
سلیمانی
تہران میں ہندوستانی وزیر خارجہ کی ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات
ہندوستان کے وزیر خارجہ سبرامنیم جیشنکر تہران کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے آج ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، علاقائی مسائل اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کریں گے اور اس ملاقات میں وہ ہندوستان کے وزير اعظم نریندر مودی کا تہنیتی پیغام ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو پیش کریں گے۔
افغانستان کے 4 سیاسی وفود کا دورہ تہران/ تہران میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز
افغانستان کے 4 سیاسی وفود تہران کے دورے پر ہیں جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں مذاکرات کا آغاز ہوگيا ہے مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندہ وفود بھی موجود ہیں۔
تہران میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں امریکہ کی افغانستان میں شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک افغانستان میں موجود رہا ، جہاں اس نے تباہی اور بربادی مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے افغان رہنماؤں کو آج سخت او ردشوار فیصلے کرنا ہوں گے۔ محمد جواد ظریف نے کہا کہ افغان رہنماؤں کو اپنے تمام مسائل اور مشکلات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہیے، جنگ و جدال کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پائدار قیام امن کے لئے ایران ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہے۔
واضح رہے کہ افغان حکومت کے وفد کی قیادت سابق وزیر خارجہ یونس قانونی کررہے ہیں جبکہ طالبان وفد کی قیادت طالبان دفتر کے معاون عباس استانکزی کررہے ہیں۔
افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء اور امریکی اتحادیوں کیلئے عبرت کا مقام
امریکہ نے بیس سال افغانستان میں جنگ اور بدامنی پیدا کرنے کے بعد آخرکار اس ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ یعنی بگرام ہوائی اڈہ خالی کر دیا ہے۔ ان بیس سالوں میں امریکہ کے 3500 سے زیادہ فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دسیوں ہزار فوجی زخمی بھی ہو گئی۔ دوسری طرف افغانستان پر بیس سالہ فوجی چڑھائی کے دوران امریکہ نے 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات بھی برداشت کئے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی فوجی پسپائی کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مطلب سرکاری طور پر فوجی شکست اور ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس ملک میں فوجی مشن کے اختتام کا اعلان ہے۔
افغانستان ایسا ملک ہے جہاں اس سے پہلے سابق سوویت یونین کے بھی دانت کھٹے ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کرنے میں خود امریکہ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ نے اس زمانے میں افغان مجاہدین نامی مسلح افراد کو فوجی ٹریننک اور مالی امداد فراہم کی تھی۔ یوں یہ کہنا بجا ہو گا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔
2)۔ اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف پشتو بولنے والے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل "طالبان" گروہ ہے جو ملکی آبادی کا 45 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف دیگر ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو اقلیت میں ہیں اور اپنا وجود خطرے میں محسوس کر رہی ہیں۔
