سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز- قرآن کریم میں کہا گیا ہے: «قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ». (رعد/ 16)

یہ قرآن کی توحیدی ترین آیت ہے۔ اس میں خدا اور انسانوں کی سرپرستی کے حوالے سے سوالات پوچھے گیے ہیں، ابتدا میں سوال کیا گیا ہے«پروردگار آسمان و زمین کون ہے» اور جواب دیتا ہے «خدا» اور پھر سوال ہوتا ہے «کیوں ایسے لوگوں کو سرپرست چنے  جاتے ہیں جو اپنے نفع و نقصان پر قادر نہیں؟

 

اس آیت میں اللہ تعالی کی قبولیت پر بات نہیں بلکہ خدا کی «ربوبیت» یعنی دنیا کو سنبھالنے اور پرورش کی بات ہے۔ یہاں بہت باریک نکتہ ہے۔ فرعون نہیں کہتا تھا کہ «میں الله هوں»، بلکه کہتا تھا «انا ربکم الاعلی»(نازعات/ 24)؛ یعنی میں دنیا کا سنبھالنے والا ہوں، نه خلق کرنے والا. قرآن کہتا ہے: «وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَی» (زمر/ 3) یعنی اگر بت پرست بتوں کی پوجا کرتے تو اس وجہ سے کہ وہ اللہ تک پہنچے، اسی وجہ سے انکو ہم مشرک کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کا شریک انتخاب کیا ۔

 

تاہم جنہوں نے قبول کیا کہ خدا انکے سرپرست بنے نہ صرف باتوں کی حد تک بلکہ عمل میں انکا کردار الہی کردار رہا اور اسی معیار پر انکا اخلاق رہا اور خدا کی راہ پر قایم رہے۔ اسی لیے اس آیت میں یوں سوال کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے راستے کو خود تعین کرے اور درست راستے پر چلے یا نادرست کا انتخاب کرے۔؟  ایک بینا اور ہوشیار بنے یا نابینا اور غفلت زدہ رہے؟

* ایرانی مفسر قرآنی اور محقق سیدمجتبی حسینی کی باتوں سے اقتباس

تاریخ انسانیت نے شاید مولاعلی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا کوئی مظلوم نہ دیکھا ہو!!
اگرسرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بے پناہ فضائل و مصائب اور فداکاریوں سے بھری زندگی کا غائرانہ مطالعہ کیاجائےتو یہ حقیقت بآسانی مجسم ہوکر سامنے آسکتی ہےکہ واقعاً آپ تاریخ آدم و عالم کے سب سے بڑے مظلوم ہیں !!!!چونکہ :
آپ ہی تنہا وہ ذات ہیں جسے الہی انتظام و اہتمام کےتحت بیت اللہ الحرام " خانہ کعبہ" میں پیدا کیا گیا ہے ۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرکارسید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی الہی و آسمانی آواز پر لبیک کہی ہے۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خداوند احد کی وحدانیت اور سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی کھل کر گواھی دی اور اس پر اپنے مکمل ایمان و ایقان کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلےحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی انجام دی ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد اور جناب خدیجہ علیھا السلام ہی وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے کئی سال تک سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نماز اداکی اور کلمہ " لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ " زبان پر جاری وساری رکھا ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد ہیں جو ہرجگہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور ہر مقام پرآپ کا دفاع کرتے نیز کفار قریش کے آزار و استہزاء سے آپ کوبچاتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دعوت ذوالعشیرہ کے انعقاد کا انتظام و اہتمام بھی کیا، سرکار سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرسخت مخالفین کے مقابلے میں کھل کر آپ کی نصرت و حمایت کا وعدہ بھی کیا اور اسی دعوت میں ابولہب جیسے غلیظ و شدید دشمنوں کے طعن و تشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو شعب ابی طالب میں ہزار سختیوں کے باوجود شمع رسالت کا ہروقت پروانہ وار طواف کرتے رہے اور ایک دو دن نہیں ، تین سال تک وجود پیغمبر کی پاسداری میں آپ نے دن رات ایک کردیئے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے طائف کی طرف سرکار خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آنحضرت کے ہمراہ وہاں کے ناگوارحالات کا مشاہدہ و مقابلہ کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں ، جوشب ہجرت بستر رسالت پر چالیس قبیلوں کی کھنچی ہوئی خونخوار تلواروں کے سائے میں خوشی سے اس لئےسوگئے تاکہ اللہ عزوجل کے رسول کی جان محفوظ رہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں، جنھوں نے شب ہجرت کی قربانگاہ میں ایثارو فداکاری کے لازوال نقوش ثبت کر کے صبح ہجرت رسول اللہ کے قرضوں کو ادا ، آپ کےکئے ہوئےعہد و پیمان کو وفا اور اہل مکہ کی آنحضرت کے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو واپس کیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے مکہ سے قافلہ فواطم اور ناموس رسول کو بعزت و حفاظت مدینہ پہنچایا ہے اور اس سفر ہجرت کے دوران اپنی شجاعت ، دلیری ، صلابت ، جوانمردی ، عفت ، غیرت ، حمیت اور ذمہ دارانہ شخصیت کی مثال قائم کی ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دین اسلام اور آنحضرت پرکفار و مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تمام جنگوں میں پورے جوش و خروش اور اخلاص و شجاعت کے ساتھ شرکت کی ہے اور بڑے بڑے فیل پیکر دشمنوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے ، البتہ بعض جنگوں میں آپ نےخود بھی دسیوں زخم کھائے ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے خداوند سبحان و قدوس اور اس کے رسول کی ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور حکم خداو رسول کو کسی کی ملامت ، طعن و تشنیع ، تہدید و عداوت کی پروراہ کئے بغیر ہمیشہ جامہ عمل پہنایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے حکم خداو رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مکہ پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے کٹر اور خونخوار دشمنوں ( کفار و مشرکین مکہ) کے درمیان سورہ برائت کی تبلیغ و تبیین کا خطیر فریضہ انجام دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو دشمن درخت بید کی طرح کانپنے لگتے اور دوستوں کے چہرے امید فتح و ظفر کی وجہ سے کھل اٹھتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں آیہ مباھلہ نے"نفس و جان رسول " قرار دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں " کل ایمان " کا لقب دیا گیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ جوخداوندسبحان کی نہایت محترم و مقدس کنیز اور سیدالمرسلین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے کفو و شوہر ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ ادیب عرب خلیل ابن احمد فراھیدی کے بقول " جن کے فضائل دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے بغض و عداوت کی وجہ سے چھپائے ہیں ، اس کے باوجود کائنات کے شرق و غرب آپ کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرے نظر آتے ہیں ( روضۃ المتقین ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۵)

