Super User

Super User

رہبر انقلاب اسلام نے تاکید کے ساتھ فرمایا ہے کہ دین اور انقلاب کی راہ میں اپنی جان فدا کرنا کسی خاص طبقے سے مخصوص نہیں ہے اور اس عظیم اور معنوی رقابت میں تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کے روز شہید کھلاڑیوں کی کانفرنس کے منتظمین سے اپنے خطاب میں شہید کھلاڑیوں کی قدردانی کے لئے سیمینار کے انعقاد کو انقلابی جذبے کی تقویت اور اعلی انقلابی فکر کی بلندی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جوان کھلاڑی، فطری طور پر خاص جوانوں کے لئے ایک نمونہ ہوتا ہے جس کا اخلاق و کردار اور طریقہ زندگی، بہت زیادہ متاثر کرتا ہے کہ جس سے سماج کی دین، اخلاق اور معنویت کی جانب ترغیب بھی ہوتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے لفظ پہلوان کو قومی و مقامی ادبیات میں امتیاز کا حامل ایک لقب قرار دیا اور کھیل کے میدان میں بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی قدردانی کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ فتح کے بعد قومی ترانہ پڑھے جانے اور قومی پرچم اوپر لے جائے جانے سے بھی زیادہ قابل فخر، اس کھلاڑی کا اقدام ہے جو صیہونی حریف سے کشتی لڑنے سے انکار کر دیتا ہے یا وہ خاتون کھلاڑی ہے جو مکمل اسلامی پردے میں فتح کے اسٹیج پر حاضر ہوتی ہے۔ آپ نے اس طرح کے اخلاق و عمل کو میدان جنگ میں جانے اور ایرانی مسلمان کے مستحکم جذبے کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ اقدام، ایک قوم کے تشخص، بھرپور استقامت اور آہنی عز م و ارادے کی نشاندہی کرتا ہے جو وہم اور اس قسم کے احساسات کے مقابلے میں کبھی شکست نہیں کھاتا اور مغلوب نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ اس طرح سے کام کئے جانے کی ضرورت ہے کہ کھیل کا ماحول، اس طرح کے عمل کا حامل بنے۔ آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایسے کھلاڑیوں کی قدردانی کرتے ہوئے جو جیتنے پر اعلانیہ طور پر اخلاقی اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، فرمایا کہ ایک ضروری اقدام، ایسے کھلاڑیوں کی قدردانی کرنا ہے جو خدا کا نام لیتے ہیں اور فتح حاصل کرنے پر خدا کا سجدہ ادا کرتے ہیں۔ آپ نے اس طرح کے عمل کو اسلامی ایران کے تشخص و وقار کا مظہر قرار دیا اور اس طرح کے عمل کی تقویت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس طرح کے عمل سے کھیل کا ماحول اور زیادہ شفاف اور پاکیزہ بنے گا۔ قابل ذکر ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہید کھلاڑیوں کی کانفرنس کے منتظمین سے گیارہ جنوری کو خطاب فرمایا تھا اور آپ کی اس تقریر کو منگل کے روز آزادی اسٹیڈیم میں اسی مناسبت سے منعقدہ سیمینار میں سنوایا گیا۔

بسم الله الرحمن الرحیم


1. قالَ الامامُ جَعْفَرُ بنُ محمّد الصّادقُ عليه السلام: حَديثي حَديثُ ابى وَ حَديثُ ابى حَديثُ جَدى وَ حَديثُ جَدّى حَديثُ الْحُسَيْنِ وَ حَديثُ الْحُسَيْنِ حَديثُ الْحَسَنِ وَ حَديثُ الْحَسَنِ حَديثُ اميرِالْمُؤْمِنينَ وَ حَديثُ اميرَ الْمُؤْمِنينَ حَديثُ رَسُولِ اللّهِ صلّى اللّه عليه و اله و سلّم وَ حَديثُ رَسُولِ اللّهِ قَوْلُ اللّهِ عَزَّ وَ جَلّ.َ[1]
ترجمہ:
میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین علیہ السلام کی حدیث ہے اور امام حسین علیہ السلام کی حدیث امام حسن علیہ السلام کی حدیث ہے اور امام حسن علیہ السلام کی حدیث امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث ہے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث قول اللہ عز و جلّ ہے

2. قالَ عليه السلام: مَنْ حَفِظَ مِنْ شيعَتِنا ارْبَعينَ حَديثا بَعَثَهُ اللّهُ يَوْمَ الْقيامَةِ عالِما فَقيها وَلَمْ يُعَذِّبْهُ.[2]
ترجمہ:
ہمارے شیعیان میں سے جو کوئی چالیس حدیثیں حفظ کرے خداوند متعال قیامت کے روز اس کو عالم اور فقیہ مبعوث فرمائے گااور اس کو عذاب میں مبتلانہیں کرے گا.

3. قالَ عليه السلام: قَضاءُ حاجَةِ الْمُؤْمِنِ افْضَلُ مِنْ الْفِ حَجَّةٍ مُتَقَبَّلةٍ بِمَناسِكِها وَ عِتْقِ الْفِ رَقَبَةٍ لِوَجْهِ اللّهِ وَ حِمْلانِ الْفِ فَرَسٍ فى سَبيلِ اللّهِ بِسَرْجِها وَ لَحْمِها.[3]
ترجمہ:
مؤمن کے حوائج اور ضروریات برلانا ایک ہزار مقبول حجوں، اور ہزار غلاموں کی ازادی اور ایک ہزار گھوڑے راہ خدامیں روانہ کرنے سے برتر و بالاتر ہے۔

4. قالَ عليه السلام: اوَّلُ مايُحاسَبُ بِهِ الْعَبْدُالصَّلاةُ، فَانْ قُبِلَتْ قُبِلَ سائِرُ عَمَلِهِ وَ اذارُدَّتْ، رُدَّ عَلَيْهِ سائِرُ عَمَلِهِ.[4]
ترجمہ:
خدا کی بارگاہ میں سب سے پہلے نماز کا احتساب ہوگا پس اگر انسان کی نماز قبول ہو اس کے دیگر اعمال بھی قبول ہونگے اور اگر نماز رد ہو جائے تو دیگر اعمال بھی رد ہونگے.

5. قالَ عليه السلام: اذا فَشَتْ ارْبَعَةٌ ظَهَرَتْ ارْبَعَةٌ: اذا فَشاالزِّناكَثُرَتِ الزَّلازِلُ وَ اذاامْسِكَتِ الزَّكاةُ هَلَكَتِ الْماشِيَةُ وَ اذاجارَ الْحُكّامُ فِى الْقَضاءِ امْسِكَ الْمَطَرُ مِنَ السَّماءِ وَ اذا ظَفَرَتِ الذِّمَةُ نُصِرُ الْمُشْرِكُونَ عَلَى الْمُسْلِمينَ.[5]
ترجمہ:
جس معاشرے میں چار چیزیں عام اور اعلانیہ ہوجائیں چار مصیبتیں اور بلائیں اس معاشرے کو گھیر لیتی ہیں:
زنا عام ہوجائے، زلزلہ اور ناگہانی موت فراوان ہوگی.
زکواة اور خمس دینے سے امتناع کیاجائے، اہلی حیوانات تلف ہونگے.
حکام اور قضات ستم اور بے انصافی کی راہ اپنائیں، خدا کی رحمت کی بارشیں برسنا بند ہونگی.
اور ذمی کفار کو تقویت ملے تو مشرکین مسلمانوں پر غلبہ پائیں گے.

6. قالَ عليه السلام: مَنْ عابَ اخاهُ بِعَيْبٍ فَهُوَ مِنْ اهْلِ النّارِ.[6]
ترجمہ:
جو شخص اپنے برادر مؤمن پر تہمت و بہتان لگائے وہ اہل دوزخ ہوگا.

7. قالَ عليه السلام: الصَّمْتُ كَنْزٌ وافِرٌ وَ زَيْنُ الْحِلْمِ وَ سَتْرُالْجاهِلِ.[7]
ترجمہ:
خاموشی ایک بیش بہاء خزانے کی مانند حلم اور بردباری کی زینت اور نادان شخص کے جہل و نادانی چھپانے کاوسیلہ ہے.