3)۔ موجودہ حالات میں افغانستان ایک اور بڑے خطرے سے بھی روبرو ہے جو قومی اور مذہبی بنیادوں پر اس ملک کے ٹوٹ کر کئی حصوں میں تقسیم ہو جانے پر مشتمل ہے۔ یوں افغانستان ایک ایسے شکست خوردہ اور ناکام ملک میں تبدیل ہو جائے گی جو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انتہائی خاموشی سے انجام پایا ہے۔ اس کیلئے نہ تو کسی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نے خوشی یا افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو امریکہ کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں کا تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کی مدت پوری ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب صدارتی محل ترک کرتے ہیں۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایک اور بھیانک خطرہ بھی موجود ہے جو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی جانب سے ہے۔ القاعدہ کی جانب سے اپنی نئی شکل یعنی "داعش" کے روپ میں واپسی کا بہت قوی امکان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان مختلف قسم کے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کے جنگل میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان آرمی کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا آغاز گذشتہ دو ماہ سے ہو چکا ہے اور اشرف غنی سمیت دیگر سیاسی رہنما اور لیڈران امریکہ سے لے کر یورپ تک محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش شروع کر چکے ہیں۔ البتہ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب وہ طالبان کے ہاتھ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عراقی کی طرح افغانستان کے بارے میں بھی تمام امریکی وعدے محض دھوکہ اور فریب ثابت ہوئے۔
افغانستان پر فوجی جارحیت کے وقت امریکی حکام کا دعوی تھا کہ وہ اس ملک کو امن و امان کا ایسا گہوارہ بنا دیں گے جہاں فلاح و بہبود اور جمہوری اقدار کی گہما گہمی ہو گی۔ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہوتا تھا گویا افغانستان بہشت عدن میں تبدیل ہو جائے گا۔ امریکی حکام نے عراق کے بارے میں بھی ایسے ہی وعدے کئے تھے۔ اب پوری دنیا کیلئے واضح ہو چکا ہے کہ ان وعدوں کا مقصد انہیں دھوکہ اور فریب دینا تھا۔ اس وقت طالبان تیزی سے پیشقدمی کر رہے ہیں اور ملک کے اکثر صوبوں پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ طالبان سے وابستہ مسلح عناصر دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر پورے ملک پر ان کا قبضہ حتمی دکھائی دیتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی میں موجود تنازعات اور بدامنی کو چین کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس مقصد کیلئے سیاسی اسلام کا ہتھکنڈہ بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس نئے امریکی منصوبے کیلئے بہت جلد خلیجی ریاستوں کی جانب سے اربوں ڈالر منتقل کئے جانے کی توقع رکھنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان سرحد کے قریب مشرقی چین میں ایگور قبیلے کے مسلمان شہری اچانک امریکی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ بہرحال، افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء امریکی تاریخ کی ایک اور ذلت آمیز شکست اور اپنے اتحادیوں کے حق میں امریکہ کی ایک اور غداری ہے۔ امریکہ کے اتحادی ممالک کو اس واقعے سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے لیکن اس کی امید بہت کم ہے۔
تجزیہ نگار: عبدالباری عطوان
5،000 اسرائیلیوں کو متحدہ عرب امارات کی شہریت دینا غداری ہے، فلسطینی تحریک
حوزہ نیوز ایجنسی کی ریپورٹ کے مطابق، یمن کے المسیرا ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے جہاد اسلامی موومنٹ کے ترجمان، طارق سلمی نے کہا کہ 5 ہزار اسرائیلیوں کو متحدہ عرب امارات کی شہریت دینا قابل مذمت ہے اور یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے ماتھے پر ایک نیا کلنک ہے۔
