سلیمانی

سلیمانی

Thursday, 02 April 2020 20:42

اسلام ہي اصل تہذيب ہے

ہمت علي
سيّد قطب شھيد کي کتاب معالم في الطريق سے اقتباسات
اسلام ہي اصل تہذيب ہے
اِسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے۔ ايک اسلامي معاشرہ اور دوسرا جاہلي معاشرہ۔ اسلامي معاشرہ وہ ہے جس ميں انساني زندگي کي زمامِ قيادت اسلام کے ہاتھ ميں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکي قانون اور نظامِ رياست پر، اخلاق و معاملات پر غرضيکہ زندگي کے ہر پہلو پر اسلام کي عملداري ہو۔ جاہلي معاشرہ وہ ہے جس ميں اسلام عملي زندگي سے خارج ہو۔ نہ اسلام کے عقائد و تصورات اُس پر حکمراني کرتے ہوں، نہ اسلامي اقدار اور ردّو قبول کے اسلامي پيمانوں کو وہاں برتري حاصل ہو، نہ اسلامي قوانين و ضوابط کا سکہّ رواں ہو اور نہ اسلامي اخلاق و معاملات کسي درجہ فوقيت رکھتے ہوں
اِسلامي معاشرہ وہ نہيں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلامي شريعت کو وہاں کوئي قانوني پوزيشن حاصل نہ ہو۔ ايسے معاشرے ميں اگر نماز روزے اور حج کا اہتمام موجودبھي ہو تو بھي وہ اسلامي معاشرہ نہيں ہوگا، بلکہ وہ ايک ايسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فيصلوں سے آزاد ہو کر اپنے مطالبہ نفس کے تحت اسلام کا ايک جديد ايڈيشن تيار کرليتا ہے اور اُسے۔۔۔برسبيل ِمثال۔۔۔ "ترقي پسند اسلام" کےنام سے موسوم کرليتا ہے!
جاہلي معاشرہ مختلف بھيس بدلتا رہتا ہے، جو تمام کے تمام جاہليت ہي سے ماخوذ ہوتے ہيں۔ کبھي وہ ايک ايسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ ليتا ہے، جس ميں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کيا جاتا ہے اور انساني تاريخ کي مادي اور جدلي تعبير ( nterpretational Dialectual) کي جاتي ہے اور "سائنٹيفک سوشلزم" کو نظامِ زندگي کي حثيت سے عملي جامعہ پہنايا جاتا ہے۔ وہ کبھي ايک ايسي جمعيت کے رنگ ميں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجود کي تو منکر نہيں ہوتي، ليکن اُس کي فرماں روائي اور اقتدار کو صرف آسمانوں تک محدود رکھتي ہے۔ رہي زمين کي فرماروائي تعو اس سے خدا کو بے دخل رکھتي ہے۔ نہ خدا کي شريعت کو نظامِ زندگي ميں نافذ کرتي ہے ، اور نہ خدا کي تجويز کردہ اقدارِحيات کو جسے خدا نےانساني زندگي کے ليے ابدي اور غير متغير اقدار ٹھيرايا ہے فرماں روائي کا منصب ديتي ہے۔ وہ لوگوں کو يہ اجازت تو ديتي ہے کہ وہ مسجدوں، کليساؤں اور عبادت گاہوں کي چارديواري کے اندر خدا کي پوجا پاٹ کرليں، ليکن يہ گوارہ نہيں کرتي کہ لوگ زندگي کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھي شريعتِ الہيٰ کو حاکم بناليں۔ اس لحاظ سے وہ جمعيت تختہ زمين پر خدا کي الوہيت کي باغي ہوتي ہے کيونکہ وہ اُسے عملي زندگي ميں معطل کرکے رکھ ديتي ہے، حالانکہ اللہ تعاليٰ کا صريح فرمان ہے: وھو الذي في السمأٌ الہ و في الارض الہ (وہي خدا ہے جو آسمان ميں بھي الہٰ ہے اور زمين ميں بھي)۔ اس طرز عمل کي وجہ سے يہ معاشرہ اللہ کے اس پاکيزہ نظام کي تعريف ميں نہيں آتا جسے اللہ تعاليٰ نے آيت ذيل ميں "دين قيّم" سےتعبير فرمايا ہے:
حکم صرف اللہ کا ہے۔ اُسي کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسي کي بندگي نہ کي جائے۔ يہي دين قيّم (ٹھيٹھ سيدھا طريقِ زندگي) ہے۔ (يوسف: 84)

يہي وہ اجتماعي طرزِعمل ہے جس کي وجہ سے يہ معاشرہ بھي جاہلي معاشروں صف ميں شمار ہوتا ہے۔ چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کليساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے اگے مذہبي مراسم کي ادائيگي سے نہ روکے۔)

صرف اِسلامي معاشرہ ہي مہذّب معاشرہ ہے۔

آغاز ميں ہم اسلامي معاشرہ کي جو تعريف کر آئے ہيں اُس کي بنا پر يہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف اِسلامي معاشرہ ہي درحقيقت "مہذب معاشرہ" ہے۔ جاہلي معاشرے خواہ جس رنگ اور رو پ ميں ہوں بنيادي طور پر پسماندہ اور غير مہذب معاشرے ہوتے ہيں۔ اس اجمال کي وضاحت ضروري معلوم ہوتي ہے۔

ايک مرتبہ ميں نے اپني زير طبع کتاب کا اعلان کيا اوراُس کا نام رکھا:" نحو مجتمع اسلامي متحضر" ( مہذب اسلامي معاشرہ)۔ ليکن اگلے اعلان ميں ميَں نے "مہذب" کا لفظ حذف کرديا اور اس کا نام صرف "اسلامي معاشرہ" رہنے ديا۔ اس ترميم پر ايک الجزائري مصنف کي جو فرانسيسي زبان ميں لکھتے ہيں نظر پڑي اور انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس تبديلي کا محّرک وہ نفسياتي عمل ہے جو اسلام کي مدافعت کے وقت ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موصوف نے افسوس کا اظہار کيا کہ يہ عمل جو ناپختگي کي علامت ہے مجھے اصل مشکل کا حقيقت پسندانہ سامنا کرنے سے روک رہا ہے۔ ميں اِس الجزائري مصّنف کو معذور سمجھتا ہوں۔ ميں خود بھي پہلے اُنہي کا ہم خيال تھا۔ اور جب ميں نے پہلي مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھايا تو اُس وقت ميں بھي اُسي انداز پر سوچ رہا تھا جس انداز پر وہ آج سوچ رہے ہيں۔ اور جو مشکل آج اُنہيں درپيش ہے وہي مشکل اس وقت مجھے خود درپيش تھي۔ يعني يہ کہ "تہذيب کسے کہتے ہيں" اُس وقت تک ميں نے اپني اُن علمي اور فکري کمزوريوں سے نجات نہيں پائي تھي جو ميري ذہني اور نفسياتي تعمير ميں رچ بس چکي تھيں۔ ان کمزوريوں کا ماخذ مغربي لٹريچر اور مغربي افکاروتصّورات تھے جو بلاشبہ ميرے اسلامي جذبہ و شعور کے ليے اجنبي تھے، اور اُس دور ميں بھي وہ ميرے واضح اسلامي رجحان اور ذوق کے خلاف تھے۔ تاہم ان بنيادي کمزوريوں نے ميري فکرکو غبار الود اور اُس کے پاکيزہ نقوش کو مسخ کررکھا تھا۔ تہذيب کا وہ تصّور جو يورپي فکر ميں پايا جاتا ہے ميري آنکھوں ميں سمايا رہتا تھا، اس نے ميرے ذہن پر پردہ ڈال رکھا تھا اور مجھے نکھري ہوئي اور حقيقت رسا نظر سے محروم کررکھا تھا۔ مگر بعد ميں اصل تصوير نکھر کر ميرے سامنے اگئي اور مجھ پر يہ راز کھلا کہ اسلامي معاشرہ ہي دراصل مہذب معاشرہ ہوتا ہے۔ ميں نے اپني کتاب کےنام پر غور کيا تو معلوم ہوا کہ اس ميں لفظ "مہذب" زائد ہے۔ اور اس سے مفہوم ميں کسي نئي چيز کا اضافہ نہيں ہوتا۔ بلکہ يہ لفظ الٹا قاري کے احساسات پر اُس اجنبي فکر کي پرچھائياں ڈال دے گا جو ميرے ذہن پر بھي چھائي رہي ہيں اور جنھوں نے مجھے صحّت مندانہ نگاہ سے محروم کررکھا تھا۔
اب موضوع زير بحث يہ ہے کہ "تہذيب کسے کہتے ہيں؟"۔ اس حقيقت کي وضاحت ناگريز ہوتي ہے۔
جب کسي معاشرے ميں حاکمّيت صرف اللہ کے ليے مخصوص ہو، اور اس کا عملي ثبوت يہ ہو کہ اللہ کي شريعت کو معاشرے ميں برتري حاصل ہو تو صرف ايسے معاشرے ميں انسان اپنے جيسے انسانوں کي غلامي سےکامل اور حقيقي آزادي حاصل کرسکتے ہيں۔ اسي کامل اور حقيقي آزادي کا نام "انساني تہذيب " ہے۔ اس ليے کہ انسان کي تہذيب ايک ايسا بنيادي ادارہ چاہتي ہے جس کي حدود ميں انسان مکمل اور حقيقي آزادي سے سرشار ہو اور معاشرے کا ہر فرد غير مشروط طور پر انساني شرف و فضيلت سے متمتع ہو۔ اور جس معاشرے کا ہر فرد کا يہ حال ہو کہ اُس ميں کچھ لوگ رب اور شارع بنے ہوں اور باقي اُن کے اطاعت کيش غلام ہوں، تو ايسے معاشرے ميں انسان کو بحثيت انسان کوئي آزادي نصيب نہيں ہوتي اور نہ وہ اُس شرف و فضيلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے جو لازمہ انسانيت ہے۔
جاري۔۔۔

يہاں ضمناٌ يہ نکتہ بيان کردينا بھي ضروري ہے کہ قانون کا دائرہ صرف قانوني احکام تک محدود نہيں ہوتا، جيسا کہ آج کل لفظ شريعت کے بارے ميں لوگوں کے ذہنوں ميں محدود اور تنگ مفہوم پايا جاتا ہے۔ بلکہ تصورات، طريقہ زندگي، اقدار حيات، ردوقبول کے پيمانے، عادات و روايات يہ سب بھي قانون کے دائرے ميں آتے ہيں۔ اور افراد پر اثرانداز ہوتے ہيں۔ اگر انسانوں کا ايک مخصوص گروہ يہ سب بيڑياں يا دباؤ کے اساليب ہدايت الہيٰ سے بے نياز ہوکر تراش لے اور معاشرے کے دوسرے افراد کو ان ميں مقيد کرکے رکھ دے تو ايسے معاشرے کو کيوں کر آزاد معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔ يہ تو ايسا معاشرہ ہے جس ميں بعض افراد کو مقام ربوبيت حاصل ہے اور باقي لوگ ان ارباب کي عبوديت ميں گرفتار ہيں۔ اس وجہ سے يہ معاشرہ پسماندہ معاشرہ شمار ہوگا يا اسلامي اصطلاحوں ميں اُسے جاہلي معاشرہ کہيں گے۔
صرف اسلامي معاشرہ ہي وہ منفرد اور يکتا معاشرہ ہے جس ميں اقتدارکي زمام صرف ايک الہٰ کے ہاتھ ميں ہوتي ہے۔ اور انسان اپنے ہم جنسوں کي غلامي کي بيڑياں کاٹ کر صرف اللہ کي غلامي ميں داخل ہوجاتے ہيں۔ اور يوں وہ کامل اور حقيقي ازادي سے جو انسان کي تہذيب کا نقطہ ماسکہ ہے ، بہرہ ور ہوتے ہيں۔ اس معاشرے ميں انساني فضيلت و شرف اسي حقيقي صورت ميں نورافگن ہوتي ہے جو اللہ تعالےٰ نے اس کےليے تجويز فرمائي ہے۔ اس معاشرے ميں انسان ايک طرف زمين پر اللہ کي نيابت کے منصب پر سرفراز ہوتا ہے، اور دوسري طرف ملاءاعليٰ ميں اس کے ليے غيرمعمولي اعزاز اور مرتبہ بلند کا اعلان بھي ہوجاتاہے ۔

