سلیمانی

سلیمانی

 اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی "جارحیت" کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اسرائیل کو مناسب ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ تہران کے قریب 3 مختلف مقامات پر حملوں کو ناکام بنانے کے لیے فضائی دفاعی نظام استعمال کیا گیا ہے۔ ایرانی خبر ایجنسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایرانی فوجی حکام نے کہا کہ اسرائیل کو مناسب ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، تہران کے قریب حملوں کو ناکام بنانے کے لیے فضائی دفاع نظام کا استعمال کیا۔ دوسری جانب ایرانی ایئر ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے تہران، خوزستان اور ایلام میں کئی فوجی مقامات پر حملے کیے، اسرائیل کے حملے فضائی دفاعی نظام کے ذریعے کامیابی سے ناکام بنائے گئے۔

ایرانی ایئر ڈیفنس نے کہا ہے کہ صہیونی جارحیت کے نتیجے میں کئی مقامات پر محدود پیمانے پر نقصانات ہوئے۔ اسرائیلی اور امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران پر حملہ 3 مرحلوں میں کیا گیا، دوسرے اور تیسرے حملوں میں ایران کی میزائل اور ڈرون حملے کرنے کی صلاحیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ایران پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا ہے جبکہ ایران کے سرکاری میڈیا نے تہران میں دھماکوں کی تصدیق کر دی۔ اسرائیلی فوج نے یکے بعد دیگرے ایران میں فوجی اہداف پر 2 بار کئی فضائی حملے کیے ہیں، اسرائیل نے شام میں بھی متعدد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے وعدہ صادق میزائل آپریشنز کے ردعمل میں سراسیمگی اور خوف کے عالم میں اسرائیلی جوابی حملے کی ناکامی سے ایران کی اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس پاور (دبدبہ) کا بھرپور اظہار ہوا ہے۔ ایران کے دفاعی نظام پر اسرائیلی حملے کے بعد چند پہلووں پر بات ہو رہی ہے۔ صہیونی دشمن کو محور مقاومت کی جانب سے چند سطحوں پر شدید جنگ کا سامنا ہے۔ پہلی سطح غاصب صیہونی ریاست کو اپنی سرحدوں کے اندر ہی فلسطین اور لبنان سے مزاحمت اور جنگ کا سامنا ہے۔ دوسری سطح دور سے یعنی عراق اور یمن سے شدید دباو اور طاقت کے انوکھے استعمال سے لرزہ دینے والی جنگ درپیش ہے۔ سب سے اہم ایران کیساتھ براہ راست جنگ ہے۔ یہ جنگ کی آخری سطح ہے۔ صیہونی دشمن ایران کے براہ راست جنگ میں محتاط ہے، اس کی وجہ ایرانی طاقت کا خوف ہے، اسی کو ماہرین صیہونی دشمن کیخلاف ڈیٹرنس کی پاور یا دبدبہ قرار دیتے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی حملے اسی وجہ سے محدود ہیں اور اسی تناظر میں اس کو امریکی حکومت سے بڑے پیمانے پر کارروائیاں نہ کرنے کی درخواست سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل ایرانی میزائل پاور اور تہس نہس کر دینے والے جنگی ساز و سامان کی وجہ سے جنگ کو براہ راست ایران تک پھیلانے میں خوفزدہ ہے۔ وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میزائل آپریشنز کی وجہ سے صیہونی دشمن کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ایران اسرائیل پر براہ راست حملوں کے ذریعے یہ ثابت کر چکا ہے کہ صیہونی رجیم کے خلاف حملہ نہ کرنیکی باتیں صرف ایک وہم ہے۔ ایران کے اسی خوف کیوجہ سے اسرائیل نے ایک محدود جوابی کاروائی کی ہے، وگرنہ اسی صیہونی ائیر فورس نے کیسے فلسطین اور لبنان کے شہروں کو دیدہ دلیری سے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔

دراصل صیہونی جس محدودیت کی بات کرتے ہیں، وہ ان کی منتخب کردہ نہیں بلکہ ایرانی جنگی تیاریوں کی وجہ سے مجبور ہیں کہ مخصوص دائرے سے باہر نہ نکلیں ورنہ یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ فوجی کاروائی کی بجائے ان کا زیادہ زور نفسیاتی حربوں کے ذریعے خاص ماحول بنانے پر تھا، جس کے لئے انہوں نے ضد انقلاب قوتوں، سوشل میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سافٹ پاور سے کام چلانے کی کئی کوششیں کی ہیں۔ اسی لئے اسرائیلی حملے کے بعد ضد انقلاب اسرائیل نواز میڈیا آوٹ لیٹس کو ان حملوں کے اھداف اور نقصانات بڑھا چڑھا کر دکھانے کا موقع نہیں ملا، نہ ہی مغربی میڈیا کے پاتھ کچھ آیا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں یہ وجہ ہے کہ ایران کے سامنے نہ ٹک سکنی والی صیہونی قوت دہشت گردی، تخریب کاری اور ففتھ کالم کے ذریعے نقصان پہنچانے میں مہارت کو استعمال کرتی ہے۔

صیہونی دشمن کو اس بات کا پتہ ہے کہ براہ راست تصادم میں ان کے بس میں نہیں، اس لئے اس سے اجتناب ہی میں عافیت ہے۔ اسی تناظر میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی بھی مشرق وسطیٰ میں اس کشمکش کا دائرہ کار محدود رکھنے پر مجبور ہیں تاکہ ان کی موجودگی اور خطے میں مستقر دفاعی طاقت کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ محور مقاومت نے ابھی تک اپنی طاقت کا ایک چوتھائی بھی مکمل طور پر استعمال نہیں کیا۔ امریکیوں کے نزدیک ان عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ نتن یاہو کا پاگل پن جنگ کی سطح اور دائرہ بڑھا سکتا ہے جس سے محور مقاومت کے تمام بازو خطے میں واضح زمینی برتری کو اپنے حق میں استعمال کر کے صیہونی حکومت کی رگ حیات کاٹ سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ کی رائے عامہ کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ امریکہ کے خلاف مزید بیدار کر سکتا ہے۔ 

