنّت آراستہ ہے ،اورحوروغلماں موجودہے ان کاحسن وجمال دیکھ کرمیں سجدہ میں گرپڑی اورعبادت کرنے پرمجبورہوگئی ۔
اے بادشاہ میں نے وہ چیزیں کبھی نہیں دیکھیں جوقیدخانہ میں میری نظرسے گزریں، بادشاہ نے کہاکہ کہیں تونے سونے کی حالت میں خواب نہ دیکھاہو، اس نے کہااے بادشاہ ایسانہیں ہے میں نے عالم بیداری میں بچشم خودسب کچھ دیکھاہے یہ سن کربادشاہ نے اس عورت کوکسی محفوظ مقام پرپہنچادیا اوراس کے لیے حکم دیاگیاکہ اس کی نگرانی کی جائے تاکہ یہ کسی سے یہ واقعہ بیان نہ کرنے پائے ،راوی کابیان ہے کہ اس واقعہ کے بعدوہ تاحیات مشغول عبادت رہی اورجب کوئی اس کی نمازوغیرہ کے بارے میں کچھ کہتاتھا تویہ جواب میں کہتی تھی کہ میں نے عبدصالح امام موسی کاظم علیہ السلام کواسی طرح کرتے دیکھاہے۔
یہ پاکبازعورت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات سے چنددنوں پہلے فوت ہوگئی (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۶۳) ۔


قیدخانہ سے آپ کی رہائی

آپ قیدخانہ میں تکالیف سے دوچارتھے، اورہرقسم کی سختیاں آپ پرکی جارہی تھیں کہ ناگاہ بادشاہ نے ایک خواب دیکھاجس سے مجبورہوکر اس نے آپ کورہاکردیا،علامہ ابن حجرمکی بحوالہ علامہ مسعودی لکھتے ہیں کہ ایک شب کوہارون رشیدنے حضرت علی علیہ السلام کوخواب میں اس طرح دیکھا کہ وہ ایک تیشہ لیے ہوئے تشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ میرے فرزندکورہاکردے ورنہ میں ابھی تجھے کیفرکردارتک پہنچادوں گا اس خواب کودیکھتے ہی اس نے رہائی کاحکم دیا،اورکہاکہ اگرآپ یہاں رہناچاہیں تورہئے اورمدینہ جاناچاہتے ہیں توتشریف لے جائیے آپ کواختیارہے، علامہ مسعودی کاکہناہے کہ اسی شب کوحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی صلعم کوخواب میںدیکھاتھا (صواعق محرقہ ص ۱۲۲ طبع مصر،علامہ جامی لکھتے ہیں کہ مدینہ روانہ کرتے وقت ہارون نے آپ سے خروج کاشبہ ظاہرکیا آپ نے فرمایاکہ خروج وبغاوت میرے شایان شان نہیں ہے خداکی قسم میں ایساہرگزنہیں کرسکتا(شواہدالنبوت ص ۱۹۲) ۔


