سلیمانی

سلیمانی

ماخذ: کتاب منزلت غدیر,حجۃ الاسلام والمسلمین محمد دشتی ؒ
مترجم : ضمیرحسین آف بہاول پور,مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام


علماء اہل سنّت نے روزِ غدیر سے لے کر آج تک اس موضوع پر مختلف قسم کے نظریات کا اظہار کیا ہے، بعض نے خاموشی اختیار کی تاکہ اس خاموشی کے ذریعے اس عظیم واقعہ کو بھول اور فراموشی کی وادی میں ڈھکیل دیا جائے، اور یہ حَسین یاد لوگوں کے ذ ہنوں سے محوہو جائے ،لیکن ایسا نہ ہو سکا ، بلکہ سینکڑوں عرب شاعروں کے اشعار کی روشنی میں جگمگا تا گیا جیسے عرب کا مشہور شاعر فرزدق رسولِ خد ا ا [ص] کی خدمت میں موجود تھا ۔
اس نے ا پنی فنکارانہ شاعری میں نظم کر کے اس عظیم واقعہ کو دنیا والوں تک پہنچا دیا، اور بعض نے حکّامِ وقت کی مدد سے سقیفہ سے اب تک تذکرہ غدیر پر پابندی لگا دی ا س کو جرم شمار کیا جانے لگا !کوڑوں ،زندان اور قتلِ عام کے ذریعے چاہا کہ اس واقعہ کو لوگ فرموش کر ڈالیں۔لیکن اپنی تمام تر کوششوں کی باوجود ناکام رہے ، ولایت کے متوالوں پر ظلم ڈھایا گیا انھیں قتل کیا گیا ،تازیانوں کی زد پررکھا گیا ، جتنا راہ غدیر کو خونی بنا یا گیا اُتنا ہی مقامِ غدیر اُجاگر ہوتا گیا اور آخر کار ان کا خون رنگ لایا اور شفق کی سرخی کے مانند جاوید ہو گیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلامُ اﷲِ علَیہا کی ہمیشہ یہ کوشش رہی بحث و مباحثہ اور مناظرات کے دوران غدیر کے موضوع پر بات کریں ، خود حضرت علی ۔ نے غدیر کی حساس سیاسی تبدیلیوں سے ،متعلق گفتگو کی اور میدان غدیر میں حاضر چشم دید گواہوں سے غدیر کے واقعہ کا اعتراف لیا، اور دوسرے ائمّۂ معصومین ؑ اور ولایت کے جانثاروں نے ا س دن سے لے کر آج تک ہمیشہ غدیرِ خُم کو اُجاگر کیا، اور پیامِ غدیر کو آ ئندہ نسلوں تک پہنچایا اب کوئی غدیر میں شک و تردد کا شکار نہیں ہو سکتااور نہ ہی اس کو جھٹلا سکتا ہے ۔

۱ ۔ دوستانہ نظریات
بعض اہل سنت مصنِّفین جو اس بات کو سمجھتے تھے کہ واقعۂ غدیر سورج کی طرح روشن و منوّر ہے اور جس طرح سورج کو چراغ نہیں دکھایا جاسکتا اُسی طرح اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہے اور اگر اِس کو نئے رنگ میں پیش نہیں کیا گیا تو غدیر کی حقیقت بہت سے جوانوں اور حق کے متلاشیوں کو ولایتِ علی ۔ کے نور کی طرف لے جائے گی ،تو وہ حیلہ اور مکر سے کام لینے لگے اور حقیقت غدیر میں تحریف کرنے لگے ،اور کہا کہ ! ہاں واقعۂ غدیر صحیح ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس دن رسولِ خداؐ کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کا اعلان کریں کہ (علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں) اور یہ جو آپ [ص] نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلٰاہُ آپ [ص] کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ( جو بھی مُجھے دوست رکھتا ہے ضروری ہے کہ علی ۔ کو بھی دوست رکھے )۔
اور یہیں سے وہ الفاظ کی ادبی بحث میں داخل ہوئے لفظِ ’’ ولی ‘‘ اور ’’ مولیٰ ‘‘ کاایک معنیٰ ( دوستی )اور( دوست رکھنے ) کے ہیں لہذا غدیر کا دن اس لئے نہیں تھا کہ اسلامی دنیا کی امامت اور رہبری کا تذکرہ کیا جائے بلکہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن تھا۔
اُنہوں نے اس طرح پیغامِ غدیر میں تحریف کر کے بظاہر دوستانہ نظریات کے ذریعہ یہ کوشش کی کہ ا ہلسُنّت جوانوں اور اذہانِ عمومی کو پیغامِ غدیر سے منحرف کیا جائے ،چنانچہ اپنی کتابوں میں اس طرح بیان کیا کہ اہلِسُنّت مدارس کے طالبِ علموں اور عام لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن ہے ، پس کوئی غدیر کا انکار نہیں کرتا اور رسولِ خدا [ص]نے اُس دن تقریر کی لیکن صرف علی ۔ کی اپنے ساتھ دوستی کا اعلان کیا اور اس بات کی تاکید کی کہ مسلمان بھی حضرت علی ۔ کو دوست رکھیں۔

۲ ۔ حقیقتِ تاریخ کا جواب:
واقعۂ غدیرکی صحیح تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غدیر خم صرف اعلان دوستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔


۱۔واقعۂ روزِغدیر کی تحقیق:
حقیقتِ غدیر تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ یہ ہے کہ غدیر کی تاریخی حقیقت اورواقعیّت میں تحقیق کی جائے ، حجۃُالوداع رسولِ گرامیِ اسلام [ص]کا آخری سفرِ حج ہے اس خبرکے پاتے ہی مختلف اسلامی ممالک سے جوق در جوق مسلمان آپ [ص] کی خدمت میں آئے اور بے مثال و کم نظیر تعداد کے ساتھ فرائض حج کو انجام دیا اور اسکے بعد سارے مسلمان شہرِ مکّہ سے خارج ہوئے اور غدیر خُم پر پہنچے کہ جہاں سے اُنہیں اپنے اپنے شہرو دیار کی طرف کوچ کرنا تھا ۔
اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خدا [ص]ایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ(۱) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپؐ نے اُونٹوں کے کجا ووں اور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپؐ کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] کا پیغام غور سے سنیں اور آپ [ص] یہ فرمائیں! ( ۱ ) واقعۂ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (۰۰۰،۹۰) سے ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ۱۸؍ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اؐکے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ۔ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں!
۱ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ۳ ص ۲۸۳ : حلبی :
۲ ۔ سیرۂ نبوی ، ج ۳ ص ۳ : زینی دحلان
۳ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ۴ : سیوطی (متوفّٰی ۹۱۱ ؁ ہجری)
۴ ۔ تذکرۃُخواص الاُمّۃ ، ص ۱۸ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ۶۵۴ ؁ ہجری)
۵ ۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۶۶ : طبرسی (متوفّٰی ۵۸۸ ؁ ہجری)
۶ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ۱ ص ۳۲۹/۳۳۲ حدیث ۱۵۴ : ثمر قندی
۷ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ۳۷ ص ۱۳۸ حدیث ۳۰ : علّامہ مجلسی
۸۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج ۳ حُرِّعاملی ص ۵۴۳ /۵۴۴ حدیث ۵۹۰/۵۹۱/۵۹۳ :
۹ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ۱ ص ۴۸۵ حدیث ۲ ، ص ۴۸۹ حدیث ۶ :بحرانی
۱۰ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ۱ ص ۲۹۷/۳۷۵/۴۰۴/۴۱۲/۴۴۱ : خواند میر
’’اے لوگو !میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ‘‘
پھر آپ [ص]کی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔
یہ اہم واقعہ کیا ہے؟
کیا صرف یہ ہے کہ آپ [ص] یہ فرمائیں ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ؟
کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟
کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟
پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟
کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] حضرت علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ۔ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟

۲۔فرشتۂ وحی کا بار بار نزول:
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوں ہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپ [ص] پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپ [ص] کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرت [ص]نے خود ارشاد فرمایا!۔
’’إِنَّ جِبْرَئےْلَ۔ھَبَطَ إِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَأْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَھُوَالسَّلٰامُ أَنْ أَقُوْمَ فِی ھٰذا الْمَشْہَدِ، فأُعْلِمَ کُلَّ أَبْےَضٍ وَ أَسْوَدٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طٰالِبٍ أَخِیْ وَ وَصِییّ وَ خَلِیفَتِی عَلٰی أُمَّتِیْ وَ الْإِمٰامُ مِنْ بَعْدِیْ أَلَّذِی مَحَلَّہٗ مِنِّیْ مَحَلَُ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلّٰا إنَّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ ھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَ قَدْ أَنْزَلَ اﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ
بِذٰ لِکَ آیَۃً مِنْ کِتٰابِہٖ!‘‘
(إِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اﷲُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوۃَ وَ ھُمْ رٰاکِعُوْنَ )(۱)
وَعَلِیُّ بْنَ أَبِیْطالِبٍ أَلَّذِیْ أَ قٰامَ الصَّلٰوۃَوَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَھُوَرٰاکِعٌیُرِیْد اﷲَ عزَّ وَجَلَّ فِیْ کُلّ حٰالٍ (۲)
جبرائیل ۔ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدیرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ۔ میرے بعد
..................
(۱)مائدہ، ۵/ ۵۵
(۲) حجّۃُالوداع کے موقع پر آپ [ص] کا خطبہ ( کتاب احتجاج طبرسی ،ج ۱، ص۶۶)



خطبہ کے مدارک و اسناد :
(۱) ۔ احتجاج ، ج ۱، ص ۶۶ : طبرسی
( ۲)۔ اقبا ل الاعمال ،ص۴۵۵: ابن طاؤوس
( ۳)۔ کتاب الیقین،باب۱۲۷: ابن طاؤوس
( ۴) التحصین ، باب۲۹: ابن طاؤوس
(۵)۔روضۃُالواعظین ،ص۸۹ :قتال نیشابوری
(۶)۔ البرہان،ج۱ ص۴۳۳:بحرانی
(۷)۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج۳ ص۲ : عاملی
(۸)۔ بحارُالانوار ، ج۳۷ص ۲۰۱:بحرانی
( ۹)۔ کشف المہم،ص ۵۱:بحرانی
(۱۰)۔تفسیرِ صافی،ج۲، ص۵۳۹:فیض کاشانی
آپ کے وصی خلیفہ اورتمہارے پیشوا ہیں ، انکا مقام میری نسبت ایسا ہی ہے جیسا مقام ہارون کا موسٰی ؑ کی نسبت تھا ،بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گاعلی ۔ خدا اور رسول [ص] کے بعد تمہارے رہنما ہیں خدا وندِ صاحب عزّت و جلال نے اپنی پا ک وبابرکت کتاب قرآنِ مجید میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے ولی اور سرپرست خدا،رسول [ص] اوروہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں ،نماز بپا کریں اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کریں یہ بات تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ علی ۔ نے نماز بپا کی اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کی اور ہر حال میں مرضیِ خدا کے طلبگار رہے ۔

۳۔ پیغمبر اکرم [ص] کی پریشانی:
اگر غدیر کا مقصد صرف علی ۔ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تواس پیغامِ الٰہی کے پہنچا دینے میں آپ [ص] کی پریشانی کا کیا سبب ہے؟آپ [ص] نے تین بار پس و پیش کیوں کی؟ اور جِبرَئیل ۔ کا مسلسل اصرار کرنا اور اس آیت کاپڑھناکہ(یٰا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکْ وَإِنْ لَمْ تَفْعَل فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ)(۱)
( اے پیغمبر [ص] !جو حکم خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیں اگر آج آپنے یہ کام انجام نہیں دیا تو گویا آپنے اپنی رسالت کو ادھورا چھوڑ دیا ۔(۲)
..................
(۱) مائدہ ۵/۶۷
(۲)بہت سارے مسلمان عُلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ! یہ آیۂ مبارکہ غدیر کے دن حضرتِ علی ۔ کی ولایت کے ا علان کے لئے نازل ہوئی۔
۱۔ الولایۃ فی طرق حدیث الغدیر : طبری
۲۔ ما نزل القرآن فی امیرالمؤمنین ۔ : ابو بکر فارسی ۳۔ ما نزل القرآن فی علی ۔ : ابو نعیم
۴۔ الدرایۃ فی حدیث الولایۃ : سجستانی
۵۔ الخصائص العلویّۃ : نطنزی
۶۔ تفسیر شاہی : محبوب العالم
۷۔ ارجح المطالب ، ص ۶۷/۶۸/۲۰۳/ ۵۶۶ : امرتسری
۸۔ اسباب النزول ، ص ۱۳۵ : واحدی
۹۔ تاریخ دمشق ، ج ۲ ، ص ۸۵ : ابن عساکر
۱۰۔ فتح القدیر ، ج ۳ ، ص ۵۷ : شوکانی
۱۱۔ مفاتیحُ الغیب ، ج ۱۲ : فخر رازی
۱۲۔ تفسیر المنار ، ج ۶ ، ص ۴۶۳ : رشید رضا
۱۳۔ حبیبُ السَّیر، ج ۲ ،ص ۱۲ : خواند میر
۱۴۔ الدرّ المنثور ، ج ۲ ص ۲۹۸ : سیوطی
۱۵۔ شواھدالتنزیل ، ج ۱، ص ۱۸۷ / ۱۹۲ : حسکانی
۱۶۔ فرائد ا لسّمطین : حموینی
۱۷۔ فصول المہمّۃ ، ص ، ۲۳ /۷۴ : ابن صبّاغ
۱۸۔ مطالب السؤول : ابن طلحہ
۱۹۔ ینا بیع المودّۃ : ص ،۱۲۰ قندوزی
۲۰ ۔ روح المعانی : ج ۲ ص، ۳۴۸ آلوسی
۲۱۔ عمدۃ القاری ، ج ۸ ، ص۵۸۴: عینی
۲۲۔ غرایب القرآن ، ج ۶، ص ۱۷۰ : نیشا بوری
۲۳ ۔: مودّۃ القربی : ھمدانی

یہ اتنا بڑااور اہم کام کیا تھا؟حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام تو کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا !اور یہ کام کسی خاص خطرہ کا حامل بھی نہیں تھا کہ رسول خدا [ص] کو اتنا پریشان کرتا یہاں تک کہ ۳ بار حضرت جبرئیل ۔ نازل ہوں اور آپ [ص] اس کام کو انجام دینے سے عذر خواہی کریں ،اس بات کا اظہا ر خود آپ [ص] نے اس دن کے خطبہ میں کیا !
وَسَأَلْتُ جِبْرَءِیْل ۔أَنْ یَسْتَعْفِیَ لِیَ السَّلٰامَ عَنْ تَبْلِیْغِ ذٰلِکَ إِلَیْکُمْ؛ أَیُّہَاالنّٰاسُ؛ لِعِلْمِیْ بِقِلَّۃِ الْمُتَّقِیْنَ وَکَثْرَۃِالْمُنٰافِقِیْنَ ، وَإِدْغٰالَ الا ثْمِیْنَ وَحِیَلِ الْمُسْتَہْزِءِیْنِ بِالاِسْلٰامِ أَلَّذِیْنَ وَصَفَھُم ُ اﷲ فِیْ کِتٰابِہ:
(بِأَنَّہُمْ یَقُوْ لُوْنَ بِأَلْسِنَتِہِمْ مٰالَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَیَحْسَبُوْنَہ ھَیِّناً وَ ھُوَ عِنْدَاﷲِ عَظِیْمٌ)(۱)
وَکَثْرَ ۃِ أَ ذٰا ھُمْ لِیْ غَیْرَ مَرَّۃِ ، حَتّیٰ سَمُّوْنِی أُذُناً، وَزَعَمُوْاأَنِّیْ کَذٰلِک لِکَثْرَۃِ مُلٰازِمَتِہ اِ یّٰایَ، وَإِقْبٰالِیْ عَلَیْہِ، وَھَوٰاہُ وَقَبُوْلِہٖ حَتّیٰ أَنْزَلَ اﷲُ عَزَّ وجَلَّ َفِیْ ذٰلِکَ قُرْآناً
( وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیََقُوْلُوْنَ ھُوَأُذُ نٌ قُلْ أُذُنٌخَیْرٍلَکُم )(۲)
وَلَوْ شِءْتُ أَنْ أُسَمِّیَ القٰاءِلیْنَ بِذٰلِکَ بِأَسْمٰءِھِمْ لَسَمَّیْتُ، وَإِنْ أَوْمَیءَ إِلَیْھِمْ بِأَعْیٰانِھِمْ لاَوْمأْتُ،وَأَنْ أَدُلَّ عَلَیْھِمْ لَدَلَلْتُ،وَلٰکِنِّیْ وَاﷲِ فِیْ أُمُوْرھِمْ قَدْ تَکَرَّمْتُ۔
میں نے جبرَئیل ۔ سے درخواست کی کہ مجھے علی ۔ کی ولایت کے اعلان سے معاف رکھے کیوں کہ اے لوگو !میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ،پرہیزگار بہت کم اور منافقوں کی تعداد
..................
(۱) نور،۲۴/۱۵
(۲) توبہ / ۶۱