8. قالَ عليه السلام: إصْحَبْ مَنْ تَتَزَيَّنُ بِهِ وَ لاتَصْحَبْ مَنْ يَتَزَّيَنُ لَكَ.[8]
ترجمہ:
ایسے شخص کے ساتھ دوستی اور مصاحبت کرو جو تمہاری عزت اور سربلندی کا باعث ہو اور ایسے شخص سے دوستی اور مصاحبت نہ کرو جو اپنے اپ کو تمہارے لئے نیک ظاہر کرتاہے اور تم سے استفادہ کرنا چاہتا ہے.

9. قالَ عليه السلام: كَمالُ الْمُؤْمِنِ فى ثَلاثِ خِصالٍ: الْفِقْهُ فى دينِهِ وَ الصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ وَالتَّقْديرُ فِى الْمَعيشَةِ.[9]
ترجمہ:
مؤمن کا کمال تین خصلتوں میں ہے: دین کے مسائل و احکام سے اگاہی، سختیوں اور مشکلات میں صبر و بردباری، اور زندگی کے معاملات میں منصوبہ بندی اور حساب و کتاب کی پابندی.


10. قالَ عليه السلام: عَلَيْكُمْ بِاتْيانِ الْمَساجِدِ، فَانَّها بُيُوتُ اللّهِ فِى الارْضِ، و مَنْ اتاها مُتَطِّهِراً طَهَّرَهُ اللّهُ مِنْ ذُنُوبِهِ وَ كَتَبَه مِنْ زُوّارِهِ.[10]
ترجمہ:
تمہیں مساجد میں جانے کی سفارش کرتا ہوں کیوں مساجد روئے زمین پر خدا کے گھر ہیں اور جو شخص پاک و طاہر ہوکر مسجد میں وارد ہوگا خداوند متعال اس کو گناہوں سے پاک کردے گا اور اس کو اپنے زائرین کے زمرے میں قرار دے گا.

11. قالَ عليه السلام: مَن قالَ بَعْدَ صَلوةِالصُّبْحِ قَبْلَ انْ يَتَكَلَّمَ: ((بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ وَ لاحَوْلَ وَ لا قُوَّةَ الا بِاللّهِ الْعَلىٍّّ الْعَظيمِ)) يُعيدُهاسَبْعَ مَرّاتٍ، دَفَعَ اللّهُ عَنْهُ سَبْعينَ نَوْعاً مِنْ انْواعِ الْبَلاءِ، اهْوَنُهَا الْجُذامُ وَ الْبَرَصُ.[11]
ترجمہ:
جو شخص نماز فجر کے بعد کوئی بھی بات کئے بغیر 7 مرتبه «بسم اللّه الرّحمن الرّحيم، لاحول و لاقوّة الاباللّه العليّ العظيم » کی تلاوت کرے گا خداوند متعال ستر قسم کی آفتیں اور بلائیں اس سے دور فرمائے گا جن میں سب سے ساده اور کمترین آفت برص اور جذام ہے.

12. قالَ عليه السلام: مَنْ تَوَضَّأ وَ تَمَنْدَلَ كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ وَ مَنْ تَوَضَّأ وَ لَمْ يَتَمَنْدَلْ حَتّى يَجُفَّ وُضُوئُهُ، كُتِبَ لَهُ ثَلاثُونَ حَسَنَةً.[12]
ترجمہ:
جو شخص وضو کرے اور اسے تولئے کے ذریعے خشک کردے اس کے لئے صرف ایک حسنه ہے اور اگر خشک نه کرے اس کے لئے 30 حسنات ہونگے

13. قالَ عليه السلام: لَاِفْطارُكَ فى مَنْزِلِ اخيكَ افْضَلُ مِنْ صِيامِكَ سَبْعينَ ضِعْفا.[13]
ترجمہ:
اگر روزے کاافطار اپنے مؤمن کے منزل میں کروگے اس کاثواب روزے کے ثواب سے ستر گنازیاده ہوگا.

14. قالَ عليه السلام: اذا افْطَرَ الرَّجُلُ عَلَى الْماءِ الْفاتِرِ نَقى كَبِدُهُ وَ غَسَلَ الذُّنُوبَ مِنَ الْقَلْبِ وَ قَوىَّ الْبَصَرَ وَالْحَدَقَ.[14]
ترجمہ:
اگر انسان ابلے ہوئے پانی سے افطار کرے اس کاجگر پاک او سالم رہے گااور اس کاقلب کدورتوں سے پاک هوگا اور اس کی آنکھوں کا نور بڑھے گا اور انکھیں روشن ہونگی.

15. قالَ عليه السلام: مَنْ قَرَءَ الْقُرْانَ فِى الْمُصْحَفِ مُتِّعَ بِبَصَرِهِ وَ خُنِّفَ عَلى والِدَيْهِ وَ انْ كانا كافِرَيْنِ.[15]
ترجمہ:
جو شخص قران مجید کو سامنے رکھ کر اس کی تلاوت کرے گا اس کی انکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوگا؛ نیز اس کے والدین کے گناہوں کابوجھ ہلکا ہوگا خواه وه کافر ہی کیوں نہ ہوں.

16. قالَ عليه السلام: مَنْ قَرَءَ قُلْ هُوَاللّهُ احَدٌ مَرَّةً واحِدَةً فَكَانَّما قَرَءَ ثُلْثَ الْقُرانِ وَ ثُلْثَ التُّوراةِ وَ ثُلْثَ الانْجيلِ وَ ثُلْثَ الزَّبُورِ.[16]
ترجمہ:
جو شخص ایک مرتبہ سورہ توحید (قل هو الله احد ...) کی تلاوت کرے وه اس شخص کی مانند ہے جس نے ایک تہائی قران اور تورات اور انجیل کی تلاوت کی ہو.

17. قالَ عليه السلام: انَّ لِكُلِّ ثَمَرَةٍ سَمّا، فَاذا أَتَيْتُمْ بِها فامسُّوهَ الْماء وَاغْمِسُوهافِى الْماءِ.[17]
ترجمہ:
ہر قسم کاپهل اپنے خاص قسم کے زہر اور جراثیموں سے الوده ہے ہر وقت پهل کهاناچاہو پہلے پانی مین بهگو کر دہو لو.

18. قالَ عليه السلام: عَلَيْكُمْ بِالشَّلْجَمِ، فَكُلُوهُ وَاديمُوااكْلَهُ وَاكْتُمُوهُ الاعَنْ اهْلِهِ، فَمامِنْ احَدٍ الاوَ بِهِ عِرْقٌ مِنَ الْجُذامِ، فَاذيبُوهُ بِاكْلِهِ.[18]
ترجمہ:
شلجم کو اہميّت دو اور مسلسل کهاتے رہو اور اہل انسانوں کے سوادوسروں سے چهپائے رکھو؛ اور ہر شخص میں جذام کی رگ موجود ہے پس شلجم کهاکر اس کاخاتمہ کردو.

19. قالَ عليه السلام: يُسْتَجابُ الدُّعاءُ فى ارْبَعَةِ مَواطِنَ: فِى الْوِتْرِ وَ بَعْدَ الْفَجْرِ وَ بَعْدَالظُّهْرِ وَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ.[19]
ترجمہ:
چار اوقات میں دعامستجاب ہوتی ہے: نماز وتر کے وقت (تہجد میں)، نماز فجر کے بعد، نماز ظہر کے بعد، نماز مغرب کے بعد.


20. قالَ عليه السلام: مَنْ دَعالِعَشْرَةٍ مِنْ اخْوانِهِ الْمَوْتى لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ اوْجَبَ اللّهُ لَهُ الْجَنَّةَ.[20]
ترجمہ:
جو شخص شب جمعہ دنیاسے رخصت ہونے والے 10 مؤمن بهائیوں کے لئے مغفرت کی دعاکرے خداوند متعال اس کو اہل بہشت میں سے قرار دے گا.

21. قالَ عليه السلام: مِشْطُ الرَّاسِ يَذْهَبُ بِالْوَباءِ وَ مِشْطُ اللِّحْيَةِ يُشَدِّدُ الاضْراسَ.[21]
ترجمہ:
سر کے بالوں کو کنگهی کرناوباکی نابودی کاسبب ہے، بالوں کو گرنے سے بچاتاہے اور داڑھی کو کنگھی کرنے سے دانتوں کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں.

