سلیمانی

سلیمانی

چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک سال سے جاری اسرائیل کے وحشیانہ مظالم بھی حماس کے حملے نہ روک سکے، غاصب صہیونی ریاست اپنی تمام تر سفاکیت کے باوجود غزہ کی نہتی عوام پر غلبہ نہ پا سکی، دنیا کے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیلی فوج سال بھر ہسپتالوں، سکولوں، رہائشی عمارتوں اور مساجد سے لڑتی رہی ہے، خوراک کے حصول کیلئے جمع ہونے والے معصوم بچوں پر بے تحاشہ بارود کی بارش کی گئی، بے گھر کھلے آسمان تلے پڑے اور زخموں سے چور عوام پر درندگی کی انتہاء کی گئی اور سر عام قتل عام کیا گیا، لیکن ناکامی و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، فلسطینی عوام ثابت قدمی کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے دل فلسطین اور لبنان کے غیور مسلمان بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم دل و جان سے اپنے غزہ و لبنان کے مظلومین مگر شجاع عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے اظہار یکجہتی وہمدردی کرتے ہیں، شہداء فلسطین اور لبنان کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، اسرائیل کی کھلی جارحیت امریکہ و مغرب کی کھلم کھلا حمایت کی بدولت ہے اور مسلم دنیا کے لیئے باعث عبرت و شرمندگی ہے، شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید اسماعیل ہنیہ کی عظیم شہادت اسرائیلی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، اسرائیل غزہ و لبنان کی نہتی عوام پر اپنے مظالم جاری رکھ کر اپنی ایک سالہ ہزیمت و رسوائی کو چھپانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے جنگی جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکے گا اور غزہ کے مظلومین کا بدلہ لبنان کی سرزمین پر دے گا۔ ان شاءاللہ

صیہونی فوج کے ترجمان "دانیئل ہگاری" نے اعلان کیا ہے کہ عراق سے داغے گئے ڈرون کے دھماکے میں 13ویں گولانی بریگیڈ کے دو فوجی ہلاک ہو گئے۔

صہیونی فوج کے ترجمان نے مزید کہا: مذکورہ ڈرون کے حملے میں 23 دیگر فوجی زخمی ہوئے۔

چند گھنٹے قبل عراقی اسلامی مزاحمتی محاذ  نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ اس نے تین الگ الگ کارروائیوں میں مقبوضہ فلسطین میں تین اہداف کو نشانہ بنایا۔

جمعرات  کو بھی عراق کی اسلامی مزاحمت نے پہلی بار ایک جدید ڈرون کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کے جنوب میں ایک  ٹھکانے کو نشانہ بنانے کی اطلاع دی تھی۔

واضح رہے عراقی مزاحمت نے گزشتہ ہفتے اور مہینوں میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع ایلات میں حساس اور اہم اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔

کل تہران میں نماز جمعہ کی امامت رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت‌ الله‌ العظمیٰ "سید علی خامنه‌ ای" نے انجام دی۔ اس شرعی وظیفے کی ادائیگی کے پہلے حصے میں دو خطبے پڑھے جاتے ہیں۔ جس کے ابتدائی حصے میں رہبر انقلاب نے کہا کہ میں اپنے بھائیوں، بہنوں، عزیزوں اور خود کو تقویٰ الہی اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ نصیحت کرتا ہوں کہ حدود خدا کا پاس رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآنی آیات کی تشریحات میں مومنین کی باہمی یکجہتی کا ذکر آتا ہے اور یہ یکجہتی ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق کہلاتی ہے۔ اگر ہم سب مسلمان ایک ہو جائیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں تو خداوند متعال کی مدد شامل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی بھی یہی حکمت عملی ہے کہ ہم سب مسلمان آپس میں ایک ہوں۔ یہی اتفاق، خدا کی مدد و نصرت سے دشمن پر غلبہ پانے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمن یعنی مستکبرین اور جارحین تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پر گامزن ہیں۔ تفرقہ، دشمن کا ہتھیار ہے۔ انہوں نے اسی ہتھیار کو مسلمان ملکوں میں استعمال کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ لیکن اب قومیں بیدار ہو رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج وہ دن ہے جب امت مسلمہ اسلام دشمنوں کے اس حیلے سے جان چھڑا سکتی ہیں۔

