Super User
فلسفہٴ روزہ
ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ھے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ وحکمت اور اسرار سے واقف ھو کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ھے جسکی غرض وغایت ا ورحکمت معلوم نہ ھو ۔ حکمت جانے بغیریا تو وہ سرے سے عمل ھی انجام نھیں دیتا یاپھر کسی جاذبہ اور خوف مثلاً جاذبہٴ بھشت اور خوف عذاب کی بناء پر عمل تو انجام دیتا ھے لیکن اسکے تحت الشعور میں یہ نکتہ بار بار ابھرتا ھے کہ کیا یہ ممکن نھیں تھاکہ اس عمل کو انجام دیے بغیرھی مورد نظرھدف حاصل ھو جاتا اوراس خوف سے نجات مل جاتی ۔در حقیقت اگر انسان کسی عمل کے ا سرار سے واقف نہ ھو تو اسکی دلی تمنّا یہ ھوتی ھے کہ اس عمل کے انجام دئے بغیر ھی اسے بھشت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ حاصل ھو جائے اور عذاب جھنّم سے بھی نجات مل جائے۔
یہ بھی ممکن ھے کہ حکم خداکا احترام کرتے ھوئے کوئی کسی عمل کو تعبّداً انجام دے لیکن اس طرح تعبّداً عمل انجام دینے کے لئے بھی شرط ھے کہ عمل کرنے والا ذات خدا کی عمیق معرفت رکھتا ھو ورنہ اسکے تعبّد میں دوام اور تسلسل پیدا نھیں ھو سکتا۔خدا کی معرفت اگرچہ انسان کے لئے باعث بنتی ھے کہ وہ احکام الٰھی کی تعمیل کرے تاکہ حرمت الٰھی ٹوٹنے نہ پائے لیکن اگر خود عمل پر نظر کریں تو جب تک اسکا فلسفہ اور راز معلوم نہ ھو وہ فقط ایک بے کیف ،بے جان اور بے روح عمل ھوتا ھے ۔انسان تعبّداً ایک عمل کو انجا م ضرور دے لیتا ھے لیکن اس عمل کے ثمرات اور اثرات سے محروم رھتا ھے ۔
یہ نکتہ انسان کے لئے بھت اھم ھے کہ جب وہ کسی عمل کو انجام دے رھا ھو مثلاًنماز پڑھ رھا ھو ،روزہ رکہ رھا ھو،انفاق کر رھا ھو ،حج،جھاد،امرباالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم فرائض کو انجام دے رھا ھو تو وہ ان اعمال کے اثرات،ثمرات اور برکات سے بھی واقف ھو۔وہ یہ جانتا ھو کہ یہ عمل مثلاً نماز اگر اپنے اسرار کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ اسکی زندگی میں کتنا بڑا تحوّل وتغیر ایجاد کر سکتی ھے۔ اسرار سے واقفیت انسان کے اندر تحریک ایجاد کرتی ھے اور اس کی ھمّت کو بلند کر دیتی ھے ،پھر وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نھیں ھوتا کیونکہ وہ اس کے ثمرات سے محروم نھیں ھونا چاھتا۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں :
”قَدرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ ھِمَّتِہ “
انسان کی قدروقیمت اور اسکی شناخت خوداسکی ھمتوں کے ذریعے کی جاسکتی ھے ۔ وہ جتنی بلند ھمّت کرتا ھے اتنا ھی بڑا اور قیمتی انسان ھوتا ھے۔ چھوٹے،معمولی اور پست انسانوں کی ھمّتیں بھی چھوٹی اور پست ھوتی ھیں ،جو نہ صرف یہ کہ بڑی ھمّتیں نھیں کر سکتے بلکہ اگر اسکا تذکرہ بھی سنتے ھیں تو خوفزدہ ھو جاتے ھیں اوراپنے دل میں تنگی کا احساس کرنے لگتے ھیں مثلاًبعض افراد اتنے کم ھمّت ھوتے ھیں کہ وہ روزہ رکھنے کی ھمّت ھی نھیں کر پاتے،بعض ھمّت تو کر لیتے ھیں لیکن اگر صبح میں ارادہ کرتے ھیں تو شام میں ٹوٹ جاتا ھے،اور اگر شام میں ارادہ کرتے ھیں تو سحر تک ٹوٹ جاتاھے۔
بعض افراد تھوڑی بلندھمت کرتے ھیں اور روزہ رکہ لیتے ھیں لیکن ذرا سا حلق میں خشکی کا احساس ھوتا ھے اور انھیں یہ فکر لاحق ھوجاتی ھے کہ کسی طرح کوئی ایسا بھانہ ھاتہ آجائے جسکی وجہ سے یہ روزہ توڑاجاسکے ، خواہ وہ حلق کی خشکی سحر کے وقت زیادہ کھا لینے یا زیادہ دیر تک سو لینے کی وجہ سے ھی کیوں نہ ھو ۔
بعض دیگر افراد ذرااورھمت بلند کرتے ھیں اور اپنا روزہ کامل کر لیتے ھیں لیکن دو چار روزے گزرنے کے بعد ھمّت ھار جاتے ھیں ،بعض افراد سردیوں کے موسم کو دیکہ کر اپنی ھمّت کو بلندکرتے ھیں اور پورے مھینے کا روزہ رکہ لیتے ھیں ،لیکن گرمیوں میں ھمّت جواب دے جاتی ھے ،ایسی ھمّت رکھنے والے انسان کو ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا۔کم سے کم امام علی علیہ السلام کی نظرمیں یہ ایک کم ھمّت انسان ھوگا کیوں کہ آپ(ع) کو گرمیوں کے روزے زیادہ عزیزتھے۔
ایک انسان مزید ھمّت کرتا ھے اور اپنے اوپر فرض تمام روزوں کو گرمی وسردی کی پرواہ کئے بغیر رکھتا ھے لیکن روزے کے آداب واسرار سے بے خبر ھوتاھے ،اسکی قسمت میں بھی بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں آتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
کَم مِن صَائِمٍ لَیسَ لَہ مِنْ صِیَامِھ الْجُوع وَالظَّمَاء۔ ۔ ۔ ۔
کتنے روزہ دار ایسے ھیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں ملتا‘۔
ایک انسان آداب روزہ کی بھی رعایت توکرتا ھے لیکن اسرار روزہ سے باخبر نھیں ھے لھٰذا اسے بھی ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا،اگرچہ اس کی ھمّت دوسروں کی بہ نسبت کافی بلند ھے لیکن اسکی زندگی روزہ کے اثرات و ثمرات سے بے بھرہ ھے۔ اسکے نصیب میں فقط روزہ کاثواب آتا ھے،اسے جنّت توضرور مل جاتی ھے لیکن خدا نھیں ملتا،اس کی زندگی پر روزے کا کوئی اثر نھیں ھوتا لھٰذاجس طرح ایک نمازی مسجد سے نکل کر فحشاء ومنکر کا مرتکب ھوتا ھے اور اپنے آپ کو طرح طرح کی برائیوں سے آلودہ کر لیتا ھے ،کیوں کہ وہ نماز کے اسرار سے واقف نھیں ھے اور نماز اس کی زندگی پر کوئی اثر نھیں ڈالتی اسی طرح یہ روزہ د ار بھی ماہ رمضان کے بعد یا ممکن ھے خود روزہ ھی کی حالت میں بڑے سے بڑے فردی یا اجتماعی جرم و گناہ کا مرتکب ھو اور اس کی پرواہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ فلسفہٴ روزہ سے بے خبر ھے اور اس نے اسرار روزہ کو درک کرنے کی کوشش نھیں کی ،حتیٰ ممکن ھے وہ شب قدر میں بھی کسی بڑے جرم یا خیانت کا مرتکب ھو جائے کیوں کہ وہ اسرار شب قدرسے بے خبرتھا۔
