سلیمانی

سلیمانی

حضرت معصومہ (س) حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ہمنام ہیں اور اس ہمنام ہونے میں کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آپ نے علم اور عمل کے میدان میں اپنے تمام حریفوں اور رقیبوں پر سبقت حاصل کر لی تھی اور دوسرا یہ کہ آپ شیعوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے روکیں گی اور جیسا کہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا لقب معصومہ تھا کہ جس کی گواہی خود آیہ تطہیر دیتی ہے آپ کو بھی ایک امام معصوم ( امام علی رضا علیہ السّلام ) نے معصومہ کے لقب سے نوازا ہے۔

 

 

اس مقالے میں مقالہ نگار نے بطور اختصار 10 شباہتیں جو جناب فاطمہ معصومہ اور ان کی جدہ ماجدہ جناب فاطمۃ الزہراء میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں ان کو بیان کریں گے:

١ :ولادت سے پہلے ہی خوشخبری اور نام گزاری

جیسا کہ جناب فاطمہ زہرا کی ولادت سے پہلے رسول خدا کو نعوذ باللہ ابتر کے طعنے دیے جاتے تھے جس سے آپ کا دل غمگین ہو جایا کرتا تھا اس لیے خدا نے قرآن میں خیر کثیر یعنی کوثر کا ذکر کر کے اپنے حبیب کو جناب فاطمہ زہرا کی ولادت کی خبر دی اور جبرائیل کے ذریعے سے خدا کی طرف سے آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا ٹھیک اسی طرح سے جناب فاطمہ معصومہ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی ولادت کی خبر تمام شیعیان کو دی جاتی ہے اور آپ کا نام بھی ولادت سے پہلے ہی رکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ملتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : عنقریب میری نسل سے ایک با کرامت خاتون قم میں دفن ہوں گی کہ ان کا نام فاطمہ ہے۔

٢‌ :نام اور لقب میں اشتراک

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمنام ہے اور اس ہمنام ہونے میں کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آپ نے علم اور عمل کے میدان میں اپنے تمام حریفوں اور رقیبوں پر سبقت حاصل کر لی تھی اور دوسرا یہ کہ آپ شیعوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے روکیں گی اور جیسا کہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا لقب معصومہ تھا کہ جس کی گواہی خود آیہ تطہیر دیتی ہے آپ کو بھی ایک امام معصوم ( امام علی رضا علیہ السّلام ) نے معصومہ کے لقب سے نوازا ہے۔

٣ :مدافع ولایت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی پوری زندگی ولایت حقہ کی دفاع میں گزار دی یہاں تک کہ آپ کو اس راہ میں شہید کر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی اپنی جد ماجدہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی بھر ولایت حقہ (ولایت امام علی رضا علیہ السلام) کی ترویج کی اور کئی حدیثوں کو اپنے چاہنے والوں کے لیے نقل کیا جیسے کہ حدیث غدیر حدیث منزلت وغیرہ وغیرہ اور زیادہ تر حدیثیں جو آپ سے نقل ہوئی ہیں ولایت اور امامت حضرت علی کو ثابت کرتی ہے کہ جن کی ولایت اور امامت ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے اماموں کی بھی ولایت اور امامت ثابت ہو جاتی ہے۔

٤ :مقام علم

مقام علمیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اظہر من الشمس ہے کہ آپ علم ما‌ کان و ما یکون کی منزل پر فائز تھیں آپ ہی کے علم کے جریان سے مستفیض ہوتے ہوئے جناب معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی علم حاصل کیا اور جب معصومہ کے مقام علم کو آپ کے والد محترم جناب موسی کاظم علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا فداھا ابوھا اور یہی الفاظ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جناب فاطمہ زہرا کے لیے بھی استعمال کیے ہیں۔

٥ :مقام شفاعت

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی روز محشر اپنی جدہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ ہم زیارت نامے میں پڑھتے ہیں اشفعی لنا فی الجنہ یا امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ہے کہ آپ فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و تُدْخَلُ بشفاعَتِها شیعَتی الْجَنَّهَ بِاَجْمَعِهِمْ

٦ :زیارت ماثورہ

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کے لیے بھی امام معصوم علیہ السلام کی طرح زیارت نامہ موجود ہے۔ جب کہ غیر معصومین میں سے حضرت ابوالفضل اور حضرت علی اکبر علیہما السلام کے علاوہ کسی کے لیے زیارتنامہ روایت میں وارد نہیں ہوا ہے اور یہ زیارت نامہ آپ کے مقام اور منزلت کی تصدیق کرتا ہے باوجود اس کے کہ آپ امام معصوم نہیں ہیں لیکن آپ کی عظمت اتنی ہے کہ اپ کے لیے زیارت نامہ وارد ہوا ہے البتہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے کو مختلف طرق سے نقل کیا گیا ہے لیکن جناب معصومہ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے کو امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے۔

٧ :کریمہ

سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ معصومہ کا روضہ پوری تاریخ میں ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے پناہ گاہ رہا ہے اور تمام لوگ، نہ صرف شیعہ بلکہ سنی بھائی بھی، خصوصی توجہ اور عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ ان کی حاجت روائی کرتی رہتی ہیں اس لیے آپ لوگوں کے درمیان کریمہ اھل بیت کے لقب سے مشہور ہیں ۔ اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے کریمہ ہونے پر پورا سورہ دہر ( سورہ انسان ) دلالت کرتا ہے۔

٨ :شہرت خاص و عام

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذاتِ اقدس کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ کا چرچہ زبان زدہ خاص و عام ہے ٹھیک اسی طرح حضرت معصومہ کی عمر تقریباً 28 سال تھی جب آپ نے اپنے محترم بھائی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے ارادے سے اور شیعہ تعلیمات کی ترویج کے مقصد سے ایران قدم رکھا اور اس وقت بھی آپ کی شخصیت شیعوں کے درمیان مشہور و معروف تھی۔ قم کے شیعہ حتیٰ کہ ابن خزرج اشعری بھی اس دور کی مشہور شخصیات میں سے ایک تھے جو امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی بیٹی کو ان نام سے جانتے تھے، کیونکہ محترم خاتون، دونوں زمانوں میں ہی جب آپ مدینہ میں رہتی تھیں ۔ اور جب آپ نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا تو لوگوں کے درمیان مشہور تھیں ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیعوں کو آپ کی معرفت تھی اور معلوم تھا کہ کون سی عظیم شخصیت ایران میں داخل ہو رہی ہیں اور جیسا کہ آپ کی معرفت حاصل کرنے کا حکم حدیثوں میں بھی ملتا ہے۔ ( من زارھا عارفا بحقھا فلہ الجنہ)