امام موسی کاظم علیہ السلام اورعلی بن یقطین بغدادی

قیدخانہ رشیدسے چھوٹنے کے بعدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام مدینہ منورہ پہنچے اوربدستوراپنے فرائض امامت کی ادائیگی میں مشغول ہوگئے، آپ چونکہ امام زمانہ تھے اس لیے آپ کوزمانہ کے تمام حوادث کی اطلاع تھی ۔
ایک مرتبہ ہارون رشیدنے علی بن یقطین بن موسی کوفی بغدادی کہ جوکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے خاص ماننے والے تھے اوراپنی کارکردگی کی وجہ سے ہارون رشیدکے مقربین میں سے تھے ،بہت سی چیزیں دیں جن میں خلعت فاخرہ اورایک بہت عمدہ قسم کاسیاہ زربفت کابناہوا چغہ تھا جس پرسونے کے تاروں سے پھول کڑھے ہوئے تھے اورجسے صرف خلفاء اوربادشاہ پہناکرتے تھے علی ین یقطین نے ازراہ تقرب وعقیدت اس سامان میں اوربہت سی چیزوں کااضافہ کرکے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میںبھیج دیا آپ نے ان کاہدیہ قبول کرلیا ،لیکن اس میں سے اس لباس مخصوص کوواپس کردیا جوزربفت کابناہواتھا اورفرمایاکہ اسے اپنے پاس رکھو، یہ تمہارے اس وقت کام آئے گاجب ”جان جوکھم“ میں پڑی ہوگی انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ امام نہ جانے کس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایاہواسے اپنے پاس رکھ لیا تھوڑے دنوں کے بعدابن یقطین اپنے ایک غلام سے ناراض ہوگئے اوراسے اپنے گھرسے نکال دیا اس نے جاکررشیدخلیفہ سے ان کی چغلی کھائی اورکہاکہ آپ نے جس قدرخلعت وغیرہ انہیں دی ہے انہوں نے سب کاسب امام موسی کاظم علیہ السلام کودیدیاہے،اور چونکہ وہ شیعہ ہیں، اس لیے امام کوبہت مانتے ہیں، بادشاہ نے جونہی یہ بات سنی، وہ آگ بگولہ ہوگیااوراس نے فوراسپاہیوں کوحکم دیا کہ علی بن یقطین کواسی حالت میں گرفتارکرلائیں جس حال میں ہوہوں ،الغرض ابن یقطین لائے گئے ،بادشاہ نے پوچھامیرادیاہواچغہ کہاں ہے؟
انہوں نے کہابادشاہ میرے پاس ہے اس نے کہامیں دیکھناچاہتاہوں اورسنو! اگرتم اس وقت اسے نہ دیکھاسکے تومیں تمہاری گردن ماردوں گا، انہوں نے کہابادشاہ میں ابھی پیش کرتاہوں، یہ کہہ کرانہوں نے ایک شخص سے کہاکہ میرے مکان میں جاکرمیرے فلاں کمرہ سے میراصندوق اٹھالا، جب وہ بتایاہواصندوق لے آیاتوآپ نے اس کی مہرتوڑی اورچغانکال کراس کے سامنے رکھ دیا، جب بادشاہ نے اپنی آنکھوں سے چغہ دیکھ لیا،تواس کاغصہ ٹھنڈاہوا، اورخوش ہوکرکہنے لگا، کہ اب میں تمہارے بارے میں کسی کی کوئی بات نہ مانوں گا(شواہد النبوت ص ۱۹۴) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ پھراس کے بعدرشیدنے اوربہت ساعطیہ دے کرانہیں عزت واحترام کے ساتھ واپس کردیا اورحکم دیاکہ چغلی کرنے والے کوایک ہزارکوڑے لگائے جائیں چنانچہ جلادوں نے مارناشروع کیااوروہ پانچ سوکوڑے کھاکرمرگیا(بحارالانوار ص ۱۳۰) ۔


علی ابن یقطین کوالٹاوضوکرنے کاحکم

علامہ طبرسی اورعلامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ علی بن یقطین نے امام موسی کاظم علیہ السلام کوایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ ”ہمارے درمیان“ اس امرمیں بحث ہورہی ہے کہ آیامسح کعب سے اصابع(انگلیوں) تک ہوناچاہئے یاانگلیوں سے کعب تک حضوراس اس کی وضاحت فرمائیں، حضرت نے اس خط کاایک عجیب وغریب جواب تحریرفرمایا آپ نے لکھا کہ میراخط پاتے ہی تم اس طرح وضوشروع کروکہ تین مرتبہ کلی کرو، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالو،تین مرتبہ منہ دھوؤ،اپنی ڈاڈھی کواچھی طرح بھگوؤ،سارے سرکامسح کرو،اندرباہرکانوں کامسح کرو،تین مرتبہ پاؤں دھوؤ اوردیکھومیرے اس حکم کے خلا ف ہرگزہرگزنہ کرنا۔
علی بن یقطین نے جب اس خط کوپڑھا،حیران رہ گئے لیکن یہ سمجھتے ہوئے کہ ”مولائی اعلم بماقال“ آپ نے جوکچھ حکم دیاہے اس کی گہرائی اوراس کوجہ کااچھی طرح آپ کوعلم ہوگا اس پرعمل کرناشروع کردیا۔
راوی کابیان ہے کہ علی بن یقطین کی مخالفت برابردربارمیں ہواکرتی تھی اورلوگ بادشاہ سے کہاکرتے تھے کہ یہ شیعہ ہے اورتمہارے مخالف ہے ایک دن بادشاہ نے اپنے بعض مشیروں سے کہاکہ علی بن یقطین کی شکایات بہت ہوچکی ہیں،اب میں خودچھپ کردیکھوں گا اوریہ معلوم کروں گاکہ وضوکیونکہ کرتے اورنمازکیسے پڑھتے ہیں ،چنانچہ اس نے چھپ کرآپ کے حجرہ میں نظرڈالی تودیکھاکہ وہ اہل سنت کے اصول اورطریقے پروضوکررہے ہیں یہ دیکھ کروہ ان سے مطمئن ہوگیااوراس کے بعدسے پھرکسی کے کہنے کوباورنہیں کیا۔
اس واقعہ کے فورا بعدامام موسی کاظم علیہ السلام کاخط علی بن یقطین کے پاس پہنچا جس میں مرقوم تھا کہ خدشہ دورہوگیا”توضاء کماامرک اللہ“ اب تم اسی طرح وضوکرو،جس طرح خدانے حکم دیاہے یعنی اب الٹاوضونہ کرنا،بلکہ سیدھااورصحیح وضوکرنااورتمہارے سوال کاجواب یہ ہے کہ انگلیوں کے سرے سے کعبین تک پاؤں کامسح ہوناچاہئے (اعلام الوری ص ۱۷۰ ،مناقب جلد ۵ ص ۵۸) ۔