بہت زیادہ ہے ، مکّار گنہگار اور اسلام کا مذاق اڑانے وا لے موجود ہیں وہ لوگ کہ جن کے بارے میں خدا وندِعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا: (وہ لوگ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن پر دل میں یقین نہیں رکھتے اور انکا خیال یہ ہے کہ یہ آسان اور بہت سادہ سی بات ہے جبکہ منافقت خدا کے نزدیک سب سے بڑاگناہ ہے )
ان منافقوں نے بارہا مجھے تکلیف پہنچائی یہاں تک کہ مجھ پر تہمتیں لگائیں اور کہا کہ ( پیغمبر ؐ معاذاﷲ دوسروں کے کہنے پر عمل کرتے ہیں اور اس میں انکا اپنا کوئی ا رادہ شامل نہیں ہوتا) کیونکہ! میں ہمیشہ علی ۔ کے ساتھ تھا اور وہ زیادہ تر میری توجّہ کے مرکز تھے لہٰذا منا فقین حسد کی وجہ سے اس بات کو تحمّل نہ کر سکے یہاں تک کہ خداو ندِ بزرگ و بر تر نے ایک آیت نازل کی جسکے ذریعہ اُنکی ان بیہودہ باتوں کامُنہ توڑ جواب دیا فرمایاکہ:( بعض منافقین ، پیغمبر [ص] کو تکلیف پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سرا پاگوش ہیں، اے رسول کہدو کہ پیغمبر اچھی باتیں سننے والا ہے یہی تمہارے لئے بہتر ی ہے) اگر ابھی چاہوں تو منافقوں کونام اور پتے کے ساتھ پہچنوا دوں، یا انکی طرف ا نگلی کا اشارہ کر دوںیا لوگوں کو انکو پہچاننے کے لئے راہنمائی کردوں توجو چاہوں کر سکتا ہوں لیکن خداکی قسم میں ان کیلئے کریم ہوں اور بزرگواری سے کا م لیتا ہوں(۱)
اگر اُس دن پیغمبر [ص] حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام نہ پہنچاتے تو آپ [ص] کی رسالت پر کیا حرف آتا ؟یہ کام ایسا کونسا کام ہے کہ اگر پیغمبر گرامی [ص] انجام نہ دیں تو انکی رسالت نا مکمّل رہ جائے گی؟ اور پھر فرشتۂ وحی آ نحضرت [ص] کی تسلّی کے لئے پیغام الٰہی لے کر آئے کہ ( وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )(۲)
..................
۱۔ یہ آنحضرت [ص] کے حجّۃُ الوداع کے موقع پر معروف خطبہ کا کچھ حصّہ ہے مکمّل خطبہ اس کتاب کے آ خر میں اسناد و مدارک کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے رجوع فرمائیں:
(۲)مائدہ ۵/۶۷

( خدا آپ [ص] کو انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا )
وہ رسول جن پر آغاز بعثت سے لے کر حجّۃُ الوداع تک کبھی بھی خوف غالب نہیں آیا ،ہمیشہ میدان جنگ میں موجود رہے (۱) کارِ رسالت کے مشکل اور کٹھن راستے میں آپ [ص] کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوئے اب آ پ [ص] کو کیا بات پریشان کئے ہوئے ہے ؟
آپ [ص] کو کونسا کام انجام دینا ہے کہ جسکے انجام دینے میں آپ [ص] دشمن کے مخالفانہ پروپیگنڈے، منکروں کے انکار ،کافروں کے کفر اور منافقوں کے نفاق سے خوفزدہ ہیں اور تین بارجبرَئیل ۔ سے اس کام کو انجام نہ دینے کی درخواست کرتے ہیں ؟
پیغمبر [ص] تو کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے ،اور وحیِّ الہی کے پہنچانے میں ایک لحظہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے تھے،حقیقت میں پیغمبر [ص] أُمّت کے بکھر جانے سے خوفزد ہ تھے،رسولِ اکرم [ص] کوداخلی اختلاف اور جھگڑوں کا ڈر تھاکہ کہیں لوگ آپ [ص] کے مقابلہ میں کھڑے نہ
..................
۱ ۔آنحضرت [ص] کی شجاعت اور خط شکنی کے سلسلے میں امیرُالمؤمنین ۔ نے فرمایا:
( کُنَّا إِذَا أحْمَرَّالْبَأْسُ أتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اﷲِ [ص]،فَلَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنَّاأَقْرَبَ إِلَیٰ الْعَدُوِّمِنْہُ )
(جب بھی شعلۂ جنگ بھڑکتا ہم رسولِخدا [ص] کی پناہ میں چلے جاتے تھے کیوں کہ ایسے نازک وقت میں ہم لوگوں میں سب سے زیادہ رسولِخدا [ص] دشمن کے نزدیک ہوتے تھے ۔ )
۱۔ کشف الغمۃ : مرحوم اربلی( متوفیٰ ۶۸۹ ھ)۔۔۔
۔۔۔۲۔غریب الحدیث ، ج۲ ص۱۸۵ : ابن سلام ( متوفیٰ ۲۲۳ھ )
۳۔کتاب النہایۃ ، ج۱ ص ۸۹ ، ۴۳۹ : ابن اثیر ( متوفیٰ ۶۳۰ھ )
۴۔تاریخ طبری ، ج۲ ص۱۳۵ : طبری ( متوفیٰ ۳۱۰ھ )
۵۔بحار الانوار ، ج۵ ص ۲۲۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )
۶۔بحار الانوار ، ج۱۶ص ۱۱۷، ۲۳۲، ۳۴۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )

ہوجائیں اور آپ [ص] کی کہیں موجودگی میں امّت کے درمیان خونریزی شرو ع نہ ہو جائے، احترام جاتا رہے،جو کچھ جہاد کی قربانیوں اور شہادتوں سے حاصل ہوا تھا بھلا دیا جائے آیا یہ سب کچھ حضرت علی ۔ سے دوستی کے اعلان کی وجہ سے تھا ؟ پیغمبر اکرم [ص]نے ماضی میں آغاز بعثت سے لے کر غدیر کے موقع تک بارہا و بارہا فرمایا تھا کہ میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ۔
یہ تو کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں تھا کہ امّت مسلمہ کی صفوں میں تزلزل اور دراڑ کا باعث ہو دوستی کا اعلان کوئی خاص اہمیت کا حامل مسئلہ نہ تھا کہ صاحب عزّت و جلال خدا اپنے پیغمبر اکرم [ص] کو اطمینان دلائے اور کہے کہ ( وَ اﷲُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)
اور تم ڈر و نہیں خداوند عالم آپ کو لوگوں کے شر سے محفو ظ رکھے گا اگر ہدف صرف یہ تھا کہ ’’دوستی کا ابلاغ ‘‘ ہو جائے تو پیغمبر اسلام [ص] نے حضرت علی ۔کا ہاتھ بلند کرکے انکی بیعت کیوں کی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا کہ حضرت علی ۔ کی بیعت کریں !! اور حاضرین میں سے مرد آدھی رات تک اور خواتین اگلے دن کی صبح تک حکم بیعت کی بجاآوری میں مشغول رہیں ۔ حضرت علی ۔ کی د وستی یا اسکا ابلاغ تو اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ بیعت طلب کی جائے اور لوگ بھی امتثال حکم کرتے ہوئے مشغول ہوجائیں ۔
پیغمبر اسلام [ص] مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حجاج کو ایک دن اور رات کے لئے غدیر خم کے میدان میں روکے رہیں صرف یہ کہنے کے لئے کہ ( اے لوگو ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ) آیا یہ دعویٰ قابلِ قبول ہے ؟
یہاں ایک سوا ل اور پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضرت علی ۔کی دوستی کے اعلان کے ساتھ دین کامل ہو جائے گا؟اگر پیغمبر گرامیِ اسلام [ص] روزِغدیر اپنے ساتھ علی ۔ کی دوستی کا اعلان نہ کرتے تو کیا دین ناقص تھا ؟ اور چونکہ اُس دن آپ [ص] نے لوگوں سے کہا کہ ( میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ) تو دینِ خدا کامل ہو گیا ؟ اور خدا کی نعمتیں لوگوں پر تمام ہو گئیں ؟ اور جیسا کہ بہت سارے شیعہ اور سُنّی علماء (۱) نے اس بات کااعتراف کیا ہے
غدیر کے دن آپ [ص] کے اعلانِ ولایت اور لوگوں کے بیعت کر لینے کے بعد ختمی مرتبت [ص] پر یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی !
( ا لْیَوْ مَ یَءِسَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِ یْنِکُمْ ، فَلاَ تَخْشَوْ ھُم وَاخْشَوْنِ،الْیَوْمَ أَکْمَلْت لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتٖی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلٰامَ دِیْناً )(۲)
(مسلمانوں ) اب تو کفّار تمہارے دین سے( پھر جانے سے ) ما یوس ہو گئے ہیں ، لھذا تم ان سے تو ڈرو ہی نہیں بلکہ صرف مجھ سے ڈرو آج ( غدیر کے دن )میں نے تمہارے دین کو مکمّل کر دیا اور تم لوگوں پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں ،اور تمارے اس دین اسلام کو پسندکیا غدیر کے دن ایسا کونسا کام انجام پایا کہ فرشتۂ وحی مذ کورہ آیت کوبشارت و خوشخبری کے سا تھ لیکر نازل ہوا ؟
وہ عظیم واقعہ کیا تھا کہ جس کی وجہ سے
الف۔ کافر دین کی نابودی سے مایوس ہو گئے ۔
..................

۱۔تمام مؤرّخوں اور بہت سارے اہلِ سنّت مفسِّروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سورۂ مبارکۂ مائدہ کی آیت شمارہ /۳ (الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) غدیر کے دن حضرت علی ۔ کی اعلانِ ولایت اور لوگوں کی بیعتِ عمومی کے بعدآنحضرت ؐپر نازل ہوئی ۔مورخوں اور مفسّروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں !
۱۔تاریخ دمشق ، ج۲ ص ۷۵ و ۵۷۷ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ۵۷۱ ؁ ھ )
۲۔ شواہدُ التنزیل ، ج۱ ص ۱۵۷ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ۵۰۴ ؁ ھ ) ۳۔ مناقب ،ص۱۹ : ابن مغازلی شافعی
۴۔ تاریخ بغداد ، ج۸، ص ۲۹۰ :خطیبِ بغدادی ( متوفّیٰ ۴۸۴ ؁ ھ )
۵۔ تفسیرِدرّالمنثور ،ج۲، ص ۲۵۹ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ؁ ھ )
۶۔ الإِتقان ، ج ۱، ص ۳۱ و۵۲ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ؁ ھ )
۷۔ مناقب ،ص۸۰ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ؁ ھ )
۸۔تذکرۃُ الخواص ، ص ۳۰ و ۱۸: ابن جوزی حنفی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ؁ ھ )
۹۔ تفسیرِ ابن کثیر ، ج۲ ،ص ۱۴ : ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ؁ ھ )
۱۰۔ مقتلُ الحُسین،ج۱ ، ص۴۷ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ؁ ھ )
۱۱۔ینابیعُ المودۃ، ص۱۱۵ : قندوزی حنفی
۱۲۔ فرائدُ السّمطین ،ج ۱ ،ص، ۷۲ و ۷۴ و۳۱۵: حموینی ( متوفّیٰ ۷۲۲ ؁ ھ )
۱۳۔ تاریخ یعقوبی ،ج ۲، ص ۳۵ : یعقوبی ( متوفّیٰ ۲۹۲ ؁ ھ )
۱۴۔ الغدیر ، ج ۱، ص ۲۳۰ : علّامہ امینی
۱۵۔ کتاب الولایۃ : ابن جریر طبری ( متوفّیٰ ۳۱۰ ؁ ھ )
۱۶۔ تاریخ ابن کثیر،ج۵، ص ۲۱۰ : ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ؁ ھ )
۱۷۔ مناقب ،ص ۱۰۶: عبداﷲِ شافعی
۱۸ ۔ ارجح المطالب ،ص ۵۶۸ : عبداﷲِ حنفی
۱۹۔ تفسیرِ روحُ المعانی ، ج۶ ص۵۵: آلوسی
۲۰ ۔ البدایۃ والنہایۃ ،ج۵، ص۲۱۳وج۷ ص ۳۴۹ :ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ؁ ھ )
۲۱۔ الکشف و البیان :ثعلبی ( متوفّیٰ ۲۹۱ ؁ ھ ) ۲۲۔بحارُ الانوار ،ج۳۷ باب ۵۲ : علّامہ مجلسی
اور بہت ساری تفاسیر اہل سنّت ، اور تمام شیعہ علماء کی تفاسیر جن کے ذکر کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔
(۲) مائدہ ۵/ ۳

ب ۔ جس کے بعد کافروں کی سازشوں سے نہ ڈرا جائے ۔
ج ۔ دین اسلام کامل ہوگیا۔
د۔ اﷲ کی نعمتیں پوری ہو گئیں ۔
ھ ۔ اسلام کے پائندہ رہنے کی ضمانت دی گئی ۔
کیا یہ سب کچھ صرف دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھا ؟
آیا اس قسم کے دعوے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول ہیں ؟
ہم غدیر کے پر نور خورشید کے مقابلے میں جہل کی تاریکی اور کینہ پروری کی پناہ کیوں لیں؟
بلکہ غدیر کاواقعہ تو کوئی بہت بڑا واقعہ ہونا چاہیے کہ جس نے آیاتِ الٰہی کے( بہت سی بشارتوں اور پیغاموں کے ساتھ) نزول کی راہ ہموار کی۔
اُس واقعہ کو تو بہت اہم واقعہ ہونا چا ہیے کہ جسکا نتیجہ ’’اکمالِ دین ‘‘ اور ’’ اتمامِ نعمت ہو۔
ایسا واقعہ کہ جس نے راہ رسالت کو رنگ جاویدانی بخشا اور آپ [ص] کی آغازِ بعثت سے لے کر ہجرت اور اسکے بعد کی زحمتوں کا پھل دیا۔
آیا یہ عظیم واقعہ ’’ عام مسلمانوں کا حضرت علی ۔ کی بیعت کرنے‘‘ کے علاوہ کچھ اور ہے؟ آیا یہ عظیم واقعہ ’’ حضرت علی ۔ اور انکے گیارہ بیٹوں کی ‘‘قیامت تک کے لئے بیعت عمومی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟
کیایہ عظیم واقعہ پیغمبر [ص]کے بعدسے قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے رہبراور پیشوا معیّن ہونے کے علاوہ کچھ اور ہے؟
یہ اہل سنّت مصنّفین، تاریخ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے کہ روزِ غدیر کے بعد کس قسم کے تلخ حوادث رونما ہوئے ؟
۵۔ آپ [ص] کے قتل کی نا کام سازش :
اگر پیغمبر [ص] کا ہدف غدیر کے دن صرف حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تو ایک گروہ نے آپ [ص] کے قتل کا ارادہ کیوں کیا ؟ اور مدینے کے راستے میں اپنے اس باغیانہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کیوں کی لیکن خدا وند عالم نے آپ [ص] کی حفاظت کی ؟ دوستی کا پیغام تو آپ [ص] کے قتل کا سبب نہیں ہو سکتا ؟
امیرُ المؤمنین ۔ کی ولایت کے مخالفوں نے سوچا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپؐ کو قتل کر دیا جائے ، اور اس قتل کوطبیعی موت ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے آپس میں سازش یہ کی کہ جب آپ [ص] کی سواری ’’ عقبہ‘‘ (جو کہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں بہت گہری گہری کھائیّاں ہیں) کے قریب پہنچے تو پتھر اور لکڑیاں وغیرہ ان کھائیّوں میں پھینکی جائیں جن سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں پیدا ہو ں گی جن آوازوں سے ڈر کر آپ [ص] کی سواری کسی گہری کھائی میں جا گرے گی۔ اور ہم تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو جائیں گے پھر کل سب لوگوں میں یہ بات مشہور کر دیں گے کہ آپ [ص] کی وفات کا سبب طبیعی حادثہ ہے ۔
پھر یہ سارے مخالفین تیزی سے اس مقام پر جمع ہوکر گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپ [ص] کی سواری کا انتظار کرنے لگے ،لیکن خدا وندِ عالم نے فرشتۂ وحی کو نازل کرکے اپنے حبیب [ص] کو دشمن کی اس سازش سے آگاہ فرما دیا،جب آپ [ص] کی سواری اس مقام کے نزدیک پہنچی تو آپ ؐ نے حذیفۂ یمانی اور عمّار یاسر سے کہا کہ اُن میں سے ایک اونٹ کی مھار تھامے اور ایک سواری کو ہنکائے، گھات لگائے ہوئے منافقوں نے جو کچھ بھی ہاتھ میں آیا کھائی کی طرف پھینکنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی خوفناک آوازوں سے اُونٹ کو ڈرانے کی کوشش کی ، لیکن خدا کی مدد آپ [ص] کے شامل حال رہی اور اُونٹ پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
اور اس طرح دشمن کی سازش ناکام ہوئی ، مگر یہ منافقین اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور جب اس سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو تلواریں لے کر پیغمبر گرامیِ اسلام ؐپر حملہ آور ہو گئے لیکن ان کے سامنے حذیفۂ یمانی اور عمارِ یاسر جیسے عاشقانِ ولایت تھے جن کے بے نظیر اور شجاعت سے بھرپور دفاع کے سبب اس سازش میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اب اگر یہ منافقین تھوڑی سی دیر کرتے تو قافلے میں شامل عاشقانِ ولایت سر پر پہنچ جاتے اور منافقوں کا کام تمام کر دیتے ۔
لہٰذا اب منافقین کے پاس فرار کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں تھا ، حذیفۂ یمانی نے پوچھا یا رسول اﷲ [ص] یہ کون لوگ تھے ؟ آپ [ص] نے فرمایا خود ہی دیکھ لو، اُس وقت بجلی چمکی اور منافقوں کے چہرے تاریکی کے پردے سے بے نقاب ہوئے اور حذیفہ نے اُن افراد کو آسانی سے پہچان لیا ! جن کی تعداد پندرہ (۱۵) ہے اور ان کے نام در ج ذیل کتب میں درج ہیں۔(۱)
۶۔ نفرین آمیز طو مار کا انکشاف :
روزِ غدیر پیغمبر [ص] کا ہدف صرف حضرت علی ۔ کی دوستی کا اعلان اور لوگوں سے حضرت علی ۔ کی بعنوان امام اور رہبربیعت لینا نہیں تھا تو ایک گروہ نے اس دن کے بعد اُمّتِ اسلامی کی امامت اور رہبری کے متعلّق مخفیانہ تحریر کیوں لکھی کہ جسکے ذریعہ رسولِ خدا [ص] کے بعد قدرت و حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں ؟
جب یہ گروہ آنحضرت [ص] کو قتل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو انہوں نے احتیاط کا دامن تھاما اور تا حیاتِ رسول خدا [ص] اس قسم کی حرکتوں
..................
(۱) کشف الیقین ، ص ۱۳۷ : علّامہ حلّی ۲۔ ارشادالقلوب ، ص ۱۱۲ و ۱۳۵ : دیلمی ۳۔ بحارالانوار ، ج۲۸ ص ۸۶ و ۴ ۱۱ : علّامہ مجلِسی