آپ ہی تنہا وہ مرد پیں جن کے سلسلہ میں اہل سنت کے امام احمد ابن حنبل نے یہ اظہار کیا ہے:

جتنی روایات صحیح سندوں کے ساتھ علی ابن ابی طالب کے فصائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ، اتنی رسول اللہ کے کسی ایک صحابی کےبارے میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔(طبقات الحنابله، ابن ابی یعلی، چاپ دارالمعرفہ بیروت ، ج۲،ص۱۲۰)

لیکن !!!!
اسی طرح کی ان گنت عظمتوں ، ناقابل شمارفضیلتوں ، عظیم ترین قربانیوں اور بے انتہا مسلسل فداکاریوں کے باوجود سرکار سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیامت خیز وفات کے بعد آپ اسقدر مظلوم ہوگئے کہ :
آپ ہی وہ ہیں جنھوں نےفرط رنج و الم سے موسلادھار بارش کی طرح بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تنہا رسول اللہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا ، نماز میت پڑھی اور دل پر پتھر رکھ کر سپرد لحدکیا۔
آپ ہی وہ ہیں کہ وفات رسول جیسی حشر انگیز مصیبت پر تسلی دینے کے بجائےجن سے ان کا مسلم حق خلافت و حکومت انتہائی بے غیرتی کے ساتھ چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے اس مقدس دروازہ کو آگ لگائی گئی ، جس پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول اپنے " اھل بیت " پر سلام بھیجا کرتے تھے۔
آپ ھی وہ مظلوم ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی شریک حیات شہزادئ کونین حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی ہتک حرمت کی گئی اور عین عالم شباب میں اس پاک و بے گناہ بی بی کو درو دیوار کے درمیان پیس ڈالا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کے بیٹے " محسن " کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شکم مادر میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن سے حق خلافت کے بعد "فدک" بھی چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں، اللہ و رسول کے حکم سے جن کے ہاتھوں پر میدان غدیر میں سوالاکھ مسلمانوں نے بیعت کی تھی ، اس کے باوجود جعلی و غاصب خلیفہ نے آپ سے زبردستی اپنی بیعت کا مطالبہ کیا اور آپ اور آپ کے معصوم اھل بیت پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ رسول خدا کے بعد " اعلم و افضل امت" ہونے کے باوجود جنھیں غصب خلافت و حکومت کے ہمراہ پچیس سال تک محراب و منبر سے دوررکھا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جنھوں نے پچیس سال کی طویل مدت اس کربناک حالت میں گزاری" فی العین قذیٰ و فی الحلق شجا" کہ آنکھ میں کانٹا کھٹک رہا تھا اور خلق میں ہڈی پھنسی ھوئی تھی۔( نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ)
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ قتل عثمان کے بعد جن کے ہاتھوں پر تمام امت نے شدید اصرار کے ساتھ بیعت کی اور آپ کو اپنا حاکم و خلیفہ تسلیم کیا ، لیکن اس ظاہری خلافت کی تقریباً پانچ سالہ مدت میں آپ پر نہایت خطرناک تین جنگیں مسلط کردی گئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کی سانس نہیں لینے دی گئی۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جو ذوالعشیرہ سے لے کر آخر عمر تک اسلام و مسلمین اور انسانیت کے لئے شب و روز فداکاری میں مصروف رھے ، اور جب پروردگار سے دائمی ملاقات کی دی ہوئی سچی خبر کے ہنگام وقوع کو محسوس کرکے مسجد کوفہ کی محراب میں دنیا و مافیھا کو چھوڑ کر فقط اورفقط اپنےعزیز و محبوب خالق و مالک کی یاد و عبادت اور اس سے راز و نیاز میں غرق ہوئے تو عین اسی عالم میں آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا اور آپ نے اپنےخون میں نہانے کے باوجود شکر و فخر کے ملے جلے احساس کے ساتھ یہ نعرہ بلندکیا:
فزت و رب الکعبہ( رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا)۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ ۱۹ماہ رمضان کو بوقت فجر عالم نماز اور حالت روزہ میں جن کے سر مبارک پر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سےضربت لگائی گئی ، تو آپ اس کے کرب سے دو دن تک تڑپتے رہے اور سن ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں شب کے ابتدائی حصہ میں اس سرائے فانی کوچھوڑ کر ھمیشہ کے لئےاپنے رؤف ومہربان اور سبحان و قدوس پروردگار کی بارگاہ اقدس میں جاپہنچے اور اس وقت آپ کی اندوھناک شہادت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے یہ مرثیہ پڑھا:
لتھدمت و اللہ ارکان الھدیٰ ، و انطمست اعلام التقیٰ،وانفصمت العروة الوثقى ، قتل ابن عم المصطفى ، قتل على المرتضى، قتله اشقى الاشقیاء.
قسم بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے، تقوی کے نشانات مٹ گئے ، اللہ اور بندوں کے درمیان کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، مصطفے کے ابن عم علئ مرتضیٰ کو شہید کردیا گیا اور انھیں شقی ترین ( ابن ملجم ) نے قتل کرڈالا۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی مظلومیت کی بنیادی وجہ :

نہایت اختصارکے ساتھ بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ھے کہ مولا کی مظلومیت کی اصل وجہ آپ کی بہر صورت عدل و داد کی حمایت ، مظلوموں کی مدد و نصرت اور بہرحال و بہرقیمت ظلم و ستم اور ظالموں کی مخالفت کرنا تھی۔
تاریخ گواہ ھے کہ آپ جب تک زندہ رہے ھمیشہ عدل و داد کے حامی اور اس کے نفوذ و قیام کے لئےکوشاں ، مظلوموں کے مدگار و مدافع اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم و ستم کے مخالف اور ظالموں سے بر سر پیکار رہے۔
یہ سچ ہے کہ مولا مظلوم رہے ، مگر کبھی بھی ظالموں اور ستمگروں کے محکوم نہیں رہے بلکہ آپ نے ان کے خلاف بلا وقفہ اپناجہاد و قیام جاری و ساری رکھا ہے ، یہانتک کہ بستر شہادت سے " کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" کے ذریعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھی آپ "مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں کی عداوت و مخالفت" میں یہ جہاد و قیام جاری و ساری رکھنے کی وصیت فرما کر گئے ہیں۔

مولا کے جہادو قیام کا اثر :

