سلیمانی

سلیمانی

تحریر: سید ثاقب اکبر

اب کے یہ مہینہ دنیا میں عجب حالات میں آیا ہے۔ ایک طرف رمضان کریم، اللہ کریم کا خاص مہینہ ہے، عبادت و مناجات اور دعا و تضرع کا مہینہ اور دوسری طرف سماجی فاصلوں کی تاکید، گھروں میں رہنے پر زور، مساجد میں رونقیں کم، گلیاں اور سڑکیں بہت حد تک سنسان۔ پابندیاں، مجبوریاں، قدغنیں اور تنہائیاں۔ اس ماہ میں، ان دنوں یہ عالم ہے۔ اس مہینے میں کرونا کی وباء سے پوری دنیا میں پیش آنے والے بے شمار اور بے پناہ مسائل ہیں، لیکن ہر طرف سے ایک ہی تلقین ہے: سماجی فاصلہ، Social Distance۔ البتہ اللہ کے بہت سے بندے اس دور اِبتلا میں بھی خیر کے پہلو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں نہ کریں کہ خود پروردگار عالم نے فرما رکھا ہے: وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ "بسا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار گزرتی ہے جبکہ وہی تمھارے لیے خیر ہوتی ہے۔"(سورہ بقرہ، ۲۱۶) کتنے خدا کے بندے ہیں جو تنہائیوں کی ساعتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک عارفِ الہیٰ تنہائی میں محوِ راز و نیاز تھے کہ اُن کے کوئی دوست آپہنچے۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے: تنہا بیٹھے ہو۔ اُنھوں نے سرد آہ کھینچ کے کہا: اب تنہا ہوگیا ہوں۔

قرآن حکیم کی کئی آیات ایسی ہیں، جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔ مثلاً: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً "اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔"(سورہ اعراف، ۵۵) ایک اور خوبصورت آیت دیکھیے: وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ "اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں یاد کرو، زاری و خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ اور تم غفلت میں پڑے لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ۔" ہمارے دینی ادب میں اسی کیفیت کو "مناجات" کہتے ہیں۔ یہ لفظ "نجویٰ" سے نکلا ہے، جس کا معنیٰ ہے "سرگوشی۔" آج جبکہ ہنگامے فرو ہوچکے، رفت و آمد محدود ہوچکی، محفل آرائیاں اور مجالسِ نشاط کے سلسلے رُک چکے، پھر ماہ مبارک بھی آگیا ہے اور اللہ والوں کے لیے مناجات اور خدا کو تنہائی میں پکارنے کا ایک موقع بھی اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ ہم اپنے مذہبی ماحول میں دیکھتے ہیں کہ اجتماعی عبادات پر بہت زور ہے۔ محافل دعا اور مجالس ذکر برپا ہوتی رہتی ہیں۔ شب ہائے قدر میں بھی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ میلاد نبوی ﷺ اور ذکر اہل بیتؑ کی محافل و مجالس کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر شہرِ اعتکاف کا اہتمام۔

ان میں سے بہت سی محفلیں اور مجلسیں نہایت اہم ہیں، لیکن اجتماعیت کے اس تصور نے تنہائی کی عبادتوں اور ضرورت کے تصور کو گہنا دیا ہے۔ ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کا سبق دیا گیا ہے۔ اعتکاف کا تو تصور ہی تنہائی میں ذکر و فکر سے عبارت ہے۔ اس کے لیے بھی جب شہر بسا دیئے جائیں اور اسے اجتماعی عبادت کی شکل دے دی جائے تو "عبادت" تو شاید رہ جائے، لیکن اعتکاف کے مقاصد اس سے پورے نہیں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندے جن میں انبیاء پیش پیش ہیں، ایسے مواقع تلاش کرتے تھے کہ انہیں تنہائی میں اپنے پروردگار کے ساتھ محفل ذکر و فکر جمانے کی مہلت مل جائے۔ وہ تنہائی میں، یکسو ہو کر اپنے اللہ کو یاد کریں۔ توبہ و انابت، استغفار و استمداد، دعا و مناجات اور تضرع و زاری کے لیے تنہائی کی چند گھڑیاں درکار ہوتی ہیں۔ نماز تہجد میں ایک یہ مقصد بھی کار فرما ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اعلان بعثت سے پہلے غار حرا میں جانا اور اپنے اللہ سے لَو لگانا، ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بڑے بڑے عرفاء اور علماء کی گوشہ نشینیاں بلکہ پہاڑوں اور غاروں میں جاکر عبادت اور غور و فکر کرنا اور پھر معارف و دانش اور حکمت و دانائی کے جواہر پارے لے کر بندگانِ خدا کے پاس آنا، ہماری کتابوں میں مذکور و مرقوم ہے۔ ہم تو یہاں تک جانتے ہیں کہ بہت سی اہم علمی و فقہی کتابیں، تفاسیر اور ادب پارے زندان میں تخلیق پائے ہیں۔ تنہائیوں کی برکات کے کتنے پہلو ہیں، جن سے بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زندان میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا یہ کہہ کر شکر بجا لائے کہ "پروردگارا! میری کتنی آرزو تھی کہ میں جی بھر کر تیری عبادت کروں، تو نے مجھے یہ موقع عطا فرمایا ہے۔" علامہ اقبال کا سحر خیزی کی حوالے سے یہ شعر بہت شہرت رکھتا ہے:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
اللہ تعالیٰ اس ماہ ِمبارک میں دستیاب ہماری ان تنہائیوں کو اپنی یاد سے آباد کر دے، ہماری غفلتوں کو دُور کر دے، ہمارے دلوں کو اپنے ساتھ جوڑ لے، اپنی محبت سے ہمارے دل معمور کر دے۔ یا اللہ! ہمیں بھی اپنے اُن بندوں کے ساتھ ملحق کر دے، جو تجھے چپکے چپکے پکارتے تھے، گریہ و زاری کے ساتھ اور تیری یاد سے اپنے سینوں کو آباد رکھتے تھے۔ تیرے بندوں کی مناجات اور دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ قرآن حکیم جو تیرے نبیﷺ کے سینے پر نازل ہوا اور اسی مہینے میں نازل ہوا، جو تیری حبل ِ متین ہے، ہمارے پاس ہے۔ نبی کریمﷺ اور اُن کے جانشینوں کی دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ ہم صحیفہ کاملہ جیسی دعاؤں کے وارث ہیں۔ ہمیں ان کا حقیقی حامل و وراث بنا دے۔ اس مہینے میں ہماری توبہ قبول فرما۔ اپنے بندوں پر مہربانی فرما اور کرونا کی اس وبا سے اپنے بندوں کو بیداری کے ساتھ اور خیر کے عزم کے ساتھ نجات دے۔ اپنی خاص رحمتوں کے ساتھ "یاارحم الراحمین۔"

Monday, 27 April 2020 07:58

کیا یہ وہی ایران ہے؟

تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ دنوں ایران نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی سیٹلائیٹ نور کو اپنے ہی ملک میں تیار ہونے والے لانچر کے ذریعے کامیابی سے فضا میں پہنچا دیا، سیٹلائیٹ نے لانچ ہونے کے نوے منٹ بعد اپنے زمینی مرکز پر سگنل دینے شروع کر دیئے تھے۔ ویسے تو خلا میں کئی ایک ممالک کی سیٹلائٹس موجود ہیں، تاہم ہر ملک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹلائیٹ کو خود خلا میں بھیج سکے۔ اس مقصد کے لیے غریب ممالک کو اکثر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایران نے اس سیٹلائیٹ کو فضا میں بھیجنے کے لیے اس سے قبل دو تجربات کیے تھے، جن میں اسے ناکامی ہوئی تھی، تاہم اس مرتبہ وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نور اگرچہ فوجی سیٹلائیٹ ہے، لیکن اس کو غیر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کو مدار میں پہنچانے کے لیے جو لانچر استعمال کیا گیا ہے، اس کے بارے مین یہ اطلاعات ہیں کہ اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹھوس ایندھن کو لانچر میں استعمال کرنے کی استعداد دنیا میں گنے چنے ممالک کے پاس ہے۔ ایران ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایندھن کے استعمال کے لیے پیچیدہ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ نور کے کامیاب تجربہ سے یہ چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ ایران نے یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔

ایران نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو میزائل سسٹم میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تاہم یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو اس لانچنگ پر تشویش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ سیٹلائیٹ لانچ کرکے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ویسے امریکہ بہادر تو اپنے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے لانچ کی جانے والی سیٹلائیٹ کو عالمی قوانین کے مطابق نہیں سمجھتا، اسی لیے اس نے چین اور جنوبی کوریا کو بھی متعدد مواقع پر ایسی ہی دھمکیاں دی ہیں، جنہیں یہ ممالک اب زیادہ قابل اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ میرا حیرت سے بھرپور سوال واقعاً دنیا کے اعلیٰ دماغوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ایران جو امریکا، یورپ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ تین دہائیوں سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں میزائل ٹیکنالوجی، توانائی، سائنس کے مختلف شعبہ جات، فوجی اداروں اور شخصیات، بینکوں، کرنسی، کاروبار، ہوائی انڈسٹری، بحری انڈسٹری اور دیگر کئی ایک شعبوں پر عالمی پابندیاں ہیں، جس کی معیشت کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا، اس نے کیسے سیٹلائیٹ بنائی اور پھر اسے خود ہی مدار میں پہنچا دیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پورا ایران کرونا کی زد پر ہے اور اس کے سینکڑوں شہری اس آفت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

ایران نے اس سے قبل بھی دنیا کو متعدد مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، کبھی امریکی ڈرون اتار کر، کبھی پیچیدہ ترین ڈرون کو فضاء میں تباہ کرکے، کبھی عراق میں امریکوں اڈوں کو نشانہ بنا کر۔ تاہم اس بار تو ایران نے سبھی حدیں ہی عبور کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ ایران کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایرانی قوم کی پیشرفت اور ترقی کا سفر کسی حال میں بھی نہیں تھم سکتا ہے۔ اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا، جو اتنے عرصے سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ فی الحال فضا میں غبارے چھوڑنے سے اوپر جا سکا ہوتا۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نیز اس کے فیصلہ سازوں نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی اور خود انحصاری کا فیصلہ کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ ایرانیوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ معاشی، اقتصادی، علمی پابندیاں ترقی کی رفتار کو سست تو کرسکتی ہیں، تاہم مکمل طور پر روکنا ان پابندیوں سے بس سے باہر ہے۔

ایران نے نور سیٹلائیٹ کو کامیابی سے مدار میں پہنچانے کا تجربہ کرکے جہاں سائنسی اور علمی میدان میں اپنی پیشرفت اور خود کفالت کا اعلان کیا ہے، وہیں اس نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایسی ہی ترقی اور پیشرفت کے مواقع روشن کر دیئے ہیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے بہت جلد ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جن سے ملک میں اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایران میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد چین کے بعد سب سے زیادہ ہے، ایران میں اب تک نوے ہزار کرونا کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا ستر ہزار کے قریب صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت ایران میں کویڈ 19 کے تقریباً پندرہ ہزار کیسز موجود ہیں، جبکہ اموات کی تعداد پانچ ہزار سات سو کے قریب ہے۔ ایران کی اس پیشرفت اور خود کفالت کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ دنیائے اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جو مغربی ممالک کی پابندیوں کا ایران کی مانند سامنا کر رہا ہو اور ان تمام معاشی، اقتصادی، تجارتی، علمی اور سائنسی پابندیوں کے باوجود ایسے معجزات رونما  کرے۔ سائنسی ترقی کے یہ مظاہر اور ان شعبوں میں خود کفالت ایرانی قوم اور اس کی قیادت کا طرہ امتیاز اور ایمان باللہ کی بین دلیل ہے۔ اللہ کریم دنیا کی تمام اقوام اور ریاستوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین

.بقره 185رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں

رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن ، رحمتوں  اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ عبادت، بندگی ، توبہ و استغفار اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔

رمضان المبارک  کے آداب مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ چاند کا دیکھنا
اس مہینے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ اس مبارک مہینے کے چاند کو دیکھا جائے اور اس چیز کو «سنن النبی» اور «تهذیب» شیخ طوسی (ره) نے ذکر کیا ہے کہ چاند کا دیکھنا سنت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  ہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ماہ مبارک رمضان کے چاند کو دیکھتے اور اس مہینے کی دعا کو پڑھتے تھے ۔ (1)