وزیراعظم علی بن یقطین کوامام موسی کاظم کی فہمایش

علامہ حسین بن عبدالوہاب تحریرفرماتے ہیں کہ ”محمدبن علی صوفی کابیان ہے کہ ابراہیم جمال(جوامام موسی کاظم کے صحابی تھے) نے ایک دن ابوالحسن علی بن یقطین سے ملاقات کے لیے وقت چاہاانہوں نے وقت نہ دیا،اسی سال وہ حج کے لیے گئے اورحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بھی تشریف لے گئے ابن یقطین حضرت سے ملنے کے لیے گئے انہوں نے ملنے سے انکارکردیا،ابن یقطین کوبڑاتعجب ہوا،راستے میں ملاقات ہوئی توحضرت نے فرمایاکہ تم نے ابراہیم سے ملاقات کرنے سے انکارکیاتھا اس لیے میں بھی تم سے نہیں ملااوراس وقت تک نہ ملوں گا جب تک تم ان س معافی نہ مانگوگے اورانہیں راضی نہ کروگے ،ابن یقطین نے عرض کی مولامیں مدینہ میں ہوں اوروہ کوفہ میں ہیں، فوری ملاقات کیسے ہوسکتی ہے، فرمایاتم تنہابقیع میں جاؤ،ایک اونٹ تیارملے گااوراونٹ پرسوارہوکر کوفہ کے لیے روانہ ہوچشم زدن میں وہاں پہنچ جاؤگے چنانچہ وہ گئے اوراونٹ پرسوارہوکر کوفہ پہنچے ،ابراہیم کے دروازہ پردق الباب کیا آوازآئی کون ہے؟ کہامیں ابن یقطین ہوں ، انہوں نے کہا،تمہارامیرے دروازہ پرکیاکام ہے؟
ابن یقطین نے جواب دیا،سخت مصیبت میں مبتلاہوں، خداکے لیے ملنے کاوقت دو، چنانچہ انہوں نے اجازت دی، ابن یقطین نے قدموں پرسررکھ کرمعافی مانگی اورساراواقعہ کہہ سنایا ابراہیم نے معافی دی پھراسی اونٹ پرسوار ہوکر چشم زدن میں مدینہ پہنچے اورامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے، امام نے بھی معاف کردیااورملاقات کاوقت دے کرگفتگوفرمائی (عیون المعجزات ص ۱۲۳ طبع ملتان)۔


امام موسی کاظم اورفدک کے حدوداربعہ

علامہ یوسف بغدادی سبط ابن جوزی حنفی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن ہارون الرشیدنے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہاکہ آپ فدک لیناچاہیں تومیں دیدوں ،آپ نے فرمایاکہ میں جب اس کے حدودبتاؤں گاتوتواسے دینے پرراضی نہ ہوگا اورمیں اسی وقت لے سکتاہوں جب اس کے پورے حدوددئیے جائیں، اس نے پوچھااس کے حدودکیاہیں فرمایا پہلی حد،عدن ہے دوسری سمرقندہے تیسری حدافریقہ ہے چوتھی حدسیف البحرہے جوخزراورآرمینیہ کے قریب ہے یہ سن کرہارون رشیدآگ بگولہ ہوگیا اورکہنے لگاکہ پھرہمارے لیے کیارہا؟ حضرت نے فرمایاکہ اسی لیے تومیں نے لینے سے انکارکیاتھا اس واقعہ کے بعدہی سے ہارون رشیدحضرت کے درپئے قتل ہوگیا (خواص الامة علامہ سبط ابن جوزی س ۴۱۶) ۔


