Super User

Super User

رپورٹ کے مطابق پانچ ہزار سے زائد علماء و مشائخ نے انتہا پسندی، فرقہ واریت، کرپشن کے خاتمے اور آپریشن ضرب عضب، نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ داعش اور القاعدہ کا طرز عمل خلاف اسلام او ر خود کش حملے حرام ہیں۔ دہشتگردوں کے مکمل خاتمے تک پاک فوج کا ساتھ دیں گے، انسداد توہین رسالت کیلئے عالمی سطح پر مؤثر قانون سازی کی جائے، کرپشن کے خاتمے کیلئے آرمی چیف کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، نفاذ نظام مصطفی کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے تحریک امن و محبت چلائی جائے گی۔ تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین کو سنگین ترین جرم قرار دیا جائے۔ اس بات کا اعلان انٹرنیشنل مسلم موومنٹ کے زیر اہتمام ایوانِ اقبال لاہور میں منعقدہ عالمی پیغام مصطفی کانفرنس میں دنیا بھر سے شریک علماء و مشائخ نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کیا ہے۔ کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ برطانیہ، امریکہ، ناروے، ہالینڈ اور دوسرے ممالک سے علماء و مشائخ نے شرکت کی۔

کانفرنس کی صدارت انٹرنیشنل مسلم موومنٹ کے سربراہ اور مرکزی جماعت اہلسنّت برطانیہ کے سرپرست اعلی پیر سید عبد القادر شاہ جیلانی نے کی جبکہ مقررین میں سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ محمد حامد رضا، پیر سید مظہر حسین شاہ گیلانی، پاکستان مشائخ کونسل کے چیئرمین پیر سید منور حسین شاہ جماعتی، جماعت اہلسنّت پنجاب کے صدر مفتی محمد اقبال چشتی، پیر سید صابر حسین شاہ گیلانی، پیر سید علی امام شاہ جیلانی، پیر سید مبارک علی شاہ جیلانی، علامہ ڈاکٹر محمد آصف ہزاروی، پیر سید سمیع الحسن گیلانی، پیر خالد سلطان قادری، علامہ سید شاہ حسین گردیزی، پیر سید فرحت علی کاظمی، پیر سید شمس الدین بخاری، علامہ خلیل الرحمن قادری، علامہ سید عظمت حسین شاہ، پیر سید دلشاد حسین شاہ، علامہ محمد رفیق سیالوی، علامہ سید زبیر احمد شاہ، پیر ضیاء المصطفیٰ حقانی، مفتی محمد نعیم المصطفیٰ چشتی، علامہ غلام محمد چشتی، علامہ ظہور احمد فیضی، پیر سید انور حسین شاہ قادری، صاحبزادہ سید شاہد حسین گردیزی، علامہ حافظ فاروق احمد چشتی، پیر سید فیض الحسن شاہ، پیر سید جلال الدین رومی، علامہ ڈاکٹر محمد عبدالقوی بغدادی، علامہ سید زبیر احمد شاہ اور دیگر شامل تھے۔

کانفرنس کی نظامت علامہ حافظ اشتیاق علی قادری جیلانی نے کی۔ کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے انٹرنیشنل مسلم موومنٹ کے سربراہ پیر ڈاکٹر سید عبد القادر شاہ جیلانی نے کہا کہ ناموس رسالت کا تحفظ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ امت مسلمہ تکفیریت اور خارجیت کے خاتمے کیلئے متحد ہو جائے۔ قیام امن کیلئے پیغام مصطفی کو اپنانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔ جہاد کے نام پر فساد کرنے والے اسلام کے باغی ہیں۔ عشق رسول ہی انتہا پسندی کا بہترین توڑ ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے کفر کے فتویٰ جاری کرنیوالی فیکٹریوں کو بند کرنا ہو گا۔ ہم دنیا بھر میں نبی امن و رحمت کے پیغام امن و محبت کو عام کریں گے۔ توہین رسالت کا ارتکاب کرنیوالے عالمی امن کے دشمن ہیں۔ تکفیریت عہد حاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کے خاتمے کیلئے پیغام مصطفی سے رہنمائی لی جائے، منبر و محراب کو نفرتوں کے پرچار نہیں بلکہ پیغام مصطفی کو عام کرنے کیلئے استعمال کیا جائے، لبرل ازم کا نعرہ قیام پاکستان کے مقاصد سے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نام نہاد جہادیوں کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام دنیا بھر میں بدنام ہوئے ہیں۔ پیر سید مظہر حسین شاہ گیلانی نے کہا کہ اہلسنّت شدت پسند نہیں امن پسند ہیں، داعش اسلام دشمنوں کے ایجنڈے پر چل رہی ہے، امت مسلمہ پیغام مصطفی کو اپنا کر عظمت رفتہ بحال کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عشق رسول کا لازوال جذبہ ہی امت مسلمہ کی اصل طاقت ہے، بے گناہوں کا خون بہانے والے مجاہدین نہیں مفسدین ہیں۔

پاکستان مشائخ کونسل کے چیئرمین پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نے کہا کہ پیغام مصطفی سے انسانیت سے محبت کا درس ملتا ہے، محبت رسول ہی ہر عبادت کی روح ہے اور محبت رسول کے بغیر ہر عمل بے نور ہے۔ پیغام مصطفی کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے، دینی جماعتیں اسلام آباد کے بجائے اسلام کو اپنی منزل بنائیں، اہل حق پاکستان کا نظریاتی تشخص ختم نہیں ہونے دیں گے، منکرین ختم نبوت کا تعاقب ایمان کا تقاضا ہے۔ جماعت اہلسنّت پنجاب کے صدر مفتی محمد اقبال چشتی نے کہا کہ علامہ ڈاکٹر محمد آصف ہزاروی نے کہا کہ اہلسنّت میں شدت پسندی پیدا کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، اہلسنّت کی حقیقی شناخت امن پسندی ہے، سچا عاشق رسول قانون شکن اور انتہا پسند نہیں ہو سکتا، صوفیاء کے ماننے والا ملک کا سب سے بڑا مکتبہ فکر امن و محبت کا علمبردار ہے، یارسول اللہ کہنے والے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر یقین نہیں رکھتے، علماء و مشائخ کو گالی گلوچ اور بد زبانی زیب نہیں دیتی۔ علامہ حافظ اشتیاق علی قادری جیلانی نے کہاکہ عالمی ایجنڈا کے تحت مسلم ممالک میں انتشار اور فساد پھیلایا جا رہا ہے، پاکستان کا مقدر سیکولر ازم نہیں نظام مصطفی ہے، عالمی طاقتیں مسلمانوں کے دلوں میں عشق مصطفی کے چراغ بھجانا چاہتی ہیں، نظام مصطفی ہی قوم کی آخری امید ہے، پیغام مصطفی کا پرچار انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی کا توڑ ہے، حضور نبی کریم سے اپنی جان، مال اور اولاد محبت کئے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔

کانفرنس میں منظور کی گئی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں نظام مصطفی نافذ کیا جائے، عریانی و فحاشی کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں، سودی نظام معیشت ختم کرکے اسلامی نظام معیشت نافذ کیا جائے، ایران اور سعودی عرب باہمی کشیدگی ختم کریں، یمن میں مستقل جنگ بندی کیلئے مسلم حکمران اپنا کردار ادا کریں، آپریشن ضرب عضب کا دائرہ ملک بھر میں پھیلایا جائے، پاکستان میں را کے نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں، وزیراعظم قانون ناموس رسالت میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی نہ کرنے کا دو ٹوک اعلان کریں۔

رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوری ایران کے سفیر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ، سینئر نائب صدر الماس حیدر، نائب صدر ناصر سعید، سابق صدور اور مختلف سیکٹرز سے تعلق رکھنے والے ایگزیکٹو کمیٹی ممبران سے ملاقات کی۔ ایرانی سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران سے سستی انرجی درآمد کرکے صنعت کا پہیہ رواں دواں رکھ سکتا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس میں منعقد ہونیوالی میٹنگ میں ٹیکسٹائل، لیدر، الیکٹرونکس، ڈیری اینڈ لائیو سٹاک، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایگزیکٹو کمیٹی ممبران میاں عبدالرزاق، شہزاد احمد، سابق صدور سہیل لاشاری، اعجاز بٹ، سرپرست اعلٰی آل پاکستان رائس ملز پیر ناظم حسین شاہ، سابق سیکرٹری جنرل سارک چیمبر رحمت اللہ جاوید سمیت دیگر کاروباری برادری شریک ہوئی۔ اس موقع پر ایرانی سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک کی کاروباری برادری کو تجارتی منڈیوں سے مکمل آگاہی نہ ہونے کے سبب تجارتی حجم کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بزنس کمیونٹی کو ہمہ وقت کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔

مہدی ہنر دوست نے کہا کہ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان کامیاب رہا۔ لاہور چیمبر کے سینیئر نائب صدر الماس حیدر نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ بھی ہونا چاہیے۔ قبل ازیں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے مزار اقبال پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا کلام پاکستان کے ساتھ ایران میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ ایرانی سفیر نے قونصل جنرل محمد حسین بنی اسدی کے ہمراہ بادشاہی مسجد میں رکھے گئے مقدس تبرکات کی زیارت کی اور مغلیہ طرز تعمیر کے عظیم شاہکار کا دورہ کیا۔ ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان مشترکہ ثقافتی و سماجی اقدار کی وجہ سے بھائی چارے کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا استحکام پاکستان کی ترقی و استحکام سے جڑا ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  مجلس خبرگان رہبری میں سیستان وبلوچستان کےعوامی نمائندے مولوی نذیراحمد سلامی نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے اس صوبے کے لوگوں کو ہدیہ تبریک پیش کرتےہوئے کہا ہےکہ حضرت علی علیہ السلام ایمان، تقویٰ ،لوگوں کی خدمت،عدل وانصاف کا قیام اورتمام امورمیں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمراہی جیسی صفات کے مالک تھے۔
انہوں نے مزید کہا ہےکہ اہل سنت کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام ایک خاص مقام رکھتےہیں اوراہل سنت کے علماء نے بہت زیادہ کتابیں تحریرکی ہیں۔
مولوی سلامی نے کہا ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر سے ایک دن قبل فرمایا کہ کل میں یہ علم اسے دوں گا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ہاتھوں سے عالم اسلام کوفتح کو تحفہ دے گا اور وہ شخص حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اورنہیں ہے۔
انہوں نےمزید کہا ہے کہ نہ فقط فقہی کتابوں بلکہ اہل سنت کے ادبی مآخذ میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومنزلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
انہوں نےحضرت علی علیہ السلام کو تاریخ اسلام کا چمکتا ہوا ستارہ قراردیتےہوئے کہا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام عالم اسلام میں عدل وانصاف کا نمونہ ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے قزاقستان کے صدر سے ملاقات میں فرمایا کہ امریکہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دعوے دار طاقتیں اپنے دعوے میں سچی نہیں ہیں-

قزاقستان کے صدر نور سلطان نظربایف اور ان کے ہمراہ وفد نے پیر کو رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی - اس موقع پر آپ نے ایران اور قزاقستان کے درمیان مختلف سیاسی ، اقتصادی، اور عالمی امور نیز دہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں تعاون بڑھانے کی ضرورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض طاقتیں خاص طور پر امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوؤں میں سچا نہیں ہے لیکن اسلامی ممالک، سچائی کے ساتھ تعاون کر کے عالم اسلام سے اس خطرے کو دور کر سکتے ہیں-

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق میں امریکیوں کی جانب سے داعش کی مدد کو دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے دار انواع و اقسام کے اتحادوں کے جھوٹ کا ایک نمونہ بتایا اور فرمایا کہ وہ اپنے جھوٹے رویے کا جواز پیش کرنے کے لئے دہشت گردی کو اچھی اور بری دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں -

رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ میں دہشت گردانہ واقعات میں ملوث عناصر کی شہریت اور شام و عراق میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں ان کی بھرپور موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب بالخصوص امریکی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں ہیں-

آپ نے دہشت گردی کے خطرے اور طاقتوں کے دہرے رویوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی ممالک کے درمیان منطقی اور عاقلانہ پالیسیوں کے تناظر میں تعاون میں اضافے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، مسلمان ممالک کے لئے برادرانہ جذبات رکھتا ہے اور بہت سے عالمی مسائل میں ایران اور قزاقستان کے مواقف یکشاں ہیں-