٩ :کفو اور ھمسر

یہ نکتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا عام انسانوں میں سے کوئی بھی کفو و ھمسر نہیں تھا لہذا فقط امام معصوم حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہی آپ کے ھمسر و کفو قرار پائے۔ معصومہ سلام اللہ علیہا کا بھی اپنی محترم والدہ کی طرح غیر معصوموں میں کوئی کفو نہیں تھا۔

١٠ : ثواب زیارت قبر مطہر

علمی اور عملی کمالات کے لحاظ جناب معصومہ کی شخصیت منفرد نظر آتی ہے اور اگرچہ آپ کا مزار مقدس ظاہر ہے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک کی طرح پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس مکاشفہ کے مطابق جو بعض علماء اور اولیاء خدا پر ہوا ہےامام باقر یا امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: "جو شخص حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت کرے گا وہ وہی ثواب حاصل کرے گا جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کی زیارت کرنے والا کا ہے۔" ( علیک بکریمہ اھل البیت )

Friday, 17 May 2024 02:53

ایک منفرد یوم تاسیس

15 مئی کو نکبہ کی 76 ویں سالگرہ منائی گئی۔ صیہونی ہر سال 14 اور 15 مئی کو  جشن مناتے ہیں، کیونکہ یہ دن اس جعلی حکومت کے قیام کی سالگرہ ہے۔ اس سال کی کہانی البتہ کافی مختلف ہے۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا آٹھواں مہینہ گزر رہا ہے۔ اس جنگ کے جاری رہنے سے صیہونی حکومت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ان صیہونی قیدیوں کی رہائی ہے، جو حماس کے پاس ہیں۔ تاہم صیہونی حکومت کو اب تک ایسا کوئی ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے، جس سے وہ کہہ سکیں کہ انہوں نے اس جنگ میں اپنے اہداف حاصل کر لئیے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ صہیونی کابینہ قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے بجائے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے، جو کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف عوامی مظاہروں کا باعث بن گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں اور غزہ سے قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ طے پانے میں ناکامی کے خلاف آباد کاروں نے کئی بار مظاہرے کیے ہیں۔ احتجاج کرنے والے آباد کاروں نے نیتن یاہو کی کابینہ کی برطرفی اور قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا۔ صہیونیوں نے نعرے لگائے اور تحریک حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط اور غزہ کی پٹی سے صہیونی قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

گذشتہ روز غزہ میں مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی حمایت کرنے والے صیہونیوں نے صیہونی حکومت کی وزارت جنگ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک بار پھر مظاہرہ کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے وزارت جنگ کے ہیڈکوارٹر کے سامنے آگ لگا دی۔ حماس کی تباہی کے بارے میں اسرائیل کے تمام دعووں اور نعروں کے باوجود صیہونی حکومت ابھی تک حماس کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ میں مصروف ہے۔ شاونسٹ حکومت کے وزیراعظم کے طور پر، نیتن یاہو اپنے ذاتی مفادات کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

حالات کی اس پیچیدگی نے عملاً ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ اسرائیل کو اس دگرگوں صورت حال سے بچانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ آج اسرائیل کا یہ حال ہے کہ اس نے ان تمام 76 سالوں میں اس طرح کی صورتحال کا کوئی  تجربہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ نکبہ کا جشن منانے کے بجائے  نیتن یاہو  کی کابینہ کے خلاف زبردست مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی مسائل کے ایک سینیئر ماہر "علی عبدی" کا خیال ہے کہ اس سال یوم نکبہ ایسے عالم میں آیا ہے کہ صیہونی حکومت کو  طوفان الاقصیٰ آپریشن میں فوجی، انٹیلی جنس اور سیاسی شکست کے علاوہ فلسطینیوں کی اسلامی مزاحمتی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ صیہونی حکومت اسلامی مزاحمت سمیت ایسے بحرانوں سے دوچار ہے، جو اس حکومت کی پوری تاریخ میں منفرد ہے۔

مغربی ایشیائی مسائل کے ایک سینیئر ماہر "حسن ہانی زادہ" نے علاقے میں صیہونی حکومت کے قیام کے بعد کی آٹھ دہائیوں کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ: مقبوضہ فلسطین میں یومِ نکبہ کو 76 سال گزر چکے ہیں، تاہم اس وقت دہشت گرد حکومت کے حالات 1948ء سے بالکل مختلف ہوچکے ہیں، مغربی ایشیا میں بہت سے ڈرامائی واقعات رونما ہوچکے ہیں اور صیہونی حکومت اندرونی اور علاقائی انہدام کے چکر میں داخل ہوچکی ہے۔ صیہونی حکومت کی کمزوری اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ اس حکومت کے 80 سال پورے نہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

بہرحال اس سال کے یوم نکبت کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ جنگ سے غیر مطمئن صہیونیوں نے تل ابیب میں وزارت جنگ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے جشن کی بجائے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ جب کسی حکومت کے یوم تاسیس پر جشن کی بجائے اس حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ تیز ہو جائے تو اس ریاست کا مستقبل کیا ہوگا، اس پر تبصرہ بے معنی ہو جاتا ہے

تحریر: سید رضی عمادی

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، حلیمہ میلائی: گذشتہ دس سالوں میں عراقی کردستان کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے نیچروان بارزانی کا ایران کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ یہ دورہ انتہائی اہم اور حساس حالات میں انجام پارہا ہے جس کا زیادہ تر مقصد کردستان ریجن اور ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر گزشتہ سال تہران اور اربیل کے درمیان آنے والے سیاسی اور عسکری نشیب و فراز  کے بعد، یہ دورہ سفارتی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

