Super User

Super User

Wednesday, 18 July 2012 06:27

خود شناسی

روزمرّہ زندگی کی گرفتاریاں انسان کو اجازت نھیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھے اور اپنے آپ کو پھچاننے کی کوشش کرے ۔اب اسے روزہ کے ذریعے اپنے روٹین سے نکالا گیا ھے تا کہ اپنے آپ کو پانے کی کوشش کرے، اپنے اندر جھانک کر دیکھے کہ اسے اتنی قوّتوں ،صلاحیتوں اور استعداد (Abilities) کے ساتھ کیوں پیدا کیا گیا؟

 

جھان شناسی

انسان اپنے باھر کی دنیاکو دیکھے کہ اتنی وسیع کائنات اور اس میں موجود لا محدود نعمتیں کس لئے ھیں اور ان سب کو کیوں انسان کی خدمت میں قرار دیا گیا ھے؟

 

ھدف شناسی

انسان اگر اپنے اندر موجود صلاحیتوں و قوتوں اور اس عظیم کائنات کی وسعتوں کو کسی حد تک پھچان لے گا تو لا محالہ اپنی منزل اور اپنے اھداف کو بھی پھچان لے گا کہ ان فوق العادّہ صلاحیتوں اور ان بے شمار نعمتوں کے ذریعے اسے کن اھداف تک پھونچنا ھے، پھر ایک خود شناختہ انسان کی حرکت کا رخ اس مذکورہ شھوانی مثلث کی طرف نھیں ھو گا کیونکہ یہ شھوات وخواھشات خدا نے انسان کے اندراس لئے رکھی ھیں تا کہ یہ ناقص مخلوق اپنے اندر تکامل پیدا کر سکے مثلاً شھوت جنسی کو اس لئے قرار دیاھے تا کہ انسان وجود میں آسکے یعنی اسکے ذریعے تولید نسل کا سلسلہ جاری رھے ۔خواھش آب و غذا اس لئے رکھی گئی تا کہ انسان انھیں استعمال کر کے اپنے آپ کو باقی رکہ سکے لیکن صرف تو لید نسل اور اپنے وجود کی بقاھی انسان کا کل ھدف نھیں ھے ،بلکہ اسکا اصل ھدف اپنے اس ناقص وجود کو کمال تک پھونچانا ھے ۔اسطرح خود شناسی ،جھان شناسی اور ھدف شناسی کے بعد انسان کی حرکت کا رخ کمالات کی طرف مڑ جاتا ھے جو اسکے اندر کا ایک فطری تقاضا ھے ۔

 

خدا شناسی

کسب کمالات بھی انسان کا آخری ھدف نھیں ھے ۔اسکا آخری ھدف ان کمالات سے متصّف ھو کر کمال مطلق یعنی ذات خدا تک پھونچنا ھے ”یَا اَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْھ“انسان کا سفر خدا کی طرف ھے اور اسے خدا سے ملاقات کرنی ھے ۔یہ انسان کا نھائی ھدف (Last Target)ھے،یہ ھدف کثرت عبادات سے نھیں بلکہ عبادات کے باطن اور اسرار سے حاصل ھوتا ھے ،عبادات کا باطن اپنی تطھیرکرکے کمالات کو حاصل کرنا ھے ،پس انسان اپنے عمل کے ذریعے جتنا پاکیزہ اور با کمال ھو گا اتنا ھی ذات خدا سے قریب ترھوگا”اِلَیْہ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُھ“خدا کی طرف پاکیزہ نفوس بلند ھوتے ھیں اور ان کے بلندکرنے کا وسیلہ اسکے اعمال صالحہ ھیں ۔عمل صالح یعنی ایسا عمل جس میں انسان کو باکمال اور بلند کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ھو ،اسطرح خودشناسی و جھان شناسی انسان کو ھدف شناسی اور کمال طلبی کے راستے سے خدا شناسی تک لے آتی ھے ۔

روزہ در حقیقت خود شناسی سے خدا شناسی تک سفر کرنے کی ایک مشق ھے اورایک مھینہ مشق کرنے کے بعدانسان کو پورے سال اسی سفر کو جاری رکھنا ھے۔

 

دشمن شناسی

اس سفر کی راہ میں ایک بھت قوی اورنامرئی دشمن بھی موجود ھے جس نے خدا کی عزّت کی قسم کھا کر اعلان کیا ھے کہ صراط مستقیم پر بیٹھ کر اس راہ کے مسافروں کو گمراہ کرے گا”لَاَقْعُدَنَّ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَآتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ“ صراط مستقیم پر بیٹھ کرمیں بندگان خدا کو ھر سمت سے گمراہ کروں گا، لھٰذا ایسے دشمن کی عمیق شناخت کے بغیرانسان اس سفر کو طے نھیں کر سکتا ،یہ ایک ایسا دشمن ھے جسکا سب سے بڑا اسلحہ خود انسان کے اندر موجود ھے ”اعدی عدوک نفسک التی بین جنبک“تمھارا سب سے بڑا دشمن خودتمھارا نفس ھے جوخود تمھارے اندر موجود ھے ،یہ شیطان کا اندرونی اسلحہ ھے ، اور اگر اپنے وجودسے باھر نگاہ کریں تو اسکے فراوان لشکر موجود ھیں جن میں انسان اور جنّات دونوں شامل ھیں ”من الجنّة و النّاس “پس اتنے بڑے دشمن جن کا قرآن نے ”عدو مبین“کہہ کرتعارف کرایا،کے ھوتے ھوئے اس سفر کو طے کرنا بھت آسان نھیں ھے ۔

آج شیطانی طاقتوں نے میڈیا ،سٹ لائٹ ،انٹرنیٹ اور یوروپین کلچر کے ذریعے انسان سے اسکے کمال کا راستہ چھین لیا ھے آج کا انسان یہ اچھی طرح محسوس کر رھا ھے کہ انٹرنیٹ کے عھد کی نسلیں انسانی اقدار (Human Values) سے خالی ھوتی جا رھی ھیں مثلاًغیرت ایک قدر (Value)ھے جو انسان کے کمال میں دخیل ھے لیکن ایک جوان جس نے ساری رات انٹرنٹ کی فحش سائٹوں میں گزاری ھے اسے اگر صبح کے وقت عراق کے ابو غریب جیل کی تصویریں دکھائی جائیں تو اسے ذرا بھی غیرت نھیں آتی ،جبکہ انسانی غیرت کا معیار یہ ھے کہ لشکر معاویہ نے یمن میں یھودی عورت کے پیروں سے پازیب اتارا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس عمل پر ایک انسان غیرت سے مر جائے تو وہ اس کا مستحق ھے ۔

 

روزہ کا ایک فلسفہ یہ ھے کہ انسان اس مھینہ میں اپنے ان دشمنوں کے خلاف آمادہ ھو جنھوں نے اس سے اس کے تکامل کا راستہ چھین لیا ھے ،دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لئے صبر و استقامت کی مشق کرے ،شیطانی فریب سے بچنے وھوائے نفس پر غالب ھونے کے لئے جھاداکبر کی مشق کرے ، شایداسی لئے اس مبارک مھینے میں شیطان کو سخت زنجیروں میں مقیّد کر دیا جاتا ھے تا کہ انسان کی اس آمادگی میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے ۔

 

یھیں سے اب ھم دوسرے سوال کی طرف متوجہ ھوتے ھیں کہ کیا روزہ انسان کے اندر ضعف ایجاد کرتا ھے ؟

