Super User
یہاں ہے رستہ نشر ہونے کی تاریخ 30
یہاں_ہے رستہ نشر ہونے کی تاریخ 01
طلبہ سے خطاب، کلیدی مسائل پرسیرحاصل
یہاں ہے رستہنشر ہونے کی تاریخ 26
طلبہ سے خطاب، کلیدی مسائل پرسیرحاصل
یہاں ہے رستہ نشر ہونے کی تاریخ 25
اوہایو میں شیعہ سنی مسلمان خواتین کا اجتماع میں اتحاد اور وحدت پر تاکید
رپورٹ کے مطابق شعیہ خاتون ایرام جعفری کی کوششوں سے اوہایو میں شیعہ سنی خواتین میں ہم آہنگی مہم شروع کیا گیا ہے
«ایرام جعفری» کے بھائی رضا جعفری ایک معروف سرجن تھا جو پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکا ہے.
اوہایو میں رہنے والی ایرام جعفری کا کہنا ہے کہ میرا بھائی ایک مثالی فرد تھا مگر دہشت گردی کی وجہ سے انکی جان چلی گئی مگر میں سنی کو نہیں بلکہ شدت پسندوں کو ذمہ دار سمجھتی ہوں۔
اوہایو کی خواتین کی کوشش ہے کہ شدت پسندی کے مقابلے میں ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے
خواتین کی کوششوں سے کولمبس میں شیعہ اسلامی مرکز اور اہل سنت کے مرکز «ورثینگتون» میں وحدت کی فضا قایم ہوئی ہے
محترمہ جعفری کا کہنا ہے کہ ہم الگ الگ نہیں رہنا چاہتے بلکہ ایکدوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کی زندگی ہماری خواہش ہے
سنی خاتون گلچین اوزر کا کہنا ہے کہ شدت پسندی روکنے کے لیے ہم اعتدال پسندی کا راستہ عام کرنا چاہتے ہیں
میڈیکل کی طالبہ محترمہ اوزر کا کہناہے کہ جب ہم یکجا ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم میں اختلاف بہت کم اور مشترکات بہت زیادہ ہیں
اوہایو کی مسلمان خواتین نے اسلامو فوبیا اور شدت پسندی دونوں کو خلاف اسلام قرار دیا ہے
اوہایو کی شیعہ ڈاکٹر ایسر حمودی کا کہنا ہے کہ داعش کے اکثر شکار مسلمان بنے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو کوئی دین اور ایمان نہیں۔
انکا کہنا تھا کہ کوئی دین اپنے بھائی،ہمسائے اور انسانوں سے نفرت نہیں سکھاتا اور اسلام تو محبت اور برادری کا دین ہے۔
ایران بعثت کے محاذ کے سربراہ کی حیثیت سے امریکی سرکردگی میں موجود جہالت کے محاذ کے مقابلے پر ہے
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کی عظیم الشان مناسبت کے موقع پراسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف عہدیداروں، تہران میں مقیم مختلف اسلامی ممالک کے سفیروں اور شہداء کے اہل خانہ نے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں صدر اسلام سے آج تک جاری رہنے والے دو محاذوں، بعثت اور جھالت کا تذکرہ کرتے ہوئے، بعثت کے سلسلے کے جاری رہنے کا اصلی نمونہ پیغمبران الہی کے وسیلے سے ہدایت یافتہ عقل، جبکہ شہوت اور غضب کو جاھلیت کا اہم ترین نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج امت مسلمہ کا اہم ترین وظیفہ امریکہ کی سرکردگی میں جاری جھالت کا مقابلہ کرنا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران بعثت کے محاذ کے سربراہ کی حیثیت سے اس راستے پر کہ جسے امام بزرگوار رح نے شروع کیا تھا بڑی طاقتوں سے خوف کھائے بغیر اپنی تحریک کو جاری رکھے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امت مسلمہ اور ایران کی عظیم ملت کو یوم مبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے آیات قرآنی کا حوالہ دیتے ہوئے بعثت کے گہرے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مبعث، جوش و جذبے کی عید، فطرت