اِسلامي معاشرہ اور جاہلي معاشرہ کي جوہري خصوصيات

جب کسي معاشرے ميں انساني اجتماع اور مدنيت کے بنيادي رشتے عقيدہ ، تصور ، نظريہ اور طريق حيات سے عبارت ہوں اور اُن کا ماخذ و منبع صرف ايک الہٰ ہو اور انسان نيا بت کے درجہ پر سرفراز ہو۔ اور يہ صورت نہ ہو کہ فرمانروائي کا سرچشمہ زميني ارباب ہوں اور انسان کے گلے ميں انسان کي غلامي کا طوق پڑا ہو۔۔۔۔ بلکہ اس کے برعکس انسان صرف ايک خدا کے بندے ہوں تو تبھي ايک ايسا پاکيزہ انساني اجتماع وجود ميں آسکتا ہے، جو ان تمام اعليٰ خصائص کي جلوہ گاہ ہوتا ہے جو انسان کي روح اور فکر ميں وديعت ہيں۔ ليکن اس کے برعکس اگر معاشرے کے اندر انساني تعلقات کي بنياد رنگ و نسل، اور قوم و ملک اور اسي نوعيت کے دوسرے رشتوں پر رکھي گئي ہو تو ظاہر ہے کہ يہ رشتے زنجير ثابت ہوتے ہيں اور انسان کے اعليٰ خصائص کو اُبھرنے کا موقع نہيں ديتے۔ انسان رنگ و نسل اور قوم و وطن کي حد بنديوں سے آزاد رہ کر بھي انسان ہي رہے گا مگر روح اور عقل کے بغير وہ انسان نہيں رہ سکتا۔مزيد براں يہ کہ وہ اپنے عقيدہ و تصور اور نظريہ حيات کو اپنے آزاد ارادے سے بدلنے کا اختيار بھي رکھتا ہے ، مگر اپنے رنگ اور اپني نسل ميں تبديلي پر قادر نہيں ہے، اور نہ اس بات کي اُسے قدرت حاصل ہے کہ وہ کسي مخصوص قوم يا مخصوص وطن ميں اپني پيدائش کا فيصلہ کرے۔ لہذا يہ ثابت ہوئي کہ وہ معاشرہ جس ميں انسانوں کا اجتماع ايک ايسي بات پر ہو جس کا تعلق اُن کي آزاد مرضي اور اُن کي پسند سے ہو وہي معاشرہ نور تہذيب سے منور ہے۔ اس کے برعکس وہ معاشرہ جس کے افراد اپنے انساني ارادے سے ہٹ کر کسي اور بنياد پر مجتمع ہوں، وہ پسماندہ معاشرہ ہے۔ يا اسلامي اصطلاح ميں وہ جاہلي معاشرہ ہے۔
 

 

Thursday, 02 April 2020 20:29

تشیع اسلام کا ہم عمر


ترجمه و تکمیل : ف.ح.مهدوی
مذہب شیعہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا بانی کوئی فقیہ یا مجتہد نہیں ہے جبکہ دیگر اسلامی مذاہب کے بانی محدثین یا فقہاء تھے جنہوں نے دیگر مجتہدین کے ظہور کا راستہ روکتے ہوئے اپنے بعد اجتہاد کا باب بند کردیا.
مذہب شیعہ کے بانی رسول اللہ (ص) ہیں جنہوں نے دعوت ذوالعشیرہ میں علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کیا اور بنو ہاشم کو امر کیا کہ «میرے بعد علی کی پیروی کرو».
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی کسی کو ناحق ثابت کرکے اپنی حقانیت کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا. بالفاظ دیگر اگر آپ اپنی حقانیت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی خصوصیات و عقائد بیان کرنا ہونگے اور اپنی حقانیت کی دلیلیں دینی ہونگی کیوں کہ اگر آپ کسی اور باطل ثابت کریں گے بھی تو اس سے اس کا بطلان تو شاید ثابت ہوجائے مگر آپ کی حقانیت ثابت نہیں ہوگی. اگر زید برا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خالد اچھا ہے کیونکہ اچھائی کے اپنے معیارات اور پیمانے ہیں اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اہل حق کو پہنچاننے سے پہلے حق کو پہچاننا ضروری ہے اور جب آپ حق کو پہچان لیں گے اہل حق کی پہچان بڑی سادہ ہوجائے گی.
بہرحال بعض لوگ بعض لوگوں کو بڑا اور عظیم ثابت کرنے کے لئے بعض بڑے اور عظیم لوگوں پر کیچڑ اچھالتے رہے ہیں مگر ان کے کیچڑ اچھالنے سے ان عظیم لوگوں کی حقیقت جاننے کی تشنگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس طرح تحقیق کا بہتر بہانہ ملتا ہے اور وہ لوگ جو ان بڑے لوگوں کو نہیں پہچانتے، بھی انہیں پہچان لیتے ہیں جبکہ کیچڑ اچھالنے والوں کو اپنے مقصد میں نہ صرف کامیابی حاصل نہیں ہوتی بلکہ با انصاف لوگ ان کے بارے میں بھی تحقیق کرلیتے ہیں اور تعصب سے پاک محققین ان کی حقیقت سے بھی آگہی حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی یہ آگہی ان لوگوں کی حقانیت کے اثبات پر منتج نہیں ہوتی.
بعض لوگ اسلام کے اصلی ترین اور بنیادی ترین مذہب پر کیچڑ اچھال کر اپنے راستے کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مذہب شیعہ علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد کچھ افسانوی شخصیات کے توسط سے معرض وجود میں آیا ہے اور ہم کسی پر کیچڑ اچھالے بغیر اپنے مذہب کی بات کرتے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے مذہب سے آگہی حاصل کرنے کے لئے اس کا تعارف ہماری زبان سے ہی سنا جائے کیونکہ اگر مخالفین ہمارا تعارف کرائیں تو اس میں غیرجانبداری ملحوظ نہیں ہوگی اور مخالفین تو اپنے اثبات کے لئے ہمارے مذہب پر یلغار کرنے کے عادی ہیں.
یہاں ہمارا ہدف یہ ثابت کرنا ہے کہ مذہب شیعہ کی بنیاد دوسری صدی ہجری یا تیسری صدی ہجری میں نہیں بلکہ ابتدائے اسلام میں رکھی گئی ہے اور ہمارا مذہب دنیا کا واحد زندہ مذہب ہے جس کا بلاواسطہ تعلق منبع وحی سے ہے اور بلاواسطہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اخذ ہؤا ہے.

مذہب شیعہ باب مدینة العلم امام علی (ع) کے زمانے سے
سوال: کیا مذہب شیعہ علی علیہ السلام کے زمانے سے تھا ؟
جواب: شیعہ لغت میں پیروکار اور مددگار کو کہا جاتا ہے مگر اصطلاح میں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو امام علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت بلافصل کا عقیدہ رکھتے ہیں. شیعیان علی (ع) کا عقیدہ ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد سیاسی، دینی اور علمی مرجعیت کے عہدیدار امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور آپ (ع) کے گیارہ معصوم فرزند ہیں اور یہ کہ علی علیہ السلام اور آپ (ع) کے معصوم فرزندوں کی امامت جلیّ اور خفیّ دلیلوں اور نصوص سے ثابت ہے اور بالآخر یہ کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت صرف اور صرف علی اور فرزندان علی علیہم الصلواة و السلام کا حق ہے. (1)
جب یہ آیات نازل ہوئین:
«إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ * جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ» (2)
«بتحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح بجالائے خدا کی بہترین مخلوقات ہیں * ان کی جزا ان کے پروردگار کے نزدیک بہشت جاویدان کے باغ ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ لوگ ہمیشہ کے لئے وہیں رہیں گے اور خدا ان سے راضی و خوشنود ہے اور وہ بھی خدا سے راضی اور خوشنود ہیں اور یہ اونچا مقام اس شخص کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرے ». تو رسول اللہ (ص) نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا:«انت و شيعتک یوم القیامة راضین مرضیین»؛(3) یا علی! آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت خدا سے راضی ہونگے اور خدا بھی آپ سے اور آپ کے شیعوں سے راضی ہوگا ». نیز علی (ع) کو اشارہ کرکے فرمایا: «ان هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة»؛(4)
«یہ علی اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب اور اہل سعادت ہیں».
سوال: کیا رسول اللہ کے زمانے میں بھی شیعہ تھے؟
جواب: جی ہاں! بالکل تھے؛ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں چار افراد شیعیان علی کی عنوان سے پہچانے جاتے تھے: 1- حضرت سلمان فارسی (ع) 2- حضرت ابوذر غفاری (ع) 3- حضرت عمار یاسر (ع) 4- حضرت مقداد بن اسود (ع)
(5)

1- حضرت سلمان فارسی (ع)
سلمان فارسی واحد صحابی تھے جنہیں رسول اللہ (ص) «السلمان منا اهل البیت = سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں» کا اعزاز بخشا تھا اور رسول اللہ (ص) نے ہی فرمایا تھا کہ سلمان ایمان کے دس درجوں میں سے9 درجوں پر فائز ہیں!

2- حضرت ابوذر غفاری (ع)
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آسمانوں نے ابوذر سے زیادہ سچا آدمی نہیں دیکھا.

3- حضرت عمار یاسر (ع)
عمار کی والد «حضرت یاسر (رض)» اسلام کے پہلے شہید اور ان کی والدہ «حضرت سمیہ (رض)» اسلام کی پہلی شہیدہ ہیں. سورہ نحل کی آیت 106 عمار کے ایمان کی تصدیق میں اتری ہے اور رسول اکرم (ص) نے انہیں فرمایا تھا: «ويحك يا بن سمية تقتلك الفئة الباغية (6) اے سمیه کے فرزند! آفرین ہے تم پر! تم کو باغی گروہ قتل کرےگا» اور جب عمار صفین کے مقام پر معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تو بہت سے لوگ جو امام علی علیہ السلام کی حمایت کے حوالی سے دو دل اور متردد تھے بھی علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اب حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہوگیا ہے اور عمار کے قاتل اہل باطل ہیں.

