Super User
قربانى كرنا
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
يہ حج كے واجبات ميں سے پانچواں اورمنى كے اعمال ميں سے دوسرا عمل ہے
مسئلہ 343_ حج تمتع كرنے والے پر قربانى كرنا واجب ہے اور قربانى تين جانوروں ميں سے ايك ہوگى اونٹ ، گائے اور بھيڑ بكرى اور ان جانوروں ميں مذكر اور مونث كے درميان فرق نہيں ہے اور اونٹ افضل ہے اور مذكورہ جانوروں كے علاوہ ديگر حيوانات كافى نہيں ہيں_
مسئلہ 344_ قربانى ايك عبادت ہے كہ جس ميں ان تمام شرائط كے ساتھ نيت شرط ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزر چكى ہيں_
مسئلہ 345_ قربانى ميں چند چيزيں شرط ہيں :
اول: سن: اونٹ ميں معتبر ہے كہ وہ چھٹے سال ميں داخل ہو اور گائے ميں معتبر ہے كہ وہ تيسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بنا پر_ اور بكرى گائے كى طرح ہے ليكن بھيڑ ميں معتبر ہے كہ وہ دوسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بنا پر _مذكورہ حد بندى چھوٹا ہونے كى جہت سے ہے پس اس سے كمتر كافى نہيں ہے ليكن بڑا ہونے كى جہت سے تو مذكورہ حيوانات ميں سے بڑى عمر والا بھى كافى ہے _
دوم : صحيح و سالم ہونا
سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو
چہارم: يہ كہ اسكے اعضا پورے ہوں پس ناقص كافى نہيں ہے جيسے خصى اور يہ وہ ہے كہ جسكے بيضے نكال ديئےجائيں ہاں جسكے بيضے كوٹ ديئے جائيں وہ كافى ہے مگر يہ كہ خصى كى حد كو پہنچ جائے _ اور دم كٹا ، كانا ، لنگڑا ، كان كٹا اور جس كا اندر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى نہيں ہے _ اسى طرح اگر پيدائشى طور پر ايسا ہو تو بھى كافى نہيں ہے پس وہ حيوان كافى نہيں ہے كہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف كے جانوروں ميں عام طور پر ہوتا ہے اس طرح كے اسے اس ميں نقص شمار كيا جائے _
ہاں جس كا باہر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى ہے ( باہر كا سينگ اندر والے سينگ كے غلاف كے طور پر ہوتا ہے ) اور جسكا كان پھٹا ہوا ہو يا اسكے كان ميں سوراخ ہو اس ميں كوئي حرج نہيں ہے _
مسئلہ 346_ اگر ايك جانور كو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح كرے پھر اس كے مريض يا ناقص ہونے كا انكشاف ہو تو قدرت كى صورت ميں دوسرى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے _
مسئلہ 347_ احوط يہ ہے كہ قربانى جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مؤخر ہو _
مسئلہ 348_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اپنے اختيار كے ساتھ قربانى كو روز عيد سے مؤخر نہ كرے پس اگر جان بوجھ كر ، بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے كسى عذر كى خاطر يا بغير عذر كے مؤخر كرے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اگر ممكن ہو اسے ايام تشريق ميں ذبح كرے ورنہ ذى الحج كے ديگر دنوں ميں ذبح كرے اور اس ميں رات اور دن كے درميان فرق نہيں ہے ظاہر كى بنا پر _
مسئلہ 349_ ذبح كرنے كى جگہ منى ہے پس اگر منى ميں ذبح كرنا ممنوع ہو تو اس وقت ذبح كرنے كيلئے جو جگہ تيار كى گئي ہے اس ميں ذبح كرنا كافى ہے _
مسئلہ 350_ احوط وجوبى يہ ہے كہ ذبح كرنے والا مؤمن ہو ہاں اگر واجب كى نيت خود كرے اور نائب كو صرف رگيں كاٹنے كيلئے وكيل بنائے تو ايمان كى شرط كا نہ ہونا بعيد نہيں ہے _
مسئلہ 351_ شرط ہے كہ خود ذبح كرے يا اس كى طرف سے وكيل ذبح كرے ليكن اگر كوئي اور شخص اس كى طرف سے ذبح كرے بغير اس كے كہ اس نے پہلے سے اسے وكيل بنايا ہو تو يہ محل اشكال ہے پس احوط يہ ہے كہ يہ كافى نہيں ہے _
مسئلہ 352_ ذبح كرنے كے آلے ميں شرط ہے كہ وہ لوہے كا ہو اور سٹيل ( يہ فولاد ہوتا ہے كہ جسے ايك ايسے مادہ كے ساتھ ملايا جاتا ہے جسے زنگ نہيں لگتا ) لوہے كے حكم ميں ہے _
ليكن اگر شك ہو كہ يہ آلہ لوہے كا ہے يا نہيں تو جب تك معلوم نہ ہو كہ يہ لوہے كا ہے اسكے ساتھ ذبح كرنا كافى نہيں ہے _
عرفات ميں وقوف كرنا
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جس كى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسط سے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_
مسئلہ 328_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_
مسئلہ 329_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_
مسئلہ 330_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى (نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہرين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جا سكے_
مسئلہ 331_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميں سے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہو جاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كر دے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كر دے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كر دے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _
مسئلہ 332_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اور ايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگرچہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _
مسئلہ 333_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گار ہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _
طواف اور نماز طواف كے بارے ميں
طواف:
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
يہ عمرہ كا دوسرا واجب عمل ہے پس عمرہ كا احرام باندھ كر عمرہ كے باقى اعمال بجا لانے كيلئے مكہ معظمہ كى طرف جائے اور پہلا عمل جو انجام دے گا وہ خانہ كعبہ كے اردگرد سات چكر لگا كر اس كا طواف ہے _
طواف كے بارے ميں بحث ايك تو اسكى شرائط كے بارے ميں ہے اور دوسرى اسكے واجبات كے بارے ميں _
طواف كى شرائط
طواف ميں چند چيزيں شرط ہيں_
اول : نيت
دوم: حدث سے پاك ہونا
سوم : خبث سے پاك ہونا
چہارم : مردوں كيلئے ختنہ
پنجم: شرمگاہ كو چھپانا
ششم: موالات
پہلى شرط نيت
يعنى عمرہ يا حج كے طواف كو قربةً الى اللہ بجا لانے كا قصد كرے پس اس قصد كے بغير ۔ اگرچہ بعض چكروں ميں طواف كافى نہيں ہے_
مسئلہ 239_ نيت ميں قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص شرط ہے پس عمل كو بجا لائے گا اللہ تعالى كے حكم كى اطاعت كرنے كيلئے لذا اگر رياء كيلئے انجام دے تو نافرمانى كا مرتكب ہوگا اور اس كا عمل باطل ہے۔
مسئلہ 240۔ نيت ميں اس بات كى تعيين كرنا شرط ہے كہ يہ عمرہ مفردہ كا طواف ہے يا عمرہ تمتع كا ياحج كا ،پھر آيا حجة الاسلام كا طواف ہے يا حج استحبابى كا يا نذر والے حج كا ، اور اگر حج ميں نائب ہو تو اس كا بھى قصد كرے_
مسئلہ 241_ نيت كو بولنا يا اسے دل سے گزارنا واجب نہيں ہے بلكہ عمرہ كے طواف كو اللہ تعالى اور اسكے حكم كى اطاعت كرنے كيلئے بجا لانا كافى ہے اور طواف كى حالت ميں ذكر ، خشوع، حضور قلب اور اس سلسلے ميں وارد ہونے والى دعاؤں كو پڑھنے كى تسلسل كے ساتھ پابندى كرنى چاہيے_