الہی سے رجوع کئے جانے کا دن اور عقل، آزادی، عدل و عدالت اور خدا کی بندگی کے ہمراہ زندگی گذارنے کا دن ہے اور پیغمبران الہی کا وظیفہ انسانوں کی اس پاک فطرت کی جانب ہدایت اور خداوند متعال کے احکامات کے دائرے میں رہنمائی کرنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ بعثت کی تعلیمات ہر دور میں بشریت کے لئے ضروری ہیں اور محاذ جاہلیت، بعثت کے مد مقابل محاذ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جاہلیت کا محاذ، پیغمبر اکرم ص کے زمانے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ پیغمبران الہی کی جانب سے ہدایت شدہ فکر سازی کے مقابلے میں مسلسل جاری رہنے والا ایک محاذ ہے اور آج بھی یہ سائنس و ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی جدید شکل کے ساتھ موجود ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ شہوت، غضب اور نفسانی خواہشات، جاہلیت کے محاذ کے اصل نمونے ہیں فرمایا کہ جاہلیت کے محاذ کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہمیشہ رنج و غم، محنت و مشقت، انسانیت کی تذلیل اور لاکھوں افراد کے قتل عام اور ملتوں کے مالی ومادی ذخائر کو نابود کئے جانے اور فساد کی صورت میں سامنے آیا ہے اور اس کی واضح مثال دو بین الاقوامی جنگیں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی سطح پر جاہلیت اور بعثت جیسے دو محاذوں کے آج بھی موجود ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر طاقتور افراد کا برتاو پیغمبران الہی کے وسیلے سے ہدایت یافتہ عقل کے دائرے میں ہوتو دنیا کی شکل کسی اور طرح کی ہو گی لیکن اگر ان کا برتاو نفسانی خواہشات، تسلط پسندی اور فتنہ انگیزی پر مشتمل ہو تو دنیا کسی اور طرح کی ہی ہو گی۔
آپ نے استعمار کے بوٹوں تلے اقوام عالم کے پامال ہونے کو جاہلیت کے محاذ کی سرگرمیوں کا ایک اور نمونہ قرار دیا اور برطانوی استعمار کے ہاتھوں دسیوں سال ہندوستان کی سرزمین کی تاراجی اور تیرہ بختی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جنگیں جو آج مغربی ایشیا کے علاقے میں جاری ہیں وہ بھی جہالت اور شیطان کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دنیا پر مسلط صیہونیت شیطانوں کی جانب سے سسٹم بنانے کا واضح نمونہ ہے، فرمایا کہ دنیا کی موجودہ صورتحال صیہونی سرمایہ داروں کے وسیع نیٹ ورک کے تسلط کی وجہ سے ہے کہ حتی امریکہ جیسی حکومت پر بھی ان کا اثر و رسوخ ہے اور مختلف سیاسی گروہوں اور پارٹیوں کے برسراقتدار آنے کے لئے شرط یہ ہے کہ صیہونیت کی پیروی اور اتباع کیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امت مسلمہ، ایران اور اسی طرح اسلامی بیداری کی عظیم تحریکوں کی اصل بنیاد ، فاسد صیہونی نظام کی حاکمیت کو قرار دیا اور فرمایا کہ اسی وجہ سے آج اسلامو فوبیا، ایرانی فوبیا اور شیعہ فوبیا امریکہ اور اس سے وابستہ ملکوں کی اصل سیاست ہے۔