اس ملاقات میں کہ جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے ، قزاقستان کے صدر نورسلطان نظربایف نے ایران کو ایک عظیم اور قابل اعتماد پڑوسی قرار دیا اور فرمایا کہ دونوں ممالک کے اندر، تعلقات کو فروغ دینے کے لئے بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور ہم نے اس دورے میں اہم تجاری اور اقتصادی پروگراموں کے سلسلے میں معاہدے کئے ہیں کہ جو تعاون میں اضافے اور فروغ کا باعث ہوں گے-

قزاقستان کے صدر نے دہشت گردی کو علاقے اور دنیا کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دیا اور مغرب میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور مغرب کی جانب سے اسلام کو دہشت گردی کی علامت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور پڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی ہجرت درحقیقت مغربی طاقتوں کی جانب سے علاقے کے ممالک کی قانونی حکومتوں کے خلاف کارروائیوں کا نتیجہ ہے کیونکہ اگر کسی ملک کی پائدار مرکزی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو اس کی جگہ دہشت گردی لے لیتی ہے-

نظر بایف نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت و استحکام اور اسلامی ممالک میں رہبر انقلاب اسلامی کے معنوی و روحانی اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں عالم اسلام میں اتحاد کے بارے میں جناب عالی کے نظریات سے بھر پور اتفاق رکھتا ہوں اور پوری دنیا پر یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ اسلام، پیشرفت ، اتحاد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کا دین ہے-

اور اﷲ ہی ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھار کر اکٹھا کرتی ہیں پھر ہم اس (بادل) کو خشک اور بنجر بستی کی طرف سیرابی کے لئے لے جاتے ہیں، پھر ہم اس کے ذریعے اس زمین کو اس کی مُردنی کے بعد زندگی عطا کرتے ہیں، اسی طرح (مُردوں کا) جی اٹھنا ہوگا [35:9]

اسلامی جمہوریہ ایران اور ہندوستان کے پٹرولیم کے وزیروں نے پیٹرولیم اور انرجی کے شعبوں میں باہمی تعاون پر بات چیت کی ہے -

ہندوستان کے پیٹرولیم کے وزیردھرمیندر پردھان نے اپنے دورہ تہران میں ایران کے پیٹرولیم کے وزیر بیژن نامدار زنگنہ کے ساتھ ملاقات میں فرزاد بی گیس فیلڈ کے توسیعی منصوبے میں شراکت، ایران کے تیل کے رقم کی ادائیگی، سمندرکے راستے گیس پائپ لائن بچھانے اور چابہار علاقے میں پیٹروکیمیکل کارخانوں کی تعمیر جیسے موضوعات پر بات چیت کی ہے۔

ہندوستان کے وزیر پیٹرولیم دھرمیندر پردھان، تہران میں اپنے قیام کے دوران ایران کے وزیرصنعت ومعدن وتجارت محمد رضا نعمت زادہ ، سینٹرل بینک کے سربراہ ولی اللہ سیف اور ایران کے آزاد صنعتی اورتجارتی علاقوں کی کوآرڈینیشن کونسل کے سیکریٹری اکبرترکان سے بھی ملاقات کریں گے -

چین کے بعد ہندوستان ایران کے تیل کا دوسراسب سے بڑا خریدار ہے -

ہندوستان، ایران کے انرجی اور پیٹرولیم کےمختلف شعبوں منجملہ پیٹروکیمیکل کے شعبے میں سرمایہ کاری اور اس کے توسیعی منصوبے میں شریک ہونے میں بھی دلچسپی رکھتاہے

 