Wednesday, 18 July 2012 06:24

آزادی یا پابندی؟

انسان کے ذھن میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اھم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں ھوتا ھے اور یہ درست بھی ھے لیکن یہ بھی درست ھے کہ انسان کو بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ پابندیاں اگر چہ سخت ھوتی ھیں لیکن بغیر پابندی کے کوئی ھدف اور کمال قابل حصول نھیں ھے ۔

ایک طالب علم ، دانشمند اور فنکار کو اپنے بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں جنمیں سر فھرست وقت کی پابندی ھے ۔اس کے علاوہ بھت سی حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ھیں ورنہ کامیابی حاصل نھیں ھوتی ۔

خاندان ، قبیلہ ،شھر ، ملک اور دنیا کو ھرج و مرج سے بچانے کے لئے انسان کو اپنے اوپر خاندانی ، قبائلی ، شھری ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ اسی طرح دین و شریعت اور انکے احکام بھی ایک پابندی ھیں جنکے دو ھدف ھیں :

 

۱۔ انسان کو فردی و نفسیاتی مشکلات اور اجتماعی ھرج ومرج سے محفوظ رکھنا ۔

 

۲۔ انسان کے اندر مادی و معنوی ،جسمانی و روحانی اور فردی و اجتماعی تکامل پیدا کرنا ۔

 

روزہ بھی دیگر احکام دین کی طرح ایک پابندی ضرور ھے لیکن ایک ایسی پابندی جو ایک طرف انسان کے اندر تکامل پیدا کرتی ھے اور دوسری طرف اسکو بھت سے نقائص ،رذائل اور شھوات کے زندان سے آزاد کر دیتی ھے ۔

انسان کےلئے سب سے محکم زندان خود اسکے نفسانی ھویٰ و ھوس اور خواھشات ھیں اور حقیقت میں آزاد انسان وہ ھے جس نے اپنے آپ کو اس زندان سے آزاد کر لیا ھو۔

 

امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں : ” مَنْ تَرَکَ الشَّھوَاتِ کَانَ حُرّاً“

جو اپنی خواھشات کو ترک کرنے میں کامیاب ھو جائے وہ ایک آزاد انسان ھے-

 

اورروزہ اپنے اسرار کے ساتھ رکھا جائے تو اسکا سب سے بڑا اثر یہ ھے کہ وہ انسان کو نفسانی خواھشات سے آزاد کر کے بلند اھداف کی طرف متوجہ کر دیتا ھے ۔

قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت الله العظمي خامنه اي نے 6 دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مومنین کے درمیان کیسی اپنائیت اور خلوص کا رشتہ ہونا چاہئے۔

"قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَ يَجِي‏ءُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيُدْخِلُ يَدَهُ فِی كِيسِهِ فَيَأْخُذُ حَاجَتَهُ فَلَا يَدْفَعُهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَلَا شَيْ‏ءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلَاكُ إِذاً فَقَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يُعْطَوْا أَحْلَامَهُمْ بَعْد"

كافى، ج 2، ص 174

کتاب الکافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ روایت منقول ہے کہ «أ يجى‌ء احدكم الى اخيه فيدخل يده فى كيسه فيأخذ حاجته فلا يدفعه» حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک سے سوال کیا، اب اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ وہ صحابی کون تھے، انہوں نے کیا سوال کیا تھا اور وہ کہاں کے رہنے والے تھے؟ اس تمہید کا ذکر اس روایت میں نہیں ہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ آپ جس جگہ رہتے ہیں کیا وہاں ایسا ماحول ہے کہ آپ میں سے کوئی آئے اور اپنے برادر دینی کی جیب میں ہاتھ ڈالے اور اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ نکال لے اور اس برادر دینی کو ناگوار بھی نہ گزرے؟ کیا آپ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ آپ کی جیبیں ایک دوسرے کے لئے کھلی ہوئی ہوں۔

مرحوم حرز الدین نے نقل کیا ہے کہ معروف اور جلیل القدر عالم دین کاشف الغطاء مرحوم کے زمانے میں شیخ خضر نام کے بڑے اہم عالم دین گزرے ہیں۔ عید کے دن نجف اشرف کے عوام اور اطراف کے قبائل شیخ خضر کے گھر جاتے تھے اور تحفے کے طور پر سامان اور رقم دیتے تھے۔ عید کا دن تھا اور لوگوں نے ان کے سامنے جو چیزیں لاکر رکھی تھیں ان کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اسی عالم میں شیخ جعفرکاشف الغطاء وہاں پہنچے۔ انہوں نے سامان اور رقم دیکھی۔ ظہر کا وقت آ گیا اور ملنے والے لوگ رفتہ رفتہ لوٹ گئے۔ کاشف الغطاء اٹھے اور اپنی ابا میں اس رقم اور سونا چاندی کو جمع کیا اور خدا حافظ کرکے روانہ ہو گئے۔ شیخ خضر نے بس ایک نظرڈالی اور کچھ بھی نہیں بولے گویا کوئي خاص بات ہوئی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ بہرحال امام نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کے درمیان ذاتی چیزوں کے استعمال کے سلسلے میں یہ عالم ہے۔ مثلا آپ نے اپنی قبا کہیں آویزاں کر رکھی ہے۔ آپ کا دوست آتا ہے اور آپ کی قبا کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، ضرورت کے مطابق رقم نکالتا ہے اور باقی رقم جیب میں چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے اور آپ کو ذرہ برابر بھی ناگوار نہیں گزرتا؟ کیا تمہارے درمیان اس طرح کے تعلقات ہیں؟ اس راوی نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان ایسا ماحول نہیں ہے۔ امام نے فرمایا کہ پھر تو ابھی کچھ ہوا ہی نہیں۔

میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں شیعہ معاشرہ رفتہ رفتہ تشکیل پا رہا تھا۔ واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کے تینتیس چوتیس سال کے دور میں عوام الناس رفتہ رفتہ جمع ہو رہے تھے۔ کیونکہ عاشور کے واقعے کے بعد شیعوں کے خلاف جو سختیاں اور زیادتیاں شروع ہوئیں ان سے شیعہ بکھر کر رہ گئے تھے، گوشہ و کنار میں چلے گئے تھے۔ ان چونتیس برسوں میں لوگ دوبارہ رفتہ رفتہ جمع ہوئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں لوگ زیادہ جمع ہوئے۔ شہروں اور قرب و جوار کے علاقوں میں لوگ پھر سے جمع ہوئے۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے اور امام فرما رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شیعہ مراکز کو اس انداز سے قائم کیا جائے۔ ان کے درمیان آپس میں اس طرح میل محبت ہو۔

حضرت نے جو فرمایا کہ " فلا شئ" تب تو ابھی کوچھ ہوا ہی نہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ جو مطمح نظر ہے وہ ابھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ وہ شخص یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ " فالھلاک اذا؟" ہلاک لفظ کے الگ الگ جگہوں پر مختلف معانی ہوتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد ہے بد بختی۔ یعنی تو کیا ہم بد بخت ہیں؟ امام نے جواب دیا " ان القوم لم یعطوا احلامھم بعد" احلام جمع ہے حلم کی۔ اس کا مطلب ہے حلم و بردباری۔ قرآن میں بھی "حلم یحلم" کا لفظ استعمال ہوا ہے خواب کے معنی میں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ روایت میں امام نے یہ فرمایا کہ ہے پھر بردباری اور رواداری کی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکے ہو۔ لہذا یہاں ہلاک کا مطلب نابودی نہیں ہے اور عذاب خدا میں گرفتار ہونا نہیں ہے۔ یہاں یہ مراد ہے کہ ابھی تمہارے اندر مطلوبہ شرح صدر پیدا نہیں ہوا ہے۔

القاب

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیده النساء العالمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

 

کنیت

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔

پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔

 

والدین

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو ؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، جناب عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں :

" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر جناب عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :

" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :

"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کردی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر جناب عائشہ کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔

 

حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔

 

ولادت

حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔

 

بچپن اور تربیت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں .

جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

 

حضرت فاطمہ(س) کی شادی

یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔

مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کردیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔

آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔

مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟

حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ

مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کردوں آپ کی کیا رائے ھے ؟

حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔

شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔

 

حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار

حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

فاطمہ زھرا (س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔

 

حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۳۴ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

 

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچادر میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا .

"کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

 

حضرت زہرا(س) اور جہاد

اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئ دن تک ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ

" اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور الله کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے الله کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں . "

عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول الله اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے .

 

فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے .

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .

 

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں

سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً

" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "

" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."

" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "

" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "

" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .

 

اولاد

حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے چار اولاد عطا فرمائیں جن میں سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں ۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام . پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت امِ کلثوم ۔ لہذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السّلام اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و امِ کلثوم کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں

 

حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیتیں

حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قد و قامت نظر اتا ہے . اسما (رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں

اور پیغمبر کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے .

 

رحلت سيده دو عالم

سیدہ دو عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3 مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلمان فارسی(رض)، مقداد(رض) اور عمار(رض) کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا . آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ اپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول کا جزو بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔

Tuesday, 17 July 2012 03:38

اسماعیلیہ (بوہرہ)

ایک ہزار چورانویے صدی عیسوی میں فاطمی حکمران المستنصر کی موت کے بعد ان کی جانشینی کے سلسلے میں اسماعیلی فرقے میں شدید اختلافات پیداہوگۓ مستنصر نے اپنے بڑے بیٹے ابو منصورنزار کو اپنا جانشین معین کیا تھا لیکن ان کے وزیر افضل نے ان کی وفات کے بعد بغاوت کردی اور ان کے چھوٹے بیٹے القاسم احمد معروف بہ المستعلی باللہ کو تخت نشین کردیا ۔

 

بوہرے

داودی بوہروں کی آبادی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں تاہم ھندوستان میں تقریبا دولاکھ دس ہزار بوہرے رہتے ہیں بعض تخمینوں کے مطابق عالمی سطح پر بوہروں کی تعداد پانچ لاکھ بتائي جاتی ہے ،داودی بوہرے ھندوستان ،پاکستان ،یمن ،سری لنکا مشرق بعید اور خلیج فارس کے جنوبی علاقوں میں بستے ہیں ان ملکوں میں داودی بوہروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے ۔

 

عقائد

بوہروں کا امام اور ان کے جانشین سب غائب ہیں یہ بوہروں کا اہم ترین اصول عقیدہ ہے اور جو داعی ہیں وہ امام کے حکم سے اس کے جانشین بنتے ہیں ان کی پہلی دینی کتاب قرآن ہے صرف داعی ہی قرآن کے باطن تک رسائي حاصل کرسکتاہے ،حدیث و سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کے منابع دینی میں شامل ہیں ،بوہرے خداکی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور مفہوم خدا نہایت مجرد اور دور از ذھن ہے،بوہرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور اپنے داعی کو رسول کی صلاحیتوں کا حامل سمجھتے ہیں ۔

 

دینی فرائض

بوہروں کے نزدیک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کی مودت و محبت رکن اسلام ہے یہ لوگ قسم میثاق میں جس پر تمام بوہرے متفق ہیں کہتے ہیں کہ " صدق دل سے امام ابوالقاسم امیرالمومنین جو تمہارے امام ہیں پیروی کریں "ان کے فرائض پنجگانہ اس طرح ہیں ،اذان انکی اذان شيعه کی طرح ہے لیکن وضو کا طریقہ اھل سنت کی طرح ہے ،بوہرے نمازکے دوران ہاتھہ کھلے رکھتے ہیں نمازکے لۓ ان کا لباس مخصوص ہوتا ہے یہ لوگ تین وقت نمازپڑھتے ہیں اور ہر نماز کے اختتام پر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھم اور اپنے اکیس اماموں کا نام لیتے ہیں ۔

بوہرے نمازجمعہ کے قائل نہیں ہیں ان کی دعاؤں کی کتاب کانام "صحیفۃ الصلاۃ "ہے بوہروں کے نزدیک شفاعت کانہایت اہم مقام ہے ۔

 

زکات

ہربوہرے پر زکات واجب ہے ان پر چھہ طرح کی زکاتیں واجب ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔

1- زکات صلات ؛اس کی مقدار چار آنہ ہے اور ہرفرد پرواجب ہے

2 - زکات فطرہ اس کی مقدار بھی چارآنہ ہے ۔

3 - زکات حق النفس یہ زکا ت عروج ارواح اموات ہے جس کی مقدار ایک سو انیس روپیے ہے ۔

4 جق نکاح ؛یہ زکات حق ازدواج کے طور پر اداکی جاتی ہے اس کی مقدار گیارہ روپیے ہے ۔

5 - زکات سلامی سیدنا؛یہ داعی مطلق کے لۓ نقدی تحفے ہیں ۔

6- زکات دعوت؛یہ زکات دعوت کے اخراجات پورے کرنے کے لۓ ادا کی جاتی ہے اور تین طرح کی ہے ۔

الف ؛ آمدنی پر ٹیکس جو کہ تاجربرادری سے لی جاتی ہے

ب؛ خمس جوکہ متوقع آمدنی کا ایک بٹاپانچ حصہ ہوتا ہے جیسے وراثت میں ملنے والے اموال ۔

ج وہ لوگ جو بیماری کی وجہ سے نماز وروزہ ادا نہیں کرسکتے ان پر بھی یہ زکات واجب ہے ۔

7- نذر مقام ،امام غائب کی نذر کےلے جوپیسہ رکھاجاتا ہے اسے کہتے ہیں ۔

 

روزہ

بوہروں کاروزہ تیس دنون کا ماہ رمضان میں ہوتا ہے یہ لوگ ہرمہینے کی پہلی اور آخری تاریخ اور ہر پنچ شنبہ کوبھی روزہ رکھتے ہيں اس کے علاوہ ہرمہینے کے وسطی چہارشنبہ کوبھی روزہ رکھتے ہیں ۔روزے اھل سنت سے چند روزقبل شروع کرکے چند روزپہلے ہی تمام کرتے ہیں ۔

 

حج وزیارت

بوہروں کے نزدیک استطاعت رکھنے والون پر حج واجب ہے اور اس فریضے کے لۓ ضروری ہےکہ قسم میثاق کھائی جاۓ یہ لوگ مکہ کے علاوہ کربلا کی زیارت کو بھی جاتے ہيں اور کچہ لوگ نجف و قاہرہ بھی جاتے ہيں ھندوستان میں بوہروں کی مشہور زیارتگاہیں احمد آباد ، سورت ، جام نگر ، مانڈوی ، اجین اور برھانپور میں ہیں ۔

