سلیمانی

سلیمانی

 اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے آج تہران کے تختی اسٹیڈیم میں کورونا ویکسینیشن سینٹر کے دورے کے دوران ایرانی کورونا  ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگوا لیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق میجر جنرل حسین سلامی نے آج سپاہ کے اعلی کمانڈروں کے ہمراہ تہران میں تختی اسٹیڈيم میں سپاہ کی بری فوج کی طرف سے عوامی ویکسینیشن مرکز کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام ہمارے ولی نعمت ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے جسم و جان میں ہے وہ ہم عوام کی خدمت میں پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ سپاہ کے تمام اہلکار کا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے اور ویکسین لگوانے کے سلسلے میں وزارت صحت کے عملے کے ساتھ  بھر پور تعاون جاری ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے عدی الخدران نے خطے میں امریکہ کی طرف سے دہشت گردوں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے نے کہا کہ امریکہ نے عراق اور خطے کے اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا۔ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ عدی الخدران نے کہا کہ عراق کے بعض صوبوں میں داعش دہشت گردوں کی فعالیت امریکی منصوبے کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تکفیری اور وہابی دہشت گردوں کے پاس پیشرفتہ ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں؟۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ آج بھی عراق میں دہشت گردوں کی پشتپناہی اور انھیں پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

 نائیجریا کے عدالت عظمیٰ نے نا‏ئجیریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی اور انکی اہلیہ زینب کو 6 سال کی سخت ترین اسیری کے بعد آج تمام مقدمات  باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

یاد رہے کہ نائجیریا کی حکومت شیخ زکزاکی کے 6 بیٹوں سمیت سینکڑوں شیعوں کو شہید کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ شیخ زکزاکی کی صاحبزادی سہیلہ زکزاکی  نے اس سے قبل مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے والدین کی آزادی کے بارے میں امید کا اظہار کیا تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے صدرحسن روحانی اور ان کی کابینہ کے اراکین کے ساتھ آخری ملاقات میں فرمایا: اس حکومت میں ، یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک  پر اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید سعید غدیر کی مناسبت سے تمام مسلمانوں اور خاص طور پر ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کی اور عوامی خدمت کو اللہ تعالی کی نعمت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نعمت کا شکر ادا کرنے اور انقلاب اسلامی کے اہداف تک پہنچنے کے لئے اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واقعہ غدیر کو اسلام کے مسلّم اور ناقابل انکار واقعات میں قراردیتے ہوئے فرمایا:  غدیر خم کے واقعہ کو شیعہ اور سنی علماء نے 110 صحابہ اور معتبر اسلامی اسناد کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اہلسنت کے بعض بزرگ علماء نے بھی اس واقعہ کو اسلام کا اہم اور تارخی واقعہ قراردیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بارہویں حکومت کے بعض اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کے بعض اقدامات توقعات کے مطابق تھے لیکن بعض اقدامات  توقعات کے مطابق نہیں تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں اور بارہویں حکومتوں کے تجربات کو تیرہویں حکومت کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ایک اہم تجربہ جو اس حکومت میں حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مغربی ممالک ناقابل اعتماد ہیں وہ اپنے اہداف کی تلاش وکوشش میں ہیں اور ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ امریکہ  اور مغربی ممالک پر بالکل اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے اندرونی منصوبوں کو مغربی ممالک کے منصوبوں سے منسلک نہیں کرنا چاہیے جہاں ہم نے کام خود انجام دیا وہاں ہم کامیاب ہوئے اور جہاں ہم نے کام کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ملکر شروع کرنے کی کوشش کی ، وہاں ہمیں شکست اور ناکامی کا سامنا ہوا، لہذا تجربات کی روشنی مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ آج بھی مذاکرات میں مستقبل میں معاہدے کو نقض نہ کرنے کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کی خباثت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کو توڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کابینہ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: اللہ تعالی مدد فرمائے جہاں بھی آپ رہیں اپنی دینی اور انقلابی ذمہ داریوں پر عمل کرتے رہیں ۔

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

3سورة المائدة

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے وزير خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثآنی تہران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات  اورگفتگو کی ۔ اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قراردیا۔