آیت‌ الله‌ العظمیٰ سید علی خامنه‌ ای نے کہا کہ ایرانی عوام کا دشمن وہی ہے جو فلسطینی عوام کا دشمن ہے، جو لبنان کا دشمن ہے جو عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے۔ دشمن ایک ہی ہے مگر مختلف ملکوں میں اس کا طریقہ واردات مختلف ہے۔ ایک جگہ نفسیاتی جنگ کا حربہ آزماتا ہے تو دوسری جگہ اقتصادی دباو بڑھاتا ہے۔ اگر کسی جگہ ٹنوں وزنی بم گراتا ہے تو دوسری جگہ اپنی شریر منافقانہ مسکراہٹ سے کام دکھاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک آپریشن روم ہے جہاں سے یہ رہنمائی لیتا ہے۔ جہاں سے اسے مسلم آبادیوں اور اقوام پر حملوں کا حکم ملتا ہے۔ رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ اگر کسی ملک میں دشمن کی مذکورہ بالا چالیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ اس کے بعد دوسرے ملک کا رُخ کرتا ہے۔ اسے ایسا نہیں کرنے دینا چاہئے۔ ہر قوم جو دشمن کے مفلوج محاصرے سے بچنا چاہتی ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی آنکھیں کُھلی رکھے اور بیدار رہے۔ جب ہم دیکھیں کہ دشمن ایک معاشرے کو تباہ کرنے کے بعد دوسرے کی جانب بڑھ رہا ہے تو ہمیں متاثرہ قوم کے ساتھ خود کو شریک سمجھنا چاہئے، اس مظلوم قوم کی مدد کرنی چاہئے اور اُن کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تا کہ وہ دشمن کے چنگل سے نجات حاصل کر لیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہمیں افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ و لبنان اور تمام اسلامی ممالک و اقوام تک اپنی دفاعی، آزادی و وقار کی پٹی کو مضبوط کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج میری گفتگو کا یہ پہلا حصہ تھا جسے میں چاہتا تھا کہ بیان کروں۔ اس کے علاوہ میری زیادہ تر گفتگو لبنانی اور فلسطینی بھائیوں کے لئے ہے جو اس وقت مشکل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے دفاعی احکام میں ہماری ذمے داریوں کا تعی٘ن کیا گیا ہے۔ ان وظائف کا تعی٘ن ہمارے اسلامی و بنیادی حتیٰ اُن بین الاقوامی قوانین نے بھی کیا ہے کہ جنہیں بنانے میں ہماری مذہبی تعلیمات کا کوئی اثر نہیں۔ لیکن یہی بین الاقوامی قوانین ہمارے مس٘لمات میں سے ہیں اور وہ یہ کہ ہر قوم کو اپنی سرزمین و مفادات کے دفاع کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھروں، زمینوں، سرزمین اور جمع پونجی پر حملہ آور دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس وقت عالمی قوانین بھی اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ یہ محصور علاقہ فلسطینی عوام کا ہے۔ یہاں پر قابض کون ہیں؟۔ کہاں سے آئے ہیں؟۔ فلسطین کس کا ہے؟۔ فلسطینی عوام کون ہے؟۔ ملت فلسطین کو حق ہے کہ وہ ان سب کے خلاف کھڑے ہو۔

کوئی بھی ادارہ، کوئی مرکز، کوئی بین الاقوامی تنظیم فلسطینیوں پر اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ کیوں صیہونی رژیم کے سامنے سینہ سپر کئے ہوئے ہیں۔ وہ افراد جو فلسطینوں کی مدد کر رہے ہیں وہ اپنا وظیفہ انجام دے رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی اساس پر کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ ملت لبنان اور حزب الله پر اعتراض کرے کہ وه کیوں غزہ و فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یہی اسلام کا حکم ہے یہی عقل کا اور یہی عالمی و بین الاقوامی قوانین کی منطق بھی۔ فلسطینی اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں۔ اُن کا یہ دفاع قانونی ہے۔ اُن کی مدد کرنا قانونی ہے۔ اسی بِنا پر گزشتہ سال انجام پانے والا آپریشن طوفان الاقصیٰ بین الاقوامی قوانین کی رو سے عین منطقی ہے۔ فلسطینیوں کا یہ عمل بالکل جائز ہے۔ فلسطینی عوام کے لئے لبنانیوں کی مخلصانہ حمایت اسی حکم کی وجہ سے ہے۔ یہ حمایت قانونی بھی ہے اور معقول بھی، منطقی بھی ہے اور عقلی بھی۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ اس قانونی دفاع کے حق پر اعتراض کرے اور کہے کہ آپ کیوں اس کام میں گھس گئے ہیں۔ دو تین شب قبل ہماری مسلح افواج کا شاندار عمل قانونی بھی تھا اور جائز بھی۔

