
سلیمانی
مسئلہ کشمیر و فلسطین، امتِ مسلمہ کا اتحاد ضروری ہے
گذشتہ دنوں سوپور میں ساٹھ سالہ بزرگ بشیر احمد کو قابض بھارتی افواج نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت لاش پہ بیٹھے اس کے تین سالہ معصوم نواسے عیاد کی مسلمان حکمرانوں کی بزدلی پہ ماتم کناں تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بچے کی معصومیت بھری اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو لرزا دیا۔ یہ اس طرح کی پہلی تصویر نہیں ہے جو منظرِ عام پہ آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی تصاویر یمن، شام اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے سامنے آتی رہی ہیں۔ سال 2015ء میں ترکی کے ساحل سمندر پہ اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ شائع ہوئی تو اس نے پوری دنیائے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک آنکھ سے محروم دو ماہ کے معصوم بچے کی تصویر نے ہر آنکھ نم کر دی، یمن سے بھی آئے روز غذائی قلت سے دوچار بچوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر سامنے آتی ہیں، مگر افسوس یہ تمام تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد ذمے داروں کے خواب آلود ضمیر نہ جگا سکیں۔
سوپور میں پیش آنے والا یہ دردناک واقعہ بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ان مظالم پر مکمل اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے کشمیری مسلمان بھائی گذشتہ برس سے شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ اس دوران مسلم کش مودی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون نافذ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار نفرت کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب مودی سرکار صیہونی پالیسی پہ عمل پیرا ہو کر وادی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کا گھناونا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اب کوئی راز نہیں ہیں، مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور برسرِ اقتدار آتے ہی اس دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مسلم دشمنی کے لئے کمر کس لی۔
بلا شبہ بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک ہے، دونوں اسلام و مسلم دشمنی میں ایک جیسی پالیسیوں پہ عمل پیرا ہیں۔ اس وقت کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ درست اسی طرح جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم کرنے لئے یہودیوں کی آباد کاری کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 1917ء میں جب صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت پورے فلسطین میں یہودی آبادی 10 فیصد یا اس سے بھی کم تھی، لیکن پھر ایک گھناونی سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ دوسری طرف آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ ان سے ان کی املاک چھین لی گئیں، اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ یوں آج فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔
کشمیر میں بھی بالکل اسی طرح مودی سرکار نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب 25 ہزار ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے کر اس علاقے کا رہائشی بنایا جا رہا ہے، جس کے بعد انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہوگا اور وہ اس علاقے میں ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ اس بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے بعد غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ مقبوضہ وادی کا اسلامی تشخص برقرار نہ رہے۔ اس طرح جب اس علاقے کے اصلی وارث کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور غیر مسلم آبادی بڑھا دی جائے گی تو وہاں کا اسلامی تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھارت استصواب رائے پہ رضامندی ظاہر کرے گا، کیونکہ اب کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔
بلاشبہ اس وقت کشمیر اور فلسطین مسلم امہ کے سینے پہ دو رستے ہوئے زخم ہیں۔ انہیں ظالم سامراج سے بچانا انتہائی ضروری ہے، لیکن امت مسلمہ کے نگہبان کہاں ہیں۔ ننھے عیاد جیسے کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً او آئی سی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ کشمیر ایشو پہ بہترین سفارت کاری کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں پہ واضح کیا ہے کہ کس طرح مظلوم کشمیریوں پہ زندگی کے ایام تنگ کئے جا رہے ہیں، لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کہاں ہیں اور مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
کشمیر اور فلسطین کے علاوہ یمن، شام و عراق سمیت اور بھی کئی ایسے ایشوز ہیں، جن کے حل کے لئے مسلمان ممالک کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اس وقت مردہ گھوڑا اور عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں جان ڈالنا انتہائی ضروری ہے یا پھر ان تمام مسائل کے حل کے لئے کوئی دوسرا راہ حل نکالنا پڑے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستیں اگر باہمی رنجشیں اور اختلاف بھلا کر ایکا کر لیں تو کشمیر اور فلسطین سمیت تمام ایشوز بطریقِ احسن حل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ
پھرتمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
تحریر: محمد ثقلین واحدی
ایام اور اوقاتِ مخصوص با امام مہدی علیہ السلام
وہ روایات جن میں امام مہدی علیہ السلام کا مخصوص ایام یا اوقات میں ذکر زیادہ فضیلت کا حامل ہے، ان کے بارے میں کتاب نجم الثاقب میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اول: شب قدر
دوم: جمعہ کا دن
سوم: عاشور کا دن
چہارم: ہر روز (سورج کی سُرخی سے جب وہ غروب ہونے لگے تا اس وقت جب تک کہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔)
پنجم: پیر اور جمعرات، عصر کے وقت
ششم: 15 شعبان المعظم (دن اور رات)
ذکر شدہ ایام اور اوقات میں سے کچھ کا ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
جمعہ کا دن:
یہ ان ایام میں سے ہے جنھیں امام مہدی علیہ السلام سے زیادہ منسوب کیا گیا ہے۔ اس دن کی فضیلت میں بہت سی روایات ذکر ہیں۔ اس کی اہمیت کو یوں بیان کیا کہ اسے مسلمانوں کی عیدوں میں سے شمار کیا گیا ہے۔ اس دن کے لیے بہت سے اعمال ذکر ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ مفاتیح الجنان، مصباح المتھجد اور دیگر دعاؤں کی ذیل میں بیان ہیں۔ علامہ حسین نوری طبرسی ؒ کتاب نجم الثاقب میں فرماتے ہیں کہ اس دن کی اہمیت کا حامل ہونا ان بنا پر ہے:
1) امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت اسی دن ہوئی۔
2) امام ؑ کا ظہور بھی اسی دن ہوگا۔
امام باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
آسمان سے منادی ندا دے گا کہ قائمؑ کا ظہور ہوگیا ہے، جو کہ پورے عالم میں سنائی دے گی۔۔۔ اور یہ آواز دینے والے جبرائیل امینؑ ہونگے اور فرمایا: یہ آواز شب جمعہ (متفقہ علیہ ہے کہ مغرب کے بعد اگلا دن شروع ہو جاتا ہے۔) ۲۳ ماہ رمضان میں آئے گی۔۔۔ حضرت مہدی (عج) کے ظہور سے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوگا کہ حق اولاد محمد (ص) کے ساتھ ہے اور ان کے سوا سب باطل پر ہیں۔(تاریخ ما بعد الظہور/۱۷۶ـ کشف الغمہ ج۳، ص ۲۶۰، وافی، ج ۲، ص۴۴۵۔۴۴۶، کتاب الغیبہ، شیخ طوسی، ص ۴۳۵و ۴۵۴ و۴۵۳ ارشاد، ج۲، ص ۳۷۱؛ کمال الدین / ۶۵۱بحار الأنوار، ج۵۲، ص۲۰۴۔۲۸۸۔۲۹۰؛ منتخب الاثر، ص ۴۵۹، غیبت نعمانی/۲۵۴)
اس روایت کے علاوہ مزید احادیث و روایات میں بھی امام علیہ السلام کے ظہور کے دن کے حوالے سے جمعۃ المبارک کا ذکر ہوا ہے۔ اس دن امامؑ سے قربت اور انتظار فرج باقی دنوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر امامؑ سے مختص زیارت جس کا اس دن پڑھنے کا ذکر زیادہ روایات میں موجود ہے، وہ یہ ہے: يا مولاي يا صاحب الزمان صلوات الله عليک و علي آل بيتک هذا يوم الجمعه و هو يومک المتوقع فيه ظهورک و الفرج فيه للمومنين علي يدک۔۔۔۔۔ جمعۃ المبارک کے دن کو عید کا دن شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دن مومنین، اولیاء اللہ کے لیے بڑا بابرکت دن ہے، اس دن ان کی آنکھیں اور دل منور و روشن اور خوش و خرم ہوتے ہیں۔"( نجم الثاقب، ص۸۱۰) اس دن کی فضیلت پر بہت سی روایات اور احادیث مبارکہ نقل کی گئی ہیں، جیسے کہ نبی پاک ﷺ فرماتے ہیں: "دن اور رات جمعہ کا دن 24 گھنٹوں پر مشتمل ہے اور پروردگار ہر گھنٹے میں 6 لاکھ لوگوں کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے۔"(الخصال، جلد ۲، صفحہ ۴۵۱) امام جعفر صادق علیہ السلام ، نبی پاک ﷺ سے حدیث نقل فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے دنوں میں جمعہ کے دن کا انتخاب کیا، راتوں میں سے شب قدر، مہینوں میں سے ماہ رمضان المبارک۔۔۔"(إثبات الوصیہ، صفحہ ۴۹۶)
اس دن کیلئے جن اعمال کا خصوصی طور پر ذکر ہوا:
دعا ندبہ کا پڑھنا، امامؑ کی جدائی میں گریہ کرنا، روز جمعہ کی زیارت کا پڑھنا جو مفاتیح اور جمال الاسبوع میں ذکر ہے: "اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا حُجَّةَ اللهِ في اَرْضِهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَيْنَ اللهِ في خَلْقِهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا نُورَ اللهِ الَّذي يَهْتَدي بِهِ الْمُهْتَدُونَ۔ جمعہ کے دن نماز عصر سے لے کر غروب تک نبی اکرم ﷺ پر بہت زیادہ صلوات بھیجنے کا ذکر بیان کیا گیا ہے: الّلهُمَّ صلّ علی محمّد و عجِّل فَرَجھم و أهلِك عَدوَّهم مِنَ الجِنِّ و الإنس مِن الاولینَ و الآخِرین(صحیفہ مہدیہ، ص۲۰۴)
اس کے علاوہ صبح اور ظہر کی نماز کے بعد اس دعا کے پڑھنے کا کہا گیا ہے: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يُدْرِكَ الْقَائِم(مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، جلد۱، ص۳۶۸) ان صلوات کے علاوہ ایک اور صلوات جس کو جمعہ کے دن نبی پاک ﷺ پر بھیجنے کی تاکید کی گئی ہے: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ وَ صَلَاةَ مَلَائِكَتِكَ وَ رُسُلِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ یا اس طرح پڑھیں: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَهُم (مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، جلد۱، ص۲۸۴)
صلوات "ضراب اصفہانی" جو مفاتیح الجناں میں جمعہ کے دن اور رات کے اعمال میں ذکر کی گئی ہے۔ سید بزرگوار ابن طاووس ؒ فرماتے ہیں: یہ صلوات مقدسہ نبی کریمﷺ اور ان کی آل مبارکہ علیہم السلام پر جمعہ کو عصر کے وقت پڑھنے کے لیے امام زمانہ علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔ اس کی فضیلت کے بارے میں فرمایا گیا کہ اگر انسان تعقیبات عصر کو کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ بھی دے تو اس صلوات کو نہ چھوڑے۔(صحیفہ مہدیہ، ۲۵۹) دعا ضراب اصفہانی: اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد سَیِّدِ الْمُرْسَلینَ وَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَ حُجَّةِ رَبِّ الْعالَمینَ الْمُنْتَجَبِ فِى الْمیثاقِ الْمُصْطَفى فِى۔۔۔ مُدَّ فى اَعْمارِهِمْ وَ زِدْ فى اجالِهِمْ وَ بَلِّْهُمْ اَقْصى امالِهِمْ دینًا وَ دُنْیا وَ اخِرَةً إنَّکَ عَلى کُلِّ شَىْء قَدیرٌ۔ اس مقالہ کے اختصار کی وجہ سے اس صلوات مبارکہ کا شروع اور آخر والا حصہ دیا گیا ہے۔
پیر اور جمعرات، عصر کے وقت:
احادیث اور روایات کے مطابق اس وقت تمام انسانوں کے اعمال امامؑ کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں۔ جیسے کہ نبی پاک ﷺ کے زمانے میں ان کے پاس اعمال لے جائے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں آیات قرآنی اور احادیث و روایات میں سے چند ایک کو ذیل بیان کرتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام کے لئے اللہ کی جانب سے احاطہ علمی ہے کہ کائنات کی ہر شی کا علم امام کے پاس موجود ہوتا ہے اور روزانہ کے اعمال کا علم اور اشیاء میں ردوبدل کا علم جزئیات و کلیات کا علم امام کے لئے حاصل ہے، سورہ یٰسین میں آیت ”وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِی اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ“ (سورہ یٰسین، آیت ۲۱ٍٍٍٍٍ)(اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔) کی تفسیر میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کی توقیعات میں بھی ہے کہ آپ بندگان کے تمام اعمال بارے احاطہ علمی رکھتے ہیں۔
قرآن مجید کی آیات اور معصومین ﴿علیہم السلام کی روایتوں سے یہ نکتہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ اور آئمہ اطہارؑ، اُمت کے اعمال کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے: وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ(سورہ توبہ، آیت ۱۰۵) "اور پیغمبر! کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمھارے عمل کو اللہ، رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں۔" اس سلسلہ میں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں، ان کی تعداد زیادہ ہے، من جملہ اسی آیہ شریفہ کی تفسیر میں امام صادق ﴿ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ﴿علیہ السلام نے فرمایا: ”لوگوں کے تمام نیک و بد اعمال ہر روز صبح سویرے پیغمبر اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ہوشیار رہئے۔“(الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۱۹، كتاب الحجۃ، باب عرض الاعمال علی النبی و الائمۃ، دارالکتب الاسلامیۃ، تہران،ـ۱۳۶۵ھ.ش.)
عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں: میں نے حضرت امام رضا ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمایئے۔ حضرتؑ نے فرمایا: ”کیا میں دعا نہیں کرتا ہوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز و شب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر مناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں۔“ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ؑکا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امامؑ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ؑمیرے تعجب کے بارے میں آگا ہ ہوئے تو مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ اور اس کے بعد فرمایا: ”خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابیطالبؑ ہیں۔“ (ایضاً، ج ۱، ۲۱۹، ح۴) چونکہ تمام ائمہ اطہار ﴿ؑنفس واحد کے مانند ہیں اور وہ سب ایک ہی نور ہیں، اس لئے جو بھی حکم ان میں سے ایک کے لئے ثابت ہو، باقی ائمہ علیہم السلام کے بارے میں بھی وہی حکم ثابت ہے۔
ہر روز (سورج کی سُرخی سے جب وہ غروب ہونے لگے تا اس وقت جب تک کہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔):
ان اوقات میں سے جو امام ؑ سے منسوب ہیں، ہر روز سورج کی سُرخی سے جب تک کہ وہ مکمل طور پر غروب نہ ہو جائے، کیونکہ دن کو اگر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو یہ دن کا بارہواں حصہ بنتا ہے۔ کتاب نجم الثاقب میں علماء نے مطلع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک دن کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصہ کو اس کی ترتیب کی بنا پر ہر امام علیہ السلام کے ساتھ نسبت دی گئی ہے، جیسا کہ دن کا پہلا حصہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے مرتبط ہے اور بارہواں حصہ جو غروب آفتاب کے قریب سے شروع ہو جاتا ہے، آخری امامؑ سے منسوب ہے، اسی وجہ سے اس وقت امامؑ سے دُعا کرنے کا کہا گیا ہے۔ ان حصوں کو کم اور زیادہ سردیوں اور گرمیوں کے حساب سے کرتے ہیں۔(نجم الثاقب، ص ۸۲۰۔۸۲۱) صحیفہ مہدیہ میں دو دعاؤں کو بارہویں حصے کے لیے بیان کیا ہے: پہلی دعا: يَا مَنْ تَوَحَّدَ بِنَفْسِهِ عَنْ خَلْقِهِ يَا مَنْ غَنِيَ عَنْ خَلْقِهِ بِصُنْعِه۔۔۔ دوسری دعا: اللّهمَّ یا خالِقَ السّقفِ المَرفوع۔۔۔۔(صحیفہ مہدیہ، ص ۳۸۰۔۳۸۴)
عاشور کا دن:
یہ دن تو ہے ہی امام مہدی ؑ سے مخصوص، یہی وہ دن ہے، جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے امام ؑ کے لیے"قائم" کا لقب عطا کیا گیا۔ شيخ جعفر بن محمد بن قولويہ اپنی کتاب کامل الزيارت میں محمد بن حمران سے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں، بیان کیا کہ: "جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا، جنہوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا؟" تو خداوند متعال نے فرشوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’اے میرے فرشتو! میری عزت و جلالت کی قسم! میں ان سے انتقام لونگا گو کہ اس میں کافی طویل عرصہ لگے گا۔" اس کے بعد خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کا سایہ دکھایا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا، جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: ’’میں اس قائم کے ذریعے امام حسین (ع) کے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔‘‘
آیت کریمہ وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً (سورہ اسراء آیت۳۳) (اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے) کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں، جو مظلومیت کے ساتھ قتل کئے گئے اور جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً سے مراد حضرت امام مہدی(عج) ہیں۔" (البرہان فی تفسیر القرآن، ج ۴، ص۵۵۹) اسی طرح کی روایت کو شیخ صدوق نے علل الشرائع میں ابو حمزہ ثمالی سے، جنہوں نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کو بیان کیا ہے۔ تفسير علی بن ابراہیم میں سورہ مبارکہ حج کی آیت 39: أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدير(جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے، انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے، کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔) کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ "یہ قائم ؑ آل محمد علیہم السلام کے بارے میں بیان ہوئی ہے کہ وہ قیام کریں گے اور امام حسین ؑ کے خون کا انتقام لیں گے۔"
حاصل گفتگو:
روایات و احادیث جو مخصوص ایام یا اوقات کے حوالے سے ذکر کی گئیں، ان سے ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ امام وقت حجت خدا کا ذکر صرف انہی دنوں یا وقت میں کرنا چاہیئے، یہ صرف ہر عبادت کے لیے فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے کہ نماز پڑھنی ہے، مگر اول وقت کی اہمیت اور پھر جماعت کے ساتھ پڑھنے وغیرہ کا ذکر اس عبادت کے درجہ کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ اس سے ہم بآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ امامؑ کا ذکر ہمیں ہر وقت اور ہر لمحہ ہی کرنا ہے، امامؑ شیخ مفید ؒ کے لیے صادر کردہ ایک توقیع فرماتے ہیں:۔۔۔ "ہم تمہارے حالات سے واقف ہیں اور تمہاری کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، ہم نہ تم سے غافل ہیں اور نہ تمہیں فراموش کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مصائب و آلام کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑتے اور دشمن تمہیں تارتار کرکے نابود کر دیتے۔۔۔"(الاحتجاج طبرسی) یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اس ہستی کے ذکر سے غافل ہو جائے، جو لمحہ بھر کے لیے اس سے غافل نہیں اور وہی ہیں جن کہ بدولت اللہ تعالیٰ نے اس وقت کائنات کو بقا دی ہوئی تو کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ان کی یاد کے بغیر گزاریں۔ اسی بات کو زیارت آل یاسین میں یوں بیان کیا گیا ہے: السَّلامُ عَلَيْكَ فِي آنَاءِ لَيْلِكَ وَ أَطْرَافِ نَهَارِكَ "سلام ہو آپؑ پر رات کے اوقات میں اور دن کی ہر گھڑی میں۔۔۔"
امریکہ و غاصب صیہونی رژیم پر انتہائی سخت دن آنیوالے ہیں، جنرل اسمعیل قاآنی
ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ امریکی بے جا طور پر (اس حادثے کے) ذمہ داروں کا کھوج نہ لگائیں اور دوسروں کو قصوروار بھی نہ ٹھہرائیں، کیونکہ (امریکی جنگی بحری بیڑے کو لگی) یہ آگ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی بھڑکائی ہے، جس نے اب انہیں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جنرل قاآنی نے کہا کہ امریکیوں کو کہا جانا چاہیئے کہ پیش آنے والا یہ حادثہ تمہارے اپنے جرائم کا نتیجہ ہے، جبکہ یہ حادثہ بھی خود تمہارے ہی چیلوں کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہوں نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہیں سزا دے رہا ہے۔
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاحال تمہارے خوشی کے دن چل رہے ہیں، جبکہ بہت جلد تمہارے اوپر سختی کے دن آنے والے ہیں، جن میں تمہیں اور غاصب صیہونی رژیم (اسرائیل) کو شدید حادثات کے ساتھ روبرو ہونا پڑے گا۔ جنرل اسمعیل قاآنی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج اب تھک کر فرسودہ اور اس کا فوجی سازوسامان لوہے کے کباڑ میں بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدتوں سے امریکی بحریہ کے کمانڈرز یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکی جنگی بحری بیڑے اب لوہے کے کسی ڈھیر سے بڑھ کر کچھ نہیں رہے۔ سپاہ قدس کے کمانڈر نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ناگفتہ بہ صورتحال کو قبول کرتے ہوئے انسانیت پر مزید ظلم و ستم ڈھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے۔
علماء و مشائخ کا فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا اعلان
جامعہ بیت القرآن گلبرگ لاہور میں ملک کے جید علماء ومشائخ اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی اتحاد امت کانفرنس۔ فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا عزم، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی قبول نہیں کریں گے۔ مفتی سید عاشق حسین کی زیر نگرانی اتحاد امت کانفرنس میں پیر سید حبیب عرفانی، میاں جلیل احمد شرقپوری، مفتی عاشق حسین، پیر علی جمیل خان، سجادہ نشین دربار عالیہ سندر شریف، مرکزی صدر پی ٹی آئی مذہبی امور ونگ پیر سید حبیب عرفانی، سجادہ نشین شرقپور شریف و رکن صوبائی اسمبلی میاں جلیل احمد شرقپوری، دربار میاں میر کے سجادہ نشین پیر سید علی رضا گیلانی، کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا محمد عاصم مخدوم، زیب آستانہ عالیہ دیوان علی عظمت سید محمد، آستانہ عالیہ ڈی ایچ اے لاہور خواجہ اسرارالحق نظامی، دربار عالیہ ملتان سے خواجہ محمد اکمل اویسی، دربار عالیہ پیر فضل شاہ ولی کے سجادہ نشین پیر علی رضا، پی ٹی آئی علماء و مشائخ ونگ کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عارف چشتی اور سابق صوبائی ایڈوائزر جمیل خان نے شرکت کی۔
کانفرنس میں پیر اختر رسول قادری، پیر سید ارشد حسین گردیزی، مفتی شبیر انجم، علامہ پرویز اکبر ساقی، بابا محمد شفیق بٹ، مفتی لیاقت علی صدیقی، قاری محمد اعظم، علامہ محمد حسین گولڑوی، پیر محمد رمضان رضوی سیفی، مولانا محمد شفیق اللہ اجمل، پیر محمد امین ساجد، پیر، قاسم علی قاسمی، پیر عثمان نوری، ڈاکٹر امجد حسین چشتی، سید محمد شاہ ہمدانی و دیگر علمائے کرام و مشائخ عظام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شریک علماء نے متفقہ طور پر عزم کیا کہ اتحاد امت کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملک میں مسلکی، فرقہ وارانہ بحث نہیں چھڑنے دینگے، ملک کسی بھی قسم کی افراتفری اور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف کاروائی کرے۔ مشائخ عظام نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، قیام امن کیلئے اپنے ریاستی اداروں اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی برداشت نہیں کریں گے۔
یہ وقت مناظرہ بازی کا نہیں