4- حضرت مقداد بن اسود (ع)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے والوں میں چھٹے نمبر پر اور سابقین اولین میں سے تھے.
سیدعلی خان شیرازی اور سیدمحسن امین جبل عاملی جیسے کئی دیگر علماء نے بہت سے صحابہ رسول (ص) کا نام لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ صحابہ کرام علی علیہ السلام کے شیعہ تھے. (7)
صحابہ کے بعد تابعین کی باری آتی ہے اور تابعین وہ مسلمان ہیں جو نسل صحابہ کے خاتمے کے بعد آئے ہیں اور ان میں شیعیان علی علیہ السلام کی تعداد بہت زیادہ ہوئی یہاں تک کہ میزان الاعتدال کے مؤلف «ذہنی» نے لکھا ہے کہ تابعین میں پیروان تشیع کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو پیغمبر اسلام (ص) کے آثار اور ان سے باقیماندہ علمی میراث نیست و نابود ہوکر رہ جاتی.(8)
رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد اسلامی سیاست کے میدان میں دو قسم کی تفکرات ابھر گئے؛ ایک تفکر کا تعلق عقیدہ خلافت پر استوار تھا اور یہ وہی خلافت تھی جس کی بنیاد سقیفہ بنی ساعدہ میں رکھی گئی اور اس تفکر کے حامیوں نے سیاسی اقتدار ابوبکر بن ابی قحافہ کو سونپا. یہ تفکر امامت کے تفکر کے مدمقابل کھڑا ہوگیا اور تفکر امامت کی بنیاد «حدیث ثقلین» اور حدیث غدیر پر مبنی ہے. اس تفکر کے پیروکار نص صریح کی بنیاد پر حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کا عقیدہ رکھتے تھے.
یہ دو تفکرات گوناگوں نشیب و فراز کے ساتھ آج تک اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں.
سوال: گو کہ اکثریت حقانیت کی دلیل نہیں ہے مگر پھر بھی سوال یہ ہے کہ تفکر خلافت کے پیروکاروں کی تعداد کیوں تفکر امامت کی نسبت زیادہ ہے؟
جواب: تفکر خلافت اگر چہ طلحہ کے ہاتھوں عثمان بن عفان کے قتل کے بعد تقریبا ختم ہوکر رہ گئی اور معاویہ نے اپنے فاسق و فاجر بیٹے "یزید" کی ولیعہدی کا اعلان کرکے اس طرز فکر کا گلا گھونٹ دیا مگر بنو امیہ اور ان کے بعد بنو عباس نے اپنی بادشاہت کا سلسلہ خلافت کا لبادہ اوڑھ کر جاری رکھا اور یوں اہل خلافت کو بہت لمبے عرصے تک حکومت و اقتدار کا موقع میسر رہا جس کی وجہ سے تفکر خلافت یا مکتب خلافت کے پیروکاروں کی کمّیت میں اچھا خاصا اضافہ ہوا.
سوال: شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد میں کب اضافہ ہوا؟
جواب: خلفائے ثلاثہ یعنی ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے میں شیعیان اہل بیت (ع) کمیت کے لحاظ سے کافی قلیل تھے مگر جب اہل مدینہ و مصر و عراق نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور علی علیہ السلام نے امت اسلامی کی خلافت کا ظاہری عہدہ سنبھالا تو کمّیت کے لحاظ سے اہل تشیع نے قدرے ترقی کی اور سنہ 35 ہجری کے بعد اہل عراق نے مذہب تشیع اختیار کیا اور جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلحنامے پر دستخط کئے تو معاویہ نے شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے گھٹن کی فضا قائم کی اور انہیں سماجی حقوق سے محروم کردیا.
امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے اصحاب و انصار کی شہادت کے بعد، تھوڑی مدت کے لئے تشیع کی فکری اور اعتقادی حرکت رکاؤ کا شکار ہوئی مگر کوفہ اور بصرہ کے شیعیان اہل بیت (ع) نے اپنی تحریکوں کے ذریعے شیعہ سیاسی حرکت کو زندہ رکھا. اس کے برعکس بنو امیہ کے بادشاہوں اور ان کے والیوں نے – جن میں سے بعض تو بالفطرہ مجرم اور قاتل تھے اور قتل انسان سے لذت اٹھاتے تھے – شیعوں کے لئے زندگی اجیرن بنادی حتی کہ بنو مروان کی بادشاہی میں تو شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد گھٹ بھی گئی مگر قیام عاشورا کے شعلی ابھی بھڑک رہے تھے[اور آج بھی بھڑک رہے ہیں] اور پھر عاشورا کے انقلاب کا جذباتی پہلو بھی بہت ہے مؤثر تھا جس کی وجہ سے اہل تشیع کی آبادی کم ہوجانے کا سلسلہ بہت جلد رک گیا اور جب موقع ملا تو تشیع کی کلیاں کھلنے لگیں اور شیعوں کی آبادی نے ترقی کے منازل طے کرنا شروع کردئیے.
عباسیوں نے اموی بادشاہت کے خلاف قیام کیا تو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کا دور تھا اور ان دو معصوم اماموں نے اس موقع سے استفادہ کرکے تفکر شیعہ کو زندہ کیا اور تشیع بالیدگی اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوا اور تشیع کے پیروکاروں میں اضافہ ہوا. «سدیر صیرفی» امام صادق علیہ السلام کے اعوان و اصحاب میں سے تھے اور تشیع کی عددی افزودگی دیکھ کر ان پر وجد و ہیجان کی کیفیت طاری ہوئی اور امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں سرور و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا: لگتا ہے کہ نصف دنیا نے تشیع اختیار کیا ہے.(9) اس زمانے میں شام و مصر وفلسطین اور ایران کے بہت سے بڑے صوبوں کے عوام نے مذہب تشیع اختیار کیا تھا.
سوال: بنو امیہ نے اہل بیت (ع) اور پیروان اہل بیت (ع) پر مظالم کے پہاڑ توڑ دئیے تھے؛ کیا تشیع کے پیروکاروں کی جمعیت میں اضافے کا بنو امیہ کے تسلط کے خاتمے میں کوئی کردار تھا؟
جواب: حقیقت یہ ہے کہ بنو عباس نے مکر و حیلہ کرکے اہل بیت (ع) کا حق انہیں لوٹانے اور اہل بیت (ع) کے خون کا بدلہ لینے کا نعرہ لگا کر بنو امیہ کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا اور ایسا انہوں نے اس لئے کیا تھا کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ جہان اسلام میں شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد و آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور مسلم امہ اس مرحلے میں اہل بیت (ع) کے حقوق کے احیاء اور ان کے خون کا بدلہ لینے کے حوالے سے بنو امیہ کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرے گی چنانچہ اہل تشیع کی آبادی میں اضافہ بنوامیہ کی بادشاہت کے زوال کا اہم ترین سبب گردانا جاتا ہے.
یہ سلسلہ بنو عباس کے دور میں بھی جاری رہا اور امام صادق (ع) اور امام موسی کاظم و دیگر امامان معصوم علیہم السلام کی قید و بند و شہادت کی وجہ بھی یہی تھی کہ بنو عباس کے بادشاہ ان کے پیروکاروں کی کثرت اور ان کی منطق و علم و دانش کی قوت سے خائف رہتے تھے.
مأمون عباسی نے اپنے بھائی امین کے خلاف قیام کرکے بھی اہل تشیع کو وعدے دے کر ان کا تعاون حاصل کیا اور جب مأمون نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا اور اقتدار پر قبضہ کیا تو حجاز و عراق و ایران کے شیعوں کی تحریکوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اس نے امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو مکر و فریب اور دھونس دھمکی کے ذریعے امام رضا علیہ السلام کو ولیعہدی کا عہدہ سونپنے کا ارادہ کیا. چنانچہ اس نے امام علیہ السلام کو مدینہ سے اپنے دارالخلافہ «مرو = Marv» بلوایا مگر امام علیہ السلام نے ولیعہدی کا عہدہ بادل ناخواستہ قبول کرنے کے باوجود ایسے متعدد اقدامات کئے جن کی بنا پر مأمون اپنے مقصد میں ناکام ہوا. مآمون امام کو ولیعہد بنا کر دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا:
1- شیعہ تحریکوں کا خاتمہ ہو اور سادہ دل شیعہ بنوعباس کی بادشاہت کو اپنی بادشاہت کے طور پر قبول کریں.
2- اہل دانش و فکر شیعہ امام علیہ السلام سے بدظن ہوجائیں اور تشیع کی وسعت و ترقی کا سلسلہ رک جائے.
مگر امام علیہ السلام نے پہلے مرحلے میں مأمون کی طرف سے خلافت کی پیشکش کے جواب میں فرمایا: اگر یہ حکومت واقعی خلافت الہیہ ہے جو تمہیں سونپ دی گئی ہے تو تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم اسے دوسروں کی سپرد کردو؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یہ خلافت تمہاری نہیں ہے اور تم نے اس پر قبضہ کیا ہے تو یہ حق تم کو کس نے دیا ہے کہ پرائی چیز پر قابض ہوکر اسے دوسروں کے حوالے کردو؟
اور جب امام علیہ السلام نے یہ عہدہ قبول کیا تو یہ شرط لگا دی کہ: میں کسی کو منصوب نہ کروں گا اور کسی کو معزول نہ کروں گا اور سرکاری امور میں مداخلت نہیں کروں گا.
امام علیہ السلام نے ہر موقع و مناسبت سے اپنا موقف بیان کیا اور پھر مأمون نے امام علیہ السلام کے علم و امامت کو داغدار کرنے کی غرض سے مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ آپ (ع) کے مناظرے کرائے جو امام علیہ السلام کی مکمل کامیابی پر ختم ہوئے اور یوں تشیع کے پیروکاروں میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور یہ سلسلہ متوکل عباسی کے دور تک جاری رہا. متوکل عباسی نے اپنے دور میں تشیع کے خلاف اموی طرز عمل اپنایا اور اہل تشیع کی سرکوبی کی پالیسی پر گامزن ہوا مگر عباسی بادشاہوں کا یہ طرز عمل ایران اور عراق پر آل بویہ اور دیلمی شیعہ حکمرانوں کی حاکمیت کے آغاز پر ہی ختم ہوا. آل بویہ کیے دور میں تشیع کو کافی وسعت ملی اور غزنوی دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر جب شدت پسندانہ سنی رویّے کے حامل ترک سلجوقیوں کی سلطنت کا آغاز ہوا تو سلجوقیوں نے تشیع کے پیروکاروں کی سرکوبی کے اموی اور عباسی سلسلے کا از سرنو آغاز کیا.
سلجوقیوں کیے خلاف کئی شیعہ تحریکیں اٹھیں جن میں بعض تحریکیں کامیاب بھی ہوئیں؛ مثلاً مصر میں فاطمی سلاطین کی بادشاہت قائم ہوئی جو شمالی افریقہ تک پہیل گئی اور یہ حکومت کئی صدیوں تک جاری رہی. فاطمی سلاطین نے ہی جامعة الازہر کی بنیاد رکھی اور مصر و افریقہ میں علمی تحریک کا آغاز کیا مگر یہ حکومت فاطمی سلاطین کے ایک سنی سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی اور صلاح الدین نے مصر و فلسطین، شام و ترکی اور شمالی افریقہ میں تشیع کی سرکوبی کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے تشیع زیر زمین چلاگیا اور آج کے علوی شیعہ اسی گھٹن کے دور کی پیداوار ہیں جنہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ علی علیہ السلام کو ماننے والے ہیں اور درحقیقت انہیں شیعہ فقہ و تاریخ سے کوئی واقفیت حاصل نہیں ہے.
فاطمیوں کے ساتھ ساتھ ایران کے شمالی علاقے طبرستان [آج کے گلستان، مازندران اور گیلان] میں سادات علوی کی حکومت قائم ہوئی اور خراسان کے سنی منگولوں کے خلاف شیعہ علماء کی قیادت میں «سربداران» کی تحریک نے بعد کی صدیوں میں تشیع کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا.
شیعہ علماء نے اس حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کیا اور جب ایران پر چنگیز کے سنی پوتوں کی حکمرانی تھی تو وہ بعض فقہی مسائل کے سلسلی میں سنی مکاتب کے علماء کے جوابات سے مطمئن نہ ہوئے چنانچہ انہوں نے عراق کے شیعہ علماء سے ان مسائل کے بارے میں استفسار کیا. اس عہد کے مشہور و معروف شیعہ مرجع تقلید علامہ یوسف بن مطہر حلی رحمة اللہ نے انہیں شیعہ فقہ کے مطابق جوابات دئیے جس کے نتیجے میں ایران کے گیارہویں مغل بادشاہ «سلطان خدا بندہ» نے سنہ 709 ہجری میں مذہب تشیع اختیار کیا اور ایران میں پہلی بار تشیع نے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل کرلی اور 907 ہجری میں صفویوں کی بادشاہت کا آغاز ہوا تو ایران میں تشیع کو مزید تقویت ملی اور مکتب امامت ایران کے ملک گیر مکتب میں تبدیل ہوا اور اسی دور (سنہ 709 ہجری) سے آج تک ایران کا سرکاری مذہب تشیع ہے.(10)

اہل تشیع کے اصول عقائد:
شیعہ توحید و نبوت و معاد کے علاوہ عدل الہی اور امامت کو اصول دین قراردیتے ہیں اور ان اصولوں میں تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ ان اصولوں میں تحقیق کے قائل ہیں. رسول اللہ (ص) کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور انکار ختم نبوت کو اسلام سے خارج ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؛ رسول اللہ (ص) کے بعد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جن کے قول و فعل میں فرق نہیں ہے اور ان کے تعدد کی وجہ سے فرقے نہیں بنتے بلکہ سب کے سب ایک ہی دین کے شارح و مفسر اور ایک ہی مذہب کے امام ہیں.

بارہ امام:
1- حضرت امام علی علیہ السلام
2- حضرت امام حسن علیہ السلام
3- حضرت امام حسین علیہ السلام
4- حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام
5- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
6- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
7- حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
8- حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام
9- حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام
10- حضرت امام علی النقی آلہادی علیہ السلام
11- حضرت امام حسن الزکی العسکری علیہ السلام
12- حضرت امام قائم المہدی علیہ السلام
شیعہ تفکر کے مطابق ائمہ علیہم السلام رسول اللہ کی طرح معصوم ہیں. تقیہ سنت رسول اللہ ہے جس پر آپ (ص) نے دعوت اخفاء کے دوران اور دعوت ذوالعشیرہ سے پہلے تین سال تک عملدرآمد کیا اور شیعہ مکتب میں تقیہ ایک بنیادی حکم ہے؛ شیعہ بداء و رجعت رسول و ائمہ (ع) کے قائل ہیں جن کی تفصیل دیکھیں گے تو دلیلیں بھی دیکھنے کو ملیں گی.
شیعہ مکتب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کے مطابق امام دوازدہم غائب ہیں جو مشیت الہیہ کے مطابق ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھردیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھرگئی ہے.(11)
شیعه مکتب کی ہاں فروع دین دس ہیں جو قرآن و حدیث سے مأخوذ ہیں:
1. نماز
2. روزہ
3. حج
4. زکواة
5. خمس
6. جہاد
7. امر بالمعروف
8. نہی عن المنکر
9. تولّی
10. تبرّی
فروع دین میں اجتہاد و تحقیق کا باب الی الابد کھلا ہے اور شیعہ محدثین و فقہاء کو ہی اجتہاد کا حق حاصل ہس مگر اجتہاد تشیع کس ہاں قرآن و سنت و عقل و اجماع پر مبنی ہے اور اجماع بھی صرف اسی وقت حجت ہے کہ معصوم (ع) کے قول کا انکشاف کرے. فروع دین کا انکار کفر ہے اور ان میں جامع الشرائط مجتہد کی تقلید واجب ہے.

