Super User

Super User

حج مسلمانوں کے اتحاد و یکرنگی کا مظہر ہے۔ یہ جو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو اور ان میں سے ان افراد کو جو استطاعت رکھتے ہیں معینہ وقت پر مخصوص مقام پر طلب کیا ہے اور انہیں ایسے اعمال و حرکات کے سلسلے میں کئی شب و روز تک ایک جگہ مجتمع کر دیا ہے جو پر امن بقائے باہمی، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے مظہر ہیں، اس کا سب سے پہلا نمایاں ثمرہ ایک اک فرد میں اتحاد و اجتماعیت کا جذبہ، مسلمانوں کے اجتماع کی عظمت و جلالت کا نظارہ اور ان کے اندر احساس عظمت و وقار پیدا ہونا ہے۔ اس عظمت و وقار کے احساس کے ساتھ اگر مسلمان کسی پہاڑی درے میں بھی زندگی گزار رہا ہو تو کبھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کرے گا۔ اسی حقیقت کے احساس کے نتیجے میں مسلمان تمام اسلامی ممالک میں اسلام کی دشمنی یعنی سرمایہ داری کے نظام اور اس کے مہروں اور ہم نواؤں کے سیاسی و اقتصادی تسلط اور نیرنگ و فتنہ انگیزی سے ٹکرا جانے کی جرئت و ہمت اپنے اندر پیدا کر سکیں گے۔ پھر ان پر مغربی سامراجیوں کا حقارت و بے بسی کا احساس پیدا کرنے والا جادو کارگر نہیں ہوگا جو یہ طاقتیں، قوموں کے سلسلے میں استعمال کرتی آئی ہیں۔ اسی عظمت و وقار کے نتیجے میں مسلمان حکومتیں اپنے عوام کا سہارا لیکر خود کو اغیار کے سہارے سے بے نیاز بنا سکتی ہیں اور پھر مسلمان عوام اور ان پر حکمرانی کرنے والے نظام کے درمیان یہ مصیبت بار فاصلہ بھی باقی نہیں رہےگا۔ اسی اتحاد و اجتماعیت کے احساس کے بعد ماضی و حال کے سامراجی نیرنگ یعنی انتہا پسندی پر مبنی فرقہ وارانہ تعصب کے جذبات بھڑکانے کی کوششیں مسلمان قوموں کے درمیان یہ وسیع و عمیق خلیج پیدا نہیں کر سکیں گی اور عرب، فارس، ترک، افریقی اور ایشیائی قومیتیں ایک دوسرے کی اسلامی شناخت و ماہیت کی حریف و مخالف ہونے کے بجائے اس کا جز اور تسلسل بن جائيں گی اور ایک وسیع ماہیت کی عکاسی کریں گی۔ بجائے اس کے کہ ہر قومیت دوسری قومیتوں کی نفی اور تحقیر کا وسیلہ بنے، ہر قوم دیگر اقوام کے درمیان اپنی تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات اور خوبیوں کی منتقلی کا ذریعہ بن جائے گی۔

