Super User

Super User

Wednesday, 20 June 2012 04:45

حج کے متفرق مسائل

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(

س1: مسجدالحرام كا فرش قليل پانى كے ساتھ پاك كيا جاتا ہے اس طرح كہ نجاست پر قليل پانى ڈالا جاتا ہے كہ جس سے عام طور پر نجاست كے باقى رہنے كا علم ہوتا ہے تو كيا مسجد كے فرش پر سجدہ كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

ج: اس سے عام طور پر مسجد كى ہر جگہ كے نجس ہونے كا علم نہيں ہوتا اور جستجو كرنا واجب نہيں ہے پس فرش پر سجدہ كرنا صحيح ہے _

س 2: كيا خانہ كعبہ كے اردگرد دائرے كى صورت ميں نماز جماعت كافى ہے؟

ج: جو شخص امام كے پيچھے يا دائيں بائيں كھڑا ہو اسكى نماز صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ جو شخص امام كے دائيں بائيں كھڑا ہو وہ اس فاصلے كى رعايت كرے جو امام اور كعبہ كے درميان ہے پس امام كى نسبت كعبہ كے قريب تر كھڑا نہ ہو ليكن جو شخص خانہ كعبہ كى دوسرى طرف امام كے بالمقابل كھڑا ہوتا ہے اسكى نماز صحيح نہيں ہے _

س3: كيا مكہ معظمہ اور مدينہ منورہ ميں اہل سنت كے امام كے پيچھے جماعت كے ساتھ نماز پڑھنا كافى ہے ؟

ج : ان شاء اللہ كافى ہے _

س4: جس شخص نے مكہ معظمہ ميں دس دن ٹھہرنے كى نيت كى ہے تو عرفات ، مشعر اور منى ميں اور ان كے درميان مسافت طے كرتے ہوئے اسكى نماز كا حكم كيا ہے ؟

ج: جس شخص كى نيت يہ ہے كہ عرفات كى طرف جانے سے پہلے دس دن مكہ معظمہ ميں رہيگا اور اسكے ساتھ ايك چار ركعتى صحيح نماز بھى پڑھ لے تو جبتك نيا سفر نہ كرے نماز پورى پڑھے گا اور ٹھہرنے كا حكم ثابت ہونے كے بعد عرفات ، مشعرالحرام اور منى كى طرف جانا سفر نہيں ہے _

س5: كيا قصر و اتمام كے درميان اختيار والا حكم مكہ اور مدينہ ميں بھى جارى ہوگا يا يہ فقط مسجد الحرام اور مسجد نبوى كے ساتھ مختص ہے اور كيا انكى پرانى اور نئي جگہوں كے درميان كوئي فرق ہے يا نہيں ؟

ج: قصر اور اتمام كے درميان اختيار والا حكم ان دو شہروں كى ہر جگہ ميں جارى ہوگا اور ظاہر يہ ہے كہ پرانى اور نئي جگہوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ اس مسئلہ ميں ان دو شہروں كى پرانى جگہوں پر اكتفا كرے بلكہ صرف مسجدوں پر _پس نماز قصر پڑھے مگر يہ كہ دس دن ٹھہرنے كى نيت كرے_

س 6: جو شخص مشركين سے برائت كے پروگرام ميں شركت نہ كرے اسكے حج كا حكم كيا ہے ؟

ج: اس سے اسكے حج كى صحت كو نقصان نہيں پہنچتا اگرچہ اس نے اپنے آپ كو دشمنان خدا سے اعلان برائت كے پروگرام ميں شركت كرنے كى فضيلت سے محروم كر ديا ہے_

س 7: كيا حيض يا نفاس والى عورت كيلئے اس ديوار پر بيٹھنا جائز ہے جو مسجدالحرام كے برآمدے اور سعى كرنے كى جگہ كے درميان واقع ہے يہ جانتے ہوئے كہ يہ ان كے درميان مشترك ہے؟_

ج: اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے مگر جب ثابت ہو جائے كہ وہ مسجدالحرام كا حصہ ہے

س8: جس شخص كو چاند ديكھنے كى وجہ سے دو وقوف اور روز عيد كے درك كرنے ميں شك ہو اسكے حج كا كيا حكم ہے اور كيا اس پر حج كا اعادہ واجب ہے يا نہيں ؟

ج: سنى قاضى كے نزديك ذى الحج كا چاند ثابت ہونے اور اسكى طرف سے چاند ثابت ہوجانے كے فيصلے كے مطابق عمل انجام دينا كافى ہے پس اگر لوگوں كى پيروى كرتے ہوئے دو وقوف كو درك كرلے تو اس نے حج كو درك كرليا اور يہ كافى ہے _

س9: بعض فتاوى ميں آيا ہے كہ آپ مكہ مكرمہ كے ہوٹلوں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت نہيں ديتے تو كيا آپ كى طرف سے ان رہائش گاہوں اور گھروں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت ہے كہ جن ميں عام طور پر قافلے آتے ہيں يہ جانتے ہوئے كہ ان قافلوں كى اپنى مستقل رہائشے گاہ اور اپنى مستقل جماعت ہوتى ہے پس يہ حجاج كيلئے مسجدالحرام ميں نماز ترك كرنے كا ذريعہ نہيں بنتے _

ج: ہمارى طرف سے ان رہائش گا ہوں اور گھروں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت نہيں ہے اگر يہ دوسروں كى توجہ كے مبذول كرنے كا موجب بنے اور مسجد ميں مسلمانوں كے ساتھ انكى نماز ميں شركت نہ كرنے كى وجہ سے تنقيد كا سبب بنے_

س 10: ڈرائيور حضرات بھيڑ سے بچنے كيلئے منى اور مزدلفہ تك پہنچنے والے بعض شاق راستوں اور سرنگوں سے اندرونى راستوں كے طور پر استفادہ كرتے ہيں پس ان جگہوں تك پہنچنے كيلئے مكہ كے بعض محلوں سے ہوتے ہوئے ايسے راستوں سے جاتے ہيں جو منى كے اندر سے گزرتے ہيں تو كيا اسے مكہ سے نكلنا شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟

ج: ظاہر يہ ہے كہ نكلنے كے جائز نہ ہونے كى دليل اس سے منصرف ہے بہرحال اس سے عمرہ اور حج كى صحت كو نقصان نہيں پہنچتا_

س 11: كاروانوں كے خدام جو عيد والے دن عورتوں اور كمزور لوگوں كے ہمراہ ہوتے ہيں اور ان كے ہمراہ فجر سے پہلے ہى مشعرالحرام سے كوچ كرجاتے ہيں اگر ان كيلئے طلوع فجر سے پہلے پلٹنا اور وقوف اختيارى كو درك كرنا ممكن ہو تو كيا يہ ان پر واجب ہے يا نہيں ؟ اور اگر ان كيلئے پلٹنا ممكن نہ ہو ليكن دن كے وقت جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے كيلئے پلٹنا ممكن ہو تو كيا عورتوں اور كمزور لوگوں كى متابعت ميں ان كيلئے بھى رات كے وقت كنكرياں مارنا كافى ہے يا ان پر واجب ہے كہ دن كے وقت كنكرياں ماريں؟اور پلٹنے اور وقوف اختيارى كو درك كرنے كى صورت ميں كيا يہ انہيں نائب بنانے كے امكان كيلئے كافى ہے يا وہ محض رات كو نكل آنے سے صاحبان عذر ميں سے شمار ہوں گے كہ جنہيں نائب بنانا جائز نہيں ہے_

ج1: وقوف اختيارى كو در ك كرنے كيلئے ان پر پلٹنا واجب نہيںہے_

2 _ رات ميں كنكرياں مارنا ان كيلئے كافى نہيں ہے مگر يہ كہ دن ميں ايسا كرنے سے عذ ر ركھتے ہوں_

3_ نائب كى نسبت احوط يہ ہے كہ وہ رات كے وقت مشعر الحرام سے نہ نكلے اگرچہ پلٹ كر مشعر الحرام كے اختيارى وقوف كو درك كر لے ہاں اگر فرض كريں كہ وہ عذر نہيں ركھتا اور اختيار كے برخلاف نكلے تو اگر پلٹ آئے اور اختيارى اور پورے واجب وقوف كو درك كرلے تو يہ اسكى نيابت كيلئے مضر نہيں ہے_

س 12: جو شخص شب عيد اور مزد لفہ ميں معمولى سا وقوف كرنے كے بعد عورتوں اور مريضوں كے ہمراہ ہوتا ہے كيا اس پر واجب ہے كہ انہيں مكہ پہنچانے كے بعد فجر سے پہلے مزدلفہ كى طرف پلٹ آئے يا اس كيلئے طلوع فجر اور طلوع آفتاب كے درميان وقوف كر لينا كافى ہے يا اس كيلئے وہى معمولى سا وقوف ہى كافى ہے جبكہ اس كے ساتھ تھكن ، مشقت اور ٹريفك كى وہ پابندياں بھى ہوتى ہيں جو انتظاميہ نافذ كرتى ہے اور كيا نيابتى حج كرنے والے اور اسكے غير كے درميان كوئي فرق ہے؟

