سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز، عربی 21 نیوز کے مطابق، قاہرہ 24 کی ویب سائٹ نے مصری مارکیٹ میں متعدد فروخت کنندگان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ پیپسی گروپ نے لپٹن آئس ٹی کی سپلائی روک دی ہے، جو مصر میں بہت مشہور تھی۔
 
فروخت کنندگان کا کہنا ہے کہ لپٹن آئس ٹی کا مشروب ہٹانا کئی مہینوں تک قابض ظالم رژیم کی حامی کمپنیوں کے بائیکاٹ کے بعد آیا، جن میں پیپسی اور لپٹن بھی شامل ہیں، جو بائیکاٹ کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔
 
سافٹ ڈرنکس اور فوڈ پروڈکٹس فروخت کرنے والے آن لائن پلیٹ فارمز سے پتہ چلتا ہے کہ لپٹن آئس ٹی ڈرنکس کو کچھ عرصہ پہلے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔
 
مصری فروخت کنندگان کا کہنا ہے کہ لپٹن آئس ٹی ڈرنک گرمیوں میں بہت مقبول تھا اور گزشتہ برسوں میں صارفین نے اس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا تھا. ویب سائٹ نے اسکندریہ چیمبر آف کامرس کے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ حازم المنوفی کے حوالے سے بتایا کہ لپٹن آئس ٹی کو کچھ عرصے سے مارکیٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔
 
سافٹ ڈرنک کمپنیوں کے کچھ ذرائع پہلے ہی اطلاع دے چکے ہیں کہ بائیکاٹ کی مہموں نے ان کمپنیوں کی آمدنی کو کم کر دیا ہے اور پچھلے مہینوں میں ان کے منافع کو 70 فیصد سے بھی کم کر دیا ہے. مصری تاجروں کے اندازوں کے مطابق پیپسی کولا اور کوکا کولا کی فروخت گزشتہ سال قیمتوں میں اضافے کی لہر سے تقریباً 30 بلین پاؤنڈ سالانہ تھی۔
 
ان دونوں کمپنیوں نے پابندیوں اور مہنگائی سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا اور گزشتہ 24 مہینوں میں قیمتوں میں یہ اضافہ 150 فیصد تک پہنچ گیا۔. لپٹن ٹی کمپنی کو بھی گزشتہ اکتوبر سے اپنی فروخت میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑا اور مصر اور عرب ممالک میں غزہ اور فلسطین کی حمایت میں بائیکاٹ مہم کی وجہ سے کمپنی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا.
 
غزہ پر حملے کے بعد، صیہونیت کی حامی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی کالیں مصر اور دنیا کے سوشل نیٹ ورکس پر وسیع پیمانے پر پھیل گئیں، اور کچھ پلیٹ فارمز نے قبضے کی حامی کمپنیوں جیسے KFC، Starbucks اور McDonald's کے نام درج کیے، کچھ نے ہر قسم کی چاکلیٹ پیش کیں۔ اور ہر قسم کے مشہور سافٹ ڈرنکس اور مقامی اور قومی مصنوعات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 

 

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ اربعین حسینی کے موقع پر کربلا کی پیدل زیارت کی تاریخ صدیوں پرانی ہے تاہم گزشتہ بارہ سالوں سے اس میں نئی روح آگئی ہے۔ اربعین واک فطری طور پر ایک سیاسی تحریک ہے جو اسلام کے مفاد میں تشکیل پائی ہے۔ اس کی بنیاد عاشورا اور کربلا کی تعلیمات پر استوار ہے۔ اس سفر کے دوران اسلامی اور حسینی روایات کا جلوہ نظر آتا ہے۔ آج سیاسی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں اربعین کی مختلف جہتیں عالمی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اسلام اور تشیع مخالف میڈیا پوری کوشش کے باوجود اربعین مارچ کی عظمت کو کم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ہے۔

اربعین کے موقع پر عالم اسلام کے اتحاد کا شاندار مظاہرہ ہوتا ہے۔ فلسطین پر قبضے کے خواہشمند صہیونی عالم اسلام کے اس اتحاد سے خوفزدہ ہیں۔ یہی اتحاد فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی میں بہترین کردار ادا کرسکتا ہے۔

ہر سال اربعین امت مسلمہ کے اتحاد کا وسیلہ بنتا جارہا ہے۔ اہل تشیع کے ساتھ اہل سنت بھی اربعین مارچ میں شرکت کررہے ہیں۔ مارچ میں شرکت کرنے والے اہل سنت برادری سے تعلق رکھنے والے محمود رفیعی نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اربعین شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد کا باعث بن رہا ہے۔ اسی سے عالمی استکبار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اربعین کے موقع پر مکتب عاشورا کی تفسیر ہوتی ہے۔ اہل سنت برادری میں اربعین مارچ میں شرکت کا رواج بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اہل سنت امام عالی مقام کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے مارچ میں شرکت کرتے ہیں۔ اس سال عالمی اور علاقائی حالات کی وجہ سے اس مارچ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

رفیعی نے مزید کہا کہ دشمن اربعین کے خلاف زور و شور سے پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ جس چیز سے دشمن کو ٹھیس پہنچتی ہے اسی کے خلاف پروپیگنڈا اور سازشیں کی جاتی ہیں۔ گرمی، وائرس اور داعش کے خطرات وہ سازشیں ہیں جو دشمن مسلمانوں کو اربعین سے دور رکھنے کے لئے کررہے ہیں۔ ہمیں ان خطرات سے کوئی ڈر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کو اربعین کی ترویج اور ترقی کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اربعین دشمن کے مقابلے میں اہم ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے۔

سنہ 1945 کے موسم گرما میں جب دوسری عالمی جنگ نازی جرمنی کی شکست کے بعد مغربی محاذ پر ختم ہو چکی تھی، متفقین کا آخری مورچہ یعنی جاپانی سلطنت کے پاس بھی، جو اپنی زیادہ تر فوجی اور دفاعی توانائي کھو چکی تھی، عملی طور پر شکست کو تسلیم کرنے اور متحدہ طاقتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ کوئي چارہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکومت نے جنگ کے فوری خاتمے اور امن کے قیام کے بہانے ایک جنون آمیز کارروائي کرتے ہوئے صرف تین دن کے فاصلے سے 6 اور 9 اگست کو جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ان شہروں کے دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ بے قصور لوگوں کا قتل عام کر دیا۔ یہ بات پوری طرح واضح تھی کہ اس غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائي سے امریکا کا واحد ہدف خوفناک ایٹمی ہتھیار کے سائے میں دنیا بالخصوص اپنے دیرینہ حریف سوویت یونین کے سامنے اپنی ایسی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا جس کا کوئي جواب نہ ہو۔