موضوع سے خارج ایک واقعہ صرف طراوت ایمان کی خاطر
خاندان علی کی اولویت پر مأمون کا اعتراف
ایک روز مأمون نے منصوبہ بنایا کہ امام رضا علیہ السلام سے اقرار کرادے کہ عباسی اور علوی دونوں پیغمبر (ص) کی قرابت کے حوالے سے یکسان درجے کے حامل ہیں؛ تا کہ اس طرح بزعم خویش ثابت کردے کہ اس کے اسلاف کی خلافت صحیح اور حق ہے. لیکن بحث کا نتیجہ برعکس ہؤا اور امام علیہ السلام نے مأمون سے اقرار کروایا کہ علوی رسول اللہ (ص) کے قریب تر ہیں چنانچہ مأمون اور اس کے اسلاف کی اپنی رائے کے مطابق خلافت بھی علویوں کے پاس ہونی چاہئے اور یہ کہ عباسی غاصب اور جارح تھے. ماجرا کچھ یوں تھا کہ ایک روز مأمون اور امام رضا علیہ السلام سیر کو نکلے تھے؛ مأمون نے امام رضا علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا:
اے ابالحسن! میری اپنی ایک سوچ ہے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سوچ درست بھی ہے. اور وہ سوچ یہ ہے کہ ہم اور آپ (عباسی اور علوی) رسول اللہ (ص) کی قرابت کے حوالے سے یکسان ہیں. چنانچہ ہمارے شیعیان (شیعیان بنی عباس اور شیعیان علی (ع)) کے درمیان سارے اختلافات تعصب اور کوتہ اندیشی پر مبنی ہیں...
امام (ع) نے فرمایا: تمہاری اس بات کا جواب موجود ہے اور اگر چاہو تو بتاؤں گا ورنہ خاموش رہنا پسند کروں گا.
مأمون نے اصرار کیا: میں بھی سننا چاہتا ہوں کہ آپ اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
امام نے سوال اٹھایا کہ: یہ بتاؤ کہ اگر اسی وقت رسول اللہ (ص) ظاہر ہوجائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگیں تو کیا تم یہ رشتہ دوگے یا نہیں؟
مأمون نے کہا: سبحان اللہ میں یہ رشتہ ضرور قبول کروں گا کیا کوئی رسول اللہ (ص) کا رشتہ رد کرسکتا ہے؟
امام علیہ السلام نے فورا فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا رسول اللہ (ص) مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ مانگ سکتے ہیں؟
مأمون دریائے سکوت میں ڈوب گیا اور پھر خود ہی اقرار کیا: ہاں خدا کی قسم! آپ ہماری نسبت رسول اللہ سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ (12)

مآخذ:
1. توضیح الملل، ج 1، ص 191.
2. سوره بینه (98) آیات 7 و 8.
3. سیوطى، تفسیر در المنثور، ج 8، ص 538.
4. سیوطى، تفسیر در المنثور، ج 8، ص 538.
5. اعیان الشیعہ، سید محسن امینى، ج 1، ص 20.
6. المسند للطیالسی ص 84.
7. اعیان الشیعہ، سید محسن امینى، ج 1، ص29.
8. اعیان الشیعہ، سید محسن امینى، ج 1، ص30.
9. کلینى، اصول کافى، ج 2، س 242 و 243.
10. مزید جاننے کے لئے رجوع کریں: علامه طباطبایى، شیعہ در اسلام، ص 27 - 75.
11. مزید جاننے کے لئے رجوع کریں: شیعہ در اسلام ، ص 117 - 239؛ على ربانى گلپایگانى، فرق و مذاهب کلامى، ص 137 - 162 و محمد جواد مشکور، مقدمه ترجمه فرق الشیعہ نوبختى، ص 137 - 154.
12.كنز الفوائد، كراجكي/ص 166 ـ الفصول المختار‍ة من العيون و المحاسن/ص 15 و 16 ـ بحار/49/ص 188 ـ مسند الامام الرّضا/1/ص 100.

 
Sunday, 22 March 2020 19:56

رحمۃللعالمین

عبدالکریم پاک نیا
خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مھربانی اور ومھر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے آپ کی شان میں ارشاد ربانی ہے "وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین

رحمۃ للعالمین
خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مھربانی اور ومھر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے آپ کی شان میں ارشاد ربانی ہے "وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین "ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر عالمین کے لۓ رحمت بنا کر ۔
متعدد آیات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مھربانی دلسوزی اور بے پناہ عنایات کا ذکر کیا گيا ہے اور آپ کی حیات طیبہ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوان رحمت محبت و عطوفت و رافت سے نہ صرف اھل ایمان بہرہ ور ہیں بلکہ سارے انسان یہانتک کے موجودات بھی بہرہ مند ہیں ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا سرچشمہ ذات احدیت کی رحمت ہے اور اسی اسم مبارک(رحمان و رحیم ) سے قرآن کی تمام سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔
خدا کے بارے میں رحمت کے معنی عطا،افاضہ اور حاجت و ضرورت پوری کرنے کے ہیں ،صفت رحمان و رحیم میں رحمت خدا کے معنی بے پناہ رحمت کے ہیں جو وسیع البنیاد اور دائمی ہے اور تمام موجودات عالم منجملہ انسانوں کو خواہ مومن ہوں یا کافر شامل ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود مقدس ،آپ کی رسالت اور پیغام وحی اور آپ کی تمام زحمتیں اور کوششیں سب خداے واحد و رحمان کی رحمت کا مظہرہیں خود آپ نے فرمایا ہے "مجھے رحمت کے لۓ مبعوث کیا گيا ہے "

توحیدی حکومت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا ایک اہم ترین جلوہ مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی تشکیل ،ترویج توحید، سلامتی عدل و انصاف قائم کرنا اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے کام کرنا ہے آپ نے مدینے میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد دین اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عزم فرمایا اور اگر کچھ مسائل پیش نہ آتے اور مسلمان آپ کی بتائي ہوئي راہ پر گامزن رہتے تو ساری دنیا توحیدی حکومت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتی جیسے کہ انشاء اللہ آپ کے آخری جانشین حضرت مھدی علیہ السلام کی حکومت میں مھر نبوی، عدل مھدوی اور دیگر نعمات خداوندی سے فیضیاب ہوگي دعاے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ "خداونداہمیں امام زمانہ علیہ السلام کی رحمت ورافت دعا وخیر عنایت فرما تاکہ ہم اس کے ذریعے تیرے دریاے رحمت سے متصل اور تیرے حضور کامیاب ہوں "بنیادی طور پر سرزمین حجازمیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کا مبعوث ہونا سارے انسانوں کے لۓ رحمت ہے کیونکہ آنحضرت نے مبعوث برسالت ہوکر جاھلیت کے غلط آداب اور خرافات کو مٹایا عورتوں اور دیگر پسماندہ لوگوں کو حقوق دلواے ظلم وستم و استثمارسے مقابلہ کیا قبیلوں کو آپسی جنگ وخونریزی سے روکا عدل وانصاف ومساوات قائم کی تمام قبیلوں قوموں اور حکومتوں کو پیغام وحی پہنچایا ،اپنے ساتھیوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ فداکار مومن مدبر و اسلامی و انسانی اخلاق سے آراستہ ہوگۓ اخلاقی و روحانی فضائل سے انسانوں کو آراستہ کیا توحید و اتحاد کے ساے میں انسانوں کو عزت وآزادی عطاکی مخلوق و خالق کے درمیان مستحکم رابطہ قائم کیا یہ سب چیزیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا مظہرنہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟
وجود مقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے سب سے زیادہ فائدہ مومنین کو پہنچتا ہے کیونکہ مومنین اپنی ذاتی اھلیت و لیاقت سے آپ کے توحیدی پیغام کو اچھی طرح سمجھنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اور سعادت و رستگاری کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اسی بناپر خدا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مومنین کے لۓ خاص سفارشیں کی ہیں سورہ شعراء میں ارشاد ہوتا ہےکہ اے رسول جو مومنین تمہارے پیرو ہوگۓ ہیں ان کے لۓ اپنا بازو جھکاو یعنی فروتنی سے پیش آؤ۔
اسی طرح سورہ حجر میں ارشادہوتا ہے "ایمان داروں سے جھک کرملاکرو"۔
رسول اکرم نے بھی مومنین کے سروں پر اپنا سایہ رحمت و رافت اور محبت و توضع پھیلادیا تھا ،رسول اکرم کے اس عمل کو سراھتے ہوۓ خدا فرماتا ہے "تو اے رسول یہ بھی خدا کی مھربانی ہےکہ تم جیسا نرم دل سردار ان کو ملا اور اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو تب یہ لوگ تمہارے پاس سے تتربتر ہوجاتے ۔
بے شک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت مومنین کے شامل حال تھی اور مومنین بھی آپ کو دل سے چاہتے اور آپ پر اپنی جان نچھاور کیاکرتے تھے آّپ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کو تیاررہتے اور آپ کے سامنے سرتسلیم خم تھے ۔
مثال کے طور پر ابوذر غفاری نے شدید تشنگي برداشت کی لیکن رسول اکرم کے پانی پینے کے بعد ہی پانی پیا ،بلال نے شدید ترین ایذائيں برداشت کیں لیکن آپ کی راہ سے منہ نہیں موڑا اسی طرح سلمان فارسی نے آپ کی محبت میں لمبی مسافت طے کی اور سفر کی طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں ان سب سے بڑہ کر حضرت علی علیہ السلام نے بارھا اپنی جان پر کھیل کر آنحضرت کی نصرت کی ۔
فرشتوں کو بھی رسول اکرم کی رحمت سے فیض پہنچتاہے امین وحی جب یہ آیت وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین لیکر آے تو رسول نے پوچھا کہ کیا اس رحمت سے تمہیں بھی فیض پہنچے گا تو جبرئيل نے کہا کہ میں اپنی عاقبت کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھا لیکن اس آيت کے نازل ہونے کےبعد مجھے اطمئنان ہوگیا ۔
مخالفین کے کو بھی آنحضرت کی رحمت سے فیض پہنچتاہے اگر مخالفین و کفار اھلیت و لیاقت کا ثبوت پیش کرتے تو بے شک رحمت نبوی سے استفادہ کرکے اخروی اور معنوی مقامات تک پہنچ سکتے تھے لیکن انہوں نے رسول اسلام کی محبت و مھربانی کو نظراندازکیا بلکہ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے لہذا اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے رسول اکرم انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے لیکن وہ انکار کرجاتے تھے لیکن مشرکین کی ایذارسانیوں کے باوجود رسول اسلام نے فتح مکہ کے دن اپنی رحمت و مھربانی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ انہیں معاف فرمادیا ۔
ہجرت کے آٹھویں سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوۓ ،مشرکین و کفاراور آپ کے دشمنوں نے برسوں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی اور آپ پر اور آپ کے ساتھیوں کو شدید ترین مصائب و ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا ان ہی لوگوں نے بارھا آپ کے قتل کا منصوبہ بنایاتھا اور کئی مرتبہ ان منصوبوں پر عمل بھی کیاتھاان ہی لوگوں نے آپ کے بہترين ساتھیوں کو خاک وخون میں غلطان کیاتھا اور جب انہوں نے فتح مکہ کے دن آپ کی عظمت وشوکت دیکھی تو رعب وحشت وخوف سے لرزنے لگے ان کا خیال تھا کہ رسول اسلام ان سے انتقام لیں گے لیکن رسول رحمت نے ہرگزان سے انتقام نہیں لیا بلکہ قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی" آج سے تم پر کچھ الزام نہیں خدا تمہارے گناہ معاف فرماۓ "(یوسف 92)اور یہ معروف جملہ فرمایا کہ جاؤ زندگي کی طرف لوٹ جاؤ تم آزاد شدہ ہو۔
 

: ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ  اہم مناسبتوں کو  بھی سمیٹے ہوئے ہے  ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اہم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔

جہاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنہیں اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انہوں نے ہمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان ِعمل میں قدم رکھا تو  ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ  کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوہر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا   جہاں ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھتی ہے وہیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ہوگا اور اس کے  پیش ِ نظر خدا ہوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے  نہیں ہٹ سکتے ۔