22. قالَ عليه السلام ايُّمامُؤْمِنٍ سَئَلَ اخاهُ الْمُؤْمِنَ حاجَةً وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلى قَض ائِهافَرَدَّهُ عَنْها، سَلَّطَ اللّهُ عَلَيْهِ شُجاعافى قَبْرِهِ، يَنْهَشُ مِنْ اصابِعِهِ.[22]
ترجمہ:
اگر کوئی مؤمن اپنے مؤمن بهائی سے حاجت طلب کرے اور وه حاجب براری کی توانائی رکھنے کے باوجود منع کرے، خداوند متعال قبر میں اس پر ایک افعی (بالشتیاسانپ) مسلط فرمائے گاجو اس کو هر وقت ازار پهنچاتارہے گا.

23. قالَ عليه السلام: وَلَدٌ واحِدٌ يَقْدِمُهُ الرَّجُلُ، افْضَلُ مِنْ سَبْعينَ يَبْقُونَ بَعْدَهُ، شاكينَ فِى السِّلاحِ مَعَ الْقائِمِ (عَجَّلَ اللّهُ تَعالى فَرَجَهُ الشَّريف.[23]
ترجمہ:
اگر انسان اپنی زندگی میں ہی اپنے ایک فرزند کو عالم اخرت میں بھیج دے، یہ اس سے بہت بہتر ہے که اس کے کئی فرزند اس کے بعد زمانے کے امام کے ہمراه دشمنان امام علیه السلام کے خلاف لڑیں.

24. قالَ عليه السلام: اذ ابَلَغَكَ عَنْ اخيكَ شَيْى ءٌ فَقالَ لَمْ اقُلْهُ فَاقْبَلْ مِنْهُ، فَانَّ ذلِكَ تَوْبَةٌ لَهُ. وَ قالَ عليه السلام: اذ ابَلَغَكَ عَنْ اخيكَ شَيْى ءٌ وَ شَهِدَ ارْبَعُونَ انَّهُمْ سَمِعُوهُ مِنْهُ فَقالَ: لَمْ اقُلْهُ، فَاقْبَلْ مِنْهُ.[24]
ترجمہ:
اگر کبھی تم نے سناکه تمہارے بهائی یادوست نے تمہارے خلاف کچھ بولاہے مگر اس (دوست یابهائی) نے اس کی تردید کی تو تم قبول کرو. اگر تم نے اپنے بهائی سے اپنے خلاف کچھ سنااور 40 ادمیوں نے گواہی بھی دی کہ اس نی وہ بات کی ہے مگر تمہارابهائی اس کی تردید کرے تو اپنے بهائی کی بات قبول کرو.

25. قالَ عليه السلام: لايَكْمُلُ ايمانُ الْعَبْدِ حَتّى تَكُونَ فيهِ ارْبَعُ خِصالٍ: يَحْسُنُ خُلْقُهُ وَسَيْتَخِفُّ نَفْسَهُ وَيُمْسِكُ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِهِ وَيُخْرِجَ الْفَضْلَ مِنْ مالِهِ.[25]
ترجمہ:
انسان کاایمان چار خصلتیں اپنانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا: خوش اخلاق ہو، اپنے نفس کو ہلکااور بے وقعت سمجهتاہو، اپنی بات اور زبان کو قابو میں رکھتاہو؛ اور اپنی ثروت و دولت میں سے حقوق اللہ اور حقوق الناس اداکرتاہو.

26. قالَ عليه السلام: داوُوامَرْضاكُمْ بِالصَّدَقَةِ وَادْفَعُواابْوابَ الْبَلايا بِالاسْتِغْفارِ.[26]
ترجمہ:
مریضوں کاعلاج صدقہ دے کر کرو اور استغفار اور توبہ کے ذریغے مشکلات اور بلاؤن (ازمایشوں) کو دفع کرو.

27. قالَ عليه السلام: انَّ اللّهَ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الصَّلَواتِ الْخَمْسِ فى افْضَلِ السّاعاتِ، فَعَلَيْكُمْ بِالدُّعاءِ فى ادْبارِ الصَّلَواتِ.[27]
ترجمہ:
خداوند متعال نے پانچ نمازیں بہترین اوقات میں تم پر فرض کیں پس اپنی حاجات ہرنماز کے بعد خداکی بارگاہ بیان کیاکرو اور ان کی براری کی دعاکیاکرو.

28. قالَ عليه السلام: كُلُوامايَقَعُ مِنَ الْمائِدَةِ فِى الْحَضَرِ، فَانَّ فيهِ شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داءٍ وَلاتَاكُلُوامايَقَعُ مِنْهافِى الصَّحارى.[28]
ترجمہ:
کهانے کے دوران جو کچھ دسترخوان کے ارد گرد گرتاہے اٹھاکر کهایاکرو کہ ان میں اندرونی بیماریوں کی شفاہے لیکن اگر تم دشت و صحرامیں کهاناکهاؤ تو جو کچھ گرتاہے اس کو مت اٹھاؤ (تاکہ جانور اس سے استفادہ کریں).

29. قالَ عليه السلام: ارْبَعَةٌ مِنْ اخْلاقِ الانْبياء: الْبِرُّ وَالسَّخاءُ وَالصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ وَالْقِيامُ بِحَقِّ الْمُؤمِنِ.[29]
ترجمہ:
چار چيزیں انبیاء الهی کی پسندیده اخلاقیات میں سے ہیں: نيكى، سخاوت، مصائب و مشكلات میں صبر و بردباری، مؤمنین کے درمیان حق و عدل قائم کرنا.


30. قالَ عليه السلام: امْتَحِنُواشيعتَناعِنْدَ ثَلاثٍ: عِنْدَ مَواقيتِ الصَّلاةِ كَيْفَ مُحافَظَتُهُمْ عَلَيْها وَ عِنْدَ اسْرارِهِمْ كَيْفَ حِفْظُهُمْ لَهاعِنْدَ عَدُوِّنا وَ الى امْوالِهِمْ كَيْفَ مُواساتھمْ لاخْوانِهِمْ فيها.[30]
ترجمہ:
ہمارے شیعوں کو تین چیزوں میں ازماؤ:
1 – نماز کے وقت، کہ وہ نماز کی کس طرح رعایت کرتے ہیں؟
2 – ایک دوسرے کے رازوں کو کس طرح چهپاتے یافاش کرتے ہیں؟
3 – اپنے اموال اور دولت سے کس طرح دوسروں کے مسائل حل کرتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو کس طرح اداکرتے ہیں.

31. قالَ عليه السلام: مَنْ مَلَكَ نَفْسَهُ اذارَغِبَ وَ اذارَهِبَ وَ اذَااشْتَهى، واذاغَضِبَ وَ اذارَضِىَ، حَرَّمَ اللّهُ جَسَدَهُ عَلَى النّار.ِ[31]
ترجمہ:
جو شخص رفاه اور وسع کی حالت میں، دشواری او تنگدستی کے دوران، اشتہااور ارزو کے وقت اور غیظ و غضب کے دوران اپنے نفس کامالک ہو (اور اس کو قابو میں رکھ لے)؛ خداوند متعال اگ کو اس کے جسم پر حرام کردیتاہے.

32. قالَ عليه السلام: انَّ النَّهارَ اذاجاءَ قالَ: يَابْنَ ادَم، اعْجِلْ فى يَوْمِكَ هذاخَيْرا، اشْهَدُ لَكَ بِهِ عِنْدَ رَبِّكَ يَوْمَ الْقيامَةِ، فَانّى لَمْ اتِكَ فيمامَضى وَلااتيكَ فيمابَقِىَ، فَاذاجاءَاللَّيْلُ قالَ مِثْلُ ذلِكَ.[32]
ترجمہ:
جب دن چڑھ جائے کہتاہے: اے فرزند ادم نیکی کے کاموں میں جلدی کرو کیونکہ میں قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں شہادت دوں گااور جان لو کہ میں اس سے قبل تمہارے اختیار میں نہیں تهااور اس کے بعد بھی تمہارے پاس نہیں رہوں گا. اسی طرح جب رات چھاجاتی ہے وہ بھی اسی طرح کاتقاضاکرتی ہے.