دوسرى شرط : حدث اكبر اور اصغر سے پاك ہونا
مسئلہ 242_ واجب طواف كى حالت ميں جنابت، حيض اور نفاس سے پاك ہونا واجب ہے اور طواف كيلئے وضو بھى واجب ہے_
وضاحت : واجب طواف وہ طواف ہے جو عمرہ اور حج كے اعمال كا جز ہوتا ہے اسى لئے مستحب حج و عمرہ ميں بھى طواف كو واجب شمار كيا جاتا ہے _
مسئلہ 243_ اگر حدث اكبر يا اصغر والا شخص طواف كرے تو اس كا طواف صحيح نہيں ہے اگرچہ وہ جاہل ہو يا اس نے بھول كر ايسا كيا ہو بلكہ اس پر طواف اور اس كى نماز كا تدارك كرنا واجب ہے حتى كہ اگر طہارت كے نہ ہونے كى طرف التفات عمرہ يا حج كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد ہو _
مسئلہ 244_ مستحب طواف ميں وضو شرط نہيں ہے ليكن احوط كى بنا پر جنابت، حيض يا نفاس كى حالت ميں طواف حكم وضعى كے اعتبار سے صحيح نہيں ہے اور اسكے ساتھ ساتھ حكم تكليفى كے اعتبار سے جنب، حيض يا نفاس كى حالت ميں مسجدالحرام ميں داخل ہونا حرام ہے _
وضاحت: طواف مستحب وہ طواف ہوتا ہے كہ جو عمرہ اور حج كے اعمال سے مستقل اور عليحدہ ہوتا ہے چاہے اپنى طرف سے طواف كرے يا كسى كى نيابت ميں اور يہ كام ان كاموں ميں سے ايك ہے جو مكہ ميں مستحب ہيں پس انسان كيلئے جس قدر طواف كرنا ممكن ہو اچھا ہے اور اجر و ثواب كا موجب ہے _
مسئلہ 245_ اگر محرم اپنے طواف كے دوران ميں حدث اصغر ميں مبتلا ہو جائے تو اسكى چند صورتيں ہيں
1_ يہ كہ حدث چوتھے چكر كے نصف تك پہنچنے سے پہلے عارض ہو (يعنى خانہ كعبہ كے تيسرے ركن كے بالمقابل پہنچنے سے پہلے) تو اس طواف كو منقطع كر دے اور طہارت كے بعد طواف كا اعادہ كرے۔
2_ يہ كہ حدث چوتھے چكر كے نصف كے بعد ليكن اسے مكمل كرنے سے پہلے عارض ہو تو طواف كو منقطع كرے اور طہارت كے بعد طواف كو وہيں سے جارى ركھے البتہ اگر اس سے موالات عرفى ميں خلل وارد نہ ہوتا ہو ورنہ تمام و اتمام كے قصد كے ساتھ اس كااعادہ كرے (يعنى اس نيت كے ساتھ سات چكر لگائے كہ اگر پچھلے چكر صحيح ہيں تو اس كے باقى چكر كى كمى ان ميں سے پورى ہوجائے گى اور اگر وہ باطل ہيں تو يہ سات چكر ايك نيا طواف ہے ) اور اس كيلئے يہ بھى جائز ہے كہ اسے بالكل كالعدم كر كے نئے سرے سے طواف كرے_
3_ يہ كہ حدث چوتھا چكر مكمل كرنے كے بعد عارض ہو تو طواف كو منقطع كر كے طہارت كرے اور پھر وہيں سے طواف كو جارى ركھے ليكن اگر اس سے موالات عرفيہ كو نقصان نہ پہنچا ہو ورنہ احوط يہ ہے كہ اسے مكمل كرے اور پھر اس كا اعادہ بھى كرے اور اس كيلئے جائز ہے كہ اس طواف كو بالكل ختم كر كے نئے سرے سے طواف بجا لائے جيسے كہ اس كيلئے جائز ہے كہ تمام و اتمام كے قصد كے ساتھ سات چكر بجا لائے_
مسئلہ 246_ اگر طواف كے دوران ميں حدث اكبر عارض ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ فوراً مسجد الحرام سے نكل جائے پھر اگر يہ چوتھے چكر كے نصف تك پہنچنے سے پہلے ہو تو طواف باطل ہے اور غسل كے بعد اس كا اعادہ كرنا واجب ہے اور اگر نصف تك پہنچنے كے بعد اور چوتھا چكر مكمل كرنے سے پہلے ہو تو اگر موالات عرفيہ ميں خلل وارد نہ ہوا ہو تو وہيں سے طواف كو جارى ركھے ورنہ احوط يہ ہے كہ اسے مكمل كرے اور پھر اعادہ بھى كرے اور اس كيلئے جائز ہے كہ تمام و اتمام كے قصد كے ساتھ پورا طواف بجا لائے جيسا كہ اسكے لئے يہ بھى جائز ہے كہ سابقہ چكروں كو بالكل كالعدم كركے غسل كے بعد نيا طواف بجا لائے اور اگر چوتھا چكر مكمل كرنے كے بعد عارض ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو طواف كے دوران ميں چوتھا چكر مكمل كرنے كے بعد حدث اصغر كے عارض ہونے كا ہے جو كہ ابھى ابھى گزرا ہے _
مسئلہ 247_ جو شخص وضو يا غسل كے ترك كرنے ميں معذور ہو اس پر ان دونوں كے بدلے ميں تيمم كرنا واجب ہے_
مسئلہ 248_ اگر كسى عذر كى وجہ سے وضو يا غسل نہ كرسكتا ہو تو اگر اسے آخرى وقت تك اس عذر كے دور ہونے كا علم ہے جيسے كہ وہ مريض جو جانتا ہے كہ آخرى وقت تك شفا ياب ہوجائيگا تو اس پر واجب ہے كہ اپنا عذر دور ہونے تك صبر كرے پس وضو يا غسل كے ساتھ طواف بجالائے بلكہ اگر اسے اپنے عذر كے مرتفع ہونے كى اميد ہو تو بھى احوط وجوبى ہے كہ صبر كرے يہاں تك كہ وقت تنگ ہوجائے يا اپنے عذركے مرتفع ہونے سے مايوس ہوجائے اور اسكے بعد تيمم كركے طواف بجا لائے _
مسئلہ 249_ جس شخص كا فريضہ تيمم يا جبيرہ والا وضو ہے اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے مذكورہ طہارت كے بغير طواف يا اسكى نماز كو بجا لائے تو اس پر واجب ہے كہ اگر ممكن ہو خود ان كا اعادہ كرے ورنہ نائب بنائے _
مسئلہ 250_ اگر عمرہ مفردہ كے احرام كے بعد عورت كو حيض آ جائے اور پاك ہونے كا انتظار نہ كر سكتى ہو تاكہ غسل كركے اسكے اعمال كو انجام دے تو اس پر واجب ہے كہ طواف اور نماز طواف كيلئے نائب بنائے ليكن سعى اور تقصير كو خود بجا لائے اور ان سب كے ساتھ احرام سے خارج ہو جائے اور يہى حكم ہے كہ ا گر حيض كى حالت ميں احرام باندھے ليكن اگر حيض كى حالت ميں عمرہ تمتع كا احرام باندھے يا عمرہ تمتع كا احرام باندھنے كے بعد اسے حيض آ جائے اور پاك ہونے كا انتظار نہ كر سكتى ہو تاكہ غسل كر كے عمرہ كا طواف اور اسكى نماز بجا لائے تو اس كا حكم اور ہے كہ جس كا ذكر گزرچكا ہے_
مسئلہ 251_ عمرہ كے اعمال ميں سے صرف طواف اور نماز طواف ميں حدث سے پاك ہونا واجب ہے ليكن عمرہ كے باقى اعمال ميں حدث سے طہارت شرط نہيں ہے اگرچہ افضل يہ ہے كہ انسان ہر حال ميں با طہارت ہو _
مسئلہ 252_ اگر طہارت ميں شك ہو تو اسكى ذمہ دارى درج ذيل ہے_
1_ اگر طواف كو شروع كرنے سے پہلے وضو ميں شك ہو تو وضو كرے_
2_ اگر اس پر غسل واجب ہو اور طواف كو شروع كرنے سے پہلے اسكے بجا لانے ميں شك كرے تو اس پر واجب ہے كہ غسل كو بجا لائے_
3_ اگر با وضو ہو اور شك كرے كہ اس كا وضو باطل ہوا ہے يا نہيں تو وضو واجب نہيں ہے _
4_ اگر با طہارت ہو اور شك كرے كہ جنب ہوا ہے يا نہيں يا عورت شك كرے كہ اسے حيض آيا ہے يا نہيں تو ان پر غسل واجب نہيں ہے _
5_ اگر طواف سے فارغ ہونے كے بعد طہارت ميں شك كرے تو اس كا طواف صحيح ہے ليكن اس پر واجب ہے كہ نماز طواف كيلئے طہارت حاصل كرے_
6_ اگر طہارت كى حالت ميں طواف كو شروع كرے اور اثناء ميں حدث كے طارى ہونے اور نہ ہونے ميں شك كرے جيسے كہ شك كرے كہ اس كا وضو باطل ہوا ہے يا نہيں تو اپنے شك كى پروا نہ كرے اور طہارت پر بنا ركھے_
7_ اگر طواف كے اثناء ميں شك كرے كہ اس نے وضو كى حالت ميں طواف كو شروع كيا تھا يا نہيں تو يہاں پر اسكى سابقہ حالت اگر وضو ہو تو اس پر بنا ركھے اور اپنے شك كى پروا نہ كرے اور اس كا طواف صحيح ہے ليكن اگر اسكى سابقہ حالت وضو نہ ہو يا اس ميں بھى شك كرے كہ سابق ميں وضو ركھتا تھا يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ وضو كركے نئے سرے سے طواف بجا لائے_
8_ اگر اس پر غسل واجب ہو اور طواف كے اثنا ميں شك كرے كہ غسل كو بجا لايا تھا يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ فوراً مسجد سے نكل جائے اور غسل كر كے نئے سرے سے طواف بجا لائے_
