Super User

Super User

 ترک شہر آدانا کی مرکزی مسجد سابانجی (Sabancı Central Mosque) ملک کی بڑی مسجدوں میں شمار ہوتا ہے ۵۲۶۰۰ مربع میٹر پر واقع ہے اور سیاحوں کے لیے اہم دیدنی مرکز میں شامل ہے . یہ مسجد سال 1998 کی قایم کی گیی ہے۔

امام خمینی 20 جمادی الثانی ۱۳۲0ہجری قمری مطابق30 شہریور۱۲۸۱ہجری شمسی مصادف۲۴ستمبر۱۹۰۲عیسوی کو ایران کے شہر خمین میں جگر گوشہ رسول حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب و طاہر نسل کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے ۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انھیں شہید کردیا ۔

اس طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ انتہائی کمسنی کے عالم سے ہی رنج یتیمی سے آشنا اور مفہوم شہادت سے مانوس ہوگئے ۔ انھوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن اپنی والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون کے دامن شفقت میں گزارا ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پھوپھی محترمہ صاحبہ خانم کے دامن میں پرورش پائی جوایک دلیراور باتقوی خاتون تھیں لیکن ابھی آپ پندرہ سال کے ہی تھے کہ آپ ان دونوں شفیق اور مہربان ہستیوں کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔

جب 1340 ہجری قمری میں آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی تو اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے ۔

اللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ نے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد لڑکپن سے ہی شروع کردی اور اس جدوجہد کو آپ کی علمی اور معنوی ترقی کےساتھ ساتھ عروج حاصل ہوتا رہا اور پھر ایران کے سماجی اور اسلامی دنیا کے سیاسی حالات نے اس جذبہ کو اوربھی پروان چڑھایا۔ 3 اسفند1299 ہجری شمسی کو رضاخان کی بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد و ثبوت اور تاریخی اسناد کی بنیاد پر برطانیہ کی حمایت سے انجام پائی اور جس کی منصوبہ بندی بھی خود برطانیہ نےکی تھی اگرچہ سلطنت قاجاریہ کا خاتمہ کردیا اور کسی حد تک زمینداروں کی طوائف الملکی ختم ہوگئی لیکن اس کے عوض ایک آمر شہنشاہ تخت نشین ہوا اور اس کے زیر سایہ ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر پر ہزار خاندان مسلط ہوگئےاور پہلوی خاندان کی آل اولاد زمینداروں اور راہزنوں کی جگہ لے بیٹھے۔

شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علماء اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑا دی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب ولہجہ بہت ہی تند اور انتباہی تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئیین کی پیروی کرواور قرآن، علماء قوم اور مسلمان زعماء کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئیین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب مملکت کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علماء اسلام تمالرے بارے میں اپنے نظریہ بیان کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو اعلامیہ جاری کیا اس میں شاہ کے انقلاب سفید کو انقلاب سیاہ سے تعبیر کیا گیا اور کہا گیا کہ شاہ کے یہ سارے اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہیں ۔

شاہ نے امریکہ کو یہ اطمینان دلا رکھا تھا کہ ایرانی عوام اس پروگرام کے حق میں ہیں ۔ شاہ کے خلاف علماء کا احتجاج اس کے لئے کافی مہنگا ثابت ہو رہا تھا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ شاہ کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام شاہ کو اسرائیل کا اتحادی قراردیتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے ۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے 12  اردیبہشت1342 شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علماء اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اور اسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی۔

1342 ہجری قمری کا محرم جو خرداد کے مہینے کے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوامی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں انتہائی تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا۔ تجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک دن اگر لوگ چاہیں کہ تو چلا جا تو سب لوگ تیرے جانے پر شکرادا کریں ... اگر تجھے ڈکٹیٹ کرکے پڑھنےکو کہا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغورکر... سن لے میری نصیحت ... شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک (شاہ کی خفیہ پولیس) کہتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں کچھ مت بولو... کیا شاہ اسرائیلی ہے ؟

شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔ سب سے پہلے 14 خرداد (۳جون) کی شام کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور پھر15  خرداد (4 جون) کی صبح ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا گیا ۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد آپ کو فوجی افسروں کی جیل میں بند کردیتے ہیں تاہم اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔ 15 خرداد (4 جون) کی صبح ہی تہران سمیت مشہد، شیراز اور دیگر شہروں میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی گرفتاری کی خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور قم میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوگئی ۔