33. قالَ عليه السلام: يَنْبَغى لِلْمُؤْمِنِ انْ يَكُونَ فيهِ ثَمان خِصال:
وَقُورٌ عِنْدَ الْهَزاهِزِ، صَبُورٌ عِنْدَ الْبَلاءِ، شَكُورٌ عِنْدَ الرَّخاءِ، قانِعٌ بِمارَزَقَهُ اللّهُ، لايَظْلِمُ الاعْداءَ وَ لايَتَحامَلُ لِلاصْدِقاءِ، بَدَنُهُ مِنْهُ فى تَعِبٌ وَ النّاسُ مِنْهُ فى راحَةٍ.[33]
ترجمہ:
ضروری ہے کہ مؤمن اٹھ خصلتوں کاحامل ہو:
فتنوں اور اشوب میں باوقار و پرسکون، ازمائشوں اور بلایامیں بردبار و صبور، رفاہ و تونگری میں شکرگزار اور خداکی طرف سے مقرر کردہ رزق و روزی پر قناعت کرنے والاہو.
اپنے دشمنوں پر ظلم و ستم روانہ رکھے، دوستوں پر اپنی بات مسلط نہ کرے، اس کااپنابدن اس کے اپنے ہاتھوں تھکاماندہ ہو اور دوسرے اس کی وجہ سے ارام و اسائش میں ہوں.

34. قالَ عليه السلام: من ماتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عارِفابِحَقِّناعُتِقَ مِنَ النّارِ وَ كُتِبَ لَهُ بَرائَةٌ مِنْ عَذابِ الْقَبْرِ.[34]
ترجمہ:
جو شخص روز جمعہ انتقال کرکے دنیاسے رخصت ہوجائے اور ہم اہل بیت عصمت و طہارت کے حقوق کی معرفت رکھتاہو جہنم کی کڑکڑاتی اگ سے امان میں ہوگا.

35. قالَ عليه السلام: انَّ الرَّجُلَ يَذْنِبُ الذَّنْبَ فَيَحْرُمُ صَلاةَاللَّيْلِ، انَّ الْعَمَلَ السَّيِّى ءَ اسْرَعُ فى صاحِبِهِ مِنَ السِّكينِ فِى اللَّحْمِ.[35]
ترجمہ:
کتنے زیادہ ہیں وہ لوگ جو ارتکاب گناہ کی بناپر نماز شب سے محروم ہوجاتے ہیں! بے شک انسان کی روح و نفس میں گناہ کااثر گوشت میں چاقو کے اثر سے زیادہ تیزرفتار اور سریع ہے.

36. قالَ عليه السلام: لاتَتَخَلَّلُوابِعُودِالرَّيْحانِ وَلابِقَضيْبِ الرُّمانِ، فَانَّهُمايُهَيِّجانِ عِرْقَ الْجُذامِ.[36]
ترجمہ:
ریحان اور انار کی لکڑی سے دانتوں کاخلال مت کیاکرو کیونکہ یہ دو لکڑیاں جذام اور برص کی بیماریوں کے عوامل کو حرکت میں لاتی ہیں.

37. قالَ عليه السلام: تَقْليمُ الاظْفارِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يُؤ مِنُ مِنَ الْجُذامِ وَالْبَرَصِ وَالْعَمى وَ انْ لَمْ تَحْتَجْ فَحَكِّهاحَكّا. وَ قالَ عليه السلام: اخْذُ الشّارِبِ مِنَ الْجُمُعَةِ الَى الْجُمُعَةِ امانٌ مِنَ الْجُذامِ.[37]
ترجمہ:
جمعہ کے روز ناخن کاٹناجذام، برص، بصارت کی کمزوری سے سلامتی کاباعث ہے، اگر ناخن کاٹناممکن نہ ہو تو ان کے سروں کو تراش لیاکرو. اور ہر جمعے کو مونچھ چھوٹی کرناجذام اور برص سے نجات کاباعث ہے.

38. قالَ عليه السلام: اذااوَيْتَ الى فِراشِكَ فَانْظُرْ ماسَلَكْتَ فى بَطْنِكَ وَ ماكَسَبْتَ فى يَوْمِكَ وَاذْكُرْ انَّكَ مَيِّتٌ وَ انَّ لَكَ مَعادا.[38]
ترجمہ:
جب تم بستر میں داخل ہوتے ہو دیکھو کہ اس روز کیاکھایااور کیاپیاہے اور جو کچھ کھایااور پیاہے وہ کہاں سے ایاہے، اور اس روز تم نے کونسی چیزیں کن راستوں سے حاصل کی ہیں. اور ہر حال میں توجہ کرو کہ موت تم کو اٹھالے جائے گی اور اس کے بعد صحرائے محشر میں اپنے کردار اور گفتار کاحساب دوگے.

39. قالَ عليه السلام: انَّ لِلّهِ عَزَّ وَ جَلَّ اثْنَيْ عَشَرَ الْفَ عالَم، كُلُّ عالَمٍ مِنْهُمْ اكْبَرُ مِنْ سَبْعِ سَمواتٍ وَ سَبْعِ ارَضينَ، مايُرى عالَمٌ مِنْهُمْ انّ لِلّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عالَماغَيْرُهُمْ وَ انَاالْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ.[39]
ترجمہ:
بے شک خداوند متعال نے 12 ہزار عالم خلق فرمائے ہیں جن میں سے ہر عالم 7 اسمانوں اور7 زمینوں سے کہیں زیادہ بڑاہے اور میں اور دیگر ائمہ (سلف و خلف) ان تمام جہانوں پر خداکی حجتیں اور راہنماہیں.

40. قالَ عليه السلام: حَديثٌ فى حَلالٍ وَ حَرامٍ تَاخُذُهُ مِنْ صادِقٍ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْياوَ مافيهامِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ.[40]
ترجمہ:
حلال و حرام کی وہ بات جو تم ایک سچ بولنے والے مؤمن سے وصول کرتے ہو، پوری دنیا اور اس کی ثروتوں سے برتر و بالاتر ہے.

حوآلہ جات:
[1] - جامع الاحاديث الشيعه : ج 1 ص 127 ح 102، بحارالا نوار: ج 2، ص 178، ح 28.
[2] - اءمالى الصدوق : ص 253.
[3] - أمالی الصدوق : ص 197.
[4] - وسائل الشيعه : ج 4 ص 34 ح 4442.
[5] - وسائل الشيعة : ج 8 ص 13.
[6] - اختصاص : ص 240، بحارالا نوار: ج 75، ص 260، ح 58.
[7] - مستدرك الوسائل : ج 9 ص 16 ح 4.
[8] - وسائل الشيعه : ج 11 ص 412.
[9] - أمالی طوسى : ج 2 ص 279.
[10] - وسائل الشيعة : ج 1 ص 380 ح 2.
[11] - امالى طوسى : ج 2 ص 343.
[12] - وسائل الشيعة : ج 1 ص 474 ح 5.
[13] - من لايَحضره الفقيه : ج 2 ص 51 ح 13.
[14] - وسائل الشيعه : ج 10 ص 157 ح 3.
[15] - وسائل الشيعه : ج 6 ص 204 ح 1.
[16] - وسائل الشيعه : ج 25 ص 147 ح 2.
[17] - وسائل الشيعه : ج 25 ص 208 ح 4.
[18] - جامع احاديث الشيعة : ج 5 ص 358 ح 12.
[19] - جامع احاديث الشيعة : ج 6 ص 178 ح 78.
[20] - وسائل الشيعة : ج 2 ص 124 ح 1.
[21] - أمالی طوسى : ج 2، ص 278، س 9، وسائل الشيعة : ج 16، ص ‍ 360، ح 10.
[22] - بحارالا نوار: ج 79 ص 116 ح 7 و ح 8، و ص 123 ح 16.
[23] - مصادقة الاخوان : ص 82.
[24] - امالي طوسى : ج 1 ص 125.
[25] - مستدرك الوسائل : ج 7 ص 163 ح 1.
[26] - مستدرك الوسائل : ج 6 ص 431 ح 6.
[27] - مستدرك الوسائل : ج 16 ص 288 ح 1.
[28] - أَعيان الشّيعة : ج 1، ص 672، بحارالا نوار: ج 78، ص 260، ذيل ح 108.
[29] - وسائل الشيعة : ج 4 ص 112.
[30] - وسائل الشيعة : ج 15 ص 162 ح 8.
[31] - وسائل الشيعة : ج 16 ص 93 ح 2.
[32] - وسائل الشيعة : ج 16 ص 93 ح2
[33] - اصول كافى : ج 2، ص 47، ح 1، ص 230، ح 2، و نزهة النّاظر حلوانى : ص 120، ح 70.
[34] - مستدرك الوسائل : ج 6 ص 66 ح 22.
[35] - اصول كافى : ج 2 ص 272.
[36] - أمالی صدوق : ص 321، بحارالا نوار: ج 66، ص 437، ح 3 .
[37] - وسائل الشيعة : ج 7 ص 363 و 356.
[38] - دعوات راوندى ص 123، ح 302، بحارالا نوار: ج 71، ص 267، ح 17.
[39] - خصال : ص 639، ح 14، بحارالا نوار: ج 27، ص 41، ح 1.
[40] - الامام الصّادق عليه السلام : ص 143