اس عظیم اجتماع کے مضمرات

اسلام میں ویسے تو نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید جیسی اجتماعی طور پر انجام دی جانے والی عبادتیں بھی موجود ہیں لیکن (حج کا) یہ عظیم اجتماع، ذکر و وحدانیت کو مرکزیت دینا اور دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمانوں کو نقطہ واحد پر لاکر جمع کر دینا بڑا ہی با معنی عمل ہے۔ یہ بات کہ پوری امت مسلمہ اور سارے مسلمان اپنے لسانی، نسلی، مسلکی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود ایک جگہ پر جمع ہوں اور مخصوص اعمال کو آپس میں مل کر انجام دیں جو عبادتوں، گریہ و زاری، ذکر و مناجات اور توجہ و ارتکاز پر مشتمل ہیں، یہ بہت با معنی چیز ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اور اسلامی نقطہ نگاہ سے قلوب و اذہان کا اتحاد میدان سیاست و جہاد میں ہی اہم نہیں بلکہ خانہ خدا میں جانا، قلوب کا ایک دوسرے کے نزدیک ہونا، جسموں اور جانوں کا ایک دوسرے کی معیت میں ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بنابریں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا" اللہ کی رسی کو اکیلے پکڑنے کا فائدہ نہیں ہے، ایک ساتھ مل کر پکڑنا ضروری ہے۔ ایک ساتھ مل کر اعتصام بحبل اللہ کیجئے۔ الہی تعلیم و تربیت و ہدایت کے محفوظ مرکز کو ایک ساتھ مل کر اپنائیے۔ معیت و ہمراہی ضروری ہے۔ دل ایک ساتھ ہوں، جانیں ایک ساتھ ہوں، فکریں ایک ساتھ ہوں، جسم ایک ساتھ ہوں۔ یہ جو آپ طواف کرتے ہیں، یہ ایک مرکز کے گرد دائرے کی شکل میں حرکت کرنا، یہ محور توحید کے ارد گرد مسلمانوں کی حرکت و پیش قدمی کی علامت ہے۔ ہمارے سارے کام، اقدامات اور حوصلے وحدانیت پروردگار اور ذات اقدس الہی کے محور کے ارد گرد ہونا چاہئے۔ یہ درس ہماری پوری زندگی کے لئے ہے۔

اتحاد کے مواقع کا غلط استعمال

یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ کوئی شخص اتحاد کے اس ذریعے اور وسیلے کو اختلاف و خلیج پیدا کرنے کا حربہ بنا لے۔ یہ خطاب ہر ایک سے ہے۔ (میرا) خطاب صرف اس متعصب اور کفر کے فتوے صادر کرنے والے شخص سے نہیں ہے جو مدینے میں کھڑے ہوکر شیعوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرتا ہے، میرا خطاب سب سے ہے۔ حج کے امور کے ذمہ داران، کاروانوں کے ذمہ داران اور علماء سب ہوشیار رہیں کہ اتحاد کے اس موقع کو (بعض عناصر) تفرقہ انگیزی کا حربہ نہ بنا لیں، دلوں میں ایک دوسرے کی کدورتیں نہ بھر دیں۔ کون سی چیز ہے جو ایک شیعہ کے دل میں اپنے غیر شیعہ مسلمان بھائی کے تعلق سے کینہ بھر دیتی ہے، ایک سنی کے دل کو اپنے شیعہ مسلمان بھائی کی کدورت سے پر کر دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں۔ ان کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ حج کو جو زخم کا مداوا، اتحاد کا ذریعہ اور عالم اسلام کے دلوں، نیتوں اور ارادوں کی یکسانیت و ہم آہنگی کا وسیلہ ہے انتشار اور بغض و عناد کا حربہ نہیں بننے دینا چاہئے۔ اس مسئلے اور اس کے مصادیق کی شناخت کے لئے بہت ہوشیاری اور دقت نظر کی ضرورت ہے۔

اتحاد کی راہ کے روڑے

جو لوگ حج میں تفرقہ اندازی، فتنہ انگیزی، خرافاتی اور رجعت پسندانہ افکار کی ترویج کی کوششوں میں مصروف ہیں وہی سامراج کے عمدی یا غیر عمدی مہرے ہیں جو اس عظیم موقع کو نابود کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اس اتحاد کی عظمت و جلالت اور شکوہ و وقار کو عظیم امت مسلمہ کی نظروں میں مجسم نہیں ہونے دیتے وہ ان افراد میں شامل ہیں جو اس عظیم ذخیرے اور سرمائے کو نابود اور ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جو لوگ تفاخر و امتیاز، دیگر قوموں کے استحصال و تذلیل، دنیا کے مستضعفین کے خلاف جنگ افروزی کا وسیلہ قرار پانے والی عظمت و جلالت نہیں بلکہ راہ خدا میں عظیم امت اسلامیہ کی عظمت و جلالت کو الہی اقدار کی راہ کی عظمت و جلالت کو اور وحدانیت کے راستے کی عظمت و جلالت کو عالم اسلام میں منعکس نہیں ہونے دینا چاہتے وہ پوری انسانیت پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس وقت اس عظیم الہی ذخیرے اور سرمائے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