ان ایام میں  ۲۴ رجب کی تاریخ جہاں اس لحاظ سے اہم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وہیں   ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے  کہ ۲۲ رجب ہی کی تاریخ میں جب ایک طرف یہودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بہت ہی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ہاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یہودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لہرا سکی [۱]۔
[۱:۵۵ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۳] ‪‎‪+98 921 011 3821‬‬: یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں  لیکن یہ تب ہوگا جب ہم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ  کے ان کرداروں کو پہچانیں گے جنہوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو انکے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے  اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نہیں کیا انکا ہر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے ہر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا  ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب  رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ہم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انہیں دنیا میں سربلند کر کے علی ع بنا دیا وہ علی ع جسکی فکر بھی بلند ، جسکا عمل بھی بلند جسکا نام بھی بلند  ی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جہاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بہادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے وہیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رہا ہے  ایک مناسبت وہ ہے جہاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جہاں جناب جعفر کی حبشہ  سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراہٹ آئی  ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے کرداروں کو پیش کر رہے ہیں  لیکن جن منفی  کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور انکی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہاں ہمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں صرف اس لئے پیش نہیں کیا گیا کہ ہم   اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے والے لوگوں کے  سیادہ  کارناموں کو ہم سن کر انہیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیہودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا انکا یہ عمل لائق مذمت ہے اور انکی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ہی نہیں کہ ہم دوسروں کی ملامت کرتے رہیں ہم ہی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رہی ہے اہم یہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ  آج کے خیبر میں ہم کہاں ہیں آج جب یہودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نہیں  ۲۲ رجب کی تاریخ ہمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ہی تھے آج ہم کہاں پر

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "عید سعید مبعث رسول اکرم(ص)" اور نئے ایرانی سال کے آغاز کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں کرونا وائرس کے وبائی مرض کے جلد خاتمے کی دعا کرتے ہوئے پوری دنیا کے انسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ طبی ہدایات پر عمل کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 27 رجب المرجب کے روز حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کی مناسبت سے منائی جانے والی عید مبعث رسول خدا(ص) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت پر مبنی حقائق کو پوری تاریخ میں انسانیت کی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ بعثت کی حقیقتوں پر عمل، خصوصا صبر و استقامت ہی ایرانی قوم کے ترقی اور قوت کی چوٹیوں تک پہنچنے کا واحد رستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا واقعہ اتنا عظیم ہے کہ خداوند متعال نے اس کے حوالے سے قرآن مجید میں تمام بڑے انبیاءؑ سے عہد لیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر وہ آپؐ پر ایمان لائیں اور آپؐ کی امت کے ایمان میں لانے مدد کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے دین مبین اسلام کے عظیم و الہی پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آزادی اور اجتماعی عدالت جیسے مفاہیم کا سرچشمہ مغربی دنیا ہے جبکہ مغربی دنیا صرف 3 یا 4 صدیوں سے ہی ان عظیم مفاہیم سے آگاہ ہوئی ہے البتہ اسلام وہ دین ہے جس نے آج سے 1400 سال قبل انسانیت کو یہ گراں بہا مفاہیم عطا کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل انسان کو ان مفاہیم سے روشناس کروایا ہے بلکہ، مغرب کے جھوٹے دعووں کے برعکس، اسلام نے ہر جگہ پر ان مفاہیم کو عملی جامہ بھی پہنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معارف سے پروان چڑھنے والے اسلامی احکام نہ صرف اسلامی اقدار کے مطابق ہیں بلکہ بلندیوں کی طرف انسان کے سفر میں ممد و معاون بھی ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ نے اسلام کے سیاسی پہلو اور اسلامی حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر (اسلامی) سیاسی طاقت تشکیل نہ پائے تو غنڈے، مستکبر اور آزادی و اجتماعی عدالت کی مخالف تمام قوتیں (اسلامی) مفاہیم، اقدار اور احکام کو ہرگز عملی جامہ پہنانے نہ دیں جبکہ اس صورت میں انسان نجات و ترقی کے راستے پر گامزن ہونے سے قطعی طور پر محروم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پہلی فرصت میں اسلامی حکومت کو تشکیل دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلامی حقائق کو انتہائی گہرائی کے ساتھ درک کرتے ہوئے "بعثت" پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر اپنے گہرے ایمان، خدا پر توکل اور ایرانی عوام کے سہارے کرپٹ، ظالم اور استکباری طاقتوں کے کٹھ پتلی پہلوی شہنشاہی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی حکومتی نظام کو رائج کیا تاکہ "بعثت" کے معارف، اقدار اور احکام کی بنیاد پر ایرانی قوم کو فلاح و بہبود کی طرف ہدایت کر سکیں۔

مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے قرآن کریم کے اندر انبیاءِ الہی اور خصوصا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ برتی گئی وسیع دشمنیوں اور اسلامی نظام حکومت کے ساتھ برتی جانی والی دشمنی میں پائی جانے والی مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی دشمنوں میں امریکہ سب سے زیادہ خبیث اور کینہ پرور ہے کیونکہ اس کے حکام کے اندر جھوٹ، بے ایمانی، لالچ، گستاخی اور چرب زبانی و مکاری جیسی انواع و اقسام کی اخلاقی برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی حکام انتہائی ظالم، دہشتگرد اور پرلے درجے کے بے رحم و سنگدل بھی ہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس حوالے سے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت کے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بعثت کے شروع سے ہی دشمنیوں سے نمٹنے کے لئے ایک خاص اصول عطا فرمایا تھا جو "صبر" یعنی؛ "قیام"، "مزاحمت"، "اپنے حساب کتاب کو دشمن کی دھوکہ بازی سے تبدیل نہ کرنا"، "اختیار کردہ اعلی اہداف کے حصول کے لئے عزمِ راسخ کے ساتھ جدوجہد کرنا" اور "اپنے رستے پر گامزن رہنا" ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کو دی جانے والی دھوکہ و فریب پر مبنی امریکی مدد کی متعدد پیشکشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے یہ بیانات مضحکہ خیز ہیں کیونکہ وہ خود اس بیماری (کرونا وائرس) کی دواؤں اور متعلقہ طبی سازوسامان کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا بعض امریکی حکام نے کھل کر اعتراف بھی کیا ہے کہ امریکہ میں دواؤں اور طبی سامان کی کمی "وحشتناک" ہے لہذا (انہیں ہمارا جواب یہ ہے کہ) اگر ان کے پاس وسائل موجود ہیں تو وہ امریکی عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے یہ کہ جب امریکہ اس خطرناک وائرس کے بنائے اور پھیلائے جانے کا "ملزم" ہے تو کون سا عقلمند شخص امریکی حکام کی مدد کو قبول کر سکتا ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی حکام کسی طور اعتماد کے قابل نہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ امریکہ سے بھیجی جانے والی امدادی دوائیں ایران میں اس وائرس کو مزید پھیلانے یا لمبے عرصے تک باقی رہنے کا باعث بنیں یا ان کی طرف سے بھیجے جانے والے طبی ماہرین ایرانی عوام پر اس وائرس کے اثرات کی تحقیق کرنے کا ہدف رکھتے ہوں کیونکہ اس وائرس کے بارے میں محققین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کی ایک قسم خصوصی طور پر ایرانی عوام کے لئے بنائی گئی ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی نظام حکومت کے ساتھ عالمی استکباری طاقتوں کی 40 سالہ دشمنی کے تجربے اور ایران کے اندر ان دشمنیوں اور مشکلات سے مقابلے کی موجود بھرپور صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اندر خدادادی صلاحتیں بہت زیادہ ہیں جبکہ انہیں ٹھیک طرح پہچاننے اور ان سے بہتر استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عالمی وبا "کرونا وائرس" سے بچاؤ کے حوالے سے طبی ہدایات پر عملدرآمد کو "شرعی ذمہ داری" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان طبی ہدایات پر عملدرآمد کی خاطر حتی دینی اجتماعات اور اہلبیت علیہم السلام کے حرم مبارک بھی بند کر دیئے گئے ہیں جبکہ پوری تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور رستہ موجود نہیں تھا اور اسی میں عوام کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو اللہ تعالی سے اس دعا پر تمام کیا کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو اس مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارا عطا فرمائے۔

تحریر: اکبر حسین مخلصی

مقاومتی بلاک کے نام سے ہم سب آشنا ہیں، لیکن فقط نام تک کی آشنائی کافی نہیں، اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے مقاومتی بلاک کی اصطلاح، قیام اور حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقاومتی بلاک کی تشکیل کا خلاصہ یہ ہے کہ غربی استعمار کی جارحانہ عسکری اور ثقافتی یلغار نے مستضعف قوموں کو non aligned movement جیسے کاونٹر فورم اور اسلامی مقاومتی بلاک کی تشکیل پر مجبور کیا۔ یہ اتحاد مشرق وسطیٰ میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کر رہا ہے۔ سامراجی قوتیں استقامتی بلاک کو داخلی خلفشار کی خلیج میں دھکیلنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈرامہ رچا رہی ہیں۔ اس پلان کو حاصل کرنے کے لیے خطے کے عرب آمروں کو 34 ملکی اتحاد کا برگ حشیش دے کر مسلم دنیا کی آنکھوں میں وار آن ٹیرر کی دھول جھونکی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پالیسی غیر متوقع حد تک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ مقاومتی بلاک کے تزویراتی اقدامات زیادہ موثر اور فیصلہ کن نتائج رکھتے ہیں۔

عرب خطے کی عوامی قوتیں مغرب کے اخلاقی دوہرے پن اور انسانی حقوق کے پرفریب نعروں کو تہذیبوں کے تصادم جیسے انتہاء پسندانہ پس منظر کی حامل نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف استعماری قوتوں کا منفی پروپیگنڈا عالمی سطح پر نہ صرف فلاپ ہوا ہے بلکہ معکوس نتائج دینے لگا ہے۔ اسی لیے پسماندہ ترین سیاسی نظام رکھنے والے عرب ممالک کی رائے عامہ مغربی استکبار کے سیاسی دوغلے پن کو جمہوریت مخالف رویئے کے طور پر لیتی ہے۔ عرب رائے عامہ میں پائی جانے والی یہ تشویش بتدریج مغرب مخالف تحریکوں کی شکل اختیار کرکے عرب ممالک میں آمریت نوازی کے سامراجی پلان کو چیلینج کرتے ہوئے مقاومتی بلاک کی کاونٹر پالیسی کو تزویراتی بیک اپ دے گی۔ یوں استقامتی بلاک مشرق وسطی میں دفاعی پوزیشن سے اقدامی پوزیشن کی طرف سفر کریگا، جس کے ابتدایی نتائج شام، عراق اور یمن کے محاذ میں مقاومتی بلاک کی عسکری حکمت عملی کی واضح کامیابی کے طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔

گریٹر مشرق وسطیٰ کا ناقوس بجانے والی غربی، عبری اور عربی ٹرائیکا یمن کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور پراکسی وار کی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے شام میں سیف زون کا اسٹریٹیجک محاذ کھول کر مقاومتی بلاک کو انگیج رکھنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے ترکی کو خلافت کا جھانسہ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے، جو  فلسطینی انتفاضہ کی مزاحمتی طاقت کو مضمحل کرکے اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دے گا۔  لطف کی بات یہ ہے کہ سیف زون کا کیموفلاج جہاں اسرائیل کو وقتی طور پر تحفظ دے گا، وہیں فلسطین کاز کے حل کے لیے استقامتی بلاک کو مزاحمتی سرگرمیوں کے لیے وسیع میدان بھی فراہم کرے گا، جس سے غاصب صہیونی دجالیت کو عبرتناک انجام تک پہنچانے میں بنیادی مدد ملے گی۔ البتہ اس پس منظر میں مخصوص مسلکی رجحانات کی حامل تکفیری قوتوں کے منافقانہ کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو امپورٹیڈ جہادی عناصر کے ذریعے مقاومتی بلاک کو داخلی محاذ میں الجھانے کا ٹاسک رکھتی ہیں۔

جس کا اہم ہدف ایران فوبیا کے نفسیاتی داو پیچ استعمال کرکے عرب دنیا کی مزاحمتی قوتوں کو مقاومتی بلاک سے جدا کرنا ہے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو رہی، کیونکہ خطے کی رائے عامہ عرب آمریتوں کے جہادی ایجنڈے کی حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔ اس تناظر میں معروضی حقائق اس بات کا کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی عالمگیریت کا خواب، مغرب کو ناگزیر طور پر نظام مہدویت سے براہ راست محاذ آرایی کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اب وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل جیسا غاصب اور جارح ملک جلد ہی ہمیشہ کے لیے مشرق وسطیٰ کے نقشے سے معدوم ہونے والا ہے۔ البتہ اس کیلئے سارے مسلمانوں کو ایران فوبیا سے نکلنا ہوگا، چونکہ مشرق وسطیٰ میں اسوقت ایران ہی مقاومتی بلاک کا مرکزی ستون ہے۔