رمضان کے باب میں ایک بلند ھمّت انسان وہ ھے جو روزے کو اسکے آداب اور اسرار کے ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں ھے ،مقام انسان اتنا بلند ھے کہ اس کی کوئی حد معیّن نھیں کی گئی ھے، و ہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمّت کوبلندکر سکتا ھے اور وہ اس طرح کہ روزے کو اسکے پورے آداب و اسرار کے ساتھ کامل کرے اور جب افطارکاوقت آئے تو اپنی افطارکی روٹیاں فقیر کو دے کر پانی پر اکتفاکر لے اور یہ عمل تین دنوں تک جاری رھے ----”و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا“ یھاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس عمل میں ایک غیر معصوم کنیز(فضّھ) بھی شریک ھے جو اس بات کی علامت ھے کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ کو ایسے بلند مقام تک پھونچا سکتا ھے جھاں وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم کے لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔یہ کسی بھی انسان کے لئے ایک بھت بڑا مقام ھے اور اس اطعام کی لذّت ان روٹیوں کے کھانے سے کھیں زیادہ ھے ۔
ضعف یا قوت ؟ روزہ میں نقاھت کا احساس
یہ درست ھے کہ حالت روزہ میں انسان کو بعض اوقات نقاھت کا احساس ھوتا ھے جو پیاس اور گرسنگی کا ایک طبیعی تقاضا ھے ،اسی نقاھت کو بعض افراد ضعف سے تعبیر کرتے ھیں جبکہ ضعف اورنقاھت میں فرق ھے ۔نقاھت ایک وقتی احساس ھے جو بھت جلدی ختم ھو جاتا ھے بلکہ انسان اگر اسرار و فلسفھٴ روزہ سے واقف ھو توشدیدترین گرمیوں کے روزے میں بھی اسے بجائے سستی اور نقاھت کے لذّت ،نشاط اور طمانینت کا احساس ھوتا ھے جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان ھواھے کہ آپ گرمیوں کے روزوں کوبے حد عزیز رکھتے تھے۔ یہ بھی درست ھے کہ روزہ بعض افراد کے لئے جسمانی ضعف کا بھی باعث بنتا ھے لیکن جسمانی ضعف اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ اس سے ا نسان بھی ضعیف ھو جائےبلکہ ممکن ھے کہ اس جسما نی ضعف کے باوجود انسان خود کو عزم و ارادے اور استقامت کے لحاظ سے اتنا قوی کر لے کہ جسمانی ضعف اسکے عزم و ارادے کی راہ میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے کیونکہ یہ بات علمی اور تاریخی شواھدکے اعتبار سے مسلّم ھے کہ مضبوط عزم و ارادے کے سامنے جسمانی تھکاوٹ یا ضعف مانع ایجاد نھیں کر سکتا ۔اس کے بر خلاف جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو لیکن عزم و ارادے کی سستی اس کے حوصلوں کو سرد کر دیتی ھے اور انسان عمل کے میدان میں پیچھے رہ جاتا ھے ۔ پس روزہ ممکن ھے بعض افراد کے لئے وقتی ضعف کا سبب بنے لیکن دوسری طرف یھی روزہ انسان کے اندر صبر ، تحمّل، استقامت ، قوت برداشت اور قوت عزم و ارادہ پیدا کرتا ھے ۔ ان معنوی قوتوں کے حاصل ھونے کے بعد جسمانی ضعف کسی طرح کی رکاوٹ ایجاد نھیں کر سکتا اور انسان کی بلند رو ح جسمانی ضعف پر غالب آجاتی ھے ۔ یہ اس صورت میں ھے کہ جب یہ فرض کیا جائے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی ضعف پیدا ھوتا ھے ورنہ حقیقت یہ ھے کہ روزہ انسان کو جسمانی اعتبار سے سالم اور متعدد قسم کے امراض سے محفوظ کر دیتا ھے _
یھیں سے ھمیں تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ھے اور وہ یہ کہ آب و غذا اگر چہ جسم کا تقاضا ھے اور عام حالات میں انسان کے لئے بھوک اور پیاس ناگوار اور سخت ھوتی ھے ،لیکن مذکورہ اھداف وفوائد اور بعد میں بیان ھونے والے عظیم اسرار کی خاطر انسان کے لئے یہ ناگوار چیز نھایت عزیز، لذّت بخش اور پسندیدہ ھوتی ھے یھاں تک کہ وہ عاشق اور محب روزہ ھو جاتا ھے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور نماز کے لئے فرمایاتھا کہ خداجانتا ھے ” اِنِّی اُحِبُّ الصَّلَوٰةَ “میں عاشق نماز ھوں یا امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے آخر میں شدید ترین گریہ کے عالم میں اس مبارک مھینہ کو الوداع کرتے ھیں
:
” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَکْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْاَوْقَاتِ “اے کریم ترین ساتھی تجھ پر سلام ۔
روزہ کے ان اھداف کو دیکھتے ھوئے انسان بھت خوشی کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے حاصل کی ھوئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے جس طرح ایک طبیب کے مشورے پر انسان بھت سی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے حتّیٰ ضرورت پڑنے پر قطع اعضا اور آپریشن کے لئے بھی تیار ھوجاتا ھے بلکہ اس عمل کے لئے ڈاکٹر کو بڑی سے بڑی مقدار میں اجرت دیکر بعد میں شکر گزار بھی ھوتا ھے ۔
حلال چیزوں کے حرام ھونے کا ایک اور بڑا مقصد وھی ھے جو پھلے بیان ھوا یعنی زندگی کی یکسانیت سے نجات تاکہ انسان ان روزمرّہ عادتوں کے زندان سے نکل کر بلند امور و معارف کی طرف متوجہ ھو سکے ۔
روزہ کی فضیلت پر امام صادق علیہ السلام کے فرمان
فلسفہ روزه
قال الصادق علیه السلام: انما فرض الله الصيام ليستوى به الغنى و الفقير.
ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:خدا نے روزه واجب کیا تا کہ اس وسیلے سے دولتمند اور غریب (غنى و فقير) یکسان ہو جائیں.
(من لا يحضره الفقيہ، ج 2 ص 43، ح 1 )
آنکھ اور کان کا روزه
قال الصادق علیه السلام :اذا صمت فليصم سمعك و بصرك و شعرك و جلدك.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جب تم روزه رکهتے ہو تمهاری آنکھ، کان، بالوں اور جلد کا بهی روزه ہونا چاہئے « یعنی انسان کے تمام اعضاء و جوارح کو بهی گناہوں سے پرهیز کرنا چاہئے.»
(الكافى ج 4 ص 87، ح 1 )
روزہ اور صبر
عن الصادق علیه السلام فى قول اللہ عزوجل :«واستعينوا بالصبر و الصلوة» قال: الصبر الصوم.
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ: یہ جو اللہ جلَّ شأنُہ نے فرمایا ہے کہ صبر اور نماز سے مدد و اعانت حاصل کرو اس میں صبر سے مراد روزہ ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 298، ح 3
روزہ داروں کو خوشخبری
قال الصادق علیه السلام :من صام للہ عزوجل يوما فى شدة الحر فاصابه ظما و كل اللہ به الف ملك يمسحون وجهه و يبشرونہه حتى اذا افطر.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بہت گرم دنوں میں خدا کے لئے روزہ رکهے اور اس کو پیاس لگے خدا هزار فرشتوں کو مأمور فرماتا ہے کہ اپنے ہاتھ اس کے چہرے پر مسح کرتے رہیں اور اس کو مسلسل جنت کی بشارت دیں حتی کہ وہ افطار کرے.
(الكافى، ج 4 ص 64 ح 8; بحار الانوار ج 93 ص 247 )
روزہ دار کی خوشی
قال الصادق علیہ السلام :للصائم فرحتان فرحة عند افطارہ و فرحة عند لقاء ربه
امام صادق علیہ السلام فرمود: روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں:
1 – افطار کے وقت 2 – لقاء رب کے وقت (یعنی مرتے وقت اور قیامت میں)
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 290 و 294 ح6 و 26)
مستحب روزہ
قال الصادق علیہ السلام: من جاء بالحسنة فله عشر امثالها من ذلك صيام ثلاثة ايام من كل شهر.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص عملِ نیک انجام دے 10 گنا انعام پاتا ہے اور انہی نیک اعمال مین سے ایک یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکهے جائیں.
(وسائل الشیعة، ج 7، ص 313، ح 33 )
ماہ شعبان کا روزہ
من صام ثلاثة ايام من اخر شعبان و وصلها بشہر رمضان كتب اللہ له صوم شہرين متتابعين.
امام صادق (علیہ السلام) فرمود: جو شخص ماہ شعبان مین تین روزے رکهے اور اپنے روزوں کو ماه رمضان سے ملا دے خداوند متعال اسے دو متواتر مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا کرے گا. (وسائل الشیعة ج 7 ص 375،ح 22 )
افطار کروانا
قال الصادق (علیہ السلام) :من فطر صائما فله مثل اجرہ
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کروائے گا اس کے لئے روزہ دار شخص کے روزے جتنا ثواب ہے.
(الكافى، ج 4 ص 68، ح 1 )
روزه خوارى
قال الصادق علیه السلام : من افطر يوما من شهر رمضان خرج روح الايمان منه
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: جو شخص رمضان کے ایک دن کا روزہ (بغیر کسی عذر کے) کهالے روحِ ایمان اس سے الگ ہوجاتی ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 181، ح 4 و 5 - من لا يحضرہ الفقيہ ج 2 ص 73، ح 9 )
فیصلہ کن رات
قال الصادق علیه السلام :راس السنة ليلة القدر يكتب فيها ما يكون من السنة الى السنة.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: سال (اور حساب اعمال) کا آغاز شب قدر ہے. اس رات آنے والے سال کا پورا پروگرام لکها جاتا ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 258 ح 8)
شب قدر کی برتری
قيل لابى عبد اللہ علیه السلام :كيف تكون ليلة القدر خيرا من الف شهر؟ قال: العمل الصالح فيها خير من العمل فى الف شهر ليس فيها ليلة القدر.
امام صادق علیہ السلام سے پوچها گیا: شب قدر کس طرح ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس رات کے دوران عمل ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 256، ح 2 )
تقدير اعمال
قال الصادق علیه السلام : التقدير فى ليلة تسعة عشر و الابرام فى ليلة احدى و عشرين و الامضاء فى ليلة ثلاث و عشرين.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اعمال کا تخمینہ (اور اعمال کی مقدار کا اندازہ) انیسوین کی رات کو لگایا جاتا ہے اور ان کی منظوری اکیسوین کی رات کو دی جاتی ہے اور ان کا نفاذ تئیسویں کی رات کو ہوتا ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 259)
زكواة فطرہ
قال الصادق علیه السلام :ان من تمام الصوم اعطاء الزكاة يعنى الفطرة كما ان الصلوة على النبى صلى اللہ علیه و آله و سلم من تمام الصلوة.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: روزوں کی تکمیل زکواة فطرہ کی ادائیگی سے ہوتی ہے جس طرح کہ نماز کی تکمیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام بهیجنے سے ہوتی ہے.