نیچروان بارزانی، عراقی کردوں کا ایک ڈپلومیٹک مگر اعتدال پسند چہرہ، جسے عراق، خطے اور دنیا کے تمام سیاسی حالات میں ایک خاص قبولیت حاصل ہے۔
وہ اپنے آخری دورہ تہران کے تین سال بعد، کردستان کے سربراہ کی حیثیت سے ایران کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو وسعت دینے کی اربیل کی خواہش کا واضح پیغام لے کر تہران آئے ہیں۔

گزشتہ سال کے واقعات اور اربیل میں موساد کے خفیہ ہیڈکوارٹر پر ایران کے میزائل حملے کے بعد تہران اور اربیل کے درمیان گہرے تعلقات میں تناؤ کے بعد، یہ دورہ اس اہم نکتے کو واضح کرتا ہے کہ ایران، عراق اور کردستان پڑوسی، دوست اور اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔

کردستان کے سربراہ کا اعلی سطحی وفد کے ساتھ ایران کا دورہ کئی پہلوؤں سے قابل توجہ ہے جس کا اس مختصر مضمون میں جائزہ لیا گیا ہے۔

ایران عراق سیکورٹی معاہدے پر عمل درآمد اور اس عملی نفاذ کا جائزہ

ایران اور عراق کے درمیان سیکورٹی معاہدے کے نفاذ کے اور اس پر عمل درآمد کے لیے اربیل کی کوششوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرنا کہ جس میں ایران اور کردستان  کی مشترکہ سرحدوں سے ایران مخالف گروہوں کے انخلاء اور ان کو غیر مسلح کرنا شامل ہے، یہ موضوع بارزانی کے دورہ تہران کا نہایت اہم بلکہ مرکزی ایجنڈا ہے۔

ایران پر بارزانی کا اعتماد

اگرچہ کردستان کا ایران کے خلاف سرگرم خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ کبھی بھی معمول کا رسمی تعلق نہیں رہا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ نے بعض اوقات کردستان کے حکام کو ایران کی سرحدوں کے قریب دشمن ممالک کی سیکورٹی سروسز کی خفیہ موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے۔ جس کے جواب میں کردستان  کے حکام نے ہمیشہ اعلان کیا ہے؛ وہ کبھی بھی عراق کے شمال کو اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے خطرہ نہیں بننے دیں گے۔

اس دورے میں کردستان اور ایران کے درمیان اقتصادی اور تجارتی امکانات کے ساتھ ساتھ سیکورٹی، فوجی اور سیاسی شراکت داری کا جائزہ لیا جائے گا۔

ایران اور شمالی عراق کے درمیان اہم اقتصادی تعلقات

ایران اور کردستان کی مشترکہ سرحد صرف کردستان والی سائیڈ سے 230 کلومیٹر ہے۔ جب کہ کرمانشاہ اور مغربی آذربائیجان اس کے علاوہ۔ عراق اور کردستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی لین دین سےکا بڑھتا ہوا حجم، خاص طور پر بشماق سرحد  فریقین کو اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو خصوصی اہمیت دینے کا سبب بنا ہے۔ سلیمانیہ میں ایرانی قونصل نے کہا کہ گزشتہ سال کی کشیدگی سے قبل ایران اور کردستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 2.5 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، اگلے سال اس میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

ثقافتی اور سماجی تعامل

ہمہ جہت ثقافتی اور سماجی تعلقات کی ترقی اور سرحدی سفارت کاری کی مضبوطی ایک اور اہم عنصر ہے جو ایران اور کردستان کے درمیان اچھے تعلقات میں نہایت موئثر ہے اور فریقین اس کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہیں۔

 اسلامی جمہوریہ ایران اور عراقی کردستان کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوطی ایران اور عراق کی دو دوست قوموں کے دشمنوں کے لیے کبھی خوشگوار نہیں رہے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت دشمنوں کی کوشش ہے کہ میڈیا پروپیگنڈوں کے ذریعے ایران اور عراق، تہران اور اربیل کے تعلقات کو مخدوش بنا دیا جائے۔ ایک خطرناک اور شیطانی پالیسی تھی  جسے اسلامی جمہوریہ کی حکمت عملی اور عراق اور کردستان کے حکام کی کوششوں نے غیر موئثر بنا دیا۔

اربیل کے لئے تہران کی حمایت

اس حقیقت کے باوجود کہ اسلامی جمہوریہ ایران پورے خطے اور عراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، لیکن اس نے کبھی بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ جیسا کہ یہ بات اسلامی ایران کے تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وہ عراق اور دیگر ممالک میں اپنے دوستوں کی مدد کو آیا ہے۔ مثال کے طور پر عراقی ڈکٹیٹر صدام کے ساتھ جنگ ​​اور کردستان کے قیام کی کوششوں میں اس نے کردوں کی زبردست مدد کی اور داعش کے ساتھ جنگ ​​میں بھی ایران نے بھرپور مدد کی۔ 

اسی طرح کردستان نے جب بھی اپنے سیاسی بحرانوں کے حل کے لئے ایران سے مدد مانگی ہے، تہران نے بھرپور طریقے سے کردار ادا کیا ہے۔

 مثال کے طور پر متحارب جماعتوں اور عراقی شیعہ اور سنی سیاسی دھاروں کے درمیان تناؤ کو حل کرنے  کے لئے اربیل کی مدد کی۔

 اربیل اور بغداد کے درمیان تیل کی برآمدات، بجٹ اور کردستان کے پارلیمانی انتخابات کے التوا کے معاملے پر اختلافات جیسے چیلینجز بارزانی کے اس دورے کے اہم ایجنڈے کا حصہ ہیں۔


رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک روز قبل پیر کی صبح امور حج کے منتظمین اور خانۂ خدا کے بعض زائرین سے ملاقات کی۔اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں حج کو مادّی اور معنوی لحاظ سے کثیر جہتی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کے عزم و ارادے اور فیصلوں کے حقیقی سرچشمے کی حیثیت سے ذکر خدا درونی اور باطنی پہلو سے حج کے تمام مراحل کا سب سے نمایاں نکتہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے باہمی رابطے کو حج کا نمایاں اجتماعی و سماجی پہلو بتایا اور کہا کہ ایک خاص مقام اور ایک خاص وقت میں تمام لوگوں کو اکٹھا ہونے کی الہیٰ دعوت کا فلسفہ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے آشنائی، ہمفکری اور مشترکہ فیصلے کرنا ہے، تاکہ حج کے مبارک اور ٹھوس نتائج عالم اسلام اور پوری انسانیت کو حاصل ہوں اور اس وقت عالم اسلام، مشترکہ فیصلہ کرنے کے میدان میں ایک بڑے خلا سے دوچار ہے۔

انھوں نے قومی، ملی اور مذہبی اختلافات کو نظر انداز کیے جانے کو اتحاد کی لازمی تمہید بتایا اور کہا کہ تمام اسلامی مذاہب کے پیروکاروں اور تمام اقوام کے لوگوں کا ایک عظیم، ایک جیسا اور ایک شکل والا اجتماع، حج کے سیاسی و اجتماعی چہرے کا نمایاں جلوہ ہے۔ انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حج کا فریضہ، حضرت ابراہیم کے اسم گرامی اور ان کی تعلیمات سے جڑا ہوا ہے، دین خدا کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کو گرانقدر ابراہیمی تعلیمات میں سے ایک بتایا۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے یاد دہانی کرائی کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے برائت، حج کا ایک مستقل رکن رہا ہے، لیکن اس سال غزہ کے عظیم اور المناک واقعات کے پیش نظر، جنھوں نے مغربی تمدن کے خون آشام چہرے کو پہلے سے زیادہ نمایاں کر دیا ہے، اس سال کا حج، خاص طور پر برائت کا حج ہے۔

انھوں نے غزہ کے حالیہ واقعات کو تاریخ کے لیے ہمیشہ رہنے والی کسوٹی بتایا اور کہا کہ ایک طرف پاگل صیہونی کتے کے وحشیانہ حملے اور دوسری طرف غزہ کے عوام کی مزاحمت و مظلومیت تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی اور انسانیت کو راستہ دکھاتی رہے گی اور اس کی حیرت انگيز اور بے نظیر صدائے بازگشت غیر مسلم معاشروں اور امریکا اور کچھ دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں سنائی دے رہی ہے، جو ان واقعات کی تاریخ رقم کرنے اور معیار قائم کرنے کی نشانی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حج ابراہیمی کے موقع پر غزہ کے جرائم کے سلسلے میں امت مسلمہ کی ذمہ داری کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام ان پیغمبروں میں سے ہیں، جو انتہائی نرم اور مہربان دل کے مالک ہیں، لیکن یہی نبی خدا ظالم اور جنگجوو دشمنوں کے مقابلے میں پوری شدت سے اور کھل کر بیزاری اور دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔

انھوں نے قرآنی آيات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت کو مسلمانوں سے دشمن کا مکمل مصداق اور امریکا کو اس حکومت کا شریک جرم قرار دیا اور کہا کہ اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح کے حیوانیت والے سلوک کی طاقت اور ہمت ہوتی۔؟ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ مسلمانوں کو قتل اور بے گھر کرنے والا اور اس کا پشت پناہ دونوں ہی ظالم ہیں اور قرآن مجید کے صریحی الفاظ کے مطابق اگر کوئی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ بھی ظالم اور ستمگر اور اللہ کی لعنت کا مستحق ہوگا۔

انھوں نے عالم اسلام کے موجودہ حالات کے پیش نظر حج کے سلسلے میں ابراہیمی طرز عمل یعنی دشمنوں کے مقابل کھلم کھلا برائت و بیزاری کے اعلان کو ہمیشہ سے زیادہ ضروری بتایا اور کہا کہ اس بنیاد پر ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کو، فلسطینی قوم کی پشت پناہی کے سلسلے میں قرآنی فلسفے کو پوری دنیا تک پہنچانا چاہیئے۔ انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے دوسروں کا انتظار نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کرے گی، لیکن اگر مسلم اقوام اور اسلامی حکومتوں کے مضبوط ہاتھ مدد اور ہمراہی کے لیے آگے بڑھیں تو فلسطینی قوم کی المناک صورتحال جاری نہیں رہے گی۔

اس ملاقات کے آغاز میں حج و زیارت کے امور میں رہبر معظم کے نمائندے اور ایرانی حجاج کرام کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے ایک تقریر میں "حج؛ قرآن‌ محوری، یکجہتی و اقتدار امت اسلامی و دفاع از فلسطین مظلوم" کو اس سال کا سلوگن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "حج ابراہیمی خود کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ بیرونی جبر سے لڑنے اور مظلوموں کے دفاع کا ایک پلیٹ فارم ہے۔" حج و زیارت کی تنظیم کے سربراہ سید عباس حسینی نے بھی اس سال 87,550 ایرانی عازمین حج کی ادائیگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 9 سال کی معطلی کے بعد  خانہ خدا کی زیارت کے خواہشمندوں کے لئے صحت کی خدمات، رہائش، غذائیت اور نقل و حمل کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
 
 
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ سابق صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی جنگ میں بالکل کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ تل ابیب کی سڑکوں پر مظاہرین کا ہجوم بڑھ رہا ہے۔ نتن یاہو اسرائیلی عوام کے مطالبات کے برعکس جنگ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اولمرٹ نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ ہی اسرائیل کے حق میں بہترین آپشن ہے۔

انہوں نے وزیراعظم نتن یاہو کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ صہیونی یرغمالیوں کی نجات کی فکر میں نہیں ہیں بلکہ اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کا جاری رکھنے سے نتن یاہو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس دو آپشن ہیں؛ فوری جنگ بندی کے ذریعے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے یا حماس کو تباہ کرنے کے نام پر بے فائدہ جنگ جاری رکھے۔

نيكى كرنے والے افراد، خدا كے محبوب ہيں  برانگيختہ كرتے ہيں كى ترغيب دلاتى ہے۔ہر حال ميں دائمى انفاق كرنا ،غصہ پر كنٹرول كرنا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگذر كرنا، محبت خدا كے حصول كے عوامل ميں سے ہيں  