بوہروں کے مشاہد اولیاء میں ان مقامات کانام لیا جاسکتا ہے مقبرہ جندابای بمبئی ،مقبرہ نتابائی ،مقبرہ مولانا وحید بائی ،مقبرہ مولانا نورالدین بمبئی ۔

بوہروں کے نزدیک محرم کے تابوتوں اور تعزیوں کے لۓ نذر کرنا شرک ہے لیکن انکے نزدیک اولیاء خدا کے مزارت پرنذر کرنا جائزہے اس علاوہ وہ اور بھی نذورات کے قائل ہیں جیسے معین دنوں میں نذر کاروزہ رکھنا ،بعض دعائيں باربار پڑھنا،کھانا کھلانا ،مذھبی مقامات تعمیرکرنا ،اور وقف کرنا ۔

بوہروں پر عھد اولیآءکی بناپر جھاد واجب ہے اور جھاد ہرزمانے میں جب بھی امام یا داعی ضروری سمجھیں واجب ہے اور اس میں خلوص سے شرکت ضروری ہے ۔

 

حشرونشر

بوہرے حشرونشر و قیامت کے بارے میں فاطمیوں کے عقائد کے تابع ہیں سعادت کی واحد راہ امام کی پیروی ہے موت کے بعد بھی سعادت کی راہ جاری رہتی ہے یہانتک کہ مومن بوہرہ خدا سےجاملتا ہے اور دونوں ایک ہوجاتے ہیں بنابریں نیک بوہرے کی روح موت کے بعد اس کے نفس سے جو ابھی دنیا میں ہے نزدیک ہوتی جاتی ہے اس طرح زندہ شخص کو خیر و شر کا الھام ہوتاہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس سے تعلیم بھی حاصل کرتی ہے ۔

Monday, 16 July 2012 08:30

مسجد نبوی

شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے ۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔

تعمیر

مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا ۔ حضور اکرم )ص( نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی ۔مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی ۔مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت –(ص( اور ان کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لئے مخصوص تھے ۔

پرانا تصوير - باب السلام مسجد النبي (ص)

مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کا پلاٹ تھا۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر آمادہ تھے اور اس بات کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمیں شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کیلئے استعمال ہوجائے مگر رسول اللہ (ص) نے بلا معاوضہ وہ پلاٹ قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپ (ص) نے جناب ابوبکر کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔

پرانا تصوير- مسجد النبي (ص)

 

پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کیلئے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔

مسجد سے متصل ایک چبوترہ بنایا گیا جو ایسے افراد کے لئے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔

آپ (ص) نے اپنے دست مبارک سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے آنحضرت (ص) ، جناب ابوبکر اور جناب عمر کے روضہ مبارک ہیں۔ یہ مقام در اصل جناب عائشہ کا حجرہ مبارک تھا ۔

ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لئے معبد ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔

مسجد کے قلب میں عمارت کا اہم ترین حصہ نبی کریم (ص) کا روضہ مبارک واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے ۔ یہاں مانگی جانے والی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ خصوصاً حج کے موقع پر رش کے باعث روضہ مبارک کے حصے میں داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے ۔ سنگ مرمر حالیہ منبر عثمانی سلاطین کاتیار کردہ ہے جبکہ اصل منبر رسول کھجور کے درخت سے بنا ہوا تھا۔

مسجد نبوی میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی لیکن مرحوم فہد بن عبد العزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کا عظیم ترین منصوبہ تشکیل دیاگیا جس کے تحت حضرت محمد (ص) کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنادیا گیا۔ اس عظیم توسیعی منصوبے کے نتیجے میں مسجد تعمیرات کا عظیم شاہکار بن گئی۔

مسجد امیر چخماق ، یزد کی تاریخ میں نئی جامع مسجد کے نام سے بھی یاد کی جاتی ہے یہ مسجد صفوی دور میں یزد کے حاکم امیر جلال الدین چخماق شامی اور اس کی بیوی بی بی فاطمہ خاتون کی ہمت و کوشش سے بنائی گئی ہے ۔

امیر جلال الدین کا شمار شاہرخ کے قریبی سرداروں اور امراء میں ہوتا تھا۔ اس مسجد کی تعمیرکا کام سنہ 841 ہجری قمری میں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ حسن و زیبائی اور وسعت کے اعتبار سے شہر کی جامع مسجد کے بعد اس کا دوسرامقام ہے ۔

اس مسجد کی تعریف و توصیف میں بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس کا ورودی دروازہ میر چخماق میدان کی طرف کھلتا ہے جہاں ایک پتھر نصب ہے جس پر خط نسخ میں وقف نامہ لکھا ہوا ہے ورودی دروازہ سے جب صحن میں داخل ہوتے ہیں توشمالی راہرو کی جالیاں بہترین و خوبصورت ٹائل سے مزین ہیں۔

ایوان کے بالائی حصہ پر بھی معرق کاشیکاری کی گئی ہے ۔ محراب کے اطراف میں بھی خوبصورت ٹائل اور اس کے وسط میں بہترین تراشا ہوا سنگ مرمر نصب کیا گیا ہے۔ مسجد کا گنبد بھی سبز رنگ کی خوبصورت ٹائلوں سے مزین ہے جس پر کوفی خط میں عبارت کندہ ہے ۔

Sunday, 15 July 2012 08:12

اشاعرہ

ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات سیکھے ۔ اپنے علم میں غوروفکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان پر تنقید کی ۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کے کلامی نظریات کے ماننے والوں کو اشاعرہ کہا جاتا ہے، اشعریوں کی پیدائش کی جب تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں معتزلہ کا سب سے بڑا دخل رہا ہے ، چونکہ معتزلہ نے حقیقت کو کشف کرنے میں تغیر و تبدل کو ملاک قرار دیدیا تھا اس کے علاوہ ان کے فقہاء اور محدثین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوگئے تھے اور اس طرح ان کے درمیان اشعریوں کا ایک نیا فرقہ بن گیا ۔

سنتی عقاید کے لئے عقلی دلیل قائم کرنے کو اشاعرہ قبول کرتے تھے اور تیسری صدی کے آخر میں مندرجہ ذیل تین علماء نے اس روش پر بہت زیادہ کام کیا :

۱۔ بغداد میں ابوالحسن اشعری ۔

۲۔ مصر میں طحاوی (م ۳۳۱) ۔

۳۔ سمرقند میں ابومنصور ماتریدی (م ۳۳۳) ۔

اگر چہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا لیکن ان سب میں جو چیز مشترک تھی وہ معتزلہ کا مقابلہ تھا ۔

ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات سیکھے ۔ اپنے علم میں غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان پر تنقید کی ۔ ان کے پہلے عقاید میں سے کچھ عقیدے مندرجہ ذیل ہیں :

خلق قرآن (قرآن کریم کا مخلوق ہونا) ، خدا کا دکھائی نہ دینا، خداوند عالم کی طرف شرور کی نسبت دینے سے پرہیزکرنا وغیرہ۔ کتاب ”الابانة میں اشعری نے معتزلہ پر بہت زیادہ تنقید کی ہے ،اس کتاب میں معتزلہ کو قرآن کی تاویل کرنے والا بیان کیا ہے اور اپنے متعلق کہا ہے کہ ہم قرآن کریم ، سنت نبوی اور احمدبن حنبل کے طور طریقہ پر چلتے ہیں ۔ ابن عساکر نے ان کی ۹۸ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے چار کتابیں بہت زیادہ مشہور ہیں :