سے اجتناب کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ایک دوسرے گر وہ نے ولایتِ علی ۔ کی کھلّم کھلّا مخالفت کی ا ور اس طرح ایک تحریر لکھی جس پر بہت سارے لوگوں کے دستخط لئے تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کہ ہمار ی مخالفت بہت منظّم اور مستحکم ہے ۔
اس مقصد کے لئے ابو بکر کے گھر پر جمع ہوئے باہم گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک عہد نامہ لکھا جائے ،چنانچہ سعید بن عاص نے ایک عہد نامہ لکھا ، اس عہد نامے پر جن لوگوں نے دستخط کئے ان کے ناموں سے قریش اور امیرُالمؤ منین ۔ کے مخالفوں کے سینوں میں کینے اور بغض کی شدت ثابت ہو جاتی ہے ،ان ناموں میں سرِ فہرست ابو سفیان ، فرزندِ ابی جہل اورصفوان بن أُمیّہ جیسے نام دیکھنے میں آتے ہیں، یعنی مشرکوں اور کافروں کے سردار منافقوں ( نام نہاد مسلمانوں ) کے ہاتھوں میں ہاتھ دئے ہوئے ہیں تاکہ خورشیدِ ولایت کا انکار کیا جاسکے ۔
 

 

Wednesday, 05 August 2020 06:19

ولايت اور ہجرت

ررر



اقتباس از چھ تقريريں امامت و ولايت کے موضوع پر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي
ترجمہ سيد سعيد حيدر زيدي


ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں ۔پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيںمومنين کي صف ميںموجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘مومن اور غير مومن صفوںکے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے ۔
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس يت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات ا عليہ کے قصّے کي جانب
١۔تمہارا ولي امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت ِ رکوع ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
اشارہ کيا تھا ۔
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے۔کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘

مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں۔ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے۔ يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميںکي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے۔

انفرادي ہجرت
ايک انسان کو طاغوت اور شيطان کي ولايت کے تحت نے سے کيوںبچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ايک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہيں کہ پ فوراً اپنے ذہن ميں اس سوال کا اِس انداز سے تجزيہ و تحليل کيجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامي اور مذہبي تعليمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکيں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جيسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن ميں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کي گنجائش رہے گي۔
سوال يہ ہے کہ :کيا طاغوت کي حکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا ؟
کيا يہ ممکن نہيںہے کہ ايک مسلمان شيطان کي ولايت کے تحت زندگي بسر کرے ‘ ليکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ايسا ہوسکتا ہے يا نہيں ؟
کيا يہ ممکن ہے کہ: انساني زندگي کے تمام پہلوؤں اور اسکي حيات کے تمام گوشوں پر ايک غير الٰہي عامل کي حکمراني ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کي فکروں کي تنظيم و تشکيل اور اُن کا انتظام وانصرام ايک غير الٰہي عامل کے ہاتھ ميں ہو‘يہي غير الٰہي عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھي کبھي اِس رُخ پر اور کبھي اُس رُخ پر دھکيل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتي اور شيطاني عوامل کے قبضہ قدرت ميںزندگي بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھي ہو۔
کيا يہ چيزممکن ہے ‘يا ممکن نہيں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کي کوشش کيجئے اور اپنے ذہن ميں اِس کا جواب تيار کيجئے ‘ديکھئے يہ ہوسکتا ہے يا نہيں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دينے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزيہ وتحليل کرناضروري ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کيا يہ ممکن ہے کہ کوئي انسان شيطان کي ولايت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھي ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہيںاور ہميں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزيہ و تحليل کريں ‘ اور ديکھيں کہ اِن کے کيا معني ہيں ؟
پہلا جز يہ ہے کہ کوئي شخص شيطان کي ولايت کے تحت ہو۔
شيطان کي ولايت کے تحت ہونے کے کيا معني ہيں ؟
اگر ولايت کے اُن معني کو جو ہم نے يات ِقرني سے اخذ کئے ہيں ‘ ’’ولايت ِشيطان ‘‘ کي عبارت کے پہلوميں رکھيں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولايت ِ شيطان سے کيا مراد ہے ۔
ولايت ِ شيطان سے مراديہ ہے کہ شيطان (شيطان کے اُنہي مجموعي معني کے مطابق جنہيں ہم نے بارہا بيان کيا ہے ) انسان کے وجود ميںپائي جانے والي تمام توانائيوں ‘ صلاحيتوں ‘ تخليقي قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شيطان کے معين کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت ميں ہو جس کا تعين شيطان نے کيا ہے‘ اُس انسان کي طرح جو کوہساروں سے نيچے بہنے والے سيلاب کي لپيٹ ميں ہو۔ اس انسان کو يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ سخت اور کھردري چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ اس پاني ميں بہتے ہوئے گہرے گڑھے ميں جاپڑے ‘اُسے يہ بات پسند نہيںہوتي کہ پاني کي ان موجوں کے درميان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود يہ کہ اُسے پسند نہيں ہوتا ليکن پاني کا يہ تيز و تند ريلا بغير اُسکي مرضي کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھي مارتا ہے‘وہ کبھي اِس طرف اور کبھي اُس طرف سہارا بھي ليتا ہے ‘راستے ميں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کي کوشش بھي کرتا ہے ‘ليکن پاني کا تيز بہاؤ اُسے بے اختيار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان اسي قسم کي چيز ہے ۔
لہٰذا يت ِ قرن کہتي ہے:
’’وَجَعَلْنہُمْاٰا اَئِمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِ۔‘‘
’’ايسے رہنمااور قائدين بھي ہيں جو اپنے پيروکاروں اور زيرِ فرمان افراد کو دوزخ کي گ اور بد بختي کي طرف کھينچے لئے جاتے ہيں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ يت ٤١)
قرنِ مجيد کي ايک دوسري يت فرماتي ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کيا تم نے اُن لوگوں کو نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کا کفران کيا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کيا ‘کيا تھي؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کي قدرت کا مظہر ہے‘دنيوي طاقتيں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کي نعمت‘انسانوں کي بکثرت صلاحيتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ ميں رکھنے کي نعمت ‘ يہ سب کي سب چيزيں نعمت ہيں اور ايسے سرمائے ہيں جو انسان کے لئے خير کا سرچشمہ ہوسکتے ہيں ۔
اِ س يت ميں جن افراد کي جانب اشارہ کيا گيا ہے اُن کي فرمانروائي ميںزندگي گزارنے والاہر انسان ايک عظيم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترين درجات تک رسائي پاسکتاتھا۔ليکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کيااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہيںاستعمال نہيںکيا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپني قوم اور اپنے زيرِ فرما ن لوگوں کو نيستي و نابودي اور ہلاکت کے گڑھے کي طرف لے گئے)
جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہيں جہنم کي طرف لے گئے ‘ جس ميں الٹے منھ پھينکے جائيں گے اور يہ کيسي بُري جگہ اور ٹھکانہ ہے)
يہ يت امام موسيٰ ابن جعفر عليہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھي اور ہارون کو يہ بات باور کرائي کہ تو وہي شخص ہے جو اپني قوم کو اور اپنے پ کو بد ترين منزل اورمہلک ترين ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کيا تھا کہ کيا ہم کافر ہيں ؟ اُسکي مراد يہ تھي کہ کيا ہم خدا ‘ پيغمبر اور دين پر عقيدہ نہيں رکھتے ہيں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب ميں اِس يت کي تلاوت فرمائي ‘تاکہ اسے يہ بات ذہن نشين کراديں کہ کافر فقط وہي شخص نہيں ہوتا جو صاف اور صريح الفاظ ميں خدا کاانکار کرے‘ يا قرن کوجھٹلائے ‘ يا پيغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھيک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کي بہترين قسم سے ہے جو صريحاً اپني بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے ميںاپنے موقف کا اچھي طرح تعين کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظيم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے ميسّر ہيںاور اُنہيں غلط راستے ميں استعمال کرے ۔ايسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم ميںجھونک ديتا ہے ۔
طاغوت کي ولايت ايسي ہي چيز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کي ولايت ميںزندگي بسر کرتا ہے‘ اُسے گويااپنے اوپر کوئي اختيارحاصل نہيں ہوتا ۔ہماري مراد يہ نہيں ہے کہ وہ با لکل ہي بے اختيار ہوتا ہے ۔بعد ميں جب ہم يہ قرن کے معني بيان کريں گے‘ تو اس نکتے کي تفسير واضح ہوجائے گي۔ البتہ وہ شخص سيلابي ريلے کي زد پرہوتا ہے اوراُس ميں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ ليکن نہيں مار پاتا ‘ وہ ديکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کي طرف جارہے ہيں اور اُسے بھي اپني طرف کھينچ رہے ہيں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}ليکن بے بس ہوتا ہے{
کيا پ کبھي کسي مجمع ميں پھنسے ہيں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ايک طرف ہوجائيں ‘ ليکن مجمع پ کو ايک تنکے کي طرح اٹھا کر دوسري طرف پھينک ديتا ہے ۔
ايسا شخص جو طاغوت کے زيرِ ولايت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نيک بن جائے ‘ صالح زندگي بسر کرے ‘ ايک انسان کي طرح زندگي گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
ليکن ايسانہيں کر سکتا ۔
يعني معاشرے کا ريلا اسے کھينچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھي نہيں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھي ہے‘ توسوائے اپني قوت کے زياں کے اسے کچھ نتيجہ حاصل نہيں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہيں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھي زيادہ تکليف دہ بات يہ ہے کہ کبھي کبھي وہ اپني حالت کو بھي نہيں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہيں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتي مچھليوں کو ديکھا ہے يا نہيں ۔کبھي کبھي ايک جال ميں ہزاروں مچھلياں پھنس جاتي ہيں ‘ جنہيں سمندر کے وسط سے ساحل کي طرف کھينچ کر لاتے ہيں ‘ليکن اُن ميں سے کوئي مچھلي يہ نہيں جانتي کہ اُسے کہيں لے جايا جارہا ہے ‘ ہر ايک يہ تصور کرتي ہے کہ وہ خود اپنے اختيار سے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے ۔ليکن درحقيقت وہ بے اختيار ہوتي ہے ‘اُسکي منزل وہي ہوتي ہے جس کي جانب جال کا مالک وہ شکاري اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلي نظام کا غير مرئي جال انسان کو اس سمت کھينچتا ہے جس سمت اس جال کي رہنمائي کرنے والے چاہتے ہيں۔اس نظام ميں زندگي گزارنے والا انسان بالکل نہيں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھي کبھي تو وہ اپني دانست ميں يہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کاميابي کي منزل کي طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہيں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کي طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
يہ ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان ہے ۔
يہ پہلي عبارت اُن دو عبارتوں ميں سے ايک تھي جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال يہ تھا کہ کيا طاغوت اور شيطان کي ولايت اورحکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کي ولايت اور حکومت ميں زندگي گزارنے کو سمجھ ليا ہے۔ يعني يہ جان ليا ہے کہ اِس سے کيا مراد ہے۔اگر ہم اِسکي تفسير کرنا چاہيں ‘تو ايک مرتبہ پھر تاريخ کي طرف پلٹ سکتے ہيں ۔
پ ديکھئے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے ميں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ ديکھئے اُس دور کے اسلامي معاشرے ميں علم ودانش کي کيسي عظيم لہر اُٹھي تھي‘کيسے کيسے عظيم اطبّاپيدا ہوئے تھے ‘ زبان داني اور عموي علمي افلاس کے اُس دور ميں عالمِ اسلام ميں کيسے عظيم مترجمين پيدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قديم تہذيبوں کے عظيم ثار کو عربي زبان ميں ترجمہ کيااور اُن کي نشر و اشاعت کي ۔مسلمان تاريخ‘حديث ‘ علومِ طبيعي ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطيفہ ميںبھي انتہائي ممتازمقام کے مالک تھے ۔ يہاں تک کہ ج بھي جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کي مانند ايک شخص‘ ياکوئي اور مصنف اورمستشرق ان ظاہري باتوں کو ديکھتاہے ‘تو اسلام کي دوسري‘ تيسري اور چوتھي صديوںکو اسلام کے عروج کي صدياں قرار ديتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھي صدي ہجري ميںتاريخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ايک کتاب لکھي ہے ۔ايک ايسا تمدن جسے وہ ايک عظيم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھي صدي ہجري کواس عظيم تمدن کي صدي بيان کرتا ہے۔ مجموعي طور پر جب کوئي يورپي مستشرق دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکي وجہ يہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامي معاشرے ميںحيرت انگيزگرمياں‘ صلاحيتيں اورلياقتيں ظاہر ہوئي تھيں۔
ليکن ہم پ سے سوال کرتے ہيں کہ يہ تمام سرگرمياں اور صلاحيتيں‘جو اس دورميں ظاہر ہوئيں ‘ کيا ان کا نتيجہ اسلامي معاشرے اور انسانيت کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدياں گزر چکي ہيں‘اور ہم اس زمانے کے بارے ميں کسي تعصب کا شکار نہيں ہيں اور غير مسلم دنيا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کي بنياد رکھي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کي تشکيل کي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبيعيات کے ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام دئيے۔ ليکن کيا خود اپنے حلقوں ميں ہم حق و انصاف کے ساتھ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحيتوں کا نتيجہ ٹھيک ٹھيک ‘ برمحل اور انسانيت اور اسلامي معاشرے کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج دس صدياں گزرنے کے بعداسلامي معاشرے کے پاس اُس ميراث ميں سے کيا باقي ہے ؟ اور کيوں باقي نہيں ہے ؟
خر وہ علمي اورتہذيبي دولت ہمارے لئے کيوںباقي نہ بچ سکي ؟
ہم دس صدي پہلے کے اُس تابناک معاشرے کي طرح ج کيوںدنيا ميںدرخشاں اور جلوہ نما نہيں ؟ کيا اسکي وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمياں اور جلوہ نمائياں طاغوت کي حکمراني ميں رہتے ہوئے تھيں ۔