اگرچہ کچھ لوگ وائٹ ہاؤس کے اس رویے کو انتخابات کے معاملے تک محدود سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں امریکا مشرق وسطیٰ میں نئی ​​جنگ سے خوفزدہ ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کب تک صیہونی حکومت کی حمایت کر سکے گا، خاص طور پر جب مزاحمتی قوتوں کی موجودگی میں جب ایران اعلی سطح کی جنگی قوت کا حامل ملک ہے۔ ایرانی ائیر ڈیفنس کی کاروائیوں کی تفصیل ابھی آ رہی ہے، لیکن یہ یقنی ہے تہران اور سمیت تمام شہروں مکمل امن ہے، اس سے کسی نہ کسی طرح یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب اس آپریشن میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ رائے عامہ کے میدان میں بھی یہ مسئلہ واضح ہے اور دفاعی لحاظ سے بڑے نقصان کی خبریں نہیں ہیں. بڑی بڑی دھمکیوں اور بڑھکوں کے باوجود اسرائیل ایران کیساتھ براہ راست پنچہ آزمائی سے قاصر ہے اور صرف محور مقاومت کیخلاف فلسطین اور لبنان کے شہروں کا نشانہ بنا رہا ہے۔

ایران کے پاس صیہونی کاروائی کا بھرپور جواد دینے کا واضح جواب ہے۔ نہ صرف صیہونی دشمن نے ایرانی سرزمین کو نشانہ بنایا ہے بلکہ اگر اس درندگی کا جواب نہ دیا گیا تو فلسطین اور لبنان کے عوام کیخلاف یہ مزید بھیانک حملے جاری رکھے گا۔ بے شک ایران کو جلدی نہیں لیکن ایران کی دفاعی طاقت کی موجودگی اور اثبات یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران جب چاہے اس کا دوچند جواب دے سکتا ہے اور دے گا، جیسا کہ گذشہ دو آپریشنز وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔

اسلام ٹائمز

اسرائیل نے  فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ  یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد ان کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں۔

اسرائیل کی جانب سے جاری تصاویر میں  دیکھا جاسکتا ہے کہ  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحے میں اسنائپر رائفل اور مشین گنیں بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ حماس نے اسرائیلی حملے میں یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔

 

 

عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے تصدیق کی ہےکہ یحییٰ سنوار اسرائیلی فورسز سے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے ہیں۔

خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے فلسطینی مزاحمتی تحریک نے مزید جوش پکڑلیا ہے، یحییٰ سنوار کی شہادت غاصب اسرائیل کے لیے تباہی کا پیغام ثابت ہوگی۔ یحییٰ سنوار شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے، وہ اپنی آخری سانس تک قابض فوج کے سامنے ڈٹے رہے اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، یحییٰ سنوار ہمارے عظیم شہدا اور قائدین کے قافلےکا تسلسل تھے، جنہوں نے اپنی زندگی قوم کے لیےقربان کر دی۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ روز دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے غزہ میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی موجود تھے۔

اسرائیل نے  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں
فوٹو: سوشل میڈیا
 

بعد ازاں اسرائیلی وزیر خارجہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ رفح میں عمارت پر کیے جانے والے حملے میں حماس سربراہ یحییٰ السنوار کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

اسرائیل نے  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں
 

میڈیا رپورٹس کے مطابق 16 اکتوبر کو اسرائیلی فورسز جب رفح کے علاقے میں آپریشن کر رہی تھیں تو اس وقت ان پر ایک عمارت سے فائرنگ کی جس کے جواب میں صیہونی فورسز نے ٹینک سے اس عمارت پر فائرنگ اور بمباری کی اور جب عمارت کا جائزہ لینے کے لیے ڈرون کیمرا اندر بھیجا تو ایک شخص تباہ حال عمارت میں زخمی حالت میں صوفے پر بیٹھا تھا۔

اسرائیل نے  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں
 

 

اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق آپریشن کے دوران حماس کے 3 کمانڈرز مارے گئے جن میں سے ایک کے بارے میں گمان ہوا کہ وہ یحییٰ سنوار ہیں تاہم اس بات کی تصدیق نہ ہو سکی۔

معاملے کے بارے میں معلومات رکھنے والے امریکی حکام نے اس حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے لاش کو تحویل میں لیکر دانتوں کے ریکارڈ اور دیگر بائیو میٹرک معلومات کے ذریعے تصدیق کی کہ حملے میں مارے گئے افراد میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔

 
Friday, 18 October 2024 21:44

یحییٰ سنوار کون؟

19 اکتوبر 1962 کو خان یونس کے ایک کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحییٰ ابراہیم حسن السنوار نے ابتدائی تعلیم خان یونس کے اسکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے 5 سال تک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کونسل میں خدمات انجام دیں اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔

یحییٰ سنوار کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ان کی مسلح جدوجہد اور طویل گرفتاری رہی اور پھر 2011 میں شالت (اسرائیلی فوجی) کی رہائی کی ڈیل کے تحت اسرائیلی جیل سے رہائی پانے کے بعد غزہ کی ایک مسجد میں ان کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر یحییٰ کا شمار حماس کی مزاحمتی تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں میں ہونے لگا۔

یحییٰ سنوار کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

 

یحییٰ سنوار کو حماس کے سیاسی ونگ اور عزالدین القسام بریگیڈ کی لیڈرشپ کے درمیان روابط قائم رکھنے کا ٹاسک دیا گیا اور پھر 2014 میں اسرائیلی جارحیت کے اختتام پر انہوں نے حماس کے فیلڈ کمانڈرز کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کروائیں جس کے نتیجے میں حماس کے کئی بڑے رہنماؤں کو عہدوں سے بھی ہٹایا گیا۔

ستمبر 2015 میں امریکا نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر انچیف محمد الضیف اور سیاسی ونگ کے رہنما راہی مشتہا سمیت یحییٰ سنوارکا نام بین الاقوامی دہشتگردوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔

13 فروری 2017 کو یحییٰ سنوار  اسماعیل ہنیہ کی جگہ غزہ پٹی میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہوں نے خلیل الحیہ کو اپنا نائب مقرر کیا اور پھر یحییٰ سنوار کو پارٹی انتخابات کے ذریعے غزہ پٹی میں حماس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا اور اسماعیل ہنیہ کو خالد مشعل کا جانشین بنا دیا گیا۔

برطانوی اخبار دی گارجین کی 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یحییٰ سنوار کے حماس میں آنے سے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی اور عسکری ونگ میں اندرونی رسہ کشی ختم ہوگئی اور حماس کی پالیسی کو غزہ کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ سے وضع کیا گیا۔

مئی 2018 میں یحییٰ سنوار نے الجزیرہ پر آکر غیر متوقع اعلان کر دیا کہ حماس پرامن عوامی مزاحمت کی پالیسی اپنائے گی جس کا مقصد ممکنہ طور پر حماس پر بہت سے مملک کی جانب سے لگا دہشتگرد تنظیم کا ٹیگ اتارنا اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنا تھا، اس اعلان سے ایک ہفتہ قبل یحیٰ سنوار نے غزہ کے شہریوں سے کہا تھا کہ اسرائیلی زنجیریں توڑ دیں، ہم دب کر مرنے سے شہید ہونے کو ترجیح دیں گے، ہم مرنے کے لیے تیار ہیں اور ہزاروں لوگ ہمارے ساتھ مریں گے۔

یحییٰ السنوار حماس کے نئے سربراہ بن گئے

 

مارچ 2021 میں یحیٰ سنوار دوسری مدت کے لیے غزہ میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہیں غزہ کا ڈی فیکٹو حکمران تصور کیا جانے لگا اور انہیں حماس میں اسماعیل ہنیہ کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص مانا جانے لگا۔

مئی 2021 میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے خان یونس میں یحیٰ اسنوارکے گھر پر بمباری کی گئی تاہم اس حملے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور پھر حملے کے اگلے ہفتے یحیٰ اسنوارکئی بار عوام میں دیکھے گئے اور پھر 27 مئی 2021 کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینتز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے قدموں پر چل کر اپنے گھر جاؤں گا، تمھارے پاس مجھے قتل کرنے کے لیے 60 منٹ ہیں اور پھر وہ اگلے ایک گھنٹے غزہ کی گلیوں میں گھومتے رہے اور سیلفیاں لیتے رہے۔

غزہ میں جاری حالیہ جنگ کے ابتدائی تین ہفتوں کے بعد یحیٰ سنوار نے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ  یرغمال بنائےگئے تمام اسرائیلیوں کے بدلے قیدی بنائےگئے تمام فلسطینیوں کو رہا کر دیا جائے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے حماس کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی کارروائی کا فیصلہ کیا جس کا نقصان انہیں مزید اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور فوجی گاڑیوں کی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔

 یحییٰ سنوار کو ایرانی دارالحکومت تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد  اگست میں حماس کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

 فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے آج اپنے ایک جاری بیان میں اپنے سربراہ "یحییٰ السنوار" کی شہادت کی خبر دی۔ جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کہا کہ یحییٰ السنوار موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ وہ غزہ میں شہادت کی تلاش میں تھے۔ وہ بہادری کے ساتھ میدان جنگ میں آخری سانس تک لڑے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ یحییٰ السنوار کی آخری تصویر نے جس خوبصورت پیغام کی نشان دہی کی وہ یہ کہ کوئی بھی عنصر ہمارے ہاں رکاوٹ نہیں بلکہ فلسطینی و غیر فلسطینی سمیت سارے خطے میں استقامتی محاذ کے تمام مجاہدین کے لئے "جدوجہد" ایک الہام بخش ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ سید عباس عراقچی نے ان خیالات کا اظہار اس وقت کیا جب وہ اپنے چوتھے علاقائی دورے کے دوران اپنے تیسرے سٹیشن ترکیہ میں موجود ہیں۔ اُن کے اس دورے کا مقصد فلسطین و لبنان کے خلاف صیہونی جارحیت روکنے کے لئے اقدامات کرنا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ساری دنیا میں ہم اور دیگر افراد فلسطینی عوام کی آزادی کے لئے یحییٰ السنوار کی فداکارانہ جدوجہد کو سلام پہنچاتے ہیں۔ اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ شہداء ہمیشہ زندہ ہیں اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین کو آزاد کرانے کا نصب العین پہلے سے کہیں زیادہ زندہ ہے۔ دوسری جانب حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ شہید یحییٰ السنوار آپریشن طوفان الاقصیٰ کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے پسپائی اختیار کئے بغیر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ اسلحہ اٹھایا اور فرنٹ محاذ پر قابض فوج کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے قابل فخر سرزمین غزہ کا دفاع کیا۔ دوسری جانب گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں "تل السلطان" کے علاقے میں IDF کی استقامت کاروں سے مڈبھیڑ ہو گئی جس کے نتیجے میں حماس کے پولیٹیکل بیورو چیف "یحییٰ السنوار" شہید ہو گئے۔
 
 
 
Thursday, 17 October 2024 06:54

اسلام کا نظریہ جنگ

اسلام دنیا کو امن کا پیغام دیتا ہے اور عالمی انسانی ترقی امن پر یقین رکھنے سے ہی ممکن ہے۔عالمی انسان تہذیب کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ امن کا دور دورہ ہو۔اسلام امن کا داعی ہے اور اسلام عالمی تہذیب کی تشکیل چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)) (سبأ-28)

اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

ہم قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام نے امن کو موقع دینے اور سلامتی کی بات کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)) (الأنفال-61)

اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

((يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ) (البقرة-208)

اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آ جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اسلام نے اپنے ایمان لانے والوں کو بار بار امن کی تاکید کی ہے اور امن میں داخل ہونے کاحکم دیاہے۔ اسلام تنازعات کے حل میں تلوار کے استعمال سے منع کرتا ہے یہاں تلوار سے مراد طاقت اور زور ہے۔ اسلام عقیدہ اور نظریہ کے مخالفین کے ساتھ ہر صورت میں جنگ کی بات نہیں کرتا جنگ صرف اس صورت میں کی جاتی ہے جب اپنے عقیدے اور جان کا دفاع کرنا ہو۔ یہ بات تو واضح ہے کہ وہ جنگیں جو صرف دشمنی کی بنیاد پر ہوتی ہیں وہ دراصل شیطان کی پیروی ہو رہی ہوتی ہے اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو بھڑکائے۔ اس طرح لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے،لوگوں کو ایمان کے راستے سے بھٹکا دیا جاتا ہے اور لوگ اللہ کی گروہی شکل میں نافرمانی کرتے ہیں۔ جنگ اسلام میں ایک روٹین سے ہٹا معاملہ ہے جسے اضطراری حالت میں اختیار کیا جاتا ہے۔ جنگیں مسلمانوں پر ان کو ان کے مذہب سے ہٹانے کے لیے مسلط کی گئی تھیں اور ان کا مقصد مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا تھا۔

وہ سیاسی تبدیلیاں اور ان کے نتیجے میں جو جنگیں واقع ہوئیں ان پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی وجہ فقط اور فقط اپنی جانوں اور مال کا تحفظ تھا۔ یہ جنگیں اسلام کا نظریہ نہ تھیں کہ ہر صورت میں واقع ہوں کیونکہ اسلام تو امن کا داعی ہے۔اس لیے اسلام نے ان جنگوں کی بھی شرائط قرار دیئے اور اہم شرط یہی تھی کہ اپنے مال و جان کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیں۔ اسی طرح انسانوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے ہونی چاہیں اور جنگ کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ جنگ کا آغاز نہیں کرنا۔ اسلام نے کسی پر اپنا عقیدہ مسلط کرنے کے لیے کبھی جنگ نہیں کی بلکہ ہمیشہ حریت عقیدہ کی تعلیم دی:

((لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا والله سَمِيعٌ عَلِيمٌ )) (البقرة-256)

دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

اسی حکم کی وجہ سے آپ کو کوئی ایک جنگ بھی نہیں ملے گی جو اپنے عقیدے کی نشر و اشاعت کے لیے کی گئی ہو۔اسی لیے اسلام میں ایسا کوئی بھی داعی نہیں ملے گا جس نے تلوار اور جنگ کے ذریعے دین کی دعوت دی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم یہودیوں، مسیحیوں اور کفار کے ساتھ میثاق مدینہ کا معاہدہ کیا اور یہ تینوں عقیدے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف تھے۔ اس میں مدینہ کے رہنے والے ہر عقیدے اور ہر فکر کےلوگوں کو امن دیا گیا تھا۔ مدینہ کی حکومت اور قیادت مسلمانوں کے پاس تھی اس کے باوجود انہوں نے کسی کو بھی عقیدہ کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا اور اس کے برعکس یہ کہا کہ تمام عقائد کے ماننے والے مدینہ پر حملہ کی صورت میں باہم مل کر حفاظت کریں گے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام امن کا دین ہے اور عقیدے کی آزادی دیتا ہے اور اسلام عقیدے کے مسائل میں تلوار کو یہ حق نہیں دیتا کہ اس کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے مشرکین کے ساتھ صلح حدیبیہ کی تھی اسلام نے ان پر طاقت کے ذریعے اسلام کو مسلط نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ مصالحت کی اور ان کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا اور کچھ سالوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر مکہ میں فاتحانہ داخل ہو گئے۔

اسلام کی خوبیوں میں سے ہے کہ اسلام نے ریاست میں بسنےوالوں کو عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا اور ان کی حفاظت کے بدلے ایک معمولی سا ٹیکس جزیہ کی صورت میں لیا اور یہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا اور انہوں نے ان کے رسم و رواج اور عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی دی۔ مسلمانوں پر زکوۃ کو فرض قرار دے دیا کہ وہ ریاست کو ادا کریں گے اس طرح اسلام نے ہر دو پر ریاست چلانے کے لیے ملی بوجھ ڈالا ۔

اسلام امن کا داعی ہے اس پر اسلام کے عملی اقدامات سے چند شواہد:

۱۔عرب کے زیادہ تر قبائل اسلام میں اپنی سوچ و فکر اور دعوت حسنہ کے نتیجے میں داخل ہوئے اور کسی بھی طرح سے تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے اسلام کی دعوت کا یہ خوبصورت طریقہ قرآن کریم کی اس آیت مجیدہ کی روشنی میں قائم فرمایا ارشاد باری تعالی ہے:

((ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) (النحل -125)

(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

اس دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں میں عرب کے دو معروف قبیلے اوس و خزرج بھی شامل تھے۔

۲۔اسلام کی دعوت محبت،اسلام کے تعارف اور لوگوں سے حسن سلوک سے دی گئی ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)) (الحجرات-13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔

یہ بات پھر سے واضح کر دیں کہ اس پیغام دعوت کے ساتھ کسی قسم کی جنگ اور  قتل و غارت شامل نہیں ہے کچھ لوگ اس طرح کے جھوٹے الزامات اسلام پر لگاتے ہیں۔

۳۔اسلام میں جنگ مجبوری کی حالت میں ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب اور کوئی راستہ نہ ہو۔ اس میں بھی دیکھا جائے تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں ان کی مجموعی تعداد اسّی بنتی ہے اور ان سب جنگوں میں مسلمانوں اور مشرکین کے مقتولین ملا کر بھی ان کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے۔

۴۔اسلام نے ایک نظریہ کے طور پر غیر مسلموں کو ان کے عقیدہ اور ان کے رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کے بدلے ایک معمولی سا ٹیکس رکھا جسے جزیہ کہا جاتا ہے۔

۵۔اسلام نے قتل و غارت کو ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا اور اس کے ذریعے ظالموں کو ان کے ظلم سے روکنا تھا اور مظلوموں کو ان سے نجات دلانا تھی یہ کوئی ایسا عمل نہیں جس کو پسندیدگی کے ساتھ اسلام نے اختیار کیا ہو ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ .............)) (البقرة-216)

تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے۔

اسلام میں جنگ کب کی جا سکتی ہے؟

یہ بات بار بار کی جا چکی ہے کہ اسلام امن کا داعی ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف بہترین انداز میں دعوت کے ذریعے بلاتا ہے۔اسلام جنگ کی اجازت کچھ شرائط کے ساتھ دیتا ہے اسلام اصل میں جنگ کے خلاف ہے کیونکہ جنگ انسانی تہذیب پر بھیانک اثرات مرتب کرتی ہے۔اسلام میں جنگ کی مندرجہ شرائط ہیں:

۱۔یہ جنگ ایمان اور عقیدے کی حفاظت کے لیے ہو دشمن  مسلمانوں پر ان کے  عقیدے کی وجہ سے ظلم کر رہے ہوں ارشاد باری تعالی ہے:

((أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)) (الحج-39)

۳۹۔ جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔

۲۔ان لوگوں سے جنگ کرنا جو مسلمانوں سے نفرت اوربغض پھیلا کر لڑنے پر اکساتے ہیں اور جارحیت کی مسلسل ترغیب دیتے ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

 ((وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ)) (البقرة-193)

اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔

اسلام نے اس وقت جنگ سے منع کیا ہے جب یہ لوگ اپنی دشمنی اور جنگ کی خواہش سے بعض آ جائیں۔

۳۔وہ لوگ جن پر ظلم کیا جا رہا ہو اگر وہ مسلمانوں سے مدد مانگتے ہیں تو ان کے دفاع کے لیے جنگ کرنا اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ ان مدد مانگنے والے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان میں کوئی دفاعی معاہدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ان کی حفاظت کی جائے گی ارشاد باری تعالی ہے:

((.....وَإِنِ استنصروكم فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ)) (الأنفال-72)

البتہ اگر انہوں نے دینی معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنا تم پر اس وقت فرض ہے جب یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہ ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔

اسلام کی جنگی شرائط اور ضابطے

۱۔دشمن کو دیکھتے ہی جنگ شروع نہیں کر دی جائے گی بلکہ جنگ سے پہلے ان کے ساتھ عقل اور امن کی زبان میں بات کی جائے گی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ ص کے وصی حضرت علی علیہ السلام کی یہی وصیت تھی آپ جنگ صفیں میں اپنے لشکر سے فرمایا کرتے تھے ان کے شروع کرنے سے پہلے جنگ نہ کرو ،اللہ کا شکر ہے کہ تم دلیل رکھتے ہو تم رکے رہو یہاں تک کہ وہ جنگ شروع کرکے تمہارے لیے دوسری حجت بھی فراہم کر دیں۔ آپؑ اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھے تم پہلے مبارزہ کی دعوت نہ دو۔

۲۔جنگ لڑنے والوں کے ساتھ کی جائے گی اور اس کے علاوہ کسی بشر و غیر بشر کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جنگ میں جتنا ہو اخلاقیات اور انسانیت کا خیال رکھا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی لشکر کو وصیت فرماتے تھے کہ خیانت نہ کرنا، بد عہدی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کھجور کو مت کاٹنا، پانی میں غرق مت کرنا، کسی پھلدار درخت کو مت کاٹنا، زراعت کو مت جلانا کوئی پتہ نہیں کہ تمہیں اس کی ضرورت پڑجائے، جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے انہیں ضرورت کے سوا مت مارنا۔ اسی طرح امام علیؑ نے حضرت مالک اشتر ؓ کو اس وقت خط لکھا جب وہ بصرہ کے محاذ پر حضرت ؑکے لشکر کے پہلے حصے کے سربراہ تھے کہ جولڑنا نہیں چاہتا اس پر طعن نہ کرنا،جو بھاگ رہا ہو اسے قتل نہ کرنا، جو دروازہ بند کر لے اسے امان حاصل ہے۔

۳۔غیر مسلموں کو اجارے پر لیا جاسکتا ہے اور ان کو جنگ کے دوران قتل سے امان دی جا سکتی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بھی مسلمان جو ادنی ہو یا اعلی ہو جب وہ کسی غیر مسلمان کو دیکھتا ہے تو وہ اس کا پڑوسی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ غیر مسلم اللہ کے کلام کو سن لے اور تمہاری پیروی کرے تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو اسے امان دو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نامہ حضرت علیؑ کو لکھا جس میں تحریر فرمایا خدا سے کیے گئے عہد میں خیانت نہ کرو،اس کی ذمہ داری کو پورا کرو،اللہ تعالی نے ذمہ اور عہد کو امان قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کے درمیان رحمت بنایا، تنگ دستی میں صبر کرو راحت کی امید  خیانت سے اچھی ہے جس کے پیچھے برائی چلی آتی ہے۔

۴۔مظلوم اور مستضعفین کی  جابرین اور فسادیوں کے خلاف مدد کرنا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا)) (النساء-75)

 (آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟

مسجد سہلہ اسلام کی بڑی، قدیم ترین اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اس کی تعمیر اور بنیاد پہلی ہجری میں ہی رکھی گئی اور یہ ابھی تک اسی شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے، اور یہ لاکھوں زائرین  کی زیارت گاہ بھی ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس کی بڑی منزلت ہے اسی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں اور حصوں سے لوگ اس کی زیارت کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد وہاں جاتے ہیں۔

یہ مسجد مہدی دوران امام العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے نام سے منسوب ہے، چونکہ یہیں سے آپ حکومت الٰہیہ کا آغاز کریں گے اور یہ مسجدہی آپ کی انقلابی تحریک کا مرکز بنے گی اور آپؑ اپنے اہل وعیال سمیت اسی مسجد میں قیام فرمائیں گے، بلکہ جب تک آپ ؑ کی حکومت باقی رہے گی آپ ؑ کی حکومت کا مرکز یہی مسجد ہی رہے گی۔

