سلیمانی

سلیمانی

سلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی امور کے مشیر حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک ٹوئیٹر بیان میں  اسرائيل کے ساتھ امارات اور بحرین کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں نے اپنا مقدر صہیونیوں کے ساتھ منسلک کرلیا ہے۔ امیر عبداللہیان نے کہا کہ اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں اسرائیل کی مسلسل شکست کے باوجود امارات اور بحرین نے اسرائیل کی غاصب اور فلسطینی بچوں کی قاتل حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امارات اور بحرین کے حکام کو خطے کے حالات کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ خطے میں اسرائیل کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اسرائیل کا مستقبل تاریک ہے۔ غاصب صہیونی حکومت نے یہودیوں کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔

امریکہ نے ایران و عراق جنگ کے دوران میزائل حملے میں خلیج فارس میں ایران کے مسافر طیارے کو تباہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 290 مسافرشہید ہوگئے تھے۔ مسافروں کی شہادت کے مقام پر ہر سال پھول برسائے جاتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں ایران ساختہ ویکسین کی پہلی ڈوز لگوائی ہے۔ یہ ویکسین "کوو ایران برکت" نامی کمپنی کی تیار کردہ تھی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران نے ویکسین لگوانے کیلئے دو شرطیں پیش کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ویکسین ایران ساختہ ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ انہیں بھی عام روٹین کے تحت باری آنے پر ویکسین لگائی جائے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا یہ عمل عالمی میڈیا خاص طور پر عرب میڈیا میں بہت زیادہ مقبول واقع ہوا ہے۔ عربی زبان کے مختلف چینلز جن میں المیادین، روسیا الیوم، الایام، آسیا، النجباء، الاتجاہ، المنار، العہد اور القرطاس شامل ہیں نے اس کی کوریج دی ہے۔ یہ خبر اس لحاظ سے بھی اہم قرار دی جا رہی ہے کہ ایک اعلی سطحی قومی رہنما نے اپنے جوانوں کے علم اور مہارت پر اعتماد کیا ہے۔
 
اسی طرح نیوز ویب سائٹس انصاراللہ، العہد، الشرق الاوسط، لبنان 24، المصری الیوم، الیوم السابع وغیرہ نے بھی اسے شائع کیا ہے۔ المیادین نیوز چینل نے اس بارے میں خبر شائع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ امام سید علی خامنہ ای نے غیر ملکی ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا تھا اور ایرانی ویکسین تیار ہونے تک انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس چینل پر شائع ہونے والی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب تک ملک کے اندر ایک بیماری کی دوا موجود ہے اس وقت تک اسی کو استعمال کرنا چاہئے۔ اسی طرح رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران اپنی باری سے پہلے بھی ویکسین لگوانے کیلئے حاضر نہیں ہوئے اور انہوں نے عام شہریوں کی طرح اپنی باری آنے پر ہی ویکسین لگوائی ہے۔
 
المیادین نیوز چینل نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے اپنے ملک کے جوانوں کی علمی صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے ایرانی ویکسین لگوائی ہے، تاکید کی کہ ایران دنیا میں چھٹا اور مشرق وسطی میں پہلا ملک ہے جو کرونا وائرس کیلئے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسی طرح "کوو ایران برکت" نامی ویکسین کرونا وائرس کے خلاف انسانی بدن میں مزاحمت پیدا کرنے میں بہت موثر واقع ہوئی ہے جس کے باعث ایران میں بڑی تعداد میں شہری یہ ویکسین لگوانے کیلئے بے تابی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی طرح لبنان کی نیوز ویب سائٹ "العہد" نے بھی یہ خبر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ایرانی جوانوں نے کرونا کی ویکسین تیار کر کے اپنے علم اور مہارت کا لوہا منوا لیا ہے۔
 
