صہیونی وزیر خارجہ کا دورہ بحرین

Rate this item
(0 votes)
صہیونی وزیر خارجہ کا دورہ بحرین

اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے وزیر خارجہ یائیر لاپیڈ نے بحرین کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد تل ابیب اور منامہ میں باہمی تعلقات کا فروغ بیان کیا گیا ہے جبکہ صہیونی وزیر خارجہ اس دورے میں بحرین کے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں سے ملاقات بھی کریں گے۔ یہ صہیونی وزیر خارجہ کا پہلا سرکاری دورہ ہے جس میں انہوں نے منامہ میں اسرائیلی سفارتخانہ بھی کھولنا ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک کے درمیان چند معاہدوں پر بھی دستخط انجام پانے ہیں۔ غاصب صہیونی رژیم کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیانیے میں ان معاہدوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح تل ابیب اور منامہ کے درمیان ایک براہ راست پرواز بھی شروع کی جانی ہے۔ یہ پرواز ہفتے میں دو دن انجام پائے گی۔
 
غاصب صہیونی رژیم کے نائب وزیر خارجہ عیدال رول نے بحرین کے ساتھ اس پرواز کے افتتاح کے بارے میں کہا: "بحرین اسرائیل کیلئے ایک اہم تجارتی منزل ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اس پرواز کا افتتاح ایک اہم اسٹریٹجک قدم ثابت ہو گا۔" دوسری طرف بحرین میں اسلامی تحریک کے سربراہ اور معروف شیعہ رہنما آیت اللہ عیسی قاسم نے صہیونی وزیر خارجہ کے دورہ بحرین پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کہا: "صہیونی دشمن کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر مبنی نفرت انگیز غداری، بحرینی رژیم کی اپنے عوام کے ساتھ سیاسی جنگ کا حصہ ہے۔ خدا ہمارے عوام پر رحم کرے۔" انہوں نے مزید کہا: "بحرین بدستور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنے تشخص پر ڈٹا ہوا ہے۔"  
 
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے کہا کہ ہماری مزاحمت طویل المیعاد ہو گی اور یہ جنگ بحرین کے تشخص کیلئے ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی وزیر خارجہ لاپیڈ کا دورہ بحرین اس شکست اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے انجام پایا ہے جس کا شکار اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مختلف اسلامی ممالک سے تعلقات آگے بڑھانے میں ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ غاصب صہیونی رژیم کے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے معاہدے کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے جبکہ صہیونی رژیم خطے میں تمام اسلامی ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے انجام دینے کا منصوبہ رکھتی تھی۔ لہذا ایک سال تک صرف ان دو عرب ممالک تک محدود رہنا صہیونی رژیم کیلئے شکست کے مترادف ہے۔
 
مذکورہ بالا معاہدوں پر دستخط کے بعد صہیونی حکمران خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی ایسے ہی معاہدے انجام پانے کے بارے میں بہت زیادہ امیدوار دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران خطے کے ممالک نے غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ ایسے معاہدے انجام دینے کی ظاہری حد تک خواہش کا بھی اظہار نہیں کیا ہے۔ آل سعود رژیم، جو خطے کے ممالک اور صہیونی رژیم کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام میں اہم کردار ادا کر رہی ہے خود بھی امریکہ کے بھرپور دباو کے باوجود صہیونی رژیم سے ایسا معاہدہ انجام دینے کیلئے حاضر نہیں ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ امت مسلمہ میں غاصب صہیونی رژیم کی نسبت پائی جانے والی شدید نفرت اور منفی رائے عامہ ہے۔ لہذا عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا قیام یا پہلے سے قائم دوستانہ تعلقات کو منظرعام پر لانے کا پراجیکٹ ناکام ہو چکا ہے۔
 
اگرچہ اس وقت بھی غاصب صہیونی رژیم درپردہ کئی عرب ممالک سے انتہائی گہرے دوستانہ تعلقات استوار کئے ہوئے ہے لیکن صہیونی حکمران اعلانیہ طور پر کھلم کھلا خطے کے ممالک سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے درپے ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے صہیونی رژیم نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے معاہدے منعقد کئے ہیں۔ صہیونی حکمرانوں کا خیال ہے کہ وہ اس طرح اپنی غاصب رژیم کیلئے مشروعیت اور قانونی جواز اخذ کر سکتے ہیں۔ لہذا عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو منظرعام پر لانا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ صہیونی حکمران سمجھتے ہیں کہ خطے کے ممالک سے دوستانہ تعلقات منظرعام پر آنے سے وہ علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
 
غاصب صہیونی رژیم کے وزیر خارجہ کا دورہ بحرین بھی اسی پس منظر میں انجام پایا ہے۔ یائیر لاپیڈ عرب ممالک سے تعلقات کو منظرعام پر لا کر خطے اور بین الاقوامی رائے عامہ کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ان تعلقات کو منظرعام پر لانا ہمارے لئے اہم ہے۔ دوسری طرف بحرین کی حکمفرما آل خلیفہ رژیم نے بھی اپنی عوام کی شدید مخالفت کے باوجود صہیونی وزیر خارجہ کا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ بحرینی قوم غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی مذمت کرتی آئی ہے اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کر رہی ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بحرینی حکومت اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا دوستانہ تعلقات استوار کر کے امریکہ کو راضی کرنے کے درپے ہے۔ یوں بحرینی حکومت عوامی حمایت سے عاری ہونے کے ناطے امریکہ کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

تحریر: رامین حسین آبادیان

Read 542 times