
سلیمانی
علمی اور دینی حوزات کی ترویج میں امام رضا (ع) کا کردار
علم و دین کی قدامت اور ان کے درمیان ربط و تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ اس کے منابع اور مبادی پرانے ہیں اور ان کے درمیان تناسب یا عدم تناسب کی بحث بھی بہت ہی پرانی ہے- اس سلسلے میں مختلف مکاتب نے مختلف نظریات بھی پیش کئے ہیں اور مغربی دنیا میں اس سلسلے میں کافی وسیع بحث ہوئے ہوئے اور ہر کسی نے کسی ایک رجحان کی پیروی کی ہے-البتہ یہ مسئلہ ان معاشروں سے تعلق رکھتا ہے جو علم اور دین کے مقام و منزلت کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ سیکولر اور لادین معاشروں میں دین کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کو علم اور سائنس وغیرہ کے مقابل لانے یا اس کے ساتھ جوڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے- نیز اگر کوئی معاشرہ بالفرض سائنس کے لئے کسی منزلت کا قائل نہ ہو وہاں بھی اس مسئلے پر بحث بےجا ہوگی کیونکہ ایسے معاشرے میں علم و سائنس کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ دین کے مقابل یا اس کے ہمراہ بحث کا موضوع قرار دیا جائے اور ان معاشروں میں سائنس کو دین کے بارے میں بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی-پس اس بحث کا تعلق ان معاشروں سے ہے جنہوں نے دین اور علم کی منزلت تسلیم کی ہو- بہرحال یہ امر مسلم ہے کہ علم و دین کی بحث ہر دور میں انسان کے ذہنی مشاغل میں اہمیت کے حامل تھے- اور اس بحث کو ہر دور میں ہر اس معاشرے میں شروع کیا جاسکتا ہے جو ان دو کے مقام و منزلت کو تسلیم کرتا ہو-علم و دین کی حالت کا مسئلہ جن ادوار میں قابل بحث ہے ان ہی ادوار میں ایک امام رضا (ع) کا دور ہے-ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ امام رضا (ع) کے دور میں علم کی کیا حالت تھی اور امام (ع) کا موقف اس حوالے سے کیا تھا؟ تا کہ علم و دین کے درمیان ربط کی عالمانہ اور محققانہ نظریئے تک پہنچ سکین-
عصر رضوی میں علم کا حال:
مورخین امام رضا (ع) کے دور کو علمی بالیدگی اور روئیدگی و بڑھوتری اور اسلامی تہذیب کی عالمگیریت کے حوالے سے سنہرے دور سمجھتے ہیں- اور اور اسلامی ادوار میں ایک تابناک اور سب سے حیرت انگیز دور قرار دیتے ہیں- اس دور میں مسلمانوں کی علمی اور سائنسی پبشرفت نے کرہ خاکی پر اپنا تسلط جمالیا تھا- مختلف شعبوں میں علمی و سائنسی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا اور اس تاریخی دور میں اسلامی تہذیب کی ترقی اور فروغ نقطہ عروج تک پہنچا- اس عصر میں فروغ یافتہ علمی اور ثقافتی مظاہر اور نشانیان ہمیں مسلمانوں کی علمی حالت کے بارے میں بہتر انداز سے اس دور کے مسلمانوں کی علمی پوزیشن سے آگہی میں مدد پہنچاتی ہیں- اور ہم یہاں بعض مظاہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں-علمی نشستوں کا انعقاد، ان نشستوں کے عوامل میں اضافہ اور رکاوٹوں میں کمی کا اہتمام کیا جاتا تھا تا کہ اہل نظر آسانی اور آزادی سے تحقیق و مطالعہ کرسکیں- مختلف شعبوں میں علمی حلقے تشکیل دیئے جاتے تھے اور مختلف علمی موضوعات پر بحث ہوتی تھے- اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں متعدد کتب خانوں کی بنیاد رکھی گئی؛ مسلم علماء کے لئے تحقیق اور تحصیل علم کے بھرپور مواقع فراہم کئے گئے اور اسلامی علماء اور دانشوروں کو اسلامی مملکت میں اکٹھا کیا گیا-حکومت نے تقریباً تیس بڑے اور اونچی سطح کے مدارس قائم کئے تھے جن میں مدرسہ نظامیہ سب سے زیادہ مشہور ہوا- ان مدارس میں عمومی کتب خانے قائم کئے گئے جن میں سب سے مشہور کتب خانہ دارالحکمہ تھا- (1)
تحریک ترجمہ:
امام رضا (ع) کے دور کی علمی تحریکوں میں سے ایک اہم تحریک - جس نے مسلمانوں کے علمی ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا - بیرونی زبانوں میں موجود کتابوں کی عربی زبان میں تراجم سے عبارت تھے- طب، ریاضیات، فلسفہ، سیاسی علوم Political Science ، علم نجوم Astrology وغیرہ جیسے درآمد شدہ علوم میں تحقیق نے علمی تحقیقات کے جذبے کو تقویت پہنچائے-"ابن ندیم" اپنی کتاب الفہرست میں کئی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خاص طور پر تحریک ترجمہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مامون نے روم کے بادشاہ کے نام اپنے مراسلوں کے ضمن میں ان سے درخواست کی تھی کہ خیرسگالی اور تعاون کے عنوان سے اپنے گوداموں میں ذخیرہ ہونے والی کتابوں کو بغداد بھیجنے کی اجازت دے دیں؛ روم کے بادشاہ نے ابتدا میں ممانعت کی مگر آخر الامر اس درخواست کا مثبت جواب دیا اور مامون نے حجاج بن مطر، ابن بطریق اور دارالحکمہ کی سرپرست «سلم» کو کئی دیگر ماہرین کے ہمراہ روم روانہ کیا اور انہوں نے وہ تمام کتابین دارالحکمہ میں منتقل کردیں-(2) ان کتابوں کے تراجم نے مسلمانوں کے علمی حلقوں کی بڑی مدد کی؛ تمام اسلامی ممالک میں نئے علمی آراء ظہور پذیر ہوئے اور تنقید اور جائزوں کو وسعت ملی؛ اسلامی معاشرے کے علمی ارتقاء میں ان تراجم نے اہم کردار ادا کیا- اگرچہ ان کتابوں کے بعض موضوعات و مباحث - جو اسلامی افکار و عقائد سے متصادم تھے اور ان میں الحادیات کا شائبہ تھا جو - عالم اسلام کے علمی حلقوں کے افکار میں اعتقادی مسائل کا باعث بنے-