 

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
‏الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (‏134)

ترجمہ: وہ پرہیزگار جو خوشحالی اور بدحالی (غرضیکہ ہر حال میں راہِ خدا میں مال) خرچ کرتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کے قصور) معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ بھلائی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفســــــــیر قــــرآن:

1️⃣توانگرى و تنگدستى ميں انفاق كرنا، متقيوں كى خصوصيات ميں سے ہے.
2️⃣ معاشرے كے رفاہ و آسائش اور رنج و مشكلات ميں انفاق كرنا، متقيوں كى خصوصيات ميں سے ہے.
3️⃣ غصہ پينا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگزر كرنا، اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
4️⃣ايمانى معاشرے كى ضروريات پورى كرنا، صبر اور اجتماعى معاملات ميں درگزر كرنا اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
5️⃣ نيكى كرنے والے افراد، خدا كے محبوب ہيں برانگيختہ كرتے ہيں كى ترغيب دلاتى ہے
6️⃣ہر حال ميں دائمى انفاق كرنا ،غصہ پر كنٹرول كرنا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگذر كرنا، محبت خدا كے حصول كے عوامل ميں سے ہيں
7️⃣معاشرہ ميں افراد كے درميان سالم باہمى روابط برقرار ركھنے كيلئے ،اسلام اہميت كا قائل ہے
8️⃣ خدا كى محبت كا حصول نيك اعمال كو بہ نحو احسن انجام دينے كا مرہون منت ہے

حوزہ نیوز ایجنسی|

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے بروز جمعہ حضرت آیت اللہ جوادی آملی کے گھر پر ان سے ملاقات کی۔

انہوں نے کہا: حجاج اور حج کے ذمہ داران دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رفتار و گفتار سے اتحاد کی دعوت دیں تاکہ دوسرے حجاج آپ کے قول و فعل سے اتحاد کا احساس کریں۔

انہوں نے کہا: حج اسلام کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے، قرآن جو ایک بین الاقوامی کتاب ہے تین طرح کے خطاب موجود ہیں: قومی، علاقائی اور بین الاقوامی، اور قرآن کریم﴿یا ایها الذین آمنوا﴾ یعنی مسلمانوں سے زیادہ تمام عالم انسانیت سے بات کرتا ہے ﴿نَذِیراً لِلْبَشَرِ﴾، ﴿کَافَّةً لِلنَّاسِ﴾، ﴿لِلعالَمینَ نَذیرًا﴾ ، اور قرآن نصیحت کرتا ہے کہ مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی معاشرے کو پر زیادہ سے زیادہ امن بنایا جائے اور حج اسلام کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے،لہذا اس بین الاقوامی پروگرام کو ہمیں علم کی نشر و اشاعت کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔

آیت اللہ جوادی آملی نے قافلوں میں موجود علمائے کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: فتح خیبر کا دن مسلمانوں کی نجات کا دن تھا جس سے مسلمانوں کو بے پناہ خوشی ملی،فتح خیبر کے دن ہی امیر المومنین علیہ السلام کے بھائی جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس آئے، رسول اکرم (علیہ و علی آله آلاف التّحیة و الثناء) نے فرمایا آج دو پیارے اور خوشگوار واقعات پیش آئے: پہلا یہ جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس آگئے ہیں، اور دوسرا یہ کہ آج خبیر کو فتح کر لیا گیا ہے، اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس خبر پر زیادہ خوش ہوا جائے۔

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:اب ذرا آپ سوچیں کہ فتح خیبر کجا؟ اور جناب جعفر طیار کا حبشہ سے واپس آنا کجا؟ کیوں رسول اکرم (ص)نے فرمایا کہ اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس خبر پر زیادہ خوش ہوا جائے؟ اس کا راز یہ ہے کہ جناب جعفر طیار ایک عالمانہ ، محققانہ، اور ثقافتی کام کر کے واپس آئے تھے، یعنی اگر ایک عالم ایک ایسا ثقافتی کا انجام دے سکتا جو فتح خیبر کے مترادف ہو، اس لیے میں حج کے قافلوں میں موجود علمائے کرام سے خطاب کرتےہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے ثقافتی کام انجام دیں جس دین اسلام کی شان و منزلت دنیا کے سامنے عیاں ہو۔

 25 شوال المکرم امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے، اس موقع پر اپنے قارئین کے لئے امامؑ کی ایک روایت پیش کرنے جا رہے ہیں جس میں امامؑ نے اپنے چاہنے والوں کو چھ نصیحتیں فرمائی ہیں:

قالَ مولانا الامام جعفر بن محمد الصّادِقُ علیهما السلام:

إنَّ اللّه َ تَبارَکَ وَ تَعالی أَوجَبَ عَلَیْکُمْ حُبَّنا وَ مُوالاتَنا وَ فَرَضَ عَلَیکُمْ طاعَتَنا.

الا فَمَنْ کانَ مِنّا فَلْیَقتَدِ بِنا فَإنَّ مِن شَأنِنا: ألوَرَعُ وَالإجتِهادُ

و أداءُ الأمانَةِ إلَی البِرِّ وَالفاجِرِ وَ صِلَةُالرَّحِمِ وَ إقْراءُ الضَّیْفِ وَالعَفوُ عَنْ المُسی ءِ.