آپ کے اس مسلسل قیام و جہاد کا ایک عظیم اثر تو حسن ، حسین، زینب ، ام کلثوم ، ابوالفضل العباس ، عمار ، ابوذر ، مالک اشتر ، محمد ابن ابی بکر اور میثم تمار جیسے ان گنت ظلم ستیز چہروں کا نہ ٹوٹنے والا نہایت مبارک سلسلہ ھے۔
اور دوسرا اثر یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنی ہزارہا مکاریوں اور عیاریوں کے باوجود بھی ظاہری دینداری کےچغےکی آڑ میں اپنے مکروہ چہروں کو نہ چھپا سکے اور وہ اتنے بےنقاب ہوگئےکہ تاریخ کا ہرمنصف و حقیقی طالب علم کسی بھی دور میں انھیں بآسانی پہچان سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے مکروہ چہروں کی پہچان کے ذریعہ اپنے دور کے ستمگروں کی بھی شناخت کرسکتا ہےاور ان سے نپٹنے کی جرائت و ھمت کو بھی اپنے وجود میں جنم دے سکتا ہے۔

ہماراافتخار اور ہماری ذمہ داری :

الحمدللہ ھمیں فخر ہے کہ ہم سب علی والے ہیں، لہذا بہت توجہ دیں کہ آج تک جس طرح ہم نے" حیدری نعروں" کے ذریعہ اپنی پہچان بنائی ہے ، اب بہت ضرورت ہے کہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایرانی و لبنانی حزب اللہیوں اور مدافع حرم شہیدوں کی طرح " حیدری کاموں" سے اپنی شناخت قائم کریں اور یاد رکھیں کہ " حیدری کاموں" میں دین و ایمان کی پختگی کے بعد سر فہرست جو کام اور عمل ہے:
وہ مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں سے عداوت و بیزاری نیز ان کے خلاف قیام کرنا ھے۔

تاریخ انسانیت نے شاید مولاعلی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا کوئی مظلوم نہ دیکھا ہو!!
اگرسرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بے پناہ فضائل و مصائب اور فداکاریوں سے بھری زندگی کا غائرانہ مطالعہ کیاجائےتو یہ حقیقت بآسانی مجسم ہوکر سامنے آسکتی ہےکہ واقعاً آپ تاریخ آدم و عالم کے سب سے بڑے مظلوم ہیں !!!!چونکہ :
آپ ہی تنہا وہ ذات ہیں جسے الہی انتظام و اہتمام کےتحت بیت اللہ الحرام " خانہ کعبہ" میں پیدا کیا گیا ہے ۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرکارسید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی الہی و آسمانی آواز پر لبیک کہی ہے۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خداوند احد کی وحدانیت اور سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی کھل کر گواھی دی اور اس پر اپنے مکمل ایمان و ایقان کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلےحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی انجام دی ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد اور جناب خدیجہ علیھا السلام ہی وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے کئی سال تک سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نماز اداکی اور کلمہ " لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ " زبان پر جاری وساری رکھا ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد ہیں جو ہرجگہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور ہر مقام پرآپ کا دفاع کرتے نیز کفار قریش کے آزار و استہزاء سے آپ کوبچاتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دعوت ذوالعشیرہ کے انعقاد کا انتظام و اہتمام بھی کیا، سرکار سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرسخت مخالفین کے مقابلے میں کھل کر آپ کی نصرت و حمایت کا وعدہ بھی کیا اور اسی دعوت میں ابولہب جیسے غلیظ و شدید دشمنوں کے طعن و تشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو شعب ابی طالب میں ہزار سختیوں کے باوجود شمع رسالت کا ہروقت پروانہ وار طواف کرتے رہے اور ایک دو دن نہیں ، تین سال تک وجود پیغمبر کی پاسداری میں آپ نے دن رات ایک کردیئے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے طائف کی طرف سرکار خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آنحضرت کے ہمراہ وہاں کے ناگوارحالات کا مشاہدہ و مقابلہ کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں ، جوشب ہجرت بستر رسالت پر چالیس قبیلوں کی کھنچی ہوئی خونخوار تلواروں کے سائے میں خوشی سے اس لئےسوگئے تاکہ اللہ عزوجل کے رسول کی جان محفوظ رہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں، جنھوں نے شب ہجرت کی قربانگاہ میں ایثارو فداکاری کے لازوال نقوش ثبت کر کے صبح ہجرت رسول اللہ کے قرضوں کو ادا ، آپ کےکئے ہوئےعہد و پیمان کو وفا اور اہل مکہ کی آنحضرت کے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو واپس کیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے مکہ سے قافلہ فواطم اور ناموس رسول کو بعزت و حفاظت مدینہ پہنچایا ہے اور اس سفر ہجرت کے دوران اپنی شجاعت ، دلیری ، صلابت ، جوانمردی ، عفت ، غیرت ، حمیت اور ذمہ دارانہ شخصیت کی مثال قائم کی ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دین اسلام اور آنحضرت پرکفار و مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تمام جنگوں میں پورے جوش و خروش اور اخلاص و شجاعت کے ساتھ شرکت کی ہے اور بڑے بڑے فیل پیکر دشمنوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے ، البتہ بعض جنگوں میں آپ نےخود بھی دسیوں زخم کھائے ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے خداوند سبحان و قدوس اور اس کے رسول کی ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور حکم خداو رسول کو کسی کی ملامت ، طعن و تشنیع ، تہدید و عداوت کی پروراہ کئے بغیر ہمیشہ جامہ عمل پہنایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے حکم خداو رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مکہ پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے کٹر اور خونخوار دشمنوں ( کفار و مشرکین مکہ) کے درمیان سورہ برائت کی تبلیغ و تبیین کا خطیر فریضہ انجام دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو دشمن درخت بید کی طرح کانپنے لگتے اور دوستوں کے چہرے امید فتح و ظفر کی وجہ سے کھل اٹھتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں آیہ مباھلہ نے"نفس و جان رسول " قرار دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں " کل ایمان " کا لقب دیا گیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ جوخداوندسبحان کی نہایت محترم و مقدس کنیز اور سیدالمرسلین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے کفو و شوہر ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ ادیب عرب خلیل ابن احمد فراھیدی کے بقول " جن کے فضائل دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے بغض و عداوت کی وجہ سے چھپائے ہیں ، اس کے باوجود کائنات کے شرق و غرب آپ کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرے نظر آتے ہیں ( روضۃ المتقین ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۵)

آپ ہی تنہا وہ مرد پیں جن کے سلسلہ میں اہل سنت کے امام احمد ابن حنبل نے یہ اظہار کیا ہے:

جتنی روایات صحیح سندوں کے ساتھ علی ابن ابی طالب کے فصائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ، اتنی رسول اللہ کے کسی ایک صحابی کےبارے میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔(طبقات الحنابله، ابن ابی یعلی، چاپ دارالمعرفہ بیروت ، ج۲،ص۱۲۰)