عربی زبان میں دئیے گئے خطبہ جمعہ میں رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ اس مرحلے میں، میں عالم اسلام خصوصی طور پر فلسطین و لبنان کی عزیز قوم کو مخاطب کر رہا ہوں۔ ہم سب سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر سوگرار ہیں۔ اس عظیم فقدان نے ہمیں عزادار کر دیا۔ تاہم ہمارے غمگین ہونے کا مطلب نا امیدی نہیں ہے۔ بلکہ یہ عزاداری ایک طرح سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے لئے ہے جو ہمارے لئے امید افزاء اور درس آمیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مادی طور پر سید حسن نصر الله ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی روح ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی۔ وہ ستمگروں کے سامنے مقاومت کا بلند پرچم تھے۔ وہ مظلومین کے لئے شجاع مدافع اور بلند آواز تھے۔ اُن کی مقبولیت اور اثر و رسوخ ایران و لبنان بلکہ عرب ممالک سے بڑھ چکا تھا۔ اُن کی شہادت کے بعد ان کی یہ مقبولیت مزید بڑھ چکی ہے۔ اُن کا لبنان کی وفادار عوام کے لئے اپنی مادی زندگی میں یہ عملی پیغام تھا کہ "امام موسی الصدر" رہ اور "سید عباس موسوی" رہ جیسی عظیم شخصیات کے داغ مفارقت کے باوجود ناامید اور مایوس نہ ہونا تھا۔ شہید کا پیغام تھا کہ جدوجہد ترک نہ کی جائے اور مزید کوشش کر کے اپنی توانائی بڑھائی جائے۔ دشمن کے مقابلے میں مضبوطی ایمان کے ساتھ مقاومت پر بھروسہ کریں۔ 

رہبر انقلاب نے کہا کہ دشمن، مقاومت کے انفراسٹرکچر کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ناپاک دشمن چون کہ "حزب‌ الله"، "حماس"، "جہاد اسلامی" اور دیگر جہادی تنظیموں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے بمباری، قتل و غارت گری اور نہتے شہریوں کو نقصان پہنچانا اپنی فتح سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عزیز سید نے اپنی زندگی کے 30 سال سخت ترین جدوجہد میں گزار دئیے۔ انہوں نے حزب الله بیج کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا۔ سید حسن نصر الله کی حکمت عملی نے حزب الله کو مرحلہ وار، صبر اور منطقی طور پر ترقی دی۔ جس کے بعد حزب الله نے صیہونی دشمن کو مختلف اوقات میں اپنے وجود کے آثار دکھائے۔ حزب الله حقیقی طور پر شجرہ طیبہ ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر اور دنیا بھر کی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے مرشد اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے چار اکتوبر جمعہ کو تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی اور عربی و فارسی میں دو الگ خطبات دیئے۔ اپنے خطبات میں انہوں نے فلسطین کی مزاحمت کو قانونی و جائز قرار دیا اور پوری دنیا کو واضح کر دیا کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن اور فلسطینی زمین پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ تاہم فلسطینی قوم کی جدوجہد اپنے حق کی خاطر ہے اور جو کوئی بھی فلسطینی قوم کی حمایت کر رہا ہے، وہ بھی تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق جائز کام ہے، لہذا جو کچھ آج حزب اللہ غزہ کے دفاع اور حمایت میں کر رہی ہے، دنیا کی کوئی طاقت اور قانون اس جہاد کو ناجائز قرار نہیں دے سکتا۔ یعنی اگر فلسطینی قوم کی جدوجہد قانونی اور ان کی حمایت کرنا بھی قانونی طور پر جائز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی جانب سے غاصب اسرائیل کے خلاف کارروائی اور فلسطینیوں کی حمایت بھی ہر لحاظ سے قانونی اور جائز ہے۔

سپریم لیڈر نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے دو روز قبل غاصب صیہونی حکومت کو دیئے گئے جواب کو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے جرائم پر کم ترین سزا سے تشبیہ دی ہے، یعنی اس بات کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ آئندہ دنوں میں غاصب صیہونی دشمن کو مزید سزا دی جا سکتی ہے اور اسی بات کا آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا کہ اگر صیہونی غاصب دشمن نے کوئی قدم اٹھایا تو ایران کا ردعمل بھرپور ہوگا، جو کہ جلد بازی پر نہیں بلکہ عسکری ماہرین کی رائے اور مشاورت سے وقت کے حساب کتاب کے ساتھ ہوگا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی روش کو وضاحت سے بیان کر دیا کہ انقلاب اسلامی ایران کے اقدامات اور کامیابیاں نہیں رکیں گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کو ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے اور حزن و غم کا اظہار کرنے کے ساتھ خطے کی عوام بالخصوص حزب اللہ اور لبنانی عوام سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات پر ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