2۔ سحری اور افطاری کا کھانا
سحری اور افطاری اس مہینے کی سنت میں شمار ہوتا ہے اور اسی طرح شریعت اسلام میں  «صوم وصال»؛ یعنی ایک روزے کے بعد دوسرا روزہ  بغیر کچھ کھائے پیے منع کیا گیا ہے،ہاں مگر جب کوئی مجبوری ہو یعنی کھانے کے لیے کچھ نہ یا پھر سوئے رہے اور اذان کے بعد آنکھ کھولی تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
شیخ مفید نے کتاب مقنعہ میں لکھا ہے کہ : آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے نقل ہوا ہے «سحرى» کھانا مستحب ہے اگرچہ ایک گھونٹ پانی کا ہی کیوں نہ ہو ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہوا ہے کہ بہترین سحری «کھجور» ہے؛ کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اسے کھاتے تھے ۔ (2)
کتاب سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں جب آپ افطار کرتے تھے تو آپ کی افطاری میں ،حلوہ ،کھجور ،دودھ،روٹی ہوا کرتی تھی اور بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ جب کچھ نہیں ہوتا تھا تو آپ پانی سے روزہ افطار کرتے تھے ۔ (3)
اہم تکتہ: سحری اور افطاری میں حلال کھانے پر توجہ کی جائے تفسیر روح البیان  میں ذکر ہے کہ سحری اور افطاری میں چاہے ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو وہ حلال کا ہونا چاہیے کیونکہ حرام لقمہ ایسا ہے کہ جیسے زہر کھا رہے ہوں۔ (4)

3۔نماز و دعا اور استغفارو صدقہ کا کثرت سے انجام دینا
اس مبارک مہینے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اس ماہ کو نماز و دعا اور اسی طرح استغفارو صدقہ سے گزارا جائے اور اس کا ذکر سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں آیا ہے ۔
سید بن طاوس نے کتاب «اقبال» میں تاریخ نیشابورى  سے روایت نقل کی ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کا رنگ بدل جاتا آپ کا زیادہ و قت نماز و دعا میں گزرتا اور لوگوں کو استغفار کی تاکید کرتے ۔ (5)
کتاب «فقیه» میں روایت نقل ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو سارے قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے (6)
کتاب کشف الاسرار میں آیا ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: «من صام رمضان و قامه ایمانا و احتسابا غفر له ما تقدّم من ذنبه» جو بھی ماہ رمضان میں روزے رکھے اور اس کی راتوں میں جاگے اور روزہ رکھنے کو فریضہ سمجھے تو خدا اس کےپچھلے تمام  گناہوں کو معاف کر دے گا ۔(7)

اسی طرح خطبہ شعبانیہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ نماز کے وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور یہ بہترین وقت ہے دعا کے لیے ،اور خدا اپنے بندوں کی مناجات کو سنتا ہے اور انکی حاجات کو مستجاب کرتا ہے ،آواز آتی ہے کہ اے لوگوں اپنے نفس کو استغفار کے لیے آزار کرو،تمہارے کندھوں بہت بوج ہے اور یہ کندھے وہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں اس لیے استغفار کرو اور سجدہ کرو ،اور جو بھی ایک آیہ کریمہ کی تلاوت کرے گا وہ ایسے ہےکہ جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں پورا قرآن ختم کیا ہو ۔ (8)

4۔ اعضاو جوارح کا روزہ
روزہ کے آداب میں اس کی بھی بہت زیادہ تاکید ہے کہ انسان اعضا و جوارح کا بھی خیال رکھے یعنی ان کا بھی روزہ ہونا چاہیے تفسیر جامع نے کافی ، فقیہ اور تہذیب سے نقل کیا ہے محمد ابن مسلم نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے یعنی کان ، آنکھ ، ہاتھ ، پاؤں  سب کا روزہ ہونا چاہیے ۔ (9)
امام صادق (علیہ السلام )نے فرمایا : روزہ رکھنا ،فقط کھانے پینے کی چیزوں کا روزہ نہیں ہے حضرت عیسی (علیہ السلام) کی ماں مریم (علیھا السلام) نے کہا کہ : «میں نے منت مانی ہے کہ خداوند متعال کی ذات کے لیے روزہ رکھوں » یعنى، میں فقط اور فقط خدا کی مدح کے لیے بولوں گی ۔
ایک مرتبہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے سنا کہ ان کی ازواج میں سے ایک روزے کی حالت میں اپنے خادم کو برا بھلا کہہ رہی ہے تو آپ نے فرمایا کہ : اس کے لیے کھانا لے آؤ تو اس نے کہا نہیں میں روزے سے ہوں تب آپ نے فرمایا کہ: «کیسا روزہ ! اگر روزے سے ہوتی تو ایسے الفاظ سے بات نہ کرتی ،فقط بھوک کا روزہ نہیں ہوتا »۔
امام(علیہ السلام) نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوک کی حالت میں آنکھ ،کان حرام میں مبتلا ہوں اور فرمایا کہ جس دن روزہ رکھو وہ دن تمہارے باقی دنوں کی طرح نہ ہو ۔ (10)

5۔ماہ مبارک کے آخری عشرے میں خصوصی توجہ
ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں خصوصی توجہ ہونی چاہیے کہ یہ دس دن اہم اہمیت رکھتے ہیں ان دس دنوں میں خصوصی توجہ دینا سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں سے ہے اور اعتکاف بھی بیٹھے۔
کافى میں امام صادق (علیہ السلام) سے  روایت ہے کہ:جیسے ہی ماہ مبارک کا آخری عشرہ آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اسے ایک خاص انداز سے گزارتے اپنی بیویوں سے نزدیکی نہ کرتے پوری پوری رات عبادت کرتے ان دس دنوں میں انہیں کوئی فارغ نہیں پاتا تھا ۔ (11)
کتاب «دعائم» میں حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ :ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنا بستر جمع کر دیتے تھے اور اپنی کمر کو عبادت کے لیے باندھ دیتے اور جیسے ہی ۲۳ رمضان کی رات آتی تو اپنے گھر والوں کو کہتے خبردار آج کوئی سوئے نا اور کسی کو نیند آنے بھی لگتی تو اس کے منہ پر پانی ڈالتے اور یہی روش حضرت زہراء (سلام اللہ علیھا) کی بھی ہوتی کہ کسی اس رات سونے نہ دیتیں اور کہتی کہ اس رات کھانا کم کھاؤ تاکہ کسی کو نیند نہ آئے اور یہ فرماتیں :محروم ہے وہ انسان جو اس رات کو بھی سوتا ہے ۔ (12) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور ان کی اہل (علیھم السلام) نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ اس ماہ کی اہمیت کو درک کریں اور خاص طور پر اس مبارک مہینے کے آخری عشرے کو پوری توجہ سے گزاریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)  طباطبائی، محمد حسین، سنن النبی (ص)، فقهی، محمدهادی، ص 302،ح 343، کتاب فروشى اسلامیه ،تهران، چاپ هفتم، 13788ش.

(2)  وہی، ص 295، ح 333.
(3)  وہی، ص 294- 301.
(4)  آلوسی، تفسیر روح البیان، ج 1،ص 296. قال ابو سلیمان الدارانی قدس سره لأن أصوم النهار و أفطر اللیل على لقمة حلال أحب الى من قیام اللیل و النهار و حرام على شمس التوحید ان تحل قلب عبد فی جوفه لقمة حرام و لا سیما فی وقت الصیام فلیجتنب الصائم أکل الحرام فانه سم مهلک للدین و السنة.
(5)  طباطبایی، محمدحسین، سنن النبی، ص 300، ح 336.
(6) همان، ص 296، ح 335.
(7) میبدی، کشف الأسرار و عدة الأبرار، ج ‏1، ص 488 و 489.
(8) شیخ صدوق، امالى، کمره‏اى، ص 94 و 95.
(9) بروجردی،سید محمد ابراهیم، تفسیر جامع، ج 1، ص 300، انتشارات صدر، تهران، چاپ ششم، 1366ش.
(10) بهبودی، محمد باقر، گزیده کافى، ج ‏3، ص 134و 136، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، چاپ اول، 1363ش.
(11) طباطبائی، محمد حسین، همان، ص 301 و 302،ح 342.
(12)  وہی، ص 296، ح 336.

اقتباس از تاریخ وھابیت؛ علی اصغر فقیھی - مترجم: اقبال حیدر حیدری
ابن تیمیہ نے اپنے فتووں میں كھا ھے كہ اگر قبور پر نماز اور دعا كی جائے تو یہ كام ائمہ مسلمین كے اجماع اور دین اسلام كے خلاف ھے اور اگر كوئی شخص یہ گمان كرے كہ مشاہد اور قبور پر نمازپڑھنا اور دعاكرنا مسجدوں سے افضل ھے توایسا شخص كافر ھے۔۱
ابن تیمیہ مسجد النبی اور آنحضرت (ص)كی قبر كے بارے میں كھتا ھے كہ مسجد النبی اور آنحضرت كی قبر كی زیارت بذات خود ایك نیك اور مستحب عمل ھے اور اس طرح كے سفر میں نمازیں قصر پڑھی جائیں گی(یعنی اس كا یہ سفر، سفر معصیت نھیں ھے كہ اگر سفر معصیت هوتو نماز پوری پڑھنا ضروری ھے) اور اس طرح كی زیارت (جو مسجد النبی كی زیارت كے ضمن میں هو) بھترین اعمال میں سے ھے اور اسی طرح قبور كی زیارت كرنا مستحب ھے جیسا كہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع اور شہدائے اُحد كی زیارتوں كے لئے جایا كرتے تھے اور اپنے اصحاب كو بھی اس عمل كی ترغیب دلاتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاكہ جس وقت زیارت كے لئے جایا كرو تو اس طرح كھا كرو:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ اَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوٴمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِكُمْ لاٰحِقُوْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَمِنْكُمْ وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَنَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةَ، اَللّٰهم لاٰتَحْرِمْنَا اَجْرَهم وَلاٰ تَفِتْنَا بَعْدَهم وَاغْفِرْ لَنَاوَلَهم“
”سلام هو تم پر اے مسلمین ومومنین، اور انشاء اللہ ھم بھی تم سے ملحق هونے والے ھیں، خدا رحمت كرے ان لوگوں پر جو اس دیار میں ھم سے پھلے آئے یا بعد میں آئیں گے ،میں اپنے لئے اور تمھارے لئے خداوندعالم سے عافیت كا طلبگار هو ں، بارالہٰا! ھم پر اجر ثواب كو حرام نہ كر، اور ھمیں اور ان لوگوں كو بخش دے“۔
قارئین كرام! جب عام مومنین كی قبروں كی زیارت جائز هو تو پھر انبیاء، پیغمبروں اور صالحین كی قبور كی زیارت كا ثواب تو اور بھی زیادہ هوگا، لیكن اس سلسلہ میں ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی كا دوسرے انبیاء سے یہ فرق ھے كہ آپ كے اوپر ھر نماز میں صلوات او رسلام بھیجنا ضروری ھے، اسی طرح اذان اور مسجد میں داخل هوتے وقت كی دعا یھاں تك كہ كسی بھی مسجد میں داخل هونے كی دعا اور مسجد سے باھر نكلتے وقت آپ پر سلام بھیجا جاتا ھے، اسی وجہ سے امام مالك نے كھا كہ اگر كوئی شخص یہ كھے كہ میں نے حضرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كی ھے تو اس كا یہ كہنا مكروہ ھے، اور قبور كی زیارت سے مراد صاحب قبر پر سلام ودعا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ سلام و دعا ،كامل ترین انداز میں،نمازاذان او ردعا كے وقت درود وسلام بھیجنا ھے، ۲ اور اسی لئے كبھی یہ اتفاق نھیں هوا كہ اصحاب پیغمبرآنحضرت (ص)كی قبر مطھر كے نزدیك نھیں گئے ،اور كبھی انھوں نے حجرے كے اندر سے یا حجرے كے باھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت نھیں كی، لہٰذا اگر كوئی شخص فقط آنحضرت كی قبر كی زیارت كی وجہ سے سفر كرے اور اس كا قصد مسجد النبی میں نماز پڑھنا نہ هو، تو ایسا شخص بدعتی اورگمراہ ھے۔ ۳
ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے سفر كرنے والوں كے لئے، چند قول نقل كئے ھیںكہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذا كیا نماز پوری هوگی یا قصر۔ ۴
ابن بطوطہ كے قول كے مطابق ابن تیمیہ قائل تھا كہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذاكیا نماز پوری پڑھنا ضروری ھے؟۵
اسی طرح ابن تیمیہ كھتا ھے: مسلمانوں كے ائمہ اربعہ نے خلیل خدا جناب ابراھیم كی قبراور دیگر انبیاء كی قبروں كی صرف زیارتوں كے لئے سفر كرنے كو مستحب نھیں جانا ھے، لہٰذا اگر كوئی شخص ایسے سفر كے لئے نذر كرے تو اس نذر پر عمل كرنا واجب نھیں ھے۔ ۶
اس كے بعد زیارت كے طریقہ كے بارے میں كھتا ھے كہ اگر زیارت سے كسی كا مقصد صاحب قبر كے لئے دعا كرنا هو تو اس كی یہ زیارت صحیح ھے لیكن اگر كوئی كام حرام هو جیسے (صاحب قبر كو) خدا كا شریك قرار دینا، (گویا ابن تیمیہ كی نظر میں صاحب قبر سے استغاثہ كرنا اور اس كو شفیع قرار دینا شرك كا باعث ھے) یا اگر كوئی كسی كی قبر پر جاكر روئے، نوحہ خوانی كرے یا بے هودہ باتیں كھے تو اس كی یہ زیارت باتفاق علماء حرام ھے، لیكن اگر كوئی شخص كسی رشتہ دار اور دوستوں كی قبر پر جاكر ازروئے غم آنسو بھائے تو اس كا یہ كام مباح ھے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس گریہ كے ساتھ ندبہ او رنوحہ خوانی نہ هو۔ ۷ اسی طرح مَردوں كے لئے زیارت كرنا مباح ھے، البتہ عورتو ںكے بارے میں اختلاف ھے كہ وہ قبور كی زیارت كرسكتی ھیں یا نھیں؟ ۸
البتہ ابن تیمیہ صاحب كفار كی قبور كی زیارت كے بارے میں فرماتے ھیں كہ ان كی زیارت كرنا جائز ھے تاكہ انسان كو آخرت كی یاد آئے، لیكن جب كفار كی قبور كو دیكھنے كے لئے جائے تو ان كے لئے خدا سے استغفار كرنا جائز نھیں ھے۔ ۹
اسی طرح ابن تیمیہ صاحب كا عقیدہ یہ بھی ھے كہ قبور كے نزدیك نماز پڑھنا یا قبروں پر بیٹھنا (یا ان كے برابر بیٹھنا) اور قبروں كی زیارت كو عید قرار دینا یعنی كئی لوگوں كا ایك ساتھ مل كر زیارت كے لئے جانا جائز نھیں ھے، ۱۰ چنانچہ وہ كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس آنحضرت پر صلوات اور سلام بھیجنا ناجائز ھے كیونكہ یہ كام گویا آنحضرت كی قبر پر عید منانا ھے۔ ۱۱
یھی نھیں بلكہ جناب كا عقیدہ تو یہ بھی ھے كہ وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں وارد هوئی ھیں وہ تمام علمائے حدیث كی نظر میں ضعیف بلكہ جعلی ھیں، اسی طرح موصوف فرماتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك پر ھاتھ ركھنا یا قبر كو بوسہ دینا جائز نھیں ھے اور مخالف توحید ھے، ۱۲ اور اسلامی نظریہ كے مطابق كوئی ایسی قبر یا روضہ نھیں ھے جس كی زیارت كے لئے جایا جائے، اور قبور كی زیارت كا مسئلہ تیسری صدی كے بعد پیدا هوا ھے یعنی اس سے قبل زیارت قبور كا مسئلہ موجود نھیں تھا۔ ۱۳
سب سے پھلے جن لوگوں نے زیارت كے مسئلہ كو پیش كیا اور اس سلسلہ میں حدیثیں گڑھیں، وہ اھل بدعت اور رافضی لوگ ھیں جنھوں نے مسجدوں كو بند كركے روضوں كی تعظیم كرنا شروع كردی، چنانچہ روضوں پر شرك، جھوٹ اور بدعت كے مرتكب هوتے ھیں۔ ۱۴
جب ابن تیمیہ سے زیارت كے بارے میں سوال كیا گیا اور اس كے جواب كو شام كے قاضی شافعی نے دیكھا تو اس نے اسی جواب كے نیچے لكھا كہ میں نے ابن تیمیہ كے جواب اور سوال میں مقابلہ كیا اور وہ چیز جو ابن تیمیہ اور ھمارے درمیان اختلاف كا باعث بنتی ھے وہ یہ ھے كہ اس نے انبیاء كرام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبور كی زیارت كو معصیت او رگناہ كھا ھے۔
لیكن ابن كثیر نے اس مطلب كو ذكر كرنے كے بعد كھا كہ ابن تیمیہ كی طرف اس مذكورہ بات كی نسبت دینا صحیح نھیں ھے (یعنی اس نے زیارت كو معصیت قرار نھیں دیا)، ابن كثیر صاحب جو ابن تیمیہ كے مشهور ومعروف طرفدار مانے جاتے ھیں مسئلہ زیارت میں ابن تیمیہ كے نظریہ كی توجیہ اور تصحیح كرتے ھیں۔ ۱۵

پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیهم السلام كی قبروں كی زیارت كے بارے میں وضاحت

ابن تیمیہ اپنے نظریات میں عام طور پر تمام قبور او رخاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے مسئلہ میں بھت زیادہ ہٹ دھرمی سے كام لیتا ھے، اسی وجہ سے اپنی دو كتابوں”الجواب الباھر“ اور ”الرد علی الاخنائی“ میں جب بھی اس طرح كے مسئلہ كو بیان كرتا ھے اور كسی مدرك اور سند كو ذكر كرتا ھے تو اس كو كئی كئی بار اور مختلف انداز سے تكرار كرنے كی كوشش كرتا ھے، اور وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كو مستحب قرار دیتی ھیں ان كو ضعیف اور جعلی بتاتا ھے، ان احادیث میں سے جن كو اھل سنت نے مختلف طریقوں سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كیا ھے منجملہ وہ حدیث جس میں آنحضرت نے فرمایا: ”مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِی“ (جس شخص نے میری قبر كی زیارت كی اس كی شفاعت مجھ پر واجب ھے)، اس حدیث كو صحیح نھیں مانتا، جبكہ زیارت سے متعلق احادیث صحاح ستہ اور اھل سنت كی معتبر كتابوں میں موجود ھیں او رمختلف طریقوںسے نقل كی گئی ھیں اور بھت سے علماء نے ان كو صحیح شمار كیا ھے اور ان احادیث كے مضامین پر عمل بھی كیا ھے ۱۶
ھم یھاں پر ان احادیث كے چند نمونے بیان كرنا مناسب سمجھتے ھیں:
امام مالك (مالكی مذھب كے امام) اپنی كتاب ”موطاء“ میں عبد اللہ ابن دینار سے روایت كرتے ھیں كہ ابن عمر جب بھی كسی سفر پر جاتے تھے یا سفر سے واپس آتے تھے تو آنحضرت (ص)كی قبر پر حاضر هوتے تھے اور وھاں نماز پڑھتے تھے اور آپ پر درود وسلام بھیجتے تھے اور دعا كرتے تھے، اسی طرح محمد (ابن عمر) نے كھا:اگر كوئی مدینہ میں آتا ھے تو اس كے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پاس حاضر هوناضروری ھے۔ ۱۷
ابو ھریرہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل كرتے ھیں كہ آپ نے فرمایا كہ خدا نے مجھے اپنی والدہٴ گرامی كی قبر كی زیارت كرنے كی اجازت عطا فرمائی ھے، ۱۸
اسی طرح ابوبكر نے حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت كی ھے جو شخص جمعہ كے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے كسی ایك كی زیارت كرے اور ان كی قبر كے پاس سورہ یٰس پڑھے تو خدا اس كو بخش دیتا ھے۔ ۱۹
اسی طرح عبد اللہ بن ابی ملیكہ كی روایت ھے كہ اس نے كھا:میں نے دیكھا كہ ایك روز جناب عائشہ قبرستان سے واپس آرھی ھیں تو میں نے ان سے عرض كیا اے ام الموٴمنین ! كیا پیغمبر اكرم نے قبور كی زیارت سے منع نھیں فرمایا تھا؟! تو انھوں نے جواب دیا كہ ٹھیك ھے پھلے ایسا ھی حكم كیا تھا لیكن بعد میں خود انھوں نے حكم فرمایا كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو۔ ۲۰
اسی طرح پیغمبر اكرم (ص)كی ایك دوسری حدیث جس میں آپ نے فرمایا : جو شخص میری زیارت كے لئے آئے اور اس كے علاوہ اور كوئی دوسرا قصد نہ ركھتا هو، تو مجھ پر لازم ھے كہ میں روز قیامت اس كی شفاعت كروں۔ ۲۱
جناب سمهودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے بارے میں ۱۷ حدیثیں سند كے ساتھ ذكر كی ھیں، جن میں سے بعض كوھم زیارت كے بارے میں وھابیوں كےعقیدہ كے بیان كریں گے۔
اسی طرح سمهودی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے آداب كو تفصیل سے بیان كرتے ھیں جس كا خلاصہ یہ ھے:
ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن الحسین السامری حنبلی نے، اپنی كتاب ”المُستَوعِب“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے سلسلہ میں آداب زیارت كے باب میں لكھا ھے كہ جب زائر قبر كی دیوار كی طرف آئے تو گوشہ میں كھڑا هوجائے اور قبر كی طرف رخ یعنی پشت بقبلہ اس طرح كھڑا هو كہ منبر اس كی بائیں طرف هو، اور اس كے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سلام ودعا كی كیفیت بیان كی ھے، اور اس دعا كو ذكر كیا ھے:
”اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ فِی كِتَابِكَ لِنَبِیِّكَ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ: < وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْوٴُكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً۔ > وَاِنِّی قَدْ اَتَیْتُ نَبِیّكَ مُسْتَغْفِراً وَاَسْاٴلُكَ اَنْ تُوْجِبَ لِیَ الْمَغْفِرَةَ كَمَا اَوْجَبْتَها لِمَنْ اَتَاہُ فِی حَیَاتِہِ، اَللّٰهم اِنِّي اَتَوَجَّہَ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ“۔
”خداوندا !تو نے اپنی كتاب میں اپنے پیغمبر (ص)كے لئے فرمایاھے:<اے كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تھا تو آپ كے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناهوں سے استغفار كرتے اور رسول بھی ان كے حق میں استغفار كرتے، تو یہ خدا كو بڑا ھی توبہ قبول كرنے والا اور مھربان پاتے>، میں اپنے گناهوں كی بخشش كے لئے تیرے نبی كی خدمت عالیہ میں حاضر هوا هوں، اور تجھ سے اپنے گناهوں كی مغفرت چاھتا هوں اور امید ھے كہ تو مجھے معاف كردے گا ،جس طرح لوگ تیرے نبی كی حیات میں ان كے پاس آتے تھے اور تو ان كو معاف كردیتا تھا، اے خدائے مھربان میں تیرے نبی كے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں ملتمس هوتا هوں“۔
حنفی عالم دین ابومنصور كرمانی كھتے ھیں كہ اگر كوئی تم سے آكر یہ كھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تك میرا سلام پهونچادینا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بارگاہ میں حاضر هوكر اس طرح كہنا كہ آپ پر سلام هو فلاں فلاں شخص كا، اور انھوںنے آپ كو خدا كی بارگاہ میں شفیع قرار دیا ھے تاكہ آپ كے ذریعہ خداوندعالم كی مغفرت اور رحمت ان كے شامل حال هو، اور آپ ان كی شفاعت فرمائیں۔
سمهودی مذاھب اسلامی كے معتبر اور قابل اعتماد علماء میں سے ھیں، انھوں نے اپنی كتاب كے تقریباً ۵۰ صفحے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت اور اس كے آداب اور قبر مطھر سے توسل سے مخصوص كئے ھیں، اور متعدد ایسے واقعات بیان كئے ھیں كہ لوگ مشكلات اور بلا میں گرفتارهوئے اور آپ كی قبر مطھر پر جاكر نجات مل گئی ۔ ۲۲
مرحوم علامہ امینیۺ نے زیارت قبر پیغمبر (ص)كی فضیلت اور استحباب كے بارے میں جھاں اھل سنت سے بھت سی روایات نقل كی ھیں وھیں تقریباً چالیس سے زیادہ مذاھب اربعہ كے بزرگوں كے قول بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں نقل كئے ھیں۔ ۲۳
قارئین كرام!یھاں پر مناسب ھے كہ محمد ابوزَھرَہ عصر جدید كے مصری موٴلف كا قول نقل كیا جائے، وہ كھتے ھیں: ابن تیمیہ نے اس سلسلہ (زیارت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں تمام مسلمانوں سے مخالفت كی ھے بلكہ جنگ كی ھے۔
روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت،دراصل پیغمبر كی عظمت، آپ كے جھاد، مقام توحید كی عظمت كو بلند كرنے میں كوشش اور شرك اور بت پرستی كی نابودی كی كوششوں كی یاد دلاتی ھے، خود ابن تیمیہ روایت كرتے ھیں كہ سَلفِ صالح جب آپ كے روضہ كے قریب سے گذرتے تھے تو آپ كو سلام كرتے
نافع، غلام اور راوی عبد اللہ ابن عمر سے مروی ھے كہ عبد اللہ ابن عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر سلام كرتے تھے اور میں نے سیكڑوں بار ان كو قبر منور پر آتے دیكھا اور میں نے یہ بھی دیكھا كہ اپنے ھاتھ كو منبر رسول سے مس كرتے ھیں، وہ منبر جس پر آنحضرت (ص)بیٹھا كرتے تھے ،پھر وہ اپنے ھاتھ كو اپنے منھ پر پھیرلیا كرتے تھے ،اسی طرح ائمہ اربعہ جب بھی مدینہ آتے تھے تو آنحضرت كی قبر كی زیارت كیا كرتے تھے۔ ۲۴
عمومی طور پر دوسری قبروں كی زیارت كے بارے میں ابن ماجہ نے روایت نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّها تُذَكِّرُكُمُ الآخِرَةَ“۔
”قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں آخرت كی یاددلائے گی“۔
اسی طرح جناب عائشہ كی روایت كے مطابق پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں كی زیارت كی اجازت عطا فرمائی ھے۔ ۲۵
ابن مسعود سے منقول ایك اورروایت میں ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”كُنْتُ نَہَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُوْرِ، فَزُوْرُوْها فَاِنَّها تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَكِّرُ الٓاخِرَةَ“۔
”پھلے میں نے تم كو قبروں كی زیارت سے منع كیا تھا لیكن (اب اجازت دیتا هوں كہ) قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت دنیا میں زہد پیدا كرے گی اور آخرت كی یاد دلائے گی“۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایك اور روایت ھے جس میں آپ نے فرمایا كہ قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں موت كی یاد دلاتی ھے۔ ۲۶
سخاوی كھتے ھیں كہ آنحضرت خود بھی زیارت قبور كے لئے جاتے تھے اور اپنی امت كے لئے بھی اجازت دی كہ وہ بھی زیارت كے لئے جایا كریں، جبكہ پھلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبور كی زیارت سے منع فرمایا تھا۔
قبروں كی زیارت كرنا ایك سنت ھے اور جو شخص بھی زیارت كرتا ھے اس كو ثواب ملتا ھے البتہ زائر كو حق بات كے علاوہ كوئی بات زبان پر جاری نھیں كرنا چاہئے، اور قبروں كے اوپر نھیں بیٹھنا چاہئے، اور ان كو بے اھمیت قرار نھیں دینا چاہئے اور ان كو اپنا قبلہ بھی قرار نھیں دینا چائے ۔
