سلیمانی

سلیمانی

 

قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم:

يَا فَاطِمَةُ كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عَيْنٌ بَكَتْ عَلَي مُصَابِ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهَا ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ بِنَعِيمِ الْجَنَّة.

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 44، ص: 293.

اے فاطمہ(س) ہر آنکھ قیامت والے دن روئے گی مگر وہ آنکھ کہ جو غم حسین(ع) میں دنیا میں گریہ کرے گی، پس ایسی آنکھ قیامت میں جنت کی نعمتوں پر خوشحال و مسرور ہو گی۔

 گریہ و عزا داری فطرت انسانی       

انسان کے وجود و فطرت میں خدا وند کی سنن میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان خوشی اور غم کے مواقع پر اپنی طرف سے مختلف رد عمل دکھاتا ہے یعنی خوشی کے موقع پر خوشی اور غم کے موقع پر غمی کا اظہار کرتا ہے۔      

وہ چیز کہ جو انسان کی حالت کو غم کی حالت میں تبدیل کرتی ہے اس حالت کو مصیبت و رنج کی حالت کہتے ہیں، کہ انسان کا رد عمل اس موقع پر اشک بہانا اور بے تابی کرنا ہوتا ہے۔

جس طرح کہ خوشی کے مواقع پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اسکی یہ حالت سب کو واضح طور پر نظر آتی ہے۔

وہ ماں کہ جس کا بیٹا یا کوئی بھی عزیز دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسکے اشک اس کی اندرونی غم والی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس غم کی حالت میں وہ بے تابی کرتی ہے۔ یہ ماں کی فطرت میں سے ہے کہ نہ یہ کہ کوئی اس ماں کی مذمت نہیں کرتا بلکہ سب ایسی دل سوز ماں کی تعریف کرتے ہیں اور اسکے ساتھ اسکے غم میں شریک بھی ہوتے ہیں۔

لہذا نوحہ و مرثیہ خوانی اور عزا داری کرنا یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کی ذات اور فطرت میں پایا جاتا ہے۔ اس عمل کی نفی یا مخالفت کرنا گویا اک شئ کی ذات سے اس کی ذاتیات کو نفی کرنا ہے۔

آئمہ معصومین علیہم السلام کی صفات و خصوصیات فقط انہی کی ذات کے ساتھ مخصوص تھیں کہ عام عادی انسانوں میں وہ خصوصیات نہیں پا‏ئی جاتیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی جو صفات و خصوصیات ہیں وہ فقط انہی کے ساتھ خاص ہیں اور وہ کسی دوسرے معصوم میں نہیں پائی جاتیں۔ مثلا یہ کہ تمام انبیاء اور انکے اوصیاء نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد ان کے مصائب پر گریہ کیا ہے اور وہ سب اس گرئیے کو اپنے لیے باعث شرف و عزت سمجھتے تھے۔

ہم اس تحریر میں رسول خدا(ص) کے امام حسین(ع) کے غم میں گرئیے کے چند نمونے بیان کرتے ہیں البتہ اس بارے روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر تحریر میں ان سب کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم بہلے چند روایات کو شیعہ کتب سے اور پھر بعد میں اہل سنت کی معتبر کتب سے چند روایات کو ذکر کریں گئے۔

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات شيعه

اس بارے میں شیعہ کتب میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں ہم فقط ان میں سے چند روایات کو ذکر کرتے ہیں۔

شیخ صدوق(رح) اپنی کتاب عیون اخبار الرضاء میں لکھتے ہیں:

... فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ حَوْلٍ وُلِدَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) وَ جَاءَ النَّبِيُّ(صلي الله عليه و آله و سلم) فَقَالَ يَا أَسْمَاءُ هَلُمِّي ابْنِي فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ فِي خِرْقَةٍ بَيْضَاءَ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَي وَ أَقَامَ فِي الْيُسْرَي وَ وَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ فَبَكَي فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي مِمَّ بُكَاؤُكَ قَالَ عَلَي ابْنِي هَذَا قُلْتُ إِنَّهُ وُلِدَ السَّاعَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ بَعْدِي لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا أَسْمَاءُ لَا تُخْبِرِي فَاطِمَةَ بِهَذَا فَإِنَّهَا قَرِيبَةُ عَهْدٍ بِوِلَادَتِه...

عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج 2، ص 26.

اسماء کہتی ہے کہ: بعد والے سال میں حسین(علیہ السلام) پیدا ہوئے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و سلم نواسے کو دیکھنے کے لیے بیٹی کے گھر آئے اور فرمایا: اے اسماء میرے بیٹے کو لاؤ ۔ اسماء حسین(‏ع) کو اس حالت میں حضرت کے پاس لائی کہ وہ ایک سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی ۔ پھر رسول خدا(ص) حسین(ع) کو گود میں لے کر رونے لگے ۔

اسماء نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ اس خوشی کے موقع پر کہ آپ کا بیٹا دنیا میں آیا ہے، کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ(ص) نے فرمایا: میں اس لیے اپنے بیٹے کی حالت پر رو رہا ہوں کہ ظالم لوگ میرے بعد میرے اسی بیٹے کو شہد کریں گئے ۔ خدا وند ہر گز ان کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا ۔ پھر فرمایا کہ: اے اسماء اس شھادت کی خبر اس کی ماں کو نہ بتانا کیونکہ اس کا یہ بیٹا ابھی دنیا میں آیا ہے۔

مرحوم شيخ مفيد رحمۃ الله عليه اپنی كتاب الإرشاد ميں لکھتے ہیں کہ:

 عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ مِنْ عِنْدِنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ فَغَابَ عَنَّا طَوِيلًا ثُمَّ جَاءَنَا وَ هُوَ أَشْعَثُ أَغْبَرُ وَيَدُهُ مَضْمُومَةٌ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَرَاكَ أَشْعَثَ مُغْبَرّاً فَقَالَ أُسْرِيَ بِي فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ إِلَي مَوْضِعٍ مِنَ الْعِرَاقِ يُقَالُ لَهُ كَرْبَلَاءُ فَرَأَيْتُ فِيهِ مَصْرَعَ الْحُسَيْنِ وَ جَمَاعَةٍ مِنْ وُلْدِي وَ أَهْلِ بَيْتِي فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُ دِمَاءَهُمْ فِيهَا هِيَ فِي يَدِي وَ بَسَطَهَا فَقَالَ خُذِيهِ وَ احْتَفِظِي بِهِ فَأَخَذْتُهُ فَإِذَا هِيَ شِبْهُ تُرَابٍ أَحْمَرَ فَوَضَعْتُهُ فِي قَارُورَةٍ وَ شَدَدْتُ رَأْسَهَا وَ احْتَفَظْتُ بِهَا فَلَمَّا خَرَجَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) مُتَوَجِّهاً نَحْوَ أَهْلِ الْعِرَاقِ كُنْتُ أُخْرِجُ تِلْكَ الْقَارُورَةَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ فَأَشَمُّهَا وَ أَنْظُرُ إِلَيْهَا ثُمَّ أَبْكِي لِمُصَابِهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْعَاشِرِ مِنَ الْمُحَرَّمِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَخْرَجْتُهَا فِي أَوَّلِ النَّهَارِ وَ هِيَ بِحَالِهَا ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهَا آخِرَ النَّهَارِ فَإِذَا هِيَ دَمٌ عَبِيطٌ فَضَجِجْتُ فِي بَيْتِي وَ كَظَمْتُ غَيْظِي مَخَافَةَ أَنْ يَسْمَعَ أَعْدَاؤُهُمْ بِالْمَدِينَةِ فَيُسْرِعُوا بِالشَّمَاتَةِ فَلَمْ أَزَلْ حَافِظَةً لِلْوَقْتِ وَ الْيَوْمِ حَتَّي جَاءَ النَّاعِي يَنْعَاهُ فَحُقِّقَ مَا رَأَيْتُ.