انہوں نے اسرائیل سے وابستہ عرب حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں کیونکہ حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں صہیونی حکومت کی شکست واضح ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں امارات لیکس نامی ایک ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے تین ماہ کے دوران متحدہ عرب امارات نے 5 ہزار اسرائیلیوں کو شہریت دی ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں ، متحدہ عرب امارات اور بحرین ، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ پیوست ہوئے تھے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے ایک معاہدہ کر لیا تھا جس پر عالم اسلام کی طرف سے تنقید کی گئی اور فلسطینیوں نے اسے اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف سمجھا تھا۔
روز دحوالارض کے فضائل اور اعمال
روز دحوالارض 25 ذوالقعدہ کا دن ہے۔ ذیل میں اس بابرکت دن کے بعض اعمال اور فضائل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
* دحوالارض کیا ہے اور اس دن کے اعمال کیا ہیں؟
ذو القعدہ کا پچیسواں دن وہ دن ہے کہ جب زمین کو کعبہ کے نیچے بچھایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دن اور اس کی رات ان نیک دن اور راتوں میں سے ایک ہے کہ جن میں خدا اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے اور اسلامی روایات کے مطابق اس دن میں قیام و عبادت کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے۔ اور روز دحوالارض ان دنوں میں سے ایک ہے کہ سال بھر میں جس میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
"دحو" کے لغوی معنی وسعت دینے اور پھیلانے کے ہیں۔ [1] اور دحوالارض کا مطلب ہے زمین کو پھیلانا اور زمین کو وسعت دینا اور وہ چیز جسے وسعت دی جائے یا پھیلا دیا جائے اسے (دحو الشیء) کہا جاتا ہے۔ [2]
قرآن کی یہ آیت "و الارض بعد ذلک دحها"[3] بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یعنی "اور اس کے بعد زمین کو (انسانوں اور دیگر مخلوقات کے فائدے کے لئے) پھیلا دیا۔"
اور جو حضرت علی (علیہ السلام) کی دعا میں وارد ہوا ہے کہ: اللّهم داحی المدحوات، یعنی اے زمین کو وسعت دینے والے اور بڑھانے والے۔ [۴] اس سے مراد یہ ہے کہ خدا نے زمین کو کعبہ اور اس کے مقام سے پھیلادیا اور دحوالارض کہ جو 25 ذوالقعدہ کا دن ہے، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس دن خدا نے خانہ کعبہ کو ظاہر کیا اور خدا نے زمین کو اسی مقام سے پھیلانا شروع کیا اور اسی وجہ سے اسے "دحوالارض" کہا جاتا ہے یعنی زمین کو پھیلانے اور وسعت دینے کا دن۔
احادیث و روایات اور متون اسلامی میں اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شیخ طوسی کہتے ہیں:
دحوالارض کہ جو 25 ذوالقعدہ کے دن پر اطلاق ہوتا ہے کہ اس دن خدا نے کعبہ کے نیچے زمین کو وسعت بخشی۔ [۵] اور اس دن روزہ اور غسل مستحب ہے اور خاص طور پر روزہ رکھنا کہ جس کا ثواب ساٹھ سال کی عبادت کے ثواب کے برابر ہے۔
امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ 25 ذی القعدہ کا دن وہی دحوالارض کا دن ہے کہ جب خدا نے زمین کو خانہ کعبہ کے نیچے پھیلادیا اور اس دن حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی (علیہما السلام) متولد ہوئے۔ [6] البتہ یہ تاریخ قمری تاریخ کے مطابق ہے اور میلادی تاریخ کے منافی نہیں ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 96 کے مطابق کہ جس میں کہا گیا ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکةَ مُبَارَکا وَ هُدًی لِّلْعَالَمِینَ [۷]
یعنی وہ پہلا مکان کہ جو لوگوں کی عبادت گاہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ خانہ کعبہ ہے۔ جہاں خلائق کے لئے برکت اور ہدایت ہے۔
روز دحوالارض کے اعمال
روزہ رکھنا:
روز دحوالارض ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ سال بھر میں جس میں روزہ رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور روایت میں آیا ہے کہ اس دن کا روزہ ستر سال روزہ رکھنے کے برابر ہے اور ایک دوسری روایت کے مطابق اس دن کا روزہ ستر سال کا کفارہ ہے اور جو شخص اس دن کا روزہ رکھتا ہے اور اس کی رات کو عبادت میں بسر کرتا ہے تو اس کے لئے سو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو موجودات آسمان و زمین کے درمیان ہیں وہ اس شخص کے لئے استغفار کرتے ہیں جو اس دن میں روزہ رکھتا ہے۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں خدا کی رحمت پھیلائی جاتی ہے اور اس دن خدا کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے کا بہت عظیم ثواب ہے اور اس دن روزہ رکھنے، عبادت کرنے، ذکرِ خدا اور غسل کرنے کے علاوہ مزید دو اعمال وارد ہوئے ہیں:
نماز:
شیعہ کتب میں روایت ہوئی نماز کا پڑھنا۔ اور وہ نماز دو رکعت ہے کہ جو چاشت (دن کا پہلا آدھا حصہ) کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ سورۂ حمد کے بعد پانچ بار سوره والشمس پڑھے اور سلام کے بعد پڑھے: لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِی الْعَظِیمِ۔ پھر دعا کرے اور کہے: یا مُقِیلَ الْعَثَرَاتِ أَقِلْنِی عَثْرَتِی یا مُجِیبَ الدَّعَوَاتِ أَجِبْ دَعْوَتِی یا سَامِعَ الْأَصْوَاتِ اسْمَعْ صَوْتِی وَ ارْحَمْنِی وَ تَجَاوَزْ عَنْ سَیئَاتِی وَ مَا عِنْدِی یا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ۔
دعا:
اس دعا کی تلاوت کرنا مستحب ہے جو شیخ نے مصباح میں ذکر کی ہے:
اللَّهُمَّ دَاحِی الْکَعْبَةِ وَ فَالِقَ الْحَبَّةِ وَ صَارِفَ اللَّزْبَةِ وَ کَاشِفَ کُلِّ کُرْبَةٍ أَسْأَلُکَ فِی هَذَا الْیوْمِ مِنْ أَیامِکَ الَّتِی أَعْظَمْتَ حَقَّهَا وَ أَقْدَمْتَ سَبْقَهَا وَ جَعَلْتَهَا عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ وَدِیعَةً وَ إِلَیکَ ذَرِیعَةً وَ بِرَحْمَتِکَ الْوَسِیعَةِ أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ الْمُنْتَجَبِ فِی الْمِیثَاقِ الْقَرِیبِ یوْمَ التَّلاقِ فَاتِقِ کُلِّ رَتْقٍ وَ دَاعٍ إِلَی کُلِّ حَقٍّ وَ عَلَی أَهْلِ بَیتِهِ الْأَطْهَارِ الْهُدَاةِ الْمَنَارِ دَعَائِمِ الْجَبَّارِ وَ وُلاةِ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ أَعْطِنَا فِی یوْمِنَا هَذَا مِنْ عَطَائِکَ الْمَخْزُونِ غَیرَ مَقْطُوعٍ وَ لا مَمْنُوعٍ [مَمْنُونٍ] تَجْمَعُ لَنَا بِهِ التَّوْبَةَ وَ حُسْنَ الْأَوْبَةِ یا خَیرَ مَدْعُوٍّ وَ أَکْرَمَ مَرْجُوٍّ یا کَفِی یا وَفِی یا مَنْ لُطْفُهُ خَفِی الْطُفْ لِی بِلُطْفِکَ وَ أَسْعِدْنِی بِعَفْوِکَ وَ أَیدْنِی بِنَصْرِکَ وَ لا تُنْسِنِی کَرِیمَ ذِکْرِکَ بِوُلاةِ أَمْرِکَ وَ حَفَظَةِ سِرِّکَ وَ احْفَظْنِی مِنْ شَوَائِبِ الدَّهْرِ إِلَی یوْمِ الْحَشْرِ وَ النَّشْرِ وَ أَشْهِدْنِی أَوْلِیاءَکَ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِی وَ حُلُولِ رَمْسِی وَ انْقِطَاعِ عَمَلِی وَ انْقِضَاءِ أَجَلِی اللَّهُمَّ وَ اذْکُرْنِی عَلَی طُولِ الْبِلَی إِذَا حَلَلْتُ بَینَ أَطْبَاقِ الثَّرَی وَ نَسِینِی النَّاسُونَ مِنَ الْوَرَی وَ أَحْلِلْنِی دَارَ الْمُقَامَةِ وَ بَوِّئْنِی مَنْزِلَ الْکَرَامَةِ وَ اجْعَلْنِی مِنْ مُرَافِقِی أَوْلِیائِکَ وَ أَهْلِ اجْتِبَائِکَ وَ اصْطِفَائِکَ وَ بَارِکْ لِی فِی لِقَائِکَ وَ ارْزُقْنِی حُسْنَ الْعَمَلِ قَبْلَ حُلُولِ الْأَجَلِ بَرِیئا مِنَ الزَّلَلِ وَ سُوءِ الْخَطَلِ اللَّهُمَّ وَ أَوْرِدْنِی حَوْضَ نَبِیکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ اسْقِنِی مِنْهُ مَشْرَبا رَوِیا سَائِغا هَنِیئا لا أَظْمَأُ بَعْدَهُ وَ لا أُحَلَّأُ وِرْدَهُ وَ لا عَنْهُ أُذَادُ وَ اجْعَلْهُ لِی خَیرَ زَادٍ وَ أَوْفَی مِیعَادٍ یوْمَ یقُومُ الْأَشْهَادُ اللَّهُمَّ وَ الْعَنْ جَبَابِرَةَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ وَ بِحُقُوقِ [لِحُقُوقِ] أَوْلِیائِکَ الْمُسْتَأْثِرِینَ اللَّهُمَّ وَ اقْصِمْ دَعَائِمَهُمْ وَ أَهْلِکْ أَشْیاعَهُمْ وَ عَامِلَهُمْ وَ عَجِّلْ مَهَالِکَهُمْ وَ اسْلُبْهُمْ مَمَالِکَهُمْ وَ ضَیقْ عَلَیهِمْ مَسَالِکَهُمْ وَ الْعَنْ مُسَاهِمَهُمْ وَ مُشَارِکَهُمْ اللَّهُمَّ وَ عَجِّلْ فَرَجَ أَوْلِیائِکَ وَ ارْدُدْ عَلَیهِمْ مَظَالِمَهُمْ وَ أَظْهِرْ بِالْحَقِّ قَائِمَهُمْ وَ اجْعَلْهُ لِدِینِکَ مُنْتَصِرا وَ بِأَمْرِکَ فِی أَعْدَائِکَ مُؤْتَمِرا اللَّهُمَّ احْفُفْهُ بِمَلائِکَةِ النَّصْرِ وَ بِمَا أَلْقَیتَ إِلَیهِ مِنَ الْأَمْرِ فِی لَیلَةِ الْقَدْرِ مُنْتَقِما لَکَ حَتَّی تَرْضَی وَ یعُودَ دِینُکَ بِهِ وَ عَلَی یدَیهِ جَدِیدا غَضّا وَ یمْحَضَ الْحَقَّ مَحْضا وَ یرْفِضَ الْبَاطِلَ رَفْضا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَیهِ وَ عَلَی جَمِیعِ آبَائِهِ وَ اجْعَلْنَا مِنْ صَحْبِهِ وَ أُسْرَتِهِ وَ ابْعَثْنَا فِی کَرَّتِهِ حَتَّی نَکُونَ فِی زَمَانِهِ مِنْ أَعْوَانِهِ اللَّهُمَّ أَدْرِکْ بِنَا قِیامَهُ وَ أَشْهِدْنَا أَیامَهُ وَ صَلِّ عَلَیهِ [عَلَی مُحَمَّدٍ] وَ ارْدُدْ إِلَینَا سَلامَهُ وَ السَّلامُ عَلَیهِ [عَلَیهِمْ] وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ۔
مزید مطالعه کے لئے رجوع کریں:
۱ـ ترجمه تفسیر المیزان، ج ۳، آیت الله محمد باقر موسوی همدانی
۲ـ صحبای حج، آیت الله جوادی آملی
۳ـ مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی
منابع تحریر:
[۱]. زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس، بیروت: مکتبة الحیاة، (بی تا)، ج۲، ص۳۰۴
[۲]. طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، نشر ثقافة اسلامی، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۴
[۳]. نازعات / ۳۰
[۴]. ابن منظور، لسان العرب، نشر ادب الحوزه، ۱۴۰۵ق، ج۱۴، ص۲۵۱ و نهج البلاغه، خطبه ۷۲
[۵]. شیخ طوسی، مبسوط، تهران، حیدری، (بی تا)، ج۱، ص۲۸۲
[۶]. عاملی، سید محمد، مدارک الاحکام، قم، مهر، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۲۶۵
[۷]. آل عمران / ۹۶
شام کے صدر بشار اسد کی ایران کے نو منتخب صدرجناب رئیسی کو مبارکباد
کہ شام کے صدر بشار اسد نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نومنتخب صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی اور انھیں ایران کا آٹھواں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔
شام کے صدر بشار اسد نے کہا کہ میں ایران کے منتخب صدر کی کامیابی اور کامرانی کے لئے دعا کرتا ہوں اور دعا ہے کہ ایران ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہے۔
سانا کے مطابق دونوں ممالک کے صدور نے باہمی تعاون کو جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے علاقائي اور عالمی امور کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
امریکی حمایت کی وجہ سے اسرائيل تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے/ مسئلہ فلسطین حق کا معیار
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی تسلط کی وجہ سے اسرائيل تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں دشمن کے ساتھ عسکری مقابلے کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے مقابلے کو بھی اہم اور مؤثرقراردیا۔
سید حسن نصر اللہ نے امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ اور میڈيا کے کردار کو اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ دشمن کے خلاف عسکری محاذ کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی بھر پور مقابلہ ہونا چاہیے۔ امریکہ کے تسلط کی وجہ سے اسرائیل تمام وسائل اور امکانات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ خطے میں اسرائیل کی منہ زوری اور فلسطینیوں پر ہونے والے جبر و تشدد کی اصل وجہ امریکہ کی حمایت ہے اگر امریکہ، اسرائيل کے ظالمانہ اور مجرمانہ اقدامات کی حمایت ترک کردے تو اسرائیل کا وجود خود بخود ختم ہوجائےگا۔