رصدگاہ (Observatory) (ستاروں کی حرکت کا مشاہدہ کرنے کے لئے مناسب مقام) کی تعمیر اور علمی نقشہ جات کی ترسیم:
اس دور کے علمی مظاہر میں سے «عالمی نقشہ جات» کی ترسیم و تیاری اور رصدگاہوں کی تعمیر جیسے کا اقدامات بھی تھے- مامون نے حکم دیا تھا کہ پوری دنیا کا نقشہ تیار کیا جائے اور اس حکم کی تعمیل ہوئی- اور اس نقشے کو «نقشہ مامون» (یا صور المامونیہ) کا نام دیا گیا- اور یہ پہلا عالمی نقشہ تھا جو عباسیوں کے دور میں رسم کیا گیا-اسی طرح مامون نے ہی رصدخانے کی تعمیر کا بھی حکم دیا جو بغداد کے ایک محلے میں تعمیر ہوا جس کا نام شمسائیہ رکھا گیا-(3)امام رضا (ع) کے زمانے مرسوم علوم و فنون اور ان کی طرف مفکرین کی توجہ بھی ہمارے لئے امام رضا (ع) کے دور کی علمی حالت اور اس زمانے کے لوگوں کے علمی شغف کے ادراک میں ممدّ و معاون ثابت ثابت ہوسکتی ہے:اس زمانے میں علم تفسیر علوم مرسومہ میں سے ایک تھا جو اس زمانے کے علماء اس علم کی طرف خاص توجہ دیا کرتے تھے- اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ (ص) کے اوصیاء کے سوا کوئی بھی قرآن مجید کے تمام ظواہر اور بواطن کے ادراک کا دعوی نہیں کرسکتا ہے(4)؛ لہذا اس علم کا مشعل فروزان فطرتاً امام رضا (ع) اور دیگر ائمہ ہدایت (ع) کے فیض و برکت سے روشن تھا اور اسی بنا پر علماء اور دانشوروں نے امام رضا (ع) کے افاضات کے سائے میں علم تفسیر زبردست خیرمقدم کیا-
"علم حدیث " بھی اس دور کی علوم مرسومہ میں سے ایک تھا- اور شیعیان اہل بیت (ع) اور شیعہ علماء نے ائمہ طاہرین کی فیض رسانی کی بدولت معتبر احادیث کی تالیف اور تدوین کے سلسلے میں دیگر مکاتب کے علماء پر سبقت حاصل کی اور اس زمانے میں شیعہ علم حدیث کے سلسلے میں شیعہ علماء کا تخلیقی کارنامہ یہ تھا کہ امام رضا (ع) کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے معتبر احادیث کو ایک بڑی کتاب میں فراہم کیا اور یہ مسلمین اور خاص طور پر شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے پہلی جامع کتاب حدیث تھے- اور یہی کتاب جوامع اربعہ یا کتب اربعہ کی تدوین کے لئے بنیاد قرار پائی اور عالم اسلام کے تین بڑے علماء یعنی « شیخ الطائفة ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی» (متوفی 460ہ ،) «رئیس المحدثین شیخ صدوق ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ قمی» (متوفی سنہ 381) اور « ثقة الاسلام ابیجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی» (متوفی سنہ 328 یا329 ھ) نے شیعہ مکتب کی بنیادی کتابوں یعنی «الکافی»، «الاستبصار»، «التہذیب» اور «من لایحضرہ الفقیہ» کی تالیف اور تدوین میں اس کتاب سے استفادہ کیا-(5)
"علم کلام " [یا علم عقائد] بھی اس دور میں خاص توجہ کا مرکز بنا- اس دور میں مختلف فکری مکاتب کے علمائے کلام [متکلمین] نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع میں مختلف آراء قائم کئے اور یہ امر حقیقت کے طالب افراد کے درمیان کلامی موضوعات کے حوالے سے جذبہ تحقیق کی تقویت کا باعث ہوا-گو کہ اس دور میں مختلف فرقے ظاہر ہوئے یا انہیں فروغ ملا جو کسی نہ کسی لحاظ سے اعتقادی انحرافات کا شکار تھے اور اپنے دعووں کے اثبات کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے- اور افسوس کا مقام ہے کہ ان انحرافی افکار نے بعض افراد کو شدید متاثر کیا تھا- البتہ ان فرقوں کے افکار و نظریات کو دلیل و برہان اور منطقی روشوں سے جھٹلانے اور باطل کرنے اور خداوند متعال کے واحد صراط مستقیم کی طرف مسلمانوں کی ہدایت کے حوالے سے امام رضا (ع) اور آپ (ع) کے اصحاب اور شاگردوں کے کردار کی اہمیت ناقابل انکار تھا اور دانشوروں اور متکلمین نے اس اہم کردار کا اعتراف کیا ہے-
علم طب:
علم طب بھی امام رضا (ع) کے دور کا خاصہ تھا اور علم طب کی ترویج میں بنیادی کردار امام (ع) نے ادا کیا- امام (ع) نے اس سلسلے میں اہم مباحث چھیڑے اور نہایت اہم مسائل مکتوب کر ڈالے- اس ضمن میں آپ (ع) کا ایک رسالہ، رسالہ ذھبیہ ہے- امام (ع) کی جانب سے اس رسالے کی تصنیف کے بعد عباسی خلیفہ نے بھی اس سلسلے میں تحقیق اور حصول علم کا حکم دیا اور لوگوں کو علم طب حاصل کرنے کی ترغیب دلائی اور خلیفہ نے خود بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے اور اس سلسلے میں اچھی خاصی رقم خرچ کی اور اس علم کی حاملین کے لئے مالی امداد فراہم کی تا کہ اس سلسلے میں تحقیق اور بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہے- جبریل بن یختیشوع، دربار کا ماہر طبیب مامون کے ہاں خاصا مقبول تھا-
علم کیمیا: (Chemistry)
"علم کیمیا" کا چرچا بھی اس دور میں اپنی مثال آپ تھا- امام صادق (ع) کے شاگر جابر بن حیان اپنی تحقیقات میں اس مقام پر پہنچے تھے کہ دنیا انگشت بدندان رہ گئی- معاصر مغربی سائنسدانوں نے جابر بن حیان کو «عالم انسانیت کا سوچنے والا دماغ» قرار دیا ہے اور وہ اسی بنا پر دنیا میں علم کیمیا کے بانی سمجھے جاتے ہیں-
معماری اور انجنیئرنگ کی تحیققات:
"معماری اور انجنیئرنگ کی تحیققات" کو بھی اس دور میں کافی پیشرفت ملی اور اس زمانے کے مسلم انجنئیروں نے جیومیٹری اور ٹیکنالوجی میں عروج حاصل کیا اور مسلمانوں کی معماری اور انجنئرنگ کا دنیا میں چرچا ہوا-(6 ) امام (ع) کے دور میں علم نجوم کا ارتقاء اور اس کے فوائد عام ہونے سے متعلق تاریخی حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا-مذکورہ بالا حقائق امام رضا (ع) کے دور میں علوم و فنون کی ترقی کے مظاہر اور مثالیں ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تمدن و تہذیب نے کتنی ترقی کی تھی اور مسلم معاشرہ علم و سائنس کو کتنی اہمیت دی جاتی تھی! اس علمی اور سائنسی تحریک اور اسلامی تمدن کی ترقی میں امام رضا (ع) کے کردار کے دو پہلو ہیں: ایک علمی پہلو اور دوسرا عملی پہلو
الف: علم و دین امام رضا (ع) کی علمی سیرت
امام رضا (ع) کی علمی سیرت اور حوزہ درس میں علم و دین کی اہمیت ناقابل انکار ہے- آپ (ع) دین کی تبلیغ و احیاء کے ساتھ ساتھ علم و دانش کے اکرام اور علم و دانش کی طرف مسلمانوں کی ترغیب کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے-آپ (ع) نے مختلف دینی اور علمی موضوعات میں متعدد متون تحریر فرمائے؛ آپ نے مسئلہ توحید اور دین کے تمام اصولِ موضوعہ کی وضاحت و تشریح فرمائی؛ فقہ اور احکام دینی کے فلسفے کی وضاحت فرمائی؛ عالَم و زمین کی تخلیق پر آپ نے بحث کی؛ علم طب اور دیگر طبیعیاتی علوم سے متعلقہ موضوعات کی تشریح کی؛ چنانچہ ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ (ع) کا علم نہایت وسیع تھا اور علم و دین کی تمام شعبوں کی ترقی پر یقین رکھتے تھے-علم طب پر آپ (ع) کو عبور حاصل تھا؛ صحت عامہ اور مائکرو حیاتیات پر کامل عبور رکھتے تھے اور خلاصہ یہ کہ امام (ع) نے اس دور کی صحت عامہ اور علم طب پر گہرے نقوش مرتب کئے- بہر حال امام کے علم و دانش پر بحث کرتے ہوئے اس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے-امام (ع) کی معلومات کے دائرے ان امور میں سے ہیں جو امام (ع) کی ذات با برکات کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں- الہیات اور دینیات اور آسمانی ادیان و کتب کے بارے میں معلومات، قرآنی معارف و علوم سے مکمل آگہی، کلامی موضوعات پر امام (ع) کا مکمل احاطہ، طب کے بارے میں امام (ع) کے مباحث و آراء، اصول فقہ کی بنیاد رکھنا اور امام (ع) کی دیگر علمی کاوشیں امام (ع) کے علمی دائروں کی وسعت کی دلیلیں ہیں---فلسفہ احکام، فلسفہ غسل و وضو، فلسفہ حرمت زنا، فلسفہ زکواة اور فلسفہ حرمتِ شراب کے بارے میں امام (ع) کی بیانات و مباحث، احکام کے سلسلے میں سماجی اور اخلاقی مباحث ظاہر کرتے ہیں کہ امام (ع) برہانی اور استدلالی فکر کے مالک تھےاور خطابت، شعر و ادب اور فصاحت و بلاغت میں یگانہ روزگار تھے-(7)
ب: امام (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین
امام (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین کے درمیان نہ صرف کوئی تضاد یا اختلاف و گوناگونی کا کوئی نشان نہیں ملتا بلکہ ان دو کے درمیان نہایت قوی رابطہ برقرار ہے اور آپ (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین ایک دوسرے کے معاون ہیں-حضرت رضا (ع) نے اس حقیقت کو - علمی اور دینی موضوعات پر بیش بہاء کتابیں لکھ کر - ثابت کیا ہے- آپ (ع) نے مناظروں اور علمی دوروں اور مسافرتوں کے ذریعے اس حقیقت کا اثبات کیا ہے کہ ان دو کے درمیان کوئی عناد اور دشمنی نہیں ہے-(جاری ہے)
آپ (ع) کی بعض کاوشیں:
1- صحیفة الرضا،(ع): یہ کتاب ان احادیث پر مشتمل ہے جو آپ (ع) نے اپنے والد ماجد امام موسی کاظم (ع) سے اور امام کاظم (ع) نے اپنے آباء و اجداد طیبین سے نقل کیا اور ان حدیثوں کا سلسلہ سند امیرالمومنین (ع) تک جاپہنچتا ہے اور علی (ع) نے یہ حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرمائی ہیں اور فضل بن حسن طبرسی نے یہ حدیثین محفوظ کرلی ہیں-
2- طب الرضا یا رسالة الذہبیة: مامون نے امام (ع) سے درخواست کی تھی کہ اپنے اور اپنی آباء و اجداد کے علم و دانش کی روشنی میں اس کو کھانے اور پینے کے سلسلے میں ہدایات دیں تا کہ اس کے جسم میں تمام قوتیں محفوظ رہیں اور بیماریوں اور کمزوریوں سے بچا رہے- امام (ع) نے ایک مفصل خط کے ضمن میں صحت کے سلسلے میں صحیح احکام، مختلف النوع غذاوں کی خصوصیات، ضروری مشروبات، اور ان کا صحیح وقت استعمال بیان فرمایا، امام نے اس رسالے میں مزاج کے اعتدال اور جسمانی خصوصیات و جزئیات کے بارے میں تمام امور بیان فرمائے، اور مامون پر اس خط کو دیکھنے کے بعد وجد و ہیجان کی کیفیت طارے ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ امام کے مکتوب کو سنہری حروف سے تحریر کیا جائے اور اس کے اس حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور یہ خط «رسالة الذہبیة» کے نام سے مشہور ہوا- امام (ع) نے 201 ہجری میں یہ خط مامون کے لئے لکھا اور اس زمانے تک طبّ علمی صورت نہیں اپنا سکا تھا اور تجربات اور مسلسل معالجات کی بنا پر طبی معالجات کا اہتمام ہوتا تھا جس میں علمی و سائنسی دریافتوں کا کوئی کردار نہ تھا- اس زمانے میں جراثیم دریافت نہیں ہوئے تھے؛ ویٹامنز کے بارے میں آگہی نہ تھی اور جراثیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی اہم سائنسی دریافت نہیں ہوئی تھی-(8) اور امام (ع) نے اس خط کے ذریعے معاشرے کو تحقیق اور جستجو کی راہ دکھائی اور نہ صرف امام (ع) کا یہ اقدام اسلامی تہذیب کی بالیدگی کا باعث ہوا بلکہ امام (ع) کے خط نے علم اور دین کے درمیان ربط و تعلق کی موجودگی کا بھی اثبات کیا-