البتہ طاقت کا یہ مظاہرہ، اخلاقی و انسانی دعووں کی آڑ میں کیا گيا۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے حکم دیا تھا کہ جیسے ہی ملک کی فوجی تجربہ گاہوں میں ایٹم بم تیار ہو، اسے فوراً استعمال کیا جائے۔ وہ اپنے اس کام کا جواز پیش کرنے یعنی ایٹمی بمباری کا حکم دینے کے مسئلے میں اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے کہا تھا: "دنیا یاد رکھے گي کہ دنیا کا پہلا ایٹم بم، ہیروشیما پر بمباری کے لیے استعمال کیا گيا کہ جو ایک فوجی اڈا تھا۔" ٹرومین نے کہا تھا: "یہ کام اس لیے کیا گيا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پہلے حملے میں کم سے کم عام شہری مارے جائيں۔" بعد میں ٹرومین کے اس دعوے کی امریکا کے بہت سے مصنفین اور فوجیوں نے دھجیاں اڑا دیں اور خود امریکا کے بہت سے باخبر لوگوں نے اس جھوٹ کی قلعی کھول دی۔ مثال کے طور پر ایک مصنف مارک ویبر نے، جن کا مقالہ "ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری"(1) نامی کتاب میں شائع ہوا، ٹرومین کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ بالکل بکواس بات تھی۔ در حقیقت اس بمباری میں مارے جانے والے سبھی عام شہری تھے اور امریکا کی اسٹریٹیجک بمباری کے جائزے نے جو سنہ 1946 میں شائع ہوا، سرکاری رپورٹ میں لکھا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کو زیادہ گنجان آبادی کی وجہ سے ٹارگٹ کے طور پر منتخب کیا گيا تھا۔ اگر ایٹمی بمباری اس لیے کی گئي کہ وہ جاپان کے لیڈران کو نئے ہتھیار کی ہولناک اور تباہ کن طاقت سے متاثر کر دے تو یہ کام ایک دور افتادہ فوجی چھاؤنی پر بمباری کر کے بھی کیا جا سکتا تھا۔ ایک بڑے شہر کو تباہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کسی طرح ہیروشیما کے دھماکے کا جواز فراہم کر بھی دیا جائے تو ناگاساکی کی بمباری کا بچاؤ بالکل نہیں کیا جا سکتا۔" اسی طرح امریکی فوج کے ایک کمانڈر ڈگلس میک آرتھر نے مرنے سے پہلے ایسے بے شمار دلائل پیش کیے جو ثابت کرتے تھے کہ جاپان پر ایٹمی بمباری بالکل غیر ضروری تھی۔ انھوں نے کہا: "میرے افراد ایک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ جاپان بکھر رہا ہے اور ہتھیار ڈال رہا ہے۔"جرمنی اور جاپان پر بمباری کرنے والی فورسز کے کمانڈر جنرل کرٹس لیمے نے بھی، جو بعد میں فضائیہ کے چیف آف اسٹاف بھی بنے، اختصار کے ساتھ لکھا: "ایٹمی بمباری نے جنگ کے خاتمے میں کوئي مدد نہیں کی۔"

البتہ انسانی و اخلاقی حقوق کے نام پر انسانیت کے خلاف جرائم کی امریکا کی سیاہ فائل، جاپان پر ایٹمی بمباری کر کے ہی بند نہیں ہوئی۔ پچھلے 80 برس میں انسانی حقوق کے دفاع کے نام پر امن کے بہانے جنگ اور انسانوں کے خلاف جرم، اس سفاک حکومت کی خارجہ پالیسی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ فوجی مداخلت اور دنیا کے مختلف علاقوں میں دسیوں چھوٹی بڑی لڑائياں شروع کروانا، آزادی کے دفاع اور کمیونزم کے نفوذ سے مقابلے کے نعرے کے ساتھ جزیرہ نمائے کوریا اور ویتنام میں دسیوں لاکھ لوگوں کا قتل عام، افغانستان، لیبیا اور عراق میں دہشت گردی، آمرانہ نظام اور عام تباہی کے ہتھیاروں سے مقابلے اور جمہوریت کے قیام کے بہانے حملہ، امن اور انسانی حقوق کے دفاع کی آڑ میں عالمی سامراج کے جرائم کی فہرست کے صرف کچھ حصے ہیں۔

اسی سلسلے کی اگلی کڑی امریکا کی جانب سے اس چیز کا بے شرمی سے جواز پیش کرنا ہے جو آج غزہ میں ہو رہا ہے۔ اسرائيل کی طفل کش حکومت کی آنکھ بند کر کے بے چون و چرا پشتپناہی، اس حکومت کے لیے روزانہ تباہ کن ہتھیاروں اور بھاری بموں کی ترسیل، جن کا استعمال، رہائشی علاقوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل عام کی، اپنے دفاع کے صیہونیوں کے نام نہاد حق کے سائے میں حمایت فلسطین کی مظلوم قوم کے قتل عام میں امریکا کی براہ راست شمولیت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تاریخ کا تلخ ترین طنز یہ ہے کہ غزہ کے قریب 40 ہزار لوگوں کے قتل عام، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، اس علاقے کے زیادہ تر حصوں کی تباہی اور غزہ کے  بیس لاکھ نہتے لوگوں کو بے گھر بنانے اور بھوک اور پیاس سے ان کے تدریجی قتل عام کے بعد بھی بڑی ڈھٹائي اور بے شرمی سے اس بات پر بضد ہیں کہ صیہونی حکومت نے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے سلسلے میں امریکا کی ریڈ لائن کو کراس نہیں کیا ہے! اسرائيلی حکومت، عام شہریوں کی جان کی حفاظت کی پابند ہے! غزہ میں مارے جانے والے زیادہ تر حماس کے جنگجو ہیں! اور اسی طرح کے گھناؤنے اور نفرت انگیز جھوٹ جو صیہونی حکومت کے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے مغربی میڈیا میں مسلسل دوہرائے جاتے ہیں۔ آج فلسطین کی مظلوم قوم کے خون میں امریکا کے ہاتھ، اگر غاصب اسرائيل سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے جتنے تو ڈوبے ہوئے ہی ہیں۔

اس طرح کے جرائم کے مقابلے میں امریکا اور عالمی اداروں کے رویے اور نعروں میں یہ دوغلاپن، بہت پہلے ہی دنیا بھر کی اقوام خاص طور پر مسلم اقوام کے لیے واضح ہو چکا ہے اور اس نے ان کے سامنے ایک روشن راستہ کھول دیا ہے۔ یہ راستہ مسلمانوں کو عملی میدان میں سیاسی و معاشی مقابلے اور فکری میدان میں میڈیا اور ذہنی پہلو سے مقابلے کی دعوت دیتا ہے۔ امریکا اور اس کے حواریوں کی غلط بیانیوں سے بیزاری کا اعلان اور ان کے جھوٹے بیانوں کو الگ تھلگ کر دینا، وہ راستہ تھا جو رہبر انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کے سامنے کھولا ہے:

"ایک فریضہ پایا جاتا ہے، ان لوگوں کی مخالفت کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا جو اس ظلم، اس سنگین تاریخی ستم، اس نسل کشی، انسان کشی اور جرائم کے ارتکاب میں اس بے شرمی و بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ واقعی انسان ان کی اس بے حیائی پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ یہ معصوم شہریوں کے قتل عام کا جواز، دلیل اور منطق پیش کرتے ہیں، یہ اتنے بے شرم ہیں! معصوم بچوں کے قتل، معصوم و مظلوم نونہالوں کے قتل کا جواز پیش کرتے ہیں، اس قدر بے شرم ہیں یہ لوگ! جو لوگ یہ جرائم انجام دے رہے ہیں، یہ تو گنہگار ہیں ہی، یہ جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن صرف یہی لوگ نہیں ہیں۔ آج جو بھی صیہونیوں کی حمایت کر رہا ہے، چاہے وہ امریکا اور برطانیہ وغیرہ جیسے سامراجی ممالک کے حکام ہوں یا اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے جو کسی نہ کسی طرح، چاہے خاموشی اختیار کر کے یا اپنے غیر منصفانہ بیانوں اور تبصروں کے ذریعے اُن کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بھی اس مسئلے میں شریک جرم ہے۔ تمام عالم اسلام، سبھی مسلم حکومتوں اور ساری مسلم اقوام کا فرض ہے کہ ان کی مخالفت کریں، ان کامقابلہ کریں، ان سے اپنی بیزاری کا اعلان کریں، ان سے اعلان نفرت کریں، اس موقف پر ان کی سرزنش کریں، یہ عمومی فریضہ ہے۔ انھیں الگ تھلگ کر دیں، اگر ممکن ہو تو اقتصادی روش استعمال کریں، سیاسی سطح پر کارروائی کریں، یہ امت مسلمہ کا فرض ہے۔" (2014/07/28)

امریکا کی پوری تاریخ انسان پر ظلم اور ان کے خلاف جرائم سے بھری ہوئي ہے۔ اس سرزمین کے مقامی افراد اور اصل مالکوں کے قتل عام سے لے کر، جو یورپی مہاجروں کے لالچ کی بھینٹ چڑھے، سیاہ فاموں کو غلام بنانے اور ان کے قتل عام تک، خودمختار ملکوں پر براہ راست لشکر کشی سے لے کر قومی اور قانونی حکومتوں کی سرنگونی کے لیے بغاوت کی سازش تیار کرنے تک، اپنی پٹھو آمر حکومت کو حمایت اور عوامی تحریکوں کی سرکوبی سے لے کر فلسطینی عوام کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کے قتل عام کی اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی کی پشتپناہی تک اور ایک جملے میں ہیروشیما سے لے کر غزہ تک سارے کے سارے جرائم کا امن، انسان دوستی، انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے خوبصورت الفاظ کے ذریعے سامراج کی پٹھو تشہیراتی مشینری اور میڈیا کے توسط سے بے شرمی کی انتہا تک جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اب وقت آ گيا ہے کہ مسلمان عوام اور دنیا بھر کے لوگ، امریکا جیسے ملکوں کے نعروں کا نہیں بلکہ ان کے رویے کا تجزیہ کر کے ان کے بارے میں فیصلہ کریں اور ان کے ساتھ اپنے تعاون پر نظر ثانی ڈالیں۔

تحریر: محسن باقری پور

اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا کارکنان سے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی، فرقہ واریت، مایوسی اور شہوت اقتدار جیسی خطرناک آفات کی زد میں ہے اور ملک مکمل طور پر بیرونی غلامی کے شکنجے میں ہے۔ انہوں نے ملکی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہر شخص ملک سے بھاگنے کی سوچ رہا ہے۔ قوم اپنی زبان، ثقافت اور قومی اقدار سے دور ہو چکی ہے، جبکہ عیاش طبقہ امیر سے امیر تر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔  پاکستان اقلیتوں کے لحاظ سے بھی غیر محفوظ ہے، جنہیں مذہبی شدت پسند گروہوں کا سامنا ہے۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ  نااہل حکمران، بے شعوری، آزادی کی قدر نہ کرنا اور قوم میں ذلت کا احساس ہے، جو ہماری سیاسی و مذہبی قیادت میں نمایاں نظر آتی ہے۔
 
انہوں نے کہا پاکستانیوں کو اپنی حالت کے بدلنے کا کوئی خیال نہیں وہ اس خوشگمانی میں ہیں کہ غزہ کے معاملے پر بے رحم حکمران قوم پر رحم کھائیں گے۔ وہ جنہیں غزہ کے بچوں کی کٹی لاشیں متاثر نہیں کرسکیں، آپکی مشکلات انہیں ہرگز متاثر نہیں کر سکتیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر آزاد ہوا لیکن افسوس کہ ہم نہ اسلام کا نظام لا سکے اور نہ ہی مغربی نظام کی غلامی سے آزاد ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی قوم کیلئے جو قرآن اور اہلبیت (ع) جیسا خزانہ رکھتی ہو، مغربی نظام کی غلامی اور پیروی باعثِ ننگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنی منتخب کردہ راہوں اور منتخب کردہ نظاموں پر نظرِثانی کرنا ہوگی اور آزاد قوم کی حیثیت سے وہ راہیں چننا ہونگی، جو ہمیں عزت اور شرف سے ہمکنار کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ غلامی کا نظام قوموں کیلئے بدترین نجاست ہے۔ غلامی کا تعلیمی نظام، اسکا کلچر، اسکی تہذیب، اسکی فرہنگ، اسکی زبان، اس کا قانون جس کو ہم فخریہ طور پر اپنائے بیٹھے ہیں ہماری سب سے بڑی نادانی ہے۔

علی باقری کنی نے ہفتہ کی شب ایکس پر لکھا: مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر حکمرانی کرنے والے مجرم گروہ کا تازہ ترین جرم ایک اسکول پر حملہ کرنا جسے ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور 100 سے زیادہ بچوں اور معصوم لوگوں کو صبح کے وقت قتل کرنا ہے جس کے بعد اب اس بات میں کوئی شک نہيں رہ جاتا کہ صیہونی حکومت فلسطینیوں کی نسل کشی کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے مزید  لکھا: صیہونی مافیا نام کی مکمل خباثت کے معاملے میں عالمی برادری کی جانب سے برتی جانے والی لاپروائی، خباثت کی توسیع اور ان تمام اقدار کی تباہی کا خیر مقدم کرنا ہے جسے ہم انسانی تمدن کے نام سے جانتے ہيں۔