لیکن !!!!
اسی طرح کی ان گنت عظمتوں ، ناقابل شمارفضیلتوں ، عظیم ترین قربانیوں اور بے انتہا مسلسل فداکاریوں کے باوجود سرکار سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیامت خیز وفات کے بعد آپ اسقدر مظلوم ہوگئے کہ :
آپ ہی وہ ہیں جنھوں نےفرط رنج و الم سے موسلادھار بارش کی طرح بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تنہا رسول اللہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا ، نماز میت پڑھی اور دل پر پتھر رکھ کر سپرد لحدکیا۔
آپ ہی وہ ہیں کہ وفات رسول جیسی حشر انگیز مصیبت پر تسلی دینے کے بجائےجن سے ان کا مسلم حق خلافت و حکومت انتہائی بے غیرتی کے ساتھ چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے اس مقدس دروازہ کو آگ لگائی گئی ، جس پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول اپنے " اھل بیت " پر سلام بھیجا کرتے تھے۔
آپ ھی وہ مظلوم ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی شریک حیات شہزادئ کونین حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی ہتک حرمت کی گئی اور عین عالم شباب میں اس پاک و بے گناہ بی بی کو درو دیوار کے درمیان پیس ڈالا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کے بیٹے " محسن " کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شکم مادر میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن سے حق خلافت کے بعد "فدک" بھی چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں، اللہ و رسول کے حکم سے جن کے ہاتھوں پر میدان غدیر میں سوالاکھ مسلمانوں نے بیعت کی تھی ، اس کے باوجود جعلی و غاصب خلیفہ نے آپ سے زبردستی اپنی بیعت کا مطالبہ کیا اور آپ اور آپ کے معصوم اھل بیت پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ رسول خدا کے بعد " اعلم و افضل امت" ہونے کے باوجود جنھیں غصب خلافت و حکومت کے ہمراہ پچیس سال تک محراب و منبر سے دوررکھا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جنھوں نے پچیس سال کی طویل مدت اس کربناک حالت میں گزاری" فی العین قذیٰ و فی الحلق شجا" کہ آنکھ میں کانٹا کھٹک رہا تھا اور خلق میں ہڈی پھنسی ھوئی تھی۔( نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ)
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ قتل عثمان کے بعد جن کے ہاتھوں پر تمام امت نے شدید اصرار کے ساتھ بیعت کی اور آپ کو اپنا حاکم و خلیفہ تسلیم کیا ، لیکن اس ظاہری خلافت کی تقریباً پانچ سالہ مدت میں آپ پر نہایت خطرناک تین جنگیں مسلط کردی گئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کی سانس نہیں لینے دی گئی۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جو ذوالعشیرہ سے لے کر آخر عمر تک اسلام و مسلمین اور انسانیت کے لئے شب و روز فداکاری میں مصروف رھے ، اور جب پروردگار سے دائمی ملاقات کی دی ہوئی سچی خبر کے ہنگام وقوع کو محسوس کرکے مسجد کوفہ کی محراب میں دنیا و مافیھا کو چھوڑ کر فقط اورفقط اپنےعزیز و محبوب خالق و مالک کی یاد و عبادت اور اس سے راز و نیاز میں غرق ہوئے تو عین اسی عالم میں آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا اور آپ نے اپنےخون میں نہانے کے باوجود شکر و فخر کے ملے جلے احساس کے ساتھ یہ نعرہ بلندکیا:
فزت و رب الکعبہ( رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا)۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ ۱۹ماہ رمضان کو بوقت فجر عالم نماز اور حالت روزہ میں جن کے سر مبارک پر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سےضربت لگائی گئی ، تو آپ اس کے کرب سے دو دن تک تڑپتے رہے اور سن ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں شب کے ابتدائی حصہ میں اس سرائے فانی کوچھوڑ کر ھمیشہ کے لئےاپنے رؤف ومہربان اور سبحان و قدوس پروردگار کی بارگاہ اقدس میں جاپہنچے اور اس وقت آپ کی اندوھناک شہادت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے یہ مرثیہ پڑھا:
لتھدمت و اللہ ارکان الھدیٰ ، و انطمست اعلام التقیٰ،وانفصمت العروة الوثقى ، قتل ابن عم المصطفى ، قتل على المرتضى، قتله اشقى الاشقیاء.
قسم بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے، تقوی کے نشانات مٹ گئے ، اللہ اور بندوں کے درمیان کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، مصطفے کے ابن عم علئ مرتضیٰ کو شہید کردیا گیا اور انھیں شقی ترین ( ابن ملجم ) نے قتل کرڈالا۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی مظلومیت کی بنیادی وجہ :

نہایت اختصارکے ساتھ بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ھے کہ مولا کی مظلومیت کی اصل وجہ آپ کی بہر صورت عدل و داد کی حمایت ، مظلوموں کی مدد و نصرت اور بہرحال و بہرقیمت ظلم و ستم اور ظالموں کی مخالفت کرنا تھی۔
تاریخ گواہ ھے کہ آپ جب تک زندہ رہے ھمیشہ عدل و داد کے حامی اور اس کے نفوذ و قیام کے لئےکوشاں ، مظلوموں کے مدگار و مدافع اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم و ستم کے مخالف اور ظالموں سے بر سر پیکار رہے۔
یہ سچ ہے کہ مولا مظلوم رہے ، مگر کبھی بھی ظالموں اور ستمگروں کے محکوم نہیں رہے بلکہ آپ نے ان کے خلاف بلا وقفہ اپناجہاد و قیام جاری و ساری رکھا ہے ، یہانتک کہ بستر شہادت سے " کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" کے ذریعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھی آپ "مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں کی عداوت و مخالفت" میں یہ جہاد و قیام جاری و ساری رکھنے کی وصیت فرما کر گئے ہیں۔

مولا کے جہادو قیام کا اثر :

آپ کے اس مسلسل قیام و جہاد کا ایک عظیم اثر تو حسن ، حسین، زینب ، ام کلثوم ، ابوالفضل العباس ، عمار ، ابوذر ، مالک اشتر ، محمد ابن ابی بکر اور میثم تمار جیسے ان گنت ظلم ستیز چہروں کا نہ ٹوٹنے والا نہایت مبارک سلسلہ ھے۔
اور دوسرا اثر یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنی ہزارہا مکاریوں اور عیاریوں کے باوجود بھی ظاہری دینداری کےچغےکی آڑ میں اپنے مکروہ چہروں کو نہ چھپا سکے اور وہ اتنے بےنقاب ہوگئےکہ تاریخ کا ہرمنصف و حقیقی طالب علم کسی بھی دور میں انھیں بآسانی پہچان سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے مکروہ چہروں کی پہچان کے ذریعہ اپنے دور کے ستمگروں کی بھی شناخت کرسکتا ہےاور ان سے نپٹنے کی جرائت و ھمت کو بھی اپنے وجود میں جنم دے سکتا ہے۔