تيسرى شرط : بدن اور لباس كا خبث سے پاك ہونا
مسئلہ 253_واجب ہے كہ طواف كى حالت ميں بدن اور لباس خون سے پاك ہوں اور احوط وجوبى يہ ہے كہ يہ دونوں باقى نجاسات سے بھى پاك ہوں ہاں جوراب، رومال اور انگوٹھى كا پاك ہونا شرط نہيں ہے_
مسئلہ 254:درہم سے كم خون اور اسى طرح پھوڑے پھنسى كا خون جس طرح نماز كے بطلان كا سبب نہيں بنتا اسى طرح طواف كو بھى باطل نہيں كرتا_
مسئلہ 255_ اگر بدن نجس ہو اور طواف كو مؤخر كرنا ممكن ہو يہاں تك كہ اسے نجاست سے پاك كرلے تو طواف كو مؤخر كرنا واجب ہے جب تك اس كا وقت تنگ نہ ہوجائے _
مسئلہ 256_ اگر بدن يا لباس كى طہارت ميں شك كرے تو اس كيلئے انہيں كے ساتھ طواف كرنا جائز ہے اور اس كا طواف صحيح ہے ليكن اگر جانتا ہو كہ پہلے نجس تھا اور شك كرے كہ اس نے اسے پاك كيا ہے يا نہيں تو اس كيلئے اس كے ساتھ طواف كرنا جائز نہيں ہے _
مسئلہ 257_ اگر طواف سے فارغ ہونے كے بعد اپنے بدن يا لباس كى نجاست كى طرف متوجہ ہو تو اس كا طواف صحيح ہے _
مسئلہ 258_ اگر طواف كے دوران ميں اس كا بدن يا لباس نجس ہوجائے جيسے كہ لوگوں كى بھيڑ كے نتيجے ميں اس كا پاؤں زخمى ہوجائے اور طواف كو منقطع كئے بغير اسے پاك بھى نہ كرسكتا ہو تو اس پر واجب ہے كہ طواف كو منقطع كر كے اپنے بدن يا لباس كو پاك كرے پھر فوراً پلٹ آئے اور جہاں سے طواف كو چھوڑا تھا وہيں سے اسے جارى ركھے اور يہ صحيح ہے _
مسئلہ 259_ اگر طواف كے دوران ميں اپنے بدن يا لباس ميں نجاست ديكھے اور نہ جانتا ہو كہ كيا يہ نجاست طواف كو شروع كرنے سے پہلے تھى يا طواف كے دوران ميں عارض ہوئي ہے تو سابقہ مسئلہ كا حكم يہاں بھى لاگو ہوگا_
مسئلہ 260_ اگر طواف كے دوران ميں اپنے بدن يا لباس كى نجاست كى طرف متوجہ ہو اور اسے يقين ہو كہ يہ نجاست طواف كو شروع كرنے سے پہلے تھى تو اس كا حكم سابقہ مسئلہ والا ہے_
مسئلہ 261_ اگر اپنے بدن يا لباس كى نجاست كو بھول كر اسى حالت ميں طواف كر لے اور طواف كے دوران ميں اسے ياد آئے تو اس كا حكم گذشتہ تين مسائل والا ہے _
مسئہ 262_ اگر اپنے بدن يا لباس كى نجاست كو بھول كر اسى حالت ميں طواف كرلے اور طواف سے فارغ ہونے كے بعد ياد آئے تو طواف صحيح ہے ليكن اگر نماز طواف كو نجس بدن يا لباس كے ساتھ بجا لائے تو اس پر واجب ہے كہ طہارت كے بعد اسے نئے سرے سے پڑھے_ اور اس مسئلہ ميں احوط يہ ہے كہ طہارت كے بعد طواف كا بھى نئے سرے سے اعادہ كرے_
چوتھى شرط : ختنہ
يہ صرف مرد كے طواف كى صحت ميں شرط ہے نہ عورت كے _ پس ختنہ نہ كئے ہوئے شخص كا طواف باطل ہے چاہے وہ بالغ ہو يا نہ _
پانچويں شرط: شرم گاہ كو چھپانا
مسئلہ 263_ احوط وجوبى كى بنا پر طواف كى صحت ميں شرمگاہ كو چھپانا شرط ہے_
مسئلہ 264_ اگر طواف كے دوران ميں عورت اپنے سر كے تمام بالوں كو نہ چھپائے يا اپنے بدن كے بعض حصوں كو ظاہر كرے تو اس كا طواف صحيح ہے اگرچہ اس نے حرام كام كيا ہے _
چھٹى شرط: طواف كى حالت ميں لباس كاغصبى نہ ہونا
مسئلہ 265_ طواف كى صحت ميں شرط ہے كہ لباس غصبى نہ ہو پس اگر غصبى لباس ميں طواف بجا لائے تو احوط وجوبى كى بنا پر اس كا طواف باطل ہے_
ساتويں شرط : موالات
مسئلہ 266_ احوط وجوبى كى بنا پر طواف كے اجزا كے درميان موالات عرفيہ شرط ہے يعنى طواف كے چكروں كے درميان اتنا فاصلہ نہ كرے كہ جس سے ايك طواف بر قرار نہ رہے _ اور وہ صورت اس مستثنے ہے كہ جب نصف طواف يعنى ساڑھے تين چكروں سے گزرنے كے بعد نماز وغيرہ كيلئے طواف كو منقطع كرے_
مسئلہ 267_ جو شخص نماز فريضہ كى خاطر اپنے واجب طواف كو منقطع كرے تو اگر نصف كے بعد منقطع كرے توجہاں سے اسے منقطع كيا تھا وہيں سے مكمل كرے اور اگر اس سے پہلے منقطع كيا ہو تو اگر زيادہ فاصلہ ہوجائے تو احوط يہ ہے كہ طواف كا اعادہ كرے ورنہ اس احتياط كا واجب نہ ہونا بعيد نہيں ہے اگرچہ ہر حالت ميں احتياط اچھی ہے اور اس ميں فرق نہيں ہے كہ نماز فرادى ہو يا جماعت كے ساتھ اور نہ اس ميں كہ وقت تنگ ہو يا وسيع _
مسئلہ 268_ مستحب بلكہ واجب طواف كو بھى منقطع كرنا جائز ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ واجب طواف كو اس طرح منقطع نہ كرے كہ جس سے موالات عرفيہ فوت ہوجائے _
طواف كے واجبات
طواف ميں سات چيزيں شرط ہيں :
اول: حجر اسود سے شروع كرنا يعنى اسكے بالمقابل جگہ سے شروع كرے _يہ شرط نہيں ہے كہ طواف حجر اسود كے شروع سے ہو كہ اپنے پورے بدن كے ساتھ جحر اسود كے سب اجزا كے سامنے سے گزرے بلكہ عرفاً ابتدا صدق كرنا كافى ہے اسى لئے حجر اسود كے كسى بھى نقطہ سے آغاز كرنا صحيح ہے ہاں واجب ہے كہ اسى جگہ پر ختم كرے جہاں سے شروع كرے پس اگر درميان سے شروع كرے تو وہيں پر ختم كرے _
دوم: ہر چكر كو حجر اسود پر ختم كرنا
مسئلہ 269_ واجب نہيں ہے كہ ہر چكر ميں ٹھہر كر دوبارہ شروع كرے بلكہ كافى ہے كہ بغير ٹھہرے اس طرح سات چكر لگائے كہ ساتويں چكر كو اس جگہ ختم كرے جہاں سے پہلا چكر شروع كيا تھا ہاں احتياطاً كچھ مقدار زيادہ كرنے سے كوئي مانع نہيں ہے تا كہ يقين ہوجائے كہ اس نے اسى نقطے پر ختم كيا ہے جہاں سے آغاز كيا تھا پس زائد كو احتياط كى نيت سے بجالائے_
مسئلہ 270_ واجب ہے كہ طواف اسى طرح كرے جيسے سب مسلمان كرتے ہيں پس حجر اسود كے بالمقابل سے آغاز كرے اور اسى پر ختم كر دے_ وسوسہ كرنے والوں كى دقت كے بغير اور ہر چكر ميں حجر اسود كے مقابل ميں ٹھہرنا واجب نہيں ہے_
سوم: طواف بائيں جانب ہوگا اس طرح كے طواف كے دوران خانہ كعبہ حاجى كى بائيں طرف ہو اور اس سے مقصود طواف كى سمت كو معين كرنا ہے _
مسئلہ 271_ خانہ كعبہ كے بائيں جانب ہونے كا معيار صدق عرفى ہے نہ دقت عقلى پس حجر اسماعيل عليہ السلام اور چار اركان كے پاس پہنچتے وقت تھوڑاسا مڑنا طواف كى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا پس ان كے پاس پہنچتے وقت اپنے كندھے كو موڑنے كى ضرورت نہيں ہے _
مسئلہ 272_ اگر كچھ مقدار طواف رائج صورت سے ہٹ كر بجا لائے جيسے كہ طواف كے دوران ميں كعبہ كو چومنے كيلئے اسكى طرف رخ موڑ لے يا بھيڑ اس كا رخ يا پشت كعبہ كى طرف كر دے يا كعبہ كو اسكى دائيں جانب كر دے تو اس كا طواف صحيح نہيں ہے بلكہ اس مقدار كا تدارك كرنا واجب ہے _
چہارم: حجر اسماعيل عليہ السلام كو اپنے طواف كے اندر داخل كرنا اور اسكے باہر سے طواف كرنا _
مسئلہ 273_ اگر اپنا طواف حجر اسماعيل عليہ السلام كے اندر سے يا اسكى ديوار كے اوپر سے بجا لائے تو اس كا طواف باطل ہے اور اس كا اعادہ كرنا واجب ہے اور اگر كسى چكر ميں حجر كے اندر سے طواف كرے تو صرف وہى چكر باطل ہوگا _
مسئلہ 274_ اگر جان بوجھ كر حجر كے اندر سے طواف بجا لائے تو اس كا حكم جان بوجھ كر طواف كو ترك كرنے والا حكم ہے اور اگر بھول كر ايسا كرے تو اس كا حكم بھول كر طواف كو ترك كر نے والا حكم ہے اور ان دونوں كا بيان آ جائے گا _
پنجم : طواف كے دوران ميں خانہ كعبہ اور اسكى ديوار كى نچلى جانب كى بنياد جسے ""شاذروان"" كہا جاتا ہے،سے باہر رہنا_
مسئلہ 275_ حجر اسماعيل عليہ السلام كى ديوار پر ہاتھ ركھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے جيسے كہ كعبہ كى ديوار پر ہاتھ ركھنا بھى ايسا ہى ہے _