من ن نگين سليمان بہ ہيچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قيادتوں نے اسلامي معاشرے کے ساتھ کھيل کھيلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور يہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسي خليفہ کے دورِ اقتدار ميں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر يہ حکمراں طبيعيات ‘ رياضي‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے ميدانوں ميں علمي ترقي کي بجائے ‘فقط اتني اجازت ديتے کہ علوي حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کي حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامي معاشرے کي تمام قوتيں اور صلاحيتيں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ ميں جائيں‘ پورے اسلامي معاشرے کي سرگرميوں کاتعين امام جعفر صادقٴ کريں۔ اس صورت ميں اگر مسلمان علمي اور ادبي لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنيا ئے اسلام فخروناز کرتي ہے سو سال پيچھے بھي رہتے ‘ تب بھي يہ انسانيت کے فائدے ميں ہوتا۔ انسانيت ترقي کرتي‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامي معاشرے کي صلاحيتيں اور قوتيں صحيح راہ ميں استعمال ہوتيں۔ پھر يہ صورت نہ رہتي کہ کتابيں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے ميدانوں ميںترقي کو بامِ عروج پر پہنچا ديتے‘ ليکن انفرادي اور اجتماعي اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور ميںپايا جانے والا طبقاتي فرق ج بھي تاريخ ميں بطور يادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کي دنيا کے غليظ اور ذلت ميز تمدن کي طرح‘ کہ ج کي بڑي حکومتيں عقلوں کو دنگ کر دينے والي اپني ايجادات پر تو فخر کرتي ہيں‘ مثلاً کہتي ہيں کہ ہم نے فلاں دوا ايجاد کي ہے ‘ فلاں کام کيا ہے‘ علمي لحاظ سے فلاں شعبے ميں ترقي کي ہے‘ ليکن يہ حکومتيں انساني اقدار اور اخلاقي اعتبار سے اب بھي ہزار ہا سال پراني تاريخ جيسے حالات ميں زندگي بسر کر رہي ہيں ۔ ج بھي بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھي غريب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ايک في صد انسان دولت کي فراواني کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ اسکے باوجود يہ حکومتيں اپني سائنسي ترقي پر نازاں ہيں۔
دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري کا عظيم اسلامي تمدن اسي صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور ميںبہت زيادہ علمي ترقي ہوئي ‘ليکن امير طبقے کا راج تھا‘ عيش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانيت اور انساني فضيلتوںسے بے خبري اور طبقاتي اونچ نيچ انتہائي درجے پر موجود تھي۔ اُس زمانے ميں بھي ايک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائي ديتے تھے‘ تودوسري طرف بسيار خوري بہت سے لوگوں کي موت کا سبب بنتي تھي۔
خر کيا وجہ تھي کہ اُس دور کا اسلامي معاشرہ اپني علمي سرگرميوں اور نشاط کے باوجودانساني فضائل وکمالات کاگلستاںنہيں بن سکا ؟
دوسري اور تيسري صدي ہجري سے تعلق رکھنے والي جن شخصيتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کيا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنيا ميں قابلِ افتخار ہستيوں کے ساتھ پيش کر سکتے ہيں‘وہ لوگ ہيںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کي۔ مثال کے طور پر معلي بن خنيس کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں بيچ بازار ميں سولي پر لٹکا يا گيا۔ يحييٰ ابن امِ طويل کا نام ليا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پير کاٹ ديئے گئے ‘جن کي زبان کھينچ لي گئي۔ محمدا بن ابي عمير کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں چار سو تازيانے مارے گئے ۔يحييٰ ابن زيدکا نام ليا جاسکتا ہے‘ جنہيںصرف اٹھارہ برس کے سن ميں خراسان کي پہاڑيوں ميںشہيد کيا گيا ۔زيد بن علي کا نام ليا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولي پر لٹکائے رکھا گيا ۔
يہ وہ ہستياں ہيں جن کے ناموں کو ہم ج دنيائے انسانيت کے قابلِ فخر افراد کي فہرست ميںجگہ دے سکتے ہيں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئي تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کيا ہے‘بلکہ يہ اُس تمدن کے مخالفين ميں سے تھے ۔
پس ديکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شيطان کي حکمراني ہوتي ہے اور جن کے معاملات کي باگ ڈورطاغوتي اور شيطاني ہاتھوں ميں ہوتي ہے‘اُن معاشروں ميں زندگي بسر کرنے والے افراد کي قوتيںاستعمال ہوتي ہيں‘ اُن کي صلاحيتيں بروئے کارتي ہيں‘ ليکن بالکل اُسي طرح جيسے ج کي متمدن دنيا ميں کام تي ہيں‘اُسي طرح جيسے اب سے دس گيارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام ميں کام ميں تي تھيں۔يہ ساري ترقياں اُسي طرح بے قيمت ہيں جيسے اعليٰ اقدار اورانساني فضيلتوںکي نظرميں چوري سے کمايا ہوا مال بے حيثيت ہوتاہے۔ يہ ہوتي ہے طاغوت کي ولايت اورحکومت۔
ان خصوصيات کے ساتھ کيا طاغوت کي حکومت کے تحت ايک مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کي جاسکتي ہے ؟
ذرا ديکھتے ہيںکہ دراصل مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني کيا ہيں ؟
مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني ہيں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحيتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکي تمام چيزوں کا خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکي جان کا خدا کے اختيار ميں ہونا ‘اُسکي فکر اور سوچ کا خدا کے اختيار ميں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھي ہمارے پاس معاشرے اورمدنيت کي صورت ميںموجود اجتماعات اور طاغوتي نظاموں سے سرکشي اختيار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کي طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کي مثاليں موجود ہيں۔
پہلي مثال پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کے زمانے ميں مدينہ کے معاشرے کي ہے۔ مدينہ ايک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ايک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھي اٹھتا راہِ خدا ميں اٹھتا۔وہاں اگر يہودي اور عيسائي بھي اسلامي حکومت کے زيرِ سايہ زندگي بسر کرتے تھے‘ تو اُن کي زندگي بھي اسلامي زندگي تھي۔ اسلامي معاشرے ميںعيسائي اور يہودي اہلِ ذمہ افراد بھي اسلام کي راہ پر گامزن ہوتے ہيں۔ايسے معاشرے ميںاعمال کے لحاظ سے ايک شخص يہودي ہوتا ہے‘ ليکن معاشرے کے ايک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہيں زيادہ مسلمان ہوتاہے جوايک جاہلي نظام کے تحت زندگي بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پيغمبر۰ ميں مال و دولت ‘نيزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انساني اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھي راہِ خدا ميںہوتے تھے ۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں بھي کم و بيش يہي صورت تھي ۔اِس لئے کہ امير المومنين ٴ حاکمِ الٰہي اور ولي خدا ہونے کے ناطے پيغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ ليکن وہ ايک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پيچيدگيوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگراميرالمومنين ٴکي جگہ خود پيغمبر اسلا۰م بھي ہوتے اور پچيس سال بعدايک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو يقيناً انہي مشکلات کا سامنا کرتے جو امير المومنين ٴ کو درپيش تھيں ۔

گروہي ہجرت
گروہي صورت ميں ہجرت کي تاريخي مثال ‘ ائمہ اہلِ بيت ٴ کے ماننے والے شيعوں کي ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگيا اور ہم تفصيل کے ساتھ امامت کي بحث تک نہيں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولايت کے بعد امامت کي گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے ميں شيعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور يہ بات واضح کرتے کہ شيعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شيعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کي نوعيت کيا ہوا کرتي تھي ۔ليکن اب ہم مجبورہيں کہ اسے اجمالي طور پر عرض کريں ۔
شيعہ بظاہر طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرتے تھے ‘ ليکن باطن ميں طاغوتي نظام کے يکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے ميں بطورِمثال اُس گروہ کا نام ليا جاسکتا ہے جو حسين ابن علي ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سيلاب کامقابلہ کيا اور اس سيلابي ريلے کي مخالف سمت چلے جو انہيں اپنے ہمراہ بہاکرليجانا چاہتا تھا۔يہ تاريخ ميں گروہي ہجرت اور انقلاب کي مثالوں ميں سے ايک مثال ہے ۔ليکن عام افراد ‘ اور کلي طور پر عرض کريں کہ ايک فرد کسي طاغوتي معاشرے ميں زندگي بسر کرتے ہوئے مسلمان باقي نہيں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکي قوتيں اور اُسکي تمام تر صلاحيتيں احکامِ الٰہي کے تابع نہيں رہ سکتيں ۔ايساہونامحال ہے ۔
اگر ايک مسلمان طاغوتي ماحول اور طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرے‘ تو بہر حال اسکي اسلاميت کا ايک حصہ طاغوت کي راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فيصدبندہ نہيں ہوسکتا ۔
اصولِ کافي جو شيعوں کي معتبر ترين اور قديم ترين کتابوں ميں سے ہے‘ اُس ميں اِس }درجِ ذيل{ حديث کو کئي طريقوں سے نقل کيا گيا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے ميں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغير خدا کي عبادت کي ‘‘ ميںمطالعہ کيجئے‘اس روايت ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِيي اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِي اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً۔‘‘(۲)
عجيب حديث ہے ‘يہ حديث کہتي ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولي کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيں ‘ اہلِ نجات ہيں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور نجي افعال ميں کبھي کبھار گناہوں ميں بھي مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شيطان اور طاغوت کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہيں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور شخصي کاموں ميں نيکو کار اور عملِ صالح انجام دينے والے ہي کيوں نہ ہوں ۔يہ انتہائي عجيب بات ہے ۔اگرچہ حديث کو کئي طريقوں سے بيان کيا گيا ہے‘ ليکن سب يہي ايک معني ديتے ہيں ۔
ہم ہميشہ اس حديث کے مفہوم کي وضاحت ميں ايک ايسي گاڑي کي مثال پيش کرتے ہيں جس ميں پ مثلاً نيشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر يہ گاڑي نيشاپور کي طرف چلے گي‘ تو پ لازماً اپني منزل پر پہنچ جائيں گے اور اگر مثلاً طبس يا قوچان کي طرف جائے گي‘ تو لازماً پ اپني منزل (نيشا پور ) نہيں پہنچ سکيں گے ۔
اب اگر نيشاپور جا نے والي گاڑي ميں سوار مسافر ايک دوسرے کے ساتھ انساني داب کے ساتھ ميل جول رکھيں گے ‘ تو کيا خوب ‘ اور اگر انساني داب اور نيکي و احسان کے ساتھ باہم ميل جول نہيںرکھيںگے ‘تب بھي خرکار نيشا پور تو پہنچ ہي جائيںگے ۔ وہ اپني منزل پر جا پہنچيں گے‘چاہے انہوں نے راستے ميں کچھ بُرے کام بھي کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھي ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہيں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔ليکن منزل پربہرحال پہنچ جائيں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑي جسے پ کو نيشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نيشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑي کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ايک دوسرے کے ساتھ انتہائي احترام ميز سلوک کريں‘ايک دوسرے کے ساتھ خنداں پيشاني سے ميل جول رکھيں اور يہ ديکھيں کہ يہ گاڑي نيشاپور کي بجائے قوچان کي طرف جارہي ہے ‘ ليکن يہ ديکھنے کے باوجود کسي ردِ عمل کا اظہار نہ کريں ‘ تو ٹھيک ہے کہ يہ لوگ بہت اچھے انسان ہيں‘ايک دوسرے کے لئے انتہائي مہربان ہيں ‘ ليکن کيا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکيں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہيں۔
پہلي مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور ايک امين شخص تھا ‘ ايک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہيں منزلِ مقصود پر پہنچاديا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً ۔جبکہ دوسري مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور راستے ہي سے واقف نہ تھا ‘ امين نہيں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاري تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان ميں کوئي کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کي خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑي ميں سوار لوگ کسي صورت اپني منزل پر نہيں پہنچ سکيں گے ۔اگرچہ يہ لوگ گاڑي کے اندر باہم انتہائي مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ ليکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کريںگے ‘ اپني منزل نہيںپا سکيں گے۔
لہٰذا‘ايک ايسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ ميں ہو‘وہ اُس گاڑي کي مانند ہے جسے ايک غير امين ڈرائيور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے ميں زندگي بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپني منزل تک نہيں پہنچ سکيںگے اور مسلمان نہيں رہ سکيں گے ۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ اِن حالات ميں مسلمانوں کو کيا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کريم کي يت ديتي ہے ‘ اور کہتي ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظٰلِمِيْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کريم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپني ہر چيز پر ظلم کيا ہے‘ جب اُن کي موت قريب تي ہے ‘ تو اُن کي روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہيں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال ميں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سماني فرشتہ يہ ديکھتاہے کہ اس انسان کي حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبيب يا اُس جراح کي مانند جو ايک بيمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ يہ ديکھتا ہے کہ بيمار کي حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مايوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاري يہ حالت کيسے ہو گئي ؟
ہميں يہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بيچارے کي بري حالت پر‘ اسکي روح کي خستگي پر ‘ اس بدبختي اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہيںاور اس سے کہتے ہيں : تم نے کہاں زندگي بسر کي ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کيا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنيا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب ميں کہتے ہيں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمين پر جن لوگوں کے درميان زندگي بسر کررہے تھے ‘ ان ميں لاچار تھے ‘ ہم بے اختيار عوام ميں سے تھے ۔
مستضعفين معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہيں جن کے اختيار ميں معاشرہ نہيں ہوتا ۔ يہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہيں ۔يہ لوگ معاشرے کي پاليسيوں‘اسکي راہ وروش‘ اسکي سمت و جہت ‘اسکي حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکي سر گرميوں کے سلسلے ميں کوئي اختيار نہيںرکھتے ۔
جيسا کہ ہم نے پہلے عرض کيا‘يہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہيںجہاں اُن کي رسي کھينچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پيچھے چلے جاتے ہيں‘ انہيں کہيں جانے اور کچھ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں ہوتا ۔
نرسري کلاس کے چند بچوں کو فرض کيجئے ۔اُن بچوں کو نہيں جن کي عمر سات برس ہوچکي ہے ‘ کيونکہ ج کل سات برس کے بچوں کي نکھيں اور کان بھي ان باتوں سے بہت اچھي طر ح شنا ہيں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پيشِ نظر رکھئے ‘ جنہيں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کي مانند ج نرسري اسکولوں ميں بٹھا ديتے ہيں ۔ہميں وہ مکتب ياد تا ہے جس سے ہم چھٹي کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہميں سمجھ نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں جارہے ہيں ‘ بچوں کو بھي پتا نہيں ہوتا تھا کہ کون سي چيز کہاں ہے ۔ايک مانيٹر‘ يا ايک ذرا بڑا لڑکا ہماري رہنمائي کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہميں با لکل خبر ہي نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں چلے جارہے ہيں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہيں يا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہيں۔ اب اگرکبھي اُس مانيٹر کا دل چاہتا کہ ہميں گلي کوچوں ميں پھرائے‘ تويکبارگي ہم ديکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہيں۔
زمين پر مستضعف لوگ وہ ہيں جنہيں ايک معاشرے ميں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کي کوئي خبر نہيں ہوتي ۔نہيں جانتے کونسي چيز کہاں ہے ۔ نہيں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہيں اور يہاں سے چل کر کہا ں پہنچيں گے ‘ اور کون انہيں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح يہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائيں‘اور اگر نہ جائيں تو انہيں کيا کام کرنا چاہئے۔
انہيں بالکل پتا نہيں ہوتا ‘ با لکل بھي متوجہ نہيں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بيل کي طرح جس کي نکھيں بند ہوتي ہيں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسي طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر يہ حيوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پيرس ميں ہونا چاہئے۔ ليکن جب غروبِ فتاب کے قريب اُسکي نکھيں کھولتے ہيں‘ تو وہ ديکھتا ہے کہ وہ تووہيں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہيں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہيں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ يہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحيح نظام پر نہيں چلائے جاتے‘ اور انسان کي کسي حيثيت اور قدر و قيمت کے قائل نہيں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہيں جو انسان اور انسان کي رائے کي عزت اور احترام کے قائل ہيں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہيںرکھتي جس کے قائد پيغمبر۰ ہيں‘جن سے قرنِ کريم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِي الْاَمْر۔(۴)باوجود يہ کہ پ خدا کے رسول ہيں ‘ باوجود يہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کي ضرورت نہيں‘پھر بھي پ کو حکم ديا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کريں اور اُنہيں عزت واحترام ديں ‘ اُنہيں حيثيت ديں۔ ايسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہيں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ يا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہيں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہيں ۔ وہ کہتے ہيں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ(ہم زمين پرمستضعفين ميں سے تھے )اُنہوں نے ہميں اسي طرح کھينچا‘ اُٹھايااور پٹخ ديا ‘ہميںقدموں تلے پامال کيا‘بے برو کيا۔ليکن ہميں پتا ہي نہيںچلا۔ وہ يہ عذرپيش کرتے اوريہ جواب ديتے ہيں۔
ان کے جواب ميںملائکہ کہتے ہيں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
کيا پروردگار کي زمين يہيں تک محدود تھي ؟
کيا پوري دنياصرف اسي معاشرے تک محدود تھي جس ميں تم مستضعف بنے زندگي بسر کر رہے تھے؟
کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي ‘ کہ تم اس قيد خانے سے نکل کر ايک زاد خطہ ارضي ميں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کي عبادت کرسکتے‘ايک ايسي سرزمين پرجہاں تم اپني صلاحيتوں کا استعمال صحيح راستے پر کر سکتے ۔
کيا دنيا ميں ايسي کوئي جگہ نہيں تھي ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کي منطق اورعقلمند انسانوں کي منطق بالکل يکساں ہے۔ انسان کي عقل بھي يہي کہتي ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
’’کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا‘وہ بيچارے کيا کہيں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئي معقول جواب نہيں ہے۔لہٰذا قرنِ کريم ان بيچاروں کے انجام کے بارے ميں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفين جن کي قوتيںاور صلاحيتيں طاغوتوں کے ہاتھ ميں تھيں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوريہ انسان کے لئے کيسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ يہاں بھي ايک استثنا پايا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہيں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلي نظام کي اس قيد سے نجات نہيں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہيں‘کچھ بوڑھے ہيں ‘کچھ بچے ہيں ‘کچھ عورتيں ہيں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہيں ہے ۔
لہٰذا يہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہيں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّ لااَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعيف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئي چارہ نہيں اور جن سے کچھ نہيں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کي عبوديت کي سر زمين کي جانب نے کي کوئي راہ نہيں‘ اور جو کچھ نہيں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَي اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہيںکر سکتے‘ اميد ہے خدا وند ِمتعال اُنہيں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے يہ خطاب حجت ہے‘يہ نہ سمجھيں اور اُن کے ذہن ميں يہ خيال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختي‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگي‘اوروہ بار بار اپنے پ سے يہ نہ پوچھيں کہ مثلاً ہمارا کيا بنے گا؟کيا ہم کچھ کر بھي سکيں گے يا نہيں؟ کيا کچھ حاصل بھي ہو گا يا نہيں؟
ايسے لوگوں کے جواب ميں قرنِ مجيد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً۔‘‘ ’’اور جو بھي راہِ خدا ميں ہجرت اختيار کرتا ہے ‘ وہ زمين ميں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔يت ١٠٠ )
دنيا اسکے لئے پرواز کا ايک کھلاسمان ثابت ہوتي ہے‘ اور وہ زادي کے ساتھ اس ميں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلي ميں ہم کتنا ہي اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہيں اُڑ سکتے تھے ‘ ليکن اب ايک حيرت انگيز وسيع و عريض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائي دورکے بيچارے مسلمان مسجد ميں بڑي مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ايماني زيادہ ہي جوش مارتا تو مسجد الحرام ميںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہيںبُري طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور ميں{يہي مسلماني کي انتہا تھي ‘ اس سے زيادہ نہيں۔ليکن جب ان لوگوں نے ہجرت کي اور زاد
سر زمين ميں ‘ اسلامي معاشرے اور ولايت ِالٰہي کے تحت زندگي بسر کرنے لگے ‘ تو ديکھا کہ يہ ايک عجيب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۔(۵)
يہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ يہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذريعے متعين اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا ميں زيادہ جدو جہد اور زيادہ خدا کي عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خداميں خرچ کرے‘ وہ زيادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکي معاشرے ميں ‘ اگر کسي کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا ميں ايک درہم ديا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ايذا پہنچائي جاتي تھي ‘ شکنجوں ميں کس کر اسے گ سے جلايا جاتا تھا۔ ليکن جب انہوں نے راہِ خدا ميں ہجرت کي‘ اور مدينۃ الرسول ميں چلے ئے ‘ تو ديکھا کہ کيسي کھلي فضا اور پرواز کي جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً(اورجو کوئي راہِ خدا ميں اور الٰہي اور اسلامي معاشرے کي طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا ميں دار الکفر سے دار الھجرہ کي جانب حرکت کي ‘ اور درميانِ راہ ميں خدا نے تمہاري جان لے لي ‘ تب کيا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کيونکہ تم نے اپنا کام کر ديا‘ جو فريضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے ديا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کي ۔اسلام يہي چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپني توانائي کے مطابق‘ جتني وہ صلاحيت رکھتا ہے اتني ‘ اور جتني اسکي استطاعت ہے اتني راہِ خدا ميں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِہ مُہَاجِرًا اِلَي اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَي اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کيونکہ يہ گفتگو ولايت کے موضوع پر خري گفتگو ہے ‘ يہ بحث تقريباً دھي باقي رہتي ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہيں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غير خدا کي ولايت ‘ شيطان اور طاغوت کي ولايت سے دارالہجرہ ‘ دارالايمان ‘ولايت ِالٰہي کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ امام کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ پيغمبر اور ولايت ِ ولي الٰہي کے زيرِ فرمان سرزمين کي جانب ہوتي ہے ۔ليکن اگردنيا ميں ايساکوئي خطہ ارضي موجود نہ ہو‘ تو کيا کيا جانا چاہئے ؟
کيا دارالکفرہي ميں پڑے رہنا چاہئے؟
يا ايک دارالہجرہ ايجاد کرنے کے بارے ميں سوچنا چاہئے ؟
خود پيغمبر اسلام ۰نے بھي ہجرت کي ۔ليکن پيغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ايک دارالہجرہ موجودنہيں تھا‘پ نے اپني ہجرت کے ذريعے ايک دارالہجرہ ايجاد کيا ۔
کبھي کبھي يہ بات ضروري ہو جاتي ہے کہ لوگوں کا ايک گروہ اپني ہجرت کے ذريعے دارالايمان کي بنياد رکھے ‘ايک الٰہي اور اسلامي معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنين وہاں ہجرت کريں۔