(وسائل الشیعة، ج 6 ص 221، ح 5 )
مؤلف : محمد حسين فلاح زادہ
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
روزه بدن کی زكواة
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :لكل شيئى زكاة و زكاة الابدان الصيام.
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زکواة ہے اور بدن کی زکاة روزه ہے.
(الكافى، ج 4، ص 62، ح 3 )
روزه آتش دوزخ کی ڈهال
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم جنة من النار.
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزه جہنم کی آگ کے مقابلے میں ڈهال کی حیثیت رکهتا ہے. «يعنى روزه رکهنے کے واسطے سے انسان آتش جہنم سے محفوظ ہو جاتا ہے.»
(الكافى، ج 4 ص 162 )
روزه کی اہميت
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم فى الحَرِّ جہاد
رسول خدا صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا: گرمی میں روزه رکهنا جہاد ہے.
(بحار الانوار، ج 96، ص 257 )
روزے کی جزا
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: قال اللہ تعالى الصوم لى و انا اجزى به
رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: روزہ میرے لئے ہے (اور میرا ہے) اور اس کی جزا میں ہی دیتا ہوں. (وسائل الشیعة ج 7 ص 294، ح 15 و 16 ; 27 و 30 )
طعام و شرابِ جنت نوش کرنے والے
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:من منعه الصوم من طعام يشتهيه كان حقا على اللہ ان يطعمه من طعام الجنة و يسقيه من شرابها.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس شخص کو روزہ اس کی مطلوبہ غذاؤں سے منع کرکے رکهے خدا کی ذمہ داری ہے کہ اس کو جنت کی غذائیں کهلائے اور انہیں جنیتی شراب پلا دے.
(بحار الانوار ج 93 ص 331 )
خوشا بحال صائمین
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :طوبى لمن ظما او جاع للہ اولئك الذين يشبعون يوم القيامة
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خوش بخت ہیں وہ لوگ جو خدا کے لئے بهوکے اور پیاسے ہوئے ہیں یہ لوگ قیامت کی روز سیر و سیراب ہونگے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 299، ح2)
جنت اور روزہ داروں کا دروازہ
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :ان للجنة بابا يدعى الريان لا يدخل منه الا الصائمون.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اور اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہونگے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 295، ح31. معانى الاخبار ص 116 )
مؤمنوں کی بہار
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: الشتاء ربيع المؤمن يطول فيه ليلہه فيستعين به على قيامه و يقصر فيه نهارہ فيستعين به على صيامه.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: سردیوں کا موسم مؤمن کی بہار ہے جس کی طویل راتوں سے وہ عبادت کے لئے استفادہ کرتا ہے اور اس کے چهوٹے دنوں مین روزے رکهتا ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 302، ح 3 )
ماہ رمضان کی فضيلت
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:ان ابواب السماء تفتح فى اول ليلة من شهر رمضان و لا تغلق الى اخر ليلة منه
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم فرمود: آسمان کے دروازے ماه رمضان کے پہلی رات کو کهلتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے.
(بحار الانوار، ج 93، ص 344 )
ماہ رمضان کی اہميت
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:لو يعلم العبد ما فى رمضان لود ان يكون رمضان السنة
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر بنده «خدا» کو معلوم ہوتا کہ رمضان کا مہینہ کیا ہے، (اور یہ کن برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے) وه چاہتا کہ پورا سال ہی روزہ رمضان ہوتا.
(بحار الانوار، ج 93، ص 346)
روزہ کی اہمیت پر حضرت علی علیہ السلام کے فرامین
روزه اخلاص کا امتحان
قال اميرالمؤمنين علیه السلام: فرض الله الصيام ابتلاء لاخلاص الخلق
امام على علیہ السلام نے فرمایا: خدا نے روزه واجب کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنی مخلوقات کے اخلاص کا امتحان لے.
(نہج البلاغہ، حكمت 252 )
نفس کا روزه
قال اميرالمؤمنين علیه السلام :صوم النفس عن لذات الدنيا انفع الصيام.
اميرالمؤمنین على علیہ السلام نے فرمایا: نفس کا دنیاوی لذتوں سے روزه (واجتناب)، مفید ترین روزوں میں سے ہے.
(غرر الحكم، ج 1 ص 416 ح 64 )
حقیقی روزه
قال اميرالمؤمنين علیه السلام:الصيام اجتناب المحارم كما يمتنع الرجل من الطعام و الشراب.
امام على علیہ السلام نے فرمایا: روزه حرام سے پرهیز کا نام ہے جس طرح کہ انسان کهانے اور پینے سے پرهیز کرتا ہے.
(بحار ج 93 ص 249 )
برترين روزه
قال اميرالمؤمنين علیه السلام :صوم القلب خير من صيام اللسان و صوم اللسان خير من صيام البطن.
امام على علیہ السلام نے فرمایا: قلب کا روزه زبان کے روزے سے بہتر ہے اور زبان کا روزه پیٹ کے روزے سے بہتر ہے. (غرر الحكم، ج 1، ص 417، ح 80 )
قال اميرالمؤمنين علیه السلام
كم من صائم ليس له من صيامه الا الجوع و الظمأ و كم من قائم ليس له من قيامه الا السهر و العناء.
امام على علیہ السلام نے فرمایا: کتنے زیاده ہیں وه روزه دار جن کو روزے سے بهوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے زیاده ہیں وه تہجد گذار اور شب زنده دار لوگ جن کو بیخوابی اور صعوبت کے سوا کوئی فائده نصیب نہیں ہوتا.
(نہج البلاغہ، حكمت 145 )
روزہ کی اہمیت پر امام باقر علیہ السلام کی چند احادیث
اسلام کے ستون
قال الباقر علیه السلام:
بنى الاسلام على خمسة اشياء، على الصلوة و الزكاة و الحج و الصوم و الولاية.