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص130، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه. و إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 219، الفصل الثالث في ذكر بعض خصائصه و مناقبه و فضائله.

ام سلمہ(س) سے روایت ہے کہ: ایک رات کو رسول خدا(ص) ہم سے دور ہو گئے اور یہ دوری تھوڑی طولانی ہو گئی ۔ جب رسول خدا(ص) واپس آئے تو میں دیکھا کہ غبار آلود اور غمناک ہیں ۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ میں آپکو یہ کس حالت میں دیکھ رہی ہوں ؟ حضرت نے فرمایا: مجھے آج رات عراق لے جایا گیا اور زمین بنام کربلا دیکھائی گئی اور مجھے بتایا گیا کہ اس سر زمین پر میرے بیٹے حسین کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کے ساتھ شھید کیا جائے گا۔ میں نے ان سب کے خون کو جمع کیا ہے اور یہ وہی خون ہے جو اب میرے پاس موجود ہے۔

یہ کہہ کر رسول خدا(ص) نے وہ خون مجھے دیا اور کہا کہ: اس کو اپنے پاس رکھو ۔ میں نے خون ان سے لے لیا کہ جو سرخ رنگ کی خاک کی طرح تھا۔ میں نے اس خون کو اک شیشی میں رکھ دیا ۔ جب حسین علیہ السلام عراق ہجرت کر کے چلے گئے تو میں ہر روز اس شیشی کو دیکھتی اور سونگھتی تھی ۔ ہر روز حسین(ع) کی مصیبت پر گریہ کیا کرتی تھی ۔ جب دس محرم کا دن آیا تو میں نے صبح کے وقت شیشی کو دیکھا تو اپنی پہلی ہی حالت میں تھی لیکن جب میں نے اسے عصر کے وقت دیکھا تو سرخ خاک خون میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ میں نے یہ دیکھ کر چیخ ماری لیکن دشمن کے ڈر سے میں نے اس بات کو کسی کو نہ بتایا۔ میں ہمیشہ انتظار کی حالت میں تھی کہ ایک دن مدینے میں اعلان ہوا کہ حسین ابن علی(ع) کو کربلاء میں اہل و عیال کے ساتھ شھید کر دیا گیا ہے۔

اور پھر لکھتے ہیں کہ:

وَ رَوَي السَّمَّاكُ عَنِ ابْنِ الْمُخَارِقِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه و آله و سلم) ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسٌ وَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) فِي حَجْرِهِ إِذْ هَمَلَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَاكَ تَبْكِي جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ جَاءَنِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَعَزَّانِي بِابْنِيَ الْحُسَيْنِ وَ أَخْبَرَنِي أَنَّ طَائِفَةً مِنْ أُمَّتِي سَتَقْتُلُهُ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي.

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص130، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه. و إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 219.

ام سلمہ کہتی ہے کہ: ایک دن رسول خدا(ص) بیھٹے ہوئے تھے اور حسین(ع) بھی ان کی گود میں بیٹھے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ حضرت کی آنکھیں اچانک اشکوں سے بھر گئی ہیں ۔ میں نے عرض کیا:

یا رسول اللہ کیا ہوا ہے آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ:جبرائیل ابھی مجھ پر نازل ہوا ہے اور مجھے میرے بیٹے حسین کی شھادت کی تعزیت پیش کی ہے اور مجھے بتایا ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ حسین(ع) کو شھید کرے گا اور  خدا وند ہر گز ان کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا ۔

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص129، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه.