ہماراافتخار اور ہماری ذمہ داری :

الحمدللہ ھمیں فخر ہے کہ ہم سب علی والے ہیں، لہذا بہت توجہ دیں کہ آج تک جس طرح ہم نے" حیدری نعروں" کے ذریعہ اپنی پہچان بنائی ہے ، اب بہت ضرورت ہے کہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایرانی و لبنانی حزب اللہیوں اور مدافع حرم شہیدوں کی طرح " حیدری کاموں" سے اپنی شناخت قائم کریں اور یاد رکھیں کہ " حیدری کاموں" میں دین و ایمان کی پختگی کے بعد سر فہرست جو کام اور عمل ہے:
وہ مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں سے عداوت و بیزاری نیز ان کے خلاف قیام کرنا ھے۔

تحریر : مولانا ظہور مہدی مولائی

 

رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعۃ الوادع) کو عظیم بانی و رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی دور اندیشی اور عالمی نقطہ نظر کے تناظر میں عالمی یوم قدس قرار دیا۔ یوم القدس ایک پائیدار اور امام خمینی ؒ کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک اعلیٰ یادگار ہے۔ یوم القدس کا انعقاد حق اور باطل کے درمیان تقابل اور ظلم و ستم  کے خلاف انصاف کی صف آرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا یہ یادگار جملہ "فلسطین اسلام  کے جسم کا حصہ ہے"، اس لیے تھا کہ مختلف زمانوں میں مسئلہ فلسطین فراموشی کے سپرد کر دیا گیا تھا، جو امام خمینیؒ کے سیاسی نقطہ نگاہ کی برکت کی بدولت لوگوں کے ذہنوں میں دوبارہ زندہ ہوچکا ہے۔

یہ دن نہ صرف فلسطین کا دن ہے بلکہ امت مسلمہ کا بھی دن ہے، اس لیے کئی سالوں سے قدس اور فلسطین کا مسئلہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا سب سے تشویشناک مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جب پوری اسلامی دنیا غاصب صیہونی حکومت کے خلاف بیزاری کا اظہار کرتی ہے اور مقدس شہر القدس (بیت المقدس) کی آزادی کے لیے ایک بار پھر ہم نوا ہو رہے ہیں۔ آج چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد یوم القدس کو مسلمانوں کے قبلہ اول کا عنوان دینے میں امام خمینیؒ کے ہوشمندانہ اقدام کے سبب فلسطینی عوام اور دنیا کے تمام مظلوموں کی فریاد پوری دنیا اور آزادی کے مفکرین کے کانوں تک پہنچ چکی ہے اور صہیونی حکومت کی امریکہ کی حمایت سے ریاستی دہشت گردی تمام دنیا پر آشکار ہوچکی ہے۔

ملت ایران، پاکستان کے دوست اور برادر عوام کے ساتھ جنہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی رہنمائی اور علامہ محمد اقبال ؒ کے افکار کی روشنی میں صہیونی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جوں جوں یوم القدس قریب آرہا ہے، صہیونی رژیم کے مقبوضہ فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں مغربی اور بعض عرب حامیوں کی حمایت کی سرزنش کرتے ہوئے اور نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔

تحریر: احسان خزاعی
ثقافتی قونصلر سفارت اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام آباد

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- اسلامی جمہوریہ ایران نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال پرسخت تشویش ظاہر کی ہے ۔
 
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں افغانستان میں جمعرات کو مزار شریف کی مسجد اور اسی طرح کابل میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی جانب اشارہ کیا اورکہا کہ افغانستان میں ماہ رمضان میں جب مسجدوں میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے روزہ دارنمازیوں کو بزدلانہ اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنانا نفرت انگیزہے۔
 
ترجمان وزارت خارجہ نے مزارشریف میں دہشت گردانہ دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے لئے صبر اور زخمیوں کے لئے صحت وسلامتی کی دعا کی۔

 خبر رساں ذرائع نے صوبہ قندوز کی امام صاحب مسجد میں دھماکے کی اطلاع دی ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اب تک 30 افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جنہیں شہر کے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

طالبان نے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

دریں اثنا، کل قندوز ہوائی اڈے کے قریب طالبان کی ایک چوکی کے سامنے ایک وین میں دھماکہ ہوا، جس میں 17 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

افغانستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہلک دھماکوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جن میں کابل میں ایک اسکول میں ہونے والے دھماکے میں 26 طلباء اور ایک اور مزار شریف کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 30 نمازی جاں بحق ہوئے۔

.taghribnews

 بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے

حضرت علی علیہ السّلام انیسویں رمضان المبارک کی شب اپنی بیٹی ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے مہمان تھے؛ آپ (ع) کی حالت بہت عجیب تھی یہاں تک کہ ام کلثوم (س) بھی متعجب ہوئیں۔