آپ نے بڑی طاقتوں کی فتنہ و فساد پر مبنی سازشوں کے مقابلے میں ملت ایران اور اسلامی ملتوں کی بیداری اور ہوشیاری کو ان طاقتوں کی ناراضگی کی اصل وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسی وجہ سے ایران کو خطے میں امریکی پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے پابندیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں کیونکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے میں اپنی گھٹیا سیاست کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جہالت کے محاذ اور شیطانی طاقتوں کی حاکمیت کا نتیجہ طغیان اور طاغوت ہے، فرمایا کہ طاغوت اور جہالت پر مبنی محاذ ایٹم بم کے زریعے ہیروشیما میں لاکھوں افراد کے قتل عام کا سبب بنا لیکن کئی سال گذرنے کے باوجود وہ معافی مانگنے پر تیار نہیں ہے اور اب عراق اور افغناستان اور دوسرے ملکوں کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنے میں مصروف ہے لیکن انکی پیشانی پر بل تک نہیں پڑتے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی بھی کسی جنگ کی پہل نہیں کی اور نہ ہی کسی ملک کے خلاف فوجی کارروائی کی ہے لیکن اس نے ہمیشہ اپنے مواقف کو پوری طاقت کے ساتھ بیان کیا ہے اور آئندہ بھی بیان کرتا رہے گا۔
آپ نے امام بزرگوار رح کی اصطلاحات کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے اسلام متحجر کو امریکی اسلام کے مقابلے پر قرار دیا اور اسلام کی ان دونوں کیفیتوں کو اسلام ناب کے مقابلے پر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ فاسد اور مفسد گروہ کہ جو آج اسلام کے نام پر بدترین اور قبیح ترین جرائم انجام دے رہے ہیں انہیں مغربی طاقتوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ مغربی طاقتوں نے بظاہر داعش کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے لیکن درحقیقت یہ اس محاذ کے حامی ہیں اور اسلاموفوبیا کے دائرے میں یہ اپنی تشہیرات میں ان کو دولت اسلامیہ کا نام دیتے ہیں تاکہ اسلام کا چہرہ خراب کر سکیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای جہالت کے محاذ کی جانب سے اسلاموفوبیا کے باوجود اسلامی تحریکوں میں توسیع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی تحریک کہ جو ایران میں اسلامی نظام کی تشکیل کے ساتھ ہی مضبوط اور طاقتور ہوگئی ہے، یہ اپنے سفر کو جاری رکھے گی اور قطعا کامیاب ہوگی۔
آپ نے خداوند متعال پر توکل اور بڑی طاقتوں کی سازشوں اور دھمکیوں سے خوف نہ کھانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آج پوری امت مسلمہ چاہے وہ عوام ہوں، برجستہ شخصیات ہوں یا عہدیداران، اسلامی تحریک کے مقابلے میں اور جہالت کے محاذ کے مقابلے میں ان کے کاندھوں پر اہم ذ٘مہ داری ہے کہ اگر یہ ذمہ داری انجام دی تو خداوند متعال کا اجر اور ثواب ان کے شامل حال ہوگا اور جس کسی نے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو جان لیں کہ اسلامی تحریک رکنے والی نہیں ہے اور یہ اپنے سفر کو جاری رکھے گی کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کی مدد و نصرت ایک یقینی امر ہے
ہندوستان ایران میں مائع گیس کا ٹرمنل قائم کرے گا
ہندوستان ایران میں گیس فیلڈ کی توسیع اور مائع گیس کا ٹرمنل قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بات ہندوستان کے وزیر پیٹرولیم دھرمندر پردھان نے نئی دھلی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایران کی فرزاد گیس فیلڈ کی ترقی میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ مائع گیس ٹرمنل تعمیر کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
ایران کی فرزاد بی گیس فیلڈ سن دوہزار آٹھ میں ہندوستانی کمپنی او این جے ودیش نے دریافت کی تھی لیکن پابندیوں کے باعث اس علاقے میں ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا تھا۔