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات اهل سنت:

شمس الدین ذھبی عالم اہل سنت اپنی کتاب تایخ الاسلام میں لکھتا ہے کہ:

وقال الإمام أحمد في مسنده ثنا محمد بن عبيد ثنا شرحبيل بن مدرك عن عبد الله بن نجي عن أبيه أنه سار مع علي وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو سائر إلي صفين فنادي اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم وعيناه تفيضان فقال قام من عندي جبريل فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات وقال هل لك أن أشمك من تربته قلت نعم فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا وروي نحوه ابن سعد عن المدائني عن يحيي بن زكريا عن رجل عن الشعبي أن علياً قال وهو بشط الفرات صبراً أبا عبد الله وذكر الحديث

وقال عمارة بن زاذان ثنا ثابت عن أنس قال استأذن ملك القطر علي النبي صلي الله عليه وسلم في يوم أم سلمة فقال يا أم سلمة احفظي علينا الباب لا يدخل علينا أحد فبينا هي علي الباب إذ جاء الحسين فاقتحم الباب ودخل فجعل يتوثب علي ظهر النبي صلي الله عليه وسلم فجعل النبي صلي الله عليه وسلم يلثمه فقال الملك أتحبه قال نعم قال فإن أمتك ستقتله إن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه قال نعم فجاءه بسهلة أو تراب أحمرقال ثابت فكنا نقول إنها كربلاء

عمارة صالح الحديث رواه الناس عن شيبان عنه

وقال علي بن الحسين بن واقد حدثني أبي ثنا أبو غالب عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسيناً فكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لأم سلمة لا تدعي أحداً يدخل فجاء حسين فبكي فخلته أم سلمة يدخل فدخل حتي جلس في حجر رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال جبريل إن أمتك ستقتله قال يقتلونه وهم مؤمنون قال نعم وأراه تربته رواه الطبراني

وقال إبراهيم بن طهمان عن عباد بن إسحاق وقال خالد بن مخلد واللفظ له ثنا موسي بن يعقوب الزمعي كلاهما عن هاشم بن هاشم الزهري عن عبد الله بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم اضطجع ذات يوم فاستيقظ وهو خاثر ثم اضطجع ثم استيقظ وهو خاثر دون المرة الأولي ثم رقد ثم استيقظ وفي يده تربة حمراء وهو يقبلها فقلت ما هذه التربة قال أخبرني جبريل أن الحسين يقتل بأرض العراق وهذه تربتها

وقال وكيع ثنا عبد الله بن سعيد عن أبيه عن عائشة أو أم سلمة شك عبد الله أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لها دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها فقال لي إن ابنك هذا حسيناً مقتول وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها

رواه عبد الرزاق عن عبد الله بن سعيد بن أبي هند مثله إلا أنه قال أم سلمة ولم يشك

وإسناده صحيح رواه أحمد والناس

وروي عن شهر بن حوشب وأبي وائل كلاهما عن أم سلمة نحوه

تاريخ الإسلام ذهبي ج5/ص102

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں کہا ہے کہ..... وہ علی(ع) کے ساتھ جا رہا تھا اور پانی کا ایک برتن بھی میرے پاس تھا۔ جب وہ صفین جا رہے تھے تو راستے میں جاتے ہوئے نینوا پہنچے ۔ اچانک آواز دی کہ اے ابا عبد اللہ نہر فرات پر صبر کرو ۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ علی(ع) نے فرمایا کہ: میں رسول خدا کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور ان کی آنکھیں چشمے کی طرح اشک بہا رہی تھیں پھر انھوں نے مجھے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے بتایا ہے کہ تیرا بیٹا حسین(ع) نہر فرات کے کنارے شھید کیا جائے گا اور کہا کہ کیا تم اس خاک کربلاء کی خوشبو کو سونگھنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا جی، پھر انھوں نے اس خاک کو مجھے دیا ۔ یہ دیکھ کر میں بھی اپنے اشکوں کو نہ روک سکا۔

انس سے نقل ہوا ہے کہ جس دن رسول خدا حضرت ام سلمہ کے گھر تھے بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے وضو کرنے کی اجازت مانگی۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر  بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتے رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ثابت کہتا ہے کہ ہم اسکو کربلاء کی زمین کہتے ہیں ۔