ایران کے نئے صدر نے قطر کو ایران کا برادر اور دوست ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ قطر ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی پرگامزن ہے ۔ آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہترین اور قابل اعتماد ہے۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران ہمسایہ ممالک کی سلامتی،  ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے۔ قطر کے وزیر خآرجہ نے بھی اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ قطر کے بادشاہ کا سلام بھی پیش کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر زوردیا۔

مقدمہ:
اسلام کی تمام تعلیمات اور احکام خواہ وہ عبادی ہوں یا اجتماعی، سب کے گونا گوں آثار اور فلسفے بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام شناس افراد ہر دور میں ان تعلیمات کی آفاقیت اور ان کے ہماری زندگی پر اثرات سے بحث کرتے آئے ہیں۔ مثلاً اسلام کے عملی احکام نماز، روزہ، زکواۃ، خمس ، حج اور دیگر اعمال اگر ایک طرف ان میں عبادی پہلو ہیں تو دوسری طرف ان میں امت مسلمہ کے لئے اتحاد و اتفاق کا بصیرت افروز درس پنہاں ہے۔ ان ہی مہم اور وسیع انسانی زندگی پر اثرات کے حامل اعمال میں سے ایک حج ہے، جو کہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔ نماز جماعت اور حج بیت اللہ اتحاد امت کا مثالی نمونہ ہیں، حج دنیا بھر سے حجاز مقدس میں آئے ہوئے مسلمانوں کی ہم رنگی اور ہم آہنگی کے ساتھ امت کی وحدت کا بہترین اظہار ہے۔ زیر نظر مضمون میں حج کے اسی پہلو سے متعلق ان زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔
1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں
2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں
3۔ حج کے اعمال میں وحدت کے آثار

1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں:
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اجتماعی حکم اتحاد ہے، اسلام مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی طرف بساط سے زیادہ توجہ رکھتا ہے اور اسلامی وحدت، اسلام کے منجملہ عظیم اہداف میں سے ایک ہدف شمار ہوتی ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: ’’واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا۔‘‘ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔(۱) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’ولاتکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجآء ہم البینات۔‘‘ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا، جو واضح دلائل آنے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے۔(۲) یہ دونوں آیات مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور اتحاد و ہم بستگی پر محکم دلیل ہیں، جن میں ہر قسم کے تفرقے اور اختلاف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی احادیث اور ان کی عملی سیرت بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو بہت ہی اہمیت دی ہے۔ احادیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا اور امور مسلمین سے غفلت برتنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا گیا ہے۔

یہاں اس موضوع کی مناسبت سے پیغمبرؐ کی ایک حدیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، آپ ؐنے فرمایا: ’’ایہا الناس ان ربکم واحد واباکم واحد کلکم لآدم وآدم من تراب ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ولیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی۔‘‘ اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک، تمہارا باپ ایک ہے، تم سب فرزند آدم ہو اور آدم خاک سے ہیں، بے شک تم میں سے محترم وہی ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہے، عرب کو عجم پر فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔(۳) یہ جملے وحدت و یگانگی اور ہم بستگی کی عام دعوت ہیں، جن کو پیغمبر ؐنے آخری حج کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ کیوں اس مقام کو اس اعلان کے لئے منتخب کیا، اس لئے کہ عرصہ قیامت تک جو اعمال حج برپا ہیں، لوگ آئیں اور اپنے عظیم پیغمبر ؐ کی وصیت کو یاد کریں اور اس سے آگاہ ہوں اور اختلاف و تفرقہ میں نہ پڑیں۔ یہاں دوستی و برادری کے عنوان سے ایک دوسرے سے صمیمیت کے ساتھ ہاتھ ملائیں، اختلاف و موانع کو ختم کریں۔ مادی و معنوی عہد و پیمان اور مبادلات کے ذریعے آپس میں تحریری فرمان (agrement) برقرار کریں۔

2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں:
حج کے ارکان و مناسک اور اس سلسلے میں حاجی کے اوپر عائد ذمہ داریوں پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حج صرف اللہ سے انسان کا معنوی رابطہ ہی نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے مسائل، ان کا حل اور کفر و استکبار کے خلاف اظہار نفرت اور آپس میں تعاون و ہمکاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔ سرزمین وحی کا یہ سالانہ اجتماع ایک بیش قیمت موقع ہے، اس میں اسلامی دینا کو درپیش مشکلات و مسائل کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ باطل کے مقابلے میں حق کی تقویت کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اسلامی فرقوں کے پیروکار و خصوصاً علماء باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور امت واحدہ کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائے جاسکتے ہیں۔