یہ عظیم مسجد عراق کے مقدس شہر کوفہ کے نواح میں واقع ہے، کوفہ دوسرا بڑا شہر ہے کہ جس کو مسلمانوں مجاہدین نے فتح کیا۔ یہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے جنوب میں ۱۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ مسجد مسجد کوفہ کے شمال مغرب میں واقع ہے، ان دونوں کے درمیان فاصلہ صرف دو کلومیٹر کا ہے۔ یہ مسجد مستطیل شکل میں بنی ہوئی ہے، اس کی لمبائی ۱۴۰ میٹر اور چوڑائی ۱۲۵ میٹر ہے، اور یہ ۱۷۵۰۰ مربع میٹر مساحت  پر پھیلی ہوئی ہے، اس کے چار کونوں میں نیم دائرہ شکل کے برج بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےمساوی فاصلے پر واقع ہیں۔ مشرقی ضلع کی دیوار کے درمیان میں ایک مینار ہے جس کی بلندی 30 میٹر ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ اس کے مشرقی ضلع کےبیج میں مذکورہ مینار کے نزدیک واقع ہے۔

یہ مسجد ۱۷ ایوانوں پر مشتمل ہے اورنماز پڑھنے کی جگہ اس کے مرکزی مقامِ مسجد کے جنوب کی طرف ہے، اور اس کے صحن میں بہت سے سی محراب موجود ہیں۔

کوفے میں موجود مساجد میں مسجد سہلہ دوسری بڑی مسجد ہے جو مسجد جامع کوفہ کی نسبت چھوٹی ہے  اور مسجد کوفہ سے دو کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے۔

مسلمانان جہاں کے ہاں اس مسجد کی بڑی عظمت ہے اور یہ کوفہ کی مقدس مساجد میں سے ایک ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ اس مسجد کو بابرکت مسجد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مسجد ظفر ایک بابرکت مسجد ہے، خدا کی قسم اس میں ایک صخرہ خضراء (اونچی جگہ یا سبز چٹان) ہے جس میں تمام انبیاء الٰہی کے چہرہ مبارک کی تصویر بنی ہوئی ہے اور وہ مسجد سہلہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جب ہمارا صاحب (امام مہدی) تشریف لائیں گے تو اسی مسجد میں اپنے اہل کے ساتھ قیام فرمائیں گے۔

یہ مسجد عراق کے فتح کرنے کے بعد تعمیر کی گئی، اوربعد از فتح عراق، عرب اسی کوفہ میں ہی سکونت پذیر رہے، چونکہ ہر گروہ اور ہر قبیلہ مخصوص جگہوں پر قیام پذیر تھے، تو ان میں سے بعض نے اپنے قیام کے دوران عبادت الٰہی کی خاطر مسجدیں بھی تعمیر کیئں، انہیں قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی ظہر تھا، وہ انصار مدینہ کے ظفرنامی شخص سے تعلق رکھتا تھا، اس کا اصل نام کعب بن خزرج، بن نبیت، بن مالک، بن اوس، بن حارثہ، بن ثعلبہ تھا۔ انہوں نے کوفہ میں قیام کے دوران اس مسجد کو تعمیر کروائی۔ یہ مسجد مسجدِکوفہ سے دور نہیں ہے۔

ابتداء میں یہ مسجد مسجدِ بنی ظفر کے نام سے مشہور تھی، چونکہ وہ لوگ نماز ، ملکی امور میں تبادلہ خیال، اور باسیانِ شہر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے اسی مسجد میں جمع ہوتے تھے، اور بعد میں مسجد سہلہ کے نام سے یہ مسجد مشہور ہوگئی۔ اس کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے چونکہ مسجد اور ارد گرد کی زمینیں بہت ہی نرم، اور وسیع ہیں اس لیے (سہل یعنی آسانی یا نرمی) سہلہ کہا جاتا ہے۔ سہل لغت میں حزن کے مقابل میں استعمال کیا جاتا ہے اور حزن کے معنی ہیں سخت، اور پریشانی۔ اور احتمال قوی کے مطابق یہی وجہ تسمیہ درست ہے، بازہم سہلہ کہنے کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جاتی ہے چونکہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والے کا نام سہل تھا جو بنی ظفر کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اس وجہ سے سہلہ کہا گیا ہے۔

سہل ایک صحابی تھا کہ جس نے جنگ احد میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی معیت میں جنگ کی۔

جیسا کہ تاریخدان لکھتے ہیں یہ اس مسجد کے سہلہ کے نام سے شہرت پانے سے پہلے دیگر بہت سارے نام تھے، مثلا؛ مسجد البرِ یعنی نیکی والی مسجد چونکہ اس میں بہت سارے نیک امور انجام پاتے تھے، اور اسی خیر اور برکت کی وجہ سے بر کہا جاتا ہے۔ مسجد عبدالقیس بھی کہتے تھے چونکہ یہ بنی عبد قیس کی زمین پر موجود تھی، اور مسجد قریٰ بھی کہتے تھے۔

اس مسجد کے تقدس کے بارے اہل عراق خاص کر اہل کوفہ قدیم زمانہ سے ہی بہت حد باخبر تھے ۔ بنی ظفر اپنے لیے اس مسجد کی تعمیر کی جگہ کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مقام پر بہت سارے انبیاء کرام اور صلحاء کے مقامات موجود تھے۔ اور مسجد سہلہ اس زمانے میں کوفہ میں تعمیر ہونے والی مساجد میں سے ایک بڑی مسجد تھی، جسے مسجد کوفہ کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد ہی تعمیر کی گئی۔ 

روایات کے مطابق یہ پہلے بہت سارے انبیاء علیھم السلام کی جائے رہائش و سکونت تھی۔ جیسا کہ صادق آل محمد علیہ السلام  مسجد سہلہ کے بارے میں فرماتے ہیں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر تھی اور آپ اس میں خیاطت کا کام کرتے تھے، آپ ہی وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے کپڑے کی سلائی شروع کی اورسیا ہوالباس پہنا شروع کیا۔ جبکہ اس وقت کے لوگ چمڑوں سے بنے ہوئے لباس پہنتے تھے۔

اسی مسجد سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم عمالقہ کی  طرف سفر کیا، یہیں سے حضرت داؤد نے جالوت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے سفر کیا، اس میں ایک سرسبز چٹان ہے کہ جس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی تصویریں موجود ہیں، اسی صخرہ سے ہی تمام انبیاء کی تخلیق کی مٹی کو چنا گیا۔ یہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کی ملاقات ہوئی۔