 18 فروردین 1343 کی شام کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو آزاد کردیا گیا اور قم میں ان کے گھر پہنچا دیا گیا ۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور مدرسہ فیضہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئی دنوں تک جشن منایا گیا ۔

13 مہر 1343 کو امام خمینی (رح) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرماتے ۔

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جلد وطنی کے برسوں میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔

نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ 2 مہر 1357 ہجری شمسی کو بعثی حکومت کے کارندوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے نجف میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا ۔ 12 مہر کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نجف سے کویت کی سرحد کی جانب روانہ ہوئے۔ کویت کی حکومت نے ایران کی شاہی حکومت کی ایماء پر آپ کو کویت کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔اس سے پہلے لبنان یا شام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ رح کی ہجرت کی باتیں گردش کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کیا اور 14 مہر کو آپ پیرس پہنچ گئے۔

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان تقدیر ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بالآخر امام خمینی (رح)12 بہمن1357ہجری شمسی مطابق یکم فروری1979 کو14 چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔

13 خرداد 1368ہجری شمسی مطابق 3 جون1989  کی رات 10 بجکر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا۔ اس دل نے دھڑکنا بند کر دیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا ۔

مسجد الرحمان شمالی کوریہ کی وہ واحد مسجد ہے  جو شمالی کوریہ کے دارالخلافہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانہ کے احاطے میں اسلام کے تمام فرقوں کو اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

پورے شمالی کوریہ میں فقط ایک ہی مسجد ہے اور وہ بھی شہر پیونگ ینگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانہ کے احاطے میں واقع ہے۔

اس مسجد کو دوسری اسلامی مساجد کی طرح بنائی گئ ہے اور اس کا نام "الرحمان" رکھا گیا ہے۔ یہ مسجد شمالی کوریہ کے شہر پیونگ ینگ میں تمام مسلمانوں کو اپنے اپنے فرقوں کے مطابق مذھبی رسم و رواج بپا کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارت کی جانب سے تمام مسلمانوں کو اپنے مذھبی تہوار منانے کی آزادانہ اجازت ہے جیسے نماز جماعت میں شرکت ، نماز جمعہ کا قیام اور نماز عید وغیرہ

انڈونیشیا کے کسی شخص نے مسجد الرحمان کے سامنے اپنی فیملی کی تصویر انسٹاگرام میں اپلوڈ کیا ہے۔

Wednesday, 27 December 2017 04:52

حضرت مسیح علیه السلام

لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ انشاء اللہ ٹرمپ کا فیصلہ اسرائیل کی تباہی کا آغاز ہوگا اور ٹرمپ کے اعلان کا سب سے اہم جواب تیسری تحریک انتفاضہ کا آغاز ہے۔

جنوبی بیروت میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے فرمایا کہ اسرائیل سے مقابلہ کرنے والی مزاحمتی طاقتوں کو منظم کرنا چاہئے اور ان کی صفوں کو مزید مضبوط کیا جائے۔  سید حسن نصر اللہ نے فرمایا کہ علاقے کی تمام مزاحمتی تنظیموں اور مزاحمت پر یقین رکھنے والے دنیا بھر کے تمام افراد کو چاہئے کہ آپس میں رابطہ کریں اور مل کر مشترکہ حکمت عملی بنائیں اور روڈ میپ تیار کریں جس میں تمام گروہوں کو ایک یقینی کردار دیا جائے تاکہ اس عظیم جنگ کو سر کیا جائے۔

حزب الله لبنان کے سربراہ نے کہا کہ حزب اللہ لبنان اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر پوری طرح عمل کرے گی۔  سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس وقت اسلامی مزاحمتی محاذ کی پہلی ترجیح بیت المقدس اور فلسطین ہے، مشکل سال گزر چکے ہیں اور اسلامی مزاحمت محاذ آج جس میدان جنگ میں بھی اترا اسے فتح کرنے میں کامیاب رہا ہے۔سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دشمنوں نے اس فیصلے کے بارے میں فکر کیا ہے کہ یہ قدس اور فلسطین کا مسئلہ ختم کرنے کی شروعات ثابت ہو تو آئیے ہم اسی فیصلے کو اس غاصب صیہونی حکومت کے ہمیشہ کے خاتمے کا آغاز بنا دیتے ہیں، ہمارا نعرہ اور ہماری روش، اسرائیل مردہ آباد پر مرکوز ہونی چاہئے۔