امام موسی کاظم علیہ السلام کے دوبارہ گرفتاری

علامہ ابن شہرآشوب،علامہ طبرسی،علامہ اربلی،علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ۷۰ ۔ ۱۶۹ ھ میں ہادی کے بعدہارون تخت خلافت پربیٹھا، سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جوسادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے پیش نظرتھے، خوداس کے باپ منصورکارویہ جوامام صادق علیہ السلام کے خلاف تھا، اسے معلوم تھا ،اس کایہ ارادہ کے جعفرصادق کے جانشین کوقتل کرڈالاجائے ،یقینااس کے بیٹے ہاؤوں کومعلوم ہوچکاہوگا ،وہ توامام جعفرصادق علیہ السلام کی حکیمانہ وصیت کااخلاقی دباؤتھا جس نے منصورکے ہاتھ باندھ دئے تھے اورپھرشہربغداد کی تعمیرکی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیاتھا، اب ہارون کے لیے سب سے پہلے یہی تصورپیداہوسکتاتھا کہ اس روحانیت کے مرکزکوجومدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے، مگرایک طرف امام موسی کاظم علیہ السلام کامحتاط اورخاموش طرزعمل اوردوسری طرف سلطنت کی اندرونی مشکلات ان کی وجہ سے نوبرس تک ہارون رشیدکوبھی کسی کھلے ہوئے تشدد کاامام کے خلاف موقع نہ ملا۔
اسی دوران یں عبداللہ ابن حسن کے فرزندیحی کاواقعہ درپیش ہوااوروہ امان دئیے جانے کے بعد تمام عہدوپیمان توڑکردردناک طریقے پرقیدرکھے گئے اورپھر قتل کئے گئے باوجودیکہ یحی کے معاملات سے امام موسی کاظم علیہ السلام کوکسی طرح کاسروکارنہ تھا، بلکہ واقعات سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت ان کوحکومت کی مخالفت سے منع فرماتے تھے مگرعداوت بنی فاطمہ کاجذبہ جویحی بن عبداللہ کی مخالفت کے بہانے سے ابھرگیاتھا ،اس کی زد سے امام موسی کاظم علیہ السلام بھی محفوظ نہ رہ سکے، ادھریحی بن خالدبرمکی نے جووزیراعظم تھا،امین (فرزندہارون رشید) کے اتالیق جعفربن محمداشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیاکہ یہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے شیعوں میں سے ہے اوران کے اقتدارکاخواہاں ہے۔
براہ راست اس کامقصدہارون کوجعفرسے برگشتہ کرناتھا ،لیکن بالواسطہ اس کاتعلق حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ بھی تھا اس لئے ہارون کو حضرت کی ضرررسانی کی فکرپیداہوگئی اسی دوران میں یہ واقعہ ہواکہ ہارون رشیدحج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں آیا اتفاق سے اسی سال حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بھی حج کوتشریف لائے ہوئے تھے ہارون نے اپنی آنکھوں سے اس عظمت ومرجعیت کامشاہدہ کیاجو مسلمانوں میں امام موسی کاظم کے متعلق پائی جاتی تھی اس سے اس کے حسدکی آگ بھڑک اٹھی اس کے بعداس میں محمدبن اسماعیل کی مخالفت نے اوراضافہ کردیا۔
واقعہ یہ ہے کہ اسماعیل ،امام جعفرصادق علیہ السلام کے بڑے فرزندتھے اوراس لیے ان کی زندگی میں عام طورپرلوگوں کاخیال یہ تھا، کہ وہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے قائم مقام ہوں گے مگر ان کاانتقال امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانے میں ہوگیااورلوگوں کایہ خیال غلط ثابت ہوا، پھربھی بعض سادہ لوح اس اصحاب اس خیال پررہے کہ جانشینی کاحق اسماعیل اوراولاداسماعیل میں منحصرہے انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت کوتسلیم نہیں کیاچنانچہ اسماعیلیہ فرقہ بن گیا مختصرتعدادمیں صحیح اب بھی دنیامیں موجودہے محمدان ہی اسماعیل کے فرزندتھے اوراس لیے امام موسی کاظم علیہ السلام سے ایک طرح کی مخالفت پہلے سے رکھتے تھے مگرچونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم تھی اوروہ افرادکوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اس لیے ظاہری طورپرامام موسی کاظم کے یہاں آمدورفت رکھتے تھے اورظاہری طورپرقرابت داری کے تعلقات قائم کئے ہوئے تھے۔