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید نوروز کی مناسبت سے ملاقات کے لئے آنے والے کابینہ کے ارکان، پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی صدارتی کمیٹی کے ارکان، عدلیہ کے عہدیداروں اور بعض دیگر محکموں کے حکام سے گفتگو میں عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا اور استقامتی معیشت کے نفاذ کے لئے حکومت کی کوششوں اور جدوجہد کی قدردانی کی اور ان پالیسیوں کے نفاذ کے لئے ملک کے حکام کے درمیان یکجہتی اور ہمدلی و ہم زبانی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ استقامتی معیشت کی مرکزی کمان کو چاہئے کہ مجریہ اور خود محترم نائب صدر کی قیادت اور دیگر تمام محکموں کا تعاون اور مدد حاصل کرے، مختلف شعبوں کی کارکردگی اور پیش قدمی پر گہری نظر رکھے اور داخلی پیداوار کی سنجیدگی کے ساتھ پشت پناہی کرتے ہوئے استقامتی معیشت کے تحت اقدام و عمل کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے ہمہ جہتی اور ہمہ گیر اقدام کی زمینہ سازی کرے۔
آپ نے استقامتی معیشت کی مرکزی کمان کی جانب سے محکموں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے جانے کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نظارت میں کے ضمن میں جو ادارے طے شدہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے حرکت کریں انہیں مضبوط کیا جائے اور جو ادارے بے تفاوت ہیں انہیں اصل راستے پر لایا جائے اور جو ادارے استقامتی معیشت کے برخلاف عمل انجام دے رہے ہیں ان کا راستہ روکا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ استقامتی معیشت میں اقدام اور عمل اس انداز سے ہونا چاہئے کہ سال ختم ہونے پر مختلف شعبوں کی متعلقہ کارکردگی کی صحیح اور واضح رپورٹ پیش کرنا ممکن ہو فرمایا کہ اجرائی اداروں کا پورا نظام استقامتی معیشت کی پالیسیوں کے اجراء کی توانائی رکھتا ہے اور پارلیمنٹ کو بھی چاہئے کہ اس سلسلے میں حکومت کی مدد کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ ہم حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رہے اور ہمیں وسائل اور بجٹ کی کمی اور مشکلات کا بھی اندازہ ہے، لیکن بعض شعبوں میں کفایت شعاری کرکے بعض دیگر شعبوں میں موجود کمی اور خلا کو دور کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے ملک کے اعلی عہدیداروں کو تجربہ کار، اور فکر و عمل اور جوش و جذبے سے سرشار افراد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مرکزی کمان جو فکر کا مرکز اور عمل کا محور ہے ملک کے اندر موجود بہترین انتظامی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرے اور فیصلہ سازی اور اجرائی مراحل کے لئے مختلف محکموں کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کو چلانا کہ جو حکومت اور خود صدر محترم کی ذمہ داری ہے ایک انتہائی دشوار کام ہے فرمایا کہ صدر محترم کی حد درجہ مصروفیات کے پیش نظر نائب صدر جو ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں استقامتی معیشت کی اعلی کمان سے متعلق اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ میں حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں جو بھی اقدام عوام کے مفادات کے لئے اور انکی مشکلات کے ازالے کی خاطر ہو اس کی بھرپور حمایت کروں گا، لیکن یہ نظر آنا چاہئے کہ جو کام انجام دیا جا رہا ہے وہ قومی مفادات کے حق میں ضروری اور مفید ہے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ استقامتی معیشت کی پالیسیوں کے اجراء کے لئے داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر تکیہ کیا جانا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو بداخلاقی اور بد عملی کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور امریکیوں کے علاوہ کچھ دوسرے مغربی ممالک بھی ایسے ہی ہیں، بنابرایں ہمیں خود اپنی توانائیوں پر تکیہ کرنا چاہئے اور امریکی حکام کے موقف اور اقدامات سے بھی اس نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اگر ہم صدق دل سے میدان عمل میں اتریں گے تو یقینا اللہ تعالی بھی ہماری مدد و اعانت کرے گا فرمایا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہمیشہ نشیب و فراز اور سختی و آسانی کا سلسلہ رہتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہر طرح کے حالات میں اصلی راستہ اور سمت کوفراموش نہ کیا جائے۔
آپ نے داخلی پیداوار کی حمایت و پشت پناہی کے مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ صنعت اور زراعت دونوں ہی شعبوں میں پیداوار پر خاص توجہ دی جانی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حکام کی ہمدلی و ہم زبانی کو استقامتی معیشت کا مقدمہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حکام کے تعاون کے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ہمیشہ قومی اتحاد کی نعمت رہی ہے، تاہم قومی یکجہتی کے ساتھ ہی حکام کی آپسی ہمدلی و یکجہتی بھی ضروری ہے اور یہ یکجہتی، نظریات اور پسند کے اختلاف سے متصادم بھی نہیں ہے۔
آپ نے اس ملاقات کو بھی حکام کے باہمی انس و محبت اور ہمدلی و ہم زبانی کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مختلف نظریات اور پسند کے باوجود حکام کو چاہئے کہ بنیادی و انقلابی اہداف کی سمت میں ہی آگے بڑھتے رہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آج ملک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تینوں شعبوں کے عہدیدار اور اسلامی نظام کے حکام طریقوں اور روشوں کے اختلاف کے باوجود انقلاب کے اصلی اہداف کے بارے میں یکساں نظرئے اور رائے کے حامل ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے دوران عہدیداران کے اہل خانہ اور خاص طور پر ان کی بیگمات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ حکام کی بہت سی کوششیں اور جدوجہد جو نگاہ میں آتے ہیں ان کی بیگمات کی وجہ سے ہوتے ہیں جن پر عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔
اس ملاقات میں نائب صدر جناب اسحاق جہانگیری نے رہبر انقلاب اسلامی کی رہنما ہدایات اور حکومت کے لئے ان کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے استقامتی معیشت کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک جامع دستور العمل تیار کیا ہے اور وہ ان پالیسیوں کو ملکی معیشت کے لئے شفا بخش نسخہ مانتی ہے۔
نائب صدر نے کہا کہ حکومت کو استقامتی معیشت کی پالیسیوں پر پورا یقین ہے اور یہ پالیسیاں شرعی، قانونی اور ماہرین کی رائے، ہر اعتبار سے حکومت کے لئے قابل قبول ہیں۔
نائب صدر اسحاق جہانگیری نے استقامتی معیشت کی اعلی کمان کے حالیہ دو اجلاسوں میں رواں ہجری شمسی سال کی اقتصادی ترجیحات کے تعین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ شب ملک کے بڑے اقتصادی مراکز کے ساتھ طولانی ملاقات ہوئی اور حکومت پروڈکشن کو فروغ دینے، برآمدات میں اضافے، روزگار کا راستہ آسان کرنے اور نجی سیکٹر کی خدمات لینے کا پختہ عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے استقامتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ میں حکومت کی کامیابی کو دوسرے تمام محکموں اور خاص طور پر قومی نشریاتی ادارے کے تعاون پر منحصر گردانتے ہوئے کہا  کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ علم ودانش، تجربے، انتظامی توانائی و صلاحیت کے اعتبار سے جو کچھ بھی حکومت کے پاس ہے اسے استقامتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ میں استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
اس ملاقات سے قبل عہدیداروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز ظہرین ادا کی۔

ہندوستان کے وزیر پیٹرولیئم نے کہا ہے کہ نئ دہلی حکومت تیل کا بقایا بہت جلد تہران کو ادا کردے گی-

ہندوستان کے وزیر پیٹرولیئم دھرمیندر پردھان نے تہران میں ایران اور ہندوستان کے اقتصادی وفد کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ہندوستان کے درمیان بینکینگ سسٹم شروع ہوتے ہی ایران کی واجب الادا رقم ادا کر دی جائے گی-

ہندوستان کے وزیر پیٹرولیئم نے کہا کہ نئی دہلی ، ایران کے تیل و گیس کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی-

انھوں نے کہا کہ ابھی کچھ برسوں پہلے تک ہی ایران ، ہندوستان کو خام تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا لیکن اب وہ چھٹھا ملک بن گیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ایران ماضی کی مانند پھر سے ہندوستان کو تیل فراہم کرے-

انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا ہندوستانی سیاست کا حصہ ہے اور آئندہ پانچ برسوں میں ہندوستان کی اقتصادی ترقی سب سے زیادہ ہوگی اس لئے سن دوہزار بیس میں ہندوستان تیل مصرف کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہوگا اس لئے ہندوستان کے پاس سرمایہ کاری کا بہت اچھا موقع ہے اور ہم اس سلسلے میں ایرانی شرکاء کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں-

 

  روس کے نوریلسک شہر میں مسجد نورد کمال کی تعمیر کا آغاز ۱۹۹۵ عیسوی میں ہوا ، یہ مسجد ۱۹ اگست ۱۹۹۸ عیسوی کو تیار ہوئی ۔