افغانستان میں اقوام متحدہ کے تعلیمی ، سائنسی اور ثقافتی ادارے "یونسکو" کے نمائندے نے ایران اور افغانستان کے درمیان ثقافتی تعاون میں فروغ کی درخواست کی ہے-

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں یونسکو کے نمائندے احمد یاور نے ایران کے صوبہ خراسان رضوی کے شہر خواف کے تاریخی مقامات کے دورے کے موقع پر کہا ہے کہ ایران اور افغانستان کے درمیان ثقافتی اشتراکات کے استحکام اور اضافے سے علاقے میں اغیار کی ثقافت کے نفوذ کو روکا جا سکتا ہے-

افغانستان میں یونسکو کے نمائندے نے مزید کہا کہ افغانستان کو تاریخی مقامات کی مرمت میں ایران کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے-

احمد یاور نے شہر خواص میں تاریخی "مدرسہ غیاثیہ" کی مرمت کرنے والے ایرانی ماہرین کی تعریف کرتے ہوئے ایرانی ماہرین سے افغان کاری گروں کو سکھانے اور ٹریننگ دینے کی خواہش ظاہر کی-

شہر خواص سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مدرسہ غیاثیہ کو سلطان شاہ رخ تیموری کے وزیر خواجہ غیاث الدین پیر احمد خوافی کے حکم سے آٹھ سو چھیانوے ہجری قمری میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسی بنا پر وہ غیاثیہ کے نام سے معروف ہے-

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای  نے امریکی بحریہ کے اہلکاروں کو گرفتار کرنے والے سپاہ کے جوانوں سے ملاقات میں ان کے اس اقدام کو صحیح، بروقت ، شجاعت اور ایمان پر مبنی قراردیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی سے آج سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ان جوانوں نے ملاقات کی جنھوں نے ایرانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے پر امریکی بحریہ کے اہلکاروں کو گرفتار کرلیا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی بحریہ کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:  آپ کا اقدام بہت شاندار،  بروقت اور  قابل قدرتھا در حقیقت اس کام کو الہی کام تصور کرنا چاہیے کہ امریکی ہماری سمندری حدود میں آئیں اور ہمارے سپاہی بر وقت کارروائی کرکے انھیں  ایسے حال میں گرفتار کرلیں  کہ  وہ اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھ کر بیٹھ جائیں ۔ ایرانی سپاہ کی یہ کامیابی بڑي اہم کامیابی ہے جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سپاہ پاسداران کے جوانوں نے اس مختصر ملاقات کے بعد نماز ظہر و عصر رہبر انقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی۔

چین کے صدر جمہوریہ شی جین پینگ نے تہران میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں  رہبرانقلاب اسلامی نے ایران اور چین کی قدیم تاریخ و تمدن اور دونوں ملکوں کے عوام کے دیرینہ تجارتی اور ثقافتی تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کی حکومت اور عوام ہمیشہ چین جیسے قابل اعتماد اور خود مختار ملکوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے خواہشمند رہے ہیں اور اب بھی ہیں -آپ نے فرمایا کہ اسی لئے پچیس سالہ اسٹریٹیجک تعلقات سے متعلق ایران اور چین کے صدور کا اتفاق رائے پوری طرح صحیح اور دانشمندانہ فیصلہ ہے- رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں شاہراہ ریشم کو بحال اور اس راستے میں واقع ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر مبنی چینی صدر کے بیان کو مکمل طور پر ایک منطقی اور قابل قبول نظریہ قراردیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پابندیوں کے زمانے میں چین کے تعاون کو کبھی بھی فراموش نہیں کرے گا - رہبرانقلاب اسلامی نے انرجی کو دنیا کا ایک اہم ترین مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایران علاقے کا وہ واحد خود مختار ملک ہے جس پر انرجی کے سلسلے میں اعتماد کیا جاسکتا ہے کیونکہ علاقے کے بعض ملکوں کے برخلاف انرجی سے متعلق ایران کی پالیسی کسی بھی بیرونی دباؤ سے متاثر نہیں ہوگی - رہبرانقلاب اسلامی نے بعض ملکوں خاص طور پر امریکا کی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور دیگر ملکوں سے ان کے غیر مخلصانہ تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی صورتحال کی وجہ سے اب خود مختار ممالک آپس میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ایران اور چین کے درمیان پچیس سالہ اسٹریٹیجک تعلقات کی برقراری پر اتفاق رائے بھی اسی تناظر میں ہے جس کو ہر حال میں عملی جامہ پہنانا چاہئے - رہبرانقلاب اسلامی نے ایران کے سلسلے میں مغربی ملکوں کی مخاصمانہ پالیسیوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے بارے میں مغربی ملکوں میں سب سے زیادہ مخاصمانہ اور بری پالیسی امریکا کی ہے - آپ نے فرمایا کہ متحدہ چین کی حمایت اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی اور حتمی پالیسی ہے - انہوں نے ایران اور چین کے درمیان سیکورٹی تعاون کو فروغ دینے کے تعلق سے چینی صدر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کہ مغربی ملکوں کی غلط پالیسیوں اور اسلام کے بارے میں غلط اور انحرافی نظریئے اور سوچ کی وجہ سے ہمارا علاقہ بدامنی کا شکارہوگیا ہے اور خطرہ اس بات کا پیدا ہوگیا ہے کہ بدامنی کا یہ دائرہ پھیل نہ جائے اس لئے اس کو روکنے کےلئے دانشمندانہ تعاون کی ضرورت ہے - رہبرانقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ملکوں کو اس انحرافی نظریئے کی جڑ قرار دیا اور فرمایا کہ مغرب والے بھی اس نظریئے کے اصل مراکز اور دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے یورپ اور امریکا میں مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں جبکہ ان دہشت گردگروہوں کا اسلام کے صحیح نظریئے سے دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے - آپ نے دہشت گردی کے خلاف اتحاد تشکیل دینے کے امریکیوں کے دعوے کو ایک دھوکہ قراردیا اور فرمایاکہ تمام مسائل میں امریکیوں کا رویّہ ایسا ہی رہا ہے اور وہ کبھی بھی مخلص نہیں تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی طلبہ یونین کے نام ایک پیغام میں تمام ایرانی طلبہ اور نوجوانوں کو مسلسل جد و جہد کرنے اورعزم محکم پیدا کرنے کی تاکید کی ہے -

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای  نے اسلامی طلبہ یونین کے نام ایک پیغام میں تمام ایرانی طلبہ اور نوجوانوں کی مسلسل جد و جہد اور عزم محکم کو ایران اسلامی کے مقابلے میں دشمن کے محاذ کی سازشوں کو ناکام بنانے کا واحد راستہ قرار دیا ہے-

رہبر انقلاب اسلامی کا یہ پیغام یورپ میں زیر تعلیم ایرانی طلبہ کی اسلامی انجمنوں کی یونین کے پچاسویں سالانہ اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا- اس پیغام کو یورپ میں ایرانی طلبہ کے امور میں رہبر انقلاب اسلامی کے خصوصی نمائندے حجت الاسلام والمسلمین جواد اژہ ای نے جمعے کو پڑہ کر سنایا-

آپ کے پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے-

بسم اللہ الرحمان الرحیم

پیارے نوجوانوں:

اس وقت آپ کی تنظیم کو پچاس سال ہو چکے ہیں ؛ یہ ایک ایسی بابرکت تنظیم ہے کہ جو نوجوانوں اور طالبعلموں کے اندر اسلامی ہدایت اور ان کے ایمان میں تازگی اور ذوق و شوق پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں عالم و عاقل متقی و پرہیزگار اور صاحب بصیرت انسان پروان چڑھ سکتے ہیں-