ج: جو شخص صاحبان عذر كى نگرانى اور تيمار دارى كيلئے ان كے ہمراہ كوچ كرتا ہے اس پر طلوع فجر اور طلوع شمس كے درميان وقوف كرنا واجب نہيں ہے بلكہ اس كيلئے رات كے اضطرارى وقوف پر اكتفا كرنا جائز ہے ہاں جو شخص نيابتى حج انجام دے رہا ہے اس كيلئے يہ جائز نہيں ہے اور اس پر اختيارى اعمال كو انجام دينا واجب ہے_

س 13 : كيا اختيارى صورت ميں نذر كےساتھ ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے جبكہ انسان جانتا ہو كہ وہ سايہ ميں جانے پر مجبور ہوجائيگا جيسے اگر نذر كركے اپنے شہر سے احرام باندھے اور پھر دن كے وقت ہوائي جہاز ميں سوار ہوجائے؟

ج: نذر كركے ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے اور دن كے وقت سايہ ميں جانا حرام ہے اور ايك عنوان كا حكم دوسرے عنوان تك سرايت نہيں كرتا_

س 14 : ايك شخص فوج ميں كام كرتا ہے اور بعض اوقات جبرى حكم كے ذريعے اسكى ڈيوٹى لگائي جاتى ہے جيسے كسى اہم كام كيلئے فوراً مكہ پہنچنا اور اس نے پہلے عمرہ نہيں كيا ہوتا اور تنگى وقت كى وجہ سے احرام كى حالت ميں مكہ ميں داخل نہيں ہوسكتا تو كيا وہ اس صورت ميں گناہ گار ہوگا كيا اس پر كفارہ ہے؟

ج: سوال كے فرض ميں اس كيلئے بغير احرام كے مكہ مكرمہ ميں داخل ہونا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اس پر كوئي شے نہيں ہے_

س 15: اگر ماہ ذيقعد ميں مكہ ميں عمرہ مفردہ بجا لائے اور پھر ذى الحج ميں دوبارہ مكہ ميں داخل ہونا چاہے جبكہ ابھى اس عمرے كو دس دن نہ ہوئے ہوں تو كيا اس كيلئے نيا احرام باندھنا ضرورى ہے يا وہ بغير احرام كے داخل ہو سكتا ہے؟

ج: احوط كى بناپر اس وقت اس كيلئے احرام باندھنا ضرورى ہے _

س 16: ايك شخص جدہ ميں رہتا ہے اور مكہ مكرمہ ميں كام كرتا ہے يعنى وہ چھٹى كے دنوں كے علاوہ تسلسل كے ساتھ ہر دن مكہ جاتاہے يا آدھا ہفتہ جاتاہے يعنى تين دن مكہ جاتا ہے اور چار دن نہيں جاتا اگر چھٹى كے ايام يا چار دن ختم ہوجائيں تو كيا اس كيلئے دوبارہ عمرہ كرنا واجب ہے؟

ج: سوال كى مفروضہ صورت ميں عمرہ كرنا واجب نہيں ہے_

س 17: اگر عمرہ ختم ہوجائے اور انسان مكہ ميں ہى ہو تو كيا اس پر نيا عمرہ كرنا واجب ہے؟ اور كہاں سے ؟ كيا حرم كى حدود سے يا مسجد تنعيم سے؟

ج: جبتك وہ مكہ مكرمہ ميں ہے نياعمرہ بجا لانا واجب نہيں ہے اور اگر نيا عمرہ بجا لانا چاہے تو ضرورى ہے كہ اطراف حرم سے ادنى الحل كى طرف جائے اور يا پھر مسجد تنعيم جائے_

س 18: ايك شخص ٹيكسى كا ڈرائيور ہے اور سوارى اسے مكہ جانے كا كہتى ہے يہ جانتے ہوئے كہ ڈرائيور نے پہلے عمرہ نہيں كر ركھا كيا اس پر واجب ہے كہ احرام كى حالت ميں داخل ہو اور اگر بغير احرام كے داخل ہو تو اس كا كيا حكم ہے ؟

ج: سوال كى مفروضہ صورت ميں اس پر واجب ہے كہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے احرام باندھے اور عمرہ مفردہ كے اعمال بجا لائے اور اگر بغير احرام كے مكہ ميں داخل ہو جائے تو فعل حرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے_

س 19: جو شخص سخت بھيڑ كے وقت كئي مستحب طواف كرتا ہے اس طرح كے ان حجاج كو مزاحم ہوتا ہے جو واجب طواف كرتے ہيں تو كيا اس پر كوئي اشكال ہے بالخصوص اگر اسكے پاس مستحب طواف كيلئے وسيع وقت ہو_

ج: اس پر كوئي اشكال نہيں ہے ہاں اولى بلكہ احوط يہ ہے كہ اس بھيڑ كے ہوتے ہوئے مستحب طواف نہ كرے_

س 20:جو شخص استطاعت كى وجہ سے حج افراد كو بطور واجب بجا لاتا ہے يا اسے بطور مستحب انجام ديتا ہے اور اس سے پہلے متعدد دفعہ عمرہ كر چكا ہو تو كيا اس پر ايك نيا عمرہ واجب ہے جو اس حج كے متعلق ہو؟

ج: عمرہ واجب نہيں ہے مگر جن موارد ميں تمتع سے افراد كى طرف عدول كرنا ہو_

س 21: جس شخص نے حج افراد كيلئے طواف باندھا ہوا ہے كيا وہ طواف حج اور سعى كے بعد اپنے اختيار كےساتھ مكہ سے نكل كر جدہ جا سكتا ہے؟ كہ پھر سيدھا عرفہ ميں حجاج كے ساتھ ملحق ہوجائے؟

ج: طواف اور سعى كے بعد جدہ يا كسى اور جگہ جانے سے مانع نہيں ہے ليكن اگر اس كى وجہ سے اسے دو وقوف كے فوت ہوجانے كا خوف نہ ہو_

س 22: شرعى مسافت كہ جسكے ساتھ حج افراد جائز ہوتا ہے سولہ فرسخ ہے تو يہ مسافت كہاں سے شمار كى جائيگي؟

الف: كيا آپ كى رائے ميں مكہ قابل توسيع ہے اور ہر وہ جگہ جسے عرف ميں مكہ كہا جاتا ہے وہ مكہ كا حصہ ہے؟

ب: جو مكلف مكہ سے سولہ فرسخ سے كم فاصلے پر رہتا ہے كيا وہ اپنے گھر سے احرام باندھے گا يا مدينہ كى كسى جگہ سے؟

ج: كيا آپ كى نظر ميں مسافت كا آغاز مكلف كے شہر كے آخر سے ہوگا؟

ج: الف) مسافت مكلف كے شہر يا ديہات كے آخر سے شہر مكہ كے شروع تك حساب كى جائيگى اور شہر مكہ قابل توسيع ہے اور مسافت كے حساب كرنے كا معيار وہ جگہ ہے جسے اس وقت عرف ميں شہر مكہ كى ابتدا كہا جاتا ہے_

ب: اس كيلئے اپنے شہر كى ہر جگہ سے احرام باندھنا جائز ہے اگرچہ اولى اور احوط يہ ہے كہ اپنے گھر سے احرام باندھے_

ج: ابھى ابھى گزرا ہے كہ مسافت كا معيار اسكے اپنے شہر اور موجودہ شہر مكہ كے درميان كى مسافت ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ اپنے گھر سے مسافت كى ابتدا كا حساب كرے_

س 23: عمرہ كرنے والا شخص جو مدينہ منورہ يا اسكے مضافات ميں رہتا ہے كيا اس كيلئے جائز ہے كہ وہ مكہ مكرمہ جانے كے قصد سے جدہ آئے اور پھر احرام كيلئے ادنى الحل جيسے مسجد تنعيم كا قصد كرے_

ج: اگر وہ مدينہ سے نكلتے وقت عمرہ كا قصد ركھتا ہو تو اس پر لازم ہے كہ مسجد شجرہ سے احرام باندھے اور اس كيلئے بغير احرام كے ميقات سے آگے جانا جائز نہيں ہے اگرچہ مكہ مكرمہ جاتے ہوئے جدہ سے گزرنے كا ارادہ ركھتا ہو اور اگر بغير احرام كے ميقات سے گزر كر جدہ پہنچ جائے پھر عمرہ كا ارادہ كرے تو اس پر واجب ہے كہ وہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات پر جائے اور اس كيلئے جدہ اور ادنى الحل سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے كيونكہ ادنى الحل صرف ان لوگوں كيلئے عمرہ مفردہ كا ميقات ہے جو مكہ مكرمہ ميں رہتے ہيں _