 دنیا کے انتھائے  شمال میں مسجد نورد کمال سے آگے کوئی اور مسجد واقع نہیں ہے ۔ پوری مسجد میں فرش بچھادیا گیا ہے جو لوگوں کے ذریعے مسجد کے لیے ہدیہ کیا گیا ہے ، نوریلسک شھر کی آبادی دو لاکھ افراد  پر مشتمل ہے  جس کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے جو علاقائی اور غیر علاقائی ہے ۔ قطب شمالی کے دائرے سے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ۱۹۵۳ میں یہ شھر ، روس کے جغرافیائی نقشہ پر ظاہر ہوا ، آج کل یہ شھر قطب شمالی میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شھر ہے ، یہ شھر روس کے بڑے صنعتی  شھروں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں نوریلسک نیکل کی کان کمپنی موجود ہے، آج کل نوریلسک نیکل کمپنی کا دنیا کی نیکل اور پلاٹیں کی پیداوار میں بیس فیصد حصہ ہے۔ وہاں پر تانبا ، کوبالٹ، اور دوسری قیمتی دھاتیں نکلتی ہیں ، یہ بات اتفاقی نہیں ہے کہ نوریلسک شھر کو کارخانوں کا شھر کہتے ہیں ،البتہ مسلماںوں کی روحانی ضروریات نوریلسک کے قیام کے ابتدائی سالوں میں مشکلات سے دوچار تھیں۔

۱۹۹۶ عیسوی میں ارتھوڈکس گرجاگر تعمیر ہوا اس کے دوسال بعد نوردکمال کی زمردی مسجد شھر کی زینت بنی۔

عبد اللہ حضرت گالموف ، روس کے اسلامک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ، مسجد نوریلسک کے امام کہتے ہیں:  اکثر مسلمان دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں ہجرت کرکے آئے ہیں ، قفقاز سے بہت سے لوگ یہاں آئے ہیں جن میں تاتار ، باشقیر اور آذربائیجانی ہیں ، عام طور پر وہ کام کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں مرکزی ایشیا کے مہاجر ، داغستان ، تاتار اور آذربائیجانیوں کی تعداد ۴ ہزار سے زیادہ ہے یہ آبادی مختلف مذاھب سے تشکیل پائی ہے اور شیعہ ، سنی اتحاد و اتفاق سے اس  مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔
 

مسجد کے امام کہتے ہیں ، ہماری سماجی زبان ایک ہی ہے ہم ایک گھرانے جیسے رہتے ہیں اور آپس میں بہت نزدیک ہیں۔

 مسجد کے دروازے رات دیر گئے تک ہر ایک کے لئے کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

 قرآن کی مقدس آیات لکڑی کے دروازوں پر کندہ کی  گئی  ہیں ، مسجد کے خوبصورت فرش نے اس مسجد کو شھر کے فن تعمیر کا زیور قرار دیا ہے۔

دنیا کی سب سے شمالی مسجد کے فن تعمیر میں اھم  خصوصیات ہیں ، مسجد کی شکل ستارہ جیسی اور اس کامینار چوکور اور اس کی لمبائی ۳۰ میٹر ہے عام طور پر مساجد کے منارے گول ہوتے ہیں لیکن نوریلسک مسجد کا مینار مربع شکل کا ہے جس کی وجہ شمال کی شدید سردی ہے سال کے دو تہائی حصے میں اس شہر کا درجہ حرارت صفر کے نیچے رہتا ہے اور جاڑے میں اس شہر کا درجہ حرارت منفی ۵۵ ڈگری تک پہنچتا ہے اگر اس مسجد کے  مینار گول بنائے جاتے تو اس کی دیوار منجمد ہوجا تی اور شمالی ھواؤں کی نسبت رد عمل دکھاتی  ، مسجد کی چھت اور مینار ڈھال کے طریقے پر بنائی گئی ہیں۔

 مسجد کا شبستان گول اور دائرہ کی شکل کا ہے مسجد دو مںزلہ ہے جس میں پہلی منزل مدرسے کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اس میں اصول اسلام ، نماز کے قوانین ، ماہ مبارک میں روزوں کے احکام کے درس دیئے جاتے ہیں.

ہر اتوار کو مسلمان ایک ھفتے کے کام کاج کرنے کے بعد "ذکر" کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہوتے ہیں یہ مسجد نوریلسک کی بہت سی عمارتوں کی طرح شمع جیسے ستونوں کی بنیادوں پر بنی ہے کیونکہ زمین کی سطح سے کم گہرائی پر برف جمی ہوتی ہے اوراس کی گہرائی  ۳۰۰ سے ۵۰۰  میٹر تک ہوتی ہے لہذا عمارتوں کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے شمع کے مانند ستونوں کا استعمال کیا جاتا ہے ، بنیادوں کو زمین کی گہرائی میں ڈالا جاتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ جمی برفیلی پتھروں میں انہیں منجمد کیا جاتا ہے۔

نوریلسک میں ہمشہ برف جمی رہنے کی وجہ سے وہاں بھیڑوں کا پالنا ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بقر عید پر بھیڑ کی قربانی کے بدلے شمالی ہرن کو قربان کرتے ہیں۔

نوریلسک شہر کے دنیا کے باقی شہروں کے ساتھ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں پر قطبی راتیں اور قطبی دن ہوتی ہیں ، یعنی چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے اور شدید ہوائیں چلتی ہیں جو بہت سرد ہوتے ہیں ، یہ اس علاقے کے مسلماںوں کا ایمان ہی ہے  جو اس مسجد کو گرمی بخشتا ہے تا کہ اتحاد و اخوت کے ساتھ ایک ہی صف میں خالق واحد کے مقابلے میں تعظیم کرکے اسلام کی عظمت کو سلام پیش کریں۔

Saturday, 09 April 2016 11:59

تحویلِ سال کی دعا

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے تحویلِ سال کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