انھوں نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ناجائز اور غیر قانونی ہے عراق اور شام میں موجود امریکی فوجی غاصب اور دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم مسئلہ فلسطین کو حق کا معیار سمجھتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے ذرائع ابلاغ کو اپنا اساسی اور بنیادی کردارادا کرنا چاہیے۔
سید حسن نصر اللہ نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ، اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے اور اسے پس پشت ڈالنے کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تلاش و کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمت نے جو وعدہ کیا اسے عملی جامہ پہنایا ہے ہم نے قیدیوں کی آزادی کا وعدہ کیا جسے پورا کردیا۔ جب ہم اسرائیل کے زوال کی بات کرتے ہیں تو یہ بات حقائق پر مبنی ہوتی ہے اسرائیل کا زوال ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔ ہم اپنے اہداف میں مبالغہ آرائی نہیں کرتے ہیں۔ سیف القدس کی جنگ نے بیت المقدس کی آزادی کو قریب کردیا ہے۔ ہم دشمن کے کمزور نقاط کو اچھی طرح جانتے ہوئے اس پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لبنان اور علاقائی سطح پر جاری تمام بحرانوں میں امریکہ کا ہاتھ ہے ۔ امریکہ نے خطے کے امن و اماں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ امریکہ لبنان اورعلاقائي ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمت کے ذرائع ابلاغ کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چآہیے اور صداقت اور حقائق پر مبنی اخبار کو علاقائی اورعالمی سطح پر پہنچانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ذرائع ابلاغ کی جنگ اہم جنگ ہے اور عسکری محاذ کے ساتھ ہمیں ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی گہری توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
مغربی اور سامراجی طاقتیں، مضبوط افغانستان سے کبھی خوش نہیں ہوں گی
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ حجۃ الاسلام مرتضی آقا تہرانی نے افغانستان کی پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ امیر گل شاہین کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ مغربی اور سامراجی طاقتیں، مضبوط افغانستان سے کبھی خوش نہیں ہوں گی ، انھوں نے ہمیشہ جنگ ، دہشت گردی اور اسلام ہراسی کے ذریعہ افغانستان کی غلط تصویر پیش کی ہے۔ آقا تہرانی نے ایران اور افغانستان کے مذہبی ، دینی اور لسانی مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور افغانستان دو برادر اور ہمسایہ ممالک ہیں جن کے دیرینہ ، دوستانہ ، تاریخی اور مذہبی تعلقات ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک اپنے تاریخی اور ثقافتی اشتراکات کی بنیادوں پر تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ افغانتسان کی ارضی سالمیت کی حمایت کی ہے اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کو امن و صلح کے خلاف قراردیا ہے۔
اس ملاقات میں امیر گل شاہین نے ایران اور افغانتسان کے گہرے اور دوستانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران افغانستان کا اہم برادر اور ہمسایہ ملک ہے اورایران نے افغان عوام کی جنگ کے دوران بھر پور مدد کی ،افغان عوام ایران کی امداد اور افغان شہریوں کو پناہ دینے کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
افغان پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ نے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر زوردیا۔
سید حسن نصر اللہ " فلسطین کامیاب ہے" کی قومی کانفرنس سے خطاب کریں گے
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ " فلسطین کامیاب ہے" کے عنوان سے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ یہ کانفرنس لبنان کے دارالحکومت بیروت میں آج سہ پہر کو منعقد ہوگی۔ جس میں اعلی سیاسی ، علمی ، سماجی شخصیات اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے شرکت کریں گے۔