ششم: مشہور قول كے مطابق شرط ہے كہ طواف خانہ كعبہ اور مقام ابراہيم عليہ السلام كے درميان ہو اور ديگر جوانب سے ان دو كے درميان كے فاصلے كى حدود ميں ہو ليكن اقوى يہ ہے كہ يہ شرط نہيں ہے پس اسے مسجدالحرام ميں اس مقدار سے پيچھے انجام دينا جائز ہے بالخصوص جب شديد بھيڑ مانع ہو ہاں اولى يہ ہے كہ اگر مانع نہ ہو تو طواف مذكورہ مطاف كے اندر ہو _
مسئلہ 276_ بعيد نہيں ہے كہ زمين اور كعبہ كى چھت كے بالمقابل والى فضا ميں طواف كافى ہو ليكن يہ احتياط كے خلاف ہے _
اگر صرف اوپر والى چھت( دوسرى منزل) ميں طواف كرنے پر قادر ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ خود ""اوپر والى منزل"" پر طواف بجالائے اور كسى كونائب بنا دے جو اسكى طرف سے مسجدالحرام كے صحن ميں طواف بجا لائے _
ہفتم : طواف كے سات چكر ہيں _
طواف كے ترك كرنے، اس ميں كمى كرنے يا اس ميں شك كرنے كے بارے ميں چند مسائل_
مسئلہ 277_ طواف ايك ركن ہے كہ جسے اسكے فوت ہونے كے وقت تك جان بوجھ كر ترك كرنے سے عمرہ باطل ہو جاتا ہے اور اس ميں فرق نہيں ہے كہ اس حكم كو جانتا ہو يا نہ _
مسئلہ 278_ مكہ ميں داخل ہونے كے بعد فوراً طواف كرنا واجب نہيں ہے بلكہ اس وقت تك مؤخر كرسكتا ہے كہ جس سے عرفات كے اختيارى وقوف كا وقت تنگ نہ ہو ( عرفات ميں اختيارى وقوف نوذى الحج كى ظہر سے ليكر غروب تك ہوتا ہے ) اس طرح كہ اس كيلئے طواف اور اس پر مترتب ہونے والے اعمال كو انجام دينے كے بعد مذكورہ وقوف كو درك كرنا ممكن ہو _
مسئلہ 279_ اگر اپنے طواف كو باطل كردے _ جيسے كہ گذشتہ حالت ميں يا ديگر حالات ميں كہ جنہيں ہم بيان كريں گے _ تو احوط يہ ہے كہ عمرہ كو حج افراد ميں تبديل كردے اور اس كے بعد عمرہ مفردہ كو بجا لائے پھر اگر اس پر حج واجب تھا تو آئندہ سال عمرہ اور حج بجا لائے _
مسئلہ 280_ اگر بھول كر طواف كو ترك كردے اور طواف كا وقت گزرنے سے پہلے ياد آجائے تو طواف اور نماز طواف كو بجا لائے اور ان كے بعد سعى كا اعادہ كرے _
مسئلہ 281_ اگر بھول كر طواف كوترك كردے اور اس كا وقت گزرنے كے بعد ياد آئے تو جس وقت اس كيلئے ممكن ہو طواف اور نماز طواف كى قضا كرنا واجب ہے ليكن اگر اپنے وطن واپس پلٹنے كے بعد ياد آئے تو اگر اسكے لئے بغير مشقت اور حرج كے لوٹنا ممكن ہو تو ٹھيك ورنہ نائب بنائے اور طواف اور نماز طواف كى قضا كے بعد اس پر سعى كا اعادہ كرنا واجب نہيں ہے_
مسئلہ 282_ طواف كو ترك كرنے والے كيلئے وہ چيزيں حلال نہيں ہيں كہ جنكى حليت طواف پر موقوف ہے چاہے جان بوجھ كر ترك كرے يا بھول كر جبتك خود يا اپنے نائب كے ذريعے طواف كو بجا نہ لائے اور اسى طرح وہ شخص جو اپنے طواف كو بھول كر كم كردے_
مسئلہ 283_ جو شخص بيمارى يا شكستگى وغيرہ كى وجہ سے طواف كا وقت گزرنے سے پہلے خود طواف كرنے سے عاجز ہو حتى كہ كسى اور كى مدد سے بھى تو واجب ہے كہ اسے اٹھا كر طواف كرايا جائے البتہ اگر يہ ممكن ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ نائب بنائے _
مسئلہ 284_ اگر طواف اور انصراف يعنى مطاف سے خارج ہونے كے بعد چكروں كے كم يا زيادہ ہونے ميں شك كرے تو اپنے شك كى پروا نہ كرے اور صحت پر بنا ركھے _
نماز طواف :
يہ عمرہ كے واجبات ميں سے تيسرا واجب ہے_
مسئلہ 285_ طواف كے بعد دو ركعت نماز طواف واجب ہے اور اس ميں جہر و اخفات كے درميان اختيار ہے اور نيت ميں اسى طرح معين كرنا واجب ہے جيسے كہ طواف كى نيت ميں گزر چكا ہے اور اسى طرح قربت اور اخلاص_
مسئلہ 286_ واجب ہے كہ طواف اور نماز طواف كے درميان فاصلہ نہ كرے اور فاصلے كے صدق كرنے اور نہ كرنے كا معيار عرف ہے _
مسئلہ 287_ نماز طواف ، نماز صبح كى طرح ہے اور حمد كے بعد ہر سورت پڑھنا جائز ہے سوائے چار سور عزائم كے _اور مستحب ہے كہ پہلى ركعت ميں حمد كے بعد سورہ توحيد پڑھے اور دوسرى ركعت ميں حمد كے بعد سورہ جحد
(قل يا ايہا الكافرون) پڑھے_
مسئلہ 288_ واجب ہے كہ نماز مقام ابراہيم عليہ السلام كے پيچھے اور اس كے قريب ہو البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس ميں دوسروں كيلئے مزاحمت نہ ہو اور اگر اس پر قادر نہ ہو تو مسجدالحرام ميں مقام ابراہيم كے پيچھے نماز پڑھے اگرچہ اس سے دور ہو بلكہ بعيد نہيں ہے كہ مسجد الحرام كى كسى بھى جگہ ميں نماز بجا لانا كافى ہو _
مسئلہ 289_ اگر جان بوجھ كر نمازطواف كو ترك كرے تو اس كا حج باطل ہے ليكن اگر بھول كر ترك كرے تو اگر مكہ مكرمہ سے خارج ہونے سے پہلے ياد آ جائے اور نماز كو اسكى جگہ پر انجام دينے كيلئے وہاں جانا اس كيلئے شاق نہ ہو تو مسجد الحرام كى طرف پلٹے اور نماز كو اسكى جگہ پر انجام دے ليكن اگر مكہ مكرمہ سے خارج ہونے كے بعد ياد آئے تو جہاں ياد آئے وہيں پر نماز پڑھ لے_
مسئلہ 290_ سابقہ مسئلہ ميں جاہل قاصر يا مقصر كا حكم وہى ہے جو بھولنے والے كا ہے _
مسئلہ 291_اگر سعى كے اثناء ميں ياد آئے كہ اس نے نماز طواف نہيں پڑھى تو سعى كو منقطع كر كے نماز كى جگہ پر نماز بجا لائے پھر پلٹے اور جہاں سے سعى كو منقطع كيا تھا اسے وہيں سے جارى ركھے _
مسئلہ 292_ اگر مرد كى نماز طواف عورت كى نماز كے بالمقابل ہوتو اگر مرد عورت سے تھوڑى سى مقدار بھى آگے ہو تو ان دونوں كى نماز كى صحت ميں كوئي اشكال نہيں ہے اور اسى طرح ہے كہ ان كے درميان فاصلہ ہو اگرچہ ايك بالشت كا _
مسئلہ 293_ نماز طواف ميں جماعت كا مشروع ہونا معلوم نہيں ہے _
مسئلہ 294_ ہر مكلف پر واجب ہے كہ وہ صحيح نماز كو سيكھے تا كہ اپنى ذمہ دارى كو صحيح طرح سے انجام دے سكے بالخصوص جو شخص حج كرنا چاہتا ہے_
سعي
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
يہ عمرہ كے واجبات ميں سے چوتھا واجب ہے _
مسئلہ 295_ طواف كى دو ركعتوں كے بعد صفا و مروہ كے درميان سعى واجب ہے سعى سے مراد ان كے درميان اس طرح چلنا ہے كہ صفا سے شروع كرے اور پہلا چكر مروہ پر ختم كردے پھر دوسرا چكر مروہ سے شروع كركے صفا پر ختم كرے اور اسى طرح سات چكر لگائے اور ساتواں چكر مروہ پر ختم كر دے اور مروہ سے شروع كر كے صفا پر ختم كرنا صحيح نہيں ہے _
مسئلہ 296_ سعى ميں نيت شرط ہے اور نيت ميں قربت،اخلاص اور تعيين سب معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے _
مسئلہ 297_ سعى ميں حدث اور خبث سے پاك ہونا شرط نہيں ہے_
مسئلہ 298_ سعى كو طواف اور نماز طواف كے بعد انجام ديا جاتا ہے پس اسے ان دو پر مقدم كرنا صحيح نہيں ہے _
مسئلہ 299_ سعى كو اپنے اختيار كے ساتھ طواف اور نماز طواف سے بعد والے دن تك مؤخر كرنا جائز نہيں ہے البتہ رات تك مؤخر كرنے سے كوئي مانع نہيں ہے
مسئلہ 300_ ہر چكر ميں صفا اور مروہ كے درميان پورى مسافت طے كرنا واجب ہے البتہ ان كے اوپر چڑھنا واجب نہيں ہے _
مسئلہ 301_ سعى كے دوران مروہ كى طرف جاتے ہوئے مروہ كى طرف رخ كرنا واجب ہے اور اسى طرح صفا كى طرف رخ كرنا پس اگر سعى كے دوران پشت كرے يعنى الٹا چلے تو اسكى سعى صحيح نہيں ہے ہاں اپنے چہرے كو دائيں ، بائيں يا پيچھے كى طرف موڑنا مضر نہيں ہے _