فروردین کا مہینہ ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ یہ دعا انتہائی مبارک دعا ہے : «یا مُقلّب القلوب و الأبصار یا مدبّر اللیل و النهار یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا إلی أحسن الحال»؛ یہ دعا انتہائی سبق آموز ہے ۔ یہ دعا اس لیے ہے کہ ہم خود بالغ ہوں اور حرکت کریں ؛ یہ دعا ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ عمر کے سنّ و سال زیادہ ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ زمین سورج کے گرد چکر لگائے اور یہ شخص بالغ ہو جائے ؛ ہم جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص بالغ ہے یا بیس سال کا ہے ؛ اس کا کیا مطلب ہے ؟ یعنی بیس مرتبہ زمین سورج کے گرد گھومی ہے اور زمین نے حرکت کی ہے ۔ لیکن در حقیقت اگر اس شخص نے بیس علمی اور اخلاقی قدم اٹھائے ہوں تو اسے بیس سالہ کہیں گے ؛ ورنہ یہ بیس سال کا بچہ ہے ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شمسِ حقیقت کے گرد گھومیں بعض افراد اسی سالہ اور ستر سالہ بچے ہیں ؛ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود ان کی سوچ بچوں والی ہے اور کھیل کود میں مصروف ہیں ۔ وہ کتے اور بلی کے مجسمے کا خواہاں ہے ؛ اس سے سوال کرنا چاہئیے کہ خود زندہ کتے اور بلی کے تمہاری زندگی میں کیا اثرات اور فوائد ہیں کہ اب تم کتّے اور بلّی کے مجسّمے کی طلب میں ہو ؟! ایسے اشخاص بیس سالہ اور ۔۔۔۔۔ بچے ہیں ؛ چونکہ اس نے بذات خود حرکت نہیں کی ہے ۔ یہ صفت موصوف کے متعلّق سے مربوط ہے ؛ زمین بیس مرتبہ گھومی ہے لہٰذا اس کا مذکورہ شخص سے کیا ربط اور واسطہ ہے ؟! اس دعا سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں خدا سے مانگنا چاہئیے کہ ہمیں حرکت کی توفیق دے ۔ سورہ مبارکہ فاطر میں فرمایا : «فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ»؛[1] اس مقام پر یہ روایت ہے کہ «یحومُ حومَ نفسه»[2]؛ یعنی خود محور ہے اور اپنی ذات کے گرد چکر لگا رہا ہے ؛ ایسا شخص بالغ نہیں ہوتا ۔ اس نے بیس یا تیس مرتبہ اپنی ہوس کے گرد چکر لگایا ہے ؛ وہ بیس سالہ یا تیس سالہ بچہ ہے ، اس بنا پر فروردین کی آمد کا معنی یہ ہے کہ ہم اپنے سنّ و سال میں اضافہ کریں اور بالغ ہوں ۔ پس یہ بلوغ طبیعی بلوغ کے علاوہ ایک اور چیز ہے ۔

وجود مبارک حضرت (ع) نے فرمایا : ایک دوسرے کی ملاقات کو جاؤ ، صلہ رحمی کرو ۔ تمہاری صلہ رحمی کا طریقہ بھی اس طرح سے ہو ۔ کیوں ؟ چونکہ تم ہمارے شیعہ ہو ؛ جب آپس میں بیٹھتے ہو تو ہماری احادیث نقل کرتے ہو ۔ ہمارا کلام تمہارے اندر عاطفہ ، عاجزی اور اتّحاد ایجاد کرتا ہے اور اختلاف کا قلع قمع کر دیتا ہے ۔ «تَزاوَروا فإنَّ فی زیارتِکم إحیاءً لِقلوبِکم و ذکراً لأحادیثِنا و أحادیثُنا تُعَطِّفُ بعضَکم علی بعضٍ.»[3] یہ ایک معروف ضرب المثل ہے :

«سنگ روی سنگ بند نمی شود» (یعنی پتھر پتھر کے اوپر نہیں ٹھہرتا )

یہ انتہائی سبق آموز ضرب المثل ہے ، پس ان برجوں کو کس طرح تعمیر کیا جاتا ہے ؟ واقعا پتھر کے اوپر پتھر نہیں ٹھہرتا بلکہ سیمنٹ کی نرم و ملائم تہہ کا ان کے درمیان ہونا ضروری ہے تاکہ ان کو جوڑے ، عاطفہ اس نرم و ملائم مادے کی طرح ہے کہ جو مختلف افراد کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ۔ فرمایا : یہ عاطفہ اور محبّت ایک دوسرے سے نزدیک ہونے کا باعث ہے ، یہ نرم و ملائم سیمنٹ کی تہہ ہے ورنہ ایک پتھر دوسرے پتھر کے اوپر نہیں ٹھہر سکتا ، اخلاق اور درگزر عاطفہ ہیں اور ان کا یہی کام ہے ۔