افغان محاذ، شیطان کا شر اور پاکستان
امریکہ نے ویسے تو اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل رہا ہے، مگر ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا مصداق امریکہ افغانستان سے نکل نہیں رہا بلکہ یہاں قیام کا انداز بدل رہا ہے۔ امریکہ پہلے یہاں فوجی طاقت کے طور پر مقیم تھا، لیکن اب سول سٹائل میں اپنا قیام جاری رکھے گا اور خطے میں آگ و خون کا یہ گھناونا کھیل نئے انداز میں کھیلے گا۔ اس حوالے سے امریکہ کے جہاں افغان حکومت کیساتھ رابطے ہیں، وہیں یہ طالبان کو بھی مضبوط بنا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، بھارت کے ذریعے افغانستان میں ایک نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان خفیہ ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ کیساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ایک طرف انڈیا سرکار کے افغان حکومت کیساتھ رابطے ہیں، تو دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان طالبان کیساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ بھارت افغان طالبان کو انڈیا میں فوجی ٹریننگ دے رہا ہے، اس میں نہ صرف زمینی جنگ کی ٹریننگ بلکہ ٹینک، توپ اور فائیٹر طیارے چلانے کی تربیت بھی شامل ہے۔ ٹریننگ مکمل کرنیوالے طالبان کی باقاعدہ پاسنگ آوٹ پریڈ بھی منعقد کی گئی، جس میں ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
افغانستان میں طالبان کا بظاہر دشمن امریکہ اپنے دوست بھارت کے ذریعے طالبان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ طالبان کو چین، پاکستان اور ایران کیخلاف استعمال کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ طالبان کو امریکہ افغانستان میں تمام دفاعی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ اپنا اسلحہ، ٹینک، توپیں، فوجی گاڑیاں (حماری جیپیں)، بارود اور دیگر دفاعی سامان ساتھ لے کر رخصت نہیں ہو رہا، بلکہ یہ سارا سامان افغانستان میں طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ طالبان جو کبھی پاکستان کے اشاروں پر جان وار دینے کیلئے تیار دکھائی دیتے تھے، اب انڈیا کے گود میں کھیل رہے ہیں۔ یہی طالبان مستقبل قریب میں مغربی ریمورٹ کنٹرول سے فعال ہوں گے۔ طالبان نے اس وقت افغانستان کے 8 فیصد سے زائد علاقے اور 13 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کی پیش قدمی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، جو آنیوالے دنوں میں سی پیک سمیت خطے کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو امریکی انخلا کے بعد مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی سمیت دفاعی اداروں کو سر جوڑنا ہوں گے۔ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی غفلت یا لاپرواہی بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کیلئے امریکہ کا رویہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ امریکہ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو پابندیوں کی زد میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب امریکہ نے ’’چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ‘‘ کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس امریکی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا نے پاکستان کی غیر ریاستی دھڑوں اور دہشتگرد تنظیموں کیخلاف جنگ اور کوششوں کو واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت سے قبل امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کسی ادارے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو وہ تفصیلات دی گئی ہیں، جن کی بنیاد پر یہ رپورٹ ترتیب دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل ممالک کی فوجی امداد اور امن مشن کے پروگرام میں شرکت پر پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔ رواں سال کیلئے جاری ہونیوالے فہرست میں پاکستان اور ترکی کو شامل کیا گیا ہے۔ چائلڈ سولجر پریوینشن ایکٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے کہ جنہوں نے کم عمر فوجیوں کو بھرتی کیا ہو۔ اس سلسلہ میں جن اداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، ان میں مسلح افواج، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز اور حکومت کے حمایت یافتہ مسلح گروہ شامل ہوتے ہیں۔