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصہ سے کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے بیچ ہی آن لائن اور آف لائن مناظرہ بازی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، اس نے یہاں کے ذی حس طبقوں کو انتہائی مضطرب کر دیا ہے اور گذشتہ چند روز سے سوشل اور روایتی میڈیا کے توسط سے مسلسل اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ اس طرح کی تفرقہ بازی سے اجتناب کیا جائے۔ مقامی سول سوسائٹی نے بارہا علماء دین اور مذہبی جماعتوں کو معاملہ کی نزاکت سمجھتے ہوئے باہمی اخوت کو فروغ دینے کی تاکید کرتے ہوئے مسلکی اور گروہی افتراق کو پنپنے نہ دینے کی اپیل کرکے عوام سے کہا کہ وہ دین کے بنیادی عقائد پر جمع ہوکر آپسی اتحاد و اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بنیادی عقائد ایک ہیں تو پھر جھگڑوں کا کیا جواز بنتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اخوت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے، مگر جموں و کشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص مذہب و مسلک کے نام پر جس انداز میں قوم کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ماضی قریب تک مقبوضہ وادی کشمیر میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے بلکہ اسلامیان کشمیر بنیادی عقائد پر مجتمع ہوکر ملی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے، تاہم اب جو ہوا چلنے لگی ہے، اگر فوری طور پر اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو کل یہ ہوا ایک آندھی کی شکل اختیار کرکے ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا کام کرے گی اور اس وقت ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی تباہ کاریوں سے کوئی نا آشنا نہیں ہے۔ ایسے ہی فروعی معاملات کو لیکر کئی مسلم ممالک کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس کے باوجود بھی اگر کشمیر میں کوئی اس سمت میں جانے کی کوشش کرے تو وہ مذہب اور ملت کا بہی خواہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی عالم اسلام اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک مربوط مہم چل رہی ہے، جس کو اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اس مہم کے تحت مسلمانوں کو انتہاء پسندوں اور انسانیت دشمنوں کے طور پیش کرنے کی مکروہ کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ اسی مہم کے تحت مسلک اور پارٹیوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اس نازک ترین صورتحال میں اگر امتِ مسلمہ طبقوں میں تقسیم ہو جائے تو اس کا براہ راست فائدہ ایسی قوتوں کو ہوگا، جنہیں ملت اسلامیہ کا وجود ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا ہے۔ اتحاد میں طاقت اور وحدت ہی مسلم امہ کو موجودہ پریشان کن دور سے باہر نکال سکتی ہے۔ انتشار و افتراق کی صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے، کیونکہ جب قرآن ایک ہے، نبی (ص) ایک ہے، قبلہ ایک ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد مشترک ہیں تو کون سی چیز ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔ ملت میں انتشار و افتراق ہمیں بنیادی اہداف سے کوسوں دور لے جائے گا، لہٰذا قوم کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے میں ادراک سے کام لے۔
علماء کرام، جن کا کام اسلام کی اشاعت ہے، ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں روز قیامت میں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اصلاح معاشرہ اور اتحاد ملت کے لئے کون سی ذمہ داریاں انجام دیں۔ وعظ و تبلیغ کا فریضہ انجام دیکر ہی مبغلین اسلام، مفتیاں کرام، ائمہ مساجد، علماء دین اور مذہبی اسکالر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملت کو اُس ڈگر پر لے جائیں، جس پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخروئی مقدر بن سکے۔ ملت اسلامیہ میں پھیلی بیماریوں پر ان علماء سے جوابدہی ہوگی، لہٰذا انہیں بھی خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی طور پر اتحاد ملت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قائدین، سماجی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سماج کے ہر باشعور فرد کو انفرادی طور بھی اپنے آپ کو اس سنگین مسئلہ سے لاتعلق رکھنے کی بجائے اس کا تدارک کرنے کے لئے ہاتھ بٹانا چاہیئے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ بھولیں گے اور نہ ہی معاف کرینگے، ایران
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء سمیت ٹارگٹ کلنگ کی امریکی کارروائی کو بزدلانہ اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سید عباس موسوی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ہمارے خطے میں انسداد دہشتگردی کے ہیرو، جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی بزدلانہ (امریکی) کارروائی نہ صرف ایک "خودسرانہ قتل" بلکہ اقوام متحدہ کے منشور کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے لکھا کہ امریکہ اس مجرمانہ اقدام کا ذمہ دار ہے جس سے وہ اقوام متحدہ پر اپنی شدید تنقید کے ذریعے "بری" نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ ہم اس (گھناؤنے امریکی جرم) کو بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے!
.jpg)
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی شکست
گذشتہ روز عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایران اور چار جمع ایک ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے جائزے پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ امریکہ نے حسب معمول اور حسب توقع اس آن لائن اجلاس میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں برقرار رکھنے پر تاکید کی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اکتوبر 2020ء میں ایران پر اسلحہ جاتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو یہ سہولت حاصل نہ ہو اور اس پر اسلحہ جاتی پابندیاں بدستور برقرار رہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس آن لائن اجلاس میں امریکی موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے اور ایران پر پابندیوں کا سلسلہ باقی رہے تو گویا عالمی ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ڈاکٹر جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور ایران کیخلاف اپنائی گئی پالیسیوں کو ماننا گویا جنگل کے قانون کو تسلیم کرنا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی معاہدہ مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کا اقدام سفارتی کامیابی تھی اور اگر اس سفارتی کوشش اور اقدام کو امریکہ کے دباؤ پر مسترد کر دیا تو عالمی برادری کا سفارتی کوششوں اور سفارتی اقدامات پر اعتماد اٹھ جائیگا۔
گذشتہ روز سلامتی کونسل کے آن لائن اجلاس میں امریکہ کے علاوہ تمام اراکین نے عالمی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے پر زور دیا۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ عالمی معاہدہ کے حوالے سے تنہائی کا شکار ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ایران کو سیاسی و سفارتی سطح پر تنہاء کرنے کی جو کوششیں کی ہیں، وہ بری طرح ناکام رہیں۔ گذشتہ رات کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے وزیر خارجہ اس قدر تنہاء رہ گئے کہ وہ وقت سے پہلے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایرانی جوہری معاہدے بارے سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر پابندیاں برقرار رکھنے کی امریکی کوشش کیخلاف ہیں، امریکہ معاہدے میں واپس آجائے، چین
ایرانی جوہری پروگرام (JCPOA) کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے ویڈیو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مسقل نمائندے وانگ کان نے کہا ہے کہ اس بحران کی اصلی جڑ ایرانی جوہری پروگرام سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر عائد ہونے والی امریکی پابندیاں ہیں۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بتایا جا چکا ہے؛ ایران پر لگائے جانے والے الزامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 کے متن کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے وانگ کان نے کہا کہ ایران کے خلاف اسلحے کے پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں نے ایرانی جوہری معاہدہ (JCPOA) بچانے کے مشترکہ اقدامات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وانگ کان نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی غیرقانونی پابندیوں کو فورا اٹھا لے اور ایرانی جوہری معاہدے پر عملدرآمد شروع کر دے۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ چین ایران کے خلاف اسلحے کی پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں کے خلاف ہے جبکہ امریکہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے باعث "ٹرگر میکینزم" استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پورا فلسطین فلسطینی عوام کا ہے
انبیاء کی سرزمین مقدس فلسطین پر بسنے والے فلسطینی عرب گذشتہ ایک سو سال یعنی جس دن سے برطانوی استعمار کے عہدیدار بالفور نے Rothschild کو ایک خط کے ذریعہ اعلان نامہ پھیجا کہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے لئے ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کی جائے، اس دن سے آج تک ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطینی عرب صہیونیوں کے ظلم و ستم کے رحم و کرم پر ہے۔ غاصب صہیونیوں نے پہلے جنگوں اور قتل و غارت کے ذریعہ فلسطین کا استحصال کیا، بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے دباؤ کو فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے ساتھ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ بہرحال ہر دو صورتحال میں اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فلسطین کی اراضی پر مسلسل صہیونیوں نے قبضہ جاری رکھا۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونی آباد کاری کے ذریعے فلسطین کے مغربی کنارے کو صہیونی آبادی کے تناسب سے فلسطینی آبادی پر برتری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے علاقہ کو مغربی کنارے سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہاں گذشتہ بارہ برس سے غاصب اسرائیل کا مصری حکومت کے ساتھ مشترکہ محاصرہ کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔
موجودہ زمانہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود امریکی عوام کے لئے بھی ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہیں، انہوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ پیش کرتے ہوئے پہلے فلسطین کے ابدی دارالحکومت قدس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں اسی کوشش کو یقینی بنانے کے لئے امریکی حکومت نے تل ابیب سے قدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل ان سب باتوں کا مقصد امریکی صدر یہ بتانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر اب مکمل اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں امریکہ کی پیش رو انتظامیہ نے فلسطینی پی ایل او کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی ضمانت دی تھی کہ اسرائیل امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے 1967ء کی سرحدوں تک چلا جائے گا۔ بعد ازاں یہ ہونا بھی آج تک اسی طرح سے ناممکن رہا ہے کہ جس طرح اعلان بالفور میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل قائم کیا جائے گا، لیکن غیر یہودی قوموں کو فلسطین سے نہیں نکالا جائے گا۔ حقیقت اس کے بھی برعکس ثابت ہوئی، اسرائیل قائم کر لیا گیا، لیکن فلسطینی عربوں کو فلسطین سے نکال پھینکا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء کو منظور ہونے والی بڑی قرارداد میں طے پایا کہ فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، لیکن اس پر بھی آج تک اقوام متحدہ عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، البتہ اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔
اب حالیہ دنوں اسرائیل امریکی سرپرستی میں امریکی صدر کے شیطانی منصوبہ صدی کی ڈیل پر تکیہ لگائے ہوئے ہے۔ اب غرب اردن کے علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے یا الحاق کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یعنی صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارا اب اسرائیل کے ساتھ شامل کیا جانے کا ناپاک ارادہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالہ سے امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ جولائی 2020ء میں غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یقیناً ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ 1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں، بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا، جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔
اسی عنوان پر فلسطین کے سابق وزیر اور تجزیہ نگار وصفی قبہا نے کہا ہے کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا سمیت ہر وہ حکومت، ادارہ اور عناصر بھی برابر کے شریک مجرم ہیں، جنہوں نے فلسطین کے لئے امریکہ کے منصوبہ یعنی دو ریاستی حل اور نام نہاد مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ اب اصل مسئلہ کی بات کرتے ہیں کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنے ساتھ ملحق کرنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب فلسطین باقی نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے مفادات کی خاطر مسلم امہ کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایسی حالت میں فلسطینیوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔
ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری ہیں، جو اس منصوبہ کی اعلانیہ اور مخفیانہ طور پر حمایت کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطینی قوم ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے اور واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فلسطین کے ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطینی عربوں میں صرف مسلمان اکیلے نہیں بلکہ عیسائی فلسطینی اور ایسے وہ تمام یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس سمیت دیگر گروہوں نے غرب اردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے صہیونی منصوبہ کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام مزاحمت کریں گے۔ فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے۔ فلسطینیوں نے اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ غرب اردن سے متعلق اسرائیلی غاصب حکومت کے فیصلہ اور اعلان پر آج تک عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اسرائیلی جرائم کی داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غرب ردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔ یہ وہ اصل سازش ہے، جس کا آغاز عالمی شیطان امریکہ کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگاروں کا اس تمام تر صورتحال پر کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ خطے کی متعدد عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے اس منصبوبہ کی حمایت کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں فلسطین کی حمایت میں باقی ماندہ ایک دو ممالک یا حکومتوں کے کوئی سامنے نہیں ہے۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں فلسطینی عوام کی مزاحمت ہی اس وقت ایسا مضبوط ہتھیار ہے، جو فلسطین کی سرزمین اور یہاں امت کے مقدسات کا دفاع کرسکتی ہے، وہ ہتھیار فلسطینیوں کی مزاحمت ہے۔ اسی مزاحمت نے ہی فلسطین کو باقی رکھا ہے، ورنہ امریکی و صہیونی اتحاد کئی سال پہلے ہی فلسطین کا مسئلہ نابود کرچکے ہوتے۔ فلسطینی قوم کی سماجی، سفارتی، سیاسی اور قانونی محاذوں پر فلسطین کے دفاع کے لیے کام کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت بھی جاری رہنا ضروری امر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ حل کی کوشش کریں، جس کا مقصد فلسطین فلسطینیوں کے لئے ہو۔ غاصب دشمن کو حق نہ دیا جائے کہ وہ فلسطین پر مزید تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
غاصب و قابض رہے۔ مسلم دنیا کا اسرائیل کی کاسہ لیسی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد (مکمل)
غلو کا لغوی معنی:
الغُلُوُّ کا معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، اگر یہ تجاوز کسی کی قدر و منزلت اور فضلیت کے متعلق ہو تو اسے غُلُوُّ کہا جاتا ہے اور اگر اشیاء کے نرخ اور قیمت کے بارے میں ہو تو اسے غلاء (مہنگائی) کا نام دیا جاتا ہے اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو غُلُوُّ کہتے ہیں۔ ابلنے اور جوش کھانے کو غلیان اور غیر معمولی سرکش حیوان کو غلواء کہتے ہیں، ان تمام معنوں کے لئے فعل کا ایک ہی مادہ استعمال ہوتا ہے۔(۱) بعض افراد کی رائے ہے کہ غلو، افراط و تفریط دونوں طرفوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض دوسرے افراد غلو کو فقط افراط کے معنی میں منحصر سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے پر تقصیر استعمال کرتے ہیں۔(۲) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں غلو کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے کہا ہے: ’’بانہ ما یقابل التقصیر وھو تجاوز الحدفقال ان معنی الا یۃلا تتجاوزوا الحد الذی حدہ اللہ لکم الی الا زدیاد وضدہ: التقصیر وھو الخروج عن الحد الی النقصا۔، والزیادہ فی الحد والنقصان عنہ کلا ھما فساد و دین اللہ الذی امر بہ ھو بین الغلو والتقصیر وھو الا قتصاد، ای الا عتدال۔‘‘(۳)
اصطلاحی معنی:
شرعی اعتبار سے انبیا ؑ، آئمہ ؑاور اولیاء کرام کے مقام و مرتبے میں مبالغہ کرنا، اس طرح کہ انہیں الوھیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دینا یا انہیں معبودیت، خلق اور رزق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا اس طرح شریک قرار دینا کہ ضروریات دین کا انکار لازم آئے۔(۴)
قرآن میں غلو کا معنی:
قرآن مجید کی دو آیات میں غلو استعمال ہوا ہے:
1۔ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ د ِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللَّہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّّہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَھَآ اِلَیٰ مَرْیَمَ وَرُوْحؒمِِّّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَۃُٗ ط اِنْتَھُوَْا خَیْرًالَّکُمْ ط اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہُٗ وَّاحِِدُٗ ط سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ ْیَّکُوْنَ لَہٗ وَ لَدُٗ لَہُٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْْضِ وَ کَفَیٰ بِاللّٰہ ِ وَکِیْلاً۔(۵) "اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ، اس میں تمہاری بہتری ہے۔ یقیناً اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کار سازی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔"
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: اس آیت میں اہل کتاب کو غلو کرنے سے منع کیا ہے، اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں یا یہودی؟ تو اس بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ عیسائی مراد ہیں، کیونکہ غلو کے موارد عیسائیوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔(۶) اور بعض کی رائے کے مطابق عیسائی اور یہودی دونوں مراد ہیں۔(۷) البتہ اس بارے میں اتفاق ہے کہ غلو کا موضوع حضرت عیسیٰ ہیں، اس غلو کے حوالے سے عیسائیوں کے تین گروہ ہیں۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ خدا ہیں، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تین خداؤں میں سے ایک ہیں، تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں۔(۸) حضرت عیسی ؑ کے بارے میں یہودیوں نے یہ غلو کیا کہ انہیں فعل حرام کا نیتجہ قرار دیا اور حضرت مریم کی طرف ناروا نسبت دی ہے۔(۹) مفسرین نے اس نکتہ پر بھی بحث کی ہے کہ عیسائیوں سے مراد کون سے ہیں؟ بعض نے کہا کہ اہل نجران مقصود ہیں۔(۱۰) دوسروں کا قول ہے کہ تمام نصاریٰ مراد ہیں۔(۱۱)