۱۔ اللمع فی الرد ع لی اھل الزیغ والبدع

۲۔ الابانة فی اصول الدیانة۔

۳۔ استحسان الخوض فی علم الکلام ۔

۴۔ مقالات الاسلامیین و اختلاف مصلین ۔

شروع کی تین کتابیں علم کلام اور چوتھی کتاب علم فرق کے بارے میں لکھی ہیں ۔

اشعری کے نظریات: اشعری نے عقلی اور نقلی روش کو معتدل روش کے عنوان سے انتخاب کیا ، مثلا وہ توحید کے مسئلہ میں ذات پر صفات کے زائد ہونے کے قائل تھے اور ان کے نظریات میں میانہ روی پائی جاتی تھی ۔ اشاعرہ ، وجود خدا کو تین طریقوں سے ثابت کرتے ہیں : روش نقلی، روش عقلی اور گذشتہ صوفی علماء کی روش(جیسے غزالی اور فخر الدین رازی) ۔فخر الدین رازی کے نظریہ کی بنیاد پر اشاعرہ خدا وند عالم کے وجود کے اثبات کے لئے دو فلسفی دلیلیں یعنی برہان امکان اجسام (ذوات) اور برہان امکان اعراض (صفات) اور دو کلامی دلیلیں یعنی برہان اجسام اور برہان اعراض سے استفادہ کرتے ہیں ۔خداوند عالم کی شناخت کے سلسلہ میں بعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ ممکن امر نہیں ہے (جوینی اور غزالی) اور دوسرے بعض لوگ جیسے باقلانی وغیرہ اس کے ممکن ہونے کے قائل ہیں ۔

صفات خدا وند :

خداوند عالم کے صفات یا ثبوتی ہیں یا سلبی ہیں یا انسانوں کے صفات (جیسے آنکھ اور ہاتھ) کی طرح ہیں ۔ اشعریوں کا عقیدہ ہے کہ آخری صفات کو بلاکیف (بغیر کیفیت )کی صورت میں قبول کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کی ماہیت ہمارے لئے معین نہیں ہے ۔

جبر و اختیار :

اس مسئلہ میں اشاعرہ نے دونوں پہلو یعنی قضا و قدر الہی کی رعایت کی ہے اور اختیار انسان یعنی ”نظریہ کسب“ کو جو کہ ایک قرآن لفظ ہے ، انتخاب کیا ہے اور خود اشعری کی تفسیر یہ ہے : قدرت کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ قدرت قدیم جو کہ خدا وندعالم سے مخصوص ہے ۔اور مخلوق میں فعل موثر ہے ۔

۲۔ قدرت حادث جو کہ بندوں سے مخصوص ہے اور اس کا فائدہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے اندر آزادی کا احساس کرتا ہے ، لہذا کسب فعل یعنی مخلوق کا فعل قدرت کے خلق کے ساتھ انسان میں حادث ہوتا ہے اگر چہ اشعری خود کسب کو بھی خدا کی مخلوق جانتے ہیں اوران کا عقیدہ ہے : جو فعل کو کسب کرتا ہے وہ ایسی جگہ ہے جہاں پر خداوند عالم فعل کو محقق کرتا ہے اور کسب کرنے والا ایک وسیلہ کے ذریعہ عمل کرتا ہے ۔

حسن وقبح فعل :

اشعری نے حسن و قبح کے تین مختلف معنی بیان کرنے کے بعد تیسرے معنی کو صحیح تسلیم کیا ہے ، یہ تین معنی یہ ہیں :

۱۔ کمال اور نقص ۔ ۲۔ مصلحت اور مفسدہ ۔ ۳۔ مدح و ذم کا مستحق ہونا ۔ کوئی بھی فعل اپنے آپ مدح اور ذم کا اقتضاء نہیں کرتا اور صرف شارع کی امر و نہی کے ذریعہ ایسی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے ۔

جہان شناسی :

الف : جہان کی بناوٹ :

اشاعرہ کا عقیدہ ذرہ گرائی(جوہر فرد) کے نظریہ کو قبول کرتا ہے ، اشاعرہ کو اس نظریہ کی روشنی میں یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ حدوث جہان کے راستہ سے خداوند عالم کی ذات کوصرف ذات قدیم کے عنوان سے ثابت کریں ۔

ب : جہان کا محکم و استوار نہ ہونا :

اشاعرہ دنیا کی ناپائداری کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جس سے اعراض کو ناپائدار اور جوہر کو باقی رہنے والا جانتے ہیں ۔ اس نظریہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اشاعرہ اس کے ذریعہ خداوند عالم کی ذات کو قدیم اور اس دنیا میں اس کے ہمیشہ موثر ہونے کو ثابت کرتے ہیں ۔

انسا شناسی :

اس میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں :

الف : انسان کی حقیقت جوہر جسمانی ہے (جوینی) ۔

ب : انسان ایک روحانی حقیقت ہے (باقلانی) ۔

مذہب اشعری کے بزرگ علماء:

اس سلسلہ میں کتاب ”التمہید“ کے مولف ابوبکر باقلانی کا نام لیا جاسکتا ہے ، اس مذہب کے دوسرے علماء غزالی، امام الحرمین جوینی، بیضاوی، سید شریف جرجانی وغیرہ ہیں ۔

اس مقالہ کے آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس کلامی فرقہ نے مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اثر چھوڑا ہے ، اگر چہ خود ان کے زمانہ میں اشعری کا ستارہ زیادہ نہ چمک سکا ، در واقع دوسرے مذاہب کی مخالفت اور اہل حدیث سے بحث و مجادلہ کی وجہ سے یہ مذہب بالکل مہجور ہوگیا ، لیکن بعد میں خصوصا امام الحرمین جوینی کے بعد اور خواجہ نظام الملک طوسی کے زمانہ میں سلجوقیوں کی حمایت کی وجہ سے اہل سنت والجماعت میں کلامی نظریات پر اشعری گری کو غالب حاصل ہوگیا اور آج بھی پوری دنیا میں اکثر اہل سنت مسلمان خصوصا شافعی اور حنفیوں کی ایک کثیر تعداد کلامی لحاظ سے اشعری مذہب کی پیروی کرتے ہیں ۔

Sunday, 15 July 2012 05:32

سيد قطب

ہمیں ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافي مانگنے پر ابھارتے ہيں- قسم بخدا اگر معافي کے چند الفاظ مجھے پھانسي سے نجات بھي دے سکتے ہوں تو ميں تب بھي يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا- ميں اسي حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضي ہو اور ميں اس سے راضي ہوں

عالم اسلام کے درخشندہ ستارے

"انقلاب مصر کا ميرابو" سيد قطب شہيد، جس نے سرمايہ دارانہ اور جاگير دارانہ نظام کے خلاف تحرير کا وہ طوفان برپا کيا کہ جس نے مصر کے ساتھ ساتھ دنيا بھر ميں قائم استبدادي معاشروں ميں کھلبلي مچا دي- سيد قطب کي تحريروں کا مطالعہ کرنے سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ آپ اس امر پر يقين رکھتے تھے کہ اگر صدر اول کا اسلامي معاشرہ ايک جداگانہ نظام کے تحت ترقي اور نمو پا سکتا ہے تو آج بھي اسلامي معاشرے کو وجود ميں لانے کے ليے جاہلانہ معاشروں سے جدا رکھنا لازم ہے- سيد قطب کا تعارف اس مضمون ميں بعد کي سطروں ميں آئے گا، تاہم ان کے نظريات کو جاننے کے ليے ہم ان پر لگنے والي فرد جرم کا جائزہ ليتے ہيں-