المنار نیوز چینل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا کہ امام سید علی خامنہ ای نے اپنے ملک میں ایرانی جوانوں کی جانب سے تیار کردہ ویکسین لگوائی جو ایران ساختہ ویکسین کی تیاری میں ایرانی ماہرین کی علمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مشرق وسطی میں ایران ایسا واحد ملک ہے جو کرونا سے مقابلے کیلئے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ کامیابی ایرانی جوانوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف لبنان کے روزنامے "الاخبار" نے بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے ملک کے اندر تیار کی گئی ویکسین لگوانے کی خبر کو صفحہ اول پر شائع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کرونا ویکسین تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کا حصول ایرانی ماہرین کی اہم کامیابی ہے۔
 
العصر الدولیہ نامی نیوز ویب سائٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے ملک میں تیار کردہ ویکسین لگوانے کے عمل کو اہم اور با معنی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان کا یہ عمل متعدد اہم پیغام لئے ہوئے ہے۔ اس میں سب سے پہلا پیغام یہ ہے کہ امام سید علی خامنہ ای کی جانب سے ایرانی ویکسین تیار ہونے کا انتظار کرنا درحقیقت ایرانی جوانوں اور ماہرین کے علم اور مہارت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ دوسرا پیغام دنیا والوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران میڈیکل کے شعبے میں درکار علم اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے خودکفیل ہو چکا ہے۔ گذشتہ چار عشروں سے امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شدید ترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے جدید ترین وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری ایک عظیم کامیابی ہے۔
 
رہبر معظم انقلاب نے ایرانی ویکسین لگوا کر ایک اہم پیغام عالمی استکباری طاقتوں کو بھی دیا ہے جو یہ ہے کہ اب وہ زمانہ گزر چکا ہے جب سائنس اور ٹیکنالوجی دنیا کے چند استعماری ممالک تک محدود تھی جو خود کو عالمی طاقت تصور کرتے تھے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران ظالمانہ پابندیوں کے تحت شدید مشکل حالات میں بھی اپنی ویکسین بنا کر شہریوں کو وائرس کے خلاف محفوظ بنانے میں مصروف ہے۔ اسی طرح رہبر معظم انقلاب کا یہ عمل ایرانی شہریوں کیلئے اپنے ملک میں تیار کردہ ویکسین پر اعتماد کرتے ہوئے اسے لگوانے کی ترغیب دلانے کا پیغام بھی لئے ہوئے ہے۔ امام خامنہ ای نے ایسا کام کیا ہے جسے انجام دینے کی جرات دیگر ممالک کے قومی رہنماوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے اس عمل سے ایران ساختہ ویکسین کو اعتبار بخشا ہے۔

تحریر: فاطمہ محمدی

ابوظبی کے ائیر پورٹ پہنچے پر اسرائیلی وزیرخارجہ یائر لاپڈ نے سوشل میڈیا پر متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے گرم جوش استقبال کاشکریہ ادا کیا اور تصاویر بھی جاری کیں۔

بعد ازاں یائرلاپڈ نے ابوظبی میں اسرائیلی سفارتخانے کا افتتاح کیا جب کہ وہ دبئی میں اسرائیل کے قونصلیٹ جنرل کا افتتاح بھی کریں گے اور اپنے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید سےبھی ملاقات کریں گے۔

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں تعلقات بحال ہوئے تھے اور رواں سال جنوری میں اسرائیل نے یو اے ای میں باضابطہ طور پر اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دی تھی جب کہ یو اے ای نے بھی تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دی تھی۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں سفارتی تعلقات کے بعد سےکسی بھی اسرائیلی وزیرکا یہ پہلا دورہ ہے۔

"ایران کی قومی رصد گاہ" (Observatory) کو بروز پیر 28 جون، 2021 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حسن روحانی کی موجودگی میں افتتاح کر دیا گیا۔