حج کا سب سے اہم فائدہ اتحاد امت:
’واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق۔لیشہدوا منافع لہم  ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقہم من بہیمۃ الانعام فکلوا منہاواطعموالبائس الفقیر۔‘‘ اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں، تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں، جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورت مندوں کو بھی کھلاؤ۔(۴) اس آیت میں ’’لیشہدوا‘‘ اس مقصد کی علت ہے۔ یہ آیہ بطور صراحت اعلان کر رہی ہے کہ حج دنیوی اور اخروی منافع پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں، اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے آئیں اور ایک دوسرے سے آشنا ہوں اور ایک دوسرے کے مسائل، مشکلات اور کمزوریوں سے آگاہ ہوں اور ان کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ یعنی ہر فائدہ شامل ہے، لیکن ان میں سے سب سے بنیادی فائدہ مسلمانوں کی قدرت و شان و شوکت کا عملی اظہار ہے، جس سے ان میں ایک ہی امت کا تصور ابھرتا ہے اور ایک ہی مرکز سے اپنے اخوت و بھائی چارگی اور آپس میں ہمدردی کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کا عملاً انکار ہوتا ہے۔

مسلمانوں کا آپس میں تعاون:
’’وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔‘‘ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔(۵) یہ آیت بھی احکام حج کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کے نیک کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہر قسم کی برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حج ایک اہم موقع ہے، جہاں مسلمان پوری دنیا کو امن و محبت کا گہوا رہ بنانے کے لئے ایک عالمی منشور مرتب کریں اور اس منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر سال حکمت عملی حج کے مبارک ایام میں ہی بنائیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی زبان میں وہ منشور پیش کریں اور مسلمان علماء و دانشوروں کو اس سلسلے میں ایک بھاری ذمہ داری سونپ دیں، تاکہ ہر ایک علاقے، شہر اور ملک میں اس کو اجراء کرنے اور اس کو ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں، جس طرح پیغمبر نے حجۃ الوداع میں ایک عالمی منشور مسلمانوں کو پیش کیا اور حاظرین کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہ پیغام غائبین تک پہنچائیں۔

استکبار جہاں کیخلاف اتحاد کا عملی اظہار:
’’وآذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بریء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فہو خیر لکم۔‘‘ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہیں اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔(۶) اسلام دشمن عناصر اور مشرکین سے اظہار نفرت کا بہترین موقع حج ہے، کیونکہ اس میں دنیا کے تمام مسلمان جمع ہو کر ایک باعظمت اجتماع برپا کرتے ہیں اور ایسا اجتماع دوسرے کسی فریضے میں ممکن نہیں اور یہ اجتماع مسلمانوں کا مشترکہ اور متحد طور پر خدا و رسول کے دشمنوں سے اظہار نفرت اور برائت کے لئے بہت اہم فرصت ہے۔ جس میں اجتماعی طور پر اسلام دشمن اور استکبار جہاں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔

سیرت پیغمبر ؐ اور ائمہؑ:
حجۃ الوداع جو پیغمبرؐ کا پہلا اور آخری حج تھا، جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد اپنے اصحاب کے ہمراہ بجا لایا، اس حج کی خصوصیت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ پیغمبرؐ نے اعمال حج کی شکل میں اسلام کی طاقت، مسلمانوں کی عظمت و قیادت کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور تجلی روح توحید کو، اتحاد و ہمبستگی، استحکام و استواری، یکجہتی و ہمدلی، اخلاص و طہارت نفس اور تمام کام صرف خدا کے لئے انجام دئیے جانے میں بتایا، پیغمبر اسلامؐ نے اس حج میں تمام مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ کس طرح بکھرے ہوئے افراد سے ایک متحدہ طاقت وجود میں لائی جاسکتی ہے، صحیح و سالم قیادت کے سائے میں اہداف و مقاصد کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اس حج میں مکہ و منیٰ اور عرفات کی میدانوں میں خطبات دیئے، اس میں سب سے بنیادی نکتہ مسلمانوں کے آپس کی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے پر عائد ہونے والے حقوق اور فرائض کو ذکر کیا ہے۔