باقری کنی نے مزید لکھا: تمام حکومتوں خصوصاً اسلامی حکومتوں کی مشترکہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کو روکیں۔

قائم مقام وزیر خارجہ نے مزید لکھا: بلاشبہ وہ حکومتیں، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا، کہ جو غاصب کی ہر طرح سے مالی، اسلحہ جاتی اور سیاسی مدد کرکے اس کے قتل کی مشین کو چلانے والے  کا کردار ادا کر رہے ہيں اور بڑی بے شرمی کے ساتھ اسے ‎سزا نہ دیئے جانے کی یقین دہانی کرا رہے ہيں، فلسطینیوں اور علاقائی عوام کے خلاف کئے جانے والے تمام جرائم میں شریک ہیں۔ علاقے اور دنیا کے عوام کبھی بھی صیہونی مافیائی گروہ کے جراغئم کو بھولیں گے نہيں۔

 مصری وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ میں اسکول پر بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ثالثوں کی کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف جرائم میں اضافے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کا جنگ ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.

اردن کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں التابعین اسکول پر صیہونی حکومت کی بمباری بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور شہریوں کی نسل کشی کے منصوبے میں تسلسل کے ساتھ  پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا ہے۔

لبنان کی وزارت خارجہ نے تاکید کی کہ غزہ پر بمباری اور بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی کابینہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ نہیں کرتی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود جرائم میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل جنگ کو طول دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کے تحفظ اور انسانی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سنجیدہ موقف اختیار کرے۔

قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں التابعین اسکول پر صیہونی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

قطر نے صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ میں اسکولوں اور پناہ گاہوں کو بار بار نشانہ بنائے جانے پر فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔


 

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور خطے میں بے مثال انسانی تباہی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل مختلف فلسطینی گروہوں نے غزہ کے التابعین اسکول پر صیہونی بمباری میں امریکہ کو بھی برابر کا شریک جرم قرار دیا اور کہا کہ تل ابیب، فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل عام امریکہ کے عطیہ کردہ ہتھیاروں سے کرتا ہے۔

نجف اشرف میں مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے اپنے بیان میں صیہونی فوج کے التابعین اسکول کو نشانہ بنانے کے جرم کی مذمت کی اور کہا کہ یہ بھیانک جرم پے درپے ان جرائم کا سلسلہ ہے جو گزشتہ ماہ 10 سے جاری ہیں۔

ادھر یمن کی انصار اللہ تحریک نے غزہ شہر کے التابعین اسکول پر صیہونی حکومت کے حملے میں 100سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کی شہادت کے ردعمل میں ایک بیان میں کہا کہ صیہونی حکومت نے خونریزی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور فلسطینی قوم کے خلاف ایک کے بعد ایک جرم کی مرتکب ہو رہی ہے۔

 

صیہونیوں کے وحشیانہ حملوں بشمول التابعین اسکول پر آج کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے جس میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، عراق کے وزیر اعظم نے تاکید کی کہ صیہونیوں کے مظالم کے خلاف غزہ میں خواتین کی استقامت اور اپنے بچوں کے ساتھ صیہونیوں کے خلاف مزاحمت قابل فخر ہے اور یہ خواتین کا صبر ہی ہے جس نے غزہ کو زندہ رکھا ہے۔

ارنا  کے مطابق، صہیونی فوج نے اپنے تازہ ترین جرم میں ہفتے کی صبح غزا کے محلے الدرج میں التابعین نامی اسکول پر صبح کی نماز کے دوران بمباری کرکے 100 سے زائد فلسطینی نمازیوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا۔

خبر رساں ذرائع کے مطابق اس اسکول میں 200 کے قریب فلسطینی پناہ گزین صبح کی نماز ادا کر رہے تھے جب انہیں صیہونی فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

فکر اسلامی میں موت و حیات وجود و عدم کی طرح دو مفہوم نہیں ہیں، جس طرح فلسفہ میں سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ آخرت کے جزاء و سزا کا انکار ہے۔دنیا کی زندگی انسان کی زندگی کا پہلا مرحلہ ہے جو وجود انسانی کی صورت میں ہے اور موت اس پہلے مرحلے کے اختتام  کانام ہے۔یہی موت زندگی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے اور وہ آخرت ہے۔اس لیے موت کو عدمی وجود نہیں بلکہ ایک امر وجودی ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلً) (هود-7)

اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حَسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔

زندگی کے مراحل

اسلامی نقطہ نظر سے زندگی کا مفہوم فقط اسی جاری زندگی  پر منحصر نہیں ہے یہ زندگی کا ایک حصہ ہے زندگی تین طرح کی ہوتی ہے:

۱۔ دنیا کی زندگی جس میں ہم جی رہے ہیں۔

۲۔ آخرت یعنی قیامت کی زندگی ہم جس کی طرف بڑھ رہے ہیں،اس زندگی میں جنت ملے گی یا جہنم ملے گی۔

۳۔ برزخ کی زندگی جو ان دو کے درمیان ہے یہ یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔

فنا نہیں بقا

عربی میں خلود اس ابدی زندگی کو کہا جاتا ہے جس کی کوئی حدہو نہ حساب،

اصطلاح میں عام طور پر اس کا اطلاق  موت کے بعد والے مرحلے پر ہوتا ہے ۔انسان باقی رہنے کےلیے بنا ہے فنا ہونے کے لیے نہیں بنا۔موت اختتام سفر نہیں بلکہ ایک حالت سے دوسرے حالت میں جانے کا نام ہے،اس زندگی سے دوسری زندگی کی طرف۔یہ بقا جنت اور جہنم کی صورت میں ہو گی یعنی یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہو گی یا  ہمیشہ کے لیے جہنم۔ تمام آسمانی ادیان کی تعلیمات یہی ہیں کہ انسان قیامت کے دن اپنے اعمال کے نتائج کی بنیاد پر جنت یا جہنم جائے گا۔

ماہ صفر ہجری سن کا دوسرا مہینہ ہے۔ جناب شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے مفاتیح الجنان میں لکھا ‘‘یہ مہینہ اپنی نحوست کے ساتھ مشہور ہے۔ ’’ مرحوم محدث ؒ نے لفظ مشہور تحریر فرمایا یعنی اس کی نحوست کے سلسلہ میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور اگر کوئی روایت ہے بھی تو روایات و احادیث کے ماہرین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض علماء نے اس کی نحوست کی شہرت کی دو وجہیں جانی ہیں ۔ ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت ۔ دوسرے تین حرام مہینوں (ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم) کے بعد اس ماہ کی آمد ہے۔ المختصر اس کی نحوست قرآن و احادیث سے ثابت نہیں ہے ، لہذا تیرہ تیزی کی بھی کوئی دینی اور شرعی حیثیت نہیں ہے۔

شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے مفاتیح الجنان میں اس ماہ کے اعمال ، نمازیں اور دعائیں بیان کی ہیں جو عمل کرنے والوں کے لئے مصیبت و بلا سے حفاظت کی ضامن ہیں۔

ذیل میں ماہ صفر کی مناسبتیں پیش ہیں:

یکم صفر المظفر
1۔مکہ مکرمہ کے تین نامور مشرکوں عمرو بن عاص، خالد بن وليد اور عثمان بن أبی طلحہ نے اسلام قبول کیا۔ سن 8 ہجری
2۔ جنگ صفین سن 37 ہجری
3۔ اسیران کربلا شام پہنچے ۔ سن 61 ہجری
4۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اموی حکومت کے خلاف قیام کیا۔ سن 122 ہجری

2؍ صفر المظفر
1۔ اسیران کربلا دربار یزید پلید میں سن 61 ہجری
2۔ شہادت جناب زید ابن امام زین العابدین علیہ السلام۔ سن 122 ہجری
3۔ وفات علامہ احمد امین (صاحب تفسیر الکبیر) سن 1390 ہجری

3؍ صفر المظفر
1۔ ولادت امام محمد باقر علیہ السلام (ایک روایت) سن 57 ہجری
2۔ وفات عالمہ محدثہ حافظہ عابدہ زاہدہ سید نفیسہ (از نسل امام حسن مجتبی علیہ السلام) قاہرہ مصر۔ سن 208 ہجری
2۔ ولادت بو علی سینا (عظیم فلسفی اور نامور حکیم) سن 370 ہجری
3۔ معروف اہل سنت شافعی محدث، مورخ اور قاضی ابوعبدالله حاکم نیشابوری نے اس دنیا سے رحلت کی۔ سن 405 ہجری
4۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی شاہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ (استاد امام خمینیؒ) سن 1369 ہجری

4؍ صفر المظفر
1۔ واقعہ کربلا کی خبر مدینہ منورہ پہنچی ۔ سن 61 ہجری
2۔مغول بادشاہ ہلاکو خان نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا۔ سن 656 ہجری

5 صفر المظفر
1۔ شہادت حضرت رقیہ بنت الحسین علیہماالسلام در شام سن 61 ہجری

6؍ صفر المظفر
ً 1۔ وفات شاعر اہلبیتؑ جناب شہریار مرحوم سن 1409 ہجری
فارسی زبان وادب کے معروف شاعر جناب سید محمد حسین شہریار مرحوم کا مشہور کلام ’’علیؑ ای ہمائی رحمت توچہ آیتی خدا را‘‘ ہے۔

7؍ صفر المظفر
1۔ شہادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلا م (بروایت شیخ مفید ؒ) سن 50 ہجری
2۔ ولادت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سن 128 ہجری
3۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ (مرجع تقلید و بانی کتب خانہ مرعشیؒ قم مقدس) سن 1411 ہجری

8؍ صفر المظفر
1۔ وفات حضرت سلمان محمدی (فارسی ) رضوا ن اللہ تعالیٰ علیہ سن 36 ہجری
جناب سلمان فارسی ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اور امیرالمومنین علیہ السلام کے حامی تھے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔
2۔ وفات مرجع عالی قدر استاد الفقہاء والمجتہدین آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1413 ہجری

9؍ صفر المظفر
1۔ شہادت حضرت عمار یاسر علیہ السلام سن 37 ہجری
اسلام کے پہلے شہید حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کے فرزند حضرت عمار یاسر علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے سچے شیعہ اور حامی تھے۔ حضورؐ نے آپ کے سلسلہ میں فرمایا:’’ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ جنگ صفین میں آپ کی شہادت لشکر شام کی ابدی رسوائی کا سبب بنی۔
2۔ شہادت حضرت خزیمہ بن ثابت علیہ السلام۔ سن 37 ہجری
حضرت خزیمہ بن ثابت علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ رسالت مآب ؐ پر یقین و اطمینان کے سبب حضورؐ نے آپ کو ذوالشہادتین (یعنی آپ کی تنہا گواہی دو عادل گواہوں کی گواہی کے برابر ہے)کا لقب دیا۔ جنگ صفین میں آپ کی شہادت بھی جناب عمار کی شہادت کی طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی حقانیت اور لشکر شام کی رسوائی کا سبب بنی۔
3۔ شہادت صحابی رسول جناب عبداللہ بن بدیل خزائی علیہ السلام۔ سن 37 ہجری
جناب عبداللہ بن بدیل خزائی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ خلیفہ سوم کے قتل کے بعد آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے دست مبارک پر سب سے پہلے بیعت کی۔ جنگ جمل و صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں جنگ کی اور جنگ صفین میں ہی شہید ہوئے۔ نیز آپ حدیث غدیر کے گواہ بھی تھے۔
4۔ جنگ نہروان۔ سن 39 ہجری
5۔ وفات علامہ سید محمد حسینی طہرانی رحمۃ اللہ علیہ(مولف اللہ شناسی، امام شناسی، معاد شناسی وغیرہ) سن 1416 ہجری

10؍ صفر المظفر
1۔ سریہ بئر معونہ سن 4 ہجری
سریہ بئر معونہ کہ جسمیں مشرکین نے وعدہ کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نمایندوں کو شہید کر دیا۔ حضورؐ نے چالیس دن تک نماز صبح کے بعد قاتلوں پر لعنت کی۔
2۔ لشکر شام نے جنگ صفین میں قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کیا ۔ سن 37 ہجری
3۔ شہادت حضرت سکینہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا (مشہور)
4۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالہادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ سن 1382 ہجری

11؍ صفر المظفر
1۔ لیلۃ الہریر (جنگ صفین میں وہ شب جسمیں امیرالمومنین علیہ السلام اور لشکر شام میں شدید جنگ ہوئی۔) سن 37 ہجری
2۔ وفات علامہ اردوبادی رحمۃاللہ علیہ ۔ سن 1380 ہجری
چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ اور شاعر علامہ محمدعلی غروی اردوبادی رحمۃ اللہ علیہ نے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ الشریعہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ محمدحسین غروی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمدجواد بلاغی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ آپ نے کتاب ’’الغدیر‘‘ میں علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدد کی اور اس کی ادبی تسامحات کو دور کیا۔ اسی طرح شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ کی معروف کتاب ’’الکنیٰ والالقاب‘‘ میں نمایاں خدمات اس شرط کے ساتھ انجام دی کہ کتاب میں کہیں بھی انکا ذکر نہیں ہوگا۔ اسی طرح مختلف اسلامی موضوعات پر تیس سے زیادہ کتابیں لکھی اور اہلبیت علیہم السلام کی مدح میں قصائد اور مصیبت میں مرثیہ لکھے۔