اس مسجد کے فضائل بیان کرتے ہوئے امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جو مسجد سہلہ میں دو رکعات نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالی اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام مسجد سہلہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ جب بھی کوفہ جائے تو ضرور مسجد سہلہ بھی جائے اور اس میں نماز پڑھیے، اللہ تعالٰی سے دنیوی اور اخروی حاجات طلب کرے، کونکہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام سلائی کیا کرتے تھے، نماز پڑھا کرتے تھے، او رجو شخص بھی اس میں جاکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اپنی شرعی حوائج کی برآوری کی دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجات برآوری کرتا ہے، اور قیامت کے دن حضرت ادریس علیہ السلام کے مقام کے برابر اس کا مقام بلند کرے گا، اور دنیا کی ناپسندیدہ چیزوں سے اسے دور رکھے گا، اور دشمنوں کے شر اور کید سے محفوظ رکھے گا۔

مسجد سہلہ میں بہت سارے مقدس مقامات ہیں:

جیسے مقام امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ: جو مسجد کے درمیانی حصے میں تھوڑا سا جنوب کی طرف مائل  اور امام سجادؑ اور حضرت یونسؑ کے مقامات کے درمیان واقع ہے۔

مقامِ حضرت امام سجادؑ: جو مسجد کے درمیان میں کمی جنوب مشرق سمت کی جانب مائل ہے۔

مقامِ حضرت امام صادقؑ: جو مسجد کے عین وسط میں واقع ہے۔

مقام ِحضرت خضر علیہ السلام ہے ۔

مقامِ حضرت ادریس علیہ السلام بھی اس میں موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ادریس کا گھر بھی یہی تھا۔ مقامِ صالحین بھی موجود ہے جیسے مقام ِنبیین یعنی حضرت ھود ؑ اور صالحؑ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اسی طرح مقام ابراہیم علیہ السلام بھی موجود ہے، کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا گھر بھی یہی تھا۔

Thursday, 17 October 2024 06:46

نماز کی تعریف اور مفہوم

لفظ "الصلاۃ" لغت میں دعا کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر دعا من جانب اللہ ہو تو رحمت اور اگر بندوں کی طرف سے ہو تو طلبِ رحمت ہوگا۔اور دعا کے لئے لفظ " الصلاۃ" کو قراردیا گیا جو کہ رفتہ رفتہ بہت سے مشترک معانی  میں استعمال ہونے لگے۔

لہذا لفظ " صلاۃ" لغت میں دعا اور رحمت  دونوں میں عام ہے یعنی اشتراک معنوی کی حیثیت سے یہ ایک کلی اور جامع  مفہوم رکھتے ہیں جس میں رحمت، استغفار،طلب رحمت اور دعا وغیرہ شامل ہیں۔

شریعت میں لفظ " صلاۃ" ایک منقول شرعی کا نام ہے یعنی شارع نے اس لفظ کو معنی لغوی سے معنی شرعی کے لئے نقل کیا ہے، لھذا صلاہ سے مراد وہ مخصوص کیفیت ہے کہ جس میں شارع کی طرف سے مقرر کردہ افعال جیسے تکبیر، قراءۃ، رکوع، سجود وغیرہ کو بجالاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لفظ صلاۃ کو شارع نے ان کیفیات کے لیے وضع کیا ہے جو بعد میں اسی معنی کے لئے خاص ہوگیا۔

 یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ "صلاۃ" لغت اور شریعت دونوں میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہے "خاص توجہ" لھذا شارع نے لفظ "صلاۃ"کو اس کے معنی لغوی سے نقل نہیں کیا بلکہ شارع نے لفظ صلاۃ کے بعض مصادیق میں سے اس معنی مخصوص کو متعین کیا ہے۔

مفهوم الصلاة لغة وشرعا:

لفظ ِصلاۃ لغت اور شریعت دونوں میں ایک ہی مفہوم رکھتا ہے تاہم مصادیق کے اعتبار سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔جیساکہ صلاۃ کا مفہوم حضرت عیسی بن مریمؑ  کے اس قول کے مطابق کہ جس کو قرآن نے یو ں بیا ن کہ ہے (وأوصاني بالصلاة...)(مريم ـ31) "اور زندگی بھر نمازکی پابندی کا حکم دیا ہے"

 اسی طرح زمانہ جاہلیت میں بھی مفہوم صلاۃ جیساکہ قرآن مجید میں مذکور ہے (وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية)(الأنفال ـ35) "اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی "اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں : (إن الله وملائكته يصلون على النبي...)(الأحزاب ـ56) "اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں" (ولا تصل على أحد منهم مات أبدا...)(التوبة ـ 84)، "اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں "  وغیرہ تمام موارد میں لفظ صلاۃ ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہے "خاص توجہ" تاہم ان کے مصادیق میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

پس صلاۃ کے مفاہیم کلی میں سے ایک مفہوم شرعی ہے اس سے مراد ارکان مخصوصہ ہیں  گویا کہ شارع مقدس نے اس لفظ سے ایک خاص کیفیت مراد لی ہے کہ جس میں شرائط مخصوصہ درکار ہیں۔ 

ارنا کے نے بدھ کی شام   لبنان کی اسلامی استقامتی تحریک کے انفارمیشن سینٹر کے حوالے سے رپورٹ  دی ہے کہ حزب اللہ نے دونوں پن پوائنٹ بیلسٹک میزائلوں کی فوٹیج جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ " قادر2" زمین سے زمین پر مار کرنے والا پن پوائنٹ بیلسٹک میزا‏ئل ہے جس سے حال ہی میں تل ابیب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

حزب اللہ کی جاری کردہ ویڈیو فوٹیج اور تفصیلات کے مطابق یہ بیلسٹک میزائل اسلامی استقامتی تحریک نے انجینیئروں نے اس میزائل کو اپ گریڈ کیا ہے اور حیاتی اہمیت کے اہداف کو بالکل صحیح  نشانہ بنانے کے لئے اس سے کام لیا جاتا ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ "قادر2" میزائلوں میں بہت زیادہ انہدامی توانائی پائی جاتی ہے۔   