توقع ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کے موقع پر مذکورہ گیس فیلڈ کے ترقیاتی منصوبے سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی بائیس مئی کو دو روزہ دورے پر تہران پہنچیں گے ۔
ہندوستان کے وزیر پیٹرولیم نے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کو نئی دہلی تہران تعلقات کے فروغ کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
شہید مطہری، حیات اور خدمات

دنیا میں لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا ،قدرت کی پیدا کردہ اس خاک نے کتنے پیکر ایسے بنائے کہ جن کے کارناموں نے اس سر زمین کا سر عرشیوں کے سامنے فخر سے اونچا کر دیا ،چنانچہ ایک دن وہ آئے گا کہ جب یہ خاک ان کے نورانی کارناموں کو فخر کے ساتھ بیان کرے گی اور ان رشک آسمان خاکی انسانوں کی حیات کے ایک ایک درخشان لمحے کواتنے حسین اور رسا انداز میں بیان کرے گی کہ فرشتے جس کو سن کر عش عش کر اٹھیں گے " يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ۔ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا "اور پیکر خاکی کو وجود میں لاکر اسکو اپنی روح سے سرشار کرنے والی ذات ملکوتیوں کی بزم میں اعلان کرے گی" إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ " ۔
تاریخ کا دامن ایسے انسانوں سے خالی نہیں کہ جو نہ صرف دنیا میں آئے بلکہ اپنی پاک فطرت کے ساتھ علم اور تقوے سے سر شار ایک ایسی جاویدانی زندگی لے کر آئے کہ جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف ان کے اطراف کی پوری دنیا بلکہ پوری انسانیت کو روشن کیا اور جاتے وقت ایک طرف اگر ایک عہد کو اپنے ساتھ لے گئے تو دوسری طرف پوری ایک تاریخ کو اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے ۔ایسے لوگوں کو اگر کوئی یاد کرتا ہے تو اس کو باقی رکھنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی یاد میں اپنی بقا کا راز ڈھونڈھنے کے لیے ان کو یاد کرتا ہے ۔
تیرہ بھمن 1398 ہجری شمسی مطابق 3 فروری 1929 ء کے دن مشہد مقدس سے 75 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع فریمان نام کے ایک علاقے میں ایک نہایت اصیل علمی گھرانے میں اس دار نادار میں جس نو زاد نے آنکھ کھولی تھی کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ نو نہال ایک ایسی تاریخ رقم کرے گا کہ زمانہ جس کو بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول پائے گا ۔
ابتدائی تعلیم
ایک مکتب سے ابتدائی دروس کے ذریعے شہید مرتضی مطہرے نے اپنے جس علمی سفر کا آغاز کیا تھا اس کا پہلا پڑاو مشہد مقدس تھا ،جہاں سے انہوں نے علوم اسلامی کے مقدمات کو اپنے سفر کا توشہ بنایا اور سال 1316ھ ش مطابق1938ء میں رضا خان کی شدت کے ساتھ علماء کی مخالفت ،اور ان کے ساتھ ہر طرح کی بد سلوکی کا نظارہ گر ہوتے ہوئے ،اور رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود ،آشیانہء آل محمد ،قم المقدسہ میں رحل اقامت نصب کر کے ۱۵ سال کی مدت میں حوزے کے نامور اساتذہ یعنی مرحوم آیۃ اللہ العظمی بروجردی حضرت امام خمینی ۔مرحوم علامہ سید محمد حسین طبا طبائی سے ،فقہ ،اصول فقہ ، فلسفہء ملا صدرا ، عرفان ، اخلاق ،اصول اور الہیات شفائے بو علی اور دیگر دروس کے آب زلال سے اس قدر سیراب ہوئے کہ اس کے بعد تشنگان علم و عرفان کے لیے آب زلال کا چشمہ بن گئے ۔