سامراج کی تفرقہ انگیزی

اس وقت عالم اسلام میں سامراج اور امریکا کا ایک بنیادی ہدف اختلاف پیدا کرنا ہے اور اس کا بہترین راستہ شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر عراق کے مسائل کے سلسلے میں کیسی باتیں کر رہے ہیں، کیسی زہر افشانی کر رہے ہیں اور بہ خیال خود نفاق کے کیسے بیج بو رہے ہیں؟! برسہا برس سے مغربی سامراج اور توسیع پسند طاقتوں کے ہاتھ ان حرکتوں میں مصروف ہیں۔ حج میں انہیں اس کا بڑا اچھا موقع مل جاتا ہے کہ شیعہ کو سنی کے اور سنی کو شیعہ کے خلاف مشتعل و برافروختہ کریں۔ ایک دوسرے کے مقدسات اور محترم ہستیوں کی توہین کے لئے ورغلائیں۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صرف حج میں ہی نہیں بلکہ پورے سال اور سبھی میدانوں میں ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکا کی مرغوب ترین شئے ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل صف آرا ہونے والوں کی مانند ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں، بغض و کینے میں ڈوب کر ایک دوسرے کے خلاف بولیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیں، بد کلامی کریں! بعید نہیں ہے کہ اس پر محن دور میں حج کے موقع پر اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے کچھ افراد کو کرائے پر حاصل کر لیا گيا ہو، لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ کاروانوں میں شامل علمائے کرام اس مسئلے میں زیادہ ذمہ دارانہ انداز میں کام کریں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کی مرضی کیا ہے۔ یہ بہت بڑی غفلت اور سادہ لوحی ہے کہ انسان اس خیال کے تحت کہ وہ حقیقت کا دفاع کر رہا ہے، دشمن کی سازش کی مدد کرنے لگے اور دشمن کے لئے کام کرنے لگے۔ کچھ لوگ مزدوری لے کر، پیسے لیکر یہ کام کرتے ہیں، بسا اوقات سطحی فکر والے متعصب لوگوں کو ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف برانگیختہ اور مشتعل کرتے ہیں۔ اب اگر سامنے والا ویسا ہی شدید رد عمل دکھاتا ہے تو بلا شبہ ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے کیونکہ ان کا تو مقصد ہی یہی ہے۔ وہ ہمیں آپس میں دست بگریباں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مطمئن رہیں۔

Tuesday, 12 June 2012 06:27

حج کے اسرار و رموز

بغیر شک کے حج بجا لانے کی عظیم جزا اور اسے ترک کرنے کی عظیم سزا صرف اسی وجہ سے ہے کہ حج، اسلام کے اندر ایک عبادت کہلاتا ہے۔ قرآن کریم ایک مختصر اور پرمعنی جملہ میں حج کے بارے میں فرماتا ہے: لیشھدوا منافع لھم، لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ اپنے منافع کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ یہ منافع بہت زیادہ ہیں روایات معصومین (ع) میں ان کی طرف اشارہ ہوا ہے منجملہ:

۱: تربیت نفس اور تہذیب اخلاق: حج تقوی اور خلوص کے ستونوں کو مضبوط بناتا ہے۔ مذکورہ روایات کے اندر جو تعبیر استعمال ہوئی ہے یہ ہے کہ حج مقبول سبب بنتا ہے کہ انسان کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور گناہوں سے اس طریقے سے پاک ہوتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پاک و صاف پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ حج دل کی پاکیزگی، روح کی طہارت اورگناہوں سے دوری کا سبب بنتا ہے، البتہ یہ فائدہ انسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب خانہ خدا کے زائرین اعمال و مناسک حج کے اسرار و رموز سے آشنائی کے ساتھ انجام دیں تاکہ جو قدم بھی اٹھائیں وہ قدم خدا کی جانب اٹھے، اسکے معبود اور محبوب کے قریب ہونے کا سبب بنے۔ اور یہ عظیم عبادت اس کے لیے ایک نئے تولد کے مترادف ہو۔ وہ لوگ جو اس عبادت کے اسرار کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہایت خلوص نیت کےساتھ انجام دیتے ہیں اس کے گہرے آثار کا اپنے وجود کے اندر زندگی کے آخری لمحہ تک احساس کرتے ہیں اور ہمیشہ جس لمحہ اس معنوی سفر کی یادوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی روح کو تازگی ملتی ہے۔ یہ حج کا تربیتی اور اخلاقی اثر ہے۔