س 24: مدينہ يا اسكے مضافات سے دو راستے جدہ كى طرف جاتے ہيں ايك حجفہ كے قريب سے گزرتا ہے كہ جسكے ساتھ محاذات (مقابل) بن جاتا ہے اور دوسرا جو كہ تيز راستہ ہے ، جحفہ كے مقابل سے گذرتاہے ليكن وہ جحفہ سے سو كيلوميٹر سے بھى زيادہ دور ہے اور سيدھا راستہ نہيں ہے تو كيا اسے بھى محاذات (مقابل) شمار كيا جائيگا يا نہيں؟

ج: محاذات اور مقابل سے مراد يہ ہے كہ مكہ مكرمہ كى طرف جانے والا شخص راستے ميں ايسے نقطے پر پہنچ جائے كہ جسكى دائيں يا بائيں جانب ميقات ہو اس بنا پر پس نقطہ محاذات كے اعتبار سے دو راستوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_

س 25: دوسرى صورت ميں اگر بالفرض وہ محاذات نہ بنتى ہو تو جو شخص اس راستے سے جا رہا ہے كيا اس كيلئے جائز ہے كہ وہ ادنى الحل جا كر وہاں سے عمرہ مفردہ يا حج كا احرام باندھے ؟

ج: ميقات اور اسكى بالمقابل جگہ سے بغير احرام كے گزرنا جائز نہيں ہے اور ادنى الحل سے احرام باندھنا بھى صحيح نہيں ہے جيسے كہ ابھى ابھى گزرا ہے _

س26: جس شخص كو ميقات سے احرام باندھنے ميں اپنے يا اپنے اہل و عيال پر خوف كا وہم ہو كيا اس كيلئے ادنى الحل سے احرام باندھنا جائز ہے؟

ج: اگر ميقات ميں احرام باندھنے سے كوئي عذر ہو جو ميقات سے گزرنے كے بعد زائل ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام باندھنے كيلئے ميقات كى طرف واپس پلٹے البتہ اگر ممكن ہو ورنہ اپنى جگہ سے احرام باندھے اگر اسكے آگے كوئي ميقات نہ ہو اور كسى دوسرے ميقات پر جانے كى قدرت بھى نہ ركھتا ہو_

س 27: كيا احرام كى حالت ميں رات كے وقت بارش سے بچنے كيلئے كسى چيز كے نيچے جانا جائز ہے ؟

ج: احوط مراعات كرنا ہے_

س 28: جو شخص مقام ابراہيم كے پيچھے قرآن كريم يا مستحب نمازيں پڑھنا چاہتا ہے يا دعاء كيلئے بيٹھنا چاہتا ہے جب كہ اس كيلئے ان چيزوں كو مسجد الحرام كى دوسرى جگہوں ميں انجام دينا بھى ممكن ہے تو كيا بھيڑ كے باوجود اس كيلئے يہ كام جائز ہے جبكہ طواف كى واجب نماز پڑھنے والوں كيلئے مشكل كا باعث ہو_

ج: اولى بلكہ احوط يہ ہے كہ مذكورہ چيزوں كو اس جگہ بجا لائے جہاں بھيڑ نہ ہو_

س 29: كيا حاجى ( مرد يا عورت) كيلئے احرام كى حالت ميں پانى كو زائل كرنے كيلئے اپنے چہرے كو توليے سے پونچھنا جائز ہے ؟

ج: اس كام ميں مرد كيلئے تو ہر صورت ميں كوئي حرج نہيں ہے اور عورت كيلئے بھى كوئي حرج نہيں ہے اگر اس پر چہرے كو ڈھانپنا صدق نہ كرے اس طرح كہ يہ كام توليے كو بالتدريج اپنے چہرے پر گزارنے كے ساتھ ہو ورنہ اس كيلئے يہ جائز نہيں ہے بہر حال چہرے كو ڈھانپنے ميں كفارہ نہيں ہے_

س 30: حاجى كيلئے جائز ہے كہ حج كے موقع پر منى ميں رات گزارنے كى بجائے مكہ مكرمہ ( حرم ) ميں عبادت كے ساتھ رات گزارے تو كيا كھانا كھانا، نہانا، قضائے حاجت يا مومن كے جنازہ كى تشييع كرنا ايسے كام ہيں جو عبادت كےساتھ مشغول ہونے كو باطل كرديتے ہيں؟

ج: ضرورت كے مطابق كھانے پينے ميں مشغول ہونا اور كسى احتياج كى وجہ سے باہر جانا اور وضو يا واجب غسل بجا لانا عبادت كے ساتھ مشغول ہونے كو نقصان نہيں پہنچاتا_

س 31: سابقہ سوال ميں مذكور مصروفيات اگر عبادت كو باطل كرديں تو كيا كفارہ بھى ہے ؟

ج: اگر ايسے كام ميں مشغول ہو جو عبادت نہيں ہے اگرچہ مكہ مكرمہ ميں، اور ضروريات ميں سے بھى شمار نہ كيا جاتا ہوجيسے كھانا پينا اور كوئي ضرورت پورى كرنا تو اس پر كفارہ واجب ہے _

س32: كيا چند ماہ تك مال كو جمع كرنا حج كى استطاعت كو حاصل كرنے كيلئے كافى ہے ؟ بالخصوص اگر وہ جانتا ہو كہ وہ اس طريقے كے علاوہ مستطيع نہيں ہوسكتا_

ج: استطاعت كا حاصل كرنا واجب نہيں ہے ليكن اگر انسان حجة الاسلام كرنا چاہتا ہو تو اس سے كوئي مانع نہيں ہے كہ وہ كسى جائز طريقے سے مال حاصل كرے يا اپنى منفعت سے ذخيرہ كرتا رہے يہاں تك كہ اس كے حج كا خرچ جمع ہوجائے مگر جب وہ اپنى منفعت سے ذخيرہ كرے اور اس پر خمس كا سال گزر جائے تو اس پر اس كا خمس دينا واجب ہے _

س 33: كيا والدين كو ملنا :معاشرتي، شرعى يا ذاتى ضرورت شمار ہوتى ہے اور اگر ايسا ہے تو كيا جو شخص استطاعت ركھتا ہے اس كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنا مال والدين كو ملنے كيلئے خرچ كردے جب ملنے كيلئے سفر و غيرہ كى ضرورت ہو اور حج كو مؤخر كردے؟

ج: مستطيع پر واجب ہے كہ حج كرے اور اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے اور صلہ رحمى صرف ملنے ميں منحصر نہيں ہے بلكہ رشتہ داروں كى احوال پرسى اور صلہ رحمى ديگر طريقوں سے بھى ممكن ہے جيسے خط لكھنا يا ٹيليفون كرنا وغيرہ ہاں اگر والدين كہ جو دوسرے شہر ميں ہيں ان سے ملنا اسكى اپنى حالت اور انكى حالت كے پيش نظر ضرورى ہو اس طرح كہ اسے اسكى عرفى ضروريات ميں سے شمار كيا جائے اور اسكے پاس اتنا مال بھى نہ ہو جو والدين كى ملاقات اور حج كے اخراجات دونوں كيلئے كافى ہو تو وہ اس حالت ميں مستطيع ہى نہيں ہے_

س34: اگر دودھ پلانے والى عورت مستطيع ہو جائے ليكن اسكے حج پر جانے سے شيرخوار بچے كو نقصان پہنچتا ہو تو كيا وہ حج كو ترك كرسكتى ہے؟

ج: اگر نقصان اس طرح ہو كہ دودھ پلانے والى كيلئے شير خوار كے پاس رہنا ضرورى ہے يا اس سے دودھ پلانے والى عورت كيلئے حرج ہے تو اس پر حج واجب نہيں ہے _

س 35:جو عورت سونے كے كچھ زيورات كى مالك ہے اوروہ انہيں پہنتى ہے اور اسكے پاس اسكے علاوہ كوئي دوسرا مال نہيں ہے اگر وہ انہيں بيچ دے تو وہ حج كرنے پر قادر ہوجاتى ہے تو كيا عورتوں كے زيورات استطاعت سے مستثنى ہيں يا اس پر واجب ہے كہ وہ حج كے اخراجات كيلئے انہيں بيچے اور انكے ساتھ وہ مستطيع ہوگي_؟

ج: اگر ان زيورات كو وہ پہنتى ہو اور وہ اسكى حيثيت سے زيادہ نہ ہوں تو اس پرحج كيلئے انہيں بيچنا واجب نہيں ہے اور وہ مستطيع نہيں ہوگي_

س 36: ايك عورت حج كيلئے استطاعت ركھتى ہے ليكن اس كا شوہر اسے اسكى اجازت نہيں ديتا تو اسكى ذمہ دارى كيا ہے ؟_

ج: واجب حج ميں شوہر كى اجازت معتبر نہيں ہے ہاں اگر شوہر كى اجازت كے بغير حج پر جانے سے عورت حرج ميں مبتلا ہوتى ہو تو وہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

 

س 37: اگر شادى كے عقد كے وقت ميرے شوہر نے مجھے حج كرانے كا وعدہ ديا ہو تو كيا ميرے ذمے ميں حج مستقر ہو جائيگا؟