وہ لوگ جو اخلاقی مسائل کے حوالے سے جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ، وہ درمیانے درجے پر ہیں ؛ جو لوگ برتر معارف کے حصول کی سوچ رکھتے ہیں ، وہ منزل مقصود سے نزدیک تر ہیں ۔ اخلاق اور عرفان کا فرق گزشتہ دروس میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ بعض فرق یہیں پر خلاصہ ہوتے ہیں ۔ کوئی شخص علم اور علمی کمال جمع کرنے کے درپے ہے اور علمی آثار فراہم کر رہا ہے اور کوئی شخص محاذ جنگ پر جا رہا ہے اور دین کی راہ میں جام شہادت نوش کرتا ہے ؛ ان دونوں کے درمیان کس قدر فرق ہے ؟ جو شخص حوزہ اور دانشگاہ میں ہے وہ بھی کامل ہو رہا ہے ؛ اس کا تکامل اس چیز کے ساتھ ہے کہ کچھ حاصل کرے ۔ جو شخص میدان جنگ کی طرف جا رہا ہے ، شہید ہو جاتا ہے اس کا تکامل اس بات میں ہے کہ کچھ فدا کرے ، وہ کس چیز کے حصول کی خاطر کسی شے کو گنوا رہا ہے ؟ دونوں حاصل کرتے ہیں ؛ لیکن شہید کیا لیتا ہے ؟ اور جو دانشگاہ یا حوزہ میں ہے ، وہ کیا حاصل کرتا ہے ؟ (تو سنیے ) جو حوزہ اور یونیورسٹی میں ہے ، علم اور اخلاق حاصل کرتا ہے اور بلند منزلیں حاصل کرتا ہے لیکن جو شہید ہوتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں جا رہا ہوں تاکہ دوسرا میری جگہ لے کہ میرا سروکار اس دوسرے کے ساتھ ہے ۔ اگر کہا گیا ہے کہ شہید «ینظرُ فی وجه الله»[4] یا خدائے سبحان نے سورہ انفال میں وجود مبارک پیغمبر (صلّی الله علیه و آله و سلّم)  سے فرمایا : «وَ مَا رَمَیتَ إِذْ رَمَیتَ وَ لکنَّ اللّهَ رَمَی»،[5] شہداء اور راہ خدا کے مجاہدین سے فرماتا ہے فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ»؛[6] یہ شہید خود ایک طرف چلا گیا ہے ؛ اس کا شمار فصل سوم (وجه الله) میں ہوتا ہے ۔ پہلی فصل ممنوعہ علاقہ ہے اور ہماری بحث سے خارج ہے یعنی ذات اقدس الٰہی ۔ دوسری فصل صفات ذات کی حقیقت تک رسائی ہے ؛ یہ مطلب بھی ہماری بحث سے خارج ہے ۔ تیسری فصل "منطقۃ الفراغ " ہے کہ جس سے مراد وہی وجہ اللہ اور فیضِ خدا ہے ۔ یہ مقامِ امکان ہے نہ کہ مقام ذات ۔ شہید ایک طرف چلا جاتا ہے تاکہ یہ وجہ اللہ اس مقام پر ظہور کرے ۔ اس رو سے خدائے سبحان فرماتا ہے : تو جو رخت سفر باندھ چکا ہے ، تم نے کچھ نہیں کیا ؛ بلکہ میرا فیض ہی کارگر اور مؤثر تھا : «فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ.» اصطلاح میں اس مقام کو "مقامِ فنا" کہتے ہیں ؛ فنا فی اللہ اور بقا باللہ ۔ اگر کوئی اس مقام پر فائز ہو جائے وہ باقی ہے ۔ اگر وجود مبارک ولی عصر ارواحنا فداہ عالم امکان میں حقیقی "بقیة الله" ہیں اور ربّانی علماء بھی "بقیة الله" ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اپنی ذات کو نہیں دیکھتے ؛ اس بنا پر «العلماءُ باقونَ ما بَقِی الدهر.»[7] کہا گیا ہے ، شہید "عند اللہ " بھی حضور رکھتا ہے ۔ اگر کوئی عند اللہی ہو جائے تو وہ بقائے الٰہی کے ساتھ باقی ہے ۔ اس بنا پر اخلاق اور عرفان کا فرق یہ ہے کہ انسان اخلاق میں اپنی ذات کی حفاظت اور خود میں کمالات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ؛ لیکن عرفان میں کوشش کرتا ہے کہ خود ایک طرف چلا جائے اور دوسرا ظہور کرے ۔ وہ دوسرا اس کے سب کام انجام دیتا ہے اور فرماتا ہے : «فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ.» یہ مختصر بحث ہماری گفتگو کے پہلے حصے سے مربوط تھی ۔

حضرت استاد نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں نہج البلاغہ کے خط نمبر ۳۲ کی تشریح کے ضمن میں فرمایا :