۲: سیاسی آثار: حج کے تربیتی آثار کے ساتھ ساتھ بہت اہم سیاسی آثار بھی پائے جاتے ہیں اس لیے کہ حج اگر ویسے ہی جیسے اسلام نے دستور دیا ہے اور ابراہیم بت شکن نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے،بجا لائیں تو یہ حج مسلمانوں کی عزت، دین کے ستونوں کی مضبوطی، اتحاد اور دشمنوں کی صفوں کے مقابلے میں قدرت اور شوکت کا باعث بنے گا۔اور یہ جمع غفیر جو ہر سال خانہ خدا کے پاس اگٹھا ہوتا ہے مسلمانوں کے لیے بہترین فرصت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی صفوں کو مضبوط بنائیں اخوت اور برادری کے رشتوں کو قوی کریں دشمنان اسلام کے نقشوں پر پانی پھیریں۔ لیکن افسوس سے جیسا کہ اکثر مسلمان حج کے اخلاقی فلسفہ کی گہرائی تک نہیں پہنچ پاتے اس کے سیاسی فلسفہ کو بھی بے خبر رہتے ہیں۔ صرف اس کے ظواہر پر قناعت کرتے ہیں اور اس کی روح اور باطن سے غافل ہوتے ہیں اور ایک سیاستمدار کے بقول: واے ہو مسلمانوں پر اگر حج کے معنی کو نہ سمجھیں۔ اور واے ہو دشمنان اسلام پر اگر مسلمان حج کے واقعی معنی کو سمجھ جائیں۔

۳: علمی اور ثقافتی آثار: حج کے کچھ اور اہم آثار جن کی طرف روایات معصومین (ع) میں بھی اشارہ ہوا ہے ثقافتی آثار ہیں۔ اس لیے کہ مکہ سے مدینہ تک اور دیگر مواقیت پر جگہ جگہ رسول اسلام (ص) اور آئمہ معصومین کے آثار نظر آتے ہیں یہ آثار دنیا کے کونے کونےسے حج پر آنے والے علماء دانشمند، متفکرین،اور مؤلفین حضرات کو ان کےبارے میں غور و فکر کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ثقافتوں اور اجتماعی مسائل سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر اس کام کے لیے مخصوص پروگرامینگ کی جائے تو یقینا اس کے آثار دنیائے اسلام میں ظاہر ہوں گے۔

۴: اقتصادی آثار: اسلامی روایات میں حج کے اہداف میں سے اقتصادی اہداف کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ تصور کریں کہ حج کا اقتصادی مسائل سے کیا ربط ہے؟ لیکن جب اس بات کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ آج کے مسلمانوں کی اساسی مشکل دشمنان اسلام کے مقابلہ میں اقتصادی مشکل ہے اور اس مشکل کو حج کے ذریعے دنیائے اسلام سے رفع کیا جا سکتا ہے اگر مسلمانوں کے پاس اتنا شعور ہو وہ اس سرمایہ کو اسلام کی ترقی کی راہ میں خرچ کریں۔ خلاصہ کلام یہ کہ حج کے ایسے مہم آثار ہیں کہ سزاوار ہے کہ ان کے بارے میں جداگانہ طور پر کتابیں لکھی جائیں اور دنیا کے مسلمانوں کو ان سے آگاہ کیا جائے۔