و مَنْ لَمْ یَقْتَدِ بِنا فَلَیسَ مِنّا.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

خدا نے ہماری محبت، ولایت اور اطاعت کو تم پر فرض کر دیا ہے۔

لہذا جو بھی ہمارا ہوگا وہ ہماری پیروی کرے گا ، ہمارا طریقہ اور شیوہ یہ ہے: تقویٰ اور پرہیزگاری، کوشش اور محنت، امانت واپس لوٹانا چاہے امانت رکھوانے والا نیک آدمی ہو یا گنہگار، صلہ رحم ، مہمان نوازی، خطا کرنے والے کو معاف کر دینا، لہذا جو ہماری پیروی نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

کتاب: الاختصاص: ۲۴۱

حوزہ نیوز ایجنسی 

Saturday, 27 April 2024 04:19

ایران کا حملہ یا انتباہ

14 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر انتباہی حملہ کرکے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ نہ کرکے اس کے کسی قونصل خانہ کو نشانہ بنائے گا، جس طرح اسرائیل نے براہ راست ایران پر حملہ نہ کرکے دمشق میں موجود اس کے قونصل خانہ پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے یہ حملہ اندھیرے میں نہیں کیا بلکہ دشمن کو آگاہ کرکے اس کی پوری توانائی کو ناکام بناتے ہوئے کیا۔جس وقت اسرائیل کی اتحادی فوجیں اسرائیلی فضائی حدود کا محاصرہ کئے ہوئے تھیں، ایران نے حملہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نیٹو افواج کی طاقت سے خوف زدہ نہیں ہے۔ البتہ بعض اس حملے کی تعریف کر رہے ہیں اور بعض تنقید۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے مجموعی طور پر تقریباً ایک سو ستّر ڈرونز، تیس سے زائد کروز میزائل اور ایک سو بیس سے زائد بیلسٹک میزائل مقبوضہ فلسطین کی جانب فائر کئے۔

ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو نیٹو افواج نے مشترکہ طور پر روکنے کی کوشش کی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر نیٹو افواج کی حمایت حاصل نہ ہو تو اسرائیل کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے مطابق انہوں نے 99 فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کر دیا لیکن وہ بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ایرانی میزائلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈیوڈ ہگاری نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران نے اسرائیل کی طرف 170 ڈرونز اور 30 کروز میزائل داغے، جن کو اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیلی فضائی حدود میں پہنچنے سے پہلے تباہ کر دیا۔ ان میں سے بعض نے نواٹیم ائیر بیس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اس ائیربیس کو معمولی نقصان پہنچا۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کبھی اپنے نقصان کی صحیح معلومات فراہم نہیں کرے گا، جیسا کہ حماس کے حملوں میں ہوئے نقصان کی صحیح معلومات کو مسلسل چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسرائیل نے میڈیا کو بھی محدود پیمانے پر کوریج کی اجازت دے رکھی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو ہونے والے نقصان کی صحیح جانکاری نہیں ہوپاتی۔ اس لئے حماس، حزب اللہ، انصاراللہ اور ایران کے حملے میں ہوئے نقصان کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک امریکی چینل "اے بی سی" نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ایران کے کم از کم 9 میزائلوں نے دو اسرائیلی ائیربیس کو نشانہ بنایا، جس میں تل ابیب کو کافی نقصان پہنچا۔ اس چینل کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ 4 ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے نیگیو ائیربیس کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 5 مزید میزائل نواٹیم ائیربیس پر گرے، جس کے نتیجے میں ایک c-130 ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے کم از کم 9 میزائل داغے اور ان میزائلوں نے دو فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا اور کافی نقصان پہنچایا۔

ایرانی فوج کے ترجمان نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ان کا مقصد شہروں یا عوامی مقامات کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ اسرائیلی فوجی مراکز کو ہدف بنایا گیا تھا، جس میں انہیں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ خاص طور پر اس ائیربیس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے ذریعے دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر حملہ ہوا تھا۔بعض وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایرانی حملے کو ناکام بنا دیا گیا اور ایران نے انتہائی کم درجے کے میزائیل اور ڈرونز استعمال کئے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ کم از کم کسی ملک نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی جرأت کا مظاہرہ تو کیا۔ اس سے پہلے ایران نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکی ائیربیس پر حملہ کرکے یہ بتلا دیا تھا کہ خطے میں امریکی فوجی مراکز محفوظ نہیں ہیں، جبکہ اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیا ہے، اس لئے زیادہ نقصان نہیں پہنچا، جبکہ عین الاسد ائیربیس اور دیگر فوجی مراکز کی سیٹلائٹ تصویروں نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا تھا۔

یہی صورتحال اسرائیل پر حملے کے بعد معرض وجود میں آئی۔ ناقدین کا یہ کہنا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیا ہے، اس لئے اس حملے سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اول تو ان کے دعوے بغیر دلیل کے ہوتے ہیں اور بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ایران نے اطلاع دے کر حملہ کیا ہے تو کیا اس حملے کو حملہ نہیں مانا جائے گا؟ یہ اطلاع امریکہ کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے نہیں تھی، جس کی طرف ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی اشارہ کیا۔ بعض کا یہ کہنا کہ یہ حملہ ایران نے اپنے قونصل خانہ پر ہوئے حملے کے جواب میں کیا تھا، اس کا فلسطین کے دفاع، بیت المقدس کی بازیابی اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ دمشق میں موجود ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیل نے حملہ کیوں کیا تھا۔؟

اگر وہ اس سوال کا صحیح جواب تلاش کر لیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ ایران کے قونصل خانہ پر اسرائیل کا حملہ غزہ کی حمایت کی بنیاد پر تھا۔ غزہ میں حماس کی مقاومت، لبنان کی سرحدوں پر حزب اللہ کی جانفشانی، بحر احمر میں حوثیوں کی دلیرانہ کارروائیاں اور شام و عراق میں مزاحمتی گروپوں کی استقامت، تنہاء ایران کی مرہون منت ہے۔ حماس اور مزاحمتی محاذ علیٰ الاعلان ایران کی حمایت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن جو لوگ حقیقت کو دیکھنا نہیں چاہتے، وہ اب بھی مسلکی عناد کے بھنور میں الجھے ہوئے ہیں، جبکہ وہ اردن اور دیگر نام نہاد مسلمان ملکوں کی مذمت نہیں کرتے، جنہوں نے ایرانی حملوں کو روکنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا۔ ایران کے حملے نے اسرائیلی شہریوں کی تشویش میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اب تک اسرائیلی حماس اور حزب اللہ سے عاجز تھے، کیونکہ غزہ اور لبنان اسرائیلی سرحدوں پر واقع ہیں۔