یورپ کی نام نہاد جمہوری حکومتیں اور خلیجی ممالک کی آمریتیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے تکفیری جہادیوں کو مجاہدین کا لقب دے کر مشرق وسطیٰ میں مضبوط کر رہی ہیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ فلسطین کی آزادی کا حل مقاومت نہیں بلکہ پرامن ٹیبل ٹاک ہے۔ دو ریاستی حل جیسے امریکی ایجنڈے کو مسلم دنیا کے ردعمل سے بچنے کے لیے غیر سفارتی انداز میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ پی ایل او اور الفتح جیسی تنظیمیں مجوزہ حل کے تباہ کن نتائج کو نظرانداز کرکے سکیورٹی کونسل سے آس لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عمل درحقیقت اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کرکے فلسطینیوں کو اپنی دھرتی سے محروم کرنے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل  کا باعث بنے گا۔

ایسے حساس سناریو میں مقاومتی بلاک ہی وہ واحد طاقت ہے، جو انتفاضہ کی ڈگمگاتی قیادت کو روشن مستقبل کی امید دلا کر مظلوم فلسطینی نسلوں میں آبرومندانہ آزادی کی امنگ پیدا کر رہا ہے اور اسرائیل کی نابودی کے لیے کاونٹ ڈاون ایکسپیڈیشن لانچ کر رہا ہے۔ اگر استقامت جاری رہی تو ایک دن ارض مقدس سے صہیونی تسلط کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے اور بیت المقدس کے افق پر آزادی کی کرنیں جگمگائیں گی۔ یوں صہیونی سامراج کا نیو ورلڈ آرڈر، مقاومتی بلاک کے ہاتھوں عبرتناک انجام کو پہنچے گا اور فلسفہ انتظار مقتدرانہ حیثیت میں عالمی نجات دہندہ کے ظہور کی زمینہ سازی کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ نتیجتاً عالمی معاشرے کا انسان نظام مہدویت کے سائے میں حقیقی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ بقول اقبال رہ:  
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید  سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

تحریر: علی احمدی

امریکہ کی اقتصاد اور معیشت انجان پانیوں میں ڈوب رہی ہے۔ ماہرین اقتصاد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک جمود اور بحران کی جانب گامزن ہے۔ چونکہ اس وقت امریکہ کی اقتصادی سرگرمیاں اور کاروبار کرونا وائرس کے سائے میں جام ہو کر رہ گئی ہیں۔ البتہ یہ پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ اقتصادی جمود اور بحران کس حد تک شدت اختیار کرے گا اور اس سے نکلنے میں امریکہ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ آکسفورڈ ایکنامکس سے وابستہ اعلی سطحی ماہر اقتصاد جرج ڈیکو کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت آئندہ چھ ماہ میں جمود کے کم از کم دو مرحلے طے کرے گی۔ پہلے تین ماہ کے دوران امریکہ کی اقتصادی ترقی کی شرح 0.4 فیصد جبکہ اگلے تین ماہ میں 12 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہو گی۔ یہ امریکہ کی تاریخ میں معیشت میں سب سے بڑا موسمی جمود ہو گا۔ اس جمود کی شدت اور ترقی یافتہ معیشت میں تقریباً تمام بڑے شہروں کی بندش ایک بے سابقہ امر ہے اور معیشتی بحران سے زیادہ جنگ جیسی صورتحال سے ملتا جلتا ہے۔

مورگن اسٹینلے سے وابستہ ماہر اقتصاد ایلن زینتھنر کا کہنا ہے: "حتی گذشتہ حکومتوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں کو گھر سے باہر جانے یا مختلف قسم کے اجتماعات میں شرکت کرنے سے روکا گیا ہو۔" انہوں نے مزید کہا: "چھٹی کمپنیوں کو انتہائی شدید دھچکہ پہنچے گا کیونکہ ان کی مالی ذخائر تک رسائی محدود ہے جبکہ بینکوں میں کافی حد تک سرمائے سے بھے برخوردار نہیں ہیں۔ لہذا ممکنہ اقتصادی بحران کی صورت میں چھوٹے پیمانے پر جاری کاروبار اور اقتصادی سرگرمیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔" روز بروز بیروزگاری میں اضافے، تجارت اور سیر و سیاحت میں کمی کے باعث ماہرین اقتصاد روزانہ کی بنیاد پر اپنی معلومات اور ماڈلز کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقبل قریب میں اقتصادی معلومات نہ صرف غیر معتبر بلکہ ناقابل تشخیص ہو جائیں گی۔ جرج ڈیکو کا خیال ہے کہ اپریل کے مہینے میں امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچے گی۔ یہ مقدار ماضی کے تناظر میں بے سابقہ ہے جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیون مینوچین نے حکومت کی جانب سے موثر اقدامات انجام نہ دینے کی صورت میں بیروزگاری کی شرح 20 درصد بڑھ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اگر جرج ڈیکو کی پیشن گوئی کے مطابق امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ 16.5 ملین افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ یہ تعداد فروری میں 5.8 ملین بیروزگار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف روس اور سعودی عرب کے درمیان خام تیل کی صنعت کے شعبے میں جنگ نے بھی امریکہ کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی فراہمی میں اضافے کے باعث خام تیل کی قیمت میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس نے امریکہ کی خام تیل کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ امریکن یونیورسٹی کے لیکچرر اور اقتصادی تاریخ کے ماہر گیبریل میٹی اس بارے میں کہتے ہیں: "یہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا جمود اور بحران ہے جو سہولیات کے شعبے میں شروع ہو رہا ہے۔ ہم اندرونی خالص پیداوار میں اضافے کی نسبت روزگار کے مواقع میں زیادہ تیزی سے کمی کے شاہد ہوں گے۔" اس وقت امریکہ میں کرونا وائرس کا مسئلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

ورلڈ میٹر نامی ویب سائٹ پر آنے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 3 لاکھ 8 ہزار 257 افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے 13068 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں سے 95 ہزار 828 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا کے چار ممالک میں کرونا وائرس کی وبا سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ممالک بالترتیب اٹلی، امریکہ، اسپین، اور جرمنی ہیں۔ ان چار ممالک میں کرونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اٹلی میں گذشتہ ایک روز میں کرونا وائرس کے 6557 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اٹلی کے بعد امریکہ ایسا ملک ہے جہاں کرونا وائرس کے پھیلاو میں بہت تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکہ میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں 6674 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک امریکہ میں 26 ہزار 868 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی معیشت پر کرونا وائرس کے ممکنہ اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ امریکی معیشت انتہائی کٹھن حالات کی جانب گامزن ہے جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
 
 
 

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام موسی  کاظم علیہ السلام کے روز شہادت کے موقع پر نئے ہجری شمسی سال 1399 کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی مقدس بارگاہ میں سلام اور درود پیش کیا اور عید مبعث اور عید نوروز کی مناسبت سے ایرانی قوم خاص طور پر شہیدوں، جانبازوں کے اہلخانہ اور اسی طرح صحت کے شعبے میں سرگرم مجاہدوں اور دن رات کام کرنے والوں کو مبارکباد پیش کی اور نئے سال کو "پیداوار کے فروغ اور ترقی"  کے نام سے موسوم کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال 1398 ہجری شمسی کے شہیدوں منجملہ شہدائے مدافع حرم، سرحدوں کے شہداء اور سرفہرست سپاہ اسلام کے عظیم شہید جنرل سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی شہیدوں کے اہلخانہ کو مبارکباد اور تعزیت پیش کی، اسی طرح کرمان کے حادثے کے شہداء ، طیارہ حادثے کے شہداء اور صحت کے شعبہ سے منسلک شہداء کے اہلخانہ کو بھی تبریک اور تعزیت پیش کی اور گزشتہ سال "1398"  ہجری شمسی کو مختلف نشیب و فراز کا سال قرار دیتے ہوئے فرمایا: گزشتہ سال کا آغاز سیلاب سے ہوا اور اختتام  کورونا پر ہوا اور سال کے دوران بھی زلزلہ اور اقتصادی پابندیوں جیسےمختلف اور گوناگون حوادث رونما ہوئے لیکن ان حوادث میں سب سے عظیم حادثہ، اسلام و ایران کے نامور اور عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گزشتہ سال سخت اور دشوار سال تھا اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان سختیوں کے ساتھ  ساتھ بعض بے نظیر اور اہم کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور ایرانی قوم کی درخشندگی نمایاں رہی۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ پابندیوں کی وجہ سے نقصانات  کے ساتھ ساتھ بہت فائدے بھی ہوئے اور ان پابندیوں نے ہمیں ملکی سطح پر ضروریات زندگی کی اشیاء اور سامان کی پیداوار کی جانب قدم  بڑھانے پر ترغیب دلائی اور یہ سلسلہ انشاء الله اسی طرح جاری رہے گا۔

مقامِ حضرت علی علیہ السلام کو سمجھنے کا ایک بہترین اور اہم ترین ذریعہ علمائے اہلِ سنت کے نظریات اور اُن کا کلام ہے۔ یہ انتہائی دلچسپ بات ہوگی کہ علی علیہ السلام کے بلند وبالا مقام کو اُن افراد کی زبانی سنیں جو مسند ِ خلافت کیلئے تو دوسروں کو مقدم سمجھتے ہیں لیکن علی علیہ السلام کی عظمت کے قائل بھی ہیں اور احادیث ِ نبوی کی روشنی میں علی علیہ السلام کی خلافت ِ بلافصل کو مانتے بھی ہیں لیکن چند صحابہ کے قول و فعل کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت و نصیحت پر ترجیح دیتے ہیں۔اس سے خود اُن کو بہت بڑا نقصان ہوا کیونکہ وہ علومِ اہلِ بیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے اور حکمت و دانائی کے وسیع خزانوں اور قرآن کی برحق تفسیر سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
علمائے اہلِ سنت کے نظریات کو لکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان بزرگوں کے اقوال اور نظریات پر غور و فکر کیا جائے جو علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے ہیں اور جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی کی شخصیت، پیغمبر اسلام کے مقدس وجود کے بعد سب سے بلند ہے جیسے کہ قرآن کی آیات، احادیث ِ نبوی اور کلامِ خلفاء کو جمع کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت واضح ہوئی ہے۔ اب ہم علمائے اہلِ سنت کے کلام اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ مولیٰ علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اُمید ہے کہ حق طلب حق کو پالیں گے، انشاء اللہ۔شروع میں ابن عباس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ابن عباس کو اُمت ِمسلمہ کے تمام فرقے قبول کرتے ہیں۔

ابن عباس

ابن عباس نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں سربلند کرکے یہ کہا:
”اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَ تَقَرَّبُ اِلَیْکَ بِحُبِّ الشَّیْخِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب“۔
”پروردگارا! میں علی کی دوستی اورمحبتکا واسطہ دے کر تیری قربت چاہتا ہوں“۔

ابن ابی الحدید معتزلی

”میں اُس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس پر تمام فضائلِ انسانی کی انتہاہوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پہلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خوبی بھی وہاں سے ہی شروع ہوئی۔ پس چاہئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں“۔
حوالہ
ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، جلد1،صفحہ16۔
ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بہترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالہا سال مصروف رہا، اُس میں کہتے ہیں:
”میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ہوکرکہا:
اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نہیں تو بتا کہاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ہستیاں پوشیدہ ہیں؟
موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنورِ خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشمِ بینا رکھتا ہے، آئے اور دیکھ لے۔
خدا کی قسم! اگر علی نہ ہوتے تو نہ تو زمین ہوتی اور نہ ہی اُس پر کوئی مرد ہوتا۔
قیامت کے روز ہمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔قیامت کے ہولناک دن وہی ہمارا ایک مددگار ہوگا۔
یا علی !میں آپ ہی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ہوں اور آپ ہی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ہوں۔
حوالہ
ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چہرئہ درخشانِ اسلام“،حصہ پیش لفظ، صفحہ9۔
وہ مزید کہتے ہیں:
”یا علی ! اگر آپ میں آثارِ حدث موجود نہ ہوتے تو میں کہتا کہ آپ ہی بخشنے والے اور جانداروں کی روح کو قبض کرنے والے ہیں۔ اگر طبعی موت آپ پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں کہتا کہ آپ ہی سب کے روزی رساں ہیں اور آپ ہی جس کو کم یا زیادہ چاہیں، بخشیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دین اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرانے اور اس جہاں میں عدل و انصاف بھرنے کیلئے آپ کے بیٹے مہدی علیہ السلام جلد تشریف لائیں گے“۔
حوالہ
داستانِ غدیر، صفحہ285،بہ نقل از ”المراجعات السبع العلویات“، صفحہ43۔
ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
اِنَّہُ علیہ السلام کَانَ اَولٰی بِالْاَمْرِوَاَحَقَّ لَاعَلٰی وَجْہِ النَّصِّ، بَلْ عَلٰی وَجْہِ الْاَفْضَلِیَّةِ،فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الْبَشَرْبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ وَاَحَقُّ بِالْخِلاٰ فَةِ مِنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ۔
”حضرت علی علیہ السلام منصب ِ ولایت کیلئے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ اس کیلئے از طریقِ نص نہیں بلکہ اپنے افضل ہونے کی وجہ سے اہل تھے کیونکہ رسول اللہ کے بعد وہ سب سے افضل بشر تھے اور تمام مسلمانوں سے زیادہ خلافت پر حق اُن کا تھا“۔