"ہمارا دعويٰ ہے کہ مغرب ميں جمہوريت کا ديواليہ نکل چکا ہے، لہذا اب اس کے پاس ايسي اقدار نہيں رہيں کہ انسانيت کي خدمت ميں پيش کر سکے- مارکسزم کے بارے ميں بھي اس کي رائے يہ ہے کہ مشرقي کيمپ کا يہ نظريہ اب پسپا ہو رہا ہے- اس نظريے کي انساني فطرت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ کشمکش جاري ہے- ہم يہ فيصلہ ديتے ہیں کہ انسانيت کو ايک نئي قيادت کي ضرورت ہے جو مادي تہذيب يورپي ترقي کے مقام پر قائم اور بحال رکھتے ہوئے مزيد نشو نما دے سکے- ہم کہتے ہیں کہ يورپ کي علمي تحريک اپنا کردار ادا کر چکي ہے اور اب اس کے پاس کوئي سرمايہ حيات نہيں رہا- يہي حال وطني اور قومي نظريات کا ہے- لہذا امت مسلمہ کے وجود کو بحال کيا جانا ناگزير ہے- ہم يہ دعويٰ کرتے ہیں کہ دنيا جاہليت کے اندر غرق ہے- اس جاہليت نے اللہ کے اقتدار اور حاکميت پر غاصبانہ قبضہ کيا ہوا ہے- ہم قرآن کو عقيدے کا بنيادي ماخذ قرار ديتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جاہلي معاشرے سے نجات حاصل کريں-

ہمارا بيان ہے کہ محمد (ص) بھي عرب قوميت کي تحريک برپا کرکے عربوں کو اپنے گرد جمع کر سکتے تھے، ليکن يہ درست نہيں تھا کہ انسان کو رومي و فارسي طاغوت کے چنگل سے نکال کر عرب طاغوت کے چنگل ميں پھنسا ديا جاتا- ہمارا بيان ہے کہ جس زمانے ميں محمد (ص) دين اسلام لے کر آئے تھے، اس وقت عرب معاشرہ انتہائي بگاڑ کا شکار تھا- تقسيم دولت اور عدل و انصاف کا نظام تباہ ہو چکا تھا- محدود اقليت مال و دولت اور تجارت کي اجارہ دار بني ہوئي تھي اور سودي کاروبار کے ذريعے اپنے سرمائے ميں مزيد اضافہ کر رہي تھي-

ہم لکھتے ہیں کہ جس جاہليت سے رسول خدا (ص) کو سامنا تھا وہ کوئي مجرد معاشرہ نہ تھي، بلکہ ايک متحرک اور توانا معاشرہ تھي، جبکہ قوم معاشرے کے بزرگوں کے سامنے سرنگوں تھي- پس انسان کي پوري زندگي خدا کي جانب لوٹ جاني چاہيے- جاہلي معاشرے ميں سے ايک ايسا متحرک اور توانا معاشرہ ابھرنا چاہيے تھا جو جاہلي معاشرے سے الگ تھلگ اور مستقل ہو اور اس کي قيادت اس وقت رسول خدا (ص) سے مخصوص تھي، تاہم آپ کے بعد ہر وہ قيادت اس معاشرے کا نظام سنبھال سکتي ہے جو انسانيت کو صرف اللہ کي الوہيت، حاکميت، اقتدار اور شريعت کے آستانے پر جھکائے- اسلامي تہذيب کبھي بھي محض عربي تہذيب يا قومي تہذيب نہ تھي بلکہ يہ ہميشہ سے اسلامي اور نظرياتي تہذيب ہے-

ہماری يہ رائے ہے کہ وہ معاشرہ جس ميں اجتماعي زندگي رائے اور انتخاب کي آزادي پر استوار ہو، متمدن و مہذب معاشرہ ہوتا ہے، اور وہ معاشرہ جس کي تشکيل ميں لوگوں کي آزادي رائے کا دخل نہ ہو پسماندہ معاشرہ ہوتا ہے- جسے اسلامي اصطلاح ميں جاہلي معاشرہ کہا جاتا ہے-"

يہ ہے وہ فرد جرم جو سيد قطب شہيد کي کتب سے کشيد کرکے ان پر لگائي گئي-

قارئين کرام، آپ کي معلومات پر انحصار کرتے ہوئے ميں آپ کے اذہان کو اس امر کي جانب متوجہ کرنا چاہوں گا کہ عالم اسلام کي نشاة ثانيہ کے ليے اٹھنے والي ہر آواز اسي لب و لہجہ کي مالک تھي، اقبال کا کلام ہو يا سيد جمال الدين کے اقوال، شيخ شلتوت کي تقارير ہوں يا امام خميني کے نظريات، ہميں ان تمام موارد ميں يہي فکر و نظر کار فرما نظر آتي ہے، جو اس بات کي غماز ہے کہ اسلام کي حقيقي تعليمات سے کسب فيض کرنے والے ابطال اسلام دنيا کے کسي کونے کے باسي ہوں ان کي منہج اور نظريہ ايک ہي ہے-

سيد قطب کي ولادت مصر کے ضلع اسيوط کے قريہ موشا کے ايک ديندار گھرانے ميں ہوئي- آپ کے والد حاجي ابراھيم قطب زراعت پيشہ انسان تھے، جن کي ذات کے بارے ميں شہيد قطب اپني کتاب "مشاہد القيامة في القرآن" ميں لکھتے ہيں

بابا! ميں اپني اس کاوش کو آپ کي روح کي نذر کرتا ہوں- ميں بچہ تھا کہ آپ نے ميرے احساس و وجدان پر يوم آخرت کا خوف نقش کر ديا- آپ نے کبھي ميري سرزنش نہيں کي بلکہ ميرے سامنے اس طرح زندگي گزاري کہ قيامت کي باز پرس کا احساس آپ کے وجود پر طاري رہتا تھا- آپ کے قلب و ضمير اور زبان پر ہر وقت خدا کا ذکر جاري رہتا- آپ برائيوں سے درگزر کرتے حالانکہ آپ ان کا جواب دينے کي طاقت رکھتے تھے- بسا اوقات آپ اپني ضرورت کي اشيا دوسروں کو دے ديتے حالانکہ آپ کو خود ان کي شديد حاجت ہوتي تھي-

سيد قطب شہيد پر اپني ابتدائي پرورش کا اس قدر اثر تھا کہ اپني دوسري کتاب "التصوير الفني في القرآن" کا انتساب اپني والدہ کو کرتے ہوئے کہتے ہيں

اے ماں! تيري خواہش تھي کہ اللہ ميرے سينے کو کھول دے اور ميں قرآن حفظ کر لوں اور اللہ مجھے خوش الحاني سے نوازے- اے ماں! تيرا ننھا بچہ تيرا جوان لخت جگر آج تيري تعليم و تربيت کي طويل محنت کا ثمرہ تيري خدمت ميں پيش کر رہا ہے- اس کاوش ميں اگرچہ حسن ترتيل کي کمي ہے، تاہم يہ کاوش حسن تاويل کي نعمت سے پر ہے-