مسئلہ 302_ واجب ہے كہ سعى عام راستے ميں ہو _
مسئلہ 303_ اوپر والى منزل ميں سعى كرنا صحيح نہيں ہے جبتك يہ محرز نہ ہو جائے كہ يہ دو پہاڑوں كے درميان ہے نہ ان سے اوپر اور جو شخص صرف اوپر والى منزل ميں سعى كرنے پر قادر ہو تو يہ كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ كسى كو نائب بنائے جو اسكى طرف سے پہلى منزل پر سعى بجا لائے _
مسئلہ 304_ سعى كے دوران استراحت كى خاطر صفا و مروہ كے اوپر يا ان كے درميان بيٹھنا اور ان پر سونا جائز ہے بلكہ يہ بغير عذر كے بھى جائز ہے _
مسئلہ 305_ قدرت ركھنے كى صورت ميں واجب ہے كہ خود سعى بجا لائے اور پيدل چلتے ہوئے اور سوار ہوكر سعى كرنا بھى جائز ہے اور پيدل چلنا افضل ہے _ پس اگر خود سعى كرنا ممكن نہ ہو تو كسى سے مدد لے جو اسے سعى كرائے يا اسے اٹھا كرسعى كرائي جائے اور اگر يہ بھى ممكن نہ ہو تو نائب بنائے _
سعى كے ترك كرنے اور اس ميں كمى بيشى كرنے كے بارے ميں چند مسائل
مسئلہ 306_ سعى طواف كى طرح ركن ہے اور اسے جان بوجھ كر يا بھول كر ترك كرنے كا حكم وہى ہے جو طواف كوترك كرنے كا ہے اور اس كا ذكر گزرچكا ہے _
مسئلہ 307_ جو شخص بھول كر سعى كو ترك كر كے اپنے عمرہ سے مُحل ہوجائے اوراپنى بيوى كے ساتھ جماع كر لے تو احوط وجوبى كى بنا پر سعى كے بجا لانے كے ساتھ ساتھ ايك گائے كا كفارہ دينا بھى واجب ہے _
مسئلہ 308_ اگر بھول كر سعى ميں ايك يا زيادہ چكر كا اضافہ كردے تو اسكى سعى صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اور حكم سے جاہل حكم كو بھولنے والے كى طرح ہے _
مسئلہ 309_ جو شخص سعى كى نيت سے اپنى سعى ميں سات چكروں كا اضافہ كردے_ اس طرح كہ وہ سمجھتا تھا آنا جانا ايك چكر ہے _ تو اس پر اعادہ واجب نہيں ہے اور اس كى سعى صحيح ہے اور يہى حكم ہے اگر سعى كے دوران اسكى طرف متوجہ ہوجائے تو جہاں سے ياد آئے زائد كو منقطع كردے _
مسئلہ 310 _ جو شخص بھول كر سعى ميں كمى كردے تو اس پر واجب ہے كہ جب ياد آئے اسے مكمل كرے پس اگر اپنے شہر پلٹنے كے بعد ياد آئے تو اس پر واجب ہے كہ سعى كو مكمل كرنے كيلئے دوبارہ وہاں جائے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے مشقت اور حرج ہو تو كسى دوسرے كو نائب بنائے _
حج و عمرہ كے اعمال كے بارے ميں
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
حج و عمرہ كى اقسام
گزر چكا ہے كہ حج كى تين اقسام ہيں حج تمتع اور يہ اس شخص كا فريضہ ہے كہ جسكے اہل مكہ سے اڑتاليس ميل تقريبا نوے كيلوميٹر دور ہوں اور حج قران و افراد ،اور يہ دونوں اس شخص كا فريضہ ہيں جس كے اہل مكہ ميں ہوں يا مذكورہ مسافت سے كَم فاصلے پر ہوں_
حج تمتع ، قران و افراد سے اس بات ميں مختلف ہے كہ يہ ايك عبادت ہے جو عمرہ اور حج سے مركب ہے اور اس ميں عمرہ حج سے پہلے ہوتا ہے اور عمرہ اور حج كے درميان كچھ مدت كا فاصلہ ہوتا ہے كہ جس ميں انسان عمرہ كے احرام سے باہر آجاتا ہے اور جو كچھ مُحرم كيلئے حرام ہوتا ہے حج كا احرام باندھنے سے پہلے اس كيلئے حلال ہو جاتا ہے اس لئے اسے حج تمتع كا نام دينا مناسب ہے پس عمرہ حج تمتع كى ايك جز ہے اور اس كا نام عمرہ تمتع ہے اور حج دوسرا جز ہے اور ان دونوں كو ايك سال ميں انجام دينا ضرورى ہے ۔
جبكہ حج افراد اور قران ميں سے ہر ايك ايك عبادت ہے جو فقط حج سے عبارت ہے اور عمرہ ان دونوں سے ايك ، دوسرى مستقل عبادت ہے كہ جسے عمرہ مفردہ كہا جاتا ہے اسى لئے بعض اوقات عمرہ مفردہ ايك سال ميں انجام پاتا ہے اور حج افراد و قران دوسرے سال ميں اور عمرہ ، مفردہ ہو يا تمتع اس كے مشتركہ احكام ہيں كہ جنہيں ہم حج و عمرہ تمتع اور حج قران و افراد ،انكے عمرہ اور ان كے درميان فروق كو بيان كرنے سے پہلے ذكر كرتے ہيں ۔
چند مسائل:
مسئلہ 67_عمرہ ،حج كى طرح كبھى واجب ہوتا ہے اور كبھى مستحب ۔
مسئلہ 68_عمرہ بھى حج كى طرح اصل شريعت ميں اور عمر بھر ميں ايك دفعہ اس پر واجب ہوتا ہے كہ جس ميں حج والى استطاعت ہو اور يہ بھى حج كى طرح فوراً واجب ہوتا ہے _ اور اس كے وجوب ميں حج كى استطاعت شرط نہيں ہے بلكہ صرف عمرے كى استطاعت كافى ہے اگرچہ حج كيلئے استطاعت نہ بھى ہو جيسا كہ اس كا عكس بھى اسى طرح ہے پس جو شخص صرف حج كيلئے استطاعت ركھتا ہو اس پر حج واجب ہے نہ عمرہ يہ اس شخص كيلئے ہے كہ جس كے اہل مكہ ميں ہوں يا مكہ سے اڑتاليس ميل سے كم فاصلہ پر ہوں اور رہے وہ لوگ جو مكہ سے دور ہيں كہ جن كا فريضہ حج تمتع ہے توان ميں حج كى استطاعت سے ہٹ كر صرف عمرہ كى استطاعت متصور نہيں ہے اور اسى طرح اس كا عكس كيونكہ حج تمتع ان دونوں سے مركب ہے اور ان دونوں كا ايك ہى سال ميں اكٹھا واقع ہونا ضرورى ہے _
مسئلہ 69_ مكلف كيلئے مكہ مكرمہ ميں بغير احرام كے داخل ہونا جائز نہيں ہے پس جو شخص حج كے مہينوں كے علاوہ داخل ہونا چاہے اس پر عمرہ مفردہ كا احرام باندھنا واجب ہے اور اس حكم سے دو مورد مستثنى ہيں _
الف : جس كا كام ايسا ہو كہ اس كا مكہ ميں آنا جانا زيادہ ہے _
ب : جو شخص حج تمتع ياعمرہ مفردہ كے اعمال مكمل كرنے كے بعد مكہ سے خارج ہوجائے تو اس كيلئے سابقہ عمرہ كے اعمال بجا لانے سے ايك ماہ تك بغير احرام كے مكہ ميں دوبارہ داخل ہونا جائز ہے _
مسئلہ 70_ حج كى طرح عمرہ كو بھى مكرر كرنا مستحب ہے اور دو عمروں كے درميان كوئي معين فاصلہ كرنا شرط نہيں ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ اگر اپنے لئے دو عمرے بجالائے تو ان كے درميان ايك ماہ كا فاصلہ كرے اور اگر دو شخصوں كى طرف سے ہوں يا ايك اپنى طرف سے اور دوسرا كسى اور كى طرف سے ہو تو مذكورہ فاصلہ معتبر نہيں ہے بنابراين اگر دوسرا عمرہ نيابت كے ساتھ ہو تو نائب كيلئے اس پر اجرت لينا جائز ہے اور يہ منوب عنہ كے واجب عمرہ مفردہ سے كافى ہے اگر اس پر واجب ہو _
حج تمتع اور عمرہ تمتع كى صورت
حج تمتع دو كاموں سے مركب ہے ايك عمرہ اور يہ حج سے پہلے ہوتا ہے اور دوسرا حج اور ہر ايك كے مخصوص اعمال ہيں_
عمرہ تمتع كے اعمال مندرجہ ذيل ہيں _
1_ كسى ميقات سے احرام باندھنا
2_ طواف كعبہ
3_ نماز طواف
4_ صفا و مرہ كے درميان سعي
5_ تقصير
حج تمتع كے اعمال مندرجہ ذيل ہيں:
1_ مكہ مكرمہ سے احرام باندھنا
2_ نو ذى الحج كے ظہر سے غروب تك عرفات ميں وقوف كرنا
3 _ دس ذى الحج كى رات سورج كے طلوع ہونے تك مشعر الحرام ميں وقوف كرنا
4_ عيد والے دن (دس ذى الحج) جمرة عقبہ كو كنكرياں مارنا
5_ قرباني
6_ حلق يا تقصير
7_ گيارہويں كى رات منى ميں گزارنا
8_گيارہويں كے دن تينوں جمرات كو كنكرياں مارنا
9_ بارہ ذى الحج كى رات منى ميں گزارنا
10_ بارہويں كے دن تينوں جمرات كو كنكرياں مارنا
11_ طواف حج
12_ نماز طواف
13_ سعي
14_ طواف النسا
15_ نماز طواف
حج افراد اور عمرہ مفردہ
صورت كے لحاظ سے حج افراد حج تمتع سے مختلف نہيں ہے مگر يہ كہ قربانى حج تمتع ميں واجب ہے اور حج افراد ميں مستحب ہے _عمرہ مفردہ تو يہ عمرہ تمتع كى طرح ہے مگر بعض امور ميں كہ جنہيں ہم مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں_