مروی ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اس رات جاگتے رہے اور متعدد بار کمرے سے باہر نکلتے اور فرمایا کرتے تھے کہ:
خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں بولا گیا یہی ہے وہ رات جس میں شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ (1)
بہر صورت امیرالمؤمنین علیہ السلام نماز فجر کے لئے کوفہ کی مسجد اعظم میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے افراد کو نماز کے لئے جگایا؛ ان ہی میں سے اس امت کا شقی ترین فرد "عبدالرحمن بن ملجم مرادی" بھی تھا جو الٹا سویا ہوا تھا جس کو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نماز کے لئے جگایا۔
آپ (ع) نماز میں مصروف ہوئے اور جب پہلی رکعت کے پہلے سجدے سے سر اٹھایا تو ابن ملجم کے دوسرے دہشت گرد ساتھی "شبیب بن بجرہ اشجعی" نے تلوار سے آپ (ع) کے سر کو نشانہ بنانا چاہا مگر اس کا وار محراب کے طاق پر جالگا اور ابن ملجم ملعون نے چلّا کر دوسرا وار کیا جو آپ کی پیشانی کو لگا جس سے آپ (ع) شدید زخمی ہوئے۔
تلوار امیرالمؤمنین علیہ السلام کی پیشای کے عین اسی مقام پر لگی جسے جنگ احزاب (غزوہ خندق) مین عمرو بن عبدود نے زخمی کردیا تھا۔
حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام نے فرمایا:"بسم الله و بالله و علی ملْة رسول الله فزت و ربّ الکعبه" (2)
خدا کے نام سے اور خدا کے سہارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملت پر؛ ربّ کعبہ کی قسم! مین کامیاب ہوگیا۔
لوگ چلائے کہ ضارب کو پکڑو۔ صدائیں بلند ہوئیں، کچھ لوگ محراب کی طرف دوڑے؛ اور کچھ عبدالرحمن اور شبیب کو پکڑنے کے لئے مسجد سے باہر نکلے؛ امیرالمؤمنین علیہ السلام محراب مسجد میں زمین پر گر پڑے تھے اور محراب کی مٹی اٹھا اٹھا کر اپنی پیشانی پر ڈالتے اور اس آیت کی تلاوت فرمارہے تھے:
«منها خلقناکم و فیها نعیدکم و منها نخرجکم تارة اخری»;(3)
ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہیں مٹی کی طرف لوٹائیں گے اور ایک بار پھر تمہیں مٹی سے باہر لائیں گے۔
اور اس کے بعد فرمایا: "جأ امرالله و صدق رسول الله، هذا ما وعدنا الله و رسوله"۔
خدا کا فرمان آن پہنچا، اور سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی وہ وعدہ تھا تو خدا اور اس کے رسول (ص) نے ہمیں دیا تھا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے زخم کھایا تو زمین لرز اٹھی، سمندر طوفانی ہوگئے اور آسمان متزلزل ہوئے اور مسجد کے دروازے شدت ٹکرائے اور کالی آندھیاں چلیں جنہوں نے دنیا کو تیرہ و تار کردیا اور جبرائیل علیہ السلام کی فریاد آسمانوں اور زمین پر چھا گئی اور ہر شخص نے جبرائیل کو کہتے ہوئے سنا کہ:
تهدمت و الله اركان الهدی، و انطمست أعلام التّقی، و انفصمت العروة الوثقی، قُتل ابن عمّ المصطفی، قُتل الوصی المجتبی، قُتل علی المرتضی، قَتَله أشقی الْأشقیاء؛(4)
خدا کی قسم ہدایت کا رکن (ستون) ٹوٹ گیا، علم نبوت کے ستارے بجھ کر تاریک ہوگئے، اور پرہیزگاری کی علامتوں کو کو مٹا دیا گيا اور عروة الوثقی کو منقطع کیا گیا؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم کو قتل کیا گیا؛ برگزیدہ ترین وصی (سید الاوصیاء) قتل کئے گئے، علی مرتضی قتل کئے گئے اور آپ (ص) کو شقیوں میں سے زیادہ شقی (اور بدبخت ترین بدبخت یعنی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی) نے قتل کردیا۔
.................

مآخذ:

1- منتہی الآمال، ج1، ص 172۔
2- بحارالانوار، ج 42، ص 281؛ منتہی الامال، ج 1، ص 126 – 127۔
3- سورہ طہ، آیہ 55۔
4- منتہی الآمال، ج1، ص 174۔
مؤلف: ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی
Wednesday, 20 April 2022 19:00

شب قدر کے اعمال

شب قدر مشترک اعمال

نوٹ : یہ شب قدر کے وہ اعمال ہیں جو تینوں راتوں 19, 21, 23 کو انجام دیے جاتے ہیں۔

1️⃣ شب قدر میں غسل انجام دینا

سوال:شب قدر کا غسل کس وقت انجام دیا جائے؟؟

جواب: علامہ مجلسی فرماتے ہیں بہتر ہے اس غسل کو غروب آفتاب کے وقت انجام دیا جائے اور اس کے ساتھ مغربین کی نماز پڑھی جائے۔

2️⃣ دو رکعت نماز شب قدر

نماز پڑھنے کا طریقہ
جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سات مرتبہ سورہ توحید اور نماز کے بعد 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُ اللّه وَاَتُوبُ اِلَیه پڑھی جائے۔

یہ نماز پڑھنےکا فائدہ
رویت نبوی ہے کہ: نبی (ص) ارشاد فرماتے ہیں انسان اپنی جگہ سے اٹھے گا نہیں کہ اس کے اور اس کے ماں باپ کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

3️⃣ شب بیداری اور عبادات کی حالت میں رات گزارنا

شب بیداری اور عمل صالح کا فائدہ

روایت میں وارد ہوا ہے کہ ہر شب قدر کو شب بیداری کرے اس کے ذریعہ آپ کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے چاہے آپ کے گناہ آسمان کے ستاروں کے برابر کیوں نہ ہو چاہے آپ کے گناہ پہاڑوں کے وزن کے برابر کیوں نہ ہو اور چاہے پیمائش کے لحاظ سے آپ کے گناہ سمندکے برابر کیوں نہ ہو معاف کر دئیے جائے گے۔

4️⃣ سو مرتبہ مولا علی علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کریں

اَللَّھُمَّ الْعَنْ قَتَلَۃَ اَمِیٰرِالْمُوْمِنِیْنَ
اے معبود: لعنت فرما امیرالمومنین(ع) کے قاتلین پر

4️⃣ دعائے جوشن کبیر پڑھنا

اس دعا کے پڑھنے کی فضیلت

اس دعا کو ماہ رمضان المبارک میں پڑھنا بےحد ثواب رکھتا ہے۔
روایت میں اس مقدس دعا کی فضیلت میں بیان ہوا ہے کہ جو شخص ماہ رمضان المبارک میں اس دعا کو ۳ مرتبہ پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کردے گا۔ اور جنت اس پر واجب کردے گا اور اس کے ساتھ 2 فرشتوں کو مأمور کردیا جائے گا جو اسے گناہ کرنے سے روکنے میں مدد کریں گے اور وہ پوری زندگی اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور اس روایت کے آخر میں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میرے والد امام علی(ع) نے مجھے یہ دعا یاد کرنے کی وصیت فرمائی اور مجھ سے اپنے کفن پر بھی لکھنے کو کہا اور ساتھ ہی یہ تأکید بھی فرمائی کہ میں اپنے اہل بیت میں سے ہر ایک کو اس دعا کو تعلیم دوں اور انہیں یہ دعا پڑھنے کی تأکید کروں چونکہ اس دعا میں اللہ تعالٰی کے ایک ہزار نام ہیں جنہیں اسم اعظم کہا جاتا ہے۔

5️⃣ ،زیارت امام حسین(ع) پڑھنا

فضیلت زیارت امام شب قدر میں

روایت ہے کہ شب قدر میں ساتویں آسمان پر عرش کے نزدیک ایک منادی ندا دیتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ہر اس شخص کے گناہ معاف کر دئیے جو زیارت امام حسین(ع) کے لیے آیا ہے۔