ہارون رشیدنے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پرغورکرتے ہوئے یحی برمکی سے مشورہ لیا، کہ میں چاہتاہوں کہ اولادابوطالب میں سے کسی کو بلاکراس سے موسی بن جعفرکے پورے حالات دریافت کروں یحی جوخودبھی عداوت بنی فاطمہ میں ہارون سے کم نہ تھا اس نے محمدبن اسماعیل کاپتہ دیا، کہ آپ ان کوبلاکر دریافت کریں، توصحیح حالات معلوم ہوسکیں گے، چنانچہ اسی وقت محمدبن اسماعیل کے نام خط لکھاگیا۔
شہنشاہ وقت کاخط جومحمدبن اسماعیل کوپہنچاتواس نے اپنی دنیاوی کامیابی کابہترین ذریعہ سمجھ کرفورا بغداد جانے کاارادہ کرلیامگران دنوں ہاتھ بالکل خالی تھا، اتناروپیہ پاس موجودنہ تھا کہ سامان سفرکرتے ، مجبورااسی ڈیوڑھی پرآناپڑاجہاں کرم وعطاء میں دوست اوردشمن کی تفریق نہ تھی امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس آکربغدادجانے کاارادہ ظاہرکیاحضرت خوب سمجھتے تھے کہ اس بغدادکے سفرکاپس منظراوراس کی بنیاد کیاہے حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفرکاسبب دریافت کیاانہوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ہوئے کہا قرضداربہت ہوگیاہوں، خیال کرتاہوں کہ شایدوہاں جاکرکوئی صورت بسر اوقات کی نکلے اورمیراقرضہ اداہوجائے حضرت نے فرمایا،وہاں جانے کی ضرروت نہیں ہے میں وعدہ کرتاہوں کہ تمہاراتمام قرضہ اداکردوں گا اورجہاں تک ہوگاتمہارے ضروریات زندگی بھی پورے کرتارہوں گا۔
افسوس ہے کہ محمدنے اس کے بعدبھی بغدادجانے کاارادہ نہیں بدلاچلتے وقت حضرت سے رخصت ہونے لگے توعرض کیاکہ مجھے وہاں کے متعلق کچھ ہدایت فرمائی جائے ، حضرت نے اس کاکچھ جواب نہ دیا جب انہوں نے کئی مرتبہ اصرارکیاتوحضرت نے فرمایاکہ ”بس اتناخیال رکھناکہ میرے خون میں شریک نہ ہونا،اورمیرے بچوں کی یتمی کاباعث نہ بننا“ محمدنے اس کے بعدبہت کہاکہ یہ بھلاکونسی بات ہے جومجھ سے کہی جاتی ہے کچھ اورہدایت فرمائیے حضرت نے اس کے علاوہ کچھ کہنے سے انکارکیا، جب وہ چلنے لگاتوحضرت نے ساڑھے چارسودیناراورپندرہ سودرہم انہیں مصارف سفرکے لیے عطا فرمائے نتیجہ وہی ہوا،جوحضرت کے پیش نظرتھا،محمدبن اسماعیل بغدادپہنچے اوروزیراعظم برمکی کے مہمان ہوئے اس کے بعدیحی کے ساتھ ہارون کے دربارمیں پہنچے ،مصلحت وقت کی بناپربہت تعظیم وتکریم کی گئی ،اثناء گفتگومیں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے محمدنے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کاتذکرہ کیااوریہ بھی کہا کہ”میں نے آج تک نہیں دیکھا اورنہ سناکہ ایک ملک میں دوبادشاہ ہوں“۔
اس نے کہا: کہ اس کامطلب ؟ محمدنے کہاکہ بالکل اسی طرح جیسے آپ بغدادمیں سلطنت کررہے ہیں،موسی کاظم مدینہ میں اپنی سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں، اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتاہے اوروہ آپ کے مقابلہ کے دعوے دارہیں انہوں نے تیس ہزاراشرفی کی ایک زمین خریدی ہے جس کانام ”سیریہ“(شبلنجی) یہی وہ باتیں تھیں جن کے کہنے کے لیے یحی برمکی نے محمدکومنتخب کیاتھا، ہارون کاغیظ وغضب انتہائی اشتغال کے درجہ تک پہنچ گیااس نے محمد کودس ہزاردینارعطاکرکے رخصت کیاخداکاکرنایہ کہ محمدکواس رقم سے فائدہ اٹھانے کاایک دن بھی موقع نہیں ملا، اسی شب کوان کے حلق میں دردپیداہوا، غالبا ”خناق“ ہوگیااورصبح ہوتے ہوتے وہ دنیاسے رخصت ہوگئے ہارون کویہ خبرپہنچی تواس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوالیے ،مگرمحمدکی باتوں کااثراس کے دل پرایساجم گیاتھا کہ اس نے یہ طے کرلیاکہ امام موسی کاظم کانام صفحہ ہستی سے مٹادیاجائے۔