حوالے
١۔ کيا تم نے ان لوگوں کاحال نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبديل کر ديا اور اپني قوم کو ہلاکت کے سپرد کر ديااور دوزخ جو بد ترين ٹھکانہ ہے ‘ اس ميں جاپڑے ۔(سورہ ابراہيم ١٤۔يت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس نہيں کرتا جو ايسے امام کي تابع ہو جو خدا کي طرف سے نہيں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال ميں نيکو کار اور پرہيز گار ہو۔ بے شک خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کي جانب سے مقرر کردہ امام کي تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافي ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہيں ‘جب فرشتے اُن کي روح قبض کرتے ہيں‘ تو اُن سے پوچھتے ہيں: تم کس حال ميںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہيں: ہم زمين ميں لاچار بنا ديئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہيں: کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترين منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔يت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورميںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔يت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔يت٦١
۶۔اور جوکوئي خدا اور رسول کي جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے ميں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔يت ١٠٠)


اقتباس از چھ تقريريں امامت و ولايت کے موضوع پر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي
ترجمہ سيد سعيد حيدر زيدي


ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں ۔پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيںمومنين کي صف ميںموجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘مومن اور غير مومن صفوںکے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے ۔
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس يت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات ا عليہ کے قصّے کي جانب
١۔تمہارا ولي امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت ِ رکوع ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
اشارہ کيا تھا ۔
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے۔کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘

مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں۔ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے۔ يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميںکي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے۔

انفرادي ہجرت
ايک انسان کو طاغوت اور شيطان کي ولايت کے تحت نے سے کيوںبچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ايک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہيں کہ پ فوراً اپنے ذہن ميں اس سوال کا اِس انداز سے تجزيہ و تحليل کيجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامي اور مذہبي تعليمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکيں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جيسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن ميں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کي گنجائش رہے گي۔
سوال يہ ہے کہ :کيا طاغوت کي حکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا ؟
کيا يہ ممکن نہيںہے کہ ايک مسلمان شيطان کي ولايت کے تحت زندگي بسر کرے ‘ ليکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ايسا ہوسکتا ہے يا نہيں ؟
کيا يہ ممکن ہے کہ: انساني زندگي کے تمام پہلوؤں اور اسکي حيات کے تمام گوشوں پر ايک غير الٰہي عامل کي حکمراني ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کي فکروں کي تنظيم و تشکيل اور اُن کا انتظام وانصرام ايک غير الٰہي عامل کے ہاتھ ميں ہو‘يہي غير الٰہي عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھي کبھي اِس رُخ پر اور کبھي اُس رُخ پر دھکيل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتي اور شيطاني عوامل کے قبضہ قدرت ميںزندگي بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھي ہو۔
کيا يہ چيزممکن ہے ‘يا ممکن نہيں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کي کوشش کيجئے اور اپنے ذہن ميں اِس کا جواب تيار کيجئے ‘ديکھئے يہ ہوسکتا ہے يا نہيں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دينے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزيہ وتحليل کرناضروري ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کيا يہ ممکن ہے کہ کوئي انسان شيطان کي ولايت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھي ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہيںاور ہميں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزيہ و تحليل کريں ‘ اور ديکھيں کہ اِن کے کيا معني ہيں ؟
پہلا جز يہ ہے کہ کوئي شخص شيطان کي ولايت کے تحت ہو۔
شيطان کي ولايت کے تحت ہونے کے کيا معني ہيں ؟
اگر ولايت کے اُن معني کو جو ہم نے يات ِقرني سے اخذ کئے ہيں ‘ ’’ولايت ِشيطان ‘‘ کي عبارت کے پہلوميں رکھيں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولايت ِ شيطان سے کيا مراد ہے ۔
ولايت ِ شيطان سے مراديہ ہے کہ شيطان (شيطان کے اُنہي مجموعي معني کے مطابق جنہيں ہم نے بارہا بيان کيا ہے ) انسان کے وجود ميںپائي جانے والي تمام توانائيوں ‘ صلاحيتوں ‘ تخليقي قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شيطان کے معين کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت ميں ہو جس کا تعين شيطان نے کيا ہے‘ اُس انسان کي طرح جو کوہساروں سے نيچے بہنے والے سيلاب کي لپيٹ ميں ہو۔ اس انسان کو يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ سخت اور کھردري چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ اس پاني ميں بہتے ہوئے گہرے گڑھے ميں جاپڑے ‘اُسے يہ بات پسند نہيںہوتي کہ پاني کي ان موجوں کے درميان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود يہ کہ اُسے پسند نہيں ہوتا ليکن پاني کا يہ تيز و تند ريلا بغير اُسکي مرضي کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھي مارتا ہے‘وہ کبھي اِس طرف اور کبھي اُس طرف سہارا بھي ليتا ہے ‘راستے ميں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کي کوشش بھي کرتا ہے ‘ليکن پاني کا تيز بہاؤ اُسے بے اختيار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان اسي قسم کي چيز ہے ۔
لہٰذا يت ِ قرن کہتي ہے:
’’وَجَعَلْنہُمْاٰا اَئِمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِ۔‘‘
’’ايسے رہنمااور قائدين بھي ہيں جو اپنے پيروکاروں اور زيرِ فرمان افراد کو دوزخ کي گ اور بد بختي کي طرف کھينچے لئے جاتے ہيں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ يت ٤١)
قرنِ مجيد کي ايک دوسري يت فرماتي ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کيا تم نے اُن لوگوں کو نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کا کفران کيا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کيا ‘کيا تھي؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کي قدرت کا مظہر ہے‘دنيوي طاقتيں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کي نعمت‘انسانوں کي بکثرت صلاحيتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ ميں رکھنے کي نعمت ‘ يہ سب کي سب چيزيں نعمت ہيں اور ايسے سرمائے ہيں جو انسان کے لئے خير کا سرچشمہ ہوسکتے ہيں ۔
اِ س يت ميں جن افراد کي جانب اشارہ کيا گيا ہے اُن کي فرمانروائي ميںزندگي گزارنے والاہر انسان ايک عظيم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترين درجات تک رسائي پاسکتاتھا۔ليکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کيااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہيںاستعمال نہيںکيا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپني قوم اور اپنے زيرِ فرما ن لوگوں کو نيستي و نابودي اور ہلاکت کے گڑھے کي طرف لے گئے)
جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہيں جہنم کي طرف لے گئے ‘ جس ميں الٹے منھ پھينکے جائيں گے اور يہ کيسي بُري جگہ اور ٹھکانہ ہے)
يہ يت امام موسيٰ ابن جعفر عليہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھي اور ہارون کو يہ بات باور کرائي کہ تو وہي شخص ہے جو اپني قوم کو اور اپنے پ کو بد ترين منزل اورمہلک ترين ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کيا تھا کہ کيا ہم کافر ہيں ؟ اُسکي مراد يہ تھي کہ کيا ہم خدا ‘ پيغمبر اور دين پر عقيدہ نہيں رکھتے ہيں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب ميں اِس يت کي تلاوت فرمائي ‘تاکہ اسے يہ بات ذہن نشين کراديں کہ کافر فقط وہي شخص نہيں ہوتا جو صاف اور صريح الفاظ ميں خدا کاانکار کرے‘ يا قرن کوجھٹلائے ‘ يا پيغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھيک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کي بہترين قسم سے ہے جو صريحاً اپني بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے ميںاپنے موقف کا اچھي طرح تعين کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظيم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے ميسّر ہيںاور اُنہيں غلط راستے ميں استعمال کرے ۔ايسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم ميںجھونک ديتا ہے ۔
طاغوت کي ولايت ايسي ہي چيز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کي ولايت ميںزندگي بسر کرتا ہے‘ اُسے گويااپنے اوپر کوئي اختيارحاصل نہيں ہوتا ۔ہماري مراد يہ نہيں ہے کہ وہ با لکل ہي بے اختيار ہوتا ہے ۔بعد ميں جب ہم يہ قرن کے معني بيان کريں گے‘ تو اس نکتے کي تفسير واضح ہوجائے گي۔ البتہ وہ شخص سيلابي ريلے کي زد پرہوتا ہے اوراُس ميں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ ليکن نہيں مار پاتا ‘ وہ ديکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کي طرف جارہے ہيں اور اُسے بھي اپني طرف کھينچ رہے ہيں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}ليکن بے بس ہوتا ہے{
کيا پ کبھي کسي مجمع ميں پھنسے ہيں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ايک طرف ہوجائيں ‘ ليکن مجمع پ کو ايک تنکے کي طرح اٹھا کر دوسري طرف پھينک ديتا ہے ۔
ايسا شخص جو طاغوت کے زيرِ ولايت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نيک بن جائے ‘ صالح زندگي بسر کرے ‘ ايک انسان کي طرح زندگي گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
ليکن ايسانہيں کر سکتا ۔
يعني معاشرے کا ريلا اسے کھينچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھي نہيں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھي ہے‘ توسوائے اپني قوت کے زياں کے اسے کچھ نتيجہ حاصل نہيں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہيں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھي زيادہ تکليف دہ بات يہ ہے کہ کبھي کبھي وہ اپني حالت کو بھي نہيں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہيں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتي مچھليوں کو ديکھا ہے يا نہيں ۔کبھي کبھي ايک جال ميں ہزاروں مچھلياں پھنس جاتي ہيں ‘ جنہيں سمندر کے وسط سے ساحل کي طرف کھينچ کر لاتے ہيں ‘ليکن اُن ميں سے کوئي مچھلي يہ نہيں جانتي کہ اُسے کہيں لے جايا جارہا ہے ‘ ہر ايک يہ تصور کرتي ہے کہ وہ خود اپنے اختيار سے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے ۔ليکن درحقيقت وہ بے اختيار ہوتي ہے ‘اُسکي منزل وہي ہوتي ہے جس کي جانب جال کا مالک وہ شکاري اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلي نظام کا غير مرئي جال انسان کو اس سمت کھينچتا ہے جس سمت اس جال کي رہنمائي کرنے والے چاہتے ہيں۔اس نظام ميں زندگي گزارنے والا انسان بالکل نہيں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھي کبھي تو وہ اپني دانست ميں يہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کاميابي کي منزل کي طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہيں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کي طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
يہ ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان ہے ۔
يہ پہلي عبارت اُن دو عبارتوں ميں سے ايک تھي جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال يہ تھا کہ کيا طاغوت اور شيطان کي ولايت اورحکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کي ولايت اور حکومت ميں زندگي گزارنے کو سمجھ ليا ہے۔ يعني يہ جان ليا ہے کہ اِس سے کيا مراد ہے۔اگر ہم اِسکي تفسير کرنا چاہيں ‘تو ايک مرتبہ پھر تاريخ کي طرف پلٹ سکتے ہيں ۔
پ ديکھئے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے ميں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ ديکھئے اُس دور کے اسلامي معاشرے ميں علم ودانش کي کيسي عظيم لہر اُٹھي تھي‘کيسے کيسے عظيم اطبّاپيدا ہوئے تھے ‘ زبان داني اور عموي علمي افلاس کے اُس دور ميں عالمِ اسلام ميں کيسے عظيم مترجمين پيدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قديم تہذيبوں کے عظيم ثار کو عربي زبان ميں ترجمہ کيااور اُن کي نشر و اشاعت کي ۔مسلمان تاريخ‘حديث ‘ علومِ طبيعي ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطيفہ ميںبھي انتہائي ممتازمقام کے مالک تھے ۔ يہاں تک کہ ج بھي جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کي مانند ايک شخص‘ ياکوئي اور مصنف اورمستشرق ان ظاہري باتوں کو ديکھتاہے ‘تو اسلام کي دوسري‘ تيسري اور چوتھي صديوںکو اسلام کے عروج کي صدياں قرار ديتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھي صدي ہجري ميںتاريخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ايک کتاب لکھي ہے ۔ايک ايسا تمدن جسے وہ ايک عظيم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھي صدي ہجري کواس عظيم تمدن کي صدي بيان کرتا ہے۔ مجموعي طور پر جب کوئي يورپي مستشرق دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکي وجہ يہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامي معاشرے ميںحيرت انگيزگرمياں‘ صلاحيتيں اورلياقتيں ظاہر ہوئي تھيں۔
ليکن ہم پ سے سوال کرتے ہيں کہ يہ تمام سرگرمياں اور صلاحيتيں‘جو اس دورميں ظاہر ہوئيں ‘ کيا ان کا نتيجہ اسلامي معاشرے اور انسانيت کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدياں گزر چکي ہيں‘اور ہم اس زمانے کے بارے ميں کسي تعصب کا شکار نہيں ہيں اور غير مسلم دنيا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کي بنياد رکھي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کي تشکيل کي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبيعيات کے ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام دئيے۔ ليکن کيا خود اپنے حلقوں ميں ہم حق و انصاف کے ساتھ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحيتوں کا نتيجہ ٹھيک ٹھيک ‘ برمحل اور انسانيت اور اسلامي معاشرے کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج دس صدياں گزرنے کے بعداسلامي معاشرے کے پاس اُس ميراث ميں سے کيا باقي ہے ؟ اور کيوں باقي نہيں ہے ؟
خر وہ علمي اورتہذيبي دولت ہمارے لئے کيوںباقي نہ بچ سکي ؟
ہم دس صدي پہلے کے اُس تابناک معاشرے کي طرح ج کيوںدنيا ميںدرخشاں اور جلوہ نما نہيں ؟ کيا اسکي وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمياں اور جلوہ نمائياں طاغوت کي حکمراني ميں رہتے ہوئے تھيں ۔