ج: صرف اس سے حج ذمے ميں مستقر نہيں ہوتا_

 

س 38: كيا حج كى استطاعت حاصل كرنے كيلئے ضروريات زندگى ميں تنگى لانا جائز ہے ؟

ج: يہ جائز ہے ليكن شرعا واجب نہيں ہے البتہ يہ تب ہے جب تنگى اپنے آپ پر كرے ليكن جن اہل و عيال كا خرچ اس پر واجب ہے ان پر معمول كى حد سے تنگى كرنا جائز نہيں ہے_

 

س 39:ماضى ميں ميرى طرف سے دين كى پابندى اور اس كا اہتمام كوئي اچھا نہيں تھا اور ميرے پاس اتنا مال تھاجو سفر حج كيلئے كافى تھا ( يعنى ميں مستطيع تھا) ليكن اپنى اس حالت كيوجہ سے ميں حج پر نہيں گيا تو اس وقت ميرے لئے كيا حكم ہے؟جبكہ اس وقت ميرے پاس لازمى رقم نہيں ہے _ جيسا كہ اسكے دو راستے ہيں ايك ادارہ حج ميں نام لكھوا كر اور ايك دوسرا راستہ كہ جس ميں زحمت زيادہ ہے تو كيا حكومت كے ہاں نام لكھوا دينا كافى ہے ؟

ج: اگر آپ ماضى ميں مستطيع تھے اور فريضہ حج كى ادائيگى كيلئے سفر پر قادر تھے اسكے باوجود آپ نے حج كو مؤخر كيا تو آپ پر حج مستقر ہوچكا ہے اور آپ پر ہر جائز اور ممكن طريقے سے حج پر جانا واجب ہے البتہ جبتك عسر وحرج نہ ہو اور اگر آپ سب جہات سے مستطيع نہيں تھے تو سوال كى مفروضہ صورت ميں آپ پر حج واجب نہيں ہے_

 

س 40: جب مسجدالحرام خون يا پيشاب كے ساتھ نجس ہوجاتى ہے تو جو لوگ اسے پاك كرنے پر مامور ہيں وہ ايسے طريقے كو استعمال كرتے ہيں جو پاك نہيں كرتا تو رطوبت ہونے يا نہ ہونے كى صورت ميں مسجد كى زمين پر نماز پڑھنے كا كيا حكم ہے ؟

ج: جبتك سجدے والى جگہ كے نجس ہونے كا علم نہ ہو نماز پڑھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے _

 

س 41: كيا مسجد نبوى ميں جائے نماز پر سجدہ كرنا صحيح ہے؟ بالخصوص روضہ شريفہ ميں كہ جہاں كوئي ايسى چيز ركھنا جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے _جيسے كاغذ يا درخت كى شاخوں سے بنى ہوئي جائے نماز _توجہ كو جذب كرتا ہے اور نمازى لوگوں كى نظروں كا نشانہ بنتا ہے جيسے كہ اس سے مخالفين كو مذاق اڑانے كا بھى موقع ملتا ہے_

ج: كسى ايسى چيز كا ركھنا كہ جس پر سجدہ صحيح ہے اگر تقيہ كے خلاف ہو تو جائز نہيں ہے اور اس پر واجب ہے كہ ايسى جگہ كا انتخاب كرے كہ جس ميں مسجد كے پتھروں پريا كسى ايسى چيز پر سجدہ كرسكے كہ جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے البتہ اگر اس كيلئے يہ ممكن ہو ورنہ تقيةً اسى جائے نماز پر سجدہ كرے_

 

س 42: اذان و اقامت كے وقت دو مسجدوں سے نكلنے كا كيا حكم ہے جبكہ اہل سنت برادران انكى طرف جا رہے ہوتے ہيں اور اس وقت ہمارے نكلنے كے بارے ميں باتيں كر رہے ہوتے ہيں ؟

ج: اگر دوسروں كى نظر ميں يہ كام نماز كو اسكے اول وقت ميں قائم كرنے كو ہلكا سمجھنا شمار ہوتا ہو تو جائز نہيں ہے بالخصوص اگر اس ميں مذہب پر عيب لگتا ہو_

 

س 43: ايك شخص اپنے شہر پلٹنے كے بعد متوجہ ہوتا ہے كہ عمل كے دوران اس كا احرام نجس تھا تو كيا وہ احرام سے خارج ہے يا نہيں ؟

ج: اگر وہ موضوع يعنى عمل كى حالت ميں اپنے احرام ميں نجاست كے وجود سے جاہل ہو تو وہ احرام سے خارج ہے اور اس كا طواف اور حج صحيح ہے ؟

 

س 44: جس مكلف نے كسى كو نائب بنايا ہو كہ اسكى طرف سے قربانى كرے تو كيا نائب كے پلٹنے اور اسكے يہ خبر دينے سے پہلے كہ قربانى ہوچكى ہے اس كيلئے تقصير يا حلق كرنا جائز ہے ؟

ج: اس پر واجب ہے كہ انتظار كرے يہاں تك كہ نائب كى طرف سے قربانى ہوجانے كا انكشاف ہوجائے ليكن اگر حلق يا تقصير ميں جلدى كرے اور اتفاقاً يہ نائب كى طرف سے قربانى ہو جانے سے پہلے ہو تو اس كا عمل صحيح ہے اور اس پر اعادہ واجب نہيں ہے _

 

س45: جس مكلف نے اپنى طرف سے قربانى كرنے كيلئے كسى كو نائب بنايا ہوا ہے كيا اس كيلئے نائب كى طرف سے اسے ذبح كرنے كى خبر پہنچنے سے پہلے سونا جائز ہے ؟

ج: اس سے كوئي مانع نہيں ہے _

 

س46: موجودہ دور ميں منى ميں قربانى كو ذبح كرنا ممكن نہيں ہے بلكہ اس كيلئے انہوں نے منى سے باہر ليكن منى كے قريب ہى ايك جگہ معين كرركھى ہے اور دوسرى جانب سے قربانى كے جانور كہ جن كيلئے بڑى رقوم خرچ كى جاتى ہيں كہا جاتا ہے كہ ان كا گوشت وہيں پھينك ديا جاتا ہے اور وہ گل سٹر كر ضائع ہوجاتا ہے جبكہ اگر انہيں ديگر ممالك ميں ذبح كيا جائے تو ان كا گوشت ضرورت مند فقرا كو ديا جا سكتا ہے تو كيا حاجى كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنے ملك ميں قربانى كرے اور كسى كے ساتھ طے كر لے كہ وہ اسكى طرف سے قربانى كردے يا ديگر ممالك ميں اور ٹيليفون كے ذريعے قربانى كرلے يا اسے مقررہ جگہ پر ہى ذبح كرنا واجب ہے اور كيا اس مسئلہ ميں اس مرجع كى طرف رجوع كرنا جائز ہے جو اسكى اجازت ديتا ہے جيسے كے بعض بزرگ فقہاء سے يہ منقول ہے ؟

ج: يہ كام جائز نہيں ہے اور قربانى صرف منى ميں ہو سكتى ہے اور اگر يہ ممكن نہ ہو تو جہاں اس وقت قربانى كى جاتى ہے وہيں كى جائيگى تا كہ قربانى كے شعائر كى حفاظت كى جاسكے كيونكہ قربانى شعائر اللہ ميں سے ہے _

 

س 47: اگر حكومت منى كے اندر قربانى كرنے پر پابندى لگا دے تو كيا حجاج كيلئے مكہ مكرمہ سے باہر قربانى كرنا جائز ہے اور كيا مكہ كے اندر قربانى كرنا كافى ہے ؟

ج: حج كى قربانى كافى نہيں ہے مگر منى ميں ہاں اگر اس ميں قربانى كرنے پر پابندى لگ جائے تو اس كيلئے جو جگہ تيار كى گئي ہے وہاں قربانى كرنا كافى ہے جيسے كہ اس صورت ميں مكہ كے اندر قربانى كرنا بھى كافى ہے ليكن اگر قربانى كى جگہ كا منى سے فاصلہ اتنا ہى ہو جتنا اس جگہ كا ہے جو قربانى كيلئے تيار كى گئي ہے يا اس سے كم ہو_

 

48: ايسے خيراتى ادارے موجود ہيں جو حاجى كى نيابت ميں قربانى كرتے ہيں اور پھر اسے ضرورتمند فقرا كے حوالے كرديتے ہيں اس سلسلے ميں راہبر معظم كى رائے كيا ہے اور كيا جناب عالى كى نظر ميں اسكى شرائط ہيں ؟

ج: قربانى كى ان شرائط كا احراز كرنا ضرورى ہے كہ جو مناسك ميں ذكر ہوچكى ہيں _

 

س 49: كيا قربانى كو ذبح كرنے كے بعد اسے ان خيراتى اداروں كو دينا جائز ہے جو اسے فقرا تك پہنچاتے ہيں ؟

ج: اس ميں كوئي حرج نہيں ہے _

 