مسئلہ 71_ عمرہ تمتع ميں تقصير بھى ضرورى ہے جبكہ عمرہ مفردہ ميں تقصير اور حلق كے درميان اختيار ہے البتہ يہ مردوں كيلئے ہے ، ليكن عورتوں كيلئے ہر صورت ميں تقصير ہى ضرورى ہے _
مسئلہ 72_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء اور اسكى نماز واجب نہيں ہيں اگرچہ احوط يہ ہے كہ طواف النساء اور اسكى نماز كو رجاء كى نيت سے انجام دے ليكن يہ دونوں عمرہ مفردہ ميں واجب ہيں _
مسئلہ 73_ عمرہ تمتع صرف حج كے مہينوں ميں واقع ہو سكتا ہے اور وہ ""شوال ، ذيقعد اور ذى الحج"" ہيں جبكہ عمرہ مفردہ تمام مہينوں ميں ہو سكتا ہے_
مسئلہ 74_ عمرہ تمتع ميں ضرورى ہے كہ احرام ان مواقيت ميں سے ايك سے باندھا جائے كہ جن كا ذكر آنے والا ہے ليكن عمرہ مفردہ كا ميقات ادنى الحل ہے اس كيلئے جو مكہ كے اندر ہے اگرچہ اس كيلئے ان مواقيت ميں سے ايك سے احرام باندھنا بھى جائز ہے ليكن جو شخص مكہ سے باہر ہے اور عمرہ مفردہ بجا لانا چاہتا ہے وہ انہيں مواقيت ميں سے ايك سے احرام باندھے گا_
حج قران
صورت كے لحاظ سے حج قران حج افراد كى طرح ہے مگر حج قران ميں واجب ہے كہ احرام كے وقت قربانى اپنے ہمراہ ركھے پس اس لئے اس پر اپنى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے۔ جيسے كہ حج قران ميں احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو جاتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى جبكہ حج افراد ميں احرام فقط تلبيہ كے ساتھ ہو سكتا ہے ۔
حج تمتع كے عمومى احكام :
حج تمتع ميں چند چيزيں شرط ہيں:
پہلى شرط : نيت اور وہ يہ ہے كہ عمرہ كے احرام كے شروع سے ہى حج تمتع كا قصد كرے ورنہ صحيح نہيں ہے _
دوسرى شرط : يہ كہ حج اور عمرہ دونوں حج كے مہينوں ميں ہوں
تيسرى شرط : يہ كہ حج اور عمرہ دونوں ايك سال ميں ہوں
چوتھى شرط : يہ كہ عمرہ اور حج دونوں كو ايك شخص اور ايك شخص كى طرف سے انجام دے پس اگر ايك ميت كى طرف سے حج تمتع كيلئے دو شخصوں كو اجير بنايا جائے ايك كو حج كيلئے اور دوسرے كو عمرے كيلئے تو يہ ميت كيلئے كافى نہيں ہے_
مسئلہ 75_ جس شخص كا فريضہ حج تمتع ہے اس كيلئے اختيا ر ى صورت ميں افراد يا قران كى طرف عدول كرنا جائز نہيں ہے ۔
مسئلہ 76_ جس شخص كا فريضہ حج تمتع ہے اور اسے علم ہے كہ وقت اتنا تنگ ہے كہ عمرہ كو مكمل كركے حج كو درك نہيں كر سكتا چاہے عمرے ميں داخل ہونے سے پہلے يہ علم ركھتا ہو يا اسكے بعد اسے اس كا علم ہو تو اس پر واجب ہے كہ حج تمتع سے حج افراد كى طرف عدول كرے اور اعمال حج كو مكمل كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے ۔
مسئلہ 77_ جو عورت حج تمتع بجالانا چاہتى ہے اگر ميقات سے احرام باندھتے وقت حيض كى حالت ميں ہو تو اگر اسے يہ احتمال ہو كہ وہ ايسے وقت ميں پاك ہو جائيگى كہ جس ميں غسل ، طواف ، نماز طواف ، سعى اور تقصير پھر حج كيلئے احرام اور عرفہ والے دن كو زوال سے درك كرنے كى وسعت موجود ہو تو عمرہ تمتع كا احرام باندھے پس اگر ايسے وقت ميں پاك ہو جائے جو عمرہ كو مكمل كرنے اور حج كو درك كرنے كى وسعت ركھتا ہو تو ٹھيك ورنہ اپنے عمرہ كو حج افراد كى طرف پلٹا لے اور اسكے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے اور يہى اس كيلئے حج تمتع سے كافى ہے ليكن اگر ميقات سے احرام باندھتے وقت پاك ہو پھر راستے ميں يا مكہ ميں داخل ہونے كے بعد عمرہ كو بجا لانے سے پہلے اسے حيض آ جائے اور ايسے وقت ميں پاك نہ ہو كہ جس ميں عمرہ كو مكمل كركے حج كو درك كرسكے تو اسے اختيار ہے كہ اپنے عمرہ كو حج افراد كى طرف پلٹا دے اور اسكے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے اور يہى اس كيلئے حج تمتع سے كافى ہے يا يہ كہ منى سے پلٹنے تك طواف اور نماز طواف كو بجا نہ لائے اور سعى و تقصير كو بجا لائے اور اسكے ذريعے عمرہ كے احرام سے خارج ہو جائے پھر حج تمتع كا احرام باندھ كر عرفہ اور مشعر كو درك كرے اور منى كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد اعمال حج كو مكمل كرنے كيلئے مكہ آئے اور طواف عمرہ اور اسكى نماز كى قضا كرے طواف حج ، اسكى نماز اور سعى كو انجام دينے سے پہلے يا اسكے بعد ۔ اور يہ اس كيلئے حج تمتع سے كافى ہے اوراس پر كوئي اور شے واجب نہيں ہے _
حج بیت اللہ
ولى امر مسلمين و مرجع تقليد حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
مقدمہ:
شرعاً حج سے مراد خاص اعمال كا مجموعہ ہے اور يہ ان اركان ميں سے ايك ركن ہے كہ جن پر اسلام كى بنياد ركھى گئي ہے جيسا كہ امام محمد باقر (ع) سے روايت ہے : "" بنى الاسلام على خمس على الصلوة و الزكاة و الصوم و الحج و الولاية"" اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ركھى گئي ہے نماز ، زكات ، روزہ ، حج اور ولايت پر _
حج چاہے واجب ہو چاہے مستحب بہت بڑى فضيلت اور كثير اجر ركھتا ہے اور اسكى فضيلت كے بارے ميں پيغمبر اكرم (ص) اور اہل بيت (عليہم السلام) سے كثير روايات وارد ہوئي ہيں چنانچہ امام صادق (ع) سے روايت ہے:
""الحاج والمعتمر وفد اللہ ان سا لوہ اعطاہم وان دعوہ اجابہم و ان شفعوا شفعہم و ان سكتوا ابتدا ہم و يعوضون بالدرہم الف الف درہم ""
حج اور عمرہ كرنے والے اللہ كا گروہ ہيں اگر اللہ سے سوال كريں تو انہيں عطا كرتا ہے اور اسے پكاريں تو انہيں جواب ديتا ہے، اگر شفاعت كريں تو انكى شفاعت كو قبول كرتا ہے اگرچھپ رہيں تو از خود اقدام كرتا ہے اور انہيں ايك درہم كے بدلے دس لاكھ درہم ديئے جاتے ہيں_
وجوب حج كے منكر اور تارك حج كا حكم
حج كا وجوب كتاب و سنت كے ساتھ ثابت ہے اور يہ ضروريات دين ميں سے ہے اور جس بندے ميں اسكى آئندہ بيان ہونے والى شرائط كامل ہوں اور اسے اسكے وجوب كا بھى علم ہو اس كا اسے انجام نہ دينا كبيرہ گناہ ہے_
اللہ تعالى اپنى محكم كتاب ميں فرماتا ہے:
"وللہ على الناس حج البيت من استطاع اليہ سبيلا و من كفر فان اللہ غنى عن العالمين"
اور لوگوں پر واجب ہے كہ محض خدا كيلئے خانہ كعبہ كا حج كريں جنہيں وہاں تك پہنچنے كى استطاعت (قدرت) ہو اور جس نے با وجود قدرت حج سے انكار كيا تو ( ياد ركھئے كہ ) خدا سارے جہان سے بے پروا ہے_
اور امام صادق سے روايت ہے :
جو شخص دنيا سے اس حال ميں چل بسے كہ اس نے حجةالاسلام انجام نہ ديا ہو جبكہ كوئي حاجت اس كيلئے مانع نہ ہو يا ايسى بيمارى ميں بھى مبتلا نہ ہو جسكے ساتھ حج كى طاقت نہ ركھتا ہو اور كوئي حاكم ركاوٹ نہ بنے تو وہ يہودى يا نصرانى ہو كر مرے_
حج كى اقسام :
جو حج مكلف انجام ديتا ہے يا تو اسے اپنى طرف سے انجام ديتا ہے يا كسى اور كى طرف سے ۔ اس دوسرے كو ""نيابتى حج "" كہتے ہيں اور پہلا يا واجب ہے يا مستحب اور واجب حج يا بذات خود شريعت ميں واجب ہوتا ہے تو اسے ""حجة الاسلام"" كہتے ہيں اور يا كسى اور سبب كى وجہ سے واجب ہوتا ہے جيسے نذر كرنے كى وجہ سے يا حج كو فاسد كردينے كى وجہ سے ۔
اور حجة الاسلام اورنيابتى حج ميں سے ہر ايك كى اپنى اپنى شرائط اور احكام ہيں كہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں كے ضمن ميں ذكر كريں گے۔