شہید مرتضی مطہری نہ صرف ایک انتہائی وزین علمی شخصیت کے مالک تھے ،بلکہ اس الہی روح کے حامل خاکی انسان کے اندرایک ایسا انسان چھپا ہوا تھا جو انسان دوست تھا انسانیت کا ہمدرد تھا ،یہی وجہ ہے کہ قم المقدسہ کے قیام کے دوران اس کی عالمانہ زندگی نے عروج علمی کے زینے طے کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور سیاسی میدانوں میں بھی اپنی قابلیت و صلاحیت کا لوہا منوا لیا ، اور علم کو کتابوں سے نکال کر عملی میدان میں لے آئے جس کا بین ثبوت فدائیان اسلام کے ساتھ ان کا تنگا تنگ رابطہ تھا ۔
قم سے تہران کی جانب ہجرت
سال 1331ھ ش مطابق 1953میں عین اس وقت کہ جب استاد مطہری اسم با مسمی حوزے کے نامور اساتید میں شمار ہونے لگے تھے اور حوزے کے مستقبل کی امید بن گئے تھے ، اس روح مطہر نے گہوارہء علم کو خیر باد کہہ کر ان لوگوں کے درمیان میں جا کر رہنے کا فیصلہ کیا کہ جن کو علم و معرفت کی ضرورت تھی ،اور مستقبل میں ایک عالمی اسلامی تحریک کو جنم دینے کے لیے جن کو آمادہ کرنا تھا ،تا کہ ایک ایسا انقلاب وجود میں لایا جا سکے جو عصر حاضر کی دنیا کو اس دور کی ترقیوں کی چاشنی سے آشنا بھی کرے اور اسے چودہ سو سال پہلے آئے ہوئے دائمی اور قیامت تک رہنے والے خدائی قانون کی مضبوط پکڑ اور اس کی حقانیت اور حقیقت کو مومنین اور مخلصین کے ایمان پرور دلوں کے اندر سے نکال کرمعاشرے کی ہر فرد کو اس پر عمل کرنے کا سلیقہ سکھا سکے ۔
جو لوگ اخلاق الہی سے متخلق ہوتے ہیں ان کی فکر جولان اور ذات الہی مقاصد کے حصول کے پیچھے رواں دواں ہونے کی وجہ سے ان کے اندر سیمابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اورا رشاد و ہدایت کے کام ان کی زندگی کا خاصہ بن جاتے ہیں ،کچھ یہی کیفیت شہید مرتضی مطہری کی بھی تھی ،وہ تہران میں مدرسہء مرویہ میں تدریس ہو یا تالیف و تحقیق کا کام ہو ،تقریروں کا سلسلہ ہو یا انجمنوں کی بنیاد ڈالنا ہوخدا کے اس مومن بندے نے طلاب کی علمی تشنگی بھی بجھائی اور انجمنوںکی رہنمائی بھی کی یہاں تک کہ جب ڈاکٹروں کی اسلامی انجمن کی تشکیل ہوتی ہے تو1962 سے 1972 ء تک اس انجمن کے واحد مقرر پورے دس سال کے عرصے کے لیے استاد مطہری تھے ،اس دور کی انتہائی علمی بحثین آپ کی یادگار ہیں کہ جو آنے والی نسلوں کی علمی پیاس کو بجھاتی رہیں گی اور متلاشیان راہ حق کی ہدایت کرتی رہیں گی ۔
آیۃ اللہ مطہری اور امام خمینی کی معیت و اطاعت
اس پورے دور میں اور تمام تر علمی سماجی ،ثقافتی مشاغل اور دیگر نمایاں کاریوں کے باوجود امام خمینی کا یہ شاگرد امام اور انقلاب سے ایک لمحے کے لیے بھی الگ نہیں ہوا ،اور تہران میں امام خمینی کی رہنمائی میں ۱۵ خرداد جیسی انقلاب آفرین تحریکوں کا جنم مطہری کی پاک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جس کی پاداش میں ۴۳ دن تک اس اسوہء زہد و تقوی اور علم و آگاہی کو بڑی تعداد میں دیگر علماء کے قید و بند کی کٹھنائیوں میں رہنا پڑا ۔
آیۃ اللہ مطہری اور اسلامی انجمنوں کی سرپرستی
جب امام خمینی رہ نے آپ کو کچھ دیگر علاء کے ساتھ اسلامی انجمنوںکی سر پرستی کی خطیر ذمہ داری سونپی تو آپ کی قایدانہ صلاحیتیوں نے وہ کرشمے دکھائے کہ وہ اپنی تمام انجمنوں سمیت شاہ کے نوکروں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور قریب تھا کہ ان کو گرفتار کرکے ان کا کام تمام کر دیا جاتا لیکن ایک مومن کی نصرت کام آ گئی کہ جو قضاوت کے محکمے میں تھا اور قم میں کچھ عرصے تک آپ کے شاگردوں کے حلقے میں رہ چکا تھا ،چنانچہ آپ گرفتار ہونے سے بچ گئے ۔