.....رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم اپنی بیویوں سے فرماتے تھے کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار و گریہ  کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور رسول خدا(ص) کی گود میں آ کر بیٹھ گئے۔ جبرائیل نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ حضرت نے کہا کہ کیا وہ اس کو شھید کریں گئے اس حالت میں کہ وہ مؤمن بھی ہوں گئے ؟ جبرائیل نے کہا ہاں ایمان کا دعوی کرنے والے ہوں گئے۔ پھر اس نے خاک کربلاء کو حضرت کو دکھایا۔

...ام سلمه نے مجھے بتایا کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو  عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا نے فرمایا کہ آج میرے پاس ایسا فرشتہ آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اسی فرشتے نے بتایا ہے کہ آپکے بیٹے حسین کو شھید کر دیا جائے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔

اس روایت کی سند صحیح ہے احمد بن حنبل اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔

حاكم نيشاپوری اپنی كتاب المستدرك علي الصحيحين میں لکھتا ہے کہ:

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علي الجوهري ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعي عن أبي عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حُلْماً مُنْكَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِيدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِي حَجْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) خَيْراً رَأَيْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَيَكُونُ فِي حَجْرِكِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ(عليه السلام) فَقَالَتْ وَ كَانَ فِي حَجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ يَوْماً عَلَي النَّبِيِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ قَالَ أَتَانِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا وَ أَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 3، ص 176 - 177 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 196 - 197 و البداية والنهاية، ابن كثير، ج 6، ص 258 و.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلي الله عليه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمه(عليها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاكم نيشابوري اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسين علي بن عبد الرحمن الشيباني بالكوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني قال حدثني موسي بن يعقوب الزمعي أخبرني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وآله اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت به المرة الأولي ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقبلها فقلت ما هذه التربة يا رسول الله قال أخبرني جبريل(عليه الصلاة والسلام) ان هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل أرني تربة الأرض التي يقتل بها فهذه تربتها هذ حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 4، ص 398.

عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے:یہ حديث بخاري و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

طبراني نے معجم كبير، هيثمي نے مجمع الزوائد اور متقي هندي نے كنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا كربلاء فقال صدق الله ورسوله كرب وبلاء، وفي رواية صدق رسول الله صلي الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.

المعجم الكبير، الطبراني، ج 23، ص 289 - 290 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 188 - 189 و كنز العمال، المتقي الهندي، ج 13، ص 656 - 657 و....

ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسين عليه السلام نے فرمایا کہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

هيثمي اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.

اسی طرح، هيثمي مجمع الزوائد میں ، ابن عساكر تاريخ مدينه دمشق میں، مزّي تهذيب الكمال میں  اور ابن حجر عسقلاني  تهذيب التهذيب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت كان الحسن والحسين يلعبان بين يدي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيتي فنزل جبريل فقال يا محمد إن أمتك تقتل ابنك هذا من بعدك وأومأ بيده إلي الحسين فبكي رسول الله صلي الله عليه وسلم وضمه إلي صدره ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة وديعة عندك هذه التربة فشمها رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال ويح وكرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل قال فجعلتها أم سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر إليها كل يوم وتقول إن يوما تحولين دما ليوم عظيم.

تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 300 - 301 و تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 408 - 409 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 192 - 193 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 252 - 253 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و...

ام سلمه سے روايت ہوئی ہے کہ:

امام حسن و حسين عليهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  گريہ کیا اور حسين عليه السلام کو سينے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلاني اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و في الباب عن عائشة و زينب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبي أمامة و أنس بن الحارث و غيرهم.