س 50: صفا و مروہ كے درميان سعى كرتے وقت صفا و مروہ كے پہاڑوں كے پاس لوگوں كى بڑى تعداد جمع ہوجاتى ہے جو سعى كرنے والوں كى بھيڑ كا سبب بنتى ہے تو كيا سعى كرنے والے پر واجب ہے كہ وہ ہر چكر ميں خود پہاڑ تك جائے يا سنگ مر مر سے بنى ہوئي پہلى بلندى كافى ہے كہ جو چلنے سے عاجز لوگوں كے راستے كے ختم ہونے كے ساتھ شروع ہوتى ہے ؟

ج: اس حد تك چڑھنا كافى ہے كہ جسكے ساتھ يہ صدق كرے كہ يہ پہاڑ تك پہنچا ہے اور اس نے دو پہاڑوں كے درميان كے پورے فاصلے كى سعى كى ہے _

 

س 51: كيا عمرہ مفردہ اور حج تمتع كيلئے ايك طواف النساء كافى ہے ؟

ج: عمرہ مفردہ اور حج تمتع ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء ہے پس ايك طواف دو طواف سے كافى نہيں ہے ہاں مُحل ہونے كيلئے ايك طواف كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے_

 

س 52: جو شخص بارہويں كى رات منى ميں بسر كرے اور آدھى رات كے بعد كوچ كرے تو كيا اس پر واجب ہے كہ زوال سے پہلے اسكى طرف واپس پلٹ آئے تاكہ يہ بھى وہ كوچ كرسكے جو وہاں پر موجود لوگوں كيلئے زوال كے بعد واجب ہوتا ہے اور اس بات سے كوئي مانع ہے كہ وہ صبح كے وقت منى آكر جمرات كو كنكرياں مارلے پھر مكہ پلٹ جائے يا اس پر وہيں رہنا واجب ہے ؟ بالخصوص جب وہ اپنے اختيار كے ساتھ ظہر كے بعد جمرات كو كنكرياں مارنے اور مغرب سے پہلے منى سے نكلنے پر قادر ہے_

ج : جو شخص منى ميں ہے اس پر واجب ہے كہ زوال كے بعد كوچ كرے اگرچہ اس طرح كے زوال كے بعد جمرات كو كنكرياں مارنے كيلئے مكہ سے آ جائے اور كنكرياں مارنے كے بعد غروب سے پہلے كوچ كر جائے پس آدھى رات كے بعد مكہ جانا جائز ہے ليكن كنكرياں مارنے كيلئے بارہويں كے دن پلٹ آئيگا اور زوال كے بعد كوچ كرے گا_

 

س 53: آيت اللہ گلپايگانى (قدس سرہ) كے اعمال حج كى كتاب ميں اعمال حج سے متعلقہ بہت سارے مستحبات مذكور ہيں _ ان مستحبات پر عمل كرنے كے سلسلے ميں جناب كى كيا رائے ہے؟

ج: قصد رجاء كے ساتھ ان پر عمل كرنے ميں كوئي حرج نہيں ہے_

 

س 54: كيا اس آب زمزم سے وضو كرنا جائز ہے جو پينے كيلئے مخصوص ہے_

ج: مشكل ہے اور احتياط كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

Tuesday, 19 June 2012 09:55

پرده كا فلسفه

 

 

 

تحرير : آيت الله العظمي ناصر مكارم شيرازي

 

بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔

البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟

بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟

اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے. حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔

اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت, دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔

 

فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ:

 

۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہ ہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعدد خطرناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی، یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ''کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا''

ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساسات کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟

اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔

 

۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہے کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ''ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد'' انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔

جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔

لیکن ''اس آزادی کے بازار'' میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔

 

۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا، بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرنا سورج کو چرا غ دکھانا ہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔

فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔

جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذا معاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔

تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔

 

۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر سازو سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔

اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہوس پوری کرنے کےلۓ آلہ کار میں بدل جائے گی!۔

ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟

واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ''فنکار'' اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

 

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات

 

قارئین کرام! ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:

 

۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی۔ اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔

لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ:

 

پہلی بات : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب [ایران] نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کارخانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مختصر یہ کہ موجودہ حالات خود اس اعتراض کا دندان شکن جواب ہیں، اگرچہ ہم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ''امکان'' کی باتیں کرتے تھے(یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ہیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رہے ہیں، اور فلاسفہ کا کہنا ہے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ہونا ہے، یہ بات خود آشکار ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

دوسری بات: اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ہوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نہیں ہے؟

جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نہیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اہمیت سے بے خبر ہیں، ان لوگوں کا گمان ہے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاہوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھا دیں۔

وہ لوگ اس چیز سے غافل ہیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اہمیت درہم و برہم ہو جاتی ہے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نہیں ہوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ہوگا۔

 

۲۔ پردہ کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پردہ کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نہیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ہے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رہے؟

لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ہیں کہ حجاب ہمیشہ برقع یا چادر کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ہے اگر چادر سے پردہ ہوسکتا ہو تو بہتر ہے ورنہ اگر امکان نہیں ہے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے [یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں]

ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا پردہ باقی رکھتے ہو ئے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ ایک بستی کی رہنے والی عورت اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے بہت سے اہم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

 

۳۔ ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ہوجاتا ہے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ہے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ہوتے ہیں کیونکہ

 

''الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ'') جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی طرف مزید دوڑتا ہے(

 

اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ آج کے معاشرہ کا شاہ کے زمانہ سے موازنہ کیا جائے آج ہر ادارہ میں پردہ حکم فرما ہے، اور شاہ کے زمانہ میں عورتوں کو پردہ کرنے سے روکا جاتا تھا۔

اُس زمانہ میں ہر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ہی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی، ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ہوگئی ہیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ہوئی ہے، ہمارے معاشرہ میں بہت سدھار آیا ہے اور اگر فضل خدا شامل حال رہا اور یہی حالات باقی رہے اور دوسری مشکلات برطرف ہو گئی تو ہمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ہوجائے گا اور عورت کی اہمیت اجاگر ہوتی جائے گی۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا عالمی اور خطے کے سیاسی حالات پر اسلامی جمہوریہ ایران کی تاسیس کے اثرات کو اچھی طرح درک کر سکے گی۔

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے بیروت میں امام خمینی رہ کی تئیسویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں تقریر کے دوان کہا ہے کہ امام خمینی رہ ایک عظیم مجتہد، فلاسفر، عارف اور اسلامی مفکر تھے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی تھے کیونکہ سب سے پہلے انہوں نے اس تحریک کا آغاز کیا اور لوگوں کو بیداری اور آگاہی کی دعوت دی اسکے بعد آہستہ آہستہ حوزہ علمیہ قم کے طلبہ اور انکے شاگرد آپ کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امام خمینی رہ ایک انقلابی رہنما تھے جسکے نتیجے میں انہیں دھمکیاں ملیں، انہیں گرفتار کیا گیا اور انکے گھر پر حملہ کیا گیا اور حتی انکو سزائے موت جاری کئے جانے کا بھی امکان تھا۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کی کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں امام خمینی رہ کا عظیم اور باارزش کردار اور ملک کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل انتہائی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ اگرچہ اس امکان سے واقف تھے کہ پیرس سے تہران جانے والا انکا ہوائی جہاز گرایا جا سکتا ہے لیکن وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہوئے اور انتہائی شجاعت سے انقلاب اسلامی ایران کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا والے عالمی سیاسی حالات پر حضرت امام خمینی رہ کی سربراہی میں کامیاب ہونے والے انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کو اچھی طرح درک کر سکیں گے اور ان کیلئے اسلامی بیداری کی تحریک میں امام خمینی رہ کا کردار مزید واضح ہو جائے گا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے امام خمینی رہ کی بعض ذاتی خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چیزوں کو نابود کرنا انہیں تعمیر کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے، بہت سی قوتیں ایسی ہیں جو نابودی پھیلانے میں تو بہت پھرتی کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن جب تعمیر و ترقی کی باری آتی ہے تو ان سے کچھ بن نہیں پڑتا، تعمیر و ترقی کا مرحلہ انتہائی اہم اور حساس مرحلہ ہے اور آج جن عرب ممالک میں انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے وہ اسی مرحلے سے دچار ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حضرت امام خمینی رہ نے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے عوام کے اندر دینی جذبہ پیدا کیا۔