قرآن مجید کی ایک دوسری آیت جس میں غلو کا تذکرہ ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: ’’قُلْ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْ ا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآ ئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْ امِنْ قَبْلُ وَ اَ ضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْ ا عَنْ سَوَآ ئِ السَّبِیْلِ‘‘(۱۲) "اے رسولﷺ! کہہ دو کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو پہلے گمراہ ہوچکی ہے اور بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکی اور سیدھے راستہ سے بہک چکی ہے۔" اس آیت میں خطاب رسول اکرمﷺ سے ہے کہ وہ اہل کتاب سے کہیں وہ دین الہیٰ میں غلو نہ کریں اور جو حدود مقرر کی گئی ہیں، ان سے تجاوز نہ کریں، یہاں پر دین میں غلو سے مراد اکثر مفسرین نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں الوھیت اور خدا قرار دینے کا عقیدہ مراد لیا ہے، گویا وہی مطالب جو گذشتہ آیت میں بیان ہوئے ہیں، وہ یہاں پر ذکر ہوئے ہیں۔(۱۳) اس سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں غلو سے مراد کسی کو خدا قرار دینا اور اسے الوھیت کا درجہ دینا ہے۔ ان آیات سے اور قرآن کی دیگر آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ غلو کی تاریخ پرانی ہے، اسلام سے قبل مختلف اقوام میں بالخصوص یہود و نصاریٰ کے درمیان یہ موجود تھا۔
یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوھیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن کریم نے ان کے باطل نظریئے کو یوں نقل کیا ہے: ’’وَقَالَتِ الْیَھُوْ دُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰہِ۔‘‘(۱۴) یعنی "یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔" روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے، جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ گذشتہ آیات میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں غلو کیا اور ان کی الوہیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے عقیدے کو بیان کرنے کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے: ’’وَقَالَتِ النَّصارَیٰ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ۔ ذٰلِک قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُئْوفَکُوْن‘‘(۱۵) "اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں، یہ سب زبانی باتیں ہیں، ان باتوں میں وہ بالکل اپنے سے پہلے کافروں کی طرح ہیں۔ اللہ انہیں قتل کرے، یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔" اس آیت میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے پہلے بھی کفار اپنے بزرگوں کے بارے میں غلو کا شکار تھے۔
قرآن مجید ایک اور مقام پر عیسائیوں کے غلو کا پردہ چاک کرتا ہے: ’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ‘‘(۱۶) یعنی "حقیقت میں وہ لوگ کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم اللہ ہے۔" غلو جیسا باطل اور انحرافی عقیدہ مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا۔ جس کی طرف رسول اکرمﷺ نے توجہ دلائی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
1۔’’حد سے زیادہ میری مدح و ستائش نہ کرو، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑکی مدح و ستائش میں افراط سے کام لیا ہے، میرے بارے میں کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔‘‘(۱۷)
2۔ ابو رافع قرظی اور سید نجرانی نے کہا کہ: اے محمد ؐ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری پرستش کریں اور تمہیں رب قرار دیں؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش کریں اور اس کے سوا کسی اور کا حکم دوں۔ اس نے مجھے اس لیے مبعوث نہیں فرمایا اور نہ ہی اس قسم کا حکم دیا ہے، اس پر یہ آیت (وما کان لبشر) سورہ آل عمران ۷۹ نازل ہوئی۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسول اللہ! کیا ہم تمہیں سجدہ نہ کریں! رسول اکرمﷺ نے جواب دیا: خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اپنے نبی کی عزت و احترام کرو اور حق کو اس کے اہل کے لیے پہچان کرو۔(۱۸)
3۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:۔ مجھے میری شان و منزلت سے آگے نہ بڑھاؤ۔ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے مجھے اپنا بندہ قرار دیا ہے۔(۱۹)
4۔ آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے: دو قسم کے گروہوں کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی: ایک ظالم اور ستم کار بادشاہ اور دوسرا دین میں غلو کرنے والا، جو دین سے خارج ہو جاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا اور غلو سے اجتناب نہیں کرتا۔(۲۰) پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں غلو کے اشارے موجود تھے اور رسول اکرمﷺ اپنے بعد امت میں اس کے پھیلنے کے امکانات کو دیکھ رہے تھے، لہذا آپ ؐ نے غلو کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا اور اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔" مسلمانوں میں اس عقیدے کے داخل ہونے کے مختلف عوامل اور اسباب تھے:
1۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے وہ افراد جنہوں نے ظاہر میں اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا، لیکن دل سے اسلام کی حقانیت کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑنے کے لیے مختلف اسلامی شخصیات کے متعلق غلو کو رواج دیا۔ انہوں نے ضعیف الایمان مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان کے درمیان غلو جیسے باطل عقائد کو ہوا دی۔
2۔ دوسری جانب وہ قومیں جو مجوسیت اور دیگر ادیان کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئیں، لیکن اسلام کی روح کو نہ سمجھ سکیں یا انہوں نے ظاہر میں اسلام کو قبول کیا اور اپنے باطل عقائد کو مسلمانوں کے اندر پھیلایا۔
غلو کی علامات:
وہ نظریات جو غالیوں کے عقائد شمار ہوتے ہیں اور غلو کی نشانیاں قرار پاتے ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔ رسول اکرم ﷺ، امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ یا دوسرے اولیاء الٰہی کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھنا۔
2۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ کائنات کا انتظام و انصرام یا تدبیر، رسول خداﷺ، امیر المومنین علی اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام یا کسی اور فرد کے سپرد کی گئی ہے۔
3۔ امیر المومنین علی اور آئمہ علیہم السلام یا کسی اور شخص کی نبوت کا نظریہ رکھنا۔
4۔ کسی فرد کا علم غیب سے ذاتی طور پر آگاہ ہونا، بغیر اس کے کہ اسے وحی یا الہام ہو، اس بات کا عقیدہ رکھنا۔
5۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اہل بیت ؑکی معرفت اور محبت عبادت الہیٰ اور فرائض الہیٰ کی انجام دہی سے بے نیاز کر دیتی ہے۔(۲۱) البتہ وہ عقائد جن پر دلیل قطعی (خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی) قائم ہو تو اسے غلو یا حد سے تجاوز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اہل بیت ؑکی عصمت امیر المومنین علی ؑ کی خلافت و وصایت بلا فصل اور ان کے بعد باقی اماموں کی امامت اور ولایت کا عقیدہ، امام کے علم لدنی کا نظریہ، رجعت کا عقیدہ اور دیگر شیعہ عقائد جن پر محکم اور متقن ادلہ قائم کی گئی ہیں، انہیں غلو اور حد سے تجاوز قرار دینا کسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
غلو اسلام کے تمام فرقوں میں پایا جاتا ہے، جن کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، لیکن متعصب افراد نے اسے صرف شیعہ فرقے سے منسوب کیا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔ شیعوں کے عقائد مسلم طور پر ان کی کتب میں موجود ہیں۔ یہاں پر ہم چند شیعہ علماء کے نظریات بیان کریںگے، تاکہ غلو اور غلاۃ کے بارے میں شیعہ اثناء عشری فرقہ کا نظریہ واضح ہو جائے۔ شیخ صدوق ؒ فرماتے ہیں: غلاۃ اور مفوضہ کے سلسلے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں، یہ لوگ اشرار ہیں، جو یہودی، نصاریٰ، مجوسی، قدریہ، حروریہ سے منسلک ہیں، یہ تمام بدعتوں اور گمراہ فکروں کے پیروکار ہیں۔(۲۲) شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں: غلات اسلام کا دکھاوا کرنے والا گروہ ہے، یہ وہی افراد ہیں، جہنوں نے امیر لمومنین علی ؑ اور ان کی پاکیزہ اولاد کو الوہیت اور نبوت کی نسبت دی ہے، یہ افراد گمراہ اور کافر ہیں اور امیر المومنین ؑنے ایسے لوگوں کے قتل کا حکم صادر فرمایا ہے۔ دوسرے آئمہ ؑنے بھی ایسے افراد کو کافر اور خارج از اسلام قرار دیا ہے۔(۲۳)
علامہ حلیؒ بیان فرماتے ہیں: بعض غالی حضرات امیر المومنین علی ؑ کی الوہیت اور بعض ان کی نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں، یہ سب نظریات باطل ہیں، کیونکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ اللہ جسم نہیں ہے، اس میں حلول محال اور اس کے ساتھ ایک ہو جانا (اتحاد) باطل ہے۔ اسی طرح ہم نے ثابت کیا ہے کہ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔(۲۴) محقق حلی فرماتے ہیں: غلات اسلام سے خارج ہیں، اگرچہ وہ ظاہری طور پر اسلام کا اقرار کرتے ہیں۔(۲۵) علامہ نراقی کا قول ہے: غالیوں کی نجاست میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو حضرت علی ؑ یا دیگر افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔(۲۶) صاحب جواہر کا قول ہے: غلات، خوارج، ناصبی اور ان کے علاوہ دیگر افراد جو ضروریات دین کے منکر ہیں، یہ کبھی بھی مسلمانوں کے وارث نہیں ہوسکتے ۔(۲۷) آقا رضا ہمدانی لکھتے ہیں: وہ فرقہ جن کے کفر کا حکم دیا گیا ہے، وہ غلات ہیں اور ان کے کفر میں شک و شبہ نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ امیر المومنین ؑ اور دوسرے افراد کی الوھیت کے قائل ہیں۔(۲۸) امام خمینی ؒ تحریر الوسیلہ میں فتویٰ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر غالی کا غلو الوھیت، توحید اور نبوت کے انکار کا لازمہ قرار پائے تو یہ کافر ہیں۔(۲۹) ان اقوال سے ثابت ہوا کہ علماء شیعہ غالیوں کے کفر اور نجاست کا حکم دیتے ہیں اور ان کے حوالے سے انہوں نے فقہی احکام بھی بیان کر دیئے ہیں، مثلاً ان کی نجاست، ان کا ذبیحہ حرام ہے اور وہ مسلمانوں کی میراث نہیں پا سکتے۔ جرح والتعدیل کے ماہر شیعہ علماء کا غالیوں کے بارے میں موقف انتہائی واضح ہے۔(۳۰)
غلو اور غالیوں کے بارے میں آئمہ اہل بیت ؑکا موقف اور انکا طرز عمل:
رسول اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو اپنی امت میں رونما ہونے والے فتنوں سے باخبر کر دیا تھا، انہی امور میں سے ایک وہ راز تھا، جس سے حضرت علیؑ کو آگاہ فرمایا کہ ایک قوم تمہاری محبت کا اظہار کرے گی اور اس میں غلو کی حد تک پہنچ جائے گی اور اس کی وجہ سے اسلام سے خارج ہو کر کفر و شرک کی حدوں میں داخل ہو جائے گی۔ احمد بن شاذان نے اپنی اسناد سے امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے علی ؑسے بیان کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: "اے علی میری امت میں تیری مثال عیسیٰ بن مریمؑ کی ہے، ان کی قوم ان کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹ گئی، ایک گروہ مومن تھا اور یہ ان کے حواری تھے، دوسرا گروہ ان کا دشمن تھا، جو کہ یہودی تھے۔ تیسرا گروہ وہ تھا، جنہوں نے ان کے بارے میں غلو کیا اور ایمان کی حدود سے خارج ہوگئے۔ میری امت تیرے بارے میں تین گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک گروہ تمہارا شیعہ ہوگا اور یہ مومنین ہوں گے، دوسرا گروہ تمہارا دشمن ہوگا اور یہ شک کرنے والے ہوں گے، تیسرا گروہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والا ہوگا اور یہ منکرین کا گروہ ہوگا۔ اے علی! جنت میں آپ اور آپ کے شیعہ جائیں گے اور جہنم تمہارے دشمنوں اور غلو کرنے والوں کا ٹھکانہ ہوگی۔"(۳۱)
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے خود فرمایا ہے: "میرے بار ے میں دو قسم کے افراد ہلاک ہوں گے، ایک غالی محب اور دوسرا دشمن جفا کار۔"(۳۲) ابن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑنے فرمایا: "خدایا! میں غلو کرنے والوں سے ایسے بیزار اور بری ہوں، جس طرح عیسیٰ بن مریم عیسائیوں سے بری اور بیزار تھے۔ اے اللہ ان (غالیوں کو) ہمیشہ ذلیل و رسوا فرما اور ان میں سے کسی کی بھی نصرت نہ فرما۔"(۳۳) آپ ؑ نے ایک اور مقام پر فرمایا: "ہمارے بارے میں غلو سے پرہیز کرو، کہو کہ ہم پروردگار کے بندے ہیں، اس کے بعد ہماری فضلیت میں جو چاہو کہو۔"(۳۴) امام صادق ؑسے روایت ہے کہ یہودی علماء میں سے ایک شخص امیر المومنین ؑکے پاس آیا اور کہا اے امیر المومنین! آپ کا خدا کب سے ہے۔؟ آپ ؑ نے فرمایا: "تیری ماں تیرے غم میں روئے میرا خدا کب نہیں تھا؟ جو یہ کہا جائے کہ کب سے تھا، میرا خدا کب سے پہلے تھا، جب کب نہ تھا اور بعد کے بعد بھی رہے گا، جب بعد نہ ہوگا، اس کی کوئی غایت نہیں اور اس کی غایت و انتہاء کی حد نہیں، حد انتہا اس پر ختم ہے، وہ ہر انتہا کی انتہا ہے۔" اس نے کہا: اے امیر المومنین کیا آپ نبی ہیں۔؟ آپ ؐ نے فرمایا: "وائے ہو تم پر! میں تو محمد ؐ کے غلاموں میں ایک غلام ہوں۔"(۳۵)
غالیوں کیساتھ امیر المومنین ؑکا سلوک:
عبداللہ بن سبا اصل میں یمن کا رہنے والا اور صنعا کے یہودیوں میں سے تھا۔ حجاز، بصرہ اور کوفہ میں اس کا بہت آنا جانا تھا۔ حضرت عثمان کے زمانے میں دمشق کا سفر کیا تو اہل شہر نے اسے شہر سے نکال دیا، اس کے بعد یہ مصر چلا گیا۔ وہاں حضرت عثمان کے خلاف جو شورش برپا ہوئی، اس میں پیش پیش تھا اور ان کے زبردست مخالفوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔(۳۶) ابن سبا کے حالات میں ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ خیال کیا کہ امیر المومنین علی ؑ خدا ہیں اور مقام الوھیت رکھتے ہیں، جب حضرت علی ؑتک یہ خبر پہنچی تو آپ نے ابن سبا کو بلایا اور اس بارے میں پوچھا تو اس نے واضح طور پر اپنے عقیدے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں تو وہ (خدا) ہے، میرے دل میں یہی الہام ہوا ہے کہ تو خدا ہے اور میں تیرا رسول ہوں۔ امیر المومنین ؑنے اسے فرمایا "وائے ہو تم پر! شیطان نے تجھ سے مذاق کیا ہے، تیری ماں تیری میت پر روئے۔ اس سے روگردانی کر اور توبہ کر۔" اس نے قبول نہ کیا۔ حضرت امیر ؑنے اسے زندان میں ڈال دیا اور اسے تین دن کی مہلت دی، تاکہ وہ توبہ کر لے، لیکن اس نے توبہ نہ کی۔ حضرت علی ؑ نے اسے آگ میں جلا دیا اور فرمایا "اس پر شیطان مسلط ہوگیا تھا، وہ اس کے پاس آتا تھا اور یہ عقیدے اسے تلقین کرتا تھا۔"(۳۷)
اس حوالے سے ایک اور واقعہ بھی تاریخ میں نقل ہوا ہے: جنگ جمل کے بعد قوم زط (جٹ) کے بعض افراد جو کہ سبائیہ (عبد اللہ بن سبا کے پیروکار) تھے اور ان کی تعداد ستر تھی، حضرت علی ؑکے پاس آئے، سلام کیا اور اپنی زبان میں آپ سے گفتگو کی، آپ نے انھیں کی زبان میں جواب دیا۔ آپؑ نے انہیں کہا: "جیسا تم کہہ رہے ہو، وہ نہیں ہوں، میں اللہ کا بندہ اور مخلوق ہوں۔" ان لوگوں نے حضرت علیؑ کی بات کا انکار کیا اور ان سے کہا تو ہی خدا ہے۔ آپ نے انہیں کہا: "اگر ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرو گے، جو تم نے میرے بارے میں کہی ہیں تو تم سب کو قتل کر دوں گا۔" وہ اپنی باتوں پر ڈٹے رہے اور ہرگز توبہ نہ کی، حضرت علی ؑ نے ان کے لیے زمین میں گڑھے کھودنے کا حکم دیا۔ گھڑھے کھودے گئے اور ان کے درمیان سوراخ کرکے انہیں آپس میں ملا دیا گیا، پھر ان افراد کو ان گڑھوں میں ڈالا گیا اور ان گڑھوں کا منہ بند کر دیا گیا، ایک خالی گڑھے میں آگ جلائی گئی۔ دھوئیں اور گھٹن کی وجہ سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔(۳۸) البتہ اس واقعے کو ایک اور طرح سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؑکے حکم کے مطابق گڑھوں میں آگ جلائی گئی اور پھر آپ نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ کر آگ میں ڈالے۔ اس طرح سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اس بارے میں ایک شعر بھی حضرت علی ؑسے منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا :
انی اذا البصرت امراً منکراً او قدرت ناری ودعوت قنبراً
ثم احفرت حضراً فحفراً وقنبر یحطم حطما ً منکراً (۳۹)
امام زین العابدین ؑ کا موقف:
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو ہم پر جھوٹ باندھے، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو، میں نے جب عبد اللہ بن سبا کے بارے میں سوچا تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس نے بہت بڑا دعویٰ کیا تھا، اسے کیا ہوگیا تھا! اللہ کی اس پر لعنت ہو۔ خدا کی قسم علیؑ اللہ کے صالح بندے اور رسول اللہ کے بھائی تھے، درگاہ احدیت میں انہیں جو مقام و مرتبہ ملا، اس کی وجہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تھی، جس طرح رسول اکرم ﷺ کو عظیم مقام و منزلت سے نہیں نوازا گیا، مگر خدا کی اطاعت کی وجہ سے۔ امام زین العابدین ؑنے ابو خالد کابلی کو امت میں غلو کے بارے میں آگاہ کیا، جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا تھا۔ امام ؑنے فرمایا: "یہودی حضرت عزیر ؑسے محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کے بارے میں وہ کچھ کہا، جو نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ لہذا نہ حضرت عزیر ؑ ان سے تھے، نہ وہ حضرت عزیز سے تھے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو دل و جان سے چاہا اور ان کے بارے وہ کچھ کہا، جو ان کے شایان شان نہ تھا۔ لہذا نہ حضرت عیسیٰ ؑ کا ان سے کوئی تعلق رہا اور نہ ہی ان کا حضرت عیسیٰ ؑسے کوئی تعلق رہا اور حقیقت میں ہم بھی اس بدعت کا شکار ہوں گے۔ بہت جلد ہمارے شیعیوں کا ایک گروہ ہم سے محبت کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہمارے بارے میں وہی کچھ کہے گا، جو یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں کہا تھا۔ لہذا یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔"(۴۰)
غالیوں کے بارے میں امام محمد باقر ؑکی رائے:
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ابو الخطاب، اس کے اصحاب اور اس پر لعنت میں شک کرنے والوں اور اس بارے میں توقف کرنے والوں اور شک کرنے والوں پر لعنت کرے۔۔ اے علی! ان پر لعنت کرنے میں کوتاہی نہ کرو، بتحقیق اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے۔" اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول ؐخدا نے فرمایا ہے: "جو شخص اس فرد پر لعنت کرنے سے ناراض ہو، جس پر ذات باری تعالیٰ نے لعنت کی ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔"(۴۱) ابو الخطاب محمد بن مقلاص بن راشد منقری بزاربراداجدع اسدی تھا، کوفے کا رہنے والا ایک غالی انسان تھا، اس کے اصحاب اور پیروکاورں کو خطابیہ کہا جاتا ہے۔(۴۲) ابتداء میں وہ امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑکے اصحاب میں سے تھا، شروع میں اس کا عقیدہ یہ تھا کہ آئمہ، پیغمبر ہیں، پھر انہیں خدا سمجھنے لگا اور جعفر بن محمد ؐ اور ان کے آباء کی الوھیت کا قائل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ امام جعفر صادق ؑ اپنے زمانے کا خدا ہے اور یہ وہ نہیں جسے وہ محسوس کرتا ہے اور اس سے روایت کرتا ہے، چونکہ اس نے عالم بالا سے اس دنیا میں نزول کیا ہے، اس لیے اس نے آدمی کی شکل اختیار کی ہے۔(۴۳)
اس کا خیال تھا کہ جعفر صادق ؑنے اسے اپنے بعد اپنا قیم اور وصی مقرر کیا ہے، پھر اس سے آگے بڑھا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا اور یہ کہا کہ وہ اسم اعظم جانتا ہے اور آخر میں کہنے لگا کہ وہ فرشتوں میں سے ہے۔(۴۴) رفتہ رفتہ اس کے گروہ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے کوفے کے گورنر کی مخالفت شروع کر دی۔ ایک دن جب ان میں سے ستر افراد ہنگامہ برپا کرنے کے لیے مسجد کوفہ میں جمع تھے تو گورنر کوفہ نے ان پر حملہ کر دیا اور سخت مقابلے میں اس کے بہت سارے ساتھی مارے گئے، اس دوران ابوالخطاب کو گرفتار کیا گیا، حاکم کوفہ نے حکم دیا کہ فرات کے کنارے ’’دار الرزق‘‘ میں اس کے پیروکاروں کے ساتھ سولی پر لٹکایا جائے۔ اس کے بعد ان کے جسموں کو جلایا گیا اور ان کے سروں کو منصور دوانقی کے پاس بھیجا گیا، اس نے حکم دیا کہ تین دن تک ان سروں کو بغداد کے دروازے پر لٹکایا جائے اور پھر آگ میں جلایا جائے۔(۴۵)
زرارہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ بیان یا بنان پر لعنت کرے، بنان (اللہ کی لعنت ہو اس پر) نے میرے باپ پر جھوٹ اور افتراء باندھا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے باپ علی ابن الحسینؑ عبد صالح تھے۔"(۴۶) بیان بن سمعان تمیمی نھدی غلات کا سرغنہ تھا، اس کے پیروکاروں کو بیانیہ کہا جاتا ہے، اس کا نام بنان بن سمعیان فھدی اور تمیمی بھی آیا ہے، یہ شخص امام زین العابدین ؑاور محمد باقر ؑکا معاصر تھا۔(۴۷) اس نے پہلے تو اپنے آپ کو ابو ہاشم عبد اللہ ابن محمد بن حنفیہ کا جانشین کہا، پھر غلو کیا اور علی ؑ کو خدا سمجھا اور تناسخ اور رجعت کا عقیدہ اپنایا۔(۴۸) پھر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور امام محمد باقر ؑکو خط لکھا کہ تو اسلام قبول کر اور امان میں رہ، بلند ہو جا اور نجات اور کامیابی پالے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کو کہاں رکھا ہے اور رسول کا فرض صرف پہنچا دینا ہے، جس نے کسی کو ڈرایا، اس نے عذر کو برطرف کر دیا۔ امام ؑنے اس کے خط لانے والے عمر و بن عفیف ازدی کو مجبور کیا کہ وہ خط نگل لے۔ پس اس نے خط کھایا اور مرگیا۔(۴۹) آخرکار انہوں نے مسجد کوفہ میں ہنگامہ برپا کیا۔ خالد بن عبداللہ قسری نے اسے اور اس کے پندرہ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، انہیں رسی سے باندھ کر ان پر تیل چھڑکا گیا اور انہیں آگ لگا دی گئی۔ یہ واقعہ ۱۱۹ ہجری کو رونما ہوا۔(۵۰)