حج اور قیادت امت:
حج کے دوران مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر ؐ کی قیادت کا مشاہدہ کیا اور اعمال حج کی بجاآوری میں اور اس کے اہداف تک پہنچنے میں آپ کی قیادت کے کردار کو اچھی طرح درک کیا اور آپؐ نے اس عظیم اجتماع کے اختتام پر اپنے بعد ایک الہیٰ قیادت کا اعلان کیا اور اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ امت کو متحد رکھنے اور ایک منزل اور ایک ہی ہدف کے حصول کے لئے ایک صالح قیادت ضروری ہے، کیونکہ قائد کے بغیر نہ حرم کی حرمت باقی رہے گی، نہ عرفات کی معرفت حاصل ہوگی، نہ مشعر میں شعور ہوگا، نہ منیٰ میں ایثار و فداکاری نظر آئے گی، نہ زمزم میں زندگی کی علامت ہوگی، نہ صفا میں صدق و صفا ہوگا اور پیغمبرؐ کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے پیغام دیتا ہے کہ امت اپنے اس عظیم اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک صالح قیادت کا انتخاب کرے۔

حضرت علی ؑ حج سے متعلق اپنے کلمات میں بعض اسلامی قوانین کے فلسفہ کے بیان کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’والحج تقویۃ للدین۔‘‘ یعنی فلسفہ حج تقویت دین ہے۔(۷) حج کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف و اکناف عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں، تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔ حج کے اجتماع سے مسلمانوں کے روابط مستحکم ہوتے ہیں، مزید مسلمانوں کا ایمان قوی ہوتا ہے، اس وسیلہ سے اسلام زیادہ قدرت مند ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے: ’’لایزال الدین قائما ماقامت الکعبہ۔‘‘ جب تک کعبہ قائم و دائم ہے، اسلام بھی قائم و دائم ہے۔ یعنی جب تک حج زندہ و پائندہ ہے، اسلام بھی زندہ و باقی ہے۔ کعبہ اسلام کا مقدس پرچم ہے، مسلمانوں کی وحدت اور استقلال کا رمز و راز ہے۔

یہیں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ بغیر سمجھے بوجھے مکہ جائیں اور صرف ایک قسم کی خود بخود بغیر سمجھے بوجھے عبادتیں اور اعمال بجا لائیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے پرچم تلے یعنی وہی گھر جو پہلی مرتبہ لوگوں کے درمیان خدائے یگانہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا، ایک قوم و ملت کی صورت میں ہم عزم، ہم رزم اور ہم بزم ہونے کے لئے جمع ہوں۔ اسلام کا اصل اور بنیادی شعار ’’توحید‘‘ ہے، کعبہ مرکز توحید ہے۔(۸) اس کے علاوہ ائمہ ؑ نے حج کے ایام میں امت کی بیداری، احیاء اسلام اور ظالموں سے مقابلہ اور امت کے اتحاد کی دعوت دی ہے، ان میں وہ عظیم خطبہ جو امام حسین ؑ نے منیٰ کی میدان میں اصحاب و تابعین کے درمیان حج کے دوران ارشاد فرمایا۔

ہشام بن حکم امام صادق ؑکے اصحاب میں سے ہیں، کہتے ہیں: میں نے امام ؑ سے فلسفہ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا: ’’خداوند عالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا۔۔ اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے واجب قرار دیا، تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر ؐ کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کر لیں، ان کو کبھی فراموش نہ کریں(دوسروں تک پہنچائیں)(۹) امام ؑ کی یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج کے علمی، اقتصادی پہلو ہیں اور موسم حج مسلمانان جہاں کے درمیان ایک نقطہ اتصال ہے، جس کے ذریعے ایک دوسرے کے حالات، دنیا کے حالات، پیغمبر کے آثار سے آگہی جو علماء و مفکرین کے ذریعے شرق و غرب میں نشر ہوتے ہیں۔