لکھنا اور پڑھنا ایک عالم کا سب کچھ ہوتا ہے یہی وجہ تھی کہ شہید مطہری نے انجمنوں کی سر پرستی ،مسجدوں کی امامت ، بیش بہا اور محققانہ تقریروں کے سلسلے کو ۔مسجد ہدایت ،اور مسجد جامع نارمک وغیرہ میں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ لمحے بھر کے لیے بھی اس جامع علوم و فنون شخصیت نے تصنیف و تالیف سے ہاتھ نہیں روکا ،اور تالیفی کام میں دقیق اور بھاری علمی بحثوں سے گریز کرتے ہوئے کہ جو صرف علماء کے کام آتی ہیں اور ایک خاص طبقہ جن کا مخاطب ہوتا ہے ،آپ نے سماج کے فکری لحاظ سے متوسط طبقے اور عوام کو مخاطب بنایا ،اور دقیق فلسفی ،علمی اور فقہی و اصولی بحثوں کو الفاظ کے مناسب قوالب میں ڈھال کر ان کو عوام کے دل و دماغ تک پہنچایا ،اور اس سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کی جو ایک مرد مجاہد کا خاصہ ہوتا ہے ۔
استاد کا تحریکی نظریہ
استاد آیہ اللہ مطہری تحریک کے قایل تھے لیکن ہر طرح کی تحریک کے نہیں بلکہ ایک اسلامی تحریک کے قایل تھے ،اور انہوں نے اس کو اسلامی بنانے کے لیے عقیدے اور آیڈیالوجی کی مضبوط بنادیں فراہم کیں ،امام باڑے تعمیر کروائے ،تحریر و تقریر دونوں طریقے سہ ہر طرح کی گمراہی اور کج روی کا مقابلہ کیا ،لیکن چاہے وہ مدارس کی تاسیس ہو یا امام باڑوں کی تعمیر ہو یا مسجدوں کی ایجاد ہو یہ ساری چیزیں ہدف اور مقصد نہیں ہوتیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کے وسایل ہوتی ہیں ،چنانچہ اگر ایک مسجد مسجد ضرار ہو سکتی ہے تو ایک حسینیہ بھی حسینیہء ضرار ہو سکتا ہے ،یہی وجہ تھی کہ شہید مطہری نے1968 میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر حسینیہء ارشاد[امام باڑہ ارشاد] کی بناد رکھی ،لیکن جب دیکھا کہ اس کی اداری کمیٹی کے کچھ لوگ کجروی کا شکار ہیں اور وہ شہید مطہری کے علمی اصلاحی منصوبوں کے عملی جامہ پہننے کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں تو1971 میں اس کے باوجود کہ آپ نے اس کی بنیاد ڈالنے میں بہت زحمتیں برداشت کی تھیں اور آپ کو اس سے بہت امیدیں تھیں ،آپ نے اس کی اداری کمیٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا اور کنارہ کش ہو گئے ۔

شہید مطہری اور فلسطینی مظلومین کی حمایت
سال1970 میں آپ کے اور حضرت علامہ طبا طبائی اور آیۃ اللہ حاج سید ابو الفضل مجتہد زنجانی کے دستخط سے فلسطینی بے گھروں کی مدد کرنے کے لیے ایک پوسٹر کے منظر عام پر آنے کے بعد اور اس کے بارے میں حسینیہء ارشاد میں اس سلسلے میں ایک تقریر کرنے کی پاداش میں آپ کو گرفتار کر کے مختصر مدت کے لیے قید تنہائی میں دال دیا گیا لیکن جو شخص اپنے آپ میں ایک انجمن ہو اس کے لیے قید تنہائی کوئی مشکل ایجاد نہیں کر سکتی1971 سے1973 تک مسجد الجواد کے سارے تبلیغی پروگرام آپ کی نظارت میں انجام پاتے رہے اور آپ اس مسجد کے اصلی سخنور تھے یہاں تک کہ مسجد جواد اور اس کے بعد"امام باڑہ ارشاد" کو بند کر دیا گیا اور اس روح پاک کو ایک بار گرفتار کر کے کچھ مدت کے لیے جیل بھیج دیا گیا ۔