اس بارے میں  روايات عايشه، زينب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح هيثمي ایک دوسری روايت نقل کرتا ہے کہ:

عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعي أحدا أن يدخل علي فجاء الحسين فلما نظر إلي النبي صلي الله عليه وسلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد في البكاء خلت عنه فدخل حتي جلس في حجر النبي صلي الله عليه وسلم فقال جبريل للنبي صلي الله عليه وسلم إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلي الله عليه وسلم يقتلونه وهم مؤمنون بي قال نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم قد احتضن حسينا كاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت يا نبي الله جعلت لك الفداء انك قلت لنا لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني ان لا أدع أحدا يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلي أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتي يقتلون هذا.

مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و المعجم الكبير، الطبراني، ج 8، ص 285 - 286 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 190 - 191 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 245 - 246 و....

ابو امامه سے روايت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّي اللّه عليه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسين عليه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرئيل نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔

جبرئيل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی اور کہا کہ یہ خاك اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غم کی حالت میں حسين علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پيغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔

التماس دعا ۔۔۔۔

 

 

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی پہاڑیوں کی آزادی کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ الجرود کی فتح لبنانی عوام کے صبر اور استقامت سے حاصل ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہاڑیوں کی آزادی، مفت میں حاصل نہيں ہوئی بلکہ اس کے لئے بہت زیادہ قربانیاں دی گئیں۔

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ چار سال پہلے پہاڑی علاقوں میں جو فتح حاصل ہوئی وہ شام کے خلاف عالمی جنگ اور خطرناک منصوبے کا حصہ تھی جو علاقے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔

حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ داعش شام پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور لبنان بھی اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔ داعش کا ہدف یہ تھا کہ شام کے صحرائی علاقے تدمر کو قلمون سے جوڑ دے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا تو جنگ اور بھی سخت ہو جاتی۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امریکہ، داعش کے ساتھ جنگ میں لبنانی حکومت کے راستے میں مانع تراشی کرتا رہا اور امریکہ نے ہی داعش کے کچھ سرغنوں کو افغانستان منتقل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا امریکہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ داعش کو امریکہ نے بنایا ہے اور افغانستان کا تجربہ خطے کے تمام ممالک کے لیے سبق ہونا چاہیے۔

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ لبنان اور شام کے عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف ہماری لڑائی اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے ممکن ہے۔ الجرود کی جنگ لبنان میں قوم، فوج اور مزاحمت کے مثلث کے لیے ایک نیا تجربہ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کا اس جنگ میں حصہ لینے کا ہدف لبنان کی حمایت اور اس کی زمینوں کو آزاد کرانا اور دشمن سے لڑنا تھا۔

 ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے دارالحکومت  کابل کے ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوگئے ۔ اس حملے کی ذمہ داری وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدرڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اپنے بعض وزراء کے ہمراہ  پہلے صوبائی دورے پر آج صبح خوزستان پہنچے، جہاں انھوں نے صوبہ کے اعلی حکام کے ساتھ اہم مسائل اور عوامی مشکلات کو دور کرنے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔

صدر رئیسی نے صوبہ خوزستان کے دورے کے دوران بعض تعمیری اور ترقیاتی پراجیکٹوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ صدر رئیسی نے اہواز کے رازی اسپتال کا دورہ کیا اور وہاں خدمت میں مشغول ڈاکٹروں اور طبی عملے کے اہلکاروں کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ رازی اسپتال کورونا بیماروں کے لئے مخصوص اسپتال ہے۔

صدر رئیسی نے صوبہ خوزستان ےک دیہاتوں میں آب رسانی کے پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا ۔ ایرانی صدر نے ہورالعظیم کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ صدر رئیسی نے صوبائی حکام پر زوردیا کہ وہ عوام کی خدمت کو سعادت اور نیکی سمجھ کر انجام دیں ، کیونکہ اس طرح وہ آخروی اجر سے بھی بہر مندہ  ہوسکیں گے۔