امام رضا (ع) کے علمی دورے اور مناظرات
امام رضا (ع) کا دور نہایت حساس دور تھا؛ کیونکہ فکری انحراف کے عوامل اپنے عروج پر تھے- ان انحرافات کا سبب یہ تھا کہ اجنبی دنیا سے علوم و فنون خام صورت میں اسلامی معاشرے میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تصفیہ نہیں ہوا تھا اور دوسری طرف سے عباسی سلطنت نے بیرونی افکار کی درآمد کی جو اجازت دی تھی اس کے لئے حدود کا تعین نہیں ہوا تھا- اسی وجہ سے امام (ع) مجبور ہوئے کہ دین خداوند کی محافظ اور شرک و الحاد سے امت اسلامی کی نجات دہندہ کے عنوان سے ضروری اقدامات کریں- امام (ع) نے اجنبی افکار کے فروغ کے مراکز یعنی کوفہ اور بصرہ کے دورے کئے اور الحادی افکار کے بانیوں اور حامیوں کے ساتھ مناظرے کئے اور جب ولیعہد ہوئے تو آپ (ع) کو ان مکاتب کے دانشوروں کے ساتھ مناظرات کے مواقع سے بھرپور استفادہ کیا اور دین اور ہدایت انسان کے لئے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی تبلیغ فرمائی-
اس سلسلے میں آپ (ع) نے مختلف ادیان و فِرَق کے ساتھ بھی مناظرے کئے، البتہ یہ سلسلہ ولیعہدی سے پہلے بھی جاری رہا تھا اور ولیعہدی کے دور میں بھی جاری رہا- امام (ع) کا طرز مناظرہ اس دور کی دنیا میں شہرت خاصہ سے بہرہ مند تھا- آپ (ع) کے استدلالات عقل و منطق پر استوار تھے؛ ان مناظرات میں امام (ع) دین اور دینی اصول و فروع کا دفاع کیا کرتے تھے؛ جن کے لئے مختلف شعبوں اور مختلف مضامین و موضوعات میں حصول علم کی ضرورت ہوتی ہے اور امام کے یہ سارے اقدامات اور کارنامے ثابت کرتے ہیں کہ آپ (ع) کی علمی سیرت میں علم اور دین کے درمیان مکمل ہماہنگی پائی جاتی ہے-
بحث کا نتیجہ:
امام رضا (ع) کے دور میں علم و دین کے بارے میں مذکورہ بالا واقعات و حقائق اور ان دو کی ترویج میں امام رضا (ع) کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ (ع) کے دور میں علم اور دین کے درمیان نہ تو تمایز تھا اور نہ ہی تعارض بلکہ علم اور دین خدا کی طرف انسان کی ہدایت کے سلسلے میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں- نہ علم دین کی نفی کرتا ہے اور نہ ہی دین علم کی نفی کرتا ہے- ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہیں اور یہ دو ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں ہیں اور اگر علم کا اثبات ہوجائے تو دین کی نفی نہیں ہوتی اور اگر دین کا اثبات ہو تو علم کی نفی نہیں ہوتی؛ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اگر کوئی دینی اصول ثابت ہوجائے تو کوئی سائنسی اور علمی اصول باطل ہوجائے-امام (ع) کے دور میں ایسا کوئی تعارض نظر نہیں آتا- علم و دین کے درمیان تمایز اور اختلاف بھی نظر نہیں آتا اور ایسا نہیں تھا ( اور نہ ہے) کہ علم و دین کے درمیان کوئی بھی وجہ اشتراک نہ ہو اور معنی کے لحاظ سے روش اور غایت مکمل مفارقت میں قرار پائی ہو؛ اور علم و دین الگ الگ اور ایک دوسرے سے غیر متعلق اور غیر مربوط فرائض کے عہدہ دار ہوں؛ اس دور میں ایسا بھی نہیں تھا بلکہ علم و دین کے آپس کی نسبت اس دور میں توافق اور ایک دوسرے کی تکمیل سے عبارت تھی- یعنی ان دو مقولوں کے درمیان مکمل سازگاری اور ہماہنگی تھی اور اس کے علاوہ وہ ایک دوسرے کو مکمل کرنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے- علماء اور دانشور جو اسلامی معاشرے کی نمائندگی کرتے تھے غالباً دین اور علم کے پیکر تھی اور علماء اور دانشوروں کی اکثریت دیندار افراد اور علمائے دین پر مشتمل تھی اور علمائے دین ہی دیگر علوم و فنون کے بھی استاد تھے-البتہ یہ ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی معاشروں کے لئے یہ عظیم نعمت ائمہ ہدایت (ع) اور حضرت امام علی بن موسی الرضا (ع) کے فیضان کا نتیجہ تھا- اور اسلامی تہذیب میں اعتلا و ارتقاء اور دینی تہذیب کی بالیدگی حضرت ثامن الحجج (ع) اور آپ (ع) کے آباء طیبین (ع) کی مرہون منت تھی کیونکہ اس زمانے میں دین کی ترویج و حفاظت اور علم و سائنس کی ترویج کا کام صرف ائمہ طاہرین (ع) کے توسط سے انجام پاتا رہا، دوسرے تو دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کسی حاکم نے علم کی ترویج کی حمایت کی ہے تو یہ اس کی مجبوری بھی تھی اور وجہ شہرت بھی ہوسکتی تھی!- اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہارون و مامون ان برکات کا سرچشمہ ہوں جیسا کہ بعض درباری مولفین نے تحریر کیا ہے-کیوں کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ "اس علمی اور دینی تحریک کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اور یہ کہ یہ پیشرفت و ترقی کہاں سے شروع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہارون اور مامون کے دور میں علم کا مقام و مرتبہ حد کمال کو پہنچا؟ اس دور میں علم کا چرچا اس لئے ہوا کہ صادقَین (امام باقر اور امام صادق) علیہماالسلام کے دور میں عظیم ترین علماء، فقہاء، قضات، ادباء اور شعراء ابھرے، علمی و سائنسی مقابلے اور ادبی مناظرے ہوئے، مفکرین اور ارباب علم و نظر وجود میں آئے اور انہوں نے نور وجود امام باقر اور امام صادق (ع) کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان ہی لوگوں نے دوسری اسلامی صدی کے نصف ثانی اور تیسری اسلامی صدی کے نصف اول کو اپنی کاوشوں اور آثار سے منور کیا اور ان دوخلفاء کی اہمیت کا سبب یہ ٹہرا کہ ان کے دور میں علم و دانش اپنے اصلی سرچشموں سے پھوٹتا رہا- اور بہت سے لوگ ائمہ طاہرین کے نورانی وجود سے پھوٹتے علم و دانش کے سرچشموں سے سیراب ہونے کل لئے تیار ہوئے اور رشد و کمال کے عروج پر پہنچے--- خلاصہ یہ کہ عصری تقاضوں ہی کا تقاضا ہوا کہ منصور عباسی اور ہارون و مامون علم کے طالب و خریدار ٹہریں جیسا کہ سرکاری جبر کے تقاضوں کا تقاضا ہے!!!- (ختم شد)
--------------
حوالے جات:
1- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، شریف قرشی، ج2، ص283
2- الفہرست، ابن ندیم، ص239
3- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، ج2، ص286
4- التبیان فی تفسیر القرآن، محمد بن حسن طوسی، ج1، ص4
5- مقدمہ النفع و الہدایہ، ص10
6- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، ج2، ص290
7- حضرت حضرت رضا(ع) کی زندگی کی خصوصیات؛، داکتر علی شریعتمداری، ج3، ص119117
8- امام رضا (ع) کی حالات زندگی کا ایک تجزیہ، محمد جواد فضل اللہ ، ترجمہ سید محمد صادق عارف، ص161
ماسکو میں ایرانی وزير خارجہ کی روسی وزیر خارجہ سے ملاقات
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان روس کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، علاقائي امور اور عالمی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گيا۔ اطلاعات کے مطابق ایران اور روس کے وزير خارجہ نے باہمی ملاقات میں مشترکہ ایٹمی معاہدے ، جنوبی قفقاز، بحر کاسپیئن، مشرق وسطی اور افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بھی بات چیت اور گفتگو کیا۔ اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے روس میں ایرانی سفیر اور ديکر سفارتکاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران بے فائدہ اور غیر مفید مذاکرات کو قبول نہیں کرےگا۔ مذاکرات کو بامقصد ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پیکر صلح و رحمت
رآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔
صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔
یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔
یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے:
١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔
٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا
۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔
بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔
٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا
زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔
- مؤلف:
- سید ابوالحسن نواب
- ذرائع:
- تقریب ڈاٹ آئی آر
اپنی سلامتی کے سلسلے میں غیر قوتوں پر بھروسہ کسی سانحے سے کم نہیں، علاقائی ممالک ایران کی طاقت اور دانشمندی کو نمونہ عمل بنائیں: رہبر انقلاب اسلامی
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امام حسین ملٹری یونیورسٹی میں، فوجی افسران کی مشترکہ پاسنگ آوٹ پریڈ سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسلح افواج کو سربلند ایرانی قوم اور طاقتور نیز وطن عزیز کی سلامتی کی مستحکم فصیل قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شمال مغربی ہمسایہ ملکوں کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شمال مغربی ملکوں کے مسائل کا حل، ان ملکوں میں بیرونی ملکوں کی عسکری مداخلت کی روک تھام میں مضمر ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ خطے میں بیرونی مداخلت نقصاد دہ ہے اور تمام مسائل کو بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بغیر حل کیا جانا چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ خطے کے ملکوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایران اور ایران کی مسلح افواج کی طاقت اور دانشمندی کو نمونہ عمل بنائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سلامتی کو ملکی ترقی و پیشرفت کی اساس اور بیرونی طاقتوں پر بھروسہ کیے بغیر ملکی سلامتی کو یقینی بنائے جانے کو انتہائی اہم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ البتہ ایرانی عوام کے لیے یہ عام سی بات ہے لیکن دیگر ملکوں حتی یورپی ممالک بھی اس حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ اور امریکہ کے درمیان حالیہ چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض یورپی ملکوں نے امریکی اقدام کو پیٹھ میں خنجر گھوپنے کے مترادف قرار دیا ہے، دوسرے لفظوں میں یورپی ممالک یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں نیٹو اور امریکہ کے بغیر اپنی سلامتی کا تحفظ کرنا ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب یورپی ممالک بھی امریکہ پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے اپنی سلامتی کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں تو ان ممالک کا حساب پوری طرح واضح ہے جنہوں نے اپنی فوجوں کو امریکہ اور دیگر بیرونی ملکوں کے کنٹرول میں دے رکھا ہے۔
ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دوسرے کے بھروسے پر اپنی سلامتی کے تحفظ کو ایک وہم قرار دیا اور فرمایا کہ اس وہم میں مبتلا ہونے والوں کے منہ پر جلد طمانچہ پڑے گا، کیونکہ کسی بھی ملک کی سلامتی، جنگ اور امن جیسے معاملات میں بیرونی مداخلت، کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو ظاہری اور جھوٹی طاقت کا ایک نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بیس سال قبل امریکہ نے طالبان کو سرنگوں کرنے کے لیے افغانستان پر لشکر کشی کی تھی اور اس طویل لشکر کشی کے دوران انہوں نے قتل و جرائم کا ارتکاب کیا اور بے پناہ تباہی مچائی، لیکن تمام تر جانی اور مالی نقصان کے بعد حکومت، طالبان کے سپرد کرکے باہر نکل گئے اور یہ تمام ملکوں کے لیے سبق آموز واقعہ ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ اور اس جیسے ملکوں کے ہالی ووڈ اسٹائل، فلمی دکھاوا ہیں، کیونکہ ان کی حقیقت وہی ہے جو افغانستان میں دیکھی گئی ہے۔
ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے امریکی فوج کے حوالے سے مشرقی ایشیائی اقوام میں پائی جانے والی نفرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ نے جہاں بھی مداخلت کی ہے، اسے وہاں قوموں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خطے کی بھلائی اس میں ہے کہ تمام ممالک کے پاس مستقل اور اپنی قوموں پر بھروسہ کرنے والی فوج ہو اور ہمسایہ ملکوں کی مسلح افواج کے ساتھ جڑی رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خطے کی مسلح افواج، علاقائی سلامتی کا تحفظ کر سکتی ہیں اور انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، بیرونی افواج کو مداخلت اور موجودگی کی اجازت نہیں دینا چاہییے۔
ایران اپنی سرحدوں کے قریب صہیونیوں کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا: وزیر خارجہ
امیر عبد اللہیان نے چینل وَن کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایران اور آذربایجان کے مابین پیدا ہونے والے بعض مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت دو ممالک کے تعلقات کو بگاڑنے کی کوشش میں لگی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اپنے ہمسایہ ممالک منجملہ آذربایجان کو ایک دوستانہ نظر سے دیکھتے ہوئے تمام تر دقت نظر کے ساتھ حالات کو زیر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ قرہ باغ کی جنگ اور اسکی آزادی کے دوران کئی دہشتگرد ٹولوں کو علاقے میں لایا گیا اور اُس وقت صیہونی حکومت نے بھی اس کشیدگی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، جبکہ ایران نے اُسی وقت سیاسی فوجی اور سکیورٹی سطح پر مختلف سفارتی ذرائع کے ذریعے انتباہ دیا تھا اور تمام تر سنجیدگی کے ساتھ آذربایجان کے اعلیٰ حکام تک یہ پیغام پہنچایا تھا کہ تہران دونوں ممالک کے روز افزوں تعلقات کو اہمیت دیتا ہے مگر ساتھ ہی وہ کسی قیمت پر اپنی سرحدوں کے قریب خود ساختہ صیہونی حکومت کی موجودگی اور علاقے کے جیوپولیٹیکل چینج کو برداشت نہیں کرے گا۔
وزیر خارجہ ایران حسین امیر عبد اللہیان نے مزید کہا کہ ایران کو اس بات کی بھی تشویش لاحق ہے کہ صیہونی حکومت اور دہشتگرد ٹولے کہیں جمہوریہ آذربایجان کے لئے بھی خطرات پیدا نہ کر دیں۔
سویڈن میں توہین آمیز خاکے بنانے والا کارٹونسٹ ٹریفک حادثے میں ہلاک
سویڈن میں توہین آمیز خاکے بنانے والا کارٹونسٹ لارس ولکس کار حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق سویڈن کی حکومت نے توہین آمیز خاکے بنانے والے لارس ولکس نامی شخص کو کئی برسوں سے پولیس کی سکیورٹی دے رکھی تھی، لارس ولکس اتوار کے روز اپنی پولیس سکیورٹی میں جارہا تھا کہ مارکیریڈ نامی قصبے کے قریب اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔
گاڑی اور ٹرک کے درمیان تصادم کے نتیجے میں لارس ولکس اور اس کی حفاظت پر مامور 2 پولیس اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوگئے، مقامی پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ کار اور ٹرک کی ٹکر کیسے ہوئی تاہم ابتدائی طور پر واقعہ کسی بھی طرح سے قاتلانہ کارروائی یا حملہ نہیں لگتا۔
2007 میں لارس ولکس نے توہین آمیز خاکے بنائے تھے، جس پر ایران سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔
رہبر معظم کا فری اسٹائل کشتی مقابلوں میں ایرانی پہلوانوں کی کامیابی پر شکریہ