چنانچہ روایت میںوارد هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ گرامی اور عثمان بن مظعون كی قبروں كی زیارت كی اور عثمان بن مظعون كی قبر پر ایك نشانی بنائی تاكہ دوسری قبروں سے مل نہ جائے۔
اس كے بعد سخاوی كھتے ھیں كہ َمردوں كے لئے قبور كی زیارت كے مستحب هونے پر دلیل اجماع ھے جس كو عَبدرَی نے نقل كیا ھے اور نُوو ی شارح صحیح مسلم نے كھا ھے كہ یہ قول تمام علمائے كرام كا ھے۔
ابن عبد البِرّ اپنی كتاب ”استذكار“ میں ابوھریرہ كی حدیث پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس وقت قبرستان میں جاتے تھے ،تو اس طرح فرماتے تھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ دَارَ قومٍ مُوٴْمِنِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہ بِكُم لاحقُونَ، نَسْاٴَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةِ“۔
اس حدیث كے مضمون كے مطابق قبروں پر جانے اوران كی زیارت كرنے كے سلسلہ میںعلما كا اجماع واتفاق ھے كہ مَردوں كے لئے جائز ھے اوراس سلسلہ میں متعدد احادیث موجود ھیں۔
لیكن عورتوں كے سلسلہ میں خصوصی طور پر صحیح بخاری میں نقل هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك عورت كو دیكھا كہ ایك قبر كے پاس بیٹھی گریہ كر رھی ھے تو آپ نے اس سے فرمایا كہ اے كنیز خداپرھیزگار رهواور صبر كرو، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عورت كو منع نھیں كیا كیونكہ اگر عورتوں كا قبور كی زیارت كرنا اور وھاں پرگریہ كرنا حرام هوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كو منع فرماتے۔ ۲۷
اسی طرح زیارت كے بارے میں ایك حدیث جلال الدین سیوطی نے بیہقی سے نقل كی اور انھوں نے ابوھریرہ سے نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے احد كے بارے میں خاص طور پر فرمایا :
”اَشْہَدُاَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہْدَاٌ عِنْدَ اللّٰہِ فَاتُوهم وَزُوْرُوْهم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ. لاٰیُسَلِّمُ عَلَیْهم اَحَدٌ اِلٰی یَومَ القِیَامَةِ اِلاّٰ رَدُّوْا عَلَیْہِ“
”میں گواھی دیتا هوں كہ یہ حضرات خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں ،ان كی قبروں پر جاؤ اور ان كی زیارت كرو، قسم اس خدا كی جس كے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، تا روز قیامت اگر كوئی شخص ان كو سلام كرے گا تو یہ ضرور اس كا جواب دیں گے“
اسی طرح وہ روایت جس كو حاكم نے صحیح مانا ھے اور اس كو بیہقی نے بھی نقل كیاھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدائے احد كی قبور كی زیارت كے لئے جاتے تھے تو كھتے تھے:
”اَللّٰهم اِنَّ عَبْدَكَ وَنَبِیَّكَ یَشْہَدُ اَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہَدَاءٌ وَاِنَّہُ مَنْ زَارَهم اَوْ سَلِّمْ عَلَیْهم اِلٰی یَومَ الْقَیَامَةِ رَدُّوْا عَلَیْہِ“
”خداوندا !تیرا بندہ اور تیرا نبی گواھی دیتا ھے كہ یہ شہداء راہ حق ھیں ،اوراگر كوئی ان كی زیارت كرے یا (آج سے) قیامت تك ان پر سلام بھیجے تویہ حضرات اس كے سلام كا جواب دیں گے۔ ۲۸
واقدی كھتے ھیں: پیغمبر اكرم:صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھر سال شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے اور جب اس وادی میں پهونچتے تھے تو بلند آواز میں فرماتے تھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ “۔
”سلام هو تم پر اس چیز كے بدلے جس پر تم نے صبر كیا اورتمھاری كیا بھترین آخرت ھے“۔
ابوبكر، عمر اورعثمان بھی سال میں ایك مرتبہ شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے، اورجناب فاطمہ دختر نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوتین دن میں ایك دفعہ احد جایا كرتی تھیںاور وھاں جاكر گریہ وزاری اور دعا كرتی تھیں۔
اسی طرح سعد بن ابی وقّاص بھی قبرستان میں پیچھے كی طرف سے دا خل هوتے اور تین بار سلام كرتے تھے۔
واقدی كھتے ھیں كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مُصْعَب بن عُمَیر جو كہ شہداء احد میں سے ھیں، كے پاس سے گذرے تو ٹھھرگئے ان كے لئے دعا كی اور یہ آیہٴ شریفہ پڑھی:
< رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْهم مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْهم مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلاً ۔ >۔ ۲۹
”مومنین میں سے ایسے بھی مرد میدان ھیں جنھوں نے اللہ سے كئے وعدہ كو سچ كردكھایا، ان میں سے بعض اپنا وقت پورا كرچكے ھیں اور بعض اپنے وقت كا انتظار كررھے ھیں، اور ان لوگوں نے اپنی بات میں كوئی تبدیلی نھیں كی ھے“۔
اس كے بعد فرمایا: میں خدا كے حضور میں گواھی دیتا هوں كہ یہ لوگ خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں،ان كی قبور كی زیارت كے لئے جایا كرو اور ان پر درود وسلام بھیجا كرو، كیونكہ وہ(بھی) سلام كا جواب دیتے ھیں۔ اس كے بعد واقدی نے ان اصحاب كے نام شمار كئے ھیں جو شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے نیزان كی زیارت كی كیفیت اور طریقہ بھی بیان كیا ھے۔ ۳۰
اب رھا شیعوں كے یھاں مسجدوں كو تعطیل كرنے كا مسئلہ تو ھم اس سلسلہ میں یہ كھیں گے كہ یہ بھی ان تھمتوں میں سے ھے جو قدیم زمانہ سے چلی آرھی ھے اور اس كی اصل وجہ بھی شیعوں سے دشمنی اور بغض وعناد ھے، چنانچہ بعض موٴلفین نے اپنی اپنی كتابوں میں اسے بغیر كسی تحقیق كے بیان كردیا، اور شیعوں سے بد ظنی كی بناپر اس نظریہ كو اپنی كتابوں میں بھی داخل كردیا ،جبكہ حقیقت یہ ھے كہ شروع ھی سے شیعوں كی مساجد سب سے زیادہ آباد اور پررونق رھی ھیں جیسا كہ كتاب تاریخ مذھبی قم كے موٴلف نے بھی بیان كیا ھے، آج بھی دنیا كی سب سے بھترین ،خوبصورت اور قدیمی ترین مساجد كو ایران میں دیكھا جاسكتا ھے،جو گذشتہ صدیوں سے اسی طرح باعظمت باقی ھیں۔
اور یہ مسجدیںجونماز جماعت كے وقت بھر جاتی ھیں اس كی داستانیں زبان زد خاص وعام ھیں، اس وقت شھروں ،قصبوں اور دیھاتوں میں ایسی ہزاروں مسجدیں ھیں جن میں بھترین فرش وغیرہ موجود ھیں ۔
جب بھی كوئی مسافرایران آتا ھے تو وہ ایران كے پایہٴ تخت” تھران“ میں ضرور جاتا هوگا تھران میں سیكڑوں مسجد یں ھیں جن میں بھترین وسائل اور كتابخانے ھیں ۔ یہ مسجدیںكسی بھی وقت نمازیوں سے خالی نھیں هوتیں اور ان سب میں وقت پر نماز جماعت قائم هوتی ھے، اور تھران كے علاوہ بھی دوسرے شھروں مثلاً مشہد، قم، اصفھان، شیراز وغیرہ میں كسی بھی جگہ دیكھ لیں كھیں پر بھی مسجدیںمعطّل نھیں هوئی ھیں بلكہ اپنی پوری شان وشوكت كے ساتھ بھری هوئی ھیں،اور تمام مساجد میں نماز جماعت قائم هوتی ھے۔
خلاصہ یہ كہ چاھے ایران میں جو شیعت كا مركز ھے یا دوسرے علاقوں میں كوئی بھی زمانہ ایسا نھیں گذرا جھاں پر مسجد غیر آباد هو، اور شیعہ مسجدوں كی رونق دوسر ے فرقوں سے كم رھی هو۔

قبور كے نزدیك نماز پڑھنا

صحیح مسلم میں قبور كے نزدیك آنحضرت (ص)كے نماز پڑھنے كے بارے میں بھت سی روایات بیان هوئی ھیں۔ ۳۱
ابن اثیراس حدیث ”نَہٰی عَنِ الصَّلاٰةِ فِیْ الْمَقْبَرَةِ“كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ مقبروں میں نماز كو ممنوع قرار دینے كی وجہ یہ ھے كہ مقبروں كی مٹی، خون اور مردوں كی نجاست سے مخلوط هوتی ھے لیكن اگر كسی پاك قبرستان میں نماز پڑھی جائے تو صحیح ھے، اس كے بعد ابن اثیركھتے ھیں كہ ”لاتجعلوا بیوتكم مقابر“(یعنی اپنے گھروں كو قبرستان نہ بناؤ)گذشتہ حدیث كی ھی طرح ھے یعنی تمھارے گھر نماز نہ پڑھے جانے میں قبرستان كی طرح نہ هوجائیں، كیونكہ جو مرجاتا ھے وہ پھر نماز نھیں پڑھتا، چنانچہ مذكورہ معنی پر درج ذیل حدیث دلالت كرتی ھے: ”اِجْعَلُوا مِنْ صَلاٰتِكُمْ فِی بُیُوْتِكُمْ وَلاٰ تَتَّخِذُوْا قُبُوْراً“ (اپنے گھروں كو قبرستان كی طرح قرار نہ دو كہ كبھی اس میں نماز نہ پڑھو بلكہ كچھ نمازیں گھروں میں بھی پڑھا كرو)بعض لوگوں نے كھا ھے كہ اس حدیث كے معنی یہ ھیں كہ اپنے گھروں كو قبرستان قرار نہ دو كہ اس میں نماز پڑھنا جائز نھیں ھے ،لیكن پھلے والے معنی بھتر ھیں ۔ ۳۲
شوكانی نے خطابی كی كتاب ”معالم السنن “ كے حوالہ سے مقبروں میں نماز پڑھنے كو جائز قراردیا ھے اسی طرح اس نے حسن (حسن بصری) سے نقل كیا ھے كہ انھوں نے مقبرہ میں نماز پڑھی، اوریہ بھی كھا كہ رافعی وثوری (سفیان ثوری) اور اوزاعی اور ابوحنیفہ قبرستان میں نماز پڑھنے كو مكروہ جانتے تھے لیكن امام مالك نے قبرستان میں نماز پڑھنے كو جائز قرار دیاھے۔
امام مالك كے بعض اصحاب نے یہ دلیل پیش كی كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك سیاہ اور فقیر عورت كی قبر كے نزدیك نما ز پڑھی ھے، ۳۳ `مالك كی روایت كاخلاصہ یہ ھے كہ ایك غریب عورت بیمار هوئی، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب یہ مرجائے تو مجھے خبر كرنا، لیكن چونكہ اس كو رات میں موت آئی توآپ كو خبر نھیں كی گئی اور اس عورت كو رات ھی میں دفن كردیا گیا، جب دوسرا روز هوا تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كی قبر پر گئے او راس پر نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں ۔ ۳۴