جی ہاں یہ بات اس لئے بیان کی گئی، کیونکہ اسلامی مزاحمت کی تاریخ شہادت پر مبنی ہے۔ سید حسن نصراللہ سے پہلے بھی سیکڑوں شخصیات نے قربانیاں دی ہیں، لیکن مزاحمت جاری ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جارح دشمن کا مقابلہ کریں۔ طوفان الاقصیٰ کا اقدام ایک تاریخی اور درست اقدام تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے غاصب صیہونی دشمن کی شکست پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ آج اسرائیل غزہ میں چھوٹے سے گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکا ہے، حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ سمیت خطے کی دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل کو شکست دے دی ہے، تاہم اب وہ مزاحمت کے کمانڈروں کے قتل کے ذریعے بتانا چاہتا ہے کہ فتح اس کی ہے، جو واضح جھوٹ ہے، کیونکہ اسرائیل حماس اور جہاد اسلامی سمیت حزب اللہ کے مزاحمتی ڈھانچہ کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے میں ناکام ہوا، تاہم کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اور اس کے شہید رہنماء ایک شجرہ طیبہ ہیں، سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان نہیں ہے، لیکن ان کی شخصیت، روح، نقطہ نظر اور مخلصانہ آواز ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم سب کے پیارے اور عزیز سید حسن نصراللہ کی شہادت سے ہمیں انتہائی دکھ پہنچا ہے، لیکن یاد رکھیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مایوس ہو جائیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے عربی خطبہ میں فلسطینی و لبنانی قوم کو کہا کہ یقین رکھیں، غاصب اسرائیل کا وجود کچھ نہیں ہے اور اس کا وجود باقی نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔ آیت اللہ خامنہ ای نے پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لئے ایک قانون مرتب کر دیا کہ جو کوئی بھی فلسطینی قوم کی حمایت کر رہے ہیں، وہ درست راستے پر ہیں۔ انہوں نے مزاحمت کرنے والوں کے لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی اقدام جو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے وجود کو نقصان پہنچائے، یہ پورے خطے کے انسانوں اور عوام کی خدمت ہے۔ آج خطے کی مزاحمت سے ثابت ہوچکا ہے کہ فتح مزاحمت کرنے والوں کی ہے۔ شہادتوں سے حوصلہ پست نہیں بلکہ بلند ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کی مسلسل دھمکیوں کے باوجود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اپنے پروگرام اور طے شدہ وقت پر تشریف لائے اور خطبات دینے کے بعد نماز جمعہ اور نماز عصر بھی ادا کی۔ آج پوری دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ غزہ کی مزاحمت نے دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں اور طاقتوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اور لبنانی جوانوں کی مزاحمت نے آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو ستر سال پیچھے دھکیل کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے خطے میں امریکی مداخلت کی مذمت کی اور مسلمان اقوام کو باہمی تعاون کرنے کی تلقین کی کہ اگر مسلمان اقوام باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں تو یقیناً جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ انہوں نے فلسطین پر فلسطینی قوم کے حق کو بیان کیا اور کہا کہ فلسطینی کون ہیں؟ آخر وہ کیوں جدوجہد کر رہے ہیں۔؟ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی قوم کی حمایت میں کھڑے ہوں۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

امت مسلمہ کا تشخص!

امت مسلمہ کے تشخص کا مسئلہ، ایک بنیادی اور قومیت سے آگے کا مسئلہ ہے اور جغرافیائی سرحدیں امت مسلمہ کی حقیقت اور تشخص کو نہیں بدل سکتیں۔

 

ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے غفلت!

یہ بات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ ایک مسلمان، غزہ یا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں دوسرے مسلمان کی تکلیف سے غافل رہے۔

 

اختلاف اور دشمن کے ہتھکنڈے!