حزب اللہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ میزائل پہلی بار چاراکتوبرکو آپریشنل ہوا۔

حزب اللہ لبنان نے اسی طرح ایک ویڈیو فوٹیج "نصر1" پن پوائنٹ بیلسٹک میزائل کی بھی جاری کرکے  بتایا ہے کہ " نصر1" میزائل کی رینج 100 کلومیٹر ہے، اور یہ میزائل 100 کلو کا وار ہیڈ لیجاسکتا ہے۔

 

حزب اللہ لبنان نے بتایا ہے کہ "نصر1" زمین سے زمین پر مار کرنے والا پن پوائنٹ بیلسٹک میزائل ہے جو اسلامی استقامتی تحریک کے انجینیئروں نے تیار کیا ہے۔

حزب اللہ نے بتایا ہے کہ یہ میزائل بھی حیاتی اہمیت کی تنصیبات اور مراکز کو بہت ہی دقیق نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حزب اللہ نے اس میزائل  کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ اس کے اندر دشمن کے ایئر ڈیفنس سسٹم کو منحرف کرنے کی منفرد صلاحیت پائی جاتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان نے "نصر1" میزائل 14 اکتوبر کو پہلی بار آپریشنل کیا ہے۔

اسرائیل جو خود ہتھیار بنانے والے ممالک میں سے ایک ہے، اس وقت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے ہتھیار درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) نے اسلحہ برآمد کرنے والے 10 بڑے ممالک کے حصے کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اسرائیلی حکومت کی زیادہ تر ہتھیاروں کی ضرورت امریکہ کی لامحدود امداد سے فراہم کی جاتی ہے، جو کہ ہتھیاروں کی درآمدات کا تقریباً 69 فیصد ہے۔ امریکہ نے غزہ جنگ میں اسرائیل کو بموں اور لڑاکا طیاروں سمیت ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دیے کر اس کی کی فوری منتقلی کی اجازت دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی تصدیق کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ ہتھیاروں کے نئے پیکجز میں 1800 ایم کے-84 2,000 پاؤنڈ بم اور 500 ایم کے-82 500 پاؤنڈ بم شامل ہیں۔

واشنگٹن اسرائیل کو سالانہ 3 ارب 80 کروڑ ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے۔ یہ پیکج ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیل کو غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی حملوں پر سخت بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے اور جو بائیڈن کی پارٹی کے کچھ ارکان نے بھی ان سے امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو فضائی دفاع اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے، لیکن کچھ ڈیموکریٹس اور عرب امریکی گروہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی مستقل حمایت پر تنقید کی ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، دو امریکی اہلکاروں نے اسے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر سے واشنگٹن نے کم از کم 14,000 مارک-84 بم جن کا وزن 500 پاؤنڈ ہے، 3000 ہیل فائر ایئر ٹو گراؤنڈ میزائل، 1000 مارٹر بم، 2600 ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور دوسرا گولہ بارود صیہونی حکومت کو ارسال کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسلحے کی ترسیل کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صیہونی حکومت کو امریکی فوجی امداد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ہتھیاروں سے متعلق امور کے ماہر ٹام کاراکو نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ یہ اعداد و شمار واضح طور پر اسرائیل (حکومت) کے لیے امریکی حمایت کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ IRNA کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اس نے 7 اکتوبر 2023ء کو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعد سے اسرائیل کو 50,000 سے زیادہ توپ کے گولے ارسال کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن کی انتظامیہ کو مبینہ طور پر کانگریس کو دیگر فوجی امداد کے بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت نہیں ہے بشرطیکہ اگر یہ ایک خاص رقم سے کم ہو۔

تاہم، امریکی میڈیا نے اسرائیل کو دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت کی اطلاع دی ہے، جس میں گائیڈڈ کٹس بھی شامل ہیں، تاکہ روایتی بموں کو پاتھ فائنڈر سسٹم والے گائیڈڈ بموں میں تبدیل کیا جا سکے۔ جرمنی اگلے نمبر پر ہے، جرمنی کی طرف سے اسرائیل کو اس ملک کی اسلحہ جاتی برآمدات کی مقدار (30%) ہے۔ لہذا اس پر حیران نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اسرائیل کی اتنی زیادہ حمایت کیوں کرتا ہے۔ اٹلی  سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات 0.9 فیصد ہے اور اس حوالے سے یہ تیسرے نمبر پر ہے۔ برآمدات کا یہ حجم بھی اٹلی کے لئے کافی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کاروبار کی وجہ سے غاصب صیہونی حکومت کی ہر جگہ حمایت کرتا نظر آتا ہے۔

SIPRI کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019-2023ء میں فرانس سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی کوئی بڑی برآمدات نہیں ہوئی، فرانس سے اسرائیل کو آخری بڑی ہتھیاروں کی برآمد 1998ء میں ہوئی تھی۔ تاہم فرانس نے کئی بار ہتھیاروں کے پرزے  ضرور فراہم کیے ہیں۔ برطانیہ اسرائیل کو ہتھیا برآمد کرنے والا بظاہر بڑا برآمد کنندہ نظر نہیں آتا، لیکن عملی طور پر یہ اسرائیل کی حمایت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو "ناپسندیدہ عنصر" قرار دینے کے بعد اسپین نے یورپی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کریں اور اس پر ہتھیار اور اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔

اسلحہ برآمد کرنے والے 10 اہم ممالک کی فہرست میں روس اور چین (تیسرے اور چوتھے بڑے برآمد کنندگان) کے نام ہیں، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم نہیں کرتے۔ 10ویں ہتھیار برآمد کرنے والے ملک کے طور پر جنوبی کوریا کا حصہ بہت کم ہے اور یقیناً اسرائیل خود جو کہ دنیا میں 9ویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ صورتحال  میں جرمنی سے ہتھیار درآمد کرنے کا لائسنس حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اس حکومت کو جرمنی سے ہتھیار درآمد کرنے کا لائسنس حاصل کرنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے
ترتیب و تنظیم: عمار پارسا