انہیں ایران کے براہ راست حملے کی توقع نہیں تھی۔ انہیں اسرائیل کے دفاعی نظام اور اپنی فوج کے بلند بانگ دعووئوں پر بہت اعتماد تھا، لیکن ایران نے ان کے بھرم کو پاش پاش کر دیا۔ اس وقت اسرائیل داخلی انتشار کا شکار ہے اور اس کے شہری اپنی فوج اور حکومت پر عدم اطمینان میں مبتلا ہیں۔ اس کو بھی ایران کی نمایاں کامیابی تصور کرنا چاہیئے کہ اس نے اسرائیل کے سیاسی اور سماجی بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ اب تک اسرائیل اپنے جاسوسوں کے ذریعہ ایران میں داخلی انتشار کو فروغ دیتا رہا ہے، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب اسرائیل کے شہری اپنی فوج کی طاقت اور حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انہیں باور کرا دیا گیا ہے کہ اب اسرائیل ان کے لئے محفوظ نہیں ہے۔ جس طرح فلسطین کو اس کے شہریوں کے لئے غیر محفوظ بنا دیا گیا، بالکل وہی صورتحال اسرائیل میں رونما ہوچکی ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کا حملہ اندھا دھند اور انتہائی خطرناک تھا، جبکہ ابتدا میں اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک بالکل برعکس بیان دے رہے تھے۔ یہ تمام بیانات اور صورتحال اسرائیلی شہریوں کے سامنے ہے۔ اگر ایران کا حملہ کمزور اور ناکام ہوتا تو اسرائیل کے اتحادی ممالک کب کا ایران پر حملے کا فیصلہ کرچکے ہوتے، اس بات کو دنیا سے زیادہ اسرائیلی شہری سمجھ رہے ہیں۔ آخر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایران کا یہ حملہ اسرائیل کے لئے ایک انتباہ تھا۔ ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کی فضائی حدود کو چھید کرسکتا ہے اور مختلف سمتوں سے اسرائیل پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ اس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسرائیل کسی بھی سطح پر محفوظ نہیں ہے۔ اب تک یہ بھی سوال کیا جاتا تھا کہ کیا ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ کرسکتا ہے۔؟اس نے عالمی طاقتوں کے سوالوں کا جواب بھی دیا اور حملہ کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو واضح انتباہ بھی۔ کیونکہ ایران کے حملوں کے روکنے کے لئے امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور دیگر نیٹو ممالک کی افواج نے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا۔

یعنی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے بوتے پر ایرانی حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے اس کے تمام اتحادیوں نے مل کر اسرائیل کا دفاع کیا۔ دوسرے ایران نے اپنے سستے اور سست ڈرونز کا استعمال کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق تنہاء اسرائیل کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، جس کی بنیاد پر اس کے اقتصادی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو میزائل ایران نے داغے، وہ بھی جدیدترین میزائل نہیں تھے، کیونکہ انتباہی حملے میں اپنی پوری توانائی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے۔ حماس جس نے بہت پہلے اسرائیلی دفاعی نظام کا پول کھول دیا تھا، ایران نے مختلف سمتوں سے حملہ کرکے اس کے اتحادیوں کو ہائی الرٹ پر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے تمام اتحادیوں نے متفقہ طور پر اسرائیل کو ایران کے خلاف جوابی کارروائی کرنے سے منع کیا، کیونکہ اس کے نتائج سنگین ثابت ہوں گے، جس کا اندازہ اسرائیل سے زیادہ اس کے اتحادیوں کو ہے، کیونکہ جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ملک مل کر ایران کے سستے ڈرونز اور میزائلوں کو اسرائیل پہنچنے سے نہیں روک سکے، تو پھر اندازہ کیجیے، جب ایران اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوگا تو انجام کیا ہوگا۔

تحریر: عادل فراز
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Saturday, 27 April 2024 04:13

امریکی طلباء میدان میں

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ اس دعوے کی واضح وجوہات ہیں۔ غزہ جنگ کے 200 سے زائد دنوں میں اطلاعات کے مطابق صیہونی حکومت نے اجتماعی قتل کے 3,025 واقعات کا ارتکاب کیا ہے، جن میں 41,000 سے زیادہ شہید یا لاپتہ ہوئے ہیں، جن میں سے 34,000 شہداء کی لاشوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے اور 7,000 تاحال لاپتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 77 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہداء میں سے 14 ہزار 778 بچے ہیں اور 30 ​​بچے قحط سے جاں بحق ہوئے۔ شہداء میں 9752 خواتین ہیں۔

اس بنیاد پر غزہ کے 72 فیصد شہداء خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ  پٹی میں 17 ہزار بچے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو کھو چکے ہیں۔ شہداء میں سے 485 طبی عملہ کے افراد ہیں۔ اس دوران 140 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ 11 ہزار زخمیوں کو ضروری طبی خدمات حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر بھیجنا ہوگا اور غزہ میں کینسر کے 10 ہزار مریض موت کی کشمکش میں ہیں۔ نقل مکانی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے ایک لاکھ 90 ہزار باشندے متعدی امراض میں مبتلا ہیں اور غزہ کی پٹی میں 60 ہزار حاملہ خواتین بھی طبی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ 350 ہزار لاعلاج مریض ہیں، جنہیں میڈیسن کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے خطرے کا سامنا ہے۔

ان تمام جرائم میں سے صرف ایک بھی جرم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (جس کی عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے)، کے لیے ایکشن لینے کے لیے کافی تھا، اقوام متحدہ نہ صرف یہ کہ صیہونیوں کے  جرائم کے خلاف رکاوٹ نہیں بنی، بلکہ اس کی بے عملی ان جرائم کے تسلسل کا بنیادی عنصر بن گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی چار قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے۔ اس کارروائی کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کو اپنی وسیع سیاسی، مالی اور یقیناً فوجی حمایت کے ساتھ، امریکہ نے ان جرائم کے تسلسل میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس جنگ میں بائیڈن نیتن یاہو کا اہم ساتھی بن گیا ہے۔