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اسلام پانچ چیزوں پر استوار ہے نماز و زکواة و حج و روزه اور ولایت (اسلامی رهبری). (فروع كافى، ج 4 ص 62، ح 1 (
ناقص روزه
قال الباقر علیه السلام
لا صيام لمن عصى الامام و لا صيام لعبد ابق حتى يرجع و لا صيام لامراة ناشزة حتى تتوب و لاصيام لولد عاق حتى يبر.
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
ان افراد کا روزه مکمل نہیں ہے:
1 – وه شخص جو اپنے امام و رهبر کی نافرمانی کرتا ہو.
2 – بهاگا ہؤا غلام جب تک واپس نہ آیا ہو.
3 – وه عورت جس نے اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرتی ہو جب تک وہ توبہ نہ کرے.
4 – وه فرزند جو نافرمان ہؤا ہے اس وقت تک کہ فرمانبردار نہ ہو جائے.
(بحار الانوار ج 93، ص 295. )
مؤلف: محمد حسين فلاح زادہ
روزہ کا فلسفہ اہلبیت (ع) کی نگاہ میں
روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے۔ روزہ معدہ کو مختلف بیماریوں سے سالم اور محفوظ رکھنے میں فوق العادہ تاثیر رکھتا ہے۔ روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرتا ہے ۔
پیغمبر اکرم (ص) اور روزہ
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: المعد ۃ بیت کل داء۔ والحمئۃ راس کل دواء(۱)۔
معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہیزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے ) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے۔
اور نیز آپ نے فرمایا:صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا۔
روزہ رکھو تا کہ صحت یاب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ۔ اس لیے سفر اور تجارتی مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں لیجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: لکل شی ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصیام (۲)
ہر چیز کے لیے ایک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔
حضرت علی (ع) اور روزہ
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات ، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم ، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم ، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما في ذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.(3(
جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و سکون ملتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے۔ اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں۔
۱: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے۔
حضرت علی (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق(۴)
روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے۔ چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
۲: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے۔
امام علی (ع) نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں: صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب(۵)
روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔
امام رضا (ع) اور روزہ
جب امام رضا (ع) سے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کی سختی کا مزہ چکھیں۔ اور اس کے بعد روزہ قیامت کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا: واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع یوم القیامۃ و عطشہ۔ اپنے روزہ کی بھوک اور پیاس کے ذریعے قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔ یہ یاد دہانی انسان کو قیامت کے لیے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے لیے مزید جد و جہد کرنے پر تیار کرتی ہے۔(۷)
امام رضا (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پیاس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے۔ اور اسی طرح سے روزہ کے ذریعے انسان میں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شریعت ا سلامی اور احکام خداوندی نے شہوات کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے روزہ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانے اور بری صفات اور رذیلہ خصلتوں کو دور کرنے کے لیے روزہ کو واجب کیا ہے۔ البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ روزہ یعنی " کف النفس" نفس کو بچانا۔جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: روزہ ہر انسان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ بری بات منہ سے نہ نکالے اور بیہودہ کام انجام نہ دے۔
پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شیطان کے فریبوں سے نجات دلاتاہے۔ اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گویا اس نے صرف بھوک اور پیا س کوبرداشت کیا ہے اور یہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
حوالہ جات
1- اركان اسلام ، ص 108 .
2- كافي ، ج 4 ، ص 62.
3- نهج البلاغه ، خطبه 192.
4- نهج البلاغه ، حكمت 252.
5- نهج البلاغه ، خطبه 110.
6- وسائل الشيعه ، ج 7 ، ص 3.
7- وہی ، ص 4.
8- علل الشرايع ، شيخ صدوق ، باب الصوم
روزہ کا ظاھر وباطن