Tuesday, 12 June 2012 06:24

حج کی فضیلت

قرآن کریم حج کو واجب قرار دینے کےساتھ ساتھ اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ حج بھی دوسرے عبادی امور کی طرح پاک و صاف نیت کےساتھ انجام پائے: حج اور عمرہ کو خدا کے لیے مکمل طریقے سے انجام دو۔ حج کے تمام فوائد اس وقت انسان کو حاصل ہوتے ہیں کہ جب وہ صرف اور صرف خدا ہی کے لیے انجام پائے۔ اہلبیت علیھم السلام کی احادیث کے اندر بھی حج کی فضیلت اور اس کی برکتوں کی طرف اشارہ کرتے بیان ہوا ہے کہ حج اور عمرہ کرنے والا خدا کا مہمان ہوتا ہے اور خدا اسے مغفرت اور بخشش کو ہدیہ کے طور پر عطا ہے۔ حج ہر ناتوان اور کمزور کا جہاد ہے۔ رسول اکرم (ص) نے فرمایا: حج فقر اور تنگدستی کو ختم کرتا ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے: حج بجا لاؤ تاکہ بے نیاز ہو جاؤ۔ امام سجاد (ع) فرماتے ہیں: حج کا حق تم پر یہ ہے کہ یہ جان لو تم اس کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کے حضور میں گئے ہو اور اپنے گناہوں سے دور ہو چکے ہو اور حج کے ذریعے تمہاری توبہ قبول ہوئی ہے اور وہ تکلیف جو خدا نے تم پر عائد کی ہے ادا کر دی ہے۔

Tuesday, 12 June 2012 06:23

حج روایات کی روشنی میں

حج اسلامی سماج کی عظمت و اقتدار کو دنیاوالوں کے سامنے پیش کرنے کا بہترین موقعہ ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) خدا وند عالم کے حکم سے مسلمانوں کو اس الہی فریضہ کی انجام دہی کے لیے دعوت کرتے تھے اور بارہا اپنی فرمایشات میں حج کی فضیلت کو بیان کرتے تھے۔ ذیل میں آنحضرت (ص) کی چند ایک گرانقدر احادیث فلسفہ حج اور اس کی شناخت و آداب کے بارے میں ذکر کرتے ہیں:

فلسفه حج

خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات کرنے کا حکم دیا گیا ہے صرف اس لیے کہ خدا کو یاد کیا جائے

جہاد کے بعد سب سے بہترین عمل

رسول خدا (ص) سے پوچھا: کون سا کام زیادہ فضیلت کا حامل ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان۔ کہا: اس کے بعد؟ فرمایا: جہاد خدا کی راہ میں۔ کہا: اس کے بعد؟ حج مقبول۔ حج کے دوران انفاق کرنا سات سو گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے حج کے علاوہ انفاق کرنے سے

حج كي جزا

حج کی جزا سوائے بہشت کے کچھ نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص): حاجی جو تسبیح، تہلیل اور ذکر کرتا ہے خدا اس کے بدلے میں اسے بہشت کی بشارت دیتا ہے .

زياده حج بجا لانا

پیغمبر اکرم (ص): زیادہ حج و عمرہ بجا لانا فقر اور تنگدستی کو دور کرتا ہے۔جو شخص احرام کی حالت میں مر جائے لبیک کہتے ہوئے مبعوث ہوگا

خدا کے مہمان

حاجی اور عمرہ کرنے والے خدا وند عالم کے مہمان ہیں۔ خدا نے ان کی دعوت کی ہے اور انہوں نے لبیک کہا ہے۔ انہوں نے خدا سے مانگا ہے اور خدا نے اسے عطا کیا ہے .

 

آثار حج

خانہ خدا کا حج کرنے جاؤ۔ اس لیے کہ حج گناہوں کو ایسے دھو دیتا ہے جیسے پانی میل کو دھو دیتا ہے۔ حج و عمرہ کو بجا لاتے رہو تا کہ فقر و فاقہ تمہاری زندگی سے دور رہے۔

بے نیازی

حج کرو تاکہ بے نیاز ہو جاؤ۔

حجر الاسود

حجر الاسود روئے زمین پر خدا کا ہاتھ ہے۔ جو شخص اپنا ہاتھ اس پر ملے در حقیقت اس نے خدا کے ساتھ بیعت کی ہے تا کہ اس کے بعد اس کی نافرمانی نہ کرے۔

زاد سفر کی پاکیزگی

جو شخص سفر کا سامان تیار کرے اور اس کے اس سامان کے اندر حتی اگر ایک پرچم بھی حرام کا ہے تو خدا اس کے حج کو قبول نہیں کرے گا۔