ان جرائم کی وسیع تر کوریج نے عالمی رائے عامہ کو بہت متاثر کیا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا کے 95 فیصد سے زیادہ لوگ اس محاذ آرائی میں فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگرچہ عالمی طاقت کی راہداریوں میں مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن انسانی ضمیر کی بیداری نے بالخصوص امریکہ میں ایک الگ مرحلہ طے کیا ہے اور اس نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک تبدیلی کا ایک بے مثال واقعہ دیکھ رہی ہے۔ امریکہ میں فلسطینی قوم کے کاز کی حمایت اور "فلسطین کو آزاد ہونا چاہیئے" اور "فلسطین سمندر سے دریا تک" امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں خصوصاً اس ملک کی فرسٹ کلاس یونیورسٹیوں کے طلباء کا بنیادی مطالبہ بن چکا ہے۔

اس حوالے سے کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ نے ویتنام جنگ کے بعد طلبہ کی تحریک کی سب سے بڑی لہر دیکھی ہے۔ ڈرانے، دھمکانے، یونیورسٹیوں کو بند کرنے، ورچوئل کلاسز کا انعقاد اور درجنوں طلباء کو گرفتار کرنے سمیت کئی اقدامات کئے گئے ہیں، لیکن یہ تمام دباؤ نہ صرف اس لہر کے خلاف رکاوٹ نہیں بنے ہیں بلکہ اسرائیل کے جرائم کے خلاف امریکہ کے عملی اور علمی حلقوں میں ہونے والے مظاہروں اور بائیڈن حکومت کی اس تحریک کے خلاف احتجاج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

گارڈین اخبار کے مطابق "کولمبیا" یونیورسٹی میں طلباء پر جبر اور درجنوں طلباء کی گرفتاری کے بعد امریکہ بھر میں طلباء نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج شروع کیا اور یونیورسٹی حکام سے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کریں۔ تاہم، رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاج صرف طلباء تک محدود نہیں ہے، گارڈین کے مطابق، ایک نیا کیمپ قائم کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی کے سینکڑوں فیکلٹی ممبران احتجاج کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ جنگ کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے، اس کے خلاف بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ہیں۔ اسی میدان میں ایک اور پیش رفت میں امریکن قلم ایسوسی ایشن کی ایوارڈ تقریب اس وقت منسوخ کر دی گئی، جب اس انجمن کے درجنوں ادیبوں اور نامزد افراد نے غزہ جنگ میں امریکی شرکت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ سالانہ تقریب 29 اپریل کو منعقد ہونی تھی۔ جن 10 مصنفین کو امریکن پین ایسوسی ایشن کے بک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، ان میں سے نو انجمن کی جانب سے فلسطینی مصنفین کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے تقریب میں شرکت سے دستبردار ہوگئے۔ ایک ایسے ملک میں جس کا بنیادی نصب العین آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی حمایت ہے اور اس ملک کی حکومتوں نے اس بہانے کئی ممالک پر حملہ کرکے لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا ہے، اب وہ فلسطین کی حمایت نہیں کرتا۔ اس ملک کی یونیورسٹیوں میں جنگ کے خلاف  لہر شدت پکڑ رہی ہے۔۔ امریکی حکومت کا ان مظاہروں کی مخالفت کا بہانہ یہود دشمنی قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ مظاہرین یہودی مذہب اور یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ صہیونی حکومت کے جرائم کے خلاف ہیں اور موسیٰ کے قانون کے نام پر انتہاء پسند ربیوں کے نظریئے کے خلاف ہیں۔

صہیونی ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انتہاء پسند ربی جنگی علاقوں میں موجود رہ کر اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینی خواتین اور بچوں کو قتل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیاں اسرائیل کے جرائم اور فلسطینی بیانیے کے ساتھ ملوث ہونے کی مذمت کیوں کرتی ہیں۔؟ اس سوال کے جواب میں شاید غزہ میں انسانی تباہی کی شدت اور انسانی ضمیر کے بیدار ہونے کو اس لہر کے شروع ہونے کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک بار جب صحیح اور غلط کی دو قسموں کا ساتھ ساتھ سامنا ہو جائے تو عقل سچ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔

امریکہ کے مین سٹریم میڈیا کی طرف سے غزہ جنگ کے بارے میں ایک بیانیہ تیار کرنے اور ظالم اور مظلوم کو مخلوط کرنے کے پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کے باوجود امریکی علمی طبقے کا ضمیر حکومتی بیانیے کے ساتھ نہیں چلا اور تاریخ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ اس ملک کے علمی و دانشگاہی حلقوں میں پیدا ہونے والی وسیع لہر کو اس مسئلے کا بہترین ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔غزہ میں گذشتہ 200 دنوں سے جاری جنگ نے اچھی طرح ظاہر کیا ہے کہ گذشتہ برسوں کی بظاہر خاموشی کے باوجود امریکی معاشرہ اس ملک کے مرکزی دھارے کے سیاسی اور میڈیا سے بالکل مختلف راستے پر گامزن ہے اور جبر کے خلاف حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلسطین کا دفاع کر رہا ہے۔

مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف اس ملک میں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے موقع ملا تو یہ ایک طاقتور لہر بن  سکتی ہے۔ اس میں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی سیاسی، تجارتی، فوجی، سکیورٹی اور تکنیکی اشرافیہ نے "کولمبیا" جیسی باوقار یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور اگر اسرائیل آنے والے سالوں میں امریکہ کی علمی و سائنسی برادری میں اپنی حمایت کھو دیتا ہے تو اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔

صیہونی مخالف تحریک امریکی سیاسی، عسکری، اقتصادی اور تکنیکی اداروں تک پھیل سکتی ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا حامی آنے والے سالوں میں اسرائیلی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والی موجودہ نسل آنے والے سالوں میں امریکہ کے سیاسی، عسکری اور اقتصادی اداروں میں داخل ہوگی، اس طرح یونیورسٹی کے ادارے میں صیہونیت مخالف تحریک کی تشکیل کا براہِ راست اثر امریکی سوسائٹی پر مرتب ہوسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کے حوالے  سے امریکہ میں آنے والے عشرے میں یقیناً منفی اثرات مرتب ہوں گے، اگر اس وقت تک اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔

تحریر: سید محمد امین آبادی