انسان جسم اور روح سے مرکّب ھے، جسم روح کی فعّالیت کا وسیلہ اور روح جسم کی حیات ھے۔ اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت ھو جاتا ھے ، اور دوسری طرف روح کی فعّالیت کا سلسلہ متوقّف ھو جاتا ھے ۔انسان کے اعمال و عبادات بھی بالکل انسان کے مانند ھیں ، ان میں بھی ایک جنبہٴ ظاھری و جسمانی ھے یعنی پیکر عمل، اور ایک جنبہٴ باطنی و روحانی ھے یعنی فلسفہ و اسرار عمل۔ جس طرح انسان کی زندگی اس کی روح میں ھے اسی طرح عمل کی حیات بھی اس کے اسرار اور فلسفہ میں ھے اور جس طرح روح کے بغیر انسان مردہ ھے اسی طرح اسرار و فلسفہ کے بغیر اعمال مردہ ھیں ، لیکن اکثر انسانوں کی مشکل یہ ھے کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ھیں ، وہ جسم کی زینت اور خدمت میں خود کو اتنا مشغول کر لیتے ھیں کہ انھیں روح کی طرف توجہ دینے کی فرصت ھی نھیں ملتی ۔ یہ پوری انسانیت کی مشکل ھے، آج کا انسان روح اور روح کے تقاضوں سے بے خبر صرف جسم کی خدمت میں لگا ھوا ھے اور بغیر روح کے جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو جائے مردہ ھے۔ آج کے انسانی معاشروں نے بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک شکل اختیار کر لی ھے ۔ شھر، سڑکیں، گلیاں، مکان سب سجے ھوئے ھیں لیکن ان میں حرکت کرنے والے انسان مردہ ھیں ۔جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ کی حرکت کے مانند ھے، جن کی ساری بھاگ دوڑاس لیے ھے کہ ان کے جسم کی تمام ضرورتیں اور خواھشیں پوری ھو جائیں لیکن اسکی کوئی فکر نھیں کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ھویانہ ھو۔تعجب اس بات پر ھے کہ پھر یھی انسان شکایت کرتا ھے کہ معاشرے میں فساد اور جرائم بڑھتے جا رھے ھیں جبکہ اسے معلوم ھے کہ مردہ جسم کو اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں تعفّن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی ھے۔
ایک سنجیدہ مسئلہ
انسانوں ھی کی طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح کے انجام دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ھیں ۔ تصنّع، ریا کاری ، فریب، تکبّر، اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں بے روح عبادتوں کے نتیجے میں پیدا ھوتے ھیں جن میں اکثر عباد ت گزار مبتلا ھوجاتے ھیں ۔عبادتوں کے ان نتائج کو دیکہ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور ھو جاتا ھے اور دور ھونا بھی چا ھیے کیونکہ مردہ چیزوں سے ھر شخص دوری اختیار کرتا ھے۔ پھر یہ شکایت کی جاتی ھے کہ جوان نسل مسجد میں نھیں آتی، جوان روزہ نھیں رکھتے اور یہ درست بھی ھے لیکن وہ مسجد میں اس لئے نھیں آتے کیوں کہ انھیں اسرار نماز نھیں معلوم ، وہ روزہ اسلئے نھیں رکھتے کیوں کہ انھیں فلسفھٴ روزہ نھیں بتایا گیا ھے ۔
راہ حل
آج جب کہ پوری بشریت شدّت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی ھے او ر دوسری طرف ان بے روح عبادتوں کو قبول بھی نھیں کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات کی ھے کہ ان تمام عبادتوں کے اسرار و فلسفے بیان کیے جائیں ، لوگوں کو جتنے احکام بتائے جائیں اس سے کھیں زیادہ ان کے اسرار بتائے جائیں ، احکام کا فلسفہ بیان کیا جائے۔
ممکن ھے کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح ھو جائے اسے ترک کردیا جائے لھٰذا یہ بے روح نمازیں ، بے روح روزے ، بے روح حج، بے روح عبادتيں ، بے روح عزاداری، حتّیٰ بے روح دین ان سب کو ترک کر دیا جائے ۔اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ ھو کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال کو ترک کر کے زندہ عبادتےں ، زندہ اعمال اور زندہ دین کو اپنایا جائے تو یہ وھی راہ حل ھے جو پھلے بیان کیا گیاھے یعنی ان میں روح پیدا کی جائے ان کے اسرار وفلسفے بیان کئے جائیں ، لیکن اگر اس سے مراد یہ ھو کہ سرے سے دین کو ترک کر دیا جائے، سرے سے عبادتےں ھی نہ انجام دی جائیں ، سرے سے عزاداری ھی نہ کی جائے تو یہ راہ حل ایسا ھے جیسے کوئی کھے کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ھیں لھٰذاان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔یہ کوئی راہ حل نھیں ھے کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں پھوڑ دی جائیں ۔
روزوں کی فصیلت پر امام کاظم علیہ السلام کی احادیث
افطار کروانا
قال الكاظم علیه السلام: فطرك اخاك الصائم خير من صيامك.
امام كاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: تم جو اپنے روزہ دار بهائی کو افطار کراتے ہو تمهارے اپنے (مستحب) روزے سے بہتر ہے.
(الكافى، ج 4 ص 68، ح 2 )
ماه رجب کا روزه
قال الكاظم (علیہ السلام) : الرجب نهر فى الجنة اشد بياضا من اللبن و احلى من العسل فمن صام يوما من رجب سقاه الله من ذلك النهر.
امام كاظم (علیہ السلام) فرمود: رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے جو دودھ سے زیاده سفید اور شھد سے زیاده شیرین ہے. جو شخص رجب کے مہینے مین ایک روزہ رکهے گا خدا اس کو نهر سے اس کو نوش کرائے گا.
(من لا يحضرہ الفقيہ ج 2 ص 56 ح 2 - وسائل الشیعة ج 7 ص 350 ح 3 )
روزہ داروں کی دعا
قال الكاظم (علیہ السلام) دعوة الصائم تستجاب عند افطارہ
امام كاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: روزہ دار کی دعا افطار کے وقت مستجاب ہوتی ہے.
(بحار الانوار ج 92 ص 255 ح 33)
مؤلف: محمد حسين فلاح زادہ
رمضان خودسازی کا مہینہ
خود سازی، خود شناسی (معرفت نفس) سے آغاز ہوتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کو اپنی معرفت حاصل کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے تاکہ اپنے آپ کو بنا سکیں۔ اس لیے کہ خود شناسی اور معرفت نفس، خدا شناسی اور معرفت خدا کا سبب بنتی ہے۔ اور اگر خدا کو پہچان لیا گویا اپنے آپ کو بنا لیا۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟ خدا وند عالم قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کر رہا ہے: وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون۔ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
بہت ساری تفاسیر میں لیعبدون کو لیعرفون کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی خلقت کا مقصد معرفت ہے۔ ورنہ صرف نماز و روزہ اور دعا کا نام عبادت نہیں ہے۔ نماز و روزہ اور خمس و زکاۃ عبادت کا ایک حصہ ہے۔
کیسے خلیفۃ اللہ بنیں؟