من ن نگين سليمان بہ ہيچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قيادتوں نے اسلامي معاشرے کے ساتھ کھيل کھيلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور يہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسي خليفہ کے دورِ اقتدار ميں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر يہ حکمراں طبيعيات ‘ رياضي‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے ميدانوں ميں علمي ترقي کي بجائے ‘فقط اتني اجازت ديتے کہ علوي حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کي حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامي معاشرے کي تمام قوتيں اور صلاحيتيں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ ميں جائيں‘ پورے اسلامي معاشرے کي سرگرميوں کاتعين امام جعفر صادقٴ کريں۔ اس صورت ميں اگر مسلمان علمي اور ادبي لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنيا ئے اسلام فخروناز کرتي ہے سو سال پيچھے بھي رہتے ‘ تب بھي يہ انسانيت کے فائدے ميں ہوتا۔ انسانيت ترقي کرتي‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامي معاشرے کي صلاحيتيں اور قوتيں صحيح راہ ميں استعمال ہوتيں۔ پھر يہ صورت نہ رہتي کہ کتابيں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے ميدانوں ميںترقي کو بامِ عروج پر پہنچا ديتے‘ ليکن انفرادي اور اجتماعي اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور ميںپايا جانے والا طبقاتي فرق ج بھي تاريخ ميں بطور يادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کي دنيا کے غليظ اور ذلت ميز تمدن کي طرح‘ کہ ج کي بڑي حکومتيں عقلوں کو دنگ کر دينے والي اپني ايجادات پر تو فخر کرتي ہيں‘ مثلاً کہتي ہيں کہ ہم نے فلاں دوا ايجاد کي ہے ‘ فلاں کام کيا ہے‘ علمي لحاظ سے فلاں شعبے ميں ترقي کي ہے‘ ليکن يہ حکومتيں انساني اقدار اور اخلاقي اعتبار سے اب بھي ہزار ہا سال پراني تاريخ جيسے حالات ميں زندگي بسر کر رہي ہيں ۔ ج بھي بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھي غريب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ايک في صد انسان دولت کي فراواني کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ اسکے باوجود يہ حکومتيں اپني سائنسي ترقي پر نازاں ہيں۔
دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري کا عظيم اسلامي تمدن اسي صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور ميںبہت زيادہ علمي ترقي ہوئي ‘ليکن امير طبقے کا راج تھا‘ عيش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانيت اور انساني فضيلتوںسے بے خبري اور طبقاتي اونچ نيچ انتہائي درجے پر موجود تھي۔ اُس زمانے ميں بھي ايک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائي ديتے تھے‘ تودوسري طرف بسيار خوري بہت سے لوگوں کي موت کا سبب بنتي تھي۔
خر کيا وجہ تھي کہ اُس دور کا اسلامي معاشرہ اپني علمي سرگرميوں اور نشاط کے باوجودانساني فضائل وکمالات کاگلستاںنہيں بن سکا ؟
دوسري اور تيسري صدي ہجري سے تعلق رکھنے والي جن شخصيتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کيا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنيا ميں قابلِ افتخار ہستيوں کے ساتھ پيش کر سکتے ہيں‘وہ لوگ ہيںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کي۔ مثال کے طور پر معلي بن خنيس کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں بيچ بازار ميں سولي پر لٹکا يا گيا۔ يحييٰ ابن امِ طويل کا نام ليا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پير کاٹ ديئے گئے ‘جن کي زبان کھينچ لي گئي۔ محمدا بن ابي عمير کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں چار سو تازيانے مارے گئے ۔يحييٰ ابن زيدکا نام ليا جاسکتا ہے‘ جنہيںصرف اٹھارہ برس کے سن ميں خراسان کي پہاڑيوں ميںشہيد کيا گيا ۔زيد بن علي کا نام ليا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولي پر لٹکائے رکھا گيا ۔
يہ وہ ہستياں ہيں جن کے ناموں کو ہم ج دنيائے انسانيت کے قابلِ فخر افراد کي فہرست ميںجگہ دے سکتے ہيں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئي تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کيا ہے‘بلکہ يہ اُس تمدن کے مخالفين ميں سے تھے ۔
پس ديکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شيطان کي حکمراني ہوتي ہے اور جن کے معاملات کي باگ ڈورطاغوتي اور شيطاني ہاتھوں ميں ہوتي ہے‘اُن معاشروں ميں زندگي بسر کرنے والے افراد کي قوتيںاستعمال ہوتي ہيں‘ اُن کي صلاحيتيں بروئے کارتي ہيں‘ ليکن بالکل اُسي طرح جيسے ج کي متمدن دنيا ميں کام تي ہيں‘اُسي طرح جيسے اب سے دس گيارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام ميں کام ميں تي تھيں۔يہ ساري ترقياں اُسي طرح بے قيمت ہيں جيسے اعليٰ اقدار اورانساني فضيلتوںکي نظرميں چوري سے کمايا ہوا مال بے حيثيت ہوتاہے۔ يہ ہوتي ہے طاغوت کي ولايت اورحکومت۔
ان خصوصيات کے ساتھ کيا طاغوت کي حکومت کے تحت ايک مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کي جاسکتي ہے ؟
ذرا ديکھتے ہيںکہ دراصل مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني کيا ہيں ؟
مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني ہيں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحيتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکي تمام چيزوں کا خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکي جان کا خدا کے اختيار ميں ہونا ‘اُسکي فکر اور سوچ کا خدا کے اختيار ميں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھي ہمارے پاس معاشرے اورمدنيت کي صورت ميںموجود اجتماعات اور طاغوتي نظاموں سے سرکشي اختيار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کي طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کي مثاليں موجود ہيں۔
پہلي مثال پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کے زمانے ميں مدينہ کے معاشرے کي ہے۔ مدينہ ايک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ايک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھي اٹھتا راہِ خدا ميں اٹھتا۔وہاں اگر يہودي اور عيسائي بھي اسلامي حکومت کے زيرِ سايہ زندگي بسر کرتے تھے‘ تو اُن کي زندگي بھي اسلامي زندگي تھي۔ اسلامي معاشرے ميںعيسائي اور يہودي اہلِ ذمہ افراد بھي اسلام کي راہ پر گامزن ہوتے ہيں۔ايسے معاشرے ميںاعمال کے لحاظ سے ايک شخص يہودي ہوتا ہے‘ ليکن معاشرے کے ايک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہيں زيادہ مسلمان ہوتاہے جوايک جاہلي نظام کے تحت زندگي بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پيغمبر۰ ميں مال و دولت ‘نيزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انساني اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھي راہِ خدا ميںہوتے تھے ۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں بھي کم و بيش يہي صورت تھي ۔اِس لئے کہ امير المومنين ٴ حاکمِ الٰہي اور ولي خدا ہونے کے ناطے پيغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ ليکن وہ ايک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پيچيدگيوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگراميرالمومنين ٴکي جگہ خود پيغمبر اسلا۰م بھي ہوتے اور پچيس سال بعدايک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو يقيناً انہي مشکلات کا سامنا کرتے جو امير المومنين ٴ کو درپيش تھيں ۔

گروہي ہجرت
گروہي صورت ميں ہجرت کي تاريخي مثال ‘ ائمہ اہلِ بيت ٴ کے ماننے والے شيعوں کي ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگيا اور ہم تفصيل کے ساتھ امامت کي بحث تک نہيں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولايت کے بعد امامت کي گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے ميں شيعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور يہ بات واضح کرتے کہ شيعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شيعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کي نوعيت کيا ہوا کرتي تھي ۔ليکن اب ہم مجبورہيں کہ اسے اجمالي طور پر عرض کريں ۔
شيعہ بظاہر طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرتے تھے ‘ ليکن باطن ميں طاغوتي نظام کے يکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے ميں بطورِمثال اُس گروہ کا نام ليا جاسکتا ہے جو حسين ابن علي ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سيلاب کامقابلہ کيا اور اس سيلابي ريلے کي مخالف سمت چلے جو انہيں اپنے ہمراہ بہاکرليجانا چاہتا تھا۔يہ تاريخ ميں گروہي ہجرت اور انقلاب کي مثالوں ميں سے ايک مثال ہے ۔ليکن عام افراد ‘ اور کلي طور پر عرض کريں کہ ايک فرد کسي طاغوتي معاشرے ميں زندگي بسر کرتے ہوئے مسلمان باقي نہيں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکي قوتيں اور اُسکي تمام تر صلاحيتيں احکامِ الٰہي کے تابع نہيں رہ سکتيں ۔ايساہونامحال ہے ۔
اگر ايک مسلمان طاغوتي ماحول اور طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرے‘ تو بہر حال اسکي اسلاميت کا ايک حصہ طاغوت کي راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فيصدبندہ نہيں ہوسکتا ۔
اصولِ کافي جو شيعوں کي معتبر ترين اور قديم ترين کتابوں ميں سے ہے‘ اُس ميں اِس }درجِ ذيل{ حديث کو کئي طريقوں سے نقل کيا گيا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے ميں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغير خدا کي عبادت کي ‘‘ ميںمطالعہ کيجئے‘اس روايت ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِيي اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِي اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً۔‘‘(۲)
عجيب حديث ہے ‘يہ حديث کہتي ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولي کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيں ‘ اہلِ نجات ہيں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور نجي افعال ميں کبھي کبھار گناہوں ميں بھي مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شيطان اور طاغوت کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہيں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور شخصي کاموں ميں نيکو کار اور عملِ صالح انجام دينے والے ہي کيوں نہ ہوں ۔يہ انتہائي عجيب بات ہے ۔اگرچہ حديث کو کئي طريقوں سے بيان کيا گيا ہے‘ ليکن سب يہي ايک معني ديتے ہيں ۔
ہم ہميشہ اس حديث کے مفہوم کي وضاحت ميں ايک ايسي گاڑي کي مثال پيش کرتے ہيں جس ميں پ مثلاً نيشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر يہ گاڑي نيشاپور کي طرف چلے گي‘ تو پ لازماً اپني منزل پر پہنچ جائيں گے اور اگر مثلاً طبس يا قوچان کي طرف جائے گي‘ تو لازماً پ اپني منزل (نيشا پور ) نہيں پہنچ سکيں گے ۔
اب اگر نيشاپور جا نے والي گاڑي ميں سوار مسافر ايک دوسرے کے ساتھ انساني داب کے ساتھ ميل جول رکھيں گے ‘ تو کيا خوب ‘ اور اگر انساني داب اور نيکي و احسان کے ساتھ باہم ميل جول نہيںرکھيںگے ‘تب بھي خرکار نيشا پور تو پہنچ ہي جائيںگے ۔ وہ اپني منزل پر جا پہنچيں گے‘چاہے انہوں نے راستے ميں کچھ بُرے کام بھي کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھي ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہيں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔ليکن منزل پربہرحال پہنچ جائيں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑي جسے پ کو نيشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نيشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑي کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ايک دوسرے کے ساتھ انتہائي احترام ميز سلوک کريں‘ايک دوسرے کے ساتھ خنداں پيشاني سے ميل جول رکھيں اور يہ ديکھيں کہ يہ گاڑي نيشاپور کي بجائے قوچان کي طرف جارہي ہے ‘ ليکن يہ ديکھنے کے باوجود کسي ردِ عمل کا اظہار نہ کريں ‘ تو ٹھيک ہے کہ يہ لوگ بہت اچھے انسان ہيں‘ايک دوسرے کے لئے انتہائي مہربان ہيں ‘ ليکن کيا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکيں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہيں۔
پہلي مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور ايک امين شخص تھا ‘ ايک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہيں منزلِ مقصود پر پہنچاديا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً ۔جبکہ دوسري مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور راستے ہي سے واقف نہ تھا ‘ امين نہيں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاري تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان ميں کوئي کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کي خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑي ميں سوار لوگ کسي صورت اپني منزل پر نہيں پہنچ سکيں گے ۔اگرچہ يہ لوگ گاڑي کے اندر باہم انتہائي مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ ليکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کريںگے ‘ اپني منزل نہيںپا سکيں گے۔
لہٰذا‘ايک ايسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ ميں ہو‘وہ اُس گاڑي کي مانند ہے جسے ايک غير امين ڈرائيور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے ميں زندگي بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپني منزل تک نہيں پہنچ سکيںگے اور مسلمان نہيں رہ سکيں گے ۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ اِن حالات ميں مسلمانوں کو کيا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کريم کي يت ديتي ہے ‘ اور کہتي ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظٰلِمِيْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کريم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپني ہر چيز پر ظلم کيا ہے‘ جب اُن کي موت قريب تي ہے ‘ تو اُن کي روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہيں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال ميں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سماني فرشتہ يہ ديکھتاہے کہ اس انسان کي حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبيب يا اُس جراح کي مانند جو ايک بيمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ يہ ديکھتا ہے کہ بيمار کي حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مايوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاري يہ حالت کيسے ہو گئي ؟
ہميں يہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بيچارے کي بري حالت پر‘ اسکي روح کي خستگي پر ‘ اس بدبختي اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہيںاور اس سے کہتے ہيں : تم نے کہاں زندگي بسر کي ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کيا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنيا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب ميں کہتے ہيں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمين پر جن لوگوں کے درميان زندگي بسر کررہے تھے ‘ ان ميں لاچار تھے ‘ ہم بے اختيار عوام ميں سے تھے ۔
مستضعفين معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہيں جن کے اختيار ميں معاشرہ نہيں ہوتا ۔ يہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہيں ۔يہ لوگ معاشرے کي پاليسيوں‘اسکي راہ وروش‘ اسکي سمت و جہت ‘اسکي حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکي سر گرميوں کے سلسلے ميں کوئي اختيار نہيںرکھتے ۔
جيسا کہ ہم نے پہلے عرض کيا‘يہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہيںجہاں اُن کي رسي کھينچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پيچھے چلے جاتے ہيں‘ انہيں کہيں جانے اور کچھ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں ہوتا ۔
نرسري کلاس کے چند بچوں کو فرض کيجئے ۔اُن بچوں کو نہيں جن کي عمر سات برس ہوچکي ہے ‘ کيونکہ ج کل سات برس کے بچوں کي نکھيں اور کان بھي ان باتوں سے بہت اچھي طر ح شنا ہيں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پيشِ نظر رکھئے ‘ جنہيں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کي مانند ج نرسري اسکولوں ميں بٹھا ديتے ہيں ۔ہميں وہ مکتب ياد تا ہے جس سے ہم چھٹي کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہميں سمجھ نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں جارہے ہيں ‘ بچوں کو بھي پتا نہيں ہوتا تھا کہ کون سي چيز کہاں ہے ۔ايک مانيٹر‘ يا ايک ذرا بڑا لڑکا ہماري رہنمائي کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہميں با لکل خبر ہي نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں چلے جارہے ہيں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہيں يا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہيں۔ اب اگرکبھي اُس مانيٹر کا دل چاہتا کہ ہميں گلي کوچوں ميں پھرائے‘ تويکبارگي ہم ديکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہيں۔
زمين پر مستضعف لوگ وہ ہيں جنہيں ايک معاشرے ميں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کي کوئي خبر نہيں ہوتي ۔نہيں جانتے کونسي چيز کہاں ہے ۔ نہيں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہيں اور يہاں سے چل کر کہا ں پہنچيں گے ‘ اور کون انہيں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح يہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائيں‘اور اگر نہ جائيں تو انہيں کيا کام کرنا چاہئے۔
انہيں بالکل پتا نہيں ہوتا ‘ با لکل بھي متوجہ نہيں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بيل کي طرح جس کي نکھيں بند ہوتي ہيں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسي طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر يہ حيوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پيرس ميں ہونا چاہئے۔ ليکن جب غروبِ فتاب کے قريب اُسکي نکھيں کھولتے ہيں‘ تو وہ ديکھتا ہے کہ وہ تووہيں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہيں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہيں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ يہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحيح نظام پر نہيں چلائے جاتے‘ اور انسان کي کسي حيثيت اور قدر و قيمت کے قائل نہيں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہيں جو انسان اور انسان کي رائے کي عزت اور احترام کے قائل ہيں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہيںرکھتي جس کے قائد پيغمبر۰ ہيں‘جن سے قرنِ کريم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِي الْاَمْر۔(۴)باوجود يہ کہ پ خدا کے رسول ہيں ‘ باوجود يہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کي ضرورت نہيں‘پھر بھي پ کو حکم ديا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کريں اور اُنہيں عزت واحترام ديں ‘ اُنہيں حيثيت ديں۔ ايسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہيں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ يا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہيں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہيں ۔ وہ کہتے ہيں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ(ہم زمين پرمستضعفين ميں سے تھے )اُنہوں نے ہميں اسي طرح کھينچا‘ اُٹھايااور پٹخ ديا ‘ہميںقدموں تلے پامال کيا‘بے برو کيا۔ليکن ہميں پتا ہي نہيںچلا۔ وہ يہ عذرپيش کرتے اوريہ جواب ديتے ہيں۔
ان کے جواب ميںملائکہ کہتے ہيں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
کيا پروردگار کي زمين يہيں تک محدود تھي ؟
کيا پوري دنياصرف اسي معاشرے تک محدود تھي جس ميں تم مستضعف بنے زندگي بسر کر رہے تھے؟
کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي ‘ کہ تم اس قيد خانے سے نکل کر ايک زاد خطہ ارضي ميں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کي عبادت کرسکتے‘ايک ايسي سرزمين پرجہاں تم اپني صلاحيتوں کا استعمال صحيح راستے پر کر سکتے ۔
کيا دنيا ميں ايسي کوئي جگہ نہيں تھي ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کي منطق اورعقلمند انسانوں کي منطق بالکل يکساں ہے۔ انسان کي عقل بھي يہي کہتي ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
’’کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا‘وہ بيچارے کيا کہيں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئي معقول جواب نہيں ہے۔لہٰذا قرنِ کريم ان بيچاروں کے انجام کے بارے ميں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفين جن کي قوتيںاور صلاحيتيں طاغوتوں کے ہاتھ ميں تھيں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوريہ انسان کے لئے کيسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ يہاں بھي ايک استثنا پايا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہيں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلي نظام کي اس قيد سے نجات نہيں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہيں‘کچھ بوڑھے ہيں ‘کچھ بچے ہيں ‘کچھ عورتيں ہيں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہيں ہے ۔
لہٰذا يہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہيں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّ لااَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعيف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئي چارہ نہيں اور جن سے کچھ نہيں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کي عبوديت کي سر زمين کي جانب نے کي کوئي راہ نہيں‘ اور جو کچھ نہيں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَي اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہيںکر سکتے‘ اميد ہے خدا وند ِمتعال اُنہيں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے يہ خطاب حجت ہے‘يہ نہ سمجھيں اور اُن کے ذہن ميں يہ خيال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختي‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگي‘اوروہ بار بار اپنے پ سے يہ نہ پوچھيں کہ مثلاً ہمارا کيا بنے گا؟کيا ہم کچھ کر بھي سکيں گے يا نہيں؟ کيا کچھ حاصل بھي ہو گا يا نہيں؟
ايسے لوگوں کے جواب ميں قرنِ مجيد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً۔‘‘ ’’اور جو بھي راہِ خدا ميں ہجرت اختيار کرتا ہے ‘ وہ زمين ميں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔يت ١٠٠ )
دنيا اسکے لئے پرواز کا ايک کھلاسمان ثابت ہوتي ہے‘ اور وہ زادي کے ساتھ اس ميں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلي ميں ہم کتنا ہي اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہيں اُڑ سکتے تھے ‘ ليکن اب ايک حيرت انگيز وسيع و عريض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائي دورکے بيچارے مسلمان مسجد ميں بڑي مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ايماني زيادہ ہي جوش مارتا تو مسجد الحرام ميںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہيںبُري طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور ميں{يہي مسلماني کي انتہا تھي ‘ اس سے زيادہ نہيں۔ليکن جب ان لوگوں نے ہجرت کي اور زاد
سر زمين ميں ‘ اسلامي معاشرے اور ولايت ِالٰہي کے تحت زندگي بسر کرنے لگے ‘ تو ديکھا کہ يہ ايک عجيب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۔(۵)
يہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ يہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذريعے متعين اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا ميں زيادہ جدو جہد اور زيادہ خدا کي عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خداميں خرچ کرے‘ وہ زيادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکي معاشرے ميں ‘ اگر کسي کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا ميں ايک درہم ديا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ايذا پہنچائي جاتي تھي ‘ شکنجوں ميں کس کر اسے گ سے جلايا جاتا تھا۔ ليکن جب انہوں نے راہِ خدا ميں ہجرت کي‘ اور مدينۃ الرسول ميں چلے ئے ‘ تو ديکھا کہ کيسي کھلي فضا اور پرواز کي جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً(اورجو کوئي راہِ خدا ميں اور الٰہي اور اسلامي معاشرے کي طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا ميں دار الکفر سے دار الھجرہ کي جانب حرکت کي ‘ اور درميانِ راہ ميں خدا نے تمہاري جان لے لي ‘ تب کيا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کيونکہ تم نے اپنا کام کر ديا‘ جو فريضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے ديا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کي ۔اسلام يہي چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپني توانائي کے مطابق‘ جتني وہ صلاحيت رکھتا ہے اتني ‘ اور جتني اسکي استطاعت ہے اتني راہِ خدا ميں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِہ مُہَاجِرًا اِلَي اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَي اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کيونکہ يہ گفتگو ولايت کے موضوع پر خري گفتگو ہے ‘ يہ بحث تقريباً دھي باقي رہتي ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہيں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غير خدا کي ولايت ‘ شيطان اور طاغوت کي ولايت سے دارالہجرہ ‘ دارالايمان ‘ولايت ِالٰہي کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ امام کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ پيغمبر اور ولايت ِ ولي الٰہي کے زيرِ فرمان سرزمين کي جانب ہوتي ہے ۔ليکن اگردنيا ميں ايساکوئي خطہ ارضي موجود نہ ہو‘ تو کيا کيا جانا چاہئے ؟
کيا دارالکفرہي ميں پڑے رہنا چاہئے؟
يا ايک دارالہجرہ ايجاد کرنے کے بارے ميں سوچنا چاہئے ؟
خود پيغمبر اسلام ۰نے بھي ہجرت کي ۔ليکن پيغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ايک دارالہجرہ موجودنہيں تھا‘پ نے اپني ہجرت کے ذريعے ايک دارالہجرہ ايجاد کيا ۔
کبھي کبھي يہ بات ضروري ہو جاتي ہے کہ لوگوں کا ايک گروہ اپني ہجرت کے ذريعے دارالايمان کي بنياد رکھے ‘ايک الٰہي اور اسلامي معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنين وہاں ہجرت کريں۔