غالیوں کیخلاف امام صادق ؑکی جدوجہد:
امام صادق ؑکے دور میں غلاۃ کا مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا، اسی کے پیش نظر امام نے اپنے شاگردوں کے درمیان مختلف علوم کی تعلیم شروع کر دی، آپ کی علمی تحریک آفاقی ہوگئی اور آپ کے شاگردوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، آپ ؑ لوگوں کو ان علوم سے آگاہ کرنے لگے، جن سے وہ بالکل جاہل تھے اور جو کچھ اپنے آباء اور رسول اکرمﷺ سے سینہ بہ سینہ آپ کو ملا تھا، اسے لوگوں کے دلوں میں منتقل کرنے لگے۔ اس کے سبب سطحی اور سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ امام غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کا علم رکھنے والا الوہیت (خدائی) کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ بعض فتنہ پرور افراد نے سادہ لوح افراد کو آلہ کار بنایا، تاکہ لوگوں کے عقائد کی تخریب کے سلسلہ میں اپنی غرض کو پورا کرسکیں، جو ان کا اصلی مقصد تھا۔ یہ کام خاص طور پر ان لوگوں سے لے رہے تھے، جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تعلق سوڈان، زط وغیرہ سے تھا، جو اپنے آبائی عقائد لے کر آئے تھے، اس طرح سے بعض نے مادی اور روحانی احتیاج کے پیش نظر غلو کو اپنایا اور راہ حق اور صراط مستقیم سے دور ہوگئے اور امام صادقؑ کے بارے میں طرح طرح کے خرافات پھیلانے لگے۔
مالک ابن عطیہ نے امام صادق ؑکے بعض اصحاب سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن امام صادق ؑ بہت غیظ و غضب کی کیفیت میں باہر آئے اور آپ نے فرمایا: "میں ابھی اپنی ایک حاجت کے لیے باہر نکلا، اس وقت مدینہ میں مقیم بعض سوڈانیوں نے مجھ کو دیکھا تو ’’لبیک یاجعفر بن محمد لبیک‘‘ کہہ کر پکارا، تو میں الٹے پاؤں اپنے گھر لوٹ آیا اور جو کچھ ان لوگوں نے میرے بارے میں بکا تھا، اس کے لیے بہت دہشت زدہ تھا، یہاں تک کہ میں نے مسجد جا کر اپنے رب کا سجدہ کیا اور خاک پر اپنے چہرے کو رگڑا اور اپنے نفس کو ہلکا کرکے پیش کیا اور جس آواز سے مجھے پکارا گیا تھا، اس سے اظہار برات کیا، اگر حضرت عیسیٰ ؑ اس حد تک بڑھ جاتے، جو خدا نے ان کے لیے معین کی تھی تو وہ ایسے بہرے ہوگئے ہوتے کہ کبھی نہ سنتے، ایسے نابینا بن جاتے کہ کبھی کچھ نہ دیکھتے، ایسے گونگے بن جاتے کہ کبھی کلام نہ کرتے۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا: "خدا ابوالخطاب پر لعنت کرے اور اس کو تلوار کا مزہ چکھائے۔"(۵۱)
ابو عمرو کشی نے سعد سے روایت کی ہے، مجھ سے احمد بن محمد بن عیسیٰ، انہوں نے حسین ابن سعید بن ابی عمیر سے اور انہوں نے ہشام بن الحکم سے، انہوں نے امام صادق ؑسے روایت کی کہ امام نے فرمایا: "خدا بنان اور سری بزیع پر لعنت کرے، وہ لوگ سر تا پا انسان کی حسین صورت میں درحقیقت شیطان تھے۔" روای کہتا ہے کہ میں نے آپ ؑ سے عرض کی کہ وہ اس آیت :’’ھوا لذی فی السماء الہ و فی الارض الہ‘‘ وہ، وہ زمین و آسمان کا خدا ہے۔"(۵۲) کی یوں تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا خدا دوسرا ہے اور جو آسمان کا خدا ہے، زمین کا خدا نہیں ہے اور آسمان کا خدا، زمین کے خدا سے عظیم ہے اور اہل زمین آسمانی خدا کی فضلیت سے آگاہ ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم ان دونوں کا خدا صرف ایک اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ زمینوں اور آسمانوں کا رب ہے، بنان جھوٹ بول رہا ہے، خدا اس پر لعنت کرے، اس نے خدا کو چھوٹا کرکے پیش کیا اور اس کی عظمت کو حقیر سمجھا ہے۔"(۵۳)
کشی نے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ آپ نے اس قول پروردگار: ’’ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ ٭ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍٍ۔‘‘(۵۴) "کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں" کے بارے میں فرمایا: "وہ (جھوٹے و بدکردار) لوگ سات ہیں: مغیرہ بن سعید، بنان، صائد، حمزہ بن عمار زبیدی، حارث شامی، عبداللہ بن عمرو بن حارث، ابواالخطاب۔"(۵۵) کشی نے حمدویہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یعقوب نے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے عبد الصمد بن بشیر سے، انہوں نے مصارف سے روایت کی ہے، جب کوفہ سے کچھ لوگ آئے تو میں نے جا کر امام صادق ؑکو ان لوگوں کے آمد کی خبر دی، آپ فوراً سجدے میں چلے گئے اور زمین سے اپنے اعضاء چپکا کر رونے لگے اور انگلیوں سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ کر فرما رہے تھے، نہیں بلکہ میں اللہ کا بندہ اس کا ذلیل و پست ترین بندہ ہوں اور اس کی تکرار کرتے جا رہے تھے، جب آپ نے سر اٹھایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا، جو آنکھوں سے چل کر ریش مبارک سے بہہ رہا تھا، میں اس خبر دینے پر نہایت شرمندہ تھا، میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ ؐ ! میری جان آپ پر فدا ہو، آپ کو کیا ہوا اور وہ کون ہیں۔؟
آپ نے فرمایا: "مصادف! عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ جو کچھ کہہ رہے تھے، اگر اس کے سبب وہ خاموشی اختیار کر لیتے تو ان کا حق تھا کہ اپنی سماعت گنوا دیتے اور بصارت کھو دیتے، ابو الخطاب نے جو کچھ میرے بارے میں کہا، اگر اس کے سبب سکوت کر لوں اور اپنی سماعت و بصارت سے چشم پوشی کر لوں تو یہ میرا حق ہے۔"(۵۶) شیخ کلینی نے سدیر سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام صادق ؑکی خدمت میں عرض کی کہ ایک گروہ ہے، جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ ہی خدا ہیں اور اس کے ثبوت میں اس آیت :’’ھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ۔‘‘(۵۷) کو ہمارے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ آپ ؑنے فرمایا: "سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور رواں رواں ان لوگوں سے بیزار ہے اور خدا بھی ان سے بیزار ہے، وہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں ہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ غضب و عذاب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔"(۵۸)
روای کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول خدا ؐ ! ایک گروہ ایسا ہے، جو اس بات کا معتقد ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں: ’’یٰٓاَ یُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْ اصَالِحًا ٭ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم۔‘‘ ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ غذائیں کھاؤ اور نیک اعمال انجام دو کہ میں تمہارے نیک اعمال سے خوب با خبر ہوں۔‘‘(۵۹) آپ نے فرمایا: "اے سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور خون ان لوگوں سے اظہار برات کرتے ہیں، یہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ عذاب و غضب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔" روای کہتا ہے، میں نے عرض کی: فرزند رسول خدا پھر آپ کیا ہیں۔؟ آپ نے فرمایا: "علم الہیٰ کے خزانہ دار، احکام الہیٰ کے ترجمان اور معصوم قوم ہیں، اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے اور ہماری نافرمانی سے منع کیا ہے، ہم زمین پر بسنے والے اور آسمان کے رہنے والوں کے لیے حجت کامل ہیں۔"(۶۰)
مغیرہ بن سعید غلو کرنے والے گروہ کا ایک فرد تھا، جو سحر و جادو کے ذریعے سادہ لوح اور عام فکر کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا، پھر ان لوگوں کے لیے آئمہ اہل بیتؑ کے حوالے سے غلو کو آراستہ کر دیتا تھا۔ امام صادق ؑنے اس غالی شخص کی حقیقت اپنے اصحاب کے سامنے واضح کر دی۔ ایک دن اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: "خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے اور اس یہودیہ پر لعنت کرے، جس سے وہ مختلف قسم کے جادو، ٹونے اور کرتب سیکھتا تھا۔ مغیرہ نے ہماری طرف جھوٹی باتوں کو منسوب کیا ہے، جس کے سبب خدا نے اس سے نعمت ایمان کو لے لیا۔ ایک گروہ نے ہم پر جھوٹا الزام لگایا تو خدا نے ان کو تلوار کا مزہ چکھایا۔ خدا کی قسم ہم کچھ نہیں، صرف اللہ کے بندے ہیں۔ اس نے ہم کو خلق کیا اور انتخاب کیا، ہم کسی کے فائدہ اور نقصان پر قادر نہیں ہیں، اگر کچھ ہے تو رحمت الہیٰ ہے، اگر کوئی مستحق عذاب ہے تو اپنی غلطیوں کے سبب ہوگا۔ خدا کی قسم! خدا پر ہماری کوئی حجت نہیں، ہم مرنے والے ہیں، قبروں میں رہنے والے، محشور کیے جانے والے، واپس بلائے جانے والے، روکے جانے والے اور سوال کیے جانے والے ہیں۔ ان کو کیا ہوگیا ہے، خدا ان پر لعنت کرے، انہوں نے خدا کو اذیت دی اور رسول اکرمﷺ کو قبر میں اذیت دی اور امیر المومنین و فاطمہ زہراء، حسن، حسین بن علی کو اذیت دی ہے۔
آج کل تمہارے درمیان میں ہوں، جو رسول اکرم کا گوشت پوست ہوں، لیکن راتوں کو جب کبھی بستر استراحت پر جاتا ہوں تو خوف و ہراس کے عالم میں سوتا ہوں، وہ لوگ چین و سکون کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں دہشت و جبل کے درمیان لرزہ بر اندام ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جو کچھ میرے بارے میں بنی اسد کے غلام اجرع براد اور ابوالخطاب نے کہا: خدا اس پر لعنت کر ے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ ہمارا امتحان لیتے اور ہم کو اس کا حکم دیتے تو واجب ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ لوگ ہم کو خائف و ہراساں پا رہے ہیں۔؟ ہم ان کے خلاف اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں فرزند رسول ؐ خدا ہوں، اگر ہم نے آپﷺ کی اطاعت کی تو اللہ ہم پر رحمت نازل کرے اور اگر آپﷺ کی نافرمانی کی تو ہم پر شدید عذاب نازل کرے۔"(۶۱)