عبادت، سماج میں زندگی گذارنے اور دوسروں کے لیے جینے کا نام ہے۔ یہ جو عبادت کے لیے تاکید کی جاتی ہے کہ عبادت کو اجتماعی طور پر انجام دینا چاہیےاور مسجد اور جمعہ جماعت میں شرکت کرنا چاہیے، اسی وجہ سے ہے کہ انسان کی معرفت اور پہچان اس کی ذات سے منحصر نہ ہو جائے۔ اور اسے دوسروں تک بھی سرایت کرنا چاہیے۔ ہم اس لیے نہیں پیدا ہوئے ہیں کہ صرف اپنی ہی فکر کریں اور اپنی ہی نجات کے بارے میں فکر کریں۔ بلکہ سماج اور سوسائٹی کے درمیان زندگی گذاریں۔ معاشرے کو ساتھ لے کر چلیں۔ دوسروں کی فلاح اور بہبود کی بھی فکر کریں ۔بہرحال ہماری بحث معرفت کے بارے میں نہیں کہ جوایک طولانی بحث ہے جس کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے۔ یہاں پر ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ کیسے اپنے آپ کو اچھا بنائیں؟ کیسے انسان اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ خدا کا خلیفہ کہلائے؟ خود سازی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کوا یسا بدلے جیسا خدا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا جی تکبر اور خود خواہی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اپنے نفس کی ایسی تربیت کریں کہ تکبر اور خود خواہی سے نجات پاجائیں اور تواضع اور انکساری ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ اگر ہمارے اندر بخل اور کنجوسی پائی جاتی ہے تو اس مذموم صفت کو ختم کر کے اس کی جگہ کرامت اور بخشش کی صفت پیدا کریں۔ خلاصہ کلام یہ کہ صفات سلبیہ اور رذیلہ کو اپنے نفس و روح سے دور کر کے صفات ثبوتیہ اور حسنہ کا لباس اپنے وجود کو پہنائیں۔
کیا کرنا چاہیے؟
اپنے دل کو ہر اس چیز سے جو اللہ کی نظر میں ناپسند اور مکروہ ہے پاک اور پاکیزہ بنائیں اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کی رضا اور خشنودی کی راہ میں لگا دیں۔
اپنے اندر حلم اور بردباری کی عادت ڈالیں اس لیے کہ حلم انسان کے مقام کو بلند و بالا کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان باعزت و شرف ہونے کا باعث بنتا ہے۔ اور بزرگوں اور بڑوں کا احترام کریں اور ہر وہ چیز جو پستی، سستی اور کہولت کا سبب ہے سے دور رہیں اور جو چیز خدا سے نزدیک اور اس کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اسے اپنے وجود کے اندر پیدا کریں۔ اس چیز کی طرف قدم بڑھائیں جو عاقبت بخیر کا باعث ہو اور جس کا ثمرہ اور پھل میٹھا ہو۔
عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کریں اور جو چیز نفرت ، خجالت اور شرمندگی کا باعث ہے اور انسان کی شخصیت پر دھبہ لگاتی ہے اس سے پرہیز کریں۔ صبر سے کام لیں تاکہ یقین اور رضا کی منزل پر پہنچ سکیں خدا کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم رہیں مشکلات، مصائب، سختیوں اور پریشانیوں کے سامنے گھٹنا نہ ٹیکیں۔
عقل و روح کے تکامل کی طرف بڑھیں۔ اور تقویٰ اور عمل کے دو پروں کے ساتھ عزت اور عظمت کی بلندیوں کی طرف پرواز کریں۔ دنیا کی محدود لذتوں سے دل نہ لگائیں بلکہ تقویٰ، ورع، پارسائی اور زہد کے اسلحوں سے اپنے آپ کو مسلح کریں۔ تاکہ شیطان کو میدان جنگ میں شکست دے سکیں۔ اس طریقے سے اپنے نفس پر تسلط حاصل کریں اور نفس کی لگام اپنے ہاتھ میں کس کر رکھیں کہ نہ دوسروں کی تعریف اور مدح سرائی ہمارے اوپر اثر کرے اور نہ ان کا برا بلا کہنا اور گالیاں گلوچ دینا۔
اپنے آپ کو خدا کی ہر ناپسند چیز سے محفوظ رکھیں نہ اس سے جسے ہمارا نفس ناپسند کرے۔ مولا کی مرضی کے سامنے اپنی مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
آج کل کی فکر کریں اور آج ہی کل کا سرمایہ اگٹھا کریں۔ اور اس ابدی زندگی کے لیے ساز وسامان جمع کریں۔
استقامت اور پائداری کےساتھ تلخ اور ناگوار حادثات کا سامنا کریں اور ہر لمحہ خدا پر بھروسہ رکھیں وہ کل خیر ہے اس کےساتھ وابستہ رہنے سے شر انسان کے قریب نہیں آ سکتا۔ اس کی راہ میں قدم بڑھاتے رہیں اور ہمیشہ اس سے ہدایت کی توفیق طلب کرتے رہیں کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ اھد نا الصراط المستقیم۔
مہر و محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا ہاتھ ہمبستگی ، ایثار اور قربانی اور عفو اور بخشش کو نفرت، بغض ،کینہ، خود خواہی اور خود غرضی کا جانشین قرار دیں۔
دوسروں کی زندگیوں سے عبر ت حاصل کریں نہ خود دوسروں کے لیے عبرت بنیں۔
ماہ مبارک رمضان وہ بہترین وقت ہے جس میں انسان کو اپنی فطرت اور سرشت کی طرف رجوع کرنے کا بہترین موقع ملتاہے۔ اور اسے خواب غفلت سے بیدار کرنے اور گناہوں کے پردوں کو ہٹانے کا بہترین مہینہ ہے۔
ماہ مبارک رمضان کے لمحوں کو غنیمت جانیں
بھائیو! اور بہنو! اللہ کا مہینہ آن پہنچا ہے۔ کتنا اچھا ہے کہ اسے بہترین فائدہ اٹھایا جائے۔ ایک لمحہ بھی اس مہینہ کا بیکار میں ضایع نہ ہو۔ اس ایک مہینہ میں ایک سال کی قسمت بلکہ ایک عمر کی قسمت لکھی جاتی ہے۔
ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ مہینہ بھی بے توجہی کے ساتھ گذر جائے اور بروز عید ہم شرمندہ ، شرمسار اور رحمت الٰہی سے محروم ٹہلتے ہوئے نظر آئیں۔روایت میں ہے کہ رسول خدا (ص) نے ماہ رمضان سے پہلے ایک خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا:
اے لوگو! جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا: یا محمد! جو آپ کا نام مبارک سنے اور آپ پر درود نہ بھیجے خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔ اے محمد! جو شخص ماہ رمضان کو درک کرے اور خدا کی رحمت اور مغفرت کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور دنیا سے گذر جائے ہمیشہ خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔ اے پیغمبر آپ آمین کہیے۔ میں نے بھی آمین کہا۔(۱)
اس ماہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور جھنم کے دروازے بند ہیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس کی وجہ سے بہشت کے دروازے ہمارے اوپر بند ہو جائیں۔
اس مبارک ماہ میں جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتاہے جنت کو مزین کیا جاتا ہے اور نیک کاموں اور عبادتوں کی جزا دوگنی ہو جاتی ہے۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: شهر رمضان شهرالله عز و جل و هو شهر يضاعف الله فيه الحسنات و يمحو فيه السيئات، و هو شهر البركة، و هو شهرالانابة، و هو شهر التوبة، و هو شهرالمغفرة ، و هو شهرالعتق من النار و الفوز بالجنة.