آپ لوگ خود کو اور تنظیم کو اس اعلی اور نیک مقصد کے ساتھ ہماہنگ کیجئے-

آپ کے ملک اور قوم کو اپنا طویل راستہ طے کرنے کے لئے اس طرح کے انسانوں کی ضرورت ہے- آپ اور تمام نوجوانوں و طالب علموں کی مسلسل کوشش اور عزم محکم ان سازشوں کو ناکام بنانے کا واحد راستہ ہے جو دشمن کا محاذ سربلند ایران اسلامی کے خلاف طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے تیار کر رہا ہے- امید سے لبریز اپنے قلوب اور مادی و معنوی طاقت سے بھرپور توانائی کو ہمیشہ تیار اور محفوظ رکھئے اور علیم و دانا خدا پر توکل کے ساتھ آگے بڑھئے -

خدا حافظ

سیدعلی خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عوام کی شجاعت، بصیرت اور میدان میں اترنے کے سلسلے میں بروقت احساس ذمہ داری 9 جنوری کے قیام کے بنیادی عناصر تھے۔ آپ نے فرمایا کہ عوام کا وہ قیام امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی حمایت میں انجام پایا اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اسلامی انقلاب کی فتح پر منتج ہوئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 9 جنوری 1978 کو شہر قم کے تاریخ ساز عوامی قیام کی مناسبت سے ہونے والی اس ملاقات میں اہل قم کے اس تاریخی قدم کی ستائش کی اور اسلامی انقلاب کے دوام کے عوامل پر روشنی ڈالی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شاہی حکومت کے خلاف علما اور مراجع تقلید کی قم کے عوام کی طرف سے حمایت کی قدردانی کرتے ہوئے اہل قم کو اسلامی انقلاب کے ہراول دستے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ برسوں کی جدوجہد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بیانوں اور علمائے دین اور مراجع کرام کے مقام و منزلت کی وجہ سے ظالمانہ شاہی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کا سازگار ماحول فراہم ہو گیا تھا اور 9 جنوری کے قیام نے اس حیاتی تحریک کا آغاز کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بیرونی طاقتوں کی پٹھو اور استکباری قوتوں کی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی مادی اندازوں کے مطابق ناممکن اور محال تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اس فتح سے ثابت ہوا کہ عالم خلقت میں ایسے الہی قوانین موجود ہیں جن کے ادراک سے مادی انسان قاصر ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ امریکا، صیہونی حکومت، استکبار کے آلہ کاروں، تکفیری عناصر اور داعش پر مشتمل دشمنوں کے بہت وسیع محاذ سے ہے، اب اگر سنت الہیہ کے تقاضوں یعنی استقامت، بصیرت اور بروقت اقدام کی بنیاد پر عمل کیا جائے تو ہم اسلامی انقلاب کی فتح کی طرح اس وسیع محاذ کو بھی جیت سکتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد معاصر تاریخ میں رونما ہونے والے انتہائی اہم واقعات کے باوجود اسلامی انقلاب کے باقی رہنے کے علل و اسباب پر روشنی ڈالی۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے دو اہم تغیرات تیل کی صنعت کے قومیائے جانے اور آئینی انقلاب کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کی تحریک میں عوام کا مطالبہ بہت کمترین مطالبہ تھا اور صرف تیل کی صنعت کو برطانیہ کے قبضے سے آزاد کئے جانے کی مانگ کی گئي تھی، اسی طرح آئینی انقلاب میں بھی کمترین سطح کے مطالبات تھے جن میں بادشاہ کی مطلق العنانیت کو محدود کئے جانے کی بات کی گئی تھی۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ دونوں ہی تحریکیں، کمترین مطالبات اور میدان عمل میں عوام کی موجودگی کے باوجود شکست سے دوچار ہوئیں، لیکن اسلامی انقلاب اعلی ترین اہداف یعنی ہمہ جہتی خود مختاری اور استبدادی شاہی نظام کی سرنگونی کے مطالبے کے ساتھ فتحیاب ہوا اور اسے دوام بھی ملا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر نوجوان ان حقائق کا صحیح تجزیہ کر سکیں تو عوام کے دلوں میں خوف و ہراس کے بیج بونے کی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوں گی اور ملک کے مستقبل کا صحیح راستہ بالکل واضح ہو جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرانس اور سوویت یونین کے انقلابوں کی سمت تبدیل ہو جانے اور انقلابات کے مٹ جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب واحد انقلاب ہے جو اپنے شروعاتی اصولوں اور اہداف کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ دنیائے استکبار کے تھنک ٹینکس کا سب سے بنیادی ہدف اسلامی انقلاب کے دوام کے عوامل کو ختم کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ برسوں میں مسلط کردہ جنگ، اقتصادی ناکہ بندی اور حالیہ پابندیوں سمیت دشمن کے تمام تر اقدامات اسلامی انقلاب کے دوام پر وار کرنے کے لئے تھے اور ہر دور میں وہ نئی چالیں چل رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ سنہ 2009 میں امریکی اس کوشش میں لگ گئے تھے کہ بعص ملکوں میں اپنے کامیاب تجربات کو انتخابات کے بہانے ایران میں بھی دہرائیں، چنانچہ انھوں نے ان لوگوں کو جنھیں کامیابی کے لئے ضروری مقدار میں ووٹ نہیں ملے تھے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ان کی مالی و سیاسی حمایت کرکے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ایران میں عوام کے بھرپور تعاون کے نتیجے میں ان کا رنگین انقلاب شکست سے دوچار ہوا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سنہ 2009 کے واقعات میں اسلامی نظام اور انقلاب کے مخالف عناصر کی امریکی صدر کی طرف سے حمایت کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکومت نے جہاں تک ممکن تھا ان واقعات کو ہوا دی لیکن عوام کے بر وقت اقدام کی وجہ سے ان کی ساری سازشیں ناکام ہو گئیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی اب کہتے ہیں کہ ایٹمی مذاکرات کے بعد کا دور ایران پر سختی کرنے کا دور ہے گویا وہ اس سے پہلے ایران پر سختی نہیں کر رہے تھے! نوجوان، عوام اور حکام پوری آگاہی، ہوشیاری، جذبہ امید و نشاط، استقامت اور اللہ کی ذات پر توکل کے ساتھ نیز ملکی توانائیوں کی مدد سے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں جو بے حد اہم ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں انتخابات کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات کی ماہیت یہ ہے کہ اس سے عوام تازہ دم ہو جاتے ہیں اور انتخابات میں بھرپور شرکت کی شکل میں عوام کے اندر ذمہ داری کا احساس نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو دشمن کو ناکام بنا دیتا ہے اور یہ انقلاب کی پائیداری کے اہم عناصر میں شامل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دو چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں، ایک تو انتخابات میں بھرپور شرکت ہے اور دوسرے سب سے اچھی صلاحیت اور سب سے زیادہ لیاقت رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتخابات میں تمام رائے دہندنگان کی شرکت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ہمارا یہی اصرار ہے کہ سب کے سب حتی وہ لوگ بھی جو اسلامی نظام اور ولی فقیہ کو نہیں مانتے، ووٹنگ میں شرکت کریں، کیونکہ انتخابات کا تعلق پوری قوم، پورے ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ الیکشن میں پوری قوم کی شرکت اسلامی نظام کی پائیداری و تقویت میں اضافے، بھرپور تحفظ و سلامتی کے تسلسل، دنیا والوں کی نگاہ میں ملت ایران کے وقار و اعتبار میں اضافے اور دشمنوں پر اسلامی جمہوریہ ایران کا رعب طاری ہونے کا باعث ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں سب سے زیادہ اہلیت و لیاقت رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ الگ الگ نظریات اور طرز فکر کا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے، اہمیت اس بات کی ہے کہ ہماری کوشش اور توجہ بالکل صحیح اور صائب انتخاب پر مرکوز ہو۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اس توجہ کے ساتھ ووٹ دیا گيا تو اگر بعد میں منتخب امیدوار اچھا ثابت نہ ہوا تب بھی سب سے بالیاقت امیدوار کو ووٹ دینے کے بارے میں رائے دہندہ کی محنت اور تحقیق اللہ تعالی کی رضامندی کا باعث بنے گی۔