لاکھوں کی تعداد میں فلسطین اور بیت القدس سے یکجہتی کا اظہار کرنے والوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ٹرمپ کے اس مخاصمانہ فیصلے کا سب سے اہم جواب پورے فلسطین میں تیسری فلسطینی انتفاضہ تحریک کا آغاز ہے اور پورے عالم اسلامی اور عرب دنیا کو چاہئے کہ اس موقع پر فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کریں۔

لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے زور دیا کہ اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم ہونے چاہئیں اور تعلقات کو بحال کرنے کی ہر کوشش پر روک لگنی چاہیئے اور اسرائیل کا پوری طرح بائیکاٹ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی بھی وفد آپ کے پاس اسرائیل سے صلح کروانے آئے تو اسے جوتوں سے مارئیے، چاہے اس میں عمامہ لگانے والا شخص، صلیب کا نشان لٹکانے والا شخص یا کسی قبیلے کا سردار یا کوئی افسر ہی کیوں نہ شامل ہو۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہم مقبوضہ فلسطین اور بیت المقدس میں رہنے والے اپنے فلسطینی بھائیوں کی قدردانی کرتے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے فیصلے کے اعلان کے فورا بعد سے اپنی شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اس کھلی دشمنی کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہم ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کرنے والے تمام سربواہوں اور تمام حکومتوں کی قدردانی کرتے ہیں ۔ یہ ایک اہم موضوع ہے جس پر عرب دنیا اور عالم اسلام کو توجہ دینا چاہئے۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ٹرمپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جب انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا ہے تو دنیا کے دیگر ممالک بھی اسی راستے پر چل پڑیں گے اور اس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت قبول کرنے میں ایک دوسرے کو سبقت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن پوری دنیا نے ٹرمپ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور اب وہ الگ تھلگ پڑے ہوئے ہیں ۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر ہم غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لئے دشمنوں نے پہلے علاقے کی کچھ حکومتوں کے ساتھ مل کر قوموں کو کمزور کرنے اور ممالک کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ پورے عالم اسلام کو چاہئے کہ اس خطرناک حملے کا مقابلہ کرے، سب کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑھ فلسطینیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پختہ عزم کا مظاہرہ کریں اور تحریک انتفاضہ کا آغاز کریں۔

پاکستان سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیکر عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا ٹرمپ کا فارمولا اقوام متحدہ کی توہین ہے، مذاہب کے درمیان ٹکراؤ اور مسلمانوں کے قبلہ اول پر غاصبانہ قبضہ کی پالیسی امریکا کی ناکامی کا سبب بنے گی، امریکا اور امریکی صدر خود کو دنیا کا تھانیدار مت سمجھے، بیت المقدس کا تحفظ ہر حال میں کرینگے، ٹرمپ عالم اسلام کے مسلمانوں کی غیرت کو للکار کر دنیا کو مذاہب کی جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں، اقوام متحدہ اور او آئی سی امریکی صدر کی جارحیت کا فوری نوٹس لیں، یہود و نصاری ٰ اور امریکا مسلمانوں کو مشتعل کرکے جہاد کا راستہ ہموار کر رہے ہیں، مسلم حکمرانوں کو اتحاد و یکجہتی سے اسلام دشمن پالیسیوں کو ناکام بنانا ہوگا، بیت المقدس کے تحفظ کیلئے جہاد فرض ہو چکا ہے، مسلم ممالک جہاد کا اعلان کریں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں مرکز اہلسنت پر مرکزی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ یہود و نصاریٰ اسلام دشمن پالیسیوں سے باز رہیں، مسلم اُمہ کا اتحاد انہیں بہا کر لیجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی قونصلیٹ کا گھیراؤ کرکے عالمی قوتوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ بیت المقدس کے تحفظ کیلئے کردار ادا کریں، کارکنان و عوام بیت المقدس کے تحفظ اور امریکا کی اسلام دشمن پالیسیوں کے خلاف پاکستان سنی تحریک کے مارچ میں شرکت کو یقینی بنائیں، امریکن قونصلیٹ کی طرف جانے کیلئے تاریخ کا اعلان پریس کانفرنس کے ذریعے کر دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ پُرامن ہیں مگر بیت المقدس پر غاصبانہ قبضے کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے، اقوام متحدہ ٹرمپ کی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت بیت المقدس کے تحفظ کیلئے جہاد کا اعلان کرے، ایک لاکھ غلامان رسولؐ سروں پر کفن باندھ کر جہاد پر جانے کیلئے تیار ہیں، کارکنان عوامی رابطہ مہم کو تیز کر دیں، امریکی صدر ٹرمپ اور یہودونصاریٰ کی اسلام دشمن پالیسیوں سے عوام کو آگاہ کریں۔