الا فاجتنبوا فيه كل حرام و اكثروا فيه من تلاوة القرآن و سلوا فيه حوائجكم واشتغلوا فيه بذكر ربكم و لا يكونن شهر رمضان عندكم كغيره من الشهور فان له عندالله حرمه و فضلا على سائر الشهور، ولا يكونن شهر رمضان، يوم صومكم كيوم فطركم . (2(
ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے کہ جس میں نیک کاموں کی جزا دوبرابر ہو جاتی ہے اور گناہ محو ہو جاتے ہیں۔ ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان توبہ اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان جہنم سے رہائی اور جنت کے حصول کا مہینہ ہے۔
پس اے لوگو! اس مہینہ میں ہر برے اور حرام کام سے دوری اختیار کرو۔ اور قرآن کی کثرت سے تلاوت کرو۔ اور اس کے تمام اوقات کو اللہ کی یاد میں گزارو۔ مبادا یہ مہینہ بھی تمہارے نزدیک دوسرے مہینوں کی طرح رہے اس لیے کہ یہ دوسرے مہینوں پر برتری اور فوقیت رکھتا ہے۔ حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: "عليكم فى شهر رمضان بكثرة الاستغفار والدعاء، فاما الدعاء فيدفع البلاء عنكم و اما الاستغفار فتمحى به ذنوبكم ." (3)
آپ پر لازمی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں کثرت سے دعا اور استغفار کریں اس لیے کہ دعا بلاؤں کو ٹال دیتی ہے۔ اور استغفار گناہوں کو محو کر دیتا ہے۔
بہر حال ، ماہ رمضان خودسازی کامہینہ ہے۔ اور خود سازی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو بھول کر خدا کو اپنا مالک واقعی سمجھے تا کہ خدا کو پہچان سکے اور اس کی عبودیت کا حق ادا کر سکے۔ اور جو چیز رنگ الٰہی کے مخالف ہو اس سے دور رہے۔ خود سازی اور نفسانی ہوی و ہوس سے کنارہ کشی تمام کمالات اور فضائل انسانی کا منشا ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو مادی تعلقات سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور دنیاکے تجملات میں غرق نہ ہوا تو یقینا خدا کی طرف متوجہ رہے گا اور تکامل کی طرف گامزن ہو گا۔ اور کامیابی اور کامرانی کے بلند ترین مقام پر فائزہوگا۔
خدا شاہد ہے کہ دنیا کےتمام مفاسد ، مظالم، فتنہ وفساد صرف خود پرستی اور ہوس پرستی کی بنا پر ہیں۔لہذا قرآن کریم میں ہمیشہ تزکیہ اورتربیت تعلیم اور تعلم پر مقدم ذکر ہوا ہے اور خود سازی یعنی تزکیہ نفس اور ماہ رمضان تزکیہ اور تطہیر نفس کے لیے ہے۔ پس آئیے اس مبارک مہینہ میں خدا کا قرب حاصل کریں تاکہ روز قیامت سرخرو اس کی بارگا ہ میں حاضر ہوں۔
امام سجاد (ع) کے مناجات کا ایک نمونہ
آخر میں امام سجاد علیہ السلام کی دعا اور مناجات کا ایک حصہ صحیفہ سجادیہ سے نقل کرتے ہیں تاکہ ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل قرار پائے:
" اللهم و انت جعلت من صفايا تلك الوظائف، و خصائص تلك الفروض شهر رمضان، الذى اختصصته من سائر الشهور و تخيرته من جميع الازمنه و الدهور، و آثرته على كل اوقات السنه بما انزلت فيه من القرآن و النور و ضاعفت فيه من الايمان، و فرضت فيه من الصيام، و رغبت فيه من القيام، و اجللت فيه من ليله القدر التى هى خير من الف شهر، ثم آثرتنا به على سائر الامم و اصطفيتنا بفضله دون اهل الملل، فصمنا بامرك نهاره، و قمنا بعونك ليله، متعرضين بصيامه و قيامه لما عرضتنا له من رحمتك و نسبتنا اليه من مثوبتك و انت الملى بما رغب فيه اليك، الجواد بما سئلت من فضلك القريب الى من حاول قربك. " (4(
خدایا تو نے اپنے منتخب کاموں اور مخصوص فرائض سے ماہ مبارک رمضان کو قرار دیا ہے۔ وہ مہینہ جسے تو نے تمام مہینوں میں سے انتخاب کیا ہے اور تمام دنوں اور لمحوں میں سے اسے چنا ہے۔ اور سال کے تمام اوقات پر اسے فوقیت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ فوقیت اس لیے ہے کہ اس کے اندر قرآن اور نور کو نازل کیا ہے اور ایمان کو اس مہینہ کے اندر دوگنا کیا ہے اور روزہ کو اس ماہ میں واجب کیا ہے اور شب بیداری کو اس میں عبادت کے لیے قرار دیا ہےاور اس ماہ میں شب قدر کو رکھا ہے کہ جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ پھر ہمیں اس مہینہ کے وسیلہ سے تمام دیگر مذاہب اور امتوں پر برتری عطا کی ہے۔ پھر تیرے حکم سے ہم اس کے دنوں کو روزہ رکھتے ہیں اور تیری مدد سے اس کی راتوں کو عبادت کرتے ہیں۔ اس حال میں کہ اس کے صیام و قیام کے وسیلہ سے اس کی بارگاہ میں دعوت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اور اسے تیرے حضور سے اجرو ثواب لینے کا سبب قرار دیتے ہیں تو ہر اس چیز پر قادر ہے جو تیری بارگاہ سے ہم طلب کرتےہیں۔ اور جو کچھ بھی تیرے فضل و کرم سے مانگا جائے تو عطا کرتاہے اور جو تیرے تقرب کی تلاش میں ہو تو اس کے نزدیک ہوتا ہے۔
پروردگار عالم سے دعاگو ہیں کہ ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس مہینہ میں اس کی عبادت کر سکیں اور اس کی بارگاہ سے رحمت اور مغفرت طلب کر سکیں۔
حوالہ جات
1-المقنعه، ص 308.
2 -فضائل الاشهر الثلاثه، ص95 .
3 -وسائل الشيعه، ج7، ص220 .
4 -صحيفه سجاديه، دعاى 45.




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