ابوحامدغزالی (شافعی مذہب کے سکالر)

ابوحامد محمد ابن محمد غزالی کتاب”سِرّالعالمین“میں لکھتے ہیں:
”اَسْفَرَتِ الْحُجَّۃُ وَجْھَھٰاوَاَجْمَعَ الْجَمٰاھِیْرُعَلٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ عَنْ خُطْبَۃِ یَوْمِ غَدِیْرِ خُمٍّ بِاتِّفَاقِ الْجَمِیْعِ وَھُوَ یَقُوْلُ:مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰہُ فَقٰالَ عُمَرُ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰااَبَالْحَسَنِ لَقَدْ اَصْبَحْتَ مَوْلاٰیٰ وَمَوْلٰی کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَۃٍ۔ھٰذَا تَسْلِیْمٌ وَرَضِیٍّ وَتَحْکِیْمٌ۔ثُمَّ بَعْدَ ھَذٰاغَلِبَ الْھَوٰی لِحُبِّ الْرِّیٰاسَۃِ وَحَمْلِ عَمُودِ الْخِلاٰفَۃِ۔۔۔۔۔الخ۔
”رخِ حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور تمام مسلمانانِ عالم حدیث ِ غدیرِ خم اور خطبہٴ یومِ غدیر کے متن پر متفق ہیں۔ جب پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اُس وقت عمر نے کہا:اے ابا الحسن ! مبارک مبارک ۔ آج آپ نے اس حال میں صبح کی کہ میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام موٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کے بھی مولیٰ ہیں۔ اس طرح مبارک باد دینا پیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ہونا ہے(لیکن افسوس) اس کے بعد نفس امارہ نے ریاست طلبی اور خلافت طلبی کی خاطر اُن پر غلبہ پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
شبہائے پشاور،صفحہ608،نقل از ”سِرّ العالمین“، غزالی۔


عبدالفتاح عبدالمقصود (مصنف معروف مصری)

”حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کی جانشینی کے قابل ہو، سوائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاک فرزندوں کے والد یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔ میں یہ بات اہلِ تشیع کی طرفداری کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ تاریخی حقائق اس کے گواہ ہیں۔ امام (علی علیہ السلام) سب سے بلند مرتبہ مرد ہے جسے کوئی بھی ماں آخری عمر تک پیدا نہ کرسکے گی اور وہ ایسی شخصیت ہے کہ جب بھی ہدایت تلاش کرنے والے اُس کے کلام، ارشادات اور نصیحتوں کو پڑھیں گے تو ہر جملے سے اُن کو نئی روشنیاں ملیں گی۔ ہاں! وہ مجسم کمال ہے جو لباسِ بشریت میں اس دنیا میں بھیجا گیا“۔
حوالہ
داستانِ غدیر،صفحہ291،نقل از”الغدیر“، جلد6۔

ابوحنیفہ (مذہب ِحنفی کے امام)

”کسی ایک نے بھی علی سے جنگ و جدل نہیں کیا مگر یہ کہ علی علیہ السلام اُس سے اعلیٰ اور حق پر تھے۔ اگر علی علیہ السلام اُن کے مقابلہ میں نہ آتے تو مسلمانوں کو پتہ نہ چلتا کہ اس قسم کے افراد یا گروہ کیلئے اُن کی شرعی ذمہ داری کیا ہے“۔
حوالہ
مہدی فقیہ ایمانی،کتاب”حق با علی است“، نقل از مناقب ِ ابو حنیفہ، خوارزمی،83/2،اشاعت ِ حیدرآباد۔

فخر رازی (اہلِ سنت کے مشہور و معروف مفکر)

”جو کوئی دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا تسلیم کرے گا، وہی کامیاب ہے اور اس کی دلیل خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پروردگار!حق کو اُدھر پھیر دے جدھر علی ہو“۔
حوالہ
داستانِ غدیر،مصنف: بہت سے استاد، صفحہ285، نقل از تفسیر فخر رازی، جلد1،صفحہ 111، اور الغدیر جلد3، صفحہ179۔

زمخشری (اہلِ سنت کے مشہور مفکر)

”میں اُس مرد کے فضائل کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے دشمنوں نے اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے اُس کے فضائل سے انکار کیا اور اُس کے دوستوں نے خوف و ترس کی وجہ سے اُس کے فضائل چھپائے۔ مگر اس کے باوجود اُس کے فضائل دنیا میں اتنے پھیلے کہ مشرق و مغرب کو گھیر لیا“۔
زمخشری اس حدیث ِ قدسی کے ضمن میں کہتے ہیں:
”مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ وَاِنْ عَصَانِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ النّٰارَ وَاِنْ اَطَاعَنِی“
جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، وہ جنت میں جائیگا ،گرچہ وہ میرا نافرمان ہی کیوں نہ ہو اور جس نے علی سے دشمنی و بغض رکھا، وہ جہنم میں جائیگا، بے شک وہ میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو“۔
اس کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں کہ محبت و تسلیم ولایت ِعلی علیہ السلام انسان کے ایمان کے کمال کا سبب ہے اور اگر کمالِ ایمان ہو تو فروع میں چھوٹی غلطی زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی، لیکن اگر محبت و ولایت ِعلی نہ ہو تو ایمان ناقص ہے اور وہ شخص جہنم کا مستحق ہے۔
حوالہ
1۔ داستانِ غدیر،صفحہ284بہ نقل از زندگانیِ امیر الموٴمنین علیہ السلام، صفحہ5۔
2۔ مباحثی در معارفِ اسلامی،مصنف:علامہ فقید آیت اللہ حاجی سید بہبہانی، صفحہ169۔

شافعی (رہبر مذہب ِشافعی)

”اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاہر وباطن کو لوگوں پر ظاہر کردیں تو لوگ کافر ہوجائیں گے کیونکہ وہ انہیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوقِ خدا ہیں“۔
حوالہ
سید یحییٰ برقعی، کتاب ”چکیدہ اندیشہ ہا“،صفحہ297۔

حافظ ابو نعیم (اہلِ سنت کے مشہور عالم)

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردارِ قوم، محب ِ ذاتِ مشہود،محبوبِ ذاتِ کبریا،بابِ شہر علم، مخاطب ِآیاتِ ایمانی، عالمِ رمزِ قرآنی، تلاشِ راہِ حق کیلئے بڑی نشانی، ماننے والوں کیلئے شمعِ جاودانی، مولائے اہلِ تقویٰ و ایمان، رہبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اہلِ عرفان کی زینت، حقائقِ توحید سے باخبر، خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عہد کا بادشاہ، اہلِ فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحاناتِ الٰہی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا، خدا کے دین میں سخت کاربند، ذاتِ الٰہی میں فانی حضرتِ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ۔
حوالہ
حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد1،صفحہ61،بابِ ذکر ِعلی علیہ السلام۔

احمد بن حنبل (رہبر مذہب ِحنبلی)

محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرتِ علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:
”اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّۃ“
”میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں“
احمد بن حنبل نے جواب دیا:
”وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟“
”تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟“کیا تمہارے پاس یہ روایت نہیں پہنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
”یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُوٴْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ“
”یا علی ! تم سے محبت نہیں رکھے گا مگر موٴمن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق“۔
ہم نے کہا:ہاں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی علی علیہ السلام سے فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد موٴمن کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:بہشت۔ احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:آتش جہنم۔ اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ بے شک
”فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّۃ“
حوالہ
آثار الصادقین،جلد14،صفحہ440،نقل از امام الصادق،جلد4،صفحہ503۔
عبداللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علی علیہ السلام اور امیر معاویہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ علی علیہ السلام کے بہت زیادہ دشمن تھے۔ انہوں نے علی علیہ السلام کے عیب ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک بھی نہ ڈھونڈ سکے۔لہٰذا علی علیہ السلام کی شخصیت کو ختم کرنے کیلئے دشمنانِ علی علیہ السلام کی مدح سرائی کی۔
حوالہ
1۔ کتاب”شیعہ“ مذاکراتِ علامہ طباطبائی مرحوم اور پروفیسر ہنری کرین کے درمیان ،صفحہ429،بابِ توضیحات،نقل از صواعق،صفحہ76۔
2۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ344پر نقل کیا ہے۔
”جتنے فضائل حضرت علی علیہ السلام کی شان میں آئے ہیں، اتنے فضائل کسی اور صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی شان میں نہیں آئے“۔
حوالہ
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة،باب59،صفحہ335۔
2۔ حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ107۔
3۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ شرح حالِ علی ،ج3ص63حدیث1108شرح محموی
”علی ہمیشہ حق کے ساتھ تھے اور حق بھی ہمیشہ علی کے ساتھ تھا، جہاں کہیں بھی علی ہوں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،مصنف:سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ680،نقل از ا بن عساکر، تاریخ حضرت علی علیہ السلام،جلد3،صفحہ84،روایت1117۔
”عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ وہاں آئے اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتوں کے بارے میں تبادلہٴ خیال کرنے لگے، یہاں تک کہ خلافت ِ علی کا بھی ذکر آگیا تو میرے والد نے خلافت ِعلی کے بارے میں کہا:
”اِنَّ الْخِلَافَۃَ لَمْ تَزَیَّنْ عَلیّاً بَلْ عَلِیٌّ زَیَّنَھَا“
”خلافت از خود علی علیہ السلام کیلئے باعث ِ زینت نہیں تھی بلکہ علی علیہ السلام کا خلیفہ بننا خلافت کیلئے زینت تھا“۔
حوالہ
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امام علی ،جلد3،صفحہ114،حدیث1154
2۔ خطیب،تاریخ بغدار میں،جلد1،صفحہ135،بابِ شرح حالِ علی علیہ السلام، شمارہ1۔
احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے صحابیوں کی افضلیت کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے جواب دیا کہ ا بوبکر، عمر،عثمان(یعنی حضرت ابوبکرحضرت عمر سے افضل اور حضرت عمرحضرتِ عثمان سے افضل)۔ میں نے پھر سوال کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس مرتبہ پر فائز ہیں تو میرے والد نے جواب دیا:
”ھُوَمِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ لَایُقَاسُ بِہ ھَوٴُلَاءِ“
”وہ(یعنی حضرت علی علیہ السلام) اہلِ بیت سے ہیں، اُن کا ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں“۔

ابن صباغ (مذہب ِ مالکی کے مشہور مفکر)

ابن صباغ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
”حکمت و دانائی اُن کے کلام سے جھلکتی تھی۔عقل و دانش ظاہری اور باطنی اُن کے دل میں بستی تھی۔ اُن کے سینے سے ہمیشہ علوم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اُبلتے تھے اور رسولِ خدا نے اُن کے بارے میں فرمایا:
”اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا“
”میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ698، نقل از فصول المہمة،تالیف ابن صباغ ،فصل اوّل،ص18

شبلنجی (عالمِ مذہب ِشافعی، اہلِ مصر)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے جس نے نعمتوں کا مکمل لباس ہمیں پہنا دیا اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عرب و عجم پر چن لیا اور اُن کے خاندان کو سارے جہان پر برتری بخشی اور فضل و کرم سے اُن کو سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ وہ دنیا و آخرت کی سرداری میں گویا سب سے آگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کے کمالات اُن کو عطاکردئیے اور وہ قابلِ فخر افتخارات و امتیازات کے مالک بنے۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ699،نقل از نورالابصار،تالیف شبلنجی۔

ابوعَلَم شافعی (عالمِ مذہب ِشافعی)

”اُس خاندانِ پاک کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو کہ جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً“
”پس یہ اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہلِ بیت تم سے ہر قسم کے رجس (کمزوری، برائی، گناہ اور ناپاکی) کو دور رکھے اور تمہیں ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے“۔
پس یہ خاندان عنایت ِ پروردگار سے معصوم ہیں اور قوتِ پروردگار سے اُس کی بندگی و اطاعت کیلئے آمادہ ہیں۔ ان کی دوستی اللہ نے موٴمنوں پر واجب کردی ہے۔ اس کو ایمان کا ستون قرار دیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“
”آپ کہہ دیجئے کہ میں اس پر کوئی اجر ِرسالت تم سے نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں (اہلِ بیت) سے محبت کرو“۔
پیغمبر اسلام نے بڑے واضح طریقہ سے بیان کیا ہے کہ میرے اہلِ بیت کشتیِ نجات ہیں اور اُمت کو اختلافات اور انحراف کی ہلاکتوں سے پناہ دینے والے ہیں۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ702،نقل از کتاب اہلِ بیت ،مصنف ابوعلم شافعی،آغازِکتاب۔