امام خمینی رہ نے مسئلہ فلسطین کو زندہ کر دیا

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امام خمینی رہ نے ابتدا سے ہی مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کو بہت اہمیت دی اور پیش آنے والی مشکلات انکے اس موقف کو ذرہ بھر تبدیل نہیں کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ نے اتحاد بین المسلمین اور مستصعفین کی حمایت میں بہت کام کیا اور اس سلسلے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ یہ ان کیلئے ایک اعتقادی مسئلہ تھا اور کوئی بھی دوسرا شخص انکی جگہ ہوتا جس کیلئے اپنے ذاتی مفادات اہم ہوتے تو وہ مغربی دنیا کے آگے سر تسلیم خم کر لیتا جیسا کہ ترکی کے رہنما کمال اتاترک نے کیا۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امام خمینی رہ کی شخصیت عوام کے اندر انتہائی محبوبیت اور مقبولیت کی حامل تھی لہذا جب انہوں نے اندرونی آمریت اور بیرونی استعمار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو عوام کا سمندر انکی اس آواز پر لبیک کہنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ اقتدار کے پیاسے نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ کر دیں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے ایران کے عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور مغربی دنیا نے کھل کر صدام حسین کی حمایت کی، اس جنگ میں ساری دنیا صدام حسین کی حمایت میں مصروف تھی اور بہت کم ممالک ایسے تھے جو امام خمینی رہ کے حامی تھے جن میں سے ایک ملک شام تھا۔

Tuesday, 19 June 2012 09:51

صفات خدا

صفات ذاتی و صفات فعلی

صفات خدا سے متعلق مختلف تقسیمات بیان کی گئیں ھیں جن میں سے اھم ترین صفات ذاتی (یعنی توحید ذات) اور صفات فعلی (توحید فعلی) ھیں۔

صفات ذاتی

صفات ذاتی سے مراد یہ ھے کہ خدا کی ذات کے ماوراء کسی شےٴ کا تصور کئے بغیران صفات کو خدا سے متصف کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، ان صفات کو خدا سے متصف یا مرتبط کرنے کے لئے صرف خدا کی ذات ھی کافی ھے یعنی کسی خارجی امر کو مدنظر رکھنے یا ذات خدا کا ان سے تقابل کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ حیات و قدرت جیسی صفات اس زمرے میں آتی ھیں۔ اگر اس کائنات اور عالم ھستی میں ذات خدا کے ماسوا کوئی بھی موجود نہ ھو یعنی فقط اور فقط خدا تنھا ھو تو بھی خدا کو حی اور قادر کھا جاسکتا ھے۔

صفات فعلی

صفات ذاتی کے بالمقابل، صفات فعلی ھیں کہ جب تک خدا کی ذات سے خارج کسی امر یا شیء کو مدنظر نہ رکھا جائے، ان صفات کو خدا کی ذات کے ساتھ نھیں جوڑا جا سکتا۔ لھٰذا صفات فعلی وہ صفات ھیں کہ جن کے اتصاف کے لئے ذات خدا کے علاوہ کوئی شیٴ ھو تاکہ اس کی ذات سے اس شیٴ کا رابطہ قائم کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھی موجود کائنات میں وجود نہ رکھتا ھو تو خدا کو خالق نھیں کھا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی بھی مخلوق پر تکالیف واحکام الٰھی کی انجام دھی واجب نہ ھو تو خدا کوشارع نیز اگر کوئی بھی بندہ معصیت ونافرمانی خدا انجام نہ دے تو خدا کو غفور بھی نھیں کھا جاسکتا۔

یھیں سے یہ بات بھی واضح ھو جاتی ھے کہ خالق، شارع اور غفور جیسی صفات، صفات فعلی میں شمار کی جاتی ھیں۔ صفات فعلی وذاتی میں اھم ترین امتیاز وفرق مندرجہ ذیل ھیں:

(۱) صفات فعلی وہ صفات ھیں جو ذات سے صادر ھونے والے فعل کو مدنظر رکھتے ھوئے اس کے ساتھ تقابل کے ذریعہ ذات سے متصف ھوتی ھیں یعنی یہ صفات فعل خدا سے انتزاع اور اخذ کی جاتی ھیں جب کہ صفات ذاتی فقط اور فقط دائرہٴ ذات کے ذریعہ ھی اخذ کی جاسکتی ھیں۔

(۲) صفات فعلی قابل نفی و اثبات ھیں ،اس معنی میں کہ بعض شرائط میں ان کی نفی کی جاسکتی ھے اور بعض میں اثبات۔ دوسرے الفاظ میں ،ان میں سے ذات خدا سے ھر صفت کی نفی یا اثبات ممکن ھے مثلاً خدا زمین کو خلق کرنے سے قبل ”خالق زمین“ نھیں تھا لیکن خلقت زمین کے بعد کھا جاسکتا ھے کہ ”خدا خالق زمین ھے۔“

اسی طرح بعثت رسول اکرم سے پھلے خدا قرآن کا نازل کرنے والا نھیں تھا لیکن بعثت کے بعد ”منزِّل قرآن“ ھوگیا۔

اس کے برخلاف ، صفات ذاتی ھمیشہ اور تمام شرائط و اوقات میں ذات اقدس خدا سے پیوستہ اور آمیختہ ھیں یعنی کسی بھی صورت میں خدا کی ذات سے ان کو خارج نھیں کیا جاسکتا نیز خدا از ازل تا ابد ان صفات کا حامل و و اجدرھے گا۔

Tuesday, 19 June 2012 09:50

حکمت اور عدل

حکمت

خدا حکيم ھے اوراس کے تمام افعال وامور حکيمانہ ھيں- حکمت کے دو معني ھيں اور دونوں ھي معني صفات ثبوتي خدا کے زمرے ميں آتے ھيں:

(1) فاعل کے فعل ميںاستحکام وپائداري، اس طرح کہ فعل اپنے نھايت کمال کے درجے پرفائز ھو اور اس ميں کسي بھي طرح کا نقص يا عيب نہ پايا جاتا ھو-

(2) فاعل ايسا ھو کہ اس کي ذات سے کسي بھي طرح کا کوئي غلط يا غير پسنديدہ (قبيح) فعل سرزد نہ ھو اور اس کا ھر فعل شايستہ اورعمدہ وپسنديدہ (حسن) ھو-

فخر رازي اس سلسلہ ميں فرماتے ھيں:

”في الحکيم وجوہ: الاول: انہ فعيل بمعني مفعل، کاليم بمعني مؤلم ومعني الاحکام في حق اللہ تعاليٰ في خلق الاشياء ھو اتقان التدبير فيھا وحسن التقدير لھا الثاني انہ عبارة عن کونہ مقدساً عن فعل مالا ينبغي“ - (1(

حکيم کي اصل اِحکام ھے اور اس عبارت ميں اِحکام کے دو معني ذکر کئے گئے ھيں ايک اتفاق تدبير اور حسن تقدير اور دوسرے نا مناسب فعل کا انجام نہ دينا-

حکمت ، پھلے معني ميں

خدا کيونکہ تمام کمالات کا حامل ھے اور اس کا علم وقدرت بے حد ولامتناھي ھے، وہ ھر شئے کا علم رکھتا ھے اور ھر شئے پر قدرت رکھتا ھے، کسي بھي شئے يا ذات کا محتاج نھيں ھے لھٰذا قطعاً اس کا ھر قعل بھي کامل ترين، مستحکم ترين اور پايدار ترين فعل کي صورت اختيار کرليتا ھے- پس وہ ”‌احسن الخالقين“ ھے-

) اتدعون بعلاً وتذرون احسن الخالقين -اللهربکم ورب آبائکم الاولين) يعني کيا تم لوگ بعل کو آواز ديتے ھو اور بھترين خلق کرنے کو چھوڑ ديتے ھو- جب کہ وہ الله تمھارا اور تمھارے باپ داداکا پالنے والا ھے- (2(

)خالق، صفت فعل ھے لھٰذا خدا اس صورت ميں احسن الخالقين ھے کہ جب اس کا فعل بھي احسن الافعال ھو اور اسي لئے يہ آيت خلقت خدا کے بھترين خلقت ھونے پر دلالت کرتي ھے-(

حکمت، دوسرے معني ميں

دوسرے معني کي بنياد اس حقيقت کے قبول کرنے پر موقوف ھے کہ بيان شارع (خدا) سے قطع نظر، بعض افعال حَسَن اور بعض قبيح (غير پسنديدہ) ھوتے ھيں اور يہ کہ عقل بھت سے موارد اور مواقع پر يہ فيصلہ کرليتي ھے کہ کونسا فعل حسن اور کونسا قبيح ( غير پسنديدہ) ھے مثلاً صداقت، امانت داري ، کسي محتاج کي مدد کرنا و غيرہ عقل کے نزديک پسنديدہ اور ان کے مقابلے ميں کذب يا دروغ گوئي ، امانت ميں خيانت ، ظلم و ستم و غيرہ غير پسنديدہ اور قبيح ھيں-

اس اصل اور کليہ کو حسن و قبح عقلي کھا جاتاھے-

متکلمين اھل سنت کي اکثریت کہ جس کو اشاعرہ کھا جاتا ھے ، اس مذکورہ اصل و کليہ کي مخالف و منکر ھے- جس کي وجہ سے هے لوگ عدل کو صفات خدا سے خارج کردیتے ھيں - ان کے مقابلہ ميں اھل سنت ھي کا ايک دوسرا گروہ کہ جس کو معتزلہ کھا جاتا ھے اور عام طور پر تمام شیعہ متکلمين حسن و قبح عقلي کے قائل ھيں- ان کا نظریہ و عقیدہ هے کہ بشمول عدل خدا فقط فعل حسن کو ھي انجام دیتا ھے اور بشمول ظلم فعل قبيح کا مرتکب نھيں ھوتا-