6️⃣ قرآن سروں پر رکھنا اور خدا کو چودہ معصومین ع کا واسطہ دینا

قرآن کو کھول کر اپنے سامنے رکھے اور کہے:

اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِکِتابِکَ الْمُنْزَلِ وَمَا فِیہِ وَفِیہِ اسْمُکَ الْاَکْبَرُ وَأَسْماؤُکَ الْحُسْنیٰ وَمَا یُخافُ وَیُرْجیٰ أَنْ تَجْعَلَنِی مِنْ عُتَقائِکَ مِنَ النّارِ

اس کے بعد جو حاجت چاہے طلب کرے

پھر قرآن پاک کو اپنے سر پر رکھے اور کہے:

اَللّٰھُمَّ بِحَقِّ ہذَا الْقُرْآنِ وَبِحَقِّ مَنْ أَرْسَلْتَہُ بِہِ وَبِحَقِّ کُلِّ مُؤْمِنٍ مَدَحْتَہُ فِیہِ وَبِحَقِّکَ عَلَیْھِمْ فَلاَ أَحَدَ أَعْرَفُ بِحَقِّکَ مِنْکَ

اسکے بعد دس دس مرتبہ یہ جملے کہیں

بِکَ یَا اللهُ:ا ے الله تیرا واسطہ
بِمُحَمَّد ٍ:محمدکاواسطہ
بِعَلِیٍّ :علی (ع) کا واسطہ
بِفاطِمَةَ :فاطمہ (ع) کا واسطہ
بِالْحَسَنِ : حسن(ع) کاواسطہ
بِالْحُسَیْنِ حسین(ع) کا واسطہ بِالْحُسَیْنِ
بِعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ : علی بن الحسین(ع) کا واسطہ
مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ :محمد بن علی(ع) کا واسطہ
بِجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ:جعفر(ع)بن محمد(ع) کا واسطہ
بِمُوسَیٰ بْنِ جَعْفَر :ٍموسی (ع)بن جعفر (ع)کا واسطہ
بِعَلِیِّ بْنِ مُوسی: علی(ع)بن موسی(ع)کاواسطہ
بِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ :محمد بن علی (ع) کاواسطہ
بِعَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍعلی(ع) بن محمد (ع)کاواسطہ
بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ :حسن بن علی(ع) کا واسطہ
بِالْحُجَّةِ: حجت القائم (ع)کا واسطہ

پھر اپنی حاجات طلب کرو

(بالخصوص مولا صاحب الزمان (عج) کے ظہور کے لیے دعا کریں)

7️⃣ سورکعت نماز بجا لائے

جسکی بہت فضیلت ہے اسکی ہررکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃ توحید کا پڑھنا افضل ہے۔

(اگر کسی کی قضاء نمازیں ہیں تو وہ اس نما زکی بجائے قضا نمازوں کو پڑھے)

شب قدر کی راتوں میں یہ دعا پڑھے :

اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَمْسَیْتُ لَکَ عَبْداً داخِراً لاَ أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعاً وَلا ضَرّاً وَلا أَصْرِفُ عَنْہا سُوءً أَشْھَدُ بِذلِکَ عَلَی نَفْسِی وَأَعْتَرِفُ لَکَ بِضَعْفِ قُوَّتِی وَقِلَّةِ حِیلَتِی فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَ نْجِزْ لِی مَا وَعَدْتَنِی وَجَمِیعَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ مِنَ الْمَغْفِرَةِ فِی ہذِہِ اللَّیْلَةِ وَأَتْمِمْ عَلَیَّ مَا آتَیْتَنِی فَإِنِّی عَبْدُکَ الْمِسکِینُ الْمُسْتَکِینُ الضَّعِیفُ الْفَقِیرُ الْمَھِینُ اَللّٰھُمَّ لاَ تَجْعَلْنِی ناسِیاً لِذِکْرِکَ فِیما أَوْلَیْتَنِی وَلا غافِلاً لاِِِحْسانِکَ فِیما أَعْطَیْتَنِی وَلاَ آیِساً مِنْ إِجابَتِکَ وَإِنْ أَبْطَأَتْ عَنِّی فِی سَرَّاءَ أَوْ ضَرَّاءَ أَوْ شِدَّةٍ أَوْ رَخاءٍ أَوْ عافِیَةٍ أَوْ بَلاءٍ أَوْ بُؤْسٍ أَوْ نَعْماءَ إِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعاءِ

شیخ کفعمی سے روایت ہے کہ امام زین العابدین (ع)اس دعا کو تینوں شب قدر میں قیام و قعود اور رکوع سجود کی حالت میں پڑھتے تھے۔

علامہ مجلسی(علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں کہ ان راتوں کا بہترین عمل یہ ہے کہ اپنی بخشش کی دعا کرے ، اپنے والدین، اقرباء اور زندہ ومردہ مومنین کی دنیا وآخرت کے لیے دعا مانگے ۔

اور جس قدر ممکن ہومحمدوآل محمد(ع)پر صلوات بھیجے اور بعض روایات میں ہے کہ شب قدر کی تینوں راتوں میں دعائے جوشن کبیر پڑھے

روایت میں آیاہے کہ کسی نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے شب قدر کا موقع ملے تو میں خدا سے کیا مانگوں؟ آپ نے فرمایا: کہ خدا سے صحت و عافیت مانگو۔

حوزہ نیوز ایجنسی

گذشتہ چند ہفتوں سے مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی کاروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ ان کاروائیوں نے مقبوضہ فلسطین کی سکیورٹی صورتحال پر بہت ہی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ حالیہ چند ہفتوں میں مقبوضہ فلسطین میں جو واقعات رونما ہوئے انہوں نے گذشتہ برس رمضان شریف میں انجام پانے والی مزاحمتی کاروائیوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ نیز ان کاروائیوں کو گذشتہ سال کی کاروائیوں کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔ گذشتہ برس اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اپنی ہمیشگی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قدس شریف کے قریب واقع شیخ جراح محلے کے باسیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرنے اور ان کی جگہ یہودی مہاجرین کو بسانے کی کوشش کی تھی۔
 