چنانچہ ۱۷۹ ھ میں پھرہارون رشیدنے مکہ کاسفرکیااوروہاں سے مدینہ منورہ گیا، دوایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسی کاظم علیہ السلام کو گرفتارکرنے کے لیے روانہ کیے جب یہ لوگ امام کے مکان پرپہنچے تومعلوم ہواکہ حضرت روضئہ رسول اللہ پرہیں ان لوگوں نے روضئہ رسول کی عزت کابھی خیال نہ کیاحضرت اس وقت قبررسول کے نزدیک نمازمیں مشغول تھے بے رحم دشمنوں نے آپ کونمازکی حالت میں قیدکرلیا، اورہارون کے پاس لے گئے مدینہ رسول کے رہنے والوں میں بے حسی اس کے پہلے بھی بہت دفعہ دیکھی جاچکی تھی یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کافرزندروضہ رسول سے اس طرح گرفتارکرکے لے جایاجارہاتھامگرنام ونہادمسلمانوں میں ایک بھی ایسانہ تھاجوکسی طرح کی آوازاحتجاج بلندکرتا، یہ ۲۰/ شوال ۱۷۹ ھ کاواقعہ ہے۔
ہارون نے اس اندیشہ سے کہ کوئی جماعت امام موسی کاظم کورہاکرانے کی کوشش نہ کرے، دومحملیں تیارکرائیں ایک میں امام موسی کاظم کوسوارکرایااوراس کی ایک بہت بڑی فوجی جمعیت کے حلقہ میں بصرہ روانہ کیااوردوسری محمل جوخالی تھی اسے بھی اتنی ہی جمعیت کی حفاظت میں بغدادروانہ کیامقصدیہ تھاکہ آپ کے محل قیام اورقیدکی جگہ کوبھی مشکوک بنادیاجائے یہ نہایت حسرتناک واقعہ تھاکہ امام کے اہل حرم اوربچے وقت رخصت آپ کودیکھ بھی نہ سکے اوراچانک محل سرامیں صرف یہ اطلاع پہنچ سکی کہ حضرت سلطنت وقت کی طرف سے قیدکرلیے گئے اس سے بیویوں اوربچوں میں کہرام برپاہوگیااوریقیناامام کے دل پربھی اس کاصدمہ ہوسکتاہے وہ ظاہرہے مگر آپ کے ضبط وصبرکی طاقت کے سامنے ہر مشکل آسان تھی۔
معلوم نہیں کتنے ہیرپھیرسے راستہ طے کیاگیاتھاکہ پورے ایک مہینہ سترہ روزکے بعد ۷/ ذی الحجہ کوآپ بصرہ پہنچائے گئے ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رہے یہاں کاحاکم ہارون کاچچازادبھائی عیسی بن جعفرتھا، شروع میں تواسے صرف بادشاہ کے حکم کی تعمیل مدنظرتھی، بعدمیں اس نے غورکرناشروع کیاکہ آخر ان کے قیدکئے جانے کاسبب کیاہے؟
اس سلسلہ میں اس کوامام علیہ السلام کے حالات اورسیرت زندگی اوراخلاق واوصاف کی جستجوکاموقع بھی ملا، اورجتنا اس نے امام کی سیرت کامطالعہ کیااتنااس کے دل پرآپ کی بلندی اخلاق اورحسن کردارکااثرقائم ہوتاگیا اپنے ان اثرات سے اس نے ہارون کومطلع بھی کردیا، ہارون پراس کاالٹااثرہواکہ عیسی کے متعلق بدگمانی پیداہوگئی اس لیے اس نے امام موسی کاظم علیہ السلام کو بغدادمیں بلابھیجااورفضل بن ربیع کی حراست میں دیدیااورپھرفضل کارجحان شیعیت کی طرف محسوس کرکے یحی برمکی کواس کے لیے مقررکیامعلوم ہوتاہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے اخلاق واوصاف کی کشش ہرایک پراثرڈالتی تھی اس لیے ظالم بادشاہ کونگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی سب سے آخرمیں امام علیہ السلام ”سندی بن شاہک“ کے قیدخانہ میں رکھے گئے یہ بہت ہی بے رحم اورسخت دل تھا ملاحظہ ہو(مناقب جلد ۵ ص ۶۸ ، اعلام الوری ص ۱۸۰ ، کشف الغمہ ص ۱۰۸ ، نورالابصار ص ۱۳۶ ، سوانح امام موسی کاظم ص ۱۵) ۔