قبولیت کی علامت

حج کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان جن گناہوں کو حج پر جانے سے پہلے انجام دیتا رہا ہے انہیں ترک کر دے۔

لبیک کہنے کا ثواب

کوئی حاجی ایسا نہیں ہے کہ پورے دن کو وہ لبیک کہتا ہوا گذرے مگر یہ کہ سورج کے غروب ہونے سے پہلے اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں۔

جو شخص صبح سے شام تک لبیک کہے اس کے گناہ اس طریقے سے پاک ہو جاتے ہیں جیسا کہ وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔

طواف کی فضیلت

خدا وند عالم اپنے گھر کے طواف کرنے والوں پر افتخار کرتا ہے جو شخص خانہ خدا کے سات چکر لگائے اور اسے شمار کرتا رہے اس کے ہر ایک قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ اس کا معاف ہو جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

سعی کی جزا

حاجی جب صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے تو اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔

اہمیت عرفات

بعض ایسے گناہ ہیں جو عرفات کے علاوہ کہیں بخشے نہیں جاتے۔

جمرات کی جزا

جمرات کو کنکریاں مارنا روز قیامت کا ذخیرہ ہے۔ حاجی جب جمرات کو کنکریاں مارتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

قربانی دینے کا فلسفہ

قربانی اس لئے واجب ہوئی ہے کہ غریب اور فقراء اس کے گوشت سے کھا سکیں پس قربانی کر کے گوشت انہیں دے دو۔

حج کو ترک نہ کرنا

پیغمبر اکرم (ص) مولائے کائنات کو ایک وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یا علی! وہ شخص جس پر حج واجب ہو اور اسے ترک کر دے وہ کافر ہے۔ خدا وند عالم فرماتا ہے: خدا کے لیے لوگوں کی گردنوں پر حج بیت اللہ اس شخص کے لیے جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اور جو شخص انکار کرے گا خدا وند عالم عالمین سے بے نیاز ہے۔

Tuesday, 12 June 2012 06:22

اسلام میں حج کی اہمیت

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اور عظیم فریضہ الہی ہے۔ قرآن مجید ایک مختصر عبارت میں اس فریضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: " وَ لِلهِ عَلَي‌ الناسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبيلاً "خدا کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اور اسی آیت کے ذیل میں فرماتا ہے: " وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِي‌ُّ عَنِ الْعالَمينَ "جو شخص کفر اختیار کرے تو خدا عالمین سے بے نیاز ہے۔ یہ جملہ کہ حج استطاعت رکھنے والوں پر واجب ہے اور جو شخص حج کا انکار کر دے کافر ہے، حج کی اسلام کے اندر فوق العادہ اہمیت کو واضح کر دیتا ہے۔ اور سورہ اسراءکی ۲۷ ویں آیت" وَ مَنْ كانَ في‌ هذِهِ أَعْمي‌ فَهُوَ فِي‌ اْلا´خِرَﮤِ أَعْمي‌ وَ أَضَلُّ سَبيلاً " کی تفسیر میں جو امام صادق علیہ السلام سے روایت مروی ہے یہ بیان کرتی ہے کہ جو شخص حج واجب کو جان بوجھ کر تاخیر میں ڈالے یہاں تک کہ موت آجائے وہ قیامت میں نابینا محشور ہو گا۔ دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے: جو شخص حج واجب کو بغیر کسی عذر کے ترک کر دے قیامت کے دن نصرانی یا یہودی محشور ہو گا۔ اور اس کے مقابلہ میں حج کی جزا اور پاداش بھی اتنی زیادہ روایات میں بیان ہوئی ہے کہ شاید ہی کسی اور عمل کےبارے میں اتنی جزا بیان ہوئی ہے۔ جیسا کہ امام صادق (ع) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے۔ کہ آپ نے فرمایا: جو لوگ حج و عمرہ کو بجا لائے وہ خدا کے مہمان ہیں وہ جو بھی خدا سے مانگیں گے خدا انہیں عطا کرے گا۔ جو دعا بھی کریں گے خدا مستجاب کرے گا۔ اور اگر کسی کی شفاعت کریں گے خدا ان کی شفاعت کو قبول کرے گا۔ اور اگر وہ اسی راستے میں مر جائیں خدا ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا۔ نیز ایک اور روایت میں پیغمبر اسلام (ص) سے مروی ہے: " اَلْحجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزاء اِلَّا الجَنَّ‍ﮥ "؛حج مقبول کی جزا بہشت کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور آپ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ " مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ... خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَومٍ وَلَدَتْهُ اُمُّهُ " جو شخص حج بجا لائے اس طریقے سے گناہوں سے پاک ہوتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ اور یہ عظیم اللہ کی نعمت اور سب سے بہترین جزا ہے کہ انسان کے تمام گناہ بخشے جائیں۔