سال 2021ء کیلئے جاری ہونیوالی اس فہرست میں پاکستان، افغانستان، برما، جمہوریہ کانگو، ایران، عراق، لیبیا، مالی، نائیجریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ امریکہ نے چائلڈ سولجرز کے الزامات کیساتھ ساتھ پاکستان پر انسانی سمگلنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ حربے اس وقت استعمال کئے جاتے ہیں، جب کسی ملک کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا ہو۔ اگر وہ ملک انکار کر دے تو امریکہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس ملک کو بلیک میل کرتا ہے، جو اب پاکستان کیساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے کچھ مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ نے دو بڑے مطالبے کئے تھے، جنہیں پاکستان نے تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پہلا مطالبہ یہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سی آئی اے کو مرکز بنانے کی اجازت دی جائے اور دوسرا مطالبہ چین کیساتھ تعلقات کو محدود کرکے سی پیک کا منصوبہ لپیٹ دیا جائے۔ سی آئی اے کا مرکز یہاں بنانے کا مقصد چین، ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ہے، جبکہ سی پیک پاکستان کی لائف لائن ہے، اس سے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا، امریکہ کو یہ گوارہ نہیں کہ پاکستان مستحکم ہو، کیونکہ خوشحال پاکستان امریکہ کا دستِ نگر نہیں رہے گا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان مسلسل اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے، جبکہ پاکستانی قیادت اب سات سمندر پار اور آزمائے ہوئے دُور کے دوستوں کی بجائے قریب کے اور ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری لانے کا سوچ رہی ہے۔ پاکستانی قیادت کی اسی سوچ نے امریکہ کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ وزیراعظم نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ اب ہم کسی پرائی جنگ میں نہیں کودیں گے، ہم امریکہ کا ساتھ جنگ میں نہیں دیں گے، البتہ ہم امن کیلئے امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔ شائد وزیراعظم پاکستان عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ امریکہ نے جتنی بھی جنگیں مسلط کی ہیں، تمام کی تمام امن کے نام پر مسلط کی ہیں۔ امریکہ کا امن کے نام پر ساتھ دینا بھی بدامنی کے فروغ کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم پاکستان اگر واقعی خطے میں امن اور پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ کو واضح پیغام دیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیں گے، کیونکہ شیطان تو شیطان ہوتا ہے، اس کا کام ہی تخریب ہے، شیطان کبھی تعمیر کی طرف نہیں جاتا، اس لئے امریکہ پر واضح کر دینا چاہیئے کہ ’’نو مور‘‘ اب وہ دن گئے جبکہ خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب امریکہ کا ایک ’’خلیل خان‘‘ برطانیہ میں بیماری کا بہانہ کرکے چھپا ہوا ہے اور دوسرا اور بڑا ’’خلیل خان‘‘ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، وہ ڈر کے مارے دبئی میں زیر علاج ہے۔ لہذا حکومت پاکستان واضح کر دے کہ ہم شیطان کے کسی کام میں شریک نہیں ہوں گے۔ شیطان اپنی خیر کی دعوت میں بھی شر رکھتا ہے اور امریکہ دنیا میں ایک شرِ محض ہے۔