یہ رصد گاہ کاشان کے اطراف میں واقع ایک اونچی چوٹی پر تعمیر کی گئی ہے۔ ایران کے مختلف حصوں میں چالیس سے زیادہ اونچی پہاڑیوں کا جائزہ لینے کے بعد کاشان کی "گرگش" نامی پہاڑی کو اس پیشہ ور فلکیاتی رصد گاہ کے لیے انتخاب کیا گیا اور ایرانی سائنس دانوں اور اینجینئروں کے ذریعے اس قومی رصد گاہ کو تعمیر کیا گیا۔
صاف آسمان، مناسب اونچائی اور روشنی کی آلودگی سے دوری اس بات کا باعث بنی کہ ملک کی دسیوں اونچی چوٹیوں کو نظر انداز کر کے گرگش کی 3622 میٹر اونچی چوٹی کو ایران کی قومی رصد گاہ کے لیے انتخاب کیا جائے۔
اس رصدگاہ کے گنبد کے تمام اجزاء اور ٹیلی اسکوپ کے تمام آلات ایران میں بنائے گئے ہیں۔ اور اس منصوبے کے نفاذ کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے دنیا کے بڑے ٹیلی اسکوپ بنائے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس افتتاحی تقریب میں کہا: "خدا کا شکر ہے کہ آج ہم اس عظیم اور بڑی رصد گاہ کو افتتاح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ رصد گاہ علاقے کی اہم رصد گاہوں میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے مزید کہا: "ہم زمین نامی ایک چھوٹے سے سیارے پر زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ یہ دنیا بہت وسیع اور عظیم دنیا ہے، اور خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:" وَإِنَا لَمُوسِعُون "۔ خدا کائنات کو مسلسل وسعت دے رہا ہے ، کہکشاں ، سیارے اور ستارے سب بڑھ رہے ہیں اور جو ہماری آنکھیں اس وسیع و عریض کائنات میں دوربین سے دیکھ سکتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے۔
انہوں نے امریکی مجرمانہ پابندیوں کے باوجود ایران کی ترقی کے بارے میں کہا ، "مجھے خوشی ہے کہ ان برسوں کے دوران ، جو معاشی جنگ کے سال تھے ، ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے راستے کو جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔" ان 8 سالوں میں ، ہمارے ملک نے سائنس اور ٹکنالوجی کی راہ میں ایک نیا باب کھولا ہے۔

افغانستان کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز نے مسلسل بیس سال افغانستان پر قبضہ جمائے رکھا اور افغان وسائل کو بری طرح سے لوٹا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی و یورپی عوام کو مسلسل بے وقوف بنائے رکھا اور اب جب بیس سال بعد خطے سے بھاگ رہے ہیں تو آگ و خون کا کھیل عروج پر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو مارنے و زخمی کرنے کے بعد   افغانستان کو سول وار کے حوالے کرکے جانا ظلم ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے دو سو چالیس میں سے اسی اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ نے دنیا بھر کا پیسہ اکٹھا کرکے چار لاکھ  فوجی تیار کیے تھے، امریکی افواج کے نکلنے کے اعلان کے ساتھ ہی وہ شکست خوردگی میں  ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں افغان سپاہی ہتھیار ڈالتے ہیں، گھر کا کرایہ وصول کرتے ہیں اور پوسٹ چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔

افغانستان کے پشتونوں کی وابستگیاں طالبان کے ساتھ ہیں، اس لیے پشتون سپاہی  اور عوام طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں افغان صدر مدد کے لیے وائٹ ہاوس پہنچے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ نے کہا کہ ہمارے فوجی جا رہے ہیں، فوجی مدد جاری رہے گی، ایک لالی پوپ دینے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک امریکہ کی نصف کے قریب فوج افغانستان میں ہے تو طالبان نے افغان حکومت کی درگت بنا دی ہے، جب یہ چلی جائے گی تو دور سے کیا خاک مدد ہوگی؟ افغان صدر اشرف غنی ان دنوں آرمی چیف اور وزیر دفاع کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ بدانتظامی اور عدم اعتماد کی انتہا ہے کہ ملک کو جنگ درپیش ہے اور عہدوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں عدم تحفظ کی لہر ہے، مگر کابل کے سفارتی حلقے شائد طالبان کی آمد کی آہٹ کو جلد محسوس کر رہے ہیں۔ کابل میں سفارتکار تک ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر طالبان آگئے تو ہمارا کیا ہوگا۔؟