امام علیہ السلام کاقیدخانہ میں امتحان اورعلم غیب کامظاہرہ

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں آپ ہارون رشیدکے قیدخانہ کی سختیاں برداشت فرمارہے تھے امام ابوحنیفہ کے شاگردرشیدابویوسف اورمحمدبن حسن ایک شب قیدخانہ میں اس لیے گئے کہ آپ کے بحرعلم کی تھاہ معلوم کریں اوردیکھیں کہ آپ علم کے کتنے پانی میں ہیں وہاں پہنچ کران لوگوں نے سلام کیا،امام علیہ السلام نے جواب سلام عنایت فرمایا،ابھی یہ حضرات کچھ پوچھنے نہ پائے تھے کہ ایک ملازم ڈیوٹی ختم کرکے گھرجاتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض پردازہواکہ میں کل واپس آؤں گااگرکچھ منگاناہوتومجھ سے فرمادیجیے میں لیتاآؤں گا آپ نے ارشادفرمایامجھے کسی چیزکی ضرورت نہیں، جب وہ چلاگیاتوآپ نے ابویوسف وغیرہ سے کہاکہ یہ بیچارہ مجھ سے کہتاہے کہ میں اس سے اپنی حاجت بیان کروں تاکہ یہ کل اس کی تکمیل وتعمیل کردے لیکن اسے خبرنہیں، کہ یہ آج رات کووفات پاجائے گا،ان حضرات نے جویہ سناتوسوال وجواب کئے بغیرہی واپس چلے آئے اورآپس میں کہنے لگے کہ ہم ان سے حلال وحرام ،واجب وسنت کے متعلق سوالات کرناچاہتاتھے ”فاخذیتکلم معناعلم الغیب“ مگریہ توہم سے علم غیب کی باتیں کررہے تھے اس کے بعدان دونوں حضرات نے اس ملازم کے حالات کاپتہ لگایا،تومعلوم ہواکہ وہ ناگہانی طورپررات ہی میں وفات کرگیایہ معلوم کرکے یہ حضرات سخت متعجب ہوئے(نورالابصار ص ۱۴۶) ۔
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدیہ حضرات پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہوئے کہ ہمیں معلوم تھاکہ آپ کوصرف علم حلال وحرام ہی میں مہارت حاصل ہے لیکن قیدخانہ کے ملازم نے واضح کردیا،کہ آپ علم المنایااورعلم غیب بھی جانتے ہیں آپ نے ارشادفرمایا کہ یہ علم ہمارے لیے مخصوص ہے اس کی تعلیم حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کودی تھی ،اوران سے یہ علم ہم تک پہنچاہے۔


حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ جب ہارون رشیدن بصرہ میں ایک سال قیدرکھنے کے بعدعیسی ابن جعفروالی بصرہ کولکھاکہ موسی بن جعفر(امام موسی کاظم)کوقتل کرکے بادشاہ کوان کے وجودسے سکون دے دیے تواس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کے بعدہارون رشیدکولکھاکہ اے بادشاہ امام موسی کاظم علیہ السلام میں میں نے اس ایک سال کے اندرکوئی برائی نہیں دیکھی یہ شب وروزنمازروزہ میں مصروف ومشغول رہتے ہیں عوام اورحکومت کے لیے دعائے خیرکیاکرتے ہیں اورملک کی فلاح وبہبودکے خواہشمندہیں بھلامجھ سے کیونکرہوسکتاہے کہ میں انہیں قتل کرکے اپنی عاقبت بگاڑوں۔
”اے بادشاہ ! میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اوراپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہاہوں اورسخت حرج محسوس کرتاہوں، لہذاتومجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کربلکہ مجھے حکم دیدے کہ میں انہیں قیدمشقت سے رہاکردوں اس خط کے پانے کے بعدہارون رشیدنے اخر میں یہ کام سندی بن شاہک کے حوالہ کیا اوراسی سے آپ کوزہردلواکرشہیدکرادیازہرکھانے کے بعدآپ تین روزتک تڑپتے رہے، یہاں تک کہ وفات پاگئے (نورالابصار ص ۱۳۷) ۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ زہرکھاتے ہی آپ نے فرمایاکہ آج مجھے زہردیاگیا ہے کل میرابدن زردہوجائےگا اورتیسرے سیاہ ہوگا اوراسی دن میں اس دنیاسے رخصت ہوجاؤں گاچنانچہ ایساہی ہوا(شواہدالنبوت ص ۱۹۳) ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ ہارون رشیدنے آپ کوبغدادمیں قیدکردیا ”فلم یخرج من حبسہ الامیتامقیدا“ اورتاحیات قیدرکھاآپ کی وفات کے بعدوفات کے بعدہتھکڑی اوربیڑی کٹوائی گئی آپ کی وفات ہارون رشیدکے زہرسے ہوئی جواس نے ابن شاہک کے ذریعہ سے دلوایا تھا جب آپ کوکھانے یاخرمہ میں زہردیاگیاتوآپ تین روزتک تڑپتے رہے یہاں تک کہ انتقال ہوگیا(صواعق محرقہ ۱۳۲ ،ارحج المطالب ص ۴۵۴)
علامہ ابن الساعی علی بن انجب بغدادی لکھتے ہیں کہ آپ کوزہرسے انتہائی مظلومی کی حالت میں شہیدکردیاگیا(اخبارالخلفاء) علامہ ابوالفداء لکھتے ہیں کہ قیدخانہ رشیدمیں آپ نے وفات پائی (ابوالفداء جلد ۲ ص ۱۵۱) ،علامہ دیار بکری لکھتے ہیں کہ آپ کوہارون رشیدکے حکم سے یحی بن خالدبرمکی
وزیراعظم نے خرمہ میں زہردے کرشہیدکردیا(تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲۰) ۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ آپ کوہارون رشیدنے بغدادمیں لاکرتاعمرقیدرکھاآخرمیں اپنے وزیراعظم یحی برمکی کے ذریعہ سے قیدخانہ میں زہردلوایااورآپ وفات پاگئے (شواہدالنبوت ص ۱۹۳) ۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ آپ کوکئی مرتبہ زہردیاگیالیکن آپ ہربارمحفوظ رہے ایک مرتبہ آپ نے وہ خرمہ اٹھاکرجس میں زہرتھا زمیں پرپھینک دیاجسے ہارون کے کتے نے کھالیااوروہ مرگیا کتے کے مرنے کی خبرسے ہارون رشیدکو شدید رنج ہوااوراس نے خادم سے سخت بازپرس کی (جلاء العیون ص ۲۷۶) ۔
تعداداولاد صواعق محرقہ میں ہے کہ آپ کے ۳۷ اولادتھی