نہج البلاغہ کی شرح کے حوالے سے سلسلہ کلام خط نمبر ۳۲ تک آن پہنچا ہے ۔ اس خط کو وجود مبارک حضرت امیر (ع)  نے (معاویہ علیہ من الرّحمن  ما یستحقّہ) کے لیے مرقوم فرمایا ہے اور یہ دو صفحات پر مشتمل ہے ۔ مرحوم سیّد رضی نے تقریباً ایک صفحہ نقل کیا ہے اور دوسرا صفحہ چھوڑ دیا ہے چونکہ آپ کو پتہ ہے کہ نہج البلاغہ حدیثی کتاب نہیں ہے بلکہ "نہج بلاغت" ہے نہ کہ "نہج حدیث" ۔ اس رو سے مرحوم سیّد رضیؒ بعض کلمات جو ان کی نگاہ میں متناسب و موزوں ، فصیح تر اور بلیغ تر تھے ؛ کا انتخاب عمل میں لائے ہیں اور باقی خط کو ذکر نہیں کیا ہے ؛ اس خط کا بقیہ حصہ جو ایک صفحہ ہے ، کتاب "تمام نہج البلاغہ" میں مذکور ہے [8] اس خط میں وجود مبارک حضرت امیر سلام اللہ علیہ نے معاویہ کے لیے اس طرح سے مرقوم فرمایا ہے : «وَ أَرْدَیتَ جِیلاً مِنَ النَّاسِ کثِیراً خَدَعْتَهُمْ بِغَیک وَ أَلْقَیتَهُمْ فِی مَوْجِ بَحْرِک»؛ تو نے ایک گروہ کو منفی پراپیگنڈے سے گمراہ کر دیا ۔ ان دنوں شامی عوام کو مدینے اور کوفے کے حالات سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں ۔ اموی پراپیگنڈے نے انہیں برین واش کر کے منحرف کر دیا تھا ۔ حضرتؑ نے فرمایا : تو نے ایک گروہ کو ہلاک کر ڈالا اور فتنے کی لہروں  کو جنم دے کر انہیں ان طوفانی اور آشفتہ موجوں میں غرق کر دیا کہ «تَغْشَاهُمُ الظُّلُمَاتُ وَ تَتَلاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ»؛ ہر طرف سے اعتقادی اور اخلاقی شبہے اور اشکال انہیں تہ و بالا کر رہے ہیں اور تاریکی انہیں ڈھانپے ہوئے ہے  ۔ سورہ مبارکہ نور میں ہے کہ بعض لوگ «أَعْمَالُهُمْ کسَرَابٍ بِقِیعَةٍ»؛[9] ، شب ہے ، تاریکی ہے ، چاند بھی غائب ہے ، بادل ہیں ، بے رحم موجیں ہیں اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے ؛ سیاہی اور تاریکی میں گرفتار شخص اس فضا میں  «إِذَا أَخْرَجَ یدَهُ لَمْ یکدْ یراهَا»[10] اگر وہ اپنا ہاتھ باہر نکالے تو نہ صرف یہ کہ اپنا ہاتھ نہیں دیکھ پاتا بلکہ نگاہ سے نزدیک بھی نہیں ہوتا ۔ "کاد" یعنی "قَرُب"، «لَمْ یکدْ» یعنی «لم یقرب»؛ یعنی دیکھنے کے نزدیک بھی نہیں ہے ۔ «إِذَا أَخْرَجَ یدَهُ لَمْ یکدْ یراهَا»  ہاتھ انسان کے اختیار میں ہے ، اس کا قبض و بسط ، اوپر نیچے کرنا ، اس کا شرق و غرب انسان کے اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہاتھ کو نہیں دیکھ سکتا ۔ در حقیقت ایسی تاریکی میں ہے کہ جس نے تمام امور گم کر دئیے ہیں ۔ فرمایا : «تَتَلاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ فَجَازُوا عَنْ وِجْهَتِهِمْ وَ نَکصُوا عَلَی أَعْقَابِهِمْ»؛ وہ بنیادی مقصد کہ جس کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے اس سے وہ الٹے پاؤں لوٹ گئے ہیں ۔ یہ بازگشت در اصل جاہلیت کی طرف ہے ۔ «وَ تَوَلّوْا عَلَی أَدْبَارِهِمْ»؛ وہی جاہلیت کے فخر و مباہات جس میں  زمانہ جاہلیت کے اعراب مبتلا تھے ، شامی بھی اس سے دوچار ہو گئے تھے ؛ وہ لوگ جو اموی حکومت کے منفی پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے تھے ۔ «وَ عَوَّلُوا عَلَی أَحْسَابِهِمْ»؛ انہوں نے اپنے رنگ و نسل ، تاریخ اور اسلاف پر بھروسہ کیا اور انہی بوسیدہ فخر و مباہات کا ایک مرتبہ پھر ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا «إِلاَّ مَن فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ»؛ سوائے اس شخص کے جو اہل بصیرت ہو اور واپس آ جائے ۔ «فاء» یعنی لوٹ گیا . "فیء"  پلٹنے والے سائے کو کہا جاتا ہے ۔ صبح سے ظہر تک سایہ تازہ ہے ۔ ظہر کے بعد سایہ ضعیف ہے ۔ یہ سایہ ضعیف ہونے کے باوجود اگر بعد از ظہر میں شمار ہو اسے "فِیء کہتے ہیں یعنی بعد از طہر کا سایہ اور برگشتہ سایہ ۔ خود سائے کی کیا حیثیت ہے کہ اب برگشتہ سایہ کامل وجود حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ «إِلاَّ مَن فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ فَإِنَّهُمْ فَارَقُوک بَعْدَ مَعْرِفَتِک وَ هَرَبُوا إِلَی اللَّهِ مِنْ مُوَازَرَتِک»؛ جو لوگ اہل بصیرت ہیں انہوں نے تجھ سے دوری اختیار کر لی ہے ؛ جہالت سے علم کی طرف ، جہالت سے عقلانیت اور ظلم سے عدل کی طرف آ گئے ہیں اور تم سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن شام کے بہت سے لوگ تیرے منفی پراپیگنڈے کا شکار ہوئے «إِذْ حَمَلْتَهُمْ عَلَی الصَّعْبِ وَ عَدَلْتَ بِهِمْ عِنِ الْقَصْدِ»؛ جن لوگوں نے بھانپ لیا کہ تو ظلم کی راہ پر گامزن ہے ، انہوں نے واپسی کا راستہ اختیار کیا ۔ اور یہ سمجھ لیا کہ تو نے میانہ روی اور حد اعتدال سے دوری اختیار کر لی ہے ، وہ تم سے علیٰحدہ  ہو گئے لیکن ابھی بھی شامیوں کی اکثریت تیرے ساتھ ہے ۔ «فَاتَّقِ اللَّهَ یا مُعَاوِیةُ فِی نَفْسِک وَ جَاذِبِ الشَّیطَانَ قِیادَک فَإِنَّ الدُّنْیا مُنْقَطِعَةٌ عَنْک وَ الْآخِرَةَ قَرِیبَةُ مِنْک و السَّلاَمُ.» فرمایا : معاویہ ! مختصر عمر باقی رہ گئی ہے ، جہاں تک تمہاری وسعت ہے ، اپنی باگیں شیطان سے چھین لو تاکہ خود آزاد ہو ۔ سورہ مبارکہ اسراء میں آپ نے پہلے بھی ملاحظہ فرمایا : کہ شیطان قسم کھا رہا ہے کہ «لَأَحْتَنِکنَّ ذُرِّیتَهُ»؛[11] احتناک باب افتعال سے ہے ۔ حنگ گلے کے نچلے حصے کو کہتے ہیں ۔ شیطان نے کہا : میں ان پر سوار ہوں گا اور ان کی حنک اور تحت الحنک تھاموں گا ۔ گھڑ سواروں کو آپ نے دیکھا ہے کہ اگر پوری قوت اور غلبے سے گھڑ سواری کرنا چاہیں تو گھوڑے کی حنک پکڑ لیتے ہیں یعنی میں ان سے سواری چاہتا ہوں اور ان کی حنک اور تحت الحنک میرے ہاتھ ہو گی اور انہیں ہانکوں گا ۔ وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے فرمایا : معاویہ ! جہاں تک تمہاری طاقت ہے اپنی باگیں شیطان کے ہاتھوں سے چھڑوا کر خود کو آزاد کر ! عمر ختم ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں ہے اور موت کے بعد واپسی کی کوئی راہ نہیں ہے ۔ «وَ جَاذِبِ الشَّیطَانَ قِیادَک فَإِنَّ الدُّنْیا مُنْقَطِعَةٌ عَنْک وَ الْآخِرَةَ قَرِیبَةُ مِنْک»؛ اب تیرا بڑھاپا شروع ہو چکا ہے اور تم سے دنیا بھی رفتہ رفتہ منہ موڑ لے گی اور آخرت نزدیک ہو رہی ہے ۔ یہ وصیّت ہم سب کے لیے انتہائی نفع بخش ہے ۔

ہمیں امید ہے کہ خدائے سبحان ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اخلاقی اعتبار سے بھی اپنے خالص عزم و ارادے کے مالک ہوں ، امیر المومنین (سلام اللہ علیہ) کے فرامین کی روشنی میں اپنی زمام غیر خدا ، غیر قرآن و غیر عترت کے ہاتھوں نہ دیں !

------------------------------ 

[1] . سورهٴ فاطر, آيهٴ 32.
[2] . معاني الأخبار, ص104.
[3] . الكافي, ج2, ص186.
[4] . ر.ك: تهذيب الأحكام, ج6, ص122.
[5] . سورهٴ انفال, آيهٴ 17.
[6] . همان.
[7] . نهج‌البلاغه, حكمت 147.
[8] . تمام نهج‌البلاغه, ج7, ص181 ـ 183.
[9] . سورهٴ نور, آيهٴ 39.
[10] . سورهٴ نور, آيهٴ 40.
[11] . سورهٴ اسراء, آيهٴ 62