3۔ اعمالِ حج میں وحدت کے آثار:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، ان میں سے ایک حج ہے۔ حج اسلام کی وہ عظیم عبادی و سیاسی عبادت ہے، جس میں پورا عالم اسلام دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر ایک نقطہ پر جمع ہوتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ہی رنگ، ایک ہی لباس پہنتے ہیں، سب ایک ہی لباس میں تلبیہ کہتے ہیں، ایک ہی روش پر طواف اور سعی بجا لاتے ہیں، تقصیر کرتے ہیں، عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے مناسک بجا لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت قاہرہ کے ذریعے سب کو ایک کر دیا ہے۔ اب یہاں سے مسلمانوں کا فریضہ شروع ہوتا ہے، جنہیں اللہ نے ایک انداز میں ایک محور پر جمع کر دیا ہو، ان کے دل بھی ایک دوسرے سے مل جانے چاہئیں اور ایک دوسرے کے لئے دھڑکنا چاہئیں، انہیں احساس ہونا چاہیئے کہ عالم اسلام میں جہاں مسلمان مشکلات کا شکار ہوں، گویا انہیں کے بھائی ہیں، جس دن حج کی اس روح کو مسلمانوں نے درک کر لیا، اس دن نہ صرف یہ زندہ عبادت ہو جائے بلکہ اللہ کی قدرت کے سایہ میں ہم بڑی طاقت سے بڑی طاقت بن جائیں گے۔(۱۰)

مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ حج کے اس پہلو کے احیاء کے لئے جدوجہد کریں اور حج کو صرف ایک رسم سے نکال کر اس روح اور حقیقت کو زندہ کریں اور عملاً مسلمانوں کے عالمی اتحاد کیلئے حج کے پلیٹ فارم کو موثر بنائے اور ان اوقات کو غنیمت شمار کرتے ہوئے عالم اسلام کے علماء، مفکرین، دانشور حج کے اس اہم پہلو پر اپنی توجہ کو مبذول کریں، تاکہ حج مسلمانوں کی تمام مشکلات و مسائل حل کرنے اور عالم استعمار کے خلاف امت کے اتحاد کا حقیقی مرکز بن سکے اور ان ایام میں ہر قسم کے ظلم و ستم اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و مراجع:
٭۔ البلاغ القرآن، شیخ محسن علی نجفی
۱۔ آل عمران، آیت۔۱۰۳
۲۔ آل عمران۔ ۱۰۵
۳۔ حج، ص۳۳ از شہید مطہری، ناشر مسجد جمکران قم
۴۔ الحج، ۲۷۔۲۸
۵۔ المائدہ۔۲
۶۔ التوبہ۔۳
۷۔ نہج البلاغہ،کلمات قصار نمبر۔۲۵۲  از مفتی جعفر حسین
۸۔ حج، ص ۳۷ از شہید مطہری
۹۔ ۱۱۰سوال و جواب، ناصر مکارم شیرازی
۱۰۔ سہ ماہی شعور اتحاد شمار ۔۵۔ستمبر، اکتوبر، نومبر۔ ۲۰۰۸ء

تحریر: سکندر علی بہشتی

 اسلامی جمہوریہ ایران کی بحری جنگی کشتی سہند روس کی بندگاہ "سینٹ پیٹرزبرگ" پہنچ گئی ہے، جہاں وہ روس میں منعقد ہونے والی بحری پریڈ میں شرکت کرےگی۔

۔ یہ پریڈ روسی بحریہ کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جارہی ہے۔ ایران کی دوسری بحری کشتی مکران  پریڈ کی جگہ سے 25 میل کی دوری پر مستقر رہےگی۔ کیونکہ پریڈ کی جگہ پانی کی گہرائی کم ہے۔

پاکستان کے زیرانتظآم آزاد کشمیرمیں انتخابات کے لیے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں کے لیے 32 لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جب کہ انتخابات میں 742 امیدوار حصہ لے رہے ہیں، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی اجرائی کونسل کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین  نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، لبنان پر اسرائیل کی مسلط کردہ  33 روزہ جنگ میں لبنانی  مزاحمت کا سب سے بڑا حامی تھا۔ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کی اجرائی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ایران نے 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ شہید میجر جنرل سلیمانی نے 33 روزہ جنگ میں لبنان کی بھر پور حمایت کی ۔ انھوں نے اس جنگ میں اسرائیلیوں کو شکست دینے کے سلسلے میں شاندار کردار ادا کیا ۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ جب میں نے حاج قاسم سلیمانی کو ٹیلیفون کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں لبنانی عوام کے ساتھ ہوں اور ان کا یہ جملہ میرے لئے بہت ہی مؤثر تھا۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ حاج قاسم نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے لبنانی مزاحمت کی حمایت کے سلسلے میں تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح 33 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کرنے میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