ہندوستان کے وزير اعظم من موہن سنگھ نے اعتراف کيا ہے کہ عالمي مالياتي بحران سے ہندوستان کي معيشت بھي متاثر ہوئي ہےـ

من موہن سنگھ نے نامہ نگاروں سے گفتگو ميں کہا کہ ہندوستان کي معيشت کٹھن دور سے گزر رہي ہےـ انہوں نے کہا کہ ملک کو نازک حالات در پيش ہيں اور عالمي معيشت پر کٹھن وقت ہے جس کا اثر ہندوستان کي معيشت پر بھي پڑا ہےـ انہوں نے ہندوستان کي شرح ترقي ميں آنے والي کمي کو بيروني عوامل کا نتيجہ قرار دياـ

من موہن سنگھ نے اس سے پہلے کانگريس کي مجلس عاملہ کے اجلاس ميں بھي کہا کہ مالي سال دو ہزار گيارہ دو بزار بارہ ميں ہندستان کي ترقي کي شرح سات فيصدي رہي جو دنيا بھر ميں سب سے زيادہ ہےـ اس سے قبل ہندوستان کے وزير خزانہ پرنب مکھرجي نے بھي کہا ہے کہ يوروزون کے مالياتي بحران، امپورٹ ميں اضافہ اور تيل کي قيمتوں ميں عدم استحکام سے ہندوستان کي معيشت پر منفي اثرات پڑے ہيں

زينبیہ مسجد و اسلامی مرکز استنبول (Zeynebiye Camii ve Kültür Merkezi Istanbul) کے شیعہ امام جمعہ جناب صلاح الدین اوزگوندوز (Selahattin Ozgunduz) نے جمعے کے خطبوں کے ضمن میں شام کے خلاف ترک ذرائع ابلاغ کے رویے پر سخت نکتہ چینی کی۔

انھوں نے شام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں عوام کے غیرانسانی قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: شام میں گرنے والا خون کا ہر قطرہ میرے، اور ہر مسلمان کا خون ہے۔

انھوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے شام کے حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے حالات سدھارنے کے لئے قرآن مجید سے رجوع کرنا پڑے گا اور شام کے بارے میں تقریبا تمام شیعیان اہل بیت (ع) کی رائے یہ ہے کہ اس ملک میں ـ نسل اور فرقے کی تمیز کے بغیر ـ ہر مسلمان اور غیر مسلم کے گرنے والے خون کا ہر قطرہ میرا اور تمام مسلمانان عالم کے خون کا قطرہ ہے۔

انھوں نے کہا: دشمنان اسلام کی کوشش ہے کہ ہمارے درمیان فتنہ انگیزی کرے اور تفرقہ ڈال دے وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کریں اور اس سلسلے میں گرنے والا خون میرا خون ہے لیکن قابضیں اور باہر سے آنے والے دہشت گردوں اور قاتلوں کا خون میرا خون نہيں ہے۔

مسجد زینبیہ کے امام جمعہ نے کہا: شام کے عوام ایک ہی وجود اور ایک ہی ہویت کو تشکیل دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی مسئلے پر زور دیا ہے اور خداوند متعال ایک آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ جس نے ناحق خون گرایا وہ ابدی عذاب کا مستحق ہے اور دوسری آیت میں فرماتا ہے: کہ "جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہے" چاہے مقتول مؤمن ہو چاہے غیر مؤمن ہو۔