ندبہ اور نوحہ خوانی كے بارے میں وضاحت

ابن تیمیہ نے میت پر ،نوحہ خوانی اورگریہ كرنے كو ممنوع قرار دیا ھے، اور وھابی حضرات بھی اس طرح كے كاموں كو گناھان كبیرہ میں شمار كرتے ھیں۔ ۳۵
جبكہ احمد ابن حنبل اور بخاری كی روایت كے مطابق جب عمر كو ضربت لگی تو صُھیب (غلام عمر) نے چلانا شروع كیا: ” وااخاہ، وا صاحباہ“اس وقت جناب عمر نے كھا كہ كیا تم نے نھیںسنا كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ھے كہ اگر میت پر گریہ كیا جائے تو اس گریہ كی وجہ سے اس پر عذاب هوتا ھے؟!
جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر كا انتقال هوا، تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ كے سامنے پیش كیا تو انھوں نے فرمایا: بخدا جناب رسول خدا نے كبھی اس طرح كی كوئی بات نھیں كھی ھے بلكہ انھوں نے تو یہ فرمایا ھے كہ اگر كفار پر اس كے اھل خانہ گریہ كریں تو اس كے عذاب میں اضافہ هوتا ھے۔ ۳۶
اسی طرح میت پر رونے اور گریہ كرنے كے جائز هونے پر صاحب ”منتقی الاخبار“ نے انس بن مالك سے یہ ورایت نقل كی ھے كہ جب رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا انتقال هوا تو حضرت فاطمہ زھرا(ع)نے فرمایا:
”یَا اَبَتَاہُ، اَجَابَ رَبّاً دَعَاہُ، یَا اَبَتَاہُ جَنَّةُ الْفِرْدُوْسِ مَاوَاہُ، یَا اَبَتَاہُ اِلٰی جِبْرِیْلَ نَنْعَاہُ“۔
”اے میرے پدر محترم آپ نے دعوت حق پر لبیك كھی اور جنت الفردوس كو اپنا مقام بنالیا،اور جناب جبرئیل نے آپ كی وفات كی خبر سنائی“۔
اسی طرح انس سے ایك دوسری روایت كے مطابق جب جناب رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی روح جسم سے پرواز كر گئی تو جناب ابوبكر حجرے میں تشریف لائے اور اپنے منھ كو آنحضرت كی دونوں آنكھوں كے پیچ ركھا اور آنحضرت كے دونوں رخساروں پر اپنے دونوں ھاتھوں كو ركھا اور كھا: ”وانبیاہ وا خلیلاہ وا صفیاہ“ اس روایت كو احمد ابن حنبل نے بھی نقل كیا ھے۔ ۳۷
یھی نھیں بلكہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی متعدد بار اپنے رشتہ داروں اور اصحاب كے انتقال پر گریہ فرمایا ھے، جیسا كہ انس بن مالك نے روایت كی ھے كہ جب آپ كی ایك بیٹی اس دنیا سے چلی گئی تو آپ اس كی قبر پر بیٹھ گئے درحالیكہ آپ كی چشم مبارك سے آنسوںبہہ رھے تھے، اور ایك مقام پر جب آپ كی بیٹی كا ایك بیٹامرنے كے نزدیك تھا تو آپ نے گریہ شروع كیا۔ ۳۸
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے چچا حمزہ كو شھید پایا تو گریہ كیا اور جب آپ كو یہ معلوم هوا كہ جناب حمزہ كو مُثلہ كردیاگیا (یعنی آپ كے ناك وكان اور دوسرے اعضاء كاٹ لئے گئے) تو آپ چیخیں مار مار كر روئے۔ ۳۹
اور جب جناب حمزہ كی شھادت واقع هوئی اور جناب صفیہ دخترعبد المطلب نے جناب حمزہ كے لاشہ كو تلاش كرنا شروع كیا تو انصار نے آپ كو روكا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان كو آزاد چھوڑدو، جب جناب صفیہ نے اپنے بھائی كی لاش پائی تو رونا شروع كیا، جس وقت آپ گریہ كرتی تھیں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے اور جب آپ چیخیں مارتی تھیں تو رسول گرامی بھی چیخیں مارتے تھے ۔ ۴۰
جب جناب فاطمہ زھرا = جناب حمزہ كے اوپر گریہ كرتی تھیں توپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے، اسی طرح جب جناب جعفر بن ابی طالب جنگ موتہ میں شھید هوئے تو رسول گرامیجناب جعفر كی زوجہ اسماء بنت عمیس كے پاس گئے اور ان كو تعزیت پیش كی، اس موقع پر جناب فاطمہ زھرا= تشریف لائیں درحالیكہ آپ گریہ كررھی تھیں اور كھتی جاتی تھیں: ”واعماہ“ (ھائے میرے چچا) اس موقع پر حضرت پیغمبر اسلام نے فرمایا كہ جعفر جیسے مَرد پر گریہ كرنا چاہئے، ۴۱
مزید یہ كہ نافع نے ابن عمرسے روایت كی ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے واپس هوئے تو انصار كی عورتیں اپنے شھید شوھروں پر گریہ كر رھی تھیں اس وقت پیغمبر نے فرمایا حمزہ پر كوئی گریہ كرنے والا نھیں ھے ،یہ كہہ كر آپ سوگئے،جب بیدار هوئے تو دیكھا كہ عورتیں یوں ھی گریہ كر رھی ھیں آپ نے فرمایا: ورتیں آج جو گریہ كریں تو حمزہ پر كریں۔ ۴۲
ابن ہشام او رطبری نے اس سلسلہ میں كھا ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی عبد الاشھل وظفر كے گھروں میں سے ایك گھر كی طرف گذرے تو وھاں سے جنگ احد میں هوئے شھیدوں پر رونے كی آوازیں سنائی دیں تو اس پر آنحضرت كی آنكھیں بھی آنسووں سے بھرآئیں اور آپ گریہ كرتے هوئے فرماتے تھے: جناب حمزہ پر كوئی رونے والا نھیں،یہ سن كر سعد بن مُعاذ واُسید بن حُضَیر بنی عبد الاشھل كے گھروں میں گئے اور اپنی اپنی عورتوں كو حكم دیا كہ جناب حمزہ پر بھی گریہ كریں۔
اسی طرح ابن اسحاق كا بیان ھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے مدینہ واپس پهونچے، تو”حَمنَہ دختر جَحش“ راستہ میں ملی اور جب لوگوں نے اس كو اس كے بھائی عبد اللہ ابن جحش كی شھادت كی خبر سنائی تو اس نے كھا: <انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ > اور اس كے لئے خداوندكریم كی بارگاہ میں طلب مغفرت كی، اس بعد كے اس نے اپنے ماموں حمزہ ابن عبد المطلب كی شھادت كی خبر سنی، اس نے پھر وھی آیت پڑھی اور ان كے لئے بھی استغفار كیا، لیكن جب اس كو اس كے شوھر مصعب بن عمیر كی شھادت كی خبر سنائی گئی تو اس نے چیخیں ماریں ،اور جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حمنہ كو اپنے بھائی اور ماموں كی شھادت پر صبر اور اپنے شوھر كی شھادت پر نالہ وشیون كرتے دیكھا تو فرمایا: بیوی كی نظر میں شوھر كی اھمیت كچھ اور ھی هوتی ھے۔ ۴۳
اور جب جناب ابوبكر اس دنیا سے گئے تو جناب عائشہ نے ابوبكر كے لئے نوحہ وگریہ كی مجلس ركھی جب جناب عمر نے عائشہ كو اس كام سے روكا، تو جناب عائشہ او ردیگر عورتوں نے اس بات كو نہ مانا،چنانچہ جناب عمر نے ابوبكر كی بہن ام فروہ كو چند تازیانے بھی مارے، اس كے بعد گریہ كرنے والیعورتیں وھاں سے مجبوراً اٹھ كر چلی گئیں۔ ۴۴

حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی گفتگو اور عورتوں كا گریہ كرنا

واقدی كھتے ھیں كہ جنگ احد میں سعد بن ربیع شھید هوگئے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وھاں سے ” حمراء الاسد“ گئے، جابر ابن عبد اللہ كھتے ھیں كہ ایك روز صبح كا وقت تھا میں آنحضرت كی خدمت میں بیٹھا هوا تھا، چنانچہ جنگ احد میں مسلمانوں كے قتل وشھادت كی باتیں هونے لگیں، منجملہ سعد بن ربیع كا ذكر آیا تو اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا كہ اٹھو ! سعد كے گھر چلتے ھیں، جابر كھتے ھیں كہ ھم بیس افراد هونگے جو آنحضرت كے ساتھ سعد كے گھر گئے وھاں پر بیٹھنے كے لئے كوئی فرش وغیرہ بھی نہ تھا چنانچہ سب لوگ زمین پر بیٹھ گئے اس وقت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن ربیع كا ذكر كیا اور ان كے لئے خدا سے طلب رحمت كی اور فرمایا كہ میں نے خود دیكھا ھے كہ اس روز سعد كے بدن كو نیزوں نے زخمی كرركھا تھا، یھاں تك كہ ان كو شھادت مل گئی، جیسے ھی عورتوں نے یہ كلام سنا تو رونا شروع كردیا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی آنكھوں سے بھی آنسوجاری هوگئے اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان عورتوں كو رونے سے منع نھیں فرمایا۔ ۴۵

اس سلسلہ میں شافعی كا نظریہ

كتاب ”الاُم“ تالیف شافعی میں”بكاء الحیّ علی المیت“ (زندہ كا میت پر گریہ كرنا)كے تحت اس طرح بیان هوا ھے كہ جناب عبد اللہ ابن عمر كی طرف سے جناب عائشہ سے كھا گیا كہ كسی میت پر زندہ كا گریہ كرنا اس پر عذاب كا باعث هوتا ھے، تو جناب عائشہ نے كھا كہ ابن عمر نے جھوٹ نھیں كھا لیكن اس سے غلطی، یا بھول چوك هوئی ھے، (یعنی اصل حدیث یہ ھے كہ)پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے سامنے جب ایك یهودی عورت كا جنازہ آیا در حالیكہ اس كے رشتہ دار اس پر روتے جارھے تھے تو آپ نے فرمایا كہ یہ لوگ رو رھے ھیں جبكہ ان كے رونے كی وجہ سے یہ قبر میں عذاب میں مبتلا ھے۔
ابن عباس كھتے ھیں كہ جب جناب عمر كو ضربت لگی اور ان كا غلام صُھیب رونے لگا اور كہنے لگا:”وا اخیاہ وا صاحباہ“ تو عمر نے اس سے كھا تو روتا ھے جبكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ھے میت پر اھل خانہ كا گریہ كرنا اس كے لئے عذاب كا باعث هوتا ھے، جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر اس دنیا سے چلے گئے تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ سے دریافت كیا۔ عائشہ نے كھا خدا كی قسم پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس طرح نھیں فرمایا بلكہ آپ نے یہ فرمایا ھے كہ كفار كی میت پر اس كے اھل خانہ كا گریہ اس كے عذاب كو زیادہ كردیتا ھے، اس كے بعد جناب عائشہ نے فرمایا كہ تمھارے لئے قرآن كافی ھے كہ جس میں ارشاد هوتا ھے: <ولا تزر وازةوزر اخریٰ۔> 65 (اور كوئی نفس دوسرے كا بوجھ نھیں اٹھائے گا) س كے بعد جناب ابن عباس نے بھی كھا: <واللّٰہ اضحك وابكی۔> ۴۶
شافعی نے مذكورہ مطالب كو ذكر كرنے كے بعد آیات وروایات كے ذریعہ مذكورہ روایت”ان المیت لیعذب“۔ كے صحیح نہ هونے كو ثابت كیا ھے۔ ۴۷
حوالہ جات