12؍ صفر المظفر
1۔ وفات نبی خدا حضرت ہارون علیہ السلام (کلیم خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور وزیر)
2۔ صلح ابوا (یا ودان) سن 2 ہجری
قبیلہ ضمرہ کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر لے کر ابوا تشریف لے گئے۔ جب قبیلہ ضمرہ نے لشکر اسلام کو دیکھا تو صلح کی پیشکش کی۔ حضورؐ نے ان کی درخواست قبول کی اور مندرجہ ذیل شرطوں پر صلح ہوئی۔
الف۔ ایک دوسرے کے خلاف لشکر اور اسلحہ جمع نہیں کریں گے۔
ب۔ ایک دوسرے کے دشمن کی کسی بھی طرح کی مدد نہیں کریں گے۔
3۔ حکمیت کا معاملہ طے ہوا۔ سن 37 ہجری
میدان صفین میں شکست سے بچنے کی خاطر حاکم شام نے قرآن کریم کو نیزہ پر بلند کرایا۔ جس سے امیرالمومنین علیہ السلام کے لشکر میں موجود منافقین اور ضعیف العقیدہ سپاہی دھوکہ کھا گیا ۔ نتیجہ میں دونوں لشکر کی جانب سے حکمیت طے ہوئی کہ ابوموسیٰ اشعری امیرالمومنین علیہ السلام کا نمایندہ منتخب ہوا اگرچہ مولا اس انتخاب سے راضی نہیں تھے اور عمروعاص حاکم شام کا نمایندہ مقرر ہوا۔ عمروعاص نے ابوموسیٰ اشعری کو دھوکہ دے کر کامیابی حاصل کر لی۔ لیکن افسوس جن لوگوں نے آپ کو حکمیت اور ابوموسیٰ اشعری کو بطور حکم قبول کرنے پر مجبور کیا تھا وہی لوگ شکست کھانے کے بعد آپ کے مخالف ہو گئے۔ جس کے نتیجہ میں جنگ نہروان ہوئی ۔

13؍ صفر المظفر
1۔ وفات امام نسائی ۔ سن 303 ہجری
اہلسنت کے معروف عالم، محدث اور مولف جناب احمد بن علی العروف بہ امام نسائی جنکی کتاب ’’السنن‘‘ صحاح ستہ میں شامل ہے۔ امام نسائی جب مصر سے شام پہنچے تو وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام پر سب و شتم کر رہے ہیں تو شام والوں کی ہدایت کے لئے ایک کتاب’’خصائص امیرالمومنینؑ‘‘ لکھی ۔ اہل شام نے حاکم شام کی فضیلت میں ان سے روایت پوچھی تو انھوں نے کہا کہ مجھ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صرف یہ روایت پہنچی کہ ’’خدا اس کے شکم کو سیر نہ کرے‘‘ یہ سننا تھا کہ شام والوں نے امام نسائی کو اتنا مارا کہ وہ موت سے نزدیک ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ مجھے مکہ مکرمہ لے چلو۔ راستے میں یا مکہ پہنچ کر ان کا انتقال ہو گیا۔

14؍ صفر المظفر
1۔ شہادت حضرت محمد بن ابی بکر علیہ السلام۔ سن 38 ہجری
آپ خلیفہ اول جناب ابوبکر اور جناب اسماء بنت عمیس کے بیٹے تھے۔ اسماء بنت عمیس جناب جعفر طیار کی زوجہ تھیں۔ انکی شہادت کے بعد جناب ابوبکر سے شادی ہوئی ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مقام ذوالحلیفہ پر پیدا ہوئے۔ جب جناب محمد دو برس چند ماہ کے ہوئے تو انکے والد اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ کی والدہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زوجیت میں آگئیں اور آپ بھی اپنے والدہ کے ساتھ امیرالمومنین علیہ السلام کے گھر گئے اور وہیں پروان چڑھے۔
جناب محمد بن ابی بکر علیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے مخلص حامی اور شیعہ تھے۔ جنگ جمل اور صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں جہاد کیا ۔ حاکم شام نے آپ کو زندہ گدھے کی کھال میں لپیٹ کر نذر آتش کرا کر شہید کرا دیا۔ آپ کی شہادت پر مولی علیؑ نے فرمایا: وہ اللہ کا صالح بندہ اور میرا فرمانبردار بیٹا تھا۔
2۔ آخری اموی حاکم مروان حمار کی حکومت کا آغاز ۔ سن 127 ہجری
3۔ ولادت عالم، حکیم ، محدث، مفسر اور فقیہ ملا محسن فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1007 ہجری
4۔ شہادت شہید محراب آیۃ اللہ سید عبدالحسین دستغیب رحمۃ اللہ علیہ (قلب سلیم و گناہان کبیرہ جیسی عظیم کتابوں کے مولف) سن 1402 ہجری
5۔ سلمان رشدی ملعون نے کتاب شیطانی آیات شائع کی۔ سن 1409 ہجری

15؍ صفر
1۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سن 11 ہجری
2۔ وفات عالم، محدث و فقیہ جناب حسین بن عبید الله غضائری رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 411 ہجری
آپ عظیم شیعہ عالم احمد بن حسین بن عبید الله بن ابراہیم غضائری رحمۃ اللہ علیہ کے والد ، مربی اور استاد تھے۔ آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں معروف عالم و معلم اور ماہر علم رجال جناب احمد بن علی نجاشی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔ شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیفہ کاملہ آپ کے ہی حوالے سے نقل کیا ہے۔

17؍ صفر المظفر
1۔ شہادت امام علی رضا علیہ السلام (ایک روایت) سن 203 ہجری

18؍ صفر المظفر
1۔ شہادت جناب اویس قرنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ۔ سن 37 ہجری
جناب اویس قرنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے ، حضورؑ کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ بھی تشریف لائے لیکن زیارت کا شرف حاصل نہ ہو سکا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےآپ کے سلسلہ میں جنت کی بشارت دی۔ آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے سچے شیعہ اور صحابی تھے۔ زہد و عبادت اور اطاعت آپ کی زندگی کا نصب العین تھا ۔ آپ نے جنگ صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں جہاد کیا اور شہید ہوئے۔
2۔ وفات صاحب عبقات الانوار علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃاللہ علیہ۔ 1306
تیرہویں صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم، فقیہ، مجتہد اور متکلم پاسبان ولایت علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃ اللہ علیہ 5؍ محر م الحرام 1246 کو ایک نامور دینی ، علمی اور سادات خانوادہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد علامہ سید محمد قلی رحمۃ اللہ علیہ نامور عالم، فقیہ، محدث ، مورخ اور متکلم تھے۔ جو والد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے استاد بھی تھے۔
مطالعہ، تحقیق اور تالیف ہی علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃ اللہ علیہ کا دستور زندگی تھا۔ کثرت سے لکھتے تھے لیکن کبھی بھی غیر اسلامی ممالک کے کاغذ و قلم استعمال نہیں کیا۔ آپ کی تالیفات و تصنیفات کی طویل فہرست ہے جسمیں ’’عَبَقاتُ الأنوار فی إمامَة الأئمةِ الأطهار‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ ’’عَبَقاتُ الأنوار فی إمامَة الأئمةِ الأطهار‘‘ معروف اہلسنت عالم عبدالعزیز دہلوی کی کتاب ’’ تحفه اثنا عشریه‘‘ کا جواب ہے۔ عصر تالیف سے آج تک بزرگ علماء ، مجتہدین اور اہل نظر اس کی عظمتوں کا قصیدہ پڑھتے نظر آئے ہیں۔