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں فری اسٹائل کشتی مقابلوں میں ایرانی پہلوانوں کی کامیابی پر شکریہ ادا کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی پہلوانوں نے کشتی مقابلوں میں ایرانی عوام اور خاص طور پر ایرانی جوانوں کے دلوں کا شاد کیا ، اور میں ایرانی پہلوانوں کی کامیابی پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واضح رہے کہ دو ایرانی پہلوانوں نے کشتی کے عالمی مقابلوں میں سونے اور چاندی کے میڈلز حاصل کئے ہیں۔
صہیونی وزیر خارجہ کا دورہ بحرین
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے وزیر خارجہ یائیر لاپیڈ نے بحرین کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد تل ابیب اور منامہ میں باہمی تعلقات کا فروغ بیان کیا گیا ہے جبکہ صہیونی وزیر خارجہ اس دورے میں بحرین کے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں سے ملاقات بھی کریں گے۔ یہ صہیونی وزیر خارجہ کا پہلا سرکاری دورہ ہے جس میں انہوں نے منامہ میں اسرائیلی سفارتخانہ بھی کھولنا ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک کے درمیان چند معاہدوں پر بھی دستخط انجام پانے ہیں۔ غاصب صہیونی رژیم کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیانیے میں ان معاہدوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح تل ابیب اور منامہ کے درمیان ایک براہ راست پرواز بھی شروع کی جانی ہے۔ یہ پرواز ہفتے میں دو دن انجام پائے گی۔
غاصب صہیونی رژیم کے نائب وزیر خارجہ عیدال رول نے بحرین کے ساتھ اس پرواز کے افتتاح کے بارے میں کہا: "بحرین اسرائیل کیلئے ایک اہم تجارتی منزل ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اس پرواز کا افتتاح ایک اہم اسٹریٹجک قدم ثابت ہو گا۔" دوسری طرف بحرین میں اسلامی تحریک کے سربراہ اور معروف شیعہ رہنما آیت اللہ عیسی قاسم نے صہیونی وزیر خارجہ کے دورہ بحرین پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کہا: "صہیونی دشمن کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر مبنی نفرت انگیز غداری، بحرینی رژیم کی اپنے عوام کے ساتھ سیاسی جنگ کا حصہ ہے۔ خدا ہمارے عوام پر رحم کرے۔" انہوں نے مزید کہا: "بحرین بدستور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنے تشخص پر ڈٹا ہوا ہے۔"
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے کہا کہ ہماری مزاحمت طویل المیعاد ہو گی اور یہ جنگ بحرین کے تشخص کیلئے ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی وزیر خارجہ لاپیڈ کا دورہ بحرین اس شکست اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے انجام پایا ہے جس کا شکار اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مختلف اسلامی ممالک سے تعلقات آگے بڑھانے میں ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ غاصب صہیونی رژیم کے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے معاہدے کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے جبکہ صہیونی رژیم خطے میں تمام اسلامی ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے انجام دینے کا منصوبہ رکھتی تھی۔ لہذا ایک سال تک صرف ان دو عرب ممالک تک محدود رہنا صہیونی رژیم کیلئے شکست کے مترادف ہے۔
مذکورہ بالا معاہدوں پر دستخط کے بعد صہیونی حکمران خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی ایسے ہی معاہدے انجام پانے کے بارے میں بہت زیادہ امیدوار دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران خطے کے ممالک نے غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ ایسے معاہدے انجام دینے کی ظاہری حد تک خواہش کا بھی اظہار نہیں کیا ہے۔ آل سعود رژیم، جو خطے کے ممالک اور صہیونی رژیم کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام میں اہم کردار ادا کر رہی ہے خود بھی امریکہ کے بھرپور دباو کے باوجود صہیونی رژیم سے ایسا معاہدہ انجام دینے کیلئے حاضر نہیں ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ امت مسلمہ میں غاصب صہیونی رژیم کی نسبت پائی جانے والی شدید نفرت اور منفی رائے عامہ ہے۔ لہذا عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا قیام یا پہلے سے قائم دوستانہ تعلقات کو منظرعام پر لانے کا پراجیکٹ ناکام ہو چکا ہے۔
اگرچہ اس وقت بھی غاصب صہیونی رژیم درپردہ کئی عرب ممالک سے انتہائی گہرے دوستانہ تعلقات استوار کئے ہوئے ہے لیکن صہیونی حکمران اعلانیہ طور پر کھلم کھلا خطے کے ممالک سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے درپے ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے صہیونی رژیم نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے معاہدے منعقد کئے ہیں۔ صہیونی حکمرانوں کا خیال ہے کہ وہ اس طرح اپنی غاصب رژیم کیلئے مشروعیت اور قانونی جواز اخذ کر سکتے ہیں۔ لہذا عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو منظرعام پر لانا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ صہیونی حکمران سمجھتے ہیں کہ خطے کے ممالک سے دوستانہ تعلقات منظرعام پر آنے سے وہ علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