اسي وجہ کے متکلمين کا هے گروہ ”‌عدليہ“ کھلاتا ھے-

اس کے لئے کے قائل ھونے کے بعد ھم کهہ سکتے ھيں: خدا وند عالم، غني مطلق ھے اور کسي غير کا ذرہ برابر محتاج نھيں ھے نيز عالم و قادر بھي مطلق ھے- ا فعال حسن و عمدہ اور پسنديدہ کا علم رکھتا ھے اور ان کي انجام دھي پر قادر ھے نيز کارھائے قبيح کا بھي علم رکھتا ھے اور ترک کرنے پر بھي قادر ھے- مذکورہ صفت کا حامل موجود يا ذات کسي بھي صورت ميں فعل قبيح انجام نھيں دے سکتي اور اسي طرح کسي بھي صورت ميں فعل حسن کو ترک بھي نھيں کرسکتي-

عدل

خداوند عالم عادل ھے اور ھرگز ظلم نھيں کرتا ھے -لھٰذا عدل اس کي صفات ثبوتي اور ظلم اس کي صفات سلبي ميں سے ھے-

عدل سے مراد، ھر شئي کو اس کے مقام پر قرار دينا ھوتاھے: وضع کل شي في موضعہ ، جيسا کہ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ھيں:

”العدل يضع الامور مواضعھا“

عدالت، امور کو ان کے مقام پر قرار ديتي ھے- (3(

البتہ کبھي کبھي يہ بھي کھا جاتا ھے کہ عدل يعني ھر صاحب حق کو اس کا حق دے ديا جائے”‌ اعطاء کل ذي حق حقاً“ يہ معني مذکورہ پھلے والے معني سے اخص او رمحدود تر اور اس کا مصداق ھے يعني صاحب حق کو اس کا حق دينا ، کسي شئے کو اس کے صحيح مقام پر قرار دئے جانے والے موارد ميں سے ايک مورد ھے-

عقلي حکم کي بنياد پرعدل ايک فعل حسن اور پسنديدہ اور ظلم فعل قبيح شمار کيا جاتا ھے- خدا چونکہ حکيم ھے اور ھر اچھے فعل کو انجام ديتا ھے نيزھر برے فعل سے اجتناب کرتا ھے لھٰذا وہ عادل ھے اور ظلم نھيں کرتا-

مذکورہ بيان سے واضح ھوجاتا ھے کہ عدل الٰھي ، جنبہ حکمت الٰھي سے مربوط ھے-

قرآني مثاليں :

قرآن مجيد کي مختلف آيتوں ميں خدا پر اسم حکيم کا اطلاق ھوا ھے:

)فاعلموا ان الله عزيز حکيم(

ياد رکھو کہ خدا سب پر غالب ھے اور صاحب حکمت ھے-(4(

قرآن فرماتاھے:

خداوند عالم ھر شئي کو اس کے بھترين مرتبے پر خلق فرماتاھے:

)الذي احسن کل شي خلقہ(

اس نے ھر چيز کو حسن کے ساتھ بنايا ھے-(5(

اس کي خلقت ميں بے ترتيبي ، فرق يا شگاف نھيں پايا جاتا:

)ماتريٰ في خلق الرحمٰن من تفاوت فارجع البصر ھل تري من فطور (

تم رحمن کي خلقت ميں کسي طرح کا فرق نہ ديکھو گے- پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر ديکھو کھيں کوئي شگاف نظر آتا ھے-(6(

خلقت خدا، ھرگز عبث ،بيکار اور باطل نھيں ھے:

)افحسبتم انما خلقناکم عبثاً(

کيا تمھارا خيال يہ تھا کہ ھم نے تمھيں بيکار پيدا کيا ھے؟(7(

)وما خلقنا السماء والارض وما بينھما باطلاً(

اورھم نے آسمان وزمين اوراس کے درميان کي مخلوقات کوبيکار پيدانھيں کياھے-( 8(

خدا کسي پر ظلم نھيں کرتا ھے بلکہ يہ خوداحسان فراموش انسان ھے جو اپنے آپ پر ظلم کرتاھے:

)وما ظلمنا ھم ولکن کانوا انفسھم يظلمون(

اور يہ ھم نے ظلم نھيں کيا ھے بلکہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے-(9(

خدا کي شان يہ نھيں ھے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کو روا رکھے-:

)وان الله ليس بظلام للعبيد(

اور خدا اپنے بندوں پر ظلم نھيں کرتا-(10(

خدا نہ فقط انسان بلکہ اس کائنات کے کسي بھي موجود پر ظلم نھيں کرتا:

)وما الله يريدظلماً للعالمين(

اورالله عالمين کے بارے ميں ھرگز ظلم نھيں چاھتا- (11(

حوالہ جات:

1- شرح الاسماء الحسنيٰ، منشورات مکتبة الکلية الازھرية ، ص/279؛ الالھيات علي الکتاب والسنۃ والعقل ج،1،ص 225

2- صافات: 125، 126-

3-نھج البلاغہ:کلمات قصار-437

4-بقرہ:209؛نيز بقرہ:228 ،آل عمران :18، انعام: 18

5-سجدہ:7

6-ملک:3

7-مومنون:115

8-ص:27

9-نحل:118، نيزھود:101، زخرف : 76

10-آل عمران:182، نيز انفال:51، حج: 10، فصلت:46، ق:29

11-آل عمران:108

سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی۔ کعبۃ اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے زمین پر عبادت کی تھی۔ اسی جگہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ کئی روایات کے مطابق یہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے پہل نمازیں ادا کیں اگرچہ وہاں کعبہ میں اس وقت بت موجود تھے

اهميت

دنیا بھر کےمسلمان دن میں 5 مرتبہ مسجد حرام میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکےنماز ادا کرتےہیں جبکہ یہ دنیا کا واحد مقام ہےجس کا حج کیا جاتا ہے۔ یہ زمین پر قائم ہونےوالی پہلی مسجد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوذر رضی اللہ

تعالی عنہ سےحدیث مروی ہےکہ : ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ میں نےرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلےکونسی مسجد بنائی گئی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : مسجدحرام ، میں نےکہا کہ اس کے بعد کونسی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : مسجداقصیٰ ، میں نےنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سےسوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : چالیس برس

Tuesday, 19 June 2012 09:12

بابری مسجد

بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 16 ویں صدی میں ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تعمیر کرائی۔ یہ مسجد رام کوٹ پہاڑی پر تعمیر کی گئی۔

 

بابری مسجد بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مسجد میں سے ایک تھی۔

1528ء کے لگ بھگ انتہا پسند ہندوؤں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسجد رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔ 1949 میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کو شہید کردیا۔ جس کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

 

1528: ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیر جو ہندوؤں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔

1853: ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات۔

1859: برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔

1949: مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت۔ حکومت نے متنازعہ مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔

1984: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانےکے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔

1986: ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازعہ مقام پر پوجا کی اجازت۔ مسلمانوں کا جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔

1989: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔

1990: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش۔

1991: ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام۔

1992: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت۔ ہندو مسلم فسادات، تین ہزار افراد ہلاک۔

2001: انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا عزمِ نو۔

جنوری 2002: وزیرِاعظم واجپائی کے دفتر میں ’ایودھیا سیل‘ کا قیام۔

فروری 2002: بی جے پی کی جانب سے انتخابی منشور میں سے رام مندر کی تعمیر کی شق خارج۔ ایودھیا سے واپس آنیوالے ہندوؤں کی ٹرین پر حملہ 58 ہلاک۔ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کےآغاز کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ کا اعلان۔

مارچ2002: گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک۔

اپریل 2002: ایودھیا کے متنازعہ مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغاز۔

جنوری 2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازعہ مقام کےجائزہ کا آغاز۔

اگست2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔

ستمبر 2003:عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔

اکتوبر 2003: مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔

دسمبر 2003: انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔ پانچ افراد ہلاک۔

جولائی 2004: شیوسینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازعہ مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز۔

اکتوبر2004: لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ۔

نومبر 2004: الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس۔

Tuesday, 19 June 2012 04:54

منى ميں رات گزارنا

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(

يہ حج كے واجبات ميں سے بارہواں اور منى كے اعمال ميں سے چوتھا ہے _

مسئلہ 372_ واجب ہے كہ گيارہويں اور بارہويں كى رات منى ميں گزارے پس اگر دو طواف، انكى نماز اور سعى كو بجا لانے كيلئے عيد كے دن مكہ معظمہ چلا گيا ہو تو اس پر منى ميں رات گزارنے كيلئے لوٹنا واجب ہے _