۱. الفتاوی الكبری ج۲ص ۴۳۱۔
۲. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۳. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۴. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۵. رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص ۵۸۔
۶. الفتاوی الكبریٰ ج ۲ ص ۲۱۹۔
۷. الجواب الباھر، ص ۴۵۔
۸. الرد علی الاخنائی ص ۲۳، شاید یھی وجہ رھی هو كہ آج كل بقیع اور دوسرے قبرستانوں میں عورتوں كو جانے سے روكا جاتا ھے، صاحب فتح المجید كھتے ھیں (ص۲۲۵) كہ عورتوں كے لئے قبور كی زیارت مستحب نھیں ھے محمد بن عبد الوھاب نے اپنی توحید نامی كتاب میں جناب ابن عباس ۻ سے یہ روایت نقل كی ھے جو عورتیں قبور كی زیارت كے لئے جاتی ھیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر لعنت كی ھے۔
۹. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۰. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۱. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۲. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۳۰،۳۱۔
۱۳. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۶۶۔
۱۴. كتاب الرد علی الاخنائی ص۳۲۔
۱۵. البدایہ والنھایہ ج ۱۴ ص ۱۲۴۔
۱۶. ان میں سے احمد ابن حنبل كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ھے كہ آنحضرت نے فرمایا: ”نھیتكم عن زیارة القبور فزوروھا فان فی زیارتھا عظة وعبرة“(میں پھلے تم كو زیارت سے منع كرتا تھا لیكن اس وقت كھتا هوں كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبور كی زیارت سے انسان كو پند او رنصیحت حاصل هوتی ھے) احمد ابن حنبل نے اس حدیث كو چند طریقوں سے نقل كیا، (مسند احمد ابن حنبل ج۵ ص۳۵۶، ۳۵۷،۳۵۹، اور ددوسرے چند مقامات پریہ حدیث نقل ھے)
۱۷. موطاء ص ۳۳۴، طبع دوم، مصر۔
۱۸. صحیح مسلم ج۳ ص ۶۵، سنن ابی داود ج۳ ص ۲۱۲۔
۱۹. شرح جامع صغیر، سیوطی ص ۲۹۸۔
۲۰. فتح المجید ص ۲۵۵۔
۲۱. شفاء الغرام ج ۲ ص ۳۹۷۔
۲۲. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج۴ ص۱۳۷۱ سے ۱۴۲۲تك۔
۲۳. الغدیر ج ۵ ص۱۰۹ ۔ اوراس كے بعد ۔
۲۴. المذاھب الاسلامیہ ص ۳۴۳۔
۲۵. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۰۔
۲۶. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۱۔
۲۷. سخاوی حنفی ،كتاب ”تحفة الاحباب“ ص ۴،۵۔
۲۸. الخصائص الكبریٰ جلد اول ص ۵۴۶،۵۴۷۔
۲۹. سورہ احزاب آیت ۲۴۔
۳۰. كتاب المغازی جلد اول ص ۳۱۳،۳۱
۳۱. صحیح مسلم ج ۳ ص ۵۵، منجملہ یہ حدیث كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك میت كی قبر پر دفن هونے كے بعد نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں اور دوسری روایت كے مطابق: آنحضرت (ص)ایك تازہ قبر كے پاس پهونچے اور اس پر نماز پڑھی اور اصحاب نے بھی آپ كے پیچھے صف باندھ لی ۔
۳۲. النھایہ ج ۴ ص۴ ۔
۳۳. نیل الاوطار جلد اول ص ۱۳۶۔
۳۴. موطاء ابن مالك ص ۱۱۲،۱۱۳۔ اس حدیث كو بخاری نے بھی نقل كیا ھے ۔
۳۵. فتح المجید ص ۳۷۳۔
۳۶. مسند احمد، جلد اول ص۴۱،۴۲، مسند عمر، وصحیح بخاری ج۲ ص ۷۹۔
۳۷. منتقی الاخبار، تالیف ابن تیمیہ حنبلی (ابن تیمیہ كے دادا) ھمراہ نیل الاوطار، شوكانی ج۴ ص ۱۶۱۔
۳۸. صحیح بخاری ج۲ ص ۹۶۔
۳۹. ابن عبد البر، كتاب استیعاب جلد اول ص ۲۷۴۔
۴۰. مغازی واقدی جلد اول ص ۲۹۰،” اِذَا بَكَتْ صَفِیِّةُ یَبْكٰی، وَاِذَا نَشَجَتْ یَنْشَجْ“
۴۱. استیعاب جلد اول ص۲۱۲۔
۴۲. مسند احمد ابن حنبل ج۲ ص ۴۰، نُویری كھتے ھیں كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار كو اپنے شھیدوں پر روتے دیكھا تو آپ نے بھی گریہ كیا اور كھا كہ جناب حمزہ پر كوئی رونے والی نھیں ھے (نھایة الارب ج ۱۷ ص ۱۱۰)
۴۳. سیرة النبی ج ۳ ص ۵۰، تاریخ طبری جلد ۳ ص ۱۴۲۵، حدیث ۱۔
۴۴. تاریخ طبری ج۴ ص ۲۱۳۱، ۲۱۳۲،(حلقہ اول)
۴۵. المغازی جلد اول ص ۳۲۹،۳۳۰،دیار بكری كابیان ھے كہ جناب حمزہ پر نوحہ وگریہ كے بعد سے پیغمبر اكرمنے رونے سے منع كردیا، دوسرے روز انصار كی عورتیں آپ كی خدمت میں آئیں اور كھا كہ ھم نے سنا ھے كہ آپ نے رونے سے منع فرمایا ھے جبكہ ھمیں اپنے مردوں پر رونے سے سكون وآرام كا احساس هوتا ھے، تب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب تم نوحہ وگریہ كرو تو اپنے چھروں پر طمانچہ نہ مارو اور اپنے چھروں كو نہ نوچو اور اپنے سروں كو نہ منڈواؤ او راپنے گریبان چاك نہ كرو، (تاریخ الخمیس جلد اول ص ۴۴۴)
۴۶. سورہ انعام آیت ۱۶۴۔
۴۷. یہ جملہ سورہ والنجم آیت ۴۴ سے اقتباس ھے۔ <وانّہ ھُوَاضحك واٴبٰكی>،اور یہ كہ اس نے ہنسایا بھی ھے اور رلایا بھی ھے)
۴۸. كتاب الاُمّ شافعی ج۸ ص ۵۳۷۔

 امریکہ کی جنوبی ریاست کنیکٹیکٹ سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ایران کی طرف سے اپنے پہلے دفاعی سیٹیلائٹ "نور" کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کے اقدام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ایران کی طرف سے اپنے دفاعی سیٹیلائٹ کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کا اقدام بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کے حوالے سے اختیار کردہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف ایران کو مضبوط کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ اب ایران کا رویہ بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ کریس مرفی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران مشرق وسطی میں ایران ہر لحاظ سے طاقتور اور امریکہ کمزور ہوا ہے۔

امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں دعوی کیا ہے کہ قبل ازیں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی تب ایران، عراق کے اندر موجود امریکیوں کو نشانہ نہیں بناتا تھا لیکن اب ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز منظم طور پر امریکی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ امریکی سینیٹر نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیں کہا تھا کہ (شہید جنرل قاسم) سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ایرانی دفاع میں کمزوری کا باعث بنے گی لیکن ان کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سے امریکی فورسز پر حملے بڑھے ہی ہیں کم نہیں ہوئے۔ کرس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر نے (ایرانی) جوہری معاہدہ توڑ کر ہمیں یہ تسلی دی کہ ایک نئے سسٹم اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے ایران کو مجبور کر کے پہلے سے بہتر ایک نیا معاہدہ طے کر لیا جائے گا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل کر رہ گیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ کسی (بین الاقوامی فریق) نے ایران پر جدید پابندیاں عائد کئے جانے کی حمایت نہیں کی جبکہ ایران نے اپنا جوہری پروگرام بھی ازسرنو شروع کر لیا ہے درحالیکہ نیا معاہدہ بھی طے نہیں پایا۔

اقوام متحدہ کے لئے ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے اپنے ایک بیان میں ایرانی دفاعی سیٹیلائٹ اور ایرانی فوجی بحری بیڑے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو دی جانے والے دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ ایران اپنے ملک و قوم کے دفاع کی خاطر کسی قسم کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس حوالے سے امریکی ہفت روزہ اخبار "نیوز ویک" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے رعب و دبدبے اور دھمکیوں کے سامنے جھکنے والا نہیں اور اپنے ملک و قوم کے دفاع میں ہر قسم کی جارحیت کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھرپور جواب دے گا۔

اقوام متحدہ کے اندر ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے امریکہ میں کرونا وائرس کی وسیع تباہ کاریوں کے حوالے سے جاری بدترین صورتحال میں امریکی حکومت کی ناکامی اور بین الاقوام سطح پر تناؤ میں اضافے کے امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ کے درمیان جب پوری دنیا کی توجہ اس وبا سے نپٹنے پر مرکوز ہے تو امریکی فوج اپنے ملک سے 7 ہزار کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع خلیج فارس کے پانیوں میں کیا کر رہی ہے؟

واضح رہے کہ ایرانی سمندری حدود کے قریب خلیج فارس میں سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے ایک بیان میں لکھا گیا تھا کہ میں نے امریکی فورسز کو حکم دیے دیا ہے کہ ہر یا تمام ایرانی کشتیوں کی طرف جو سمندر میں موجود ہمارے بحری بیڑوں کو روکنے کی کوشش کریں، فائر کر کے انہیں تباہ کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ امریکی بحریہ کی طرف سے ایرانی سمندر حدود کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی خلاف پر ایرانی سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر ایرانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ خلیج فارس 2 لاکھ 50 ہزار کلومیٹرز رقبے پر موجود ایک بند سمندر ہے جس میں موجود کسی ایٹمی بحری بیڑے کو اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا تو کم از کم 10 بارہ سال تک وہاں کوئی زندہ چیز یا قابل استعمال پانی باقی نہیں بچے گا جو انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی۔

 ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ملکی ٹیلیویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ خلائی پروگرام کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور مزید طاقت کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حکم دے رکھا ہے کہ امریکہ کے شر سے بچنے کے لئے ملکی قوت میں اضافہ کیا جائے اور ہم یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ظاہری رعب داب کے برعکس وہ ایرانی پر حملہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے امریکی دہشتگردی کی کارروائی میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں موجود سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر ایرانی جوابی کارروائی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ تب امریکی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کی توقع تھی لیکن ایرانی کارروائی کے جواب میں امریکہ کچھ نہیں کر پایا۔ ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ اگر امریکہ کی طرف سے عین الاسد پر ایرانی کارروائی کا جواب دیا جاتا تو پھر اس کے جواب میں فوری طور پر مزید 400 امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا جن کی فہرست پہلے سے تیار کی جا چکی تھی۔

تحریر: رضا اصلانی

چند روز پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے کامیابی سے اپنا پہلا فوجی سیٹلائٹ فضائی مدار میں قرار دے دیا ہے۔ یہ فوجی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ اس فوجی سیٹلائٹ کا نام "نور" ہے اور اسے "قاصد" نامی لانچر کے ذریعے فضا میں بھیجا گیا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لانچر اور سیٹلائٹ دونوں مکمل طور پر ایران کے تیار کردہ ہیں۔ نور سیٹلائٹ کو زمین سے 425 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے مدار میں قرار دیا گیا ہے۔ لانچنگ پیڈ سے فائر ہونے کے 90 منٹ بعد ہی نور سیٹلائٹ نے زمین پر سگنل بھیجنا شروع کر دیے تھے جس سے یقین ہو گیا کہ یہ سیٹلائٹ کامیابی سے اپنے مدار میں چلا گیا ہے۔ اس بارے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ نور سیٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے کیلئے جس لانچر کا استعمال کیا گیا اس کے بالائی حصے میں ٹھوس ایندھن کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لازم الذکر ہے کہ ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے انجن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے اعلی فنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔

اس وقت دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جو فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کیلئے ٹھوس ایندھن والے انجن کے حامل لانچر کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حامل چند ایک لانچرز میں سے جاپان کا ایسیلیون لانچر، یورپین اسپیس ایجنسی کا ویگا لانچر اور امریکہ کے پاس موجود فوجی سیٹلائٹس فضا میں بھیجنے کیلئے مینماٹین لانچر قابل ذکر ہیں۔ ٹھوس ایندھن استعمال کرنے والے لانچرز کے شعبے میں جاپان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے لانچر "قاصد" کا استعمال فضائی شعبے میں ٹیکنالوجی کی اٹھان ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اس سے پہلے دو بار فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ دونوں بار اصل مسئلہ لانچر کے بالائی حصے میں تھا۔ لیکن فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے حالیہ کامیاب تجربے کے بعد ایران اس مسئلے پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس وقت زمین کے اردگرد مختلف مداروں میں تقریباً دو ہزار سے زائد سیٹلائٹ موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم تعداد ایسے سیٹلائٹس کی ہے جنہیں باقاعدہ طور پر فوجی سیٹلائٹ قرار دیا گیا ہے۔

اس وقت جو فوجی سیٹلائٹس فضا میں موجود ہیں ان کی اکثریت امریکہ یا نیٹو نے فوجی مقاصد کیلئے فضا میں بھیج رکھا ہے۔ یہ نکتہ بھی شاید آپ کیلئے دلچسپ ہو کہ فضا میں موجود بین الاقوامی فضائی اسٹیشن بھیجے جانے والے بعض امریکی خلابازوں کو بھی فوجی نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس فضائی اسٹیشن پر امریکی اور روسی انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی اداروں نے بھی بڑی تعداد میں جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہیں۔ ایران کی جانب سے فضا میں بھیجے جانے والا نور سیٹلائٹ اگرچہ فوجی اداروں سے متعلق ہے لیکن محض فوجی مقاصد سے مخصوص نہیں۔ نور سیٹلائٹ غیر فوجی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور قدرتی آفات یا ماحولیات کے بارے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ فضا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کی اجازت درکار ہو۔ لیکن امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں فضائی ٹیکنالوجی کو اپنے ساتھ مخصوص رکھنا چاہتی ہیں اور دیگر ممالک کو اس شعبے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ امریکہ اب تک کئی ممالک کی جانب سے فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کر چکا ہے جن میں جنوبی کوریا اور چین سرفہرست ہیں۔

امریکہ نے جنوبی کوریا کو فضائی شعبے میں ایک سے زیادہ تجربہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ یہ ایک تجربہ بھی جنوبی کوریا کے دباو اور سیاسی عزم کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف چین نے 2007ء میں اپنا پہلا سیٹلائٹ فضا میں بھیجا۔ چین نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ فضائی شعبے میں ترقی کی راہ پر چلنے کیلئے پرعزم ہے اور اگر امریکہ نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اسے بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے کامیابی سے پہلا فوجی سیٹلائٹ فضا میں بھیجنا دنیا والوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایران نے جدید ٹیکنالوجی کی چوٹی پر پہنچنے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ قاصد لانچر میں زیر استعمال ٹیکنالوجی اس کے میزائل پروگرام میں مفید ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اصولی طور پر بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری ایران کی دفاعی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور سیٹلائٹ سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں ترقی کیلئے مفید واقع ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود یہ عظیم کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ جو قوم اپنے پاوں پر کھڑی ہوتی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

سید ناصر هاشمی

مقدمہ
انسان محبت اور توجہ کا بھوکا ہوتا ہے۔ محبت اور توجہ دلوں کو حیات بخشتی ہے۔ جو انسان خود کو پسند کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے پسند کریں۔ محبت و چاہت انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جزبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی کو چاہتا نہیں ہوگا، پسند نہیں کرتا ہوگا تو اس کی تربیت کیسے کر سکتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔

محبت، استاد و شاگرد کے درمیان ارتباط برقرار کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین رابطہ وہ ہے جس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہو اس لیے کہ یہ ایک فطری اور طبیعی راستہ ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام راستے، جن کی بنیاد زور زبردستی اور بناوٹ وغیرہ پر ہوتی ہے، وہ سب غیر طبیعی اور غیر مفید رابطے ہیں۔
بچوں کی مہمترین روانی و فطری ضرورت محبت، التفات اور توجہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ والدین بچوں کے سب سے پہلے سر پرست اور مربی ہیں لہذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی اس فطری ضرورت ہر خاص توجہ مبذول کریں اور انہیں جاننا چاہیے کہ یہی وہ ضرورت ہے جو ان کی تربیت کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے لہذا اس ضرورت کا پورا ہونا ان کے لیے روانی و فطری سلامتی، اعتماد بہ نفس اور والدین پر اعتبار کا سبب اور ذریعہ ہونے کی ساتھ ساتھ ان کی جسمانی سلامتی کا بھی باعث ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: اکثروا من قبلۃ اولادکم، فان لکم بکل قبلۃ درجۃ فی الجنۃ۔ اپنے بچوں کو بوسے دو اس لیے کہ تمہارا ہر بوسہ تمہارے لیے بہشت کے ایک درجہ کو بڑھا دے گا۔ لہذا والدین تربیت کی بنیاد مہر و محبت پر رکھیں۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ ارتباط جو بچوں کے رشد و کمال کا سبب بن سکتا ہے، بر قرار نہیں ہو سکے گا اور صحیح طرح سے تربیت نہیں ہو سکی گی جب کہ اگر والدین کا سلوک تندی و سختی لیے ہوءے ہوگا تو وہ بچے کی روحی و روانی ریخت و شکست کا سبب ہو جاءے گا اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاءے گا۔

محبت کی اہمیت و ضرورت
محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جزبہ نہ ہوتا تو لوگوں میں انس و محبت نہ ہوتی، کوءی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔
محبت و الفت پیدا کرنے والے کام تمام انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی و تربیتی اداروں کے لیے، اس لیے کہ محبت ہی ایسی شی ہے جو جسم و روح کی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسان کی اخلاقی براءیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور بہبود روابط کا ذریعہ بنتی ہے۔
خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے:
فان اللہ یحب المتقین (سورہ آل عمران آیہ ۷۶) اللہ متقین کو دوست رکھتا ہے۔
فان اللہ یحب المحسنین (سورہ آل عمران آیہ ۱۳۸) اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
انسانوں سے رابطہ کی زبان، خاص طور پر بچوں سے رابطہ کی زبان محبت ہونی چاہیے۔ غصہ و تندی و سختی سے کسی کی تربیت نہیں کی جا سکتی۔
تربیت میں محبت کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ محبت، اطاعت سکھاتی ہے اور محبت والے ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: والمرء مع من احب۔ انسان اس کا ساتھ دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے۔
محبت و اطاعت میں معیت (ساتھ رہنا) کا رابطہ پایا جاتا ہے، محبت کے ظہور کے ساتھ اطاعت و ہمراہی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر بچے کے دل میں والدین کی محبت بیٹھ گءی تو بچہ ان کا مطیع و فرماں بردار بن جاءے گا اور اس کے اوپر جو ذمہ داریاں ڈالی جاءیں گی وہ ان سے نافرمانی نہیں کرے گا۔
محبت، بچوں کی ذہنی نشو و نما اور روحی تعادل کے مھم اسباب میں سے ہے۔ ان کی ذاتی خوبیاں اور سلوک کافی حد تک محبت کی مرہون منت ہیں جو انہیں اس تربیت کے دوران ملی ہے، گھر کی محبت بھری فضا اور محبت سے مملو ماحول بچوں میں نرم جذبات اور ٖفضاءل کے رشد کا سبب ہے جو بچے محبت بھرے ماحول میں تربیت پاتے ہیں وہ کمال تک پہچتے ہیں ، اچھتے ڈھنگ سے سیکھتے ہیں اور دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور سماج و معاشرہ میں بہتر انسانی اقدار کے حامل ہوتے ہیں ۔ مہر و محبت ہی ہے کہ جو زندگی کو پر لطف اور با معنا بنتی ہے اور بچوں کی استعداد کی شگوفاءی اور ظہور کا سبب بنتی ہیں اور اس میں سعی و کوشش اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرتی ہیں۔
محبت کی بنیاد، بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کرنا، بنیادی انسانی اور اسلامی طریقوں میں سے ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے:
احبوا الصبیان وارحموھم ۔
بچوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آو ۔
والدین کو چاہیے کہ وہ قلبی طور پر اپنے عمل سے بچوں کو یہ یقین دلاءیں کہ وہ انہیں دوست رکھتے ہیں، ان کی یہ بات بچوں پر مثبت اثر ڈالے گی اور کچھ ہی عرصہ میں اس کا نتیجہ سامنے آ جاءے گا۔
والدین، بچوں میں ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو ان کی ذات کو تعمیر کرے اور مخصوص اعتقادات ان کے اندر جنم لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کام بغیر محبت اور دوستی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جس کا مقصد انہیں رشد و کمال کی طرف لے جانا ہے۔

بچوں میں محبت کی ضرورت
انسان طبیعی اور فطری طور پر محبت کا طلب گار ہوتا ہے اور محبت ایک ایسی منفرد چیز ہے جس سے اسے اسیر کیا جس سکتا ہے اور بلندی کی طرف کی جایا جا سکتا ہے۔ محبت، نفس کی تربیت اور سخت دلوں کی نرمی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ محبت ہی ہے جس سے کسی دوسرے انسان کے دل و دماغ کو مسخر اور فتح کیا جا سکتا ہے اور اس کے دل کو اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے اور انہیں طغیان و بغاوت اور براءیوں سے روک کر بندگی و حق و صداقت کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
بچوں، نوجوانوں یہاں تک کہ بوڑھوں کو محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا سبب انس، فطرت و طبیعت اور کمزوری و ضعیفی ہے۔ محبت، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے اس لیے کہ اگر وہ اپنے والدین سے محبت دیکھیں گے تو تھوڑی بہت کمیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
ماہرین علم النفس بہت سی براءیوں، کج رویوں اور انحرافات کا سبب، محبت اور توجہ کی کمی کو قرار دیتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ جب تک ان بے توجہی یا کم توجہی کا ازالہ نہ ہو جاءے ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔
بچوں اور نو جوانوں کو بوڑہوں سے زیادہ محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح سے کھانا پینا ان کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح سے محبت اور توجہ بھی ضروری ہے۔ محبت کے ساتھ ان کے عواطف و احساسات کی بخوبی و با آسانی تربیت کی جا سکتی ہے اور انہیں اچھا انسان بنایا جا سکتا ہے۔ استاد و مربی ان کی اس ضرورت کو نظر انداز کر کے ان سے بہتر تعلقات استوار نہیں کر سکتا اور اپنا تربیتی پیغام اس تک نہیں پچا سکتا۔ پہلے اسے بچے کا دل فتح کرنا پڑے گا تب کہیں جا کر اس کے دل و دماغ تک رساءی ممکن ہوگی۔ جب تک اسے یہ احساس نہ ہو جاءے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔
انسان اسیر محبت ہوتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: الانسان عبید الاحسان،
احسان و اظہار، محبت و دوستی انسان کو بندگی کی سرحد تک لے جا سکتی ہے۔
خدا وند عالم بھی اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے اور اس کی دوستی انسان کے رشد و کمال اور اس کی ترقی کا سبب بنتی ہے اور رذاءل اور براءیوں کو اس سے دور کرتی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے اپنی محبت کا ذکر کیا ہے جیسا کہ مربی کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:
و القیت علیک محبہ منی و لتصنع علی عینی (سورہ طہ آیہ ۳۹)
میں نے اپنی محبت تمہارے دل میں ڈال دی تا کہ تم میری آنکھوں کے سامنے تربیت پاءو ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم کی محبت اس طرح سے انسان کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے:
اذا احب اللہ عبدا الھمہ الطاعۃ والقناعۃ و فقھہ فی الدین ۔
جب پروردگار عالم اپنے بندہ کو دوست رکھتا ہے:
۱۔ اپنی طاعت و فرمانبرداری اس کے دل مین ڈال دیتا ہے۔
۲۔ اسے قناعت کی توفیق عنایت کرتا ہے۔
۳۔ اسے دین کی عمیق فہم عطا کرتا ہے۔
ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا رشتہ بنا سکیں اور ان میں خوشی، امید اور جزبے جو زندہ رکھ سکیں تو وہ اپنی تربیت میں کامیاب ہیں اور تربیت کا یہ نسخہ نہایت موثر واقع ہو سکتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
قال موسی علیہ السلام یا رب ای الاعمال افضل عندک؟ قال: حب الاطفال فانی فطرتھم علی توحیدی ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا: خداہا کون سا عمل تیرے نزدیک افضل و برتر ہے؟ ارشاد ہوا: بچوں کو دوست رکھو اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام اور توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس منا من لم صغیرنا و لم یوقر کبیرنا
جو شخص بچوں پر مہربانی اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔
تربیت کی سب سے اہم اور موثر روش محبت ہے۔ محبت، جاذبیت، کشش اور مقصد پیدا کرتی ہے اور طاغی و باغی انسانوں کو رام کر دیتی ہے اور گھر کے نالایق و نافرمان بچوں کو آرام اور سکون بخشتی ہے۔ بچے گھروں میں قانون اور رعایتوں سے زیادہ محبت و عطوفت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان کی روح کی سلامتی و سعادت مندی کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب گھر کی فضا اور ماحول میں الفت و عطوفت، مہر و محبت قاءم و استوار ہو لہذا اگر والدین بچوں کی اس ضرورت ہر قادر نہ ہوں تو ان کے یہاں احساس کمتری پیدا ہو جاءے گا جو انہیں آگے جا کر فردی و معاشرتی زندگی میں مشکلوں سے دچار کرے گا۔
گھر کے ماحول کو محبت سے پر ہونا چاہیے تا کہ بچوں کے لیے اس میں سعی و کوشش کی راہ ہموار ہو سکے۔ محبت، تعلیم و تربیت کے بہت سے موانع اور مشکلات کو بر طرف کرتی ہے۔ خاص طور پر فکری و ثقافتی امور مین محبت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ بہت سے کام ایک تبسم سے حل ہو جاتے ہیں جو بڑی بڑی کوشش اور جانفشانی سے حل نہیں ہوتے۔