داخلی اور بین الاقوامی سطح پر پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی نہایت اہم پوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مختلف اعتبار سے، خاص طور پر قوانین وضع کرنے اور حکومتوں کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ اور پٹری تعمیر کرنے کے لحاظ سے، نیز قوم کی استقامت کی آئینہ دار ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ کی اہمیت بے مثال ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس وقت عالمی مسائل کے بارے میں پارلیمنٹ کے موقف اور رخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو پارلیمنٹ ایٹمی مسئلے اور دیگر معاملات میں دشمنوں کے سامنے ثابت قدمی سے کھڑی ہو جائے اور شجاعت، آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنا موقف بیان کرے وہ اس پارلیمنٹ سے بالکل ممتاز ہے جو مختلف مسائل میں صرف دشمن کے موقف کو دہراتی رہتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے موقف اور اقدامات میں ہر رکن پارلیمنٹ کا کردار ہوتا ہے اور اسی لئے تمام صوبوں اور شہروں کے عوام کو چاہئے کہ اپنے نمائندوں کے انتخاب میں بھرپور توجہ دیں اور اپنے صحیح انتخاب کی بابت پہلے اطمینان حاصل کر لیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ البتہ تمام امیدواروں کو پوری طرح پہچاننا اور انکی شناخت حاصل کرنا واقعی دشوار کام ہے لیکن ان افراد کے ماضی کے ریکارڈ کی بنیاد پر جو انتخابی فہرست جاری کرتے ہیں صحیح فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر فہرست جاری کرنے والے مومن، انقلابی اور امام خمینی کے طرز عمل کو حقیقی معنی میں ماننے والے ہوں تو پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل کے امیدواروں کی ان کی فہرست پر اعتبار کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر وہ انقلاب، دین اور خود مختاری کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے اور ان کی نظر ہمیشہ امریکا اور اغیار کی باتوں پر لگی رہتی ہے تو ایسے افراد قابل اعتماد نہیں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ 'مجلس خبرگان' (ماہرین کی کونسل) کے انتخابات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بعض افراد غلط طور پر یہ تصور کرتے ہیں کہ ماہرین کی کونسل اس لئے ہے کہ پورے سال میں بس ایک دو سیشن منعقد کر لے، جبکہ اس کونسل کی تشکیل اس لئے کی گئی ہے کہ جب موجودہ 'رہبر انقلاب' بقید حیات نہ رہے تو یہ کونسل رہبر یعنی انقلاب کے پیش قدمی کے عمل کے ذمہ دار کا انتخاب کرے جو بیحد اہم مسئلہ ہے۔

ماہرین کی کونسل کے امیدواروں کے سلسلے میں بھرپور تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ماہرین کی کونسل اپنے ارکان کی نوعیت کی بنیاد پر ممکن ہے کہ ضرورت کے وقت ایسے شخص کو رہبر منتخب کرے جو اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے پوری شجاعت کے ساتھ دشمنوں کے سامنے ڈٹ جانے والا ہو اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلے، جبکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس سے مختلف اوصاف کے شخص کو رہبر منتخب کر لے، بنابریں پوری تحقیق، توجہ، شناخت اور اطمینان کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی شرکت اور خاص طور پر امیدواروں کے درمیان سے سب سے زیادہ لیاقت و اہلیت رکھنے والے امیدوار کا انتخاب دو اعلی اہداف کی تکمیل کا سبب ہے، ایک ہے انقلاب کی بقا اور دوسرے قوم کے اندر سکون و طمانیت کا ماحول۔

انقلاب کے دوام پر صحیح انتخاب کے اثرات کی تشریح کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلاب کے آغاز سے ہی ساتھ چھوڑنے اور نئے ساتھیوں کے جڑنے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے، کچھ انقلابی افراد اس وجہ سے کہ انھیں شاید ذاتی طور پر کسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا انقلاب سے ناحق ہی برگشتہ ہو گئے، کچھ لوگوں نے ذاتی اور خاندانی مسائل کی وجہ سے کوئی اور راستہ چن لیا، لیکن سب سے اہم چیز یہ تھی کہ مختلف میدانوں منجملہ مومن، انقلابی، ماہر، تعلیم یافتہ اور حد درجہ کارآمد افرادی قوت کے اعتبار سے انقلاب کو ملنے والے نئے ساتھیوں کی تعداد ساتھ چھوڑنے والوں سے بہت زیادہ رہی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج بھی اگر عوام پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل کے لئے سب سے زیادہ با لیاقت نمائںدوں کے انتخاب کی اپنی ذمہ داری پر بخوبی عمل کریں تو شجر انقلاب میں نئی سرسبز کونپلوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور انقلاب کے دوام کو ایک بار پھر ضمانت ملے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فریضے پر عمل آوری کے نتیجے میں انقلاب کو دوام ملنے کے ساتھ ہی عوام الناس کے دل میں سکون و طمانیت پیدا ہونے کے نکتے سے بحث کرتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیعت کرنے والوں کے دلوں کو سکون و طمانیت ملنے سے متعلق آیات قرآن کا حوالہ دیا اور کہا کہ جو بھی آج انقلاب، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور راہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کرے اس نے گویا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیعت کی ہے اور اللہ تعالی اس بیعت کے اجر کے طور پر عوام کے دلوں سے بے چینی، ناامیدی اور تشویش کو دور کرے گا اور اس کی جگہ سکون و طمانیت عطا فرمائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ انقلاب کی پائیداری اور عوام کی پرسکون اور پرامید استقامت یقینی طور پر امریکا اور تمام دشمنوں کی سازشوں پر ملت ایران کی فتح کا باعث بنے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کی استقامت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایٹمی کامیابیوں کی قدردانی کرتے ہوئے امریکا کی چال بازیوں کے مقابلے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ایٹمی کامیابیوں کے بارے میں صدر حسن روحانی کے خط کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے جاری ہونے والے خط میں، ایرانی عوام کی استقامت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایٹمی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کیا گیاہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خط میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر، وزیر خارجہ اور ایٹمی مذاکرات کاروں کی کوششوں کو سراہا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خط میں اعلی حکام کو یاد دہانی کرائی ہے کہ صرف پابندیوں کا خاتمہ ہی ملک و ملت کی معاشی بہتری کے لیے کافی نہیں بلکہ ایران کی اقتصادی مشکلات کا حل استقامتی معیشت کے تحت انتھک محنت اور دانشمندانہ منصوبہ بندی پر منحصر ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایٹمی مذاکرات میں جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ سامراجی محاذ اور منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی عوام کی استقامت و پامردی کی بدولت حاصل ہوئی ہے اس لئے ہم سب کو چاہئے کہ اس واقعے کو اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام واقعات میں ایک بڑے درس کے طور پردیکھیں- آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےفرمایا ہے کہ اس بات پر گہری نظر رکھی جائے کہ فریق مقابل اپنے وعدوں پر پوری طرح سے عمل کرے کیونکہ حالیہ چندروز کے دوران امریکی عہدیداروں کے بیانات بدگمانی پید ا کرنے کا باعث بنے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خط میں ایرانی حکام کی کامیابی کی امید کرتے ہوئے ایک بار پھر تاکید فرمائی ہے کہ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے، سامراجی حکومتوں خاص طور سے امریکہ کی چال بازیوں اور وعدہ خلافیوں نیز دیگر مسائل سے ذرہ برابر غفلت نہ برتی جائے۔

رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استاد حضرت آیت ‌الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ زخرف کی آیت «وَقَالُوا۟ یَـٰٓأَیُّهَ ٱلسَّاحِرُ ٱدْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِندَکَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ﴿٤٩﴾» کی تلاوت کرتے ہوئے بیان کیا : جب بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہوا تو فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا کہ ہم لوگوں پر سے عذاب ہٹا لیا جائے تا کہ ہم لوگ ہدایت حاصل کریں لیکن جب خداوند عالم نے ان پر سے عذاب ہٹا لیا تو وہ لوگ پھر پہلے کی طرح اپنے کفر پر اصرار کرنے لگے ۔