نيز حج كى تين قسميں ہيں تمتع ، افراد ، قران
حج تمتع ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن مكہ مكرمہ سے اڑتاليس ميل تقريباً نوے كيلوميٹر دور ہے اور حج افراد اور قران ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن يا تو خود مكہ ہے يا مذكورہ مسافت سے كم فاصلے پر اور حج تمتع ، حج قران و افراد سے بعض اعمال و مناسك كے اعتبار سے مختلف ہے اور اسے ہم دوسرے باب ميں چند فصول كے ضمن ميں بيان كريں گے۔
تين جمرات كو كنكرياں مارنا
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
يہ حج كے واجبات ميں سے تيرہواں اور منى كے اعمال ميں سے پانچواں ہے اور تين جمرات كو كنكرياں مارنا كيفيت اور شرائط كے اعتبار سے عيد والے دن جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مختلف نہيں ہے_
مسئلہ 378_ جو راتيں منى ميں گزارنا واجب ہے ان كے دنوں ميں تين جمرات اولى ، وسطى اور عقبہ كو كنكرياں مارنا واجب ہے_
مسئلہ 379_ كنكرياں مارنے كا وقت طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تك ہے پس اختيارى صورت ميں رات كے وقت كنكرياں مارنا جائز نہيں ہے اور اس سے وہ شخص مستثنى ہے جو عذر ركھتا ہے كہ اسے اپنے مال، عزت اور جان پر خوف ہے اور چرواہا اور اسى طرح كمزور لوگ جيسے عورتيں ، بوڑھے اور بچے كہ جنہيں اپنے آپ پر بھيڑ كى شدت كا خوف ہے تو ان سب كيلئے رات كے وقت كنكرياں مارنا جائز ہے _
مسئلہ 380_ جو شخص صرف دن كے وقت كنكرياں مارنے سے عذر ركھتا ہے نہ رات كے وقت تو اس كے لئے نائب بنانا جائز نہيں ہے بلكہ اس پر واجب ہے كہ رات كے وقت خود كنكرياں مارے، گذشتہ رات ميں يا آئندہ رات ميں ليكن جو شخص كنكرياں مارنے سے عذر ركھتا ہے حتى رات كے وقت بھى جيسے بيمار شخص تو اس كيلئے نائب بنانا جائز ہے ليكن احوط وجوبى يہ ہے كہ اگر آئندہ رات عذر برطرف ہوجائے تو خود كنكرياں مارے _
مسئلہ 381_ جو شخص خود كنكرياں مارنے سے عذر ركھتا ہے اگر اس كيلئے كسى كو نائب بنائے اور وہ نائب اس كام كو انجام دے دے ليكن اسكے بعد كنكرياں مارنے كا وقت گزرنے سے پہلے اس كا عذر مرتفع ہو جائے تو اگر نائب بناتے وقت اپنے عذر كے مرتفع ہونے سے مايوس تھا يہاں تك كہ نائب اس كا عمل انجام دے دے تو نائب كا عمل كافى ہے اور اس پر خود اس كا اعادہ كرنا واجب نہيں ہے ليكن وہ شخص كہ جو عذر كے مرتفع ہونے سے مايوس نہيں ہے اس كيلئے اگرچہ عذر كے طارى ہونے كے وقت نائب بنانا جائز ہے ليكن اگر بعد ميں اس كا عذر مرتفع ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ خود اس كا اعادہ كرے _
مسئلہ 382_ تين جمرات كو كنكرياں مارنا واجب ہے ليكن يہ ركن نہيں ہے _
مسئلہ 383_ كنكرياں مارنے ميں ترتيب واجب ہے اس طرح كہ پہلے جمرہ سے شروع كرے پھر درميان والے كو كنكرياں مارے اور پھر آخرى كو پس ہر جمرہ كو سات كنكرياں مارے اسى طريقے كے ساتھ جو گزر چكا ہے _
مسئلہ 384_ اگر تين جمرات كو كنكرياں مارنا بھول جائے اور منى سے كوچ كرجائے تو اگر ايام تشريق ميں ياد آجائے تو اس پر واجب ہے كہ منى ميں واپس آئے اور خود كنكرياں مارے البتہ اگر اس كيلئے يہ ممكن ہو ورنہ كسى دوسرے كو نائب بنائے ليكن اگر ايام تشريق كے بعد ياد آئے يا جان بوجھ كر كنكرياں مارنے والے عمل كو ايام تشريق كے بعد تك مؤخر كردے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ واپس پلٹے اور خود كنكرياں مارے يا اس كا نائب كنكرياں مارے پھر آئندہ سال اسكى قضا كرے اگرچہ كسى كو نائب بنا كر _اور اگر تين جمرات كو كنكرياں مارنا بھول جائے يہاں تك كہ مكہ معظمہ سے خارج ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ آئندہ سال اسكى قضا كرے اگرچہ كسى كو نائب بنا كر _
مسئلہ 385_ جمرات كو چاروں اطراف سے كنكرياں مارنا جائز ہے اور شرط نہيں ہے كہ پہلے اور درميان والے ميں قبلہ رخ ہو اور آخرى ميں قبلہ كى طرف پشت كرے _
تقصير يا حلق
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
يہ حج كے واجبات ميں سے چھٹا اور منى كے اعمال ميں سے تيسرا ہے _
مسئلہ 353_ ذبح كے بعد سر منڈانا يا بالوں يا ناخنوں كى تقصير كرنا واجب ہے _عورت كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اس كيلئے حلق كافى نہيں ہے اور احوط يہ ہے كہ تقصير ميں بال بھى كاٹے اور ناخن بھى _ ليكن مرد كو حلق اور تقصير كے درميان اختيار ہے اور اس كيلئے حلق ضرورى نہيں ہے ہاں جس نے پہلے حج نہ كيا ہو اس كيلئے احوط حلق ہے _
مسئلہ 354_ حلق اور تقصير ميں سے ہر ايك عبادت ہے پس ان دونوں ميں رياء سے خالص نيت اور اللہ تعالى كى اطاعت كا قصد واجب ہے پس اگر مذكورہ نيت كے بغير حلق يا تقصير كرے تو اس كيلئے وہ چيزيں حلال نہيں ہوں گى جو ان كے ساتھ حلال ہوتى ہيں _
مسئلہ 355_ اگر تقصير يا حلق كيلئے كسى دوسرے سے مدد لے تو اس پر واجب ہے كہ نيت خود كرے _
مسئلہ 356_ احوط وجوبى يہ ہے كہ حلق عيد كے دن ہو اور اگر اسے روز عيد انجام نہ دے تو اسے گيا رہويں كى رات يا اسكے بعد انجام دے اور يہ كافى ہے _
مسئلہ 357_ جو شخص كسى وجہ سے قربانى كو روز عيد سے مؤخر كر دے اس پر حلق يا تقصير كو مؤخر كرنا واجب نہيں ہے بلكہ بعيد نہيں ہے كہ انہيں عيد والے دن ہى انجام دينا واجب ہو پس اس ميں احتياط كو ترك نہ كيا جائے ليكن اس صورت ميں طواف حج وغيرہ مكہ كے پانچ اعمال كو قربانى سے پہلے انجام دينا محل اشكال ہے _
مسئلہ 358_ واجب ہے كہ حلق يا تقصير منى ميں ہو پس اختيارى صورت ميں غير منى ميں جائز نہيں ہے _
مسئلہ 359_ اگر جان بوجھ كر يا بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے منى سے باہر حلق يا تقصير كرے اور باقى اعمال كو انجام دے دے تو اس پر واجب ہے كہ حلق يا تقصير كيلئے منى كى طرف پلٹے اور پھر ان كے بعد والے اعمال كا اعادہ كرے اور يہى حكم ہے اگر تقصير يا حلق كو ترك كر كے منى سے نكل جائے _
مسئلہ 360_ اگر عيد والے دن قربانى كرسكتا ہو تو واجب ہے كہ عيد والے دن پہلے جمرہ عقبہ كو رمى كرے پھر قربانى كرے اور اس كے بعد حلق يا تقصير كرے اور اگر جان بوجھ كر اس ترتيب پر عمل نہ كرے تو گناہ گار ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ اس پر بالترتيب اعمال كا اعادہ كرنا واجب نہيں ہے اگرچہ تو ان ركھنے كى صورت ميں اعادہ كرنا احتياط كے موافق ہے اور لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں بھى يہى حكم ہے اور اگر عيد والے دن منى ميں قربانى نہ كر سكتا ہو تو اگر اسى دن اس ذبح خانہ ميں قربانى كر سكتا ہو جو اس وقت منى سے باہر قربانى كيلئے مقرر كيا گيا ہے تو بھى احوط كى بنا پر واجب ہے كہ قربانى كو حلق يا تقصير پر مقدم كرے پھر ان ميں سے ايك كو بجا لائے اور اگر يہ بھى نہ كرسكتا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ عيد والے دن حلق يا تقصير كرنے كى طرف مبادرت كرے اور اس كے ذريعے احرام سے مُحل ہو جائے ليكن مكہ كے پانچ اعمال كو قربانى كے بعد تك مؤخر كردے _