مؤلف: شاھرودی ڈاٹ نیٹ

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،خودکشی مغربی ممالک کے بڑے مسائل میں سے ایک بن چکی ہے، کیونکہ سالانہ ہزاروں لوگ خودکشیاں کرتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا میں سالانہ تقریباً 800,000 افراد خودکشی کے ذریعے اپنی جانوں کو گنوا بیٹھتے ہیں۔

مثال کے طور پر؛ اسپین میں سالانہ تقریباً 4000 افراد خودکشی کرتے ہیں جو کہ دیگر اعدادوشمار کے مقابلے میں ایک قابل ذکر تعداد ہے اور یہ تعداد اسپین میں ٹریفک حادثات سے دوگنا، قتل سے 11 گنا اور گھریلو تشدد سے 80 گنا زیادہ ہے۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 2017ء میں روزانہ کی بنیاد پر 129 افراد یعنی 47,000 خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں۔ مغربی ممالک کے نوجوانوں میں خودکشی موت کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے۔

اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں کلینیکل کونسلر اور خودکشی سے بچاؤ کی ماہر لورا لیوس کے مطابق، خودکشی ایک پیچیدہ، حساس اور مشکل مسئلہ ہے۔ وہ مرکز برائے دماغی صحت کی ایک ماہر کے عنوان سے کہتی ہیں کہ ہمیں اس مسئلے کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ خودکشی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی۔

وہ کہتی ہیں کہ خودکشی کی وجوہات کئی طریقوں سے پیدا ہوتی ہیں، ممکن ہے کچھ وجوہات احساسِ ناامیدی یا بے بسی کی بنا پر وجود میں آئیں، کچھ وجوہات زیادہ ٹنشن کی وجہ سے ہو سکتی ہیں اور کچھ وجوہات مالی مسائل سے وجود میں آ سکتی ہیں، لیکن جس طرح سے ہمیں خودکشی کے اسباب کو جاننا جتنا ضروری ہے، اسی طرح اس کی روک تھام کے عوامل کو جاننا بھی ضروری ہے۔وہ خصوصیات جو لوگوں میں خودکشی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں، ان میں سماجی اور خاندانی تعاون، ثقافت و تمدن وغیرہ شامل ہیں۔

اس ماہر کے مطابق، خودکشی کی روک تھام میں ایمان کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ درحقیقت، خودکشی کی روک تھام میں سب سے اہم عوامل معنویت اور مذہب ہے، جو کہ خودکشی کو روکنے کے لئے ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایمان اور معنویت،ایک ایسا معنی اور مقصد فراہم کرتے ہیں، جو تمام لوگوں کو امید اور ایک لذت بخش زندگی کی تشکیل میں مدد فراہم کرتے ہیں۔جب کوئی شخص کسی بھی واقعے کا اعتماد اور یقین کے ساتھ سامنا کرتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ زندہ رہنے کی وجوہات باقی ہیں تو اس میں خودکشی کا امکان بہت کم ہو جائے گا۔