امام صادق ؑ نے غلاۃ کی جانب سے دی گئی ساری نسبتوں کی نفی کی ہے، مثلاً علم غیب، خلقت، تقسیم رزق وغیرہ۔ ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کی یا بن رسول اللہﷺ! وہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ بارش کے قطرات، ستاروں کی تعداد، درختوں کے پتوں، سمندر کے وزن، ذرات زمین کا علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "سبحان اللہ! خدا کی قسم، خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا۔" آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ آپ بندوں کے رزق تقسیم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ہم سب کا رزق صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے، مجھ کو اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے کی ضرورت پڑی تو میں کشمکش میں مبتلا ہوا، میں نے سوچ بچار کے ذریعے ان کی روزی فراہم کی، اس وقت میں مطمئن ہوا۔"
زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق ؑسے عرض کی کہ عبد اللہ بن سبا کے فرزندوں میں سے ایک تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض سے کیا مراد ہے۔؟ میں نے کہا: کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد ؐو علی ؑ کو خلق کیا، اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض (حوالے) کر دیئے، لہذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ دشمن خدا جھوٹ بولتا ہے، جب تم اس کے پاس جانا تو اس آیت کی تلاوت کرنا:
’’ اَمْ جَعَلُوْ الِلّٰہِ شُرَکَآئَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَا بَہَ الخلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھّار۔‘‘(۶۲) "یا ان لوگوں نے اللہ کے لیے ایسے شریک بنائے ہیں، جنہوں نے اس کی طرح کائنات خلق کی ہے اور ان پر خلقت مشتبہ ہوگئی ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ ہی ہر شی کا خالق ہے، وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔‘‘ میں واپس گیا اور جو کچھ امام ؑنے فرمایا تھا، وہ پیغام سنا دیا تو گویا وہ پتھر کی طرح ساکت ہوگیا یا بالکل گونگا ہوگیا۔ مفضل روای ہیں کہ امام صادق ؑ نے ہم سے ابو خطاب کے اصحاب اور غلاۃ کے حوالے سے فرمایا: "اے مفضل! ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے وراث بنو اور نہ ان کو اپنا وارث بناؤ۔"(۶۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ الصحاح: ج ۴، ص۲۴۴۸۔۲۴۴۹، تاج العروس، ج۱۰، ص۲۶۹۔۲۷۰مفردات القرآن: ج۲، ص۷۶۳
۲۔ التفسیر الکبیر، ج۱۲، ص۶۲، لسان العرب، ج۷، ص۳۶۸، فیروز آبادی، قاموس المحیط، ج۲
۳۔ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۲۳۰
۴۔ ابو الحسن اصفہانی، صراط النجاۃ، ج ۱، ص۷۷، خمینی، تحریر الوسیلہ، ج،۱، ص۱۱۸، جعفر سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ص۴۰۹
۵۔ سورۂ النساء، آیت۱۷۱
۶۔ طبری، جامع البیان، ج ۶، ص۲۴۔۲۵ شیخ طوسی، التبیان ج۳، ص۳۹۹۔۴۰۳ ابن کیثر، تفسیر القرآن العظیم، ج،۱، ص۵۸۹۔۵۹۰، ابو حیان البحر المحیط، ج۳، ص، ۴۰۰،۴۰۲
۷۔ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۱۴۴
۸۔ ابو الفتوح رازی تفسیر شیخ ابو الفتواح رازی: ج۴، ص۷۷۔۷۹، طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۱۴۴
۹۔ قرطبی، الجامع، ج۶، ص۲۱، طبرسی، مجمع البیان ج۲، ص۱۴۴
۱۰۔ ابو حیان، البحر المحیط، ج۳، ص۴۰۰،۴۰۲، تفسیر شیخ ابو الفتوح رازی۔ ج،۴ ص۷۷۔۷۹
۱۱۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج،۱، ص۵۸۹۔۵۹۰
۱۲۔ سورہ ٔمائدہ؍۷۷
۱۳۔ ابن کثیر تفسیرالقرآن العظیم، ج۲، ص۸۲، طبری جامع البیان: ج ۶، ص۲۰۴، قرطبی الجامع: ج۶، ص۲۵۳، کاشانی، منہج الصادقین، ج۳، ص۲۸۸
۱۴۔ سورۂ توبہ،۳۰
۱۵۔ سورۂ توبہ،۳۰
۱۶۔ سورۂ مائدہ،۷۲
۱۷۔ صحیح البخاری، باب المناقب
۱۸۔ بحار: ج ۲۵، ص۲۶۲، الدرالمنثور: ج۲، ص۴۶،۴۷ مجمع البیان: ج ۱، ص۴۶۶
۱۹۔ بحار ج،۲۵، ص۲۶۵
۲۰۔ بحار ج ۲۵، ص۲۶۸۔۲۶۹، حمیری قرب الاسناد، ص۳۱، صدوق، خصال، ج،۱ ص۶۳
۲۱۔ بحار الانوار، ج۲۵، ص۳۴۶
۲۲۔ اعتقادات۔ ص۷۱
۲۳۔ تصحیح الاعتقاد، ص۱۰۹
۲۴۔ انوار الملکوت: ص۲۵۲
۲۵۔ المعتبر، ج،۱، ص۹۸
۲۶۔ مستند الشیعہ، ج،۱، ص۲۰۴
۲۷۔ مستند الشیعہ، ج،۱، ص۲۰۴
۲۸۔ مصباح الفقیہ: ج۹، ص۵۶۸
۲۹۔ تحریر الوسیلہ ج۱، ص۱۱۸
۳۰۔ رجال کشی، ج،۱، ص۲۲۳ شمارہ ۱۷۰۰؛ رجال طوسی، ص۵۱، رجال ابن داود، ص۲۵۴
۳۱۔ بحار، ج۲۵، ص۲۶۶۔۲۶۵ ابن شاذان، ایضاح دفائن النواصب، ص۳۳
۳۲۔ بحار، ج،۲۵، ص۲۸۵، مناقب ابن شہر آشوب، ج،ا، ص۲۶۴
۳۳۔ امالی شیخ طوسی، ص۶۵۴، بحار ج ۲۵، ص۲۶۶، مناقب ابن شہر آشوب، ج،۱، ص۲۶۳
۳۴۔ بحار، ج،۲۵، ص،۲۷۰، خصال، ج۲، ص۶۱۴
۳۵۔ اصول کافی، ج،۱، ص۸۹
۳۶۔ الکامل: ج ۳، ص۱۵۴، تہذیب تاریخ ابن عساکر، ج۷، ص۴۲۸۔ تاریخ طبری۔ ج۲، ص۶۴۸
۳۷۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۲۳۔ بحار ج۲۵، ص۲۸۶، قاموس الرجال ج ۵، ص۴۶۱
۳۸۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۲۵، شرح نہج البلاغہ (حدیدی) ج ۵، ص،۵ الوافی ج ۲، ابواب الحدود، ص۷۰
۳۹۔ بحار ج ۲۵، ص۲۸۵، مستدرک الوسائل: ج ۳، ص۳۴۳، مناقب شہر آشوب، ج۱، ص۲۶۵
۴۰۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۳۶، بحار ج۲۵، ص۲۸۳، منھج المقال ص۳۵۵
۴۱۔ بحار، ج،۲۵، ص۳۱۸۔۳۱۹، رجال کشی ج ۲، ص۸۱۰۔۸۱۱، قاموس الرجال ج۸، ص۴۰۱
۴۲۔ الانساب ج۵، ص۱۶۱، الکنی والا لقاب ج۱، ص۶۴
۴۳۔ الملل ونحل: ج۱، ص،۱۳۶،۱۳۷، الفریق بین الفرق، ص۱۵۰۔ منہاج السنۃ، ج،۱، ص۲۳۹
۴۴۔ فرق الشیعہ ص۶۹،۱۰۵۔ مقالات الاسلامیین ج،۱، ص۷۷، الفرق المتفرقہ ص۴۲
۴۵۔ المقالات والفرق، ص۸۱۔۸۲ فرق الشیعہ، ص۱۰۳، ۱۰۵
۴۶۔ مقیاس الھدایۃ ص۸۹، رجال کشی ج۲، ص۵۹۰، بحار ج۲۵، ص۲۷۱،۲۷۰
۴۷۔ الانساب ج۲، ص۳۸۶،۳۸۱؛ قاموس الرجال ج۲، ص۴۶۔۲۴۷
۴۸۔ الفرق الاسلامیہ ص۳۵
۴۹۔ فرق الشیعہ ص۸۵، الملل والنحل ج۱، ص۱۱۴ قاموس الرجال، ج۲، ص۲۴۷
۵۰۔ الکامل: ج ۵، ص۲۰۸، المقالات والفرق، ص۳۳، فرق الشیعہ ص۵۰
۵۱۔ الکافی، ج۸، ص۲۲۶
۵۲۔ سورہ زخرف،۸۴
۵۳۔ رجال کشی، ج۴، ص،۵۹۲
۵۴۔ سورئہ شعراء آیت ۲۲۲،۲۲۳
۵۵۔ اصول کافی، ج،۱، ص۲۶۹
۵۶۔ رجال کشی، ج۴، ص۵۸۸
۵۷۔ سورئہ زخرف، آیت۸۲
۵۸۔ مقیاس الہدایۃ، ص۸۹، رجال کشی، ج۲، ص۵۹۴، بحار ج۲۵، ص۲۹۸
۵۹۔ سورہ مومنون، آیت ۵۱
۶۰۔ اصول کافی، ج۱، ص۲۶۹
۶۱۔ رجال کشی، ج۲، ص۴۹۱،۴۹۲، بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۸۹۔۲۹۰
۶۲۔ سورئہ رعد، آیت۱۶
۶۳۔ رجال کشی، ج۲، ص۵۸۶، بحار، ج۲۵، ص۲۹۶، تنقیع المقال، ج۳، باب مقاتل، ص۲۴۴
٭٭٭٭٭٭
مراجع و مصادر:
۱۔ ابن شاذان، محمد بن احمد(نویں صدی) ایضاح دفائن النواصب والمناقب المائۃ النجف مکتبۃ الحیدریہ
۲۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی (م،۵۸۸)المناقب، قم، موسسہ انتشارات علاقہ
۳۔ ابن عساکر، علی بن حسن (م،۵۷۱) تاریخ مدینہ دمشق، دار البشیر
۴۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر (ما۔۷۷۴ھ) تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارلفکر،۱۹۷۰ء
۵۔ ابن منظور، محمد بن مکرم (م۔۷۱۱ھ) لسان العرب، قم، نشر ادب الحوزہ، ۱۴۰۵ہجری
۶۔ ابوحیان، محمد بن یوسف (م۔۷۵۴) تفسیر البحر المحیط ، ۱۴۰۳ہجری ۔۱۹۸۳ء بیروت دارلفکر
۷۔ استر آبادی، محمد بن علی (م۱۰۳۸) نہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، تعلیق
۸۔ محمد باقر بن محمد اکمل، مطبعہ محمد حسین طہرانی، ۱۳۰۰ہجری
۹۔ اشعری سعد بن عبداللہ، (م،۳۰۱) المقالات والفرق، تصحیح و تعلیق محمد جواد مشکور مرکز انتشارات علمی و فرہنگی 1361 ہجری تیسری بار اشاعت)
۱۰۔ اصفہانی ابو الحسن (۱۳۲۵) صراط النجاۃ، حاشیہ ابراہیم حسینی اصطھباناتی تصحیح ابوا القاسم شرافت، تہران چاپ خانہ اسلامیہ ۱۳۷۷ء ہجری اشاعت دہم
۱۱۔ بخاری، محمد بن اسماعیل (م۔۲۵۶) صحیح البخاری شرح و تحقیق شیخ قاسم اشمای الرفاعی، بیروت، دارالقلم لبقہ الاولی ۱۹۸۷ء
۱۲۔ تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، تہران مرکز نشر الکتاب۱۳۸۲ ہجری
۱۳۔ جوہری، اسماعیل بن حماد (م۳۹۳) الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ انتشارات امیری، ۱۳۶۸ش، اشاعت اول
۱۴۔ حمیری عبداللہ بن جعفر (تیسری صدی) قرب الاسناد تہران مکتبۃ نینوی الحدیثہ
۱۵۔ خمینی، روح اللہ (م۔۱۴۱۰ہجری) تحریر الوسیلہ، بیروت، دارالانوار، ۱۴۰۳ ہجری ۱۹۸۲ء رازی فخرالدین (م۔۶۰۶) التفسیر الکبیر
۱۶۔ زبیدی واسطی، محمد مرتضیٰ (م۱۲۰۵) تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دامکتبہ الحیاۃ، ۱۳۰۶ اشاعت اول
۱۷۔ سبحانی، جعفر کلیات فی علم الرجال، قم مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۱۴۰۸ ہجری اشاعت دوم
۱۸۔ سمعانی، عبدالکریم بن محمد (م۔۵۶۲) الانساب، حیدر آباد دکن، مجلس دائرۃ المعارف
۱۹۔ سیوطی، جلال الدین (م،۹۱۱) الدارالمنثور فی التفسیر بائما ثور قم، مکتبہ اللہ العظمیٰ النجفی ۱۴۰۴ ہجری
۲۰۔ شہرستانی، محمد بن عبد الکریم (م۵۴۸) الملل والنحل، لاییزیک، اتوھا راس وتیز۱۹۲۳ء
۲۱۔ صدوق، محمد بن علی (م۳۸۱) الخصال، تصحیح و تعلیق علی اکبر غفاری، قم جماعۃ المدرسین فی الحوزہ العلمیہ، ۱۴۰۳ہجری
۲۲۔ طباطبائی، محمد حسین (م۱۴۰۲) المیزان فی تفسیر القرآن، تہران دارالکتب الاسلامیہ ۱۳۸۹ہجری دوسری اشاعت
۲۴۔ طبرسی، فضل بن حسن (م ۵۴۸) مجمع البیان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبہ آیۃ اللہ العظمیٰ المرعشی النجفی ۱۴۰۳ہجری
۲۵۔ طبری، محمد بن جریر(م۳۱۰) جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارا المعرفہ ۱۳۹۸ھ
۲۶۔ طوسی، محمد بن حسن (م۴۶۰) التبیان، تحقیق و تصحیح احمد حبیب قیصر عاملی، بیروت ۱۹۷۸ء تیسری اشاعت
۲۷۔ فیروز آبادی، محمد بن یعقوب (م۸۱۷) القاموس المحیط، بیروت دارالجلیل
۲۸۔ قرطبی، محمد بن احمد (م۶۷۱) الجامع لا حکام القرآن، دار الکتاب العربی ۱۳۸۷ھ ۔۱۹۶۷ء تیسری اشاعت
۲۹۔ قمی، عباس (م۱۳۱۹) الکنی والاتعاب، نجف منشورات مطبعہ حیدریہ، ۱۳۸۹، ہجری ۱۹۴۹ء
۳۰۔ کلینی، محمد بن یعقوب (م۳۲۹) الکافی، تصحیح، تعلیق علی اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیہ، تیسری اشاعت
۳۱۔ مبرد محمد بن یزید (م۲۸۵) الکامل تعلیق، محمد ابو الفضل ابراہیم فجالہ مکتبہ نہضۃ مصر ومطبعتھا
۳۲۔ مجلسی محمد باقر (م۔۱۱۱۱) بحار الانوار الجامعۃ لدرا الاخبار آئمۃ الاطہار، بیروت موسسہ الوفا ۱۴۰۳ ہجری ۱۹۸۳ء دوسری اشاعت
۳۳۔ کاشانی فتح اللہ (۹۸۸) منہج الصادقین فی الزام المخالفین متدم و حاشیہ ابوالحسن مرتضوی، تصحیح علی اکبر غفاری انتشارات علمیہ اسلامیہ
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
جامعۃ الرضا، بہارکہو اسلام آباد ٭٭٭٭٭٭