انھوں نے کہا: کل آپ کا ایک پڑوسی تھا جس کو آج آپ قتل کرنا چاہتے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دشمن نے فتنہ انگیزی کی ہے چنانچہ سوال یہ ہے کہ آپ کے اس کل والے ہمسائے کا گناہ کیا ہے؟ وہ جس دن سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے بچوں کا گناہ کیا ہے؟ انہیں کیوں مارا جارہا ہے؟ مشرکین اپنی بـچیوں کو زندہ در گور کرتے تھے؛ اگر آپ کہیں کہ ان کے بچے ان کی طرح ہیں اور انہیں بھی مارنا چاہئے تو اگر ایسی بات ہے تو پھر تو مشرکین کی بچیوں کو بھی مشرک گرداننا چاہئے تاہم یہ بات قرآن متصادم ہے کیونکہ قرآن کا فرمان گرامی یہ ہے کہ خداوند متعال ان قتلوں کے بارے میں پوچھے گا اور زندہ درگور کرنے کے ان تمام واقعات کے بارے میں پوچھے گا؛ آپ نے اگر اپنی بیٹی کو زندہ در گور کیا ہے تو خداوند متعال کو یہ جواب نہيں دے سکیں گے کہ "میں اس بچی کا باپ تھا اور میری مرضي میں اس کو زندہ رکھوں یا اس کو ماردوں! ہرگز نہیں، آپ کو مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ تشیع کی رائے ہے کیونکہ تشیع قرآن اور حضرت محمد (ص) کی نگاہ سے ان مسائل کو دیکھتا ہے۔

سری لنکا کے مغربی صوبہ میں مسلمانوں کی انجمن کے ممبر مجیب رحمان نے کہا کہ سری لنکا کے مختلف علاقوں میں بعض تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں چند روز قبل ایک سکول میں منعقدہ طلباء کے ایک جشن میں باپردہ طالبات کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

شام کے باغی وہابی مفتی نے کہا ہے: ہم نے سید حسن نصر اللہ کے قتل کے لئے انعام کا اعلان کیا ہے تا کہ اسرائیل کے ہاں قربت اور شرافت پائیں!۔

ملک شام میں دہشت گردوں کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے صوبے "حمص" کی ایک مسجد کے امام جماعت "عبدللہ التمیمی" نے "یہودی ریاست کے ٹیلی ویژن چینل 2 سے بات چیت کرتے ہوئے" کہا: "ہم اسرائیل اور یہودی ریاست کے ساتھ اپنی دشمنی کی تردید کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ "وہابیوں اور اسرائیلی یہودیوں کے درمیان کسی قسم کی دشمنی نہ ہے اور نہ ہوگی بلکہ یہودی اور وہابی ایک ہی محاذ میں لڑ رہے ہیں"۔

اس وہابی مفتی نے یہودی ریاست کو خوش کرنے کے لئے اس ریاست کی ناک رگڑنے والے اور اس کو تاریخ کی پہلی شکست سے دوچار ہونے والے سید حسن نصراللہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ہم نے سید حسن نصر اللہ کے قتل کے لئے انعام کا اعلان کیا ہے اور ہمارے اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست ہمیں وقعت دے اور ہمیں اعزاز و شرافت بخشے!۔

فلسطینی تنظیم حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے کہا ہے کہ امریکہ فلسطین ،عرب اور مسلم اقوام کا سب سے بڑا دشمن ہے امریکہ نےہمیشہ اسرائيل کی حمایت کی ہے امریکہ فلسطین کے امور میں مداخلت بند کردے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے جو اسرائيل کے سنگین جرائم کی پشتپناہی کررہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ فلسطینی حکومت اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کار کا انتخاب فلسطینیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی امریکہ کی گھناؤنی سازش ہے اور امریکہ ہر لحاظ سے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کی تلاش و کوشش کررہا ہے انھوں نے کہا کہ فلسطینی حکومت کو اسرائيل کے ساتھ مذاکرات کے بجائے فلسطین کے قومی اتحاد کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے پل پوشانک کو اسرائیل کے فلسطین کے درمیان مذاکرات کے لئے اپنا نیا نمائندہ منتخب کیا ہے۔