مسئلہ 373_ مندرجہ ذيل گروہ مذكورہ راتوں كومنى ميں بسر كرنے كے وجوب سے مستثنے ہيں _

الف: بيمار اور انكى تيماردارى كرنے والے بلكہ ہر صاحب عذر شخص كہ جس كيلئے اس عذر كے ہوتے ہوئے منى ميں رات گزار ناشاق ہو _

ب: جس شخص كو مكہ ميں اپنے قابل اعتنا مال كے ضائع يا چورى ہو جانے كا خوف ہو _

ج: جو شخص مكہ ميں فجر تك عبادت ميں مشغول رہے اور صرف ضرورت كى خاطر غير عبادت ميں مشغول ہوا ہو جيسے ضرورت كے مطابق كھانا پينا يا دوبارہ وضو كرنا_

مسئلہ 374_ منى ميں رات بسر كرنا عبادت ہے كہ جس ميں گذشتہ تمام شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے _

مسئلہ 375_ رات كوغروب سے آدھى رات تك رہنا كافى ہے اور جس شخص نے بغير عذر كے رات كا پہلا آدھا حصہ منى ميں نہ گزارا ہو اس كيلئے احوط وجوبى يہ ہے كہ رات كا دوسرا نصف وہاں گزارے اگرچہ بعيد نہيں ہے كہ اختيارى صورت ميں بھى رات كے دوسرے نصف كا وہاں گزارنا كافى ہو _

مسئلہ 376_ جو شخص مكہ مكرمہ ميں عبادت ميں مشغول نہ رہا ہو اورمنى ميں رات گزارنے والے واجب كام كو بھى ترك كر دے تو اس پر ہر رات كے بدلے ايك بكرى كفارہ ميں دينا واجب ہے اور احوط كى بنا پر اس ميں فرق نہيں ہے كہ عذر ركھتا ہو يا نہ ، جاہل ہو يا نسيان كا شكار يا ان كا غير _

مسئلہ 377_ جس شخص كيلئے بارہويں كے دن كوچ كرنا جائز ہو اور منى ميں ہو تو اس پر واجب ہے كہ زوال كے بعد كوچ كرے اور زوال سے پہلے كوچ كرنا جائز نہيں ہے _

Tuesday, 19 June 2012 04:52

مكہ مكرمہ كے اعمال

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)

مكہ معظمہ ميں پانچ اعمال واجب ہيں طواف حج ( اسے طواف زيارت كہا جاتا ہے ) نماز طواف ،صفا و مروہ كے درميان سعى ، طواف النساء اور نماز طواف۔

مسئلہ 362_ عيد والے دن كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد جائز بلكہ مستحب ہے كہ حج كے باقى اعمال ، دو طواف انكى نمازيں اور سعى كو انجام دينے كيلئے اسى دن مكہ معظمہ كى طرف لوٹ جائے اور اسے ايام تشريق كے آخر تك بلكہ ماہ ذى الحج كے آخر تك مؤخر كرنا بھى جائز ہے _

مسئلہ 363_ طواف ، نماز طواف اور سعى كى كيفيت وہى ہے جو عمرہ كے طواف اسكى نماز اور سعى كى ہے بغير كسى فرق كے مگر نيت ميں پس يہاں پر ان كے ذريعے حج كو انجام دينے كى نيت كريگا _

مسئلہ 364_ اختيارى صورت ميںمذكورہ اعمال كو وقوف بالعرفات، وقوف بالمشعر اور منى كے اعمال پر مقدم كرنا جائز نہيں ہے ہاں بعض گروہوں كيلئے انكا مقدم كرنا جائز ہے _

اول: خواتين جب انہيں مكہ معظمہ كى طرف لوٹنے كے بعد حيض يا نفاس آنے كا خوف ہو اور پاك ہونے تك ٹھہرنے پر بھى قادر نہ ہوں _

دوم : وہ مرد اورعورتيں جو مكہ پلٹنے كے بعد بھيڑ كى كثرت كى وجہ سے طواف كرنے سے عاجز ہوں يا وہ جو مكہ لوٹنے سے ہى عاجز ہيں_

سوم: وہ بيمار لوگ كہ جو مكہ معظمہ لوٹنے كے بعد بھيڑ كى شدت يا بھيڑ كے خوف سے طواف كرنے سے عاجز ہوں _

مسئلہ 365_ اگر مذكورہ تين گروہوں ميں سے كوئي شخص دو طواف ،انكى نماز اور سعى كو مقدم كر دے پھر عذر بر طرف ہو جائے تو اس پر واجب نہيں ہے كہ ان كا اعادہ كرے اگرچہ اعادہ كرنا احوط ہے _

مسئلہ 366_ جو شخص كسى عذر كى وجہ سے مكہ كے اعمال كو مقدم كرے جيسے مذكورہ تين گروہ تو اس كيلئے خوشبو اور عورتيں حلال نہيں ہوں گى بلكہ اس كيلئے سب محرمات تقصير يا حلق كے بعد حلال ہوں گے _

مسئلہ 367_ طواف النساء اور اسكى نماز دونوں واجب ہيں ليكن ركن نہيں ہيں پس اگر انہيں جان بوجھ كر ترك كردے تو حج باطل نہيں ہو گا ليكن اس كيلئے عورتيں حلال نہيں ہوں گى _

مسئلہ 368_ طواف النساء مردوں كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ خواتين اور غير خواتين پر بھى واجب ہے پس اگر اسے مرد ترك كر دے تو اسكے لئے عورتيں حلال نہيں ہوں گى اور اگر عورت ترك كردے تواس كيلئے مر د حلال نہيں ہوں گے _

مسئلہ 369_ اختيارى صورت ميں سعى كو طواف حج اور اسكى نماز پر مقدم كرنا جائز نہيں ہے اور نہ طواف النساء كوان دونوں پر اور نہ سعى پر پس اگر ترتيب كى مخالفت كرے تو اعادہ كرے _

مسئلہ 370_ اگر بھول كر طواف النساء كو ترك كر دے اور اپنے شہر ميں پلٹ آئے تو اگر بغير مشقت كے لوٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے ورنہ نائب بنائے اوراس كيلئے عورتيں حلال نہيں ہوں گى مگر خود اس كے يا اس كے نائب كے طواف بجا لانے كے ساتھ اوراگر اسے جان بوجھ كر ترك كرے توبھى يہى حكم ہے _

مسئلہ 371_ احرام حج كے ساتھ وہ سب چيزيں حرام ہو جاتى ہيں جو عمرہ كے احرام كے محرمات ميں گزر چكى ہيں اور پھر بالتدريج اور تين مرحلوں ميں حلال ہوں گى _

اول: حلق يا تقصير كے بعد ہر چيز حلال ہو جاتى ہے سوائے عورتوں اور خوشبو كے حتى كہ شكار بھى حلال ہو جاتا ہے اگرچہ يہ حرم ميں ہونے كى وجہ سے حرام ہوتا ہے

دوم: سعى كے بعد خوشبو حلال ہوجاتى ہے _

سوم: طواف النساء اور اسكى نماز كے بعد عورتيں حلال ہوجاتى ہيں _

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(

يہ حج كے واجبات ميں سے تيسرا ہے اور اس سے مراد غروب كے وقت عرفات سے مشعر الحرام كى طرف كوچ كرنے كے بعد اس مشہور جگہ ميں ٹھہرنا ہے_

مسئلہ 334_ وقوف بالمشعر عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ 335_ واجب وقوف كا وقت دس ذى الحج كو طلوع فجر سے طلوع آفتاب تك ہے اور احوط يہ ہے كہ عرفات سے كوچ كرنے كے بعد رات كو وہاں پہنچ كر وقوف كى نيت كے ساتھ وہاں وقوف كرے _

مسئلہ 336_ مشعر ميں طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك باقى رہنا واجب ہے ليكن ركن اتنى مقدار ہے جسے وقوف كہا جائے اگرچہ يہ ايك يا دو منٹ ہو _اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو جان بوجھ كر ترك كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ فعل احرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اگر اپنے اختيار كے ساتھ اتنى مقدار وقوف كو بھى ترك كردے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ 337_ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،كمزوروں اور صاحبان عذر_ جيسے خوف يا بيماري_ كيلئے اتنى مقدار وقوف كرنے كے بعد كہ جس پر وقوف صدق كرتا ہے عيد كى رات مشعر سے منى كى طرف كوچ كرنا جائز ہے اسى طرح وہ لوگ جو ان كے ہمراہ كوچ كرتے ہيں اور انكى احوال پرسى كرتے ہيں جيسے خدام اور تيمار دارى كرنے والے _

تنبيہ : وقوفين ميں سے ايك يا دونوں كو درك كرنے كے اعتبار سے اور اختياراً يا اضطراراً جان بوجھ كر، لاعلمى سے يا بھول كر فرداً يا تركيباً بہت سارى تقسيمات ہيں كہ جو مفصل كتابوں ميں مذكور ہيں_