لیکن سمندر کی طغیانی کسی کے روکے سے کبھی رکی ہے کہ جو اس بار رکتی ، جیل سے آزاد ہوتے ہیں آپ نے تبلیغ اور تقریر کے سلسلے کو مسجد جاوید اور مسجد ارک وغیرہ میں شروع کر دیا ،کچھ عرصے کے بعد اس مسجد کو بھی بند کر دیا گیا اور شہید مطہری کی تقریر پر پابندی عائد کر دی گئی جس کا سلسلہ انقلاب کی کامیابی تک چلتا رہا ۔
اہم ترین خدمت
پوری زندگی میں شہید مطہری کی اہم ترین خدمت درس تقریر اور تالیف کتاب کے قالب میں بنیادی اسلامی عقاید اور آیڈیالوجی کی تبلیغ تھی ، اور یہ کام اس وقت انجام پایا کہ جب1973 سے لے کر1979 تک کے دوران بائیں بازو کے گروہوں کی تبلیغات کی بھرمار اور منحرف اور التقاطی گروہوں کے وجود میں آنے کا دور تھا ۔امام خمینی کے علاوہ شہید مطہری واحد وہ شخصیت تھی جس نے ،مجاہدین خلق ایران کے سرداروں کے خطر ناک ہونے کو بھانپ لیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دوسروں کو اس گروہ کے ساتھ تعاون کرنے سے روکا جائے اور آپ نے ان کی آیڈیالوجی کے بدل جانے اور انحراف پذیر ہو جانے کی پیشین گوئی بھی کر دی تھی ۔
حوزہ علمیہ قم میں تدریس
اس عرصے میں امام خمینی کے حکم سے آپ نے حوزہ علمیہ قم میں اہم ترین دروس کی تدریس کا کام شروع کیا اس کے لیے آپ ہفتے میں دو بار قم جاتے تھے ،اور اس کے ساتھ ہی تہران میں بھی اپنے گھر اور دیگر مقامات پر تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔
سال1977 میں دانشکدہء الہیات کے ایک کمیونسٹ استاد کے ساتھ جھڑپ کے نتیجے میں آپ کو وقت سے پہلے ریٹائر کر دیا گیا ۔ ان برسوں میں استاد نے کچھ علماء کے ساتھ مل کر ، جامعہء روحانیت مبارز تہران کی بنیاد رکھی اس امید کے ساتھ کہ دیگر شہروں کے علماء بھی با تدریج ایسی ہی تحریکوں کو جنم دیں گے ۔
امام خمینی کے ساتھ آپ کا رابطہ امام کو جلا وطن کر دیے جانے کے باوجود بھی خطوط وغیرہ کے ذریعے جاری رہا لیکن اس کے باوجود سال1977 میں آپ کو نجف اشرف کا سفر کرنے میں کامیابی ملی اور امام کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے ساتھ ،آپ کو تحریک کے اہم ترین مسائل اور حوزہء علمیہ کے بارے میں کسب فیض کرنے کا موقعہ نصیب ہوا ،مصفی خمینی کی شہادت اور اسلامی تحریک کے جدید دور کے آغاز کے بعد ،استاد مطہری ہمہ تن تحریک کی خدمت میں مشغول ہو گئے اور انقلاب کی اس تحریک کے تمام مراحل میں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا ،اسی سفر میں امام نے آپ کو شورائے انقلاب کی تشکیل کا حکم دیا ۔ امام خمینی کی ایران واپسی کے دوران امام کے استقبال کی کمیٹی کی سر براہی آپ کے کاندھوں پر تھی ،خلاصہ انقلاب کی کامیابی تک اور اس کے بعد آپ لگاتار اسلام کے اس عظیم الشان رہبر کے ساتھ رہے آپ کے دلسوز مشاور کی ذمہ داری نبھائی اور ہمشہ امام خمینی کا اعتماد آپ کو حاصل رہا ۔
شہادت
نیوزنور: آپ کی شہادت11 اردیبہشت 1358 ہجری شمسی مطابق 1 مئی 1979ء میں اس وقت ہوئی کہ جب آپ ایک سیاسی ،فکری اہمیت کے حامل اہم ترن جلسے میں شر کت کر کے باہر نکلے ،تو آپ کے سر میں گولی مار کر آپ کو شہید کر دیا گیا ،فرقان نام کے ایک جانی اور نادان گروہ نے آپ کو شہید کروایا تھا ،ایسی حالت میں کہ جب امام خمینی اور ملت ایران کو آپ کی ذات سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ،اس وقت اس عظیم شخصیت کی شہادت نے امام خمینی اور ملت ایران کو سوگوار بنا دیا ۔خدا کا درود وسلام ہوآپ کی روح پاک اور مطہر پر !
بقلم؛ حجۃ الاسلام سید مختار حسین جعفری کشمیری




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