دشمن فکری، تشہیراتی اور معاشی حربے استعمال کر کے ہمارے ملک میں اور ہر اسلامی خطے میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے درپے ہیں اور فریقین کے بعض افراد کو ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی کی ترغیب دلانے جیسے اقدامات کے ذریعے اختلافات کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران نے کل رات تل ابیب اور دیگر شہروں میں واقع اسرائیلی فوجی ٹھکانوں اور ایئربیسز پر بڑی تعداد میں بیلسٹک میزائلوں کا نشانہ بنایا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اس حملے کو "وعدہ صادق 2 آپریشن" کا نام دیا ہے اور اسے شہید اسماعیل ہنیہ، شہید سید حسن نصراللہ اور شہید نیلفروش کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس آپریشن میں 200 کے قریب بیلسٹک میزائل داغے گئے جن میں سے 90 فیصد میزائل اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہےہیں۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں وعدہ صادق 2 آپریشن مغربی ایشیا خطے اور عالمی نظم میں اہم تبدیلیاں رونما ہونے کا باعث بنے گا۔ یہ آپریشن طاقت کے توازن کو اسلامی مزاحمت کے حق میں تبدیل کر دے گا۔ اگر غاصب صہیونی رژیم نے اس حملے میں ایران کا پیغام وصول کر لیا تو یقیناً خطہ ماضی کی نسبت زیادہ پرامن اور پرسکون ہو جائے گا۔
 
گذشتہ تقریباً ایک سال سے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے مغربی ایشیا خطے خاص طور پر غزہ اور لبنان میں مسلسل قتل و غارت اور مجرمانہ اقدامات کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صہیونی حکمران امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی غیر مشروط اور بھرپور مدد سے غزہ میں عام فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ میں تقریباً 80 فیصد رہائشی عمارتیں صہیونی بمباری میں مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں جبکہ اسپتال، اسکول، صحت کے مراکز اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے۔ اب تک غزہ جنگ میں 42 ہزار کے قریب فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ مزید برآں، ہزاروں افراد لاپتہ ہیں جبکہ 1 لاکھ کے قریب فلسطینی شہری زخمی ہو چکے ہیں۔
 
لہذا نام نہاد مغربی طاقتوں کی کھلی حمایت کے نتیجے میں صہیونی حکمران مغرور اور سرکش ہو چکے ہیں اور پاگل ہاتھی کی طرح غزہ، لبنان اور ایران میں ریاستی دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ صہیونی حکمرانوں نے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھا ہوا ہے جبکہ امریکہ سمیت بڑے مغربی ممالک ان کی لاقانونیت اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت تک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ صہیونی رژیم کی ریاستی دہشت گردی کی ایک واضح مثال تہران میں حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ سفارتی پاسپورٹ پر ایران آئے تھے اور ان کا مقصد نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہونا تھا۔ یاد رہے اس تقریب میں دنیا بھر سے 80 سفارتکار موجود تھے۔ ایسے موقع پر شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی حکمران بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
 
تہران میں شہید اسماعیل کی ٹارگٹ کلنگ کے فوراً بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسرائیل کو سخت انتقام کی دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ شہید اسماعیل ہنیہ ایران کے مہمان تھے اور ہم اپنے مہمان کے قتل کا بدلہ ضرور لیں گے۔ اس وقت سے ہی رائے عامہ میں یہ مطالبہ شدت سے پایا جاتا تھا کہ جرائم پیشہ صہیونی رژیم کو اس مجرمانہ اقدام کی سخت سزا دی جائے۔ البتہ اسرائیل سے انتقامی کاروائی کے مقدمات فراہم کرنے میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا اور آخرکار کل بروز منگل یکم اکتوبر 2024ء سپاہ پاسدارانقلاب اسلامی نے 200 بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے تل ابیب کے قریب اسرائیل کے اہم فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا ڈالا۔ ان میں سے کچھ میزائل ایسے تھے جن کا مقصد اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کو دھوکہ دینا تھا جبکہ میزائلوں کا دوسرا حصہ مطلوبہ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کیلئے بروئے کار لایا گیا۔
 
امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے ایران کی ممکنہ انتقامی کاروائی کا مقابلہ کرنے کیلئے مختلف علاقوں میں ایئر ڈیفنس سسٹم نصب کر رکھے تھے جبکہ خطے کے کئی عرب ممالک بھی اس کام میں ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کو انتقامی کاروائی کی حتمی حکمت عملی تیار کرنے میں کچھ وقت لگ گیا تاکہ ان میزائل ڈیفنس سسٹمز سے بچتے ہوئے اسرائیل میں فوجی ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا جا سکے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خود صہیونی رژیم کے ذرائع ابلاغ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ایران کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کا 90 فیصد حصے کامیابی سے اپنے مطلوبہ ٹارگٹس کو نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں کے بعد صہیونی حکمران اپنے عوام کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہو چکے ہیں۔ حتی تل ابیب کے میئر نے بھی فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
 