طالبان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم قتل عام نہیں کریں گے مگر اعتبار کون کرے؟ کیونکہ 1998ء میں گیارہ ایرانی سفارتکار مار دیئے گئے تھے۔ انہی خدشات کے پیش نظر آسٹریلیا نے اپنی ایمبیسی مکمل طور پر بند کر دی ہے۔ سفارتکاروں کے ساتھ ساتھ  امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ کام کرنے والے پندرہ ہزار ڈرائیور، باورچی اور مترجم بہت زیادہ پریشان ہیں کہ طالبان انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے پچاس ہزار رشتہ دار ہیں، ان سب کو امریکی ویزہ دینا ایک بڑے پروسس کا متقاضی ہے، اس پر وقت لگے گا۔ امریکہ کو بھی پتہ ہے کہ اب وقت کم ہے، اس لیے انہیں پہلے کسی تیسرے ملک میں بھیج کر وہاں سے ان کا ویزہ پروسس کرکے انہیں امریکہ کا ویزہ دیا جائے گا۔ نیٹو اور مریکی فوسز کے سو مترجمین امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں کہ انہوں ویزے نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا، جن لوگوں نے کام کیا، اب انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اب انہیں نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کو کس قدر غیر محفوظ شہر بنا دیا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

اس بدامنی میں مہاجرین کا سیلاب آنے کا خدشہ ہے، جس سے حسب سابق پڑوسی ممالک کو اس سے نمٹنا پڑے گا۔ آج کی صورتحال وزیراعظم پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے اپنے خطاب میں بتا دی تھی کہ سول وار کا خدشہ ہے، جو سچ ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ جیسے جیسے طالبان کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے ان کے خلاف لوگ بھی اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے متحدہ حکومت بنانے کی تجویز دی، جس میں سب گروہ شامل ہوں۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کو کسی بھی صورت میں اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم امن میں شریک ہیں، جنگ میں شریک نہیں ہیں۔ یہ دونوں باتیں افغانستان اور خطے کے لیے انتہائی مناسب تھیں مگر ان پر توجہ نہیں دی گئی۔

ترکی کے پانچ سو فوجی افغانستان میں موجود ہیں، جو موجود رہیں گے، ان کے حوالے سے مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ترک فوجی کابل ائرپورٹ کے دفاع  کو یقینی بنائیں گے اور دوسرا افغان فورسز کو تربیت دیں گے۔ طالبان نے ترکی کے افغان سرزمین پر رہنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا کہ 2019ء کے معاہدے کے مطابق تمام نیٹو فورسز نے افغانستان سے نکلنا ہے اور ترکی کی افواج بطور نیٹو فورس یہاں موجود تھیں۔ اس لیے ان کی کسی بھی قسم کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ترکی امریکہ سے روس معاہدے کی وجہ سے خراب تعلقات کو بحال کرنا چاہتا ہے، اس لیے ذرا امریکی مفادات میں بڑھ بڑھ کر خود کو پیش کر رہا ہے۔ ورنہ پانچ سو ترک فوجی کوئی بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک علامتی موجودگی ہے، مگر ترک حکومت ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

سب سے اہم سوال کہ عام افغان کیا سوچ رہا ہے؟ طالبان ہوں یا افغان حکومت ہو،  سب سے زیادہ متاثر تو افغانستان کا عام شہری ہی ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ پس جانے والے افغان اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں، مگر جنگ اب بھی ان کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
روس گیا تو خانہ جنگی شروع ہوگئی، طالبان اور شمالی اتحاد کی جنگ رہی اور اب امریکہ جا رہا ہے تو ایک اور سول وار راستہ دیکھ رہی ہے۔ 1960ء سے جاری یہ  کشمکش اب تیسری افغان نسل دیکھ رہی ہے۔ روس امریکہ، چین و یورپ کو اپنے مسائل اپنے بارڈرز کے اندر حل کرنے چاہیں، دوسروں کی زمین اور خون کی قربانی کا مسلسل سلسلہ روک دینا چاہیئے۔ یہ افغان عوام کی خواہش اور ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ پرامن افغانستان میں زندگی گزاریں اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیئے

اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل حسین خانزادی مڈغاسکر کے مغرب میں واقع رونیان جزیرے میں بحر ہند کے ساحلی ممالک کی بحری افواج کے کمانڈروں کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لئے جب  پہنچے تو فرانسیسی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل وینڈینے ان کا والہانہ استقبال کیا۔

اطلاعات کے مطابق ایرانی بحریہ کے سربراہ بحر ہند کے ساحلی ممالک کی بحری افواج کے کمانڈروں کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لئے رونیان جزیرے میں پہنچ گئے ہیں جہاں فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل وینڈیر نے سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا۔

ایرانی بحریہ کے سربراہ نے فرانسیسی بحریہ کے سربراہ سے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔ بحر ہند کے جنوب میں واقع رونیان جزیرہ فرانس کے قبضہ میں ہے۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے اعلی مشیرعلی اصغر خاجی نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کے اعلی مشیر ایک وفد کے ہمراہ شام کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، علاقائی اور عالمی امور کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ خاجی نے اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور مستحکم تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامی حکومت اور عوام کی مدد کا سلسلہ جاریر کھےگا۔ اس ملاقات میں شام کے صدر بشار اسد نے ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات کے کامیاب منعقد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کی حمایت کے قدرداں اور شکر گزار ہیں۔ خاجی نے شام کے وزیر خارجہ فیصل المقداد کے ساتھ بھی ملاقات اور گفتگو کی اور باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

حضرت یوشع نبی(ع) کا مرقد اسلامی جمہوریہ ایران کے شھر اصفہان کے تاریخی مقام تخت فولاد کے شمال تکیہ شہداء میں واقع ہے۔

وہ ایریا کہ جس میں حضرت یوشع(ع) مدفون ہیں اسے “لسان الارض” کہا جاتاہے۔

 

حضرت یوشع نبی (ع) کی قبر مبارک سطح زمین سے تھوڑٰی بلند ہے اور اس کے اوپر سبز رنگ کا کپڑا بچھایا ہوا ہے جو کہ آج بھی دنیا بھر کے بہت سارے زائرین کی توجھ کا مرکز ہے۔

حضرت یوشع قوم بنی اسرائیل کے پیامبروں میں سے ایک پیامبر ہے جو حضرت موسی کی وفات کے تین دن بعد خود حضرت موسی کی وصیت پر عمل کرتے ہوے قوم بنی اسرائیل کی رھبریت کے منصب پر فائز ہوے۔

بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت یوشع بنی بھی ان افراد میں سے ہے کہ جسے کوروش (کہ جو ھخامنشی دور حکومت کا بانی اور پہلا بادشاہ تھا) کے زریعے بختنصر(کہ جو بنی اسرائیل کے اوپر خدا کی طرف سے عذاب کی صورت میں آیا تھا اور بہت ہی بے رحم اور ظالم تھا) کے ہاتھوں سے آزاد کیا اور بعد میں ایران کی طرف ھجرت کی۔

 

یہاں پر یہ بات بھی بیان کرنا مناسب ہے کہ حضرت یوشع کے نام سے دو اور مقام بھی تاریخدانوں نے بیان کیا ہے ان میں سے ایک مقام حضرت یوشع کے نام سے لبنان کے شمال میں المینہ الضنیہ نام کے کسی شھر کے ایک پرانے غار میں واقع ہے۔

 

اور دوسرا مقام اردن کے شھر اُمان کے نزدیک حضرت یوشع نبی کے نام سے ایک مقام موجود ہے۔