مسجد طور سینا ایتوپی میں پائی جانے والی ایک تاریخی مسجد ہے جس کی مخصوص ساخت آنے والوں کو اپنی طرف جلب کرتی ہے۔

مسجد طور سینا ایتوپی کی مشہورترین مسجدوں میں سے ایک ہے جو ایتوپی کے شہر (ولو) میں واقع ہے۔

مسجد طور سینا لکڑی سے بنائی گئی ہے جو 250 میٹر زمین کو احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس مسجد کے  40 لکڑیوں کے ستون ہیں۔

اسی طرح مسجد کے اطراف سر سبز و شاداب ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ ہوا ہے۔

مسجد طور سینا کہ جو ایتوپی کے آثار قدیمہ کی لسٹ میں شامل ہے، اپنے مخصوص ساخت و ساز کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔

ایتوپی کے مسلمان قرآن کی تعلیمات حاصل کرنے میں پوری دنیا میں مشہور ہیں ان کی ہر ہر مسجد کے ساتھ ایک مدرسہِ تعلیم قرآن ضرور موجود ہوتا ہے۔ مسجد طور سینا بھی ایک عبادتگاہ ہونے کے ساتھ تعلیم قرآن کا بہترین درسگاہ بھی ہے۔

اس مسجد میں 430 طلباء قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

مسجد طور سینا سن 1943ء میں بنائی گئی۔

اس مسجد کی خصوصیات میں سے ایک ییہ ہے کہ یہ بہت ہی سادی ہے اور کسی قسم کی تزئین و آرایش نہیں ہے۔

آس پاس کے مسلمانوں کو اس مسجد سے خاص لگاو ہے۔

ایتوپی کہ جو پہلے حبشہ کے نام سے مشہور تھا مسلمانوں کا مرکز رہا ہے اور یہ سر زمین بہت سارے بزرگ صحابی رسول اکرم (ص) کا پناہ گاہ رہا ہے اور اس سرزمین کا پہلا بادشاہ کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا نجاشی ہے آج بھی نجاشی کا مزار اس سرزمین کے مسلمانوں کی زیارگاہ ہے۔ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے اکثر کا تعلق شافعی مذھب سے ہے اور محب اھل بیت (ع) ہیں اور صوم و صلاۃ کا پابند ہیں۔

حضرت یوشع نبی(ع) کا مرقد اسلامی جمہوریہ ایران کے شھر اصفہان کے تاریخی مقام تخت فولاد کے شمال تکیہ شہداء میں واقع ہے۔

وہ ایریا کہ جس میں حضرت یوشع(ع) مدفون ہیں اسے "لسان الارض" کہا جاتاہے۔

 

حضرت یوشع نبی (ع) کی قبر مبارک سطح زمین سے تھوڑٰی بلند ہے اور اس کے اوپر سبز رنگ کا کپڑا بچھایا ہوا ہے جو کہ آج بھی دنیا بھر کے بہت سارے زائرین کی توجھ کا مرکز ہے۔

حضرت یوشع قوم بنی اسرائیل کے پیامبروں میں سے ایک پیامبر ہے جو حضرت موسی کی وفات کے تین دن بعد خود حضرت موسی کی وصیت پر عمل کرتے ہوے قوم بنی اسرائیل کی رھبریت کے منصب پر فائز ہوے۔

بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت یوشع بنی بھی ان افراد میں سے ہے کہ جسے کوروش (کہ جو ھخامنشی دور حکومت کا بانی اور پہلا بادشاہ تھا) کے زریعے بختنصر(کہ جو بنی اسرائیل کے اوپر خدا کی طرف سے عذاب کی صورت میں آیا تھا اور بہت ہی بے رحم اور ظالم تھا) کے ہاتھوں سے آزاد کیا اور بعد میں ایران کی طرف ھجرت کی۔

 

یہاں پر یہ بات بھی بیان کرنا مناسب ہے کہ حضرت یوشع کے نام سے دو اور مقام بھی تاریخدانوں نے بیان کیا ہے ان میں سے ایک مقام حضرت یوشع کے نام سے لبنان کے شمال میں المینہ الضنیہ نام کے کسی شھر کے ایک پرانے غار میں واقع ہے۔

 

اور دوسرا مقام اردن کے شھر اُمان کے نزدیک حضرت یوشع نبی کے نام سے ایک مقام موجود ہے۔