دوسری طرف علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ایران کی انتقامی کاروائی کو وسیع پیمانے پر کوریج دی گئی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ نے زمینی حقائق کی روشنی میں ایران کی میزائل طاقت کا اعتراف کیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے بھی ایران کے میزائل حملوں کی کامیابی اور ان کے موثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی صہیونی حکمرانوں خاص طور پر صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیتن یاہو کے مخالفین ایران کی اس کامیابی انتقامی کاروائی کو اپنی حقانیت کی دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم گذشتہ چند ماہ سے نیتن یاہو کی مخالفت کرنے میں حق بجانب تھے۔ ان کا شروع سے دعوی تھا کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد کے باوجود ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کو شکست نہیں دے سکتا لہذا اسے فوراً جنگ بندی کرنی چاہئے۔

تحریر: سید رضا صدرالحسینی

 اسرائیلی فوج نے گذشتہ روز اسرائیل پر ایران کے میزائل حملوں کے دوران اسرائیلی فضائی اڈوں پر میزائل گرنے کی تصدیق کردی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی میزائل کچھ اسرائیلی فضائی اڈوں پر گرے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق میزائل گرنے کے نتیجے میں فضائی اڈوں کی انتظامی عمارتوں اور جہازوں کی مرمت کی جگہوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق میزائل حملے میں فضائیہ کے کسی بھی جہاز کو نقصان نہیں پہنچا۔ ایران نے گذشتہ روز اسرائیل پر 190 بیسلٹک میزائل فائر کیے تھے اور اس حوالے سے ایران کے پاسداران انقلاب کا دعویٰ ہے کہ 90 فیصد میزائل نے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

دوسری جانب اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے فائر کیے گئے زیادہ تر میزائلوں کو امریکا کی مدد سے ناکام بنا دیا، کچھ میزائل زمین پر گرے، تاہم ان میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایران کی جانب سے حملے کے بعد صدر مسعود پزشکیان نے اپنے بیان میں کہا کہ صیہونی ریاست کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن جواب دیا گیا ہے جبکہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اسرائیل پر اگلا حملہ اس سے بھی کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔

بیان کا متن مندرجہ ذيل ہے:

عظیم اسلامی امت اور شہید پرور ایرانی قوم کچھ لمحے قبل اور صیہونی حکومت کی جانب سے مجاہد شہید ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کے قتل کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی پر طویل صبر اور امریکہ کی حمایت سے غزہ و لبنان میں قتل عام اور لبنان میں مجاہد کبیر، مزاحمت کے رہنما اور حزب اللہ کے سرافراز سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ اور پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی مشیر اور بہادر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل سید عباس نیلفروشان کی شہادت کے بعد پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ نے دسیوں بیلسٹک میزائلوں سے مقبوضہ سر زمین کے قلب میں واقع کئی اہم فوجی و سیکوریٹی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا کہ جس کی تفصیلات بعد میں اعلان کی جائيں گی ۔

واضح رہے یہ آپریشن اعلی قومی سلامتی کی منظوری، چیف آف آرمی اسٹاف کی اطلاع اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج اور وزارت دفاع کی حمایت سے کیا گيا ہے۔

خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر صیہونی حکومت نے، ملکی و عالمی قوانین کے مطابق کئے گئے اس آپریشن پر فوجی رد عمل ظاہر کیا تو اس کے بعد اسے  زيادہ شدید اور تباہ کن حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے اسرائیل کے خلاف میزائل حملے کو ’’فیصلہ کن ردعمل‘‘ قرار دے دیا۔ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی حملہ اسرائیلی جارحیت کا ردعمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اور خطے میں امن کے لیے جائز حق کا استعمال کیا گیا، صیہونی ریاست کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن جواب دیا گیا ہے۔

ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے کہا کہ ایران جنگجو نہیں ہے، لیکن وہ کسی بھی خطرے کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے، یہ ہماری طاقت کا صرف ایک گوشہ ہے، ایران کے ساتھ تنازعہ میں نہ پڑیں۔ واضح رہے کہ عرب میڈیا کے مطابق ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر 400 میزائل داغ دیئے جبکہ لبنانی علاقوں سے بھی اسرائیل پر متعدد راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