علامہ سید اسماعیل بلخی کے بقول:
دل کہ در وی عشق نبود حفرہ تنگ است و بس
بی محبت یک جہان ھم یک نفس است و بس

مولوی کے بقول:
از محبت تلخھا شیرین شود
از محبت مسھا زرین شود
از محبت خارھا گل می شود
از محبت سرکہ ھامل می شود
از محبت مردہ زندہ می شود
و ز محبت شاہ بندہ می شود
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ استاد و شاگرد کے درمیان رعب و خوف کا رشتہ ہونا چاہیے تا کہ تربیت ہو سکے۔ حالانکہ وہ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ اگر رعب و خوف وقتی طور پر بری عادتوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب تک اس کا اثر انسان پر باقی رہے گا تب تک رعب و خوف بھی باقی رہے گا اور ان کے زاءل نہ ہو نے سے تمام برے صفات اپنی تمام تر براءیوں کے ساتھ خود کو ظاہر کر رہے ہونگے۔

محبت کا اظہار
والدین کی اولاد سے محبت کے باب میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ اپنی دلی محبت پر قناعت اور اکتفا نہ کریں۔ اس لیے کہ محبت تربیت میں اس وقت موثر واقع ہو سکتی ہے جب اس کا اظہار کیا جاءے اور اولاد پر ظاہر کریں کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ صرف دل سے محبت کرنا، محبت کرنے والے کے لیے تو مفید ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے نہیں جس سے محبت کی جا رہی ہے۔ اظہار محبت ایک ایسا نسخہ ہے جس کی تاکید اور سفارش معصومین علیہم السلام نے متعدد مقامات پر کی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا احب احدکم اخاہ فلیعلمہ فانہ اصلح لذات البین۔
اگر تم اپنے بھاءی کو دوست رکھتے ہو اس سے محبت کرتے ہو تو اس کا اسے اظہار کرو۔ اس لیے کہ یہ اظہار تمہاری محبت اور دوستی کے لیے بہتر ہے۔ ایک روز ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام کے حضور میں عرض کیا:
انی لاحب ھذا الرجل فقال لہ ابو جعفر (ع) فاعلمہ فانہ ابقی للمودۃ و خیر فی الالفۃ۔
میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، امام (ع) نے فرمایا: اپنی اس محبت کا اس سے اظہار کرو، اس لیے کہ ایسا کرنے سے تمہارے تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوگا۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ مختلف طریقوں سے اپنی اولاد سے محبت کا اظہار کریں، محبت کا صرف دل میں ہونا کافی نہیں ہے۔
آگاہ اور ماہر والدین وہ ہیں جو نہایت سلیقہ سے اپنی محبت اپنے بچوں تک پہچاءیں، انہیں اپنی محبت کا احساس دلاءیں۔ جب بچے یہ محسوس کریں کہ ان کے والدین ان محبت کرتے ہیں، ان کی بھلاءی چاہتے ہیں، ان کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں اور ان کی ترقی و کامیابی کے لیے کوشان ہیں، ان کے خیر اور اچھی تربیت کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں تو وہ بھی اپنے والدین سے محبت کرنے لگیں گے، ان کی تربیتی باتوں کا اثر لیں گے اور ان پر عمل کریں گے۔

محبت میں افراط و تفریط
تربیت کی راہ میں محبت کی روش اس وقت مفید و موثر ہو سکتی ہے جب حد اعتدال سے خارج نہ ہو اور افراط و تفریط تک نہ پہچے جبکہ عدم توجہ اور محبت کی کمی، بچوں کو غلط راہ پر ڈال دیتی ہے۔ ایسی محبت جو بچوں کے رشد و ارتقاء کا سبب بن سکتی ہے وہ وہ محبت ہے جس میں اعتدال و واقعیت ہو، جو تکلف و تصنع سے عاری اور ان کی عمروں، حالتوں سے مناسبت رکھتی ہو۔
بچوں کی ذہنی و روحی تربیت میں محبت کا کردار غذا کی طرح ہے جس طرح سے غذا کی کمی و زیادتی اس کء جسم کے اوپر مثبت و منفی اثر ڈال سکتی ہے اس طرح سے محبت و توجہ کی کمی و زیادتی اس کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
جس طرح سے گزشتہ زمانوں میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے بہت سے غلط اصول و ضوابط مثلا ان سے تحقیر آمیز سلوک کرنا، انہیں سخت کاموں کے لیے ہدایت دینا، برا بھلا کہنا، گالی دینا، خلاصہء کلام یہ کہ ان کی شخصیت کو درک نہ کرنا، وغیرہ پر عمل کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ تند خویی و اضطراب، بدبینی، کینہ توزی اور براءیوں کے ارتکاب کی شکل میں سامنے آتا کرتا تھا۔ عصر حاضر میں علوم کی ترقی اور علم النفس وغیرہ کی تحقیقات کے منظر عام پر آنے سے، جس کے تحت بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کی روش میں یہ سعی کی جاتی ہے کہ ان سے محبت آمیز سلوک ہو تا کہ ان سے گزشتہ زمانوں والی براءیوں کا ارتکاب سامنے نا آءے۔ مگر والدین کے افراط اور بیجا لاڈ پیار سے اس طرح کی دوسری نازیبا باتیں بچوں میں جنم لینے لگتی ہیں جو ان کی غلط تربیتی روش کا نتیجہ ہیں اور جس کے نتیجہ میں پر توقع، خود سے راضی، کمزور، جلدی ناراض ہو جانے والے بچے وجود میں آتے ہیں جو زندگی میں پیش آنے والی ہلکی سی سختی اور تنگی میں مایوسی، کینہ توزی، ذہنی و روانی امراض، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تعلیمی و تربیتی و معاشرتی زندگی میں شکست سے دچار ہو جاتے ہیں۔
لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دل کی گہراءیوں سے چاہیں مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ ان کی براءیوں پر بھی نظر رکھیں اور نہایت ہوشیاری سے ان کی اصلاح کریں۔ بے شک جنسی خواہشات اور شہوات فطری ہیں، محبت و عشق فطری ہے مگر اس کے مقابلہ میں ہمارا رد عمل اور ہوشیاری دکھنا بھی ضروری پے۔ بچوں کی جایز و نا جایز باتوں پر بغیر قید و شرط کے ہاں کہنا صحیح نہیں ہے، ڈانٹ بھٹکار کے بجای پیار کرنے سے نہ صرف یہ کہ نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا بلکہ ان کی شخصیت پر ایسا منفی اثر ڈالے گا کہ جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔

محبت میں برابری و مساوات
قابل ذکر نکتہ اس باب میں بچوں سے مہر و محبت میں عدالت و مساوات کا خیال رکھنا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے محبت میں کسی طرح کی تبعیض اور فرق کے قاءل نہ ہوں، اس لیے کہ یہ کام نہ چاہتے ہوءے بھی سبب بنے گا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے احترام کے قاءل نہیں نہیں رہیں گے اور بچے گھر کے ماحول سے دور ہو جاءیں گے۔
معصومین علیہم السلام کی سیرت اس سلسلہ میں بچوں میں عدالت اور مساوات کی رعایت کرنا رہی ہے، خاص طور پر وہ حضرات بچوں سے محبت میں فرق کے قاءل نہیں ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب سے محو گفتگو تھے کہ ایک بچہ بزم میں وارد ہوا اور اپنے باپ کی طرف بڑھا، جو ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، باپ نے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے داہنے زانو پر بیٹھا لیا، تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیٹی وارد ہوءی اور باپ کے قریب گءی، باپ نے اس کے سر پر بھی دست شفقت پھیرا اور اپنے قریب بیٹھا لیا، آنحضرت (ص) نے جب اس کے دوسرے سلوک کو ملاحظہ کیا تو فرمایا: اسے تم اپنے دوسرے زانو پر کیوں نہیں بیٹھایا؟ تو اس شخص نے بچی کو اپنے دوسرے زانو پر بیٹھا لیا تو آپ (ص) نے فرمایا:
اعدلوا بین ابناءکم کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البر و الطف۔
اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے پیش آءو، جس طرح سے تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ نیکی اور محبت میں مساوات کے ساتھ سلوک کی اجاءے۔ لہذا بچوں کے درمیان عدالت و مساوات کے ساتھ پیش آنا، تربیت کے مہم نکات میں سے ایک ہے، جس کی رعایت نہ کرنے سے برے آثار و نتایج بر آمد ہو سکتے ہیں۔

محبت کے فواید و آثار
بچوں سے محبت کے بہت سے آثار و فواید ہیں، جن میں بعض کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:
۱۔ محبت، شادابی و نشاط کا سبب ہے لہذا جو والدین اپنے بچوں سے زیادہ محبت کریں گے وہ انہیں زیادہ خوش اور مطمءن رہنے میں مدد کریں گے۔
۲۔ بچے اس روش سے یہ سیکھتے ہیں کہ دوسروں سے کیسے محبت کی جاءے، جو بچے محبت سے محروم رہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ جسمی و روحی و روانی اعتبار سے مشکلوں کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ دوسروں سے محبت آمیز سلوک میں بھی الجھنوں سے دچار ہو جاتے ہیں اور آءندہ وہ بہتر اور مناسب سلوک سے معذور ہو جاتے ہیں۔
۳۔ محبت سے بچوں میں اعتماد بنفس پیدا ہوتا ہے، جن بچوں میں کانفیڈینس اور اعتماد بنفس پایا جاتا ہے وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے دوسروں کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنی بلند ہمتی اور مضبوط ارادے کے ساتھ وارد عمل ہو جاتے ہیں اور جب تک ھدف اور مقصد تک نہیں پہچ جاتے، سعی و کوشش کرتے رہتے ہیں۔
۴۔ بچوں میں کچھ کرنے کا جزبہ پیدا کرنے والے اسباب میں سے ایک اصول کلی یہ ہے کہ جو بچے محبت پاتے ہیں وہ زیادہ محنت کرتے ہیں اور محبت، تعلیم اور رشد کی خوبیوں کو درک کرتے ہیں۔
۵۔ محبت سے اولاد کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے جس کے نتیجہ میں اولاد والدین پر اعتماد اور اطمینان کرنے لگتی ہے اور ان کی مطیع بن جاتی ہے، اس روش سے بچوں کی تربیت کا زمینہ فراہم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ انسان خاص طور پر بچے اور نو جوان محبت میں کشش محسوس کرتے ہیں اور خود سے محبت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
قلوب الرجال وحشیۃ فمن تالفھا اقبلت علیہ ۔
انسان کا قلب وحشی ہوتا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ اس کی طرف جھک جاتا ہے۔

نتیجہ:
والدین بچوں سے محبت کا اظہار کریں، بچے ان کی باتوں کو زیادہ توجہ سننے اور ماننے لگیں گے۔ والدین محبت کے ذریعہ اپبے بچوں سے زیادہ عاطفی اور قلبی تعلق خاطر بنا سکتے ہیں اور انہیں نیک اور اچھے کاموں کی طرف راغب و ماءل کر سکتے ہیں اور برے اور خراب کاموں سے روک سکتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو کمال، تربیت اور بلندی کی طرف ھدایت کر سکتا ہے۔