حوالے
١۔ کيا تم نے ان لوگوں کاحال نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبديل کر ديا اور اپني قوم کو ہلاکت کے سپرد کر ديااور دوزخ جو بد ترين ٹھکانہ ہے ‘ اس ميں جاپڑے ۔(سورہ ابراہيم ١٤۔يت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس نہيں کرتا جو ايسے امام کي تابع ہو جو خدا کي طرف سے نہيں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال ميں نيکو کار اور پرہيز گار ہو۔ بے شک خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کي جانب سے مقرر کردہ امام کي تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافي ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہيں ‘جب فرشتے اُن کي روح قبض کرتے ہيں‘ تو اُن سے پوچھتے ہيں: تم کس حال ميںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہيں: ہم زمين ميں لاچار بنا ديئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہيں: کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترين منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔يت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورميںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔يت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔يت٦١
۶۔اور جوکوئي خدا اور رسول کي جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے ميں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔يت ١٠

مام  علیدور ا نقی الہادی(ع) کے سخت ترین حالات اور آپکا طرز امامت

تحریر: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

امام ہادی علیہ السلام نے ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۴ ہجری میں مدینہ منورہ کے علاقے '' صريا،، (۱)میں آنکھیں کھولیں آپکو نجیب ،ناصح، متوکل ، مرتضی، ہادی و نقی جیسے القاب سے یاد کیا جاتا(۲) ہے آپکی کنیت ابوالحسن ثالث بیان کی گئی ہے(۳) جیسا کہ واضح ہے آپ امام جواد علیہ السلام کے فرزند ہیں  آپکی والدہ گرامی کا نام تاریخ میں  والدہ سمانہ(۴) یا سوسن(۵) بیان کیا گیا ہے ، آپ اور آپکے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کو امامین عسکریین(۶) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے بظاہر اسکی وجہ عباسی خلفا ء کی جانب سے آپ دونوں بزرگواروں کو سنہ 233 ہجری میں سامرا لے جاکر چھاونی میں رکھنا ہے چنانچہ آپ آخرِ عمر تک سامرہ میں ہی نظر بند رہے جو کہ اس وقت ایک ایسا علاقہ تھا جسے چھاونی کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
آپ کا علم اوراخلاقی فضائل
آپ علم و حلم میں لا ثانی تواخلاقی فضائل خاص کر سخاوت و بخشش میں بے نظیر و یکتائے روزگار تھے آپکی زندگی میں فقراء و محروم طبقہ کو خاص حیثیت حاصل تھی آپ انہیں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے انکی مشکلوں کو حل کرتے انکے مسائل کو سنتے اور انکی حاجتوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ، آپ مدینہ میں موجود کھجوروں کے باغات میں خود بھی کام کرتے اور جن کے پاس کام نہ ہوتا انہیں بھی ضروریات زندگی کے لئے کام پر لگا دیتے کھیتی باڑی کرتے اورطلب رزق حلال کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کرتے ،آپ انکے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے جو لوگ آپکا برا چاہتے ، شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر ائمہ کے سلسلہ سے امامت کے دعویدار نظر آتے ہیں لیکن آپکی امامت پر تمام ہی بزرگان شیعہ متفق نظر آتے ہیں اور کمسنی میں امامت کے باوجود کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے(۷)
آپکے دور کے سیاسی حالات:
آپکی زندگی کے سات سال معتصم عباسی کی خلافت کے دور میں گزرے ، اور یہ سات سال کا عرصہ آپ پر بہت سخت وگراں گزرا ، ان سات سالوں میں مدینہ میں آپکی کڑی نگرانی ہوتی، آپ پر لوگوں سے ملنے جلنے پر پابندی تھی یہاں تک "بصریا" نامی جگہ پر آپ پر نظر رکھنے کے لئے بھی کچھ گماشتوں کو رکھا گیا تھا(۸) سامرا و بغداد کی صورت حال بھی مدینہ سے الگ نہ تھی یہاں پر بھی آپکے ساتھ آپکے شیعوں پر بھی آپ ہی کی طرح حکومت وقت کی جانب سے پابندیاں تھیں اور جو شیعہ آپ سے ملتے جلتے وہ بھی تقیہ کی حالت میں ملتے تھے(۹)
معتصم کے مرنے کے بعد ۲۲۷ ہجری میں اسکا بیٹا واثق خلیفہ بنا اور اس نے مامون کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے علمی نشستوں کا اہتمام کرنا شروع کیا کبھی علمی گفتگو ترتیب دی جاتی کبھی مناظرے ہوتے اس طرح ایک اچھا علمی ماحول فراہم ہوا لیکن یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا اور انجام کار ۲۳۲ ھ میں دو ترک سرداروں کی تحریک پر قتل کر دیا گیا اور اسکا بھائی جعفر جسے متوکل بھی کہا جاتا ہے مسند نشین ہوا(۱۰)
متوکل ایک شرابی ، تند خو اور بہت ہی متعصب قسم کا آدمی تھا اسکے نظریات بھی بہت خشک اور متہجرانہ تھے اور ان پر سختی بھی بہت کرتا تھا چنانچہ *اس دور میں معتزلہ کے خلق قرآن کے عقیدے پر اس نے بہت سختی کی اور ان تمام لوگوں کو کافر قرار دیا جو معتزلہ کے عقیدے کے قائل تھے اور اسکے مقابل احمد بن حنبل و اہل حدیث کے نظریات کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے انکی حمایت کی، شیعوں سے اسکی دشمنی بہت شدید تھی اور اہلبیت و شیعوں سے شدید عناد رکھتا تھا، شیعوں اور اور اہل بیت اطہار علیھم السلام سے اسکی دشمنی کا عالم یہ تھا کہ اس نے مقامات مقدسہ کی زیارت کو ممنوع قراردے دیا تھا حتی ۲۳۵ ھجری میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کو منہدم کرنے کا حکم(۱۱) دے کر اس نے نہ صرف اپنی سفاکیت بلکہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ اپنی شدید دشمنی کا واضح طور پر اعلان کر دیا ، متوکل کے دور حکومت میں بہت سے شیعوں کو دار پر چڑھا دیا گیا بہت سوں کو سخت ترین ایذائیں دے کر شہید کر دیا ،نہ جانے کتنوں کو زندانوں میں ڈال ڈال کر مار دیا انجام کار خود اپنے بیٹے کے حکم سے ۲۴۷ ھ میں واصل جہنم ہوا(۱۲) متوکل کے بعد اسکے بیٹے منتصر نے ۶ مہینہ سے زیادہ خلافت نہ کی لیکن ہر طرف فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو گیا مصرو خراسان اور سیستان عباسی سلطنت سے خارج ہو گئے سیستان میں یعقوب لیث صفاری کا سکہ چلا تو بغداد میں لوگوں نے مستعین کے نیچے سے تخت حکومت کھینچ لیا اور اسکی جگہ معتز عباسی کو بٹھا دیا تین سال بعد اسکی جگہ پر واثق کا بیٹا محمد مھتدی خلیفہ بنا(۱۳) ان تمام حوادث کے درمیان امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں حالات کا مشاہدہ کرتے رہے ،آپکو ۲۳۳ ھ میں متوکل …

تحریر: سید ثاقب اکبر

جب کبھی مسلمان خاص طور پر عرب فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں بظاہر سنجیدہ تھے، بھارت اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مخفی رکھے ہوئے تھا۔ اب فلسطینی حقوق کے دعویدار عرب اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں بھارت کو اسرائیل سے اپنے خفیہ مراسم اور دیرینہ آشنائی کو چھپانے کی کیا ضرورت پڑی ہے، لہذا بات اب سر بام آگئی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان تعلقات کا منحوس سایہ مسئلہ کشمیر اور اہلیان کشمیر کے حقوق پر پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کو ایسے سنجیدہ موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ کشمیریوں کے بزعم خویش سفیر کے دور حکومت میں ہمارا وزیر خارجہ بھارتی استبداد اور کشمیر میں وحشیانہ اقدامات کے جواب میں قوم کو ایک منٹ کی خاموشی تجویز کر رہا ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شد  پنبہ کجا کجا نہم

بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بھارت نے سترہ ستمبر 1950ء کو اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد ممبئی میں اسرائیل کا ایک امیگریشن دفتر کھول لیا گیا، جس کا نام ٹریڈ اینڈ کونسلنگ سینٹر رکھا گیا۔ یہ دراصل اسرائیل کا سفارتخانہ تھا جسے سفارتخانے کا نام نہیں دیا گیا۔ اس زمانے میں اسرائیل کو سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت تھی کہ پوری دنیا سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں منتقل کیا جائے، چنانچہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودی باشندوں کو بھارت سے اسرائیل کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سلسلہ گذشتہ دہائی تک جاری رہا ہے، جب بھارت کے شمال مشرقی حصوں سے بڑی تعداد میں یہودی اسرائیل بھجوائے گئے۔

 1992ء میں حالات کو سازگار پا کر دونوں ملکوں نے باقاعدہ سفارت خانے کھول لیے۔ بھارت اور اسرائیل کے مابین سائنس، ٹیکنالوجی، انڈسٹری، تعلیم وغیرہ جیسے اہم شعبوں میں گہرے تعلقات قائم ہیں لیکن سب سے اہم عسکری اور فوجی تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے بھارت نے اس قدر اسلحہ خریدا ہے کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے برس بھی آئے کہ جب بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار قرار پایا۔ چنانچہ 2017ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا ۔ بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پاونڈ کے عوض راڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل خریدے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے میانمار کو بھی سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان مشقوں کی تفصیلات بہت حیران کن ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے گہرے تعلقات کا بیشتر حصہ اور تفصیلات پردہ اخفاء میں ہیں اور دونوں ملک بیشتر تزویراتی کام خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔

1999ء میں جب کارگل کا معرکہ پیش آیا تو اس کے بعد بھارت نے اسرائیل سے 6.1 ارب ڈالر کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اسرائیل میں اسلحہ سازی کے 150 سے زیادہ کارخانے ہیں جو بھارت اور دیگر ملکوں کے آرڈرز کے مطابق دن رات اسلحہ تیار کرتے ہیں۔ 2006ء تک بھارت اسرائیل سے 4.4 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ 2013ء میں اسرائیل کا ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد بھارت آیا، جس سے بھارتی حکام نے اپنی افواج کی ٹریننگ اور ان کو جدید ہتھیار مہیا کرنے کے لیے 3 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا، تاہم اسرائیل کو یہ تشویش تھی کہ کہیں بھارت کے ذریعہ اسرائیل کی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ایران منتقل نہ ہو جائے، جس کے لیے بھارت نے اسرائیل کو ہر طرح کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ حالیہ دنوں میں بھارت اور ایران کے مابین اقتصادی معاہدوں کے ختم ہونے کے پیچھے امریکہ کے علاوہ اسرائیل کا بھی ہاتھ ہو۔

دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین بہت دیرینہ روابط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ را اور موساد 1968ء سے رابطے میں ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ مودی کے دور میں ہونے والے معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دونوں ملک ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ سے مقابلے کے لیے اسرائیل بھارتی کمانڈوز کو باقاعدہ تربیت دے رہا ہے۔ یادر رہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظلوم مسلمانوں اسلامی شدت پسند قرار دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کے باوجود اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔

گذشتہ برس بھارت نے کشمیریوں کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالا ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور پھر کشمیریوں کے خلاف جو پے در پے اقدامات کیے اسے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، اہم ترین مناصب سے مسلمانوں کو ہٹا کر ہندوں اور سکھوں کو تعینات کرنا، مختلف حیلوں سے مسلمانوں کی سرزمینوں پر قبضہ کرنا، سرکاری ملازمتوں میں غیر مسلموں کو ترجیح دینا، کشمیر میں کاروبار کو بھارت کے طاقتور سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے سے کنٹرول کرنا، انتخابات کے لیے ایسی نئی حلقہ بندیاں کرنا جس سے غیر مسلموں کو زیادہ مواقع میسر آسکیں، مسلمان نوجوانوں کو بغیر مقدمے کے اٹھا لینا، مقابلے کے نام پر قتل کرنا اور خوف و وحشت کی فضا پیدا کرنا یہ سب اقدامات اسرائیلی ماڈل کا حصہ ہیں۔ کیا ان سب کے جواب میں پاکستانی قوم کو احتجاج کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا چاہیے؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بات تو کہ دی ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہولناک دھماکے سے درجنوں افراد کے ہلاک اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ دھماکہ اتنا شدید اور ہولناک تھا کہ اس کی آواز ڈھائی سو کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ لبنان کے ایک نجی خبر رساں ادارے نے اس دھماکے کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے دھماکے کی گونج سے مثال دی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق بیروت کی بندرگاہ  کے علاقے میں ہولناک دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں گردو نواح کے علاقے لرز گئے اور شہر کے مختلف علاقوں کی عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ برطانوی خبر ایجینسی کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں لبنان کے سابق وزیراعظم سعد حریری کا گھر بھی شامل ہے۔ مقامی خبر ایجنسی کے مطابق دھماکا ایک ایسے گودام میں ہوا ہے جہاں ضبط کیا گیا دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔ لبنان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گودام میں  سال قبل ایک بحری جہاز سے ضبط کیا گیا سوڈیم نائٹریٹ رکھا گیا تھا اور اسے ضایع کیا جانا تھا۔ دھماکے کی  آواز 240 کلومیٹر دور تک سنی گئی اور دور تک عمارتیں اس کی شدت سے لرز گئیں۔ اس سے قبل لبنان کے وزیر صحت حماد حسن نے دھماکے میں سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ علاوہ ازیں دھماکے کے مقام کی قریبی عمارتوں سے  لی گئی تصاویر اور ویڈٰیوز میں دھماکے کی شدت کے باعث ہونے والی تباہی اور گردو ونواح میں پھیلنے والا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک عالمی خبر رساں ادارے نے بیروت دھماکے میں کم از کم 500 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ 

 رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایران کے اندر منائی جانے والی "عید الاضحی" کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم کے ساتھ براہِ راست خطاب کیا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایرانی قوم سمیت پوری امتِ مسلمہ اور ادیانِ ابراہیمیؑ کو عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عید کے پر مسرت موقع پر قوم کو بڑھ چڑھ کر "کمزور طبقات کی مالی مدد اور عوامی صحت کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ تعاون" کی دعوت دی۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران نے ماہ مبارک ذی الحج کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کے پہلے عشرے کو عظیم ماضی کی یادگار، راہِ حق کی جانب ہدایت کرنے والا اور تضرع و زاری و توسل کا عشرہ قرار دیا اور کہا کہ اس مبارک مہینے کا دوسرا عشرہ، "عید غدیر" کے سبب "عشرۂ ولایت" ہے جبکہ الہی احکام کے درمیان "ولایت" ایک اعلی مقام کی حامل ہے کیونکہ یہی "ولایت"؛ تمام احکاماتِ الہی کے اجراء کی ضمانت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس مبارک مہینے کا تیسرا عشرہ بھی "عید مباہلہ" سمیت متعدد مناسبتوں کے حوالے سے ایک اہم عشرہ ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امید ہے کہ امتِ مسلمہ کے لئے اس عظیم مہینے کا نہ صرف پہلا عشرہ بابرکت ثابت ہوا ہو گا بلکہ بعد میں آنے والے دو عشرے بھی امت مسلمہ کے لئے "اللہ تعالی کی رضا اور امت کی خوشبختی" کا باعث بنیں گے۔ رہبر انقلاب نے محرم الحرام کے ایام عزاء کی مناسبت سے پیروان مکتب حسینیؑ کو بھرپور عزاداری کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے سلسلے میں سفارش شدہ احتیاطی تدابیر پر بھی مکمل عملدرآمد کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے ماہ محرم کے دوران عزاداروں کے لئے نذر و نیاز کے اہتمام کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام میں بھی مکمل احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کے ساتھ نذر و نیاز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ملک کے خلاف عائد غیرقانونی امریکی پابندیوں کے فوری، درمیانے عرصے اور لمبے عرصے کے اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن نے ملک و قوم کے خلاف پابندیوں کے ساتھ ساتھ حقائق مسخ کرنے کی مہم بھی چلا رکھی ہے تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ایرانی قوم کی بیداری و عقلمندی اور اسے حاصل امریکہ کی گہری پہچان کے بدولت دشمن اپنے کسی بھی ہدف تک پہنچ نہیں پایا اور نہ ہی کبھی پہنچ پائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران؛ صبر و استحکام اور عوام کے اقتصادی مسائل کے حل و ملک میں موجود اندرونی وسائل سے بھرپور استفادے کے لئے حکام کی پہلے سے بڑھ کر کی جانے والی کوششوں کے ذریعے اپنے روشن مستقبل کی جانب گامزن رہے گا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے غیرقانونی امریکی پابندیوں کو ایرانی قوم کے خلاف عظیم جرم قرار دیا اور کہا کہ خبیث دشمن؛ پوری ایرانی قوم کو نشانے پر لے لینے والی ان پابندیوں کے ذریعے مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رہبر انقلاب نے ایران کے خلاف غیر قانونی امریکی پابندیوں کے فوری مقصد کو "ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ عوام کو آپس میں الجھا کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئے اور یہی وجہ ہے وہ اس حوالے سے "شدید گرمی کے موسم" (Hot Summer) کی اصلاح کو مسلسل استعمال کر رہا ہے تاہم اس وقت وہ خود ہی "شدید گرمی کے موسم" میں گرفتار ہو چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "مُلک و قوم کی بالخصوص علمی میدان میں ترقی کو روکنا" غیرقانونی امریکی پابندیوں کا درمیانی مدت کا ہدف قرار دیا اور کہا کہ "ملک کو دیوالیہ کر کے معاشی ناکامی کا شکار بنانا" دشمن کا لمبے عرصے کا ہدف ہے کیونکہ ایسی صورت میں کوئی ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں "اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے کے مزاحمتی مراکز سے کاٹ دینے" کو امریکی پابندیوں کا ضمنی ہدف قرار دیا اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن اپنی سازشوں میں ناکام رہا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے امریکیوں کا اصلی مقصد ملک و قوم کی انتہائی اہم صلاحیتیں سلب کرنا ہے تاہم موجودہ امریکی صدر اپنے ذاتی و انتخاباتی مفادات کی فکر میں ہے جیسا کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات سے انتخاباتی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جاری امریکی حادثات "راکھ تلے چھپی چنگاری" تھے جو، دبائے جانے کے باوجود اب بھڑک کر شعلوں میں بدل چکے ہیں اور یہی حوادث موجودہ امریکی حکومتی نظام کے خاتمے کا سبب بنیں گے کیونکہ اس حکومتی نظام کا سیاسی و معاشی فلسفہ غلط اور قابل مذمت ہے۔


چند دن پہلے لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع شبعا کھیتوں میں ایک بہت عجیب واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ واقعہ اسرائیل آرمی کے ماتھے پر کلنک کا داغ بن گیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ اسرائیل آرمی نے غلطی سے اپنے ہی افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ گذشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیل کے فضائی حملے میں حزب اللہ لبنان کے ایک اعلی کمانڈر علی کمال محسن شہید ہو گئے جس کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل آرمی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ لبنان کی سرحد کے قریب شبعا کھیتوں میں گشت کرنے والی ایک اسرائیلی یونٹ کو یوں محسوس ہوا گویا حزب اللہ لبنان کے کمانڈوز نے ان پر حملہ کر دیا ہے جس پر انہوں نے بوکھلا کر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔
 
لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی فوجیوں کو نشانہ بنا ڈالا تھا۔ اب انہوں نے شرمندگی سے بچنے کیلئے یہ خبر اڑا دی کہ اسرائیل آرمی نے حزب اللہ لبنان کا کمانڈو ایکشن ناکام بنا دیا ہے۔ جب ان سے ثبوت کے طور پر جھڑپ میں مارے جانے والے افراد کی تصاویر کا مطالبہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زندہ بچنے والے حزب اللہ کے کمانڈوز اپنے ساتھیوں کی لاشیں اپنے ساتھ واپس لے گئے ہیں۔ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ اس فائرنگ اور گولہ باری میں اسرائیل آرمی نے اپنے ہی پانچ فوجی ہلاک اور بارہ زخمی کر دیے ہیں۔ واقعے کے کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے اپنے سرکاری بیان میں واضح کیا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے اندر کوئی کاروائی انجام نہیں دی اور ان کا کوئی مجاہد زخمی یا شہید نہیں ہوا۔
 
حزب اللہ لبنان نے اس واقعہ پر دو قسم کی حکمت عملی اپنائی۔ ایک "اسٹریٹجک خاموشی" اور دوسری "بامقصد ابہام" پر مبنی تھی۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ مدت کیلئے خاموشی اختیار کئے جانا اسرائیلیوں کیلئے ہر بیانئے یا دھمکی سے زیادہ دردناک تھا۔ اس خاموشی نے صہیونی رژیم کو شدید قسم کے اوہام کا شکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس کا خوف و ہراس اپنے عروج تک جا پہنچا۔ اس واقعہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آپس میں لڑنے میں مصروف تھے۔ اس دوران حزب اللہ لبنان نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ یوں حزب اللہ لبنان نے ایک گولی بھی چلائے بغیر محض اسٹریٹجک خاموشی اور بامقصد ابہام کے ذریعے شبعا کھیتوں میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم حزب اللہ لبنان سے اس قدر خوفزدہ ہو چکی ہے کہ نہ صرف حزب اللہ کے مجاہدین بلکہ مجاہدین کے سائے سے بھی وحشت زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجی حتی مجاہدین کی موجودگی کا وہم و گمان کر کے بھی گولہ باری اور فائرنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ تاریخ میں یہ حقیقت لکھی جائے گی کہ ایسے احمق بھی تھے جو خوف کا شکار ہو کر میدان جنگ میں اترتے تھے اور فرضی دشمن کے خلاف کاروائی انجام دیتے تھے۔ گویا اسرائیل حزب اللہ لبنان سے خوفزدہ ہو کر خودکشی پر اتر آیا ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دمشق میں شہید ہونے والے اپنے فوجی کمانڈر کا بدلہ لے کر رہے گی۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری کردہ بیانئے میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے شہید کمانڈر کا بدلہ ضرور لیں گے۔
 
لہذا شبعا کے کھیتوں میں غلطی سے اپنے ہی فوجی مارنے اور زخمی کرنے کے باوجود اسرائیل کی سکیورٹی فورسز بدستور ہائی الرٹ پر ہیں۔ خود اسرائیل بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ حزب اللہ لبنان جس اقدام کا اعلان کرتی ہے اسے انجام دیتی ہے۔ چند سال پہلے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے اور آج کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم دنیا کے جس حصے میں بھی ہمارے خلاف کسی قسم کا دہشت گردانہ اقدام انجام دے گی ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ لہذا ماضی میں بھی حزب اللہ لبنان اپنے اعلی سطحی کمانڈرز کی شہادت کے بدلے باقاعدہ پہلے سے اعلان کر کے مقبوضہ فلسطین کے اندر غاصب صہیونی فوجیوں کے خلاف انتقامی کاروائی انجام دیتی آئی ہے۔
 
شبعا کے کھیت مقبوضہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر واقع ہیں۔ یہ علاقہ درحقیقت لبنان کی سرزمین کا حصہ ہے جس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ ایسے ہی جیسے اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائٹس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ جب تک لبنان کی خاک کا ایک چپہ بھی غاصب صہیونی رژیم کے قبضے میں ہے یہ تنظیم اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔ حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہید علی کمال محسن کے خون کا بدلہ لینے کیلئے مناسب وقت اور جگہ کا انتخاب خود کرے گی۔ اسرائیلی حکمرانوں کے خوف اور وحشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے وقت، جگہ اور نوعیت سے لاعلم ہیں۔

یوم عرفہ ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے۔ یہ دن  اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری نیز دعا اور توبہ قبول ہونے کا اہم دن ہے۔

اللہ تعالی نے اس دن اپنے بندوں کے لئے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دسترخوان بچھا دیئے ہیں یوم عرفہ اللہ تعالی کی عطا اور بخشش کا دن ہے۔  بعض دینی ذرائع کے مطابق یوم عرفہ کو عید کے عنوان سے بھی یاد کیا گیا ہے، مفاتیح الجنان کے مطابق یوم عرفہ اور نویں ذالحجہ بڑی اعیاد میں سے ہے اگر چہ روایات میں عید کے نام سے موسوم نہیں ہوا ہے لیکن یہ دن بھی اہم ایام میں شامل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے۔ اس دن لوگ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور جود و سخا سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔عرفہ کے معنی پہچان اور شناخت کے ہیں اس دن لوگ اپنے حقیقی معبود اور خالق کو پہچانتے ہیں اس کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اس سے مدد اور نصرت طلب کرتے ہیں ۔ آج کے اعمال میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زيارت اہم ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج کربلائے معلی میں اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین (ع)  کے روضہ پرحاضر ہو کر اپنے معبود برحق سے راز و نیاز کررہے ہیں۔آج کے دن کی دعاؤں میں یوم عرفہ میدان عرفات میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا معروف ہے جو عبد و معبود کے درمیان گہرے  رابطہ کا مظہر ہےجو اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا مظہر ہے۔

اس دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور کربلائے معلی میں حاضر ہونے کی سخت تاکید کی گئی جس کے نتیجے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت اور جلالت دو چنداں ہوجاتی ہے بعض روایات کے مطابق عرفہ کے دن اللہ تعالی پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہے اور اس کے بعد عرفات میں حاضر ہونے والے حجاج پر نظر کرتا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " انّ اللّه تبارک و تعالی یتجلّی لزوّار قبر الحسین(ع) قبل اهل العرفات و یقضی حوائجهم و یغفر ذنوبهم و یشفّعهم فی مسائلهم ثمّ یأتی اهل عرفه فیفعل بهم ذلک." اللہ تعالی عرفات سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہےان کی توبہ کوقبول کرتا ہے ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے مسائل اور مشکلات کو حل کرتا ہے اور اس کے بعد اہل عرفہ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم عرفہ دعا ، توبہ اور انابہ کے لحاظ سے بہت ہی اہم دن ہے اور مؤمنین کو اس دن کے فیوض اور برکات سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

 آج اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مقدس اور مذہبی مقامات پر طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ  اس دعا کی تلاوت کی جائے گی اور مؤمنین اس دعا کے ذریعہ اپنے گناہوں کی بخشش اور قرب خدا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوم عرفہ حضرت آدم اور حضرت داؤد کی توبہ قبول ہوئی یہ دن اللہ تعالی سے  دعا ، رحمت اور مغفرفت طلب کرنے کا دن ہے۔