سيد قطب نے ابتدائي تعليم اپنے آبائي علاقے ميں ہي حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم يعني جامعہ الازھر کا رخ کيا- گريجوايشن کے بعد سيد قطب اسي ادارے ميں بطور معلم بھرتي ہوئے- سيد قطب کو کچھ ہي عرصے بعد انسپکٹر آف سکول لگا ديا گيا اور آپ اعلٰي تعليم کے ليے امريکہ چلے گئے- سيد قطب 1945ء ميں اخوان المسلمين ميں شامل ہوئے- حسن البنا شہيد کي شہادت اور اخوان کي مرکزي قيادت کي اسيري اخوان کے ليے ايک کٹھن دور تھا، تاہم صعوبتوں کا يہ سلسلہ فوجي حکومت کے قيام سے دوچند ہو گيا- اخوان عوام ميں تو بے حد مقبول تھي، تاہم حکومت اور اس کے حواريوں کو ايک آنکھ نہ بھاتي تھي- 1952ء سے پہلے تک سيد قطب شہيد اخوان کے ايک عام کارکن تھے، تاہم 1952ء کے بعد آپ کو اخوان کي مجلس عاملہ کا رکن چنا گيا اور دعوت و تبليغ کا انچارج بنا ديا گيا- سيد قطب شہيد جريدة الاخوان المسلمين کے رئيس التحرير بھي رہے-

جمال عبد الناصر اور انگريز حکومت کے مابين ہونے والے 1954ء کے معاہدے کي مخالفت کے سبب اس جريدے کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمين پر پابندي عائد کر دي گئي اور مرکزي قيادت کو ايک مرتبہ پھر اسيري اور تختہ دار کا سامنا کرنا پڑا- گرفتار شدگان ميں سيد قطب بھي شامل تھے- سيد قطب کو پندرہ سال قيد با مشقت سنائي گئي، تاہم کچھ ہي عرصے بعد جمال عبدالناصر کا ايک نمائندہ قطب شہيد کے پاس معافي نامے کے ساتھ آيا، جس کے جواب ميں قطب شہيد نے کہا:

مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافي مانگنے پر ابھارتے ہيں- قسم بخدا اگر معافي کے چند الفاظ مجھے پھانسي سے نجات بھي دے سکتے ہوں تو ميں تب بھي يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا- ميں اسي حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضي ہو اور ميں اس سے راضي ہوں-

سيد قطب نے دس سال زندان ميں گزارے، اس عرصے ميں آپ نے اپني معرکۃ آرا تصنيف "في ظلال القرآن" مکمل کي- يہ تفسير اب تک متعدد زبانوں ميں ترجمہ ہو چکي ہے- بہرحال سيد قطب کو 1964ميں مصر کے سابق صدر کي سفارش پر رہا کر ديا گيا- تاہم يہ رہائي ايسي نہ تھي کہ جس ميں آپ کو نقل و حرکت کي مکمل آزادي حاصل ہوتي- سيد قطب کو ايک سال بعد دوبارہ گرفتار کيا گيا اور 1966 ميں فوجي عدالت ميں مقدمہ چلا کر تختہ دار پر لٹکا ديا گيا-

بعض افراد كا ماننا ہے زينب ايك خوشنما اور خوشبوار درخت كا نام ہے۔اور بعض كا كہنا ہے:زينب در اصل دو كلمات سے مركب ہے۔ زين اور اب اور جناب زينب كو زينب اس لئے كہتے ہيں چونكہ آپ اپنے والد امام علي عليہ السلام كے لئے زينت و فخر كا باعث تهيں اسي لئے انہيں "زينب"نام ركها گيا۔ جس طرح ان كي ماں "ام ابيہا "تهيں اسي طرح آپ "باپ كي زينت"تهيں۔

 

1-آپ كا نام

مدينہ كي سرزمين اس دن زينب كبري سلام اللہ كے نور وجود سے منور ہوئي جب پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ مدينہ سے باہر كسي اہم سفر پر گئے تهے۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ نے امير المومنين سے عرض كي: چونكہ اللہ كے رسول سفر پر ہيں اس لئے اس نومولد كا نام ركهئے۔ امير المومنين نے فرمايا: نہيں ميں آپ كے والد سے آگے نہيں نكل سكتا ہم ان كي واپسي تك انتظار كريں گے۔

جب پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ تشريف لائے تو اميرالمومنين نے آپ سے بيٹي كا نام ركهنے كي درخواست كي۔آپ نے فرمايا: فاطمہ كي اولاد اگرچہ ميري اولاد ہے ليكن يہ فيصلہ خدا كے ہاته ميں ہے اور ميں امر الہي كا منتظر ہوں۔جبرئيل نازل ہوئے اور عرض كي:اس بچي كا نام زينب ركها جائے كيونكہ لوح محفوظ ميں اس بچي كا يہي نام لكها گيا ہے۔

 

2-جناب زينب سلام اللہ كے القاب

آپ كا ايك لقب عقيلہ بني ہاشم ہے اور عقيلہ يعني باعظمت اور صاحب تدبير خاتون جو اپنے خاندان كے درميان كافي محترم،عزيز اور ارجمند ہو۔ آپ كا ايك لقب صديقہ صغري بهي ہے۔ صديقہ اس خاتون كو كہا جاتا ہے جو بہت زيادہ سچي ہوچونكہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كو صديقہ كبري كہا جاتا ہے اور حضرت علي عليہ السلام كو صديق اكبر اس لئے جناب زينب كو صديقہ كبري كا لقب ديا گيا۔

اس باعظمت خاتون كا ايك لقب "عصمت صغري"بهي ہے كيونكہ پروردگار عالم نے انہيں پاكدامني اور گناہوں سے دوري كا ملكہ ديا ہے۔آپ كے اور بهي القاب ہيں جن ميں وليۃ اللہ اور امينۃ اللہ اہم ہيں۔

 

3-آپ كے كمالات

آپ كمالات كا مرقع تهيں۔جمال،اطمينان،وقار وغيرہ ميں اپني ناني جناب خديجہ كے مانند اور حيا و عصمت ميں اپني ماں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا جيسي۔فصاحت و بلاغت ميں اميرالمومنين كي طرح اور حلم و بردباري ميں امام حسن مجتبي عليہ السلام جيسي اور شجاعت و قوت قلب ميں سيد الشہدا امام حسين عليہ السلام كے مثل۔

 

4-آپ كي تربيت

آپ كي تربيت قلعہ نبوت ، خاندان ولايت و امامت اور حصار عصمت ميں ہوئي۔ زبان وحي سے تعليم حاصل كي اور دامان كرامت ميں پرورش پائي اور پنجتن پاك كي سرپرستي ميں ادب سيكها۔

 