مسئلہ 361_ حلق يا تقصير كے بعد مُحرم كيلئے وہ سب حلال ہوجاتا ہے جو احرام حج كى وجہ سے حرام ہوا تھا سوائے عورتوں اور خوشبوكے_
تقصير
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _
مسئلہ 311_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _
مسئلہ 312_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہو چكى ہيں_
مسئلہ 313_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _
مسئلہ 314_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزر چكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _
مسئلہ 315_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجا لائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجا لايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج بجا لائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجا لائے _
مسئلہ 316_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے
مسئلہ 317_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كركے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجا لائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _
مسئلہ 318_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كر دے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگرچہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _
مسئلہ 319_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _
مسئلہ 320_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجا لائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيں ہوں گى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجا لانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _
مسئلہ 321_ ظاہر كى بنا پر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجا لائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجا لائے تو اگرچہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _
اعمال عمرہ كے بارے ميں
مواقيت
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
اور يہ وہ مقامات ہيں كہ جنہيں احرام كيلئے معين كيا گيا ہے اور يہ مندرجہ ذيل ہيں :
اول : مسجد شجرہ اور يہ مدينہ منورہ كے قريب ذو الحليفہ كے علاقہ ميں واقع ہے اور يہ اہل مدينہ اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو مدينہ كے راستہ حج كرنا چاہتے ہيں_
مسئلہ87_ احرام كو مسجد شجرہ سے جحفہ تك موخر كرنا جائز نہيں ہے مگر ضرورت كى خاطر مثلا اگر بيمارى ، كمزورى و غيرہ جيسا كوئي عذر ہو _
مسئلہ 79_ مسجد شجرہ كے باہر سے احرام باندھنا كافى نہيں ہے ہاں ان تمام جگہوں سے كافى ہے جنہيں مسجد كا حصہ شمار كيا جاتا ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _
مسئلہ 80_ عذر ركھنے والى عورت پر واجب ہے كہ مسجد سے عبور كى حالت ميں احرام باندھے البتہ اگر مسجد ميں ٹھہرنا لازم نہ آئے ليكن اگر مسجد ميں ٹھہرنا لازم آئے اگرچہ بھيڑ وغيرہ كى وجہ سے اور احرام كو عذر كے دور ہونے تك مؤخر نہ كر سكتى ہو تو اس كيلئے ضرورى ہے كہ وہ جحفہ يااسكے بالمقابل مقام سے احرام باندھے _ البتہ اس كيلئے ميقات سے پہلے كسى بھى معين جگہ سے نذر كے ذريعے احرام باندھنا بھى جائز ہے _
مسئلہ81_ اگر شوہر بيوى كے پاس حاضر نہ ہو تو بيوى كا ميقات سے پہلے احرام باندھنے كى نذر كا صحيح ہونا شوہر كى اجازت كے ساتھ مشروط نہيں ہے ليكن اگر شوہر حاضر ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس سے اجازت حاصل كرے پس اگر اس صورت ميں نذر كرے تو اسكى نذر منعقد نہيں ہوگى _
دوم: وادى عقيق _ يہ اہل عراق و نجد اور جو لوگ عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں ان كا ميقات ہے اور اسكے تين حصے ہيں ""مسلخ"" اور يہ اسكے شروع كے حصے كا نام ہے ""غمرہ"" اور يہ اسكے درميان والے حصے كا نام ہے ""ذات عرق"" اور يہ اسكے آخر والے حصے كا نام ہے اور ان سب مقامات سے احرام كافى ہے _
سوم : جحفہ : اور يہ اہل شام ، مصر ، شمالى افريقہ اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں _ اور اس ميں موجود مسجد وغيرہ سب مقامات سے احرام باندھنا كافى ہے _
چہارم :يلملم : اور يہ اہل يمن اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو اس سے گزرتے ہيں اور يہ ايك پہاڑ كا نام ہے اور اسكے سب حصوں سے احرام باندھنا كافى ہے _
پنجم : قرن المنازل اور يہ اہل طائف اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں اور اس ميں مسجد وغيرہ مسجد سے احرام باندھنا كافى ہے _
مذكورہ مواقيت كے بالمقابل مقام
جو شخص مذكورہ مواقيت ميں سے كسى سے نہ گزرے اور ايسى جگہ پر پہنچ جائے جو ان ميں سے كسى كے بالمقابل ہو تو وہيں سے احرام باندھے اور بالمقابل سے مراد يہ ہے كہ مكہ مكرمہ كے راستے ميں ايسى جگہ پر پہنچ جائے كہ ميقات اسكے دائيں يا بائيں ہو كہ اگر يہ اس جگہ سے آگے بڑھے تو ميقات اسكے پيچھے قرار پا جائے_
مذكورہ مواقيت وہ ہيں كہ جن سے عمرہ تمتع كرنے والے كيلئے احرام باندھنا ضرورى ہے _
حج تمتع و قران و افراد كے مواقيت مندرجہ ذيل ہيں:
اول : مكہ معظمہ اور يہ حج تمتع كا ميقات ہے _
دوم : مكلف كى رہائش گاہ _ اور يہ اس شخص كا ميقات ہے كہ جسكى رہائش گاہ ميقات اور مكہ كے درميان ہے بلكہ يہ اہل مكہ كا بھى ميقات ہے اور ان پر واجب نہيں ہے كہ مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك پر آئيں _
چند مسائل :
مسئلہ 82 _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _
مسئلہ 83 _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كر لے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _
مسئلہ 84 _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _
مسئلہ 85_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تو اگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _
مسئلہ 86_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _
مسئلہ 87 _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _
مسئلہ 88_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر يہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_
مسئلہ 89_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو "" ادنى الحل"" سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _
مسئلہ 90_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگرچہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _
مسلئہ 91_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جانا كہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگرچہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _
مسئلہ 92_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجا لا كر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _
مسئلہ 93_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