لیکن فلسطینیوں نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور شدید احتجاج شروع کر دیا تھا۔ صہیونی سکیورٹی فورسز کے جارحانہ اقدامات کا جواب دینے کیلئے غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صہیونی رژیم کو الٹی میٹم دیا اور جب اس نے اپنے جارحانہ اقدامات جاری رکھے تو مقبوضہ فلسطین پر میزائل حملوں کا آغاز کر دیا اور یوں "سیف القدس" معرکے کا آغاز ہو گیا۔ یہ معرکہ گیارہ دن جاری رہا اور آخرکار صہیونی رژیم اسلامی مزاحمت کی شرائط قبول کرنے پر تیار ہو گئی۔ اس سال اب تک اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صہیونی رژیم کو الٹی میٹم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دوسری طرف اس سال مقبوضہ فلسطین کے اندر مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی ہیں جن میں اب تک 14 صہیونی ہلاک اور دسیوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
 
2)۔ مقبوضہ فلسطین میں حالیہ مزاحمتی کاروائیوں نے اسرائیل کی غاصب رژیم کو بری طرح چونکا دیا ہے کیونکہ اسے ایسی کاروائیوں کی بالکل توقع نہیں تھی۔ صہیونی رژیم اپنی بھرپور کوشش کے باوجود نئی مزاحمتی کاروائی کی پیشن گوئی کر کے اسے ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس بات نے صہیونی رژیم کی سکیورٹی کمزوریوں کو سب پر عیاں کر دیا ہے۔ فلسطینی مجاہدین دارالحکومت تل ابیب تک اندر گھسنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور انہوں نے کامیابی سے اس شہر میں مزاحمتی کاروائیاں انجام دی ہیں۔ اسی طرح ماضی کے برعکس فلسطینی مجاہدین اس بات آتشیں اسلحے کا بھی استعمال کر رہے ہیں جس نے صہیونی رژیم کو شدید ہراساں کر ڈالا ہے۔ تل ابیب میں انجام پانے والی مزاحمتی کاروائی میں بیرونی ساختہ ایم 16 بندوق کا استعمال کیا گیا اور یہ بات صہیونی حکمرانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
 
3)۔ مقبوضہ فلسطین میں سکیورٹی بحران کا نتیجہ سیاسی اور سماجی بحران کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ تقریباً ہر مزاحمتی کاروائی کے بعد مقبوضہ فلسطین کے باسی سڑکوں پر نکل کر غاصب صہیونی رژیم کی ناکامی کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران کئی بار صہیونی سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں ٹکراو بھی انجام پا چکا ہے۔ دوسری طرف صہیونی رژیم یہودی آبادکاروں کو ایک اور طریقے سے مطمئن کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ صہیونی وزیراعظم نے ان کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوئے ان سے اپیل کی ہے: "جس کے پاس اسلحہ لائسنس موجود ہے وہ اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھے۔" صہیونی وزیراعظم اس حقیقت سے غافل ہے کہ فلسطینی مجاہدین کو اسلحہ کے زور پر مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔
 
4)۔ غاصب صہیونی رژیم نے گذشتہ ہفتوں کے دوران انجام پانے والی مزاحمتی کاروائیوں کے ردعمل میں جنین شہر پر بہت بڑا حملہ کیا ہے۔ یہ شہر مغربی کنارے کے شمال میں واقع ہے اور اسلامی مزاحمتی سرگرمیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ صہیونی حکمرانوں نے اس جارحیت کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ فلسطینی مجاہدین کی تمام تر سرگرمیاں جنین شہر تک محدود ہیں اور وہ انہیں بہت آسانی سے کچل سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی مزاحمت پر مبنی سوچ اور سرگرمیاں پورے مقبوضہ فلسطین میں پھیل چکی ہیں اور اب صہیونی رژیم انہیں کنٹرول کرنے سے عاجز ہو چکی ہے۔ مزید برآں، خود یہودی آبادکار بھی اپنی حکومت سے شدید ناراض ہیں اور اسرائیل نامی جعلی ریاست چھوڑ کر واپس جانے کے رجحانات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 
5)۔ غاصب صہیونی رژیم کا گمان تھا کہ بعض عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے بعد اس کی قومی سلامتی محفوظ ہو جائے گی جبکہ وہ اس حقیقت سے غافل تھی کہ اصل خطرہ اس کے اندر پایا جاتا ہے۔ حالیہ مزاحمتی کاروائیوں کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز لکھتا ہے: "ہم ایک ہفتہ پہلے مختلف قسم کے حالات سے دوچار تھا۔ مسلسل اجلاس اور میٹنگز پہلے ترکی میں اور اس کے بعد مصر میں منعقد ہوئیں۔ ہفتے کے دن بینٹ انڈیا جانا چاہتے تھے اور کچھ دن پہلے ہی النقب میں اجلاس منعقد ہوا جس میں شریک ممالک کے لحاظ سے بے مثال تھا۔ اس وقت یوں دکھائی دیتا تھا کہ اسرائیل جدید مشرق وسطی میں ایک نئے دور میں داخل ہونے والا ہے۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔" دوسری طرف ہر مزاحمتی کاروائی کے بعد مختلف شہروں میں فلسطینیوں نے مٹھائیاں تقسیم کر کے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

تحریر: محمد صرفی

اسلام ٹائمز

ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے سوئیڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کئے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔

 

سعید خطیب زادہ نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان میں اس طرح کی دانستہ بے ادبی سے سوئیڈن سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

 

انھوں نے کہا کہ اس قسم کے توہین آمیز اقدام کا آزادی اظہار رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک نفرت انگیز اقدام ہے جس کی تمام ادیان الہی کی جانب سے مذمت کئے جانے کی ضرورت ہے۔

 

ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس سلسلے میں سوئیڈن کی حکومت کو جواب دہ قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ایران سمیت پورے عالم اسلام کے ممالک اس توہین آمیز اقدام پر سوئیڈن حکومت کے رد عمل اور اس مجرم کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی کے منتظر ہیں تاکہ پھر کوئی اس طرح کا کوئی گستاخانہ اقدام عمل میں لانے کی جرات نہ کر سکے۔

 

سعید خطیب زادہ نے کہا کہ اپنے حامیوں کی حمایت سے بے ادبی کرنے والے  شخص کا یہ اشتعال انگیز اور توہین آمیز اقدام دشمنان اسلام کی سازشوں کے مقابلے میں اسلامی ملکوں اور مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کی ماضی سے کہیں زیادہ ضرورت کا متقاضی ہے۔

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے سوئیڈن کے ایک شہر میں مسلمانوں کی مقدس اور الہی کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کئے جانے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سوئیڈن کے شہر لینکوپنگ میں ڈنمارک کے ایک نسل پرست اور انتہا پسند درندے نما شخص کے ہاتھوں مقدس الہی کتاب قرآن مجید کو آزادی اظہار رائے کے نام پر اور پولیس اہلکاروں کی حمایت سے نذر آتش کئے جانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