5-جناب زينب اور توحيد

بچپن ميں آپ بابا علي مرتضي كے زانو پر بيٹه جاتيں اور وہ آپ كو بڑي مہرباني اور لطافت كے ساته تعليم ديتے۔ايك دن امام عليہ السلام نے اپني نازنين سے كہا:بيٹي كہو "ايك" بيٹي نے كہا: "ايك"۔امام عليہ السلام نے فرمايا :كہو دو۔ليكن آپنے دو نہيں كہا اور خاموش رہيں۔امام نے پهر سے كہا: ميري آنكهوں كے نور كہو دو ۔آپ نے جواب ميں فرمايا: بابا جس زبان سے ايك كہا ہے اس سے دو كيسے كہہ سكتي ہوں۔شاہد ہم جيسے انسانوں كي سمجه ميں نہ آيا ہو كہ اس كا كيا مطلب ہے ليكن امام نے اپني بيٹي كي زباني يہ معرفت بهرا جملہ سنا تو انہيں سينے سے لگا ليا كيونكہ وہ جانتے تهے كہ ان كي بيٹي توحيد كي طرف اشارہ كررہي ہے كہ جس زبان سے خدا كي وحدانيت كا اقرار كيا ہے اس سے اس كي دوئي كيسے ادا ہوسكتي ہے۔

 

6-باپ كي زينت

بعض افراد كا ماننا ہے زينب ايك خوشنما اور خوشبوار درخت كا نام ہے۔اور بعض كا كہنا ہے:زينب در اصل دو كلمات سے مركب ہے۔ زين اور اب اور جناب زينب كو زينب اس لئے كہتے ہيں چونكہ آپ اپنے والد امام علي عليہ السلام كے لئے زينت و فخر كا باعث تهيں اسي لئے انہيں "زينب"نام ركها گيا۔ جس طرح ان كي ماں "ام ابيہا "تهيں اسي طرح آپ "باپ كي زينت"تهيں۔

 

7-خدا كي بندگي

جناب زينب كي شجاعت اور قوت كا سرچشمہ توحيد اور پروردگار كے ساته ان كا مستحكم رابطہ ہے۔يزيد كے دربار ميں ان كي كفر شكن باتيں،اس آلودہ فضا ميں نہي عن المنكر كرنا،سفر كے تمام مراحل ميں حيا و عفت كي حفاظت اور ہر جگہ اپني ذمہ داري پر عمل اس بات كي نشاندہي ہے كہ يہ سب بندگي پروردگار كے جلوے ہيں جو ان كي ذات سے نماياں ہورہے ہيں۔

 

8-جناب زينب سلام اللہ عليہا اور امام حسين عليہ السلام كي محبت

جناب زينب سلام اللہ عليہا اور امام حسين عليہ السلام كے درميان بہت زيادہ محبت تهي جو ان كي پوري زندگي نماياں طور پر نظر آتي ہے۔بچپن ميں وہ امام حسين عليہ السلام كے ساته ہونے ميں انہيں سكون ملتا اور ہميشہ ان كے ساته ساته رہتي تهيں۔كہتے ہيں جب جناب عبداللہ ابن جعفر كے ساته جناب زينب سلام اللہ علہيا كي شادي ہوئي تو انہيں اپنے شوہر عبد اللہ كے ساته اس شرط پر عقد كي رضامندي ظاہر كي كہ وہ انہيں امام حسين عليہ السلام كے پاس جانے سے نہيں روكيں گے اور انہيں ہر امام سے ملاقات كي اجازت ہوگي اور بہت كم ايسا ہوتا تها كہ بي بي امام حسين عليہ السلام كي زيارت نہ كريں۔

 

9-امام حسين عليہ السلام كي ہمسفر

بعض مورخين كہتے ہيں جب جناب عبداللہ ابن جعفر كے ساته جناب زينب سلام اللہ علہيا كي شادي ہوئي تو انہيں اپنے شوہر عبد اللہ كے ساته اس شرط پر عقد كي رضامندي ظاہر كي كہ وہ انہيں امام حسين عليہ السلام كے ساته كربلا جانے سے نہيں روكيں گے عبد اللہ نے ان كي شرط مان لي اور اپنے عہد پر قائم رہے۔

 

10-آپ كا علمي مقام

آپ كا علمي مقام يہ ہے كہ مدينہ كي بہت سي خواتين آپ كے پاس آكر آپ كے علم سے بہرہ مند ہوتيں اور آپ كے درس تفسير سے فيضياب ہوتيں تهيں۔البتہ انہيں كسي مدرسہ يا مكتب سے تعليم حاصل نہيں كي تهي بلكہ جيسا كہ تاريخ ميں ملتا ہے جب مسجد كوفہ ميں آپ نے ايك طولاني خطبہ ارشاد فرمايا تو امام سجاد عليہ السلام نے آپ كو عالمہ غير معلمہ يعني ايسي عالمہ جس نے كسي كے سامنے زانوے ادب تہہ نہيں كئے بلكہ پروردگار عالم نے آپ كے قلب و زبان پر علم و حكمت كے چشمے كئے تهے۔

 

11-آپ كي عبادت

خشوع و خضوع اور عبادت و بندگي ميں آپ اپنے والدين كے نقش قدم پر تهيں۔راتوں كو تہجد ميں گزارتيں اور روزنہ قرآن مجيد كي تلاوت كيا كرتيں۔ اس باعظمت خاتون اسلام نے ميدان كربلا اور وہاں سے شام تك كے راستے كي مشكلات ميں بهي نماز شب اور خدا كي عبادت كو ترك نہيں كيا۔

 

12-فصاحت و بلاغت

ابن عباس جناب زينب عليا مقام سلام اللہ عليہا كے بارے ميں كہتے ہيں: عقيلہ بني ہاشم جناب زينب سلام اللہ عليہا فصاحت و بلاغت اور ادب ميں اپنے باپ علي عليہ السلام كي طرح بے مثل تهيں۔جب وہ گفتگو كرتيں تو ايسا لگتا علي بول رہے ہوں اور اس بات كي شاہد دربار يزيد ميں ان كي تقرير ہے جو فصاحت كے اورج پر تهي اور اتنا سليس تهي سب اس گفتگو سے مبہوت تهے۔

 

13-سياسي امور ميں بصيرت

اہل سنت كے ايك عالم محمد غالب شافعي كہتے ہيں: علي عليہ السلام كي بيٹي زينب نے علم و اخلاق كے بہترين مكتب ميں پرورش پائي اور آيات الہي كے چشمہ نوراني سے فيضياب ہوئيں اور وہ حلم و كرم اور سياسي بصيرت ميں بني ہاشم كے درميان معروف تهيں اور ساته ہي وہ جمال و جلال،سيرت و صورت اور اخلاق فضيلت كے اعلي مقام پر فائز تهيں۔وہ راتوں كو عبادت كرتيں اور دن ميں روزے ركهتيں۔

 

14-صبر و پائداري

معروف سيرت نگار مرحوم سپہر كہتے ہيں: جناب زينب كبري سلام اللہ كي فضيلت كے مختلف پہلو ہيں۔ان كي فصاحت و بلاغت كا اعتراف سبهي كو ہے كہ جب بهي گفتگو كرتيں تو ايسا لگتا كہ علي عليہ السلام گفتگو كررہے ہوں۔ان كي عفت و عصمت اور درايت و علم كا يہ علم ہے كہ اسے قلمبند نہيں كيا جاسكتا ہے اور نہ ہي كوئي اسے بيان كرسكتي ہے۔صبر و ثبات قدم ميں ايسي تهيں كہ سب كو مبہوت كرديتي تهيں۔اگر ان كے آلام و مصائب تهورا سا حصہ پہاڑوں،آسمانوں يا زمين كے دوش پر ڈال ديا جائے تو وہ بكهر جائيں گے۔ بردباري ، شجاعت اور ايثار ميں آغاز خلقت سے آج تك ان جيسي خاتون نہيں ملتيں ۔