واضخ رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی آج صوبح صوبہ خوزستان کے عوام کی مشکلات کا قریب سے جائزہ لینے کے لئے اہواز پہنچے۔ ایرانی صدر کا یہ پہلا صوبائي دورہ ہے صدر رئيسی  کے ہمراہ  بعض وزراء بھی ہیں جن میں بجلی، زراعت ، صحت  اور داخلہ شامل ہیں۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ احمد وحیدی نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں  افغانستان کو ایران کا اہم ہمسایہ اور برادر ملک قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہمیشہ کی طرح افغانستان کی عظیم و بزرگ قوم کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا حامی ہے۔ انھوں نے ایرانی عوام کی خدمت کو بہت بڑی سعادت قراردیتے ہوئے کہا کہ  اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عہدے کے ذریعہ عوام کی خدمت کا موقع عطا کیا ۔ احمد وحیدی نے کہا کہ عوام کو درپیش مشکلات حل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اور ایران کے تمام صوبوں کے گورنر ، ضلعی اور دیہی حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنے منصبی فرائض سنجیدگی کے ساتھ ادا کریں۔

احمد وحیدی نے افغانستان کے شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جاری شرائط کی وجہ سے بعض افغان شہری ایران کی سرحدوں کے اندر آگئے اور ہم نے انھیں سہولیات فراہم کی ہیں جو افغانستان میں حالات سازگار ہونے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان سےملحقہ سرحد پر کوئي مشکل نہیں ہے۔ افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے اور ہم افغانستان کی عظيم قوم کی حمایت میں ماضي کی طرح کھڑے رہیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی تہران میں وزارتِ خارجہ آمد پر ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان نے ان کا خیر مقدم کیا. 

وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ایمبیسڈر محمد صادق ،ایران میں تعینات پاکستانی سفیر رحیم حیات قریشی اور دیگر سینئر افسران بھی پاکستانی وزیر خارجہ کے ہمراہ تھے. 

پاکستانی وزیر خارجہ نے اس ملاقات میں وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے پر ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان کو مبارکباد دی. 

ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، ایران کے ساتھ دو طرفہ برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ اپریل 2021 میں میرے گذشتہ دورہ  ایران کے دوران، پاکستان اور ایران کے مابین بارڈر مارکیٹوں کے قیام اور نئے بارڈر کراسنگ پوائنٹ کھولنے کے حوالے سے اہم مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں پر عملدرآمد سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ آمدو رفت میں بھی سہولت پیدا ہو گی. 

پاکستان کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی مراسم بڑھانے کیلئے، ادارہ جاتی میکنزم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے. 

 فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے ایک اعلی رکن محمد الہندی نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ذلت آمیز تھا۔

جہاد اسلامی کے اعلی رکن نے کہا کہ امریکی، افغانستان پر 20 سال تک قبضہ کرنے کے بعد آخر کار  ذلت آمیز طریقہ سے خارج ہونے پر مجبور ہوگئے، جو خطے میں  امریکہ کی شکست اور ناکامی کا مظہر ہے۔  جہاد اسلامی کے رہنما نے جنگ شمشیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ شمشیر میں اسلامی مزاحمت کی کامیابی دنیا کے سامنے نمایاں ہوگئی۔

انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کی ایک عظيم طاقت میں تبدیل ہوگیا ہے جو اپنے استقلال ، آزادی اور ملکی اور قومی سلامتی کے لئے تلاش و کوشش کررہا ہے۔ ایران امریکی ظالمانہ پابندیوں کے باوجود ترقی اور پیشرفت کی سمت گامزن ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے جنگ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان نے گائیڈڈ میزائل " فتح ون "  کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق فتح ون میزائل روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئی ایس پی آر  کے مطابق فتح ون پاک فوج کو دشمن کے علاقے میں دور تک ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل بنائے گا۔