3۔ وفات آیۃ اللہ علامہ حسن زادہ آملی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1443 ہجری
پندرہویں صدی ہجری کے مشہور عالم، عارف، فقیہ، متکلم اور فیلسوف آیۃ اللہ علامہ حسن زادہ آملی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف عناوین پر تقریریں کی، دروس کہے اور کتابیں لکھیں جو آپ کے باقیات الصالحات کے ساتھ ساتھ نسل حاضر و آئندہ کے لئے مشعل راہ ہیں۔

19 صفر المظفر
1۔ وفات آیۃ اللہ محمد علی عمری رحمۃ اللہ علیہ سن 1432 ہجری
سعودی عرب کے مشہور شیعہ عالم دین، اہل مدینہ اور سعودی شیعوں خاص طور پر نخاولہ جماعت کے رہبران میں سے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب امام زمانہ علیہ السلام کے پہلے نائب خاص جناب عثمان بن سعید عمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے ملتا ہے۔ ان کا نفوذ، دینی اور سماجی اثر و رسوخ کا دائرہ جدہ اور مکہ تک تھا۔ سعودی حکومت ان کے ذریعہ سے مدینہ کے شیعوں سے رابطہ برقرار کرتی تھی۔ انہیں آل سعود حکومت کی طرف سے کئی بار جیل اور پھانسی کی سزا سنائی گئی اور ایک بار وہ پھانسی کے ناکام پھندے سے بھی واپس آئے۔ انہیں شیعہ مراجع تقلید کی طرف سے سعودی عرب کے شیعوں کے لئے نمائندگی بھی حاصل تھی۔


20؍ صفر المظفر
1۔ چہلم امام حسین علیہ السلام
2۔ اسیران کربلا قید خانہ شام سے رہا ہو کر کربلا پہنچے۔ سن 61 ہجری
3۔ صحابی رسولؐ جناب جابر بن عبداللہ انصاری ؓ جناب عطیہ کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا معلیٰ پہنچے ۔ سن 61 ہجری
4۔ شہدائے کربلا کے سرہائے مبارک انکے جسموں سے ملحق ہوئے۔ سن 61 ہجری
5۔ ولادت مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی رحمۃ اللہ علیہ سن 1315 ہجری


22؍ صفر المظفر
1۔ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی توقیع شریف (خط) جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کوموصول ہوا۔ سن 420 ہجری
2۔ مراجع کرام رحمۃ اللہ علیہم نے روس کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ۔ سن 1330 ہجری
آیۃ اللہ العظمیٰ سید اسماعیل صدر رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ عبدالله مازندرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس زمانے کی بڑی اسلام دشمن طاقت روس سے جہاد کا فتویٰ دیا۔

23؍ صفر المظفر
1۔وفات آیۃ اللہ العظمیٰ محمدباقر آقا نجفی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1301 ہجری
تیرہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ اور اصولی آیۃ اللہ العظمیٰ محمدباقر آقا نجفی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے آیۃ اللہ العظمیٰ حسن کاشف الغطاءرحمۃ اللہ علیہ، صاحب جواہر آیۃ اللہ العطمیٰ محمد حسن نجفی رحمۃا للہ علیہ اورآیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
نجف اشرف سے اصفہان تشریف لائے، اصفہان کی مسجد شاہ میں جمعہ و جماعت قائم کیا اور تدریس شروع کی۔ آپ امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر خاص توجہ دیتے تھے۔ مومنین پر مہربان اور بے دینوں پر شدید تھے۔
آپ کے تین بیٹے تھے، وہ تینوں عالم اور قفیہ تھے۔

24؍ صفر المظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری شدید ہوئی۔ سن 11 ہجری
2۔ وفات صاحب بن عباد۔ سن 385 ہجری
چوتھی صدی ہجری کے معروف شیعہ دانشور، ادیب اور آل بویہ حکومت کے وزیر جناب اسماعیل بن عباد المعروف بہ صاحب بن عباد کی دینی، علمی، ادبی اور تعمیری خدمات قابل قدر ہیں۔ آپ عظیم عالم و فقیہ جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تھے بلکہ ان سے رابطے میں تھے۔

25 صفرالمظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کی ہدایت کے لئے کاغذ و قلم مانگا تا کہ ایک تحریر لکھ دیں جس سے امت کبھی گمراہ نہ ہو۔ لیکن افسوس گستاخ رسالت نے گستاخانہ انداز میں یہ کہتےکاغذ و قلم دینے سے منع کر دیا کہ (معاذ اللہ) اس آدمی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہذیان ہو گیا ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے ۔ جمعرات کے دن یہ حادثہ پیش آیا تھا اس لئے جناب ابن عباس پوری زندگی آہ جمعرات کہہ کر گریہ کرتے تھے۔
اگر یہ تحریر لکھ جاتی تو شائد آج امت مسلمہ کو مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑتا ۔

26 صفر المظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاہل روم کے شر کو دفع کرنے کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اسامہ بن زیدؓ کے لشکر میں شامل ہو کر جہاد کے لئے جائیں۔
لیکن افسوس جس طرح کاغذ و قلم کے مطالبہ کو ٹھکرایا گیا اسی طرح اس حکم کی بھی نافرمانی کی گئی۔
2۔ اموی حکومت کا خاتمہ۔ سن 132 ہجری
معاویہ بن ابی سفیان نے اموی حکومت کو قائم کیا اور وہ اس سلسلہ کا پہلا حاکم تھا ۔ سن 132 ہجری میں آخری اموی حاکم مروان حمار پر اس حکومت کا خاتمہ ہوا۔
بنی امیہ کے بعد بنی عباس برسر اقتدار ہوئے۔ جنہوں نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی۔