انہوں نے وضاحت کی : فرعوان کی اقداری نظام دولت و طاقت ہے ، کہتا ہے کہ مصر کی سلطنت کہ وہ میرا ہے اور مصر میں بہنے والا دریا بھی میری ملکیت میں جاری ہے ، یہ دریای نیل میرے حکمرانی میں ہے یا اس دریا کا بعض حصہ میرے تدبیر کے ذریعہ میرے قصر سے گذرتا ہے ، وہ ایسا شخص تھا جو بصر کا حامل تھا مگر بصیرت نہیں رکھتا تھا ، موسی کلیم اللہ کا وجود مبارک جب قیادت کے فرائض کو اختیار کیا تو اس زمانہ میں ان میں لکنت کی مشکلات نہیں پائی جاتی تھی لیکن جب برسوں مسلسل فرعون کے دربار میں رہے تو ان کی زبان میں لکنت بھی ہونے لگی ، موسی علیہ السلام کے سلسلہ میں کہا کہ وہ اچھی طرح گفت و گو نہیں کر سکتے ہیں ۔

قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے آیت « أَمْ أَنَا۠ خَیْرٌۭ مِّنْ هَـٰذَا ٱلَّذِى هُوَ مَهِینٌۭ وَلَا یَکَادُ یُبِینُ ﴿٥٢﴾ فَلَوْلَآ أُلْقِىَ عَلَیْهِ أَسْوِرَةٌۭ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَآءَ مَعَهُ ٱلْمَلَـٰٓئِکَةُ مُقْتَرِنِینَ ﴿٥٣﴾» کی تلاوت کرتے ہوئے اظہار کیا : وہ ایسا شخص ہے کہ جو مھین و خوار ہے اور اچھے سے گفت و گو نہیں کر سکتا ہے ، یا اس دلیل کی بنا پر کہ فرعون کا معرفتی نظام حس و تجربہ ہے اور حضرت موسی علیہ السلام کی گفت و گو نہیں سمجھتا ہے ، اگر وہ حق پر ہے اور کمال پر پہوچنا چاہتا ہے تو کیوں اس کے پاس سونا نہیں ہے کیوں سونے کا کنگن نہیں پہنتا ہے ۔

انہوں نے بیان کیا : عوام کے لئے تعلیم کے بجائے تبلیغ کرتا ہے اور تعلیل کے بجائے تکرار سے استفادہ کرتا ہے ، معاشرے کو ایک تبلیغ کے ذریعہ اور اس معاشرے کو سو بار تکرار سے یقین حاصل ہو جاتی ہے ، فرعون نے بھی اسی کام کو انجام دیا ، پہلے کہا معرفت شناسی نظام حس و تجربہ ہے اور اقداری نظام سونا و چاندی ہے اور معاشرے کے ذہن کی صفائی لوگوں کے نظر انداز و ذلت کے ذریعہ ہوتا ہے «فَٱسْتَخَفَّ قَوْمَهُۥ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ کَانُوا۟ قَوْمًۭا فَـٰسِقِینَ ﴿٥٤﴾» ۔

حضرت آیت‎الله جوادی آملی نے آیت «فَلَمَّآ ءَاسَفُونَا ٱنتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَـٰهُمْ أَجْمَعِینَ ﴿٥٥﴾» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کیونکہ ہمارے غصہ کا سبب بنا ہے اس لئے ہم نے اس سے انتقام لیا ہے ، اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا ہے ، ایک وقت ہے کہ خداوند عالم عادی شخس کو ہلاک کرتا ہے لیکن اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان میں سے بعض شرک کے رہنما تھے ، کہا یہ لوگ جو کہ شرک و کفر کے رہنما تھے ان کو میں نے آئندہ والوں کے لئے نمونہ کے عنوان سے قرار دیا ہے ۔

انہوں نے خطبہ قاصعہ حضرت امام علی علیہ السلام کے ایک بخش جس میں حضرت موسی علیہ السلام کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اظہار کیا : خطبہ قاصعہ کو پڑھئے ، نہج البلاغہ کو قرآن کریم کے ساتھ استفادہ کرنا چاہیئے مگر افسوس کی بات ہے کہ وہ مقام نہیں دیا جا رہا ہے ، وہ لوگ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہرتے ہیں وہ خداوند عالم کی بات کو بیان کرتے ہیں ، حرم مسجد کی طرح ہے ، یہ اس مقدس مقام کا اثر ہے ، وہ لوگ قرآن ناطق ہیں اور یہ قرآن کریم کتاب صامت ہے.

حضرت امام حسن عسکری (ع) آٹھ ربیع الثانی 232 ہجری بروز جمعہ مدینہ میں پیدا ہوئے، آپ آسمان امامت و ولایت اور خاندان وحی و نبوت کے گیارہويں چشم و چراغ ہیں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم و جابر و غاصب وعیار و مکار عباسی خلفا سے تھا ۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آنداھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے ۔

آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے ۔ آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے ان میں سے مصر میں احمد بن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن بن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن بن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے ۔ اس کے علاوہ مخفیانہ طور سے جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کئے جاتے تھے اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لئے چند پروگرام بنائے ۔ پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا ۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبدالعزیز اموی کی دیوان مظالم کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ھفتے میں ایک دن عوام آکر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے ۔ لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا درحقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنادیا جائے کہ جس امام حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔ تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے جابر وظالم حکمرانوں کا یہ دستور رہاہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو خاموش کردیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لئے سوائے رسوائی مذمت کے کچھ نہیں ہوگا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگون کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی امام حسن عسکری (ع) نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لئے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی (ع) کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کردیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہلبیت رسول (‏ع) ہی ہیں

امام حسن عسکری(ع) اسی سلسلہ عصمت کی ایک کڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا , علم وحلم , عفو وکرم , سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس سے آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے , اگرچہ آپ کو آپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر اتے تھے اور بامراد وآپس جاتے تھے۔آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبداللہ بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقاف وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کا تذکرہ آگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن علیہ السّلام عسکری سے زیادہ مرتبہ اور علم و ورع , زہدو عبادت ,وقار وہیبت , حیاوعفت , شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہں معلوم ہوا۔ اس وقت جب امام علی نقی علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول تھے تو بعض گھر کے ملازمین نے اثاث اللبیت وغیرہ میں سے کچھ چیزیں غائب کردیں اور انھیںخبر تک نہ تھی کہ امام علیہ السّلام کو اس کی اطلاع ہوجائے گی۔ جب تجہیز اور تکفین وغیرہ سے فراغت ہوئی تو آپ نے ان نوکروں کو بلایا اور فرمایا کہ جو کچھ پوچھتا ہوں اگر تم مجھ سے سچ سچ بیان کرو گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا اور سزا نہ دوں گا لیکن اگر غلط بیانی سے کام لیا تو پھر میں تمھارے پاس سے سب چیزیں بر آمد بھی کرالوں گا اور سزا بھی دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے ہر ایک سے ان اشیا ء کے متعلق جو ان کے پا س تھیں دریافت کیا اور جب انھوں نے سچ بیان کر دیا تو ان تمام چیزوں کو ان سے واپس لے کر آپ نے ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی اور معاف فرمادیا
علمی مرکزیت
باوجود یہ کہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علماء کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قرآن مجید کی آیات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا۔ یہ خبر امام حسن عسکری علیہ السّلام کو پہنچی اور آپ موقع کے منتظر ہو گئے۔اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارآدمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو اس فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قرآن کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور ! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں ؟ حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام نے فرمایا ! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا !جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں۔ حضرت نے کچھ آیتیں قرآن کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا توّہم ہورہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کررہے ہیں اور اگر کلام عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی نکل آئیں جن کے بنا پر الفاظ قرآن میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساختہ معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں آپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے۔ ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیئے۔ بہرحال وہ آدمی منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمہاری قابلیت سے بالا تر ہیں۔ سچ سچ بتانا کہ یہ باتیں تمھیں کس نے بتائی ہیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خود ہمارے ذہن میں آئی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد, حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہوسکتیں تھے۔پھر اس نے آگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ,نذر آتش کردیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ حضرت (ع)انجام دےرہے تھے اور حکومت وقت جو اسلام کی پاسداری کی دعویدار تھی۔ اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کو اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں نافذ کردیتی تھی , مگر اس کوهِ گراں کے صبرو استقال میں فرق نہ آیا۔