خطیب ِخوارزمی (مفکر مذہب ِحنفی)

” امیر الموٴمنین علی علیہ السلام،شجاعت و بہادری کا مرکز،علمِ نبوت کا وارث، قضاوت میں سب صحابہ سے بڑھ کر دانا، دین کا مضبوط قلعہ، امین خلیفہ، ہر اُس انسان سے زیادہ دانا اور عقلمند جو اس روئے زمین پر ہے اور آسمان کے نیچے ہے۔
رسولِ خدا کے بھائی اور چچا کے بیٹے کے غم و تکلیف کو مٹانے والا، اُس کا بیٹا پیغمبر خدا کا بیٹا، اُس کا خون پیغمبر خدا کا خون، اُس کا گوشت پیغمبر خدا کا گوشت، اُس کی ہڈیاں پیغمبر خدا کی ہڈیاں، اُس کی عقل و دانش پیغمبر خدا کی عقل و دانش، اُس کی اُس سے صلح جس سے پیغمبر خدا کی صلح اور اُس سے لڑائی جس کی پیغمبر خدا سے لڑائی ہے۔
دنیا میں فضیلتیں ڈھونڈنے والوں کو انہی کے درسے فضائل ملتے ہیں۔ توحید و عدل کے باغ انہی کے شگفتہ کلام سے سرسبز ہیں۔
وہی ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ وہی اندھیروں میں چراغ ہیں۔ اصل دانائی وہی ہیں۔ سر سے پاؤں تک انہی کی غیبی طاقت (حضرتِ جبرائیل ) تعریف کرتی ہے اور ان کے فضائل کی گواہ ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،مصنف: سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ 698، نقل از مناقب ِخوارزمی۔
”کیا ابوتراب کی طرح کوئی جوان ہے؟ کیا اُس کی طرح پاکیزہ نسل کوئی رہبر و پیشوا ہے۔ جب بھی میری آنکھ میں درد پیدا ہوتا ہے، اُسی کے قدموں کی خاک میری آنکھ کا سرمہ بنتی ہے۔ علی وہی ہے جو رات کو بارگاہِ ایزدی میں گرکر روتا ہے اور دن کو ہنستے ہوئے میدانِ جنگ کی طرف جاتا ہے۔ اُس کا دامن بیت المال کے سرخ اور زرد ہیروں اور جواہرات سے پاک ہے۔ وہ وہی ہے جو بت توڑنے والا ہے۔ جس وقت اُس نے دوشِ پیغمبر پر اپناپاؤں رکھا، ایسے لگتا تھا جیسے تمام لوگ جسم کی کھال کی مانند ہیں اور مولیٰ اُس جسم کا مغز ہیں“۔
حوالہ
”داستانِ غدیر“،صفحہ286،نقل از ”الغدیر“، جلد4، صفحہ 385 (جو مطالب بیان کئے گئے ہیں، یہ قصیدہ خوارزمی کے چند اشعار کا ترجمہ ہے)۔

ابن حجر عسقلانی (مفکرمعروف شافعی)

”امام علی جنگ ہائے جمل و صفین میں، جہاں بہت کشت و خون ہوا تھا،حق پر تھے“۔
حوالہ
”حق با علی است“،مصنف:مہدی فقیہ ایمانی، صفحہ215،نقل از فتح الباری،شرح صحیح بخاری،244/12۔

حمّوئی (عالمِ مذہب ِحنفی)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے ہے جس نے اپنی نبوت و رسالت کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہا کیا اور ان کے چچا زاد بھائی سے ولایت کا آغازکیا جو حضرت محمدکیلئے وہی نسبت رکھتے ہیں جو ہارون حضرت موسیٰ سے رکھتے تھے، سوائے اس کے کہ نبی نہ تھے۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرمکے پسندیدہ وصی تھے۔ علی علیہ السلام شہر علم کا دروازہ تھے۔ احسان و بخشش کی مشعل ، دانائی و حکمت کے مرکز، اسرارِ قرآن کے عالم، اُن کے معنی سے مطلع،قرآن کی ظاہری و باطنی حکمتوں سے آگاہ، جو لوگوں سے پوشیدہ ہے ،وہ اُن سے واقف اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے خاندان پر ولایت کو ختم کیایعنی اُن کے بیٹے حضرتِ حجت ابن الحسن علیہ السلام پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ696،نقل از فرائد السمطین،مصنف:حموینی،اوّلِ کتاب۔

فواد فاروقی (اہلِ سنت کے مشہور مفکرو مصنف)

”میری جان علی علیہ السلام پر فدا ہو جن کے دل میں شجاعت اوردرد،بازؤوں میں طاقت،آنکھوں میں چمک۔۔۔۔۔۔وہ اُس کسی(پیغمبر اسلام)کے سوگ میں آنسو بہاتا ہے جو اس دنیا میں سب سے زیادہ صرف دو انسانوں سے محبت کرتے تھے، پہلی اُن کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے آپ کے شوہر ۔“
حوالہ
25 سالہ سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ16۔
”حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے تمام مسلمانوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ علی علیہ السلام خانہٴ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ اس لحاظ سے موٴرخین و مصنفین اُن کو فرزند کعبہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اُن کی والدہ نے انہیں کعبہ میں جنا جو تمام مسلمانوں کیلئے مقدس ہے۔ علی علیہ السلام سب سے پہلے مرد ہیں جنہوں نے اسلام کو قبول کیا“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ38۔
”دوسری بڑی فضیلت جو اللہ تعالیٰ نے علی علیہ السلام کو عنایت فرمائی ،وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے بچپن ہی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں پرورش دلائی اور براہِ راست وہ حضرتِ خدیجہ اور پیغمبر خدا کے زیر سایہ اور زیر عنایات رہے“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام، مصنف: فواد فاروقی،صفحہ137۔
”اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ علی علیہ السلام بعدپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کو مسلمانوں کی رہنمائی و خلافت کیلئے سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود جب تاریخ میں خلافت کا مسئلہ علی علیہ السلام کی خواہش قلبی کے برعکس طے ہوا تو انہوں نے مخالفت کی پالیسی اختیار نہ کی کیونکہ علی علیہ السلام کے نزدیک اسلام سب سے زیادہ اہم تھا“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ39۔
”جب بھی بزرگانِ دین اور مفکرین کسی مسئلے کے حل کیلئے بے بس ہوجاتے تھے ،جانتے تھے کہ اب علی علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے۔ ایسے دوست کے پاس جانا چاہئے جہاں سے وہ مدد مانگ سکیں اور جس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کی قضاوت کی تائید فرمائی ہو“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی، صفحہ54۔
”حضرت علی علیہ السلام نے تمام زندگی اسلام اور مسلمین کی خدمت کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں۔چاہے وہ زمانہ پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں میں شامل ہوکر شمشیر زنی کی ہو یا زمانِ خلافت ِصحابہ ہو یا اپنی خلافت کا زمانہ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علی علیہ السلام نے سب سے زیادہ تکالیف اپنی خلافت و امامت کے زمانہ میں اٹھائیں کیونکہ وہ عدل و انصاف کے نمونہ تھے اور جتنی سختیاں مسلمانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے برداشت کرنا پڑیں، اُن سے کئی سو گنا سختیاں علی علیہ السلام نے اپنی ذات پر برداشت کیں اور اُن کے گھر والوں نے برداشت کیں تاکہ اُن کے تقدس میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی صدیاں گزرجانے کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کی حکمرانی دلوں پر قائم ہے ، زندہ باد نامِ علی علیہ السلام“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ281۔

شیخ عبداللہ شبراوی (عالم مذہب ِشافعی)

”یہ سلسلہٴ ہاشمی کہ جس میں خاندانِ مطہر نبوی،جماعت ِعلوی اوربارہ امام شامل ہیں، ایک ہی نور سے پیوستہ ہیں جس نے سارے جہان کو روشن کیا ہوا ہے۔ یہ بہت فضیلتوں والے ہیں۔ اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ شرف و عزتِ نفس والے ہیں اور باطن میں بزرگیِ محمدی رکھتے ہیں“۔
حوالہ
”آئمہ اثنا عشری“،مصنف:شیخ احمد بن عبداللہ بن عباس جوہری،مقدمہ :آیت اللہ صافی گلپائیگانی،صفحہ45،نقل از ”الاتحاف بحب الاشراف“،مصنف:شیخ عبداللہ شبراوی شافعی۔

ابوھذیل (اہلِ سنت کے مفکر اور دانشمند و استاد ابن ابی الحدید)

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: ”میں نے اپنے اُستاد ابوھذیل سے سنا ہے: جب کسی شخص نے اُن سے پوچھا کہ خدا کے نزدیک علی علیہ السلام افضل ہیں یا حضرتِ ابوبکر؟ تو جواب میں ابوھذیل نے کہا:
وَاللّٰہِ لَمُبٰارِزَةِ عَلِیٍّ عَمْرویَوْمَ الْخَنْدَقِ تَعْدِلُ اَعْمٰال الْمُھٰاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَطٰاعٰاتِھِمْ کُلَّھَا تُرْبٰی عَلَیْھَا فَضْلاً عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ وَحْدَہُ۔
”خدا کی قسم! علی علیہ السلام کا جنگ ِخندق میں عمروبن عبدودسے مقابلہ بھاری ہے تمام مہاجرین و انصار کی عبادتوں اور اطاعتوں پر، حضرتِ ابوبکر کا تنہا کیا مقابلہ!“
حوالہ
محمد رازی، کتاب’چراشیعہ شدم‘نقل از شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید،ج4ص334

ابن مغازلی (عالم معروف مذہب ِشافعی)

خدا کی حمدوثناء اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد لکھتے ہیں:
”درودوسلام ہو علی علیہ السلام پر ،مومنوں کے امیر ، مسلمانوں کے آقا،سفید اور چمکدار پیشانی والوں کے رہبر، نیکوکاروں کے باپ، روشن چراغ۔
درود ہو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر، بتول عذرا پر،نساء العالمین کی سردا رپر،دختر رسول پر اور اُن کے دوفرزندوں پر،رسول کے نواسوں پر،جوانانِ جنت کے سرداروں پر“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،ص694،نقل از مناقب،مصنف:ابن مغازلی،کتاب کے آغاز میں

عبدالرؤوف مناوی(عالم مذہب ِشافعی)

”اوّل و آخر کا خالق جانتا ہے کہ کتابِ خدا کو سمجھنے کا انحصار علمِ علی علیہ السلام پر ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت، صفحہ680،نقل از” مناوی در فیض القدیر“جلد3،صفحہ47پر عبدالرؤوف مناوی نے حدیث2705(انا مدینة العلم و علی بابھا) میں لکھا ہے۔

جاحظ (مفکر مذہب ِمعتزلی)

”۔۔حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے برسرِ منبر کہا:’ہمارے خاندان کا کسی سے مقابلہ نہیں ہوسکتا‘۔ بالکل صحیح فرمایا۔ کس طرح مقابلہ ہو اُس خاندان سے کسی کا!اسی خاندان سے تو پیغمبر خداہیں اور اسی سے دو پاک فرزند (حسن اور حسین ) ہیں اور سب سے پاک یعنی علی و فاطمہ اور پیغمبر اسلام اور راہِ خدا کے دو شہید :شیر خدا حمزہ اور صاحب ِ عظمت حضرتِ جعفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ688،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب52۔
”حقیقت میں ذاتی دشمنیاں عقلِ سلیم کو نقصان پہنچاتی ہیں اورانسان کے اخلاقِ حسنہ کوخراب کرتی ہیں اور خصوصاً اہلِ بیت علیہم السلام سے دشمنی ،یعنی اُن کے فضائل اور اُن کی مسلّمہ افضلیت کو دوسروں کے مقابلہ میں جھگڑے کاباعث بنانا۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم حق طلب کریں۔ اُسی کی پیروی کریں اور قرآن سے وہی مراد چاہیں جو حقیقتاً منظورِ خدا ہے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعصب و خواہشاتِ نفس اور متقدمین(باپ دادا اور اساتذہ) کی غلط تقلیدکو دور پھینک دیں اور اہلِ بیت ِ اطہار علیہم السلام اور عترتِ پیغمبرکی دوسروں پر افضلیت کو تسلیم کریں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ999،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، باب52،ینابیع المودة۔
”امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کے کئی سو اقوالِ حکمت ہیں اور آپ کے ہر قول سے ہزار ہزار حکیمانہ اقوال تفسیر ہو سکتے ہیں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ690،نقل از مناقب ِ خوارزمی،باب24،صفحہ271۔