27 صفر المظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رومیوں سےجنگ کے لئے اسامہ کو لشکر کشی کا حکم دیا ۔ سن 11 ہجری
2۔ صلاح الدین ایوبی ہلاک ہوا۔ سن 589 ہجری
شیعہ دشمن متعصب حاکم صلاح الدین ایوبی جس نے نہ صرف شیعوں پر مسلحانہ حملہ کیا بلکہ شیعہ تہذیب و ثقافت سے بھی نبرد آزما رہا۔
3۔ وفات مرجع تقلید ، مفسر قرآن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابو الاعلیٰ سبزواری رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1414 ہجری
4۔ وفات عالم، محقق، مورخ آیۃ اللہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب الصحیح من سیرۃ النبیؐ الاعظم و ماساۃ الزھراء ؑ) سن 1441 ہجری

28 صفر المظفر
1۔ شہادت رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ سن 11 ہجری
2۔ آغاز امامت حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام۔ سن 11 ہجری
3۔ غصب حکومت اسلامی۔ سن 11 ہجری
4۔ شہادت حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام۔ سن 50 ہجری
5۔ وفات فقیہ و خطیب اہلبیت علامہ شیخ جعفر شوستری رحمۃ اللہ علیہ صاحب کتاب خصائص حسینیہ ۔ سن 1303 ہجری
6۔ ولادت رہبر انقلاب اسلامی ایران آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ۔ سن 1358 ہجری

29 صفر المظفر
1۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کی سازش کی ۔ سن 13 بعثت
2۔ شہادت حضرت امام علی رضا علیہ السلام (روایت) سن 203 ہجری
3۔ نائجیریا کی فوج نے حسینیہ بقیۃ اللہ زاریا پر حملہ کیا، جس میں حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ابراہیم زکزکی دام ظلہ کے ایک فرزند شہید ہو گئے۔

خُدایا! مجھے اپنی، اپنے رسول اور اپنی حجت کی معرفت عطا فرما اور توفیق اطاعت کرامت فرما۔

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر "یحییٰ السنوار" کا انتخاب صیہونی حکومت کے لیے حیرت اور دہشت کا باعث بنا ہے۔ "یحی ابراہیم السنوار" حماس کی سکیورٹی سروس کے بانی ہیں، جس کا نام "مجد" ہے، جو داخلی سلامتی کے معاملات سے نمٹتا ہے۔ صیہونی حکومت ابھی ان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر یحییٰ السنوار کے انتخاب کو خطے اور دنیا میں مختلف ردعمل کا سامنا ہے۔ بعض نے اس انتخاب کو مزاحمت کو تقویت دینے اور شہید اسماعیل ہنیہ کے راستے کو جاری رکھنے کے لیے بہترین آپشن قرار دیا ہے۔

تحریک حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس انتخاب پر ردعمل کا اظہار کیا اور اس نازک مرحلے اور پیچیدہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات مین اپنے رہنماء کے طور پر "ابو ابراہیم" (عرف السنوار) ​​کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔حماس کے سینیئر ارکان میں سے ایک اسامہ حمدان نے اس حوالے سے کہا: "سیاسی بیورو کے نئے سربراہ کے طور پر السنوار کا فوری انتخاب حماس کی متحرکیت اور فعالیت کو ظاہر کرتا ہے۔" حمدان نے زور دے کر کہا: "حماس کا پیغام یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کیا ہے، جو غزہ میں 300 دنوں سے زیادہ عرصے تک جہاد اور میدان جنگ میں لڑنے کا امین و معتمد ہے۔"

السنوار کے انتخاب کو علاقے کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے اور دوسری جانب صہیونی حکام نے حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کے قتل کے مسئلے کو بھی اٹھایا ہے۔ صیہونی حکومت نے السنوار کی برطرفی کو غزہ کے خلاف جنگ کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا ہے، لیکن اب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔  سنہ 1989 میں مقبوضہ علاقوں کی ایک عدالت میں السنوار کو چار بار عمر قید کی سزا یعنی 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن آخرکار انہیں 22 سال قید کے بعد 2011ء میں صیہونی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا۔ وہ حماس کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کا نام امریکہ کی جانب سے مبینہ طور پر مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر ایسے حالات میں منتخب کیا گیا، جب وہ صیہونی حکومت کی نسل کشی کے باوجود غزہ میں مقیم ہیں۔ السنوار کو منتخب کرنے کے حوالے سے حماس کی حالیہ کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ اب بھی صیہونیوں کے خلاف مزاحمت اور کھڑے ہونے کو اپنا اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف حاصل کرنے کا اہم آپشن سمجھتے ہیں۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کی صیہونی حکومت کے خلاف لڑائی کی ایک طویل تاریخ ہے اور یحییٰ السنوار کا ذکر "الاقصیٰ طوفان" آپریشن کے ڈیزائنر اور رہنماء کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔

 بہرحال غزہ جنگ میں پیش رفت کا عمل فلسطینی عسکریت پسند گروپوں میں زیادہ استحکام اور یکجہتی کا باعث بنا ہے۔ ایسی صورت حال میں السنور کا انتخاب صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے زیادہ اتحاد اور تعاون کا باعث بنے گا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کی کامیابیوں نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور لڑائی کو تیز کر دیا ہے۔ بہرحال صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کی ایک طویل تاریخ کی وجہ سے السنوار ایک بہترین انتخاب ہے، جو مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو مزید مستحکم کریں گے۔
 
 
تحریر: احسان شاہ ابراہیم

۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پاسداران انقلاب نے اپنی بحری قوت میں اچانک اضافہ کرتے ہوئے بحریہ کو مزید اڑھائی ہزار سے زائد اینٹی شپ میزائل سسٹمز اور ڈرونز سے لیس کردیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بحریہ کو سونپے گئے 2 ہزار 654 ملٹری سسٹمز میں شامل میزائل درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کر سکتے ہیں جبکہ الیکٹرانک جنگی آلات بھی بحریہ کے سپرد کیے گئے ہیں۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے بحریہ کو دیئے گئے کروز میزائل دشمن کے ریڈار پر نہیں آسکتے اور دشمن کے ڈسٹرائیر کو غرق کرسکتے ہیں۔ پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ دشمن کو انتہائی قریب اور دور دونوں فاصلوں سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اگر ہم دشمن کو دور سے ہی کسی مقام پر روک نہیں سکتے تو پھر فطری طور پر مسئلا ہماری سرحد پر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں سروائیو کروانے اور محفوظ رہنے کیلئے خود کو مضبوط کرنا پڑے گا یا پھر ہتھیار ڈالنے ہوں گے، بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ خیال رہے کہ تہران میں حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایرانی قیادت کی جانب سے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد عالمی برادری کی جانب سے فریقین پر خطے میں کشیدگی میں کمی پر زور دیا جا رہا ہے۔