حضرت امام حسین (ع) کا غم منانا سنت نبویﷺ ہے۔ فریقین (اہل سنت و شیعہ حضرات) کی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں کہ ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ کو  اُن کی حیاتِ مبارکہ میں حضرت جبرائیل ؑ نے امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر دی تھی اور حضورﷺ نے اپنی زندگی میں ہی متعدد مرتبہ امام حسین (ع) پر گریہ کیا تھا اور آپ ؐ غمگین ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان آج غم منانے کی نفسیاتی کیفیات میں اختلاف ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اگر چار بھائیوں کا باپ فوت ہو جائے تو ایک بیٹے کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا، وہ زور زور سے روتا ہے اور اپنے آپ کو پیٹتا ہے، جبکہ دوسرا بے تابی کا اظہار کھلے عام نہیں کرتا، وہ مہمانوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور تیسرا باپ کی قبر کھودنے و کفن دفن میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چوتھا بیٹا باپ کیلئے قرآن خوانی و صدقہ و خیرات کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اختلاف سگے بھائیوں، دوستوں، میاں بیوی، ہمسایوں حتی کہ استاد و شاگرد کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے درمیان بھی غمِ امام حسینؑ منانے کے حوالے سے یہ فرق نظر آتا ہے۔ یہ اندازِ غم کی تفریق اپنی جگہ لیکن ظالم کے خلاف احتجاج کرنے، ظالم کی مذمت کرنے، ظالم پر لعنت کرنے اور مظلوم کی مدد و نصرت اور مظلوم پر گریہ کرنے میں قرآن و سنت کی رو سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اہلِ سنت کے ہاں بھی محرم الحرام میں حضرت امام حسین ؑ کی یاد میں تقریبات و محافل کا انعقاد ہوتا ہے، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں اور کانفرنسز کا اہتمام  کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں رسول ؐ کی سنت کے احیاء کیلئے امام حسین ؑ پر گریہ بھی کیا جاتا ہے اور امام حسینؑ کے قیام کے فلسفے و اہداف اور قاتلوں کی اصلیت کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اہلِ سنت کی محافل و مجالس کا حُسن یہ ہے کہ ان محافل و مجالس میں عشق و عقیدت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اہلِ سنت کے بعض خطباء بڑی بیباکی سے قاتلین کے چہرے سے نقاب کشائی کرتے ہیں اور اپنی ملت کو امام حسین ؑکے نقشِ قدم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ محرم الحرام میں اہلِ تشیع کے ہاں بھی اسی عقیدت اور ولولے کا اظہار بدرجہ اتم کیا جاتا ہے۔ اہلِ تشیع کے ہاں امام حسین ؑ کی یاد، غم اور گریے کے حوالے سے دو طرح کی چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے:

1۔ وہ چیزیں جن سے غم کا سماں اور ماحول بنتا ہے۔ جیسے کالے کپڑے، سیاہ رنگ، ذوالجناح، یعنی امام حسینؑ کے گھوڑے کی شبیہ بنانا، ننگے پاوں چلنا، سر اور بالوں میں مٹی ڈالنا، حضرت امام حسین ؑ اور دیگر شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ بنانا، شہدائے کربلا کے علم و پرچم کی شبیہ بنانا، ایسے بینر اور کتبے بنانا جن سے شہدائے کربلا کے ساتھ عقیدت کا اظہار ہو، ماتمی دستے بنا کر باقاعدہ ماتم کرنا، کربلا کے پیاسوں کی یاد میں پانی، شربت اور دودھ کی سبیلیں لگانا، تبرک، کھانے اور لنگر کا وسیع انتظام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
2۔ وہ چیزیں جو مصیبتِ امام اور مشن امام حسینؑ کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ جیسے نوحہ خوانی، قصیدہ گوئی، مرثیہ خوانی، تقاریر، مصائب، دوہڑے اور بند وغیرہ۔

جب ہم حقیقی و باشعور اہلِ سنت اور اہلِ علم شیعہ حضرات کے ہاں حضرت امام حسین ؑ کے بارے میں حضور نبی اکرمﷺ کی احادیث دیکھتے ہیں، آپ کا غم اور گریہ دیکھتے ہیں، امام حسینؑ کے زمانے کے حالات و واقعات دیکھتے ہیں، حضرت امام حسینؑ