غاصب صہیونی رژیم کے وزیر خارجہ کا دورہ بحرین بھی اسی پس منظر میں انجام پایا ہے۔ یائیر لاپیڈ عرب ممالک سے تعلقات کو منظرعام پر لا کر خطے اور بین الاقوامی رائے عامہ کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ان تعلقات کو منظرعام پر لانا ہمارے لئے اہم ہے۔ دوسری طرف بحرین کی حکمفرما آل خلیفہ رژیم نے بھی اپنی عوام کی شدید مخالفت کے باوجود صہیونی وزیر خارجہ کا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ بحرینی قوم غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی مذمت کرتی آئی ہے اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کر رہی ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بحرینی حکومت اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا دوستانہ تعلقات استوار کر کے امریکہ کو راضی کرنے کے درپے ہے۔ یوں بحرینی حکومت عوامی حمایت سے عاری ہونے کے ناطے امریکہ کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
تحریر: رامین حسین آبادیان
آئی اے ای اے کو دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ کا کھلونا نہیں بننا چاہئے، محمد اسلامی
ایران کے ادارۂ ایٹمی توانائی کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ ایک آزاد اور بین الاقوامی ادارے کی حیثیت سے آئی اے ای اے کو دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننا چاہئے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے روسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو میں کہا ہے کہ فتنہ انگیزی اور کاغذ بازی اور سٹیلائٹ تصویر کہ جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اسی طرح ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات و الزامات، یہ سب جوہری دہشت گردی کے مترادف ہیں۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے خلاف ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے حالیہ مواقف کے بارے میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سیف گارڈ سسٹم کے تحت تمام قوانین پر عمل کرتا رہا ہے اور وہ این پی ٹی کے اصولوں پر کاربند ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے اور ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کا عمل بھی پرامن منصوبے کے مطابق اسی سطح کا ہے کہ جس کی ایران کو ضرورت رہتی ہے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کا ہمیشہ اور منظم طور پر معائنہ کیا جاتا رہا ہے اور تنصیبات میں لگے کیمروں کے ذریعے نگرانی بھی کی جاتی رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران سے برتی جانے والی دشمنی کی بنا پر ایران کے پرامن جوہری پروگرام میں اختیار کیا جانے والا رویہ سیاسی محرکات اور امتیازی سلوک کا حامل ہے جبکہ یہ عمل ہرگز ناقابل قبول ہے۔
محمد اسلامی نے کہا کہ ایران نے اعتماد کی بحالی کے لئے اب تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمیشہ نیک نیتی کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ امریکہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے اپنائے جانے والے غلط طریقے کو بہر صورت روکے جانے کی ضرورت ہے اور ایرانی عوام کے مفادات کو اب اس سے زیادہ کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔
واضح رہے کہ آئی اے ای اے کی جانب سے اب تک پندرہ سے زائد رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی جا چکی ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں پر پوری طرح سے عمل کیا ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کے دباؤ میں آکر آئی اے ای اے کے سربراہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگراموں کے بارے میں غیرذمہ دارانہ بیانات دے دیتے ہیں جو ایران کے لئے کسی بھی عنوان سے قابل قبول نہیں ہے۔
رافائل گروسی نے ابھی حال ہی میں کرج میں ایک پلانٹ کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیان دیا تھا جسے ایران نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔
شیعیت نیوز:
ایرانی بری فوج کی ملک کے شمال مغرب میں " فاتحان خيبر " مشق کا آغاز
اسلامی جمہوریہ ایران کی بری فوج کے سربراہ کیومرث حیدری کی موجودگی میں ایران کی بری فوج نے ملک کے شمال مغرب میں فاتحان خيبر مشق کا آغاز کردیا ہے۔ فاتحان خیبر مشق میں ایرانی فوج کی 216 ویں بریگیڈ ، 316 ویں بریگیڈ ، 25 ویں بریگیڈ ، 11 ویں آرٹلری یونٹ اور ڈرونز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فاتحان خيبر مشق میں ایرانی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر بھی مدد فراہم کررہے ہیں۔ فاتحان خیبر مشق کے آغازمیں پہلے بری فوج کے یو اے وی یونٹ نے علاقے کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیا اور کمانڈ پوسٹ پر تصاویر بھیجنے کے بعد ، مشق کے علاقے میں ہیلی برن فورسز کے ساتھ 25 ویں ریپڈ ری ایکشن بریگیڈ نے یلغار آپریشن کا مظاہرہ کیا۔
مشق کے تسلسل میں ، آرٹلری یونٹ نے پہلے سے طے شدہ پوزیشنوں اور اہداف پر گولہ باری کی اور آرٹلری یونٹوں کی گولہ باری کے ساتھ بکتر بند یونٹوں نے بھی آپریشن میں حصہ لیا۔ فاتحان خیبر مشق میں فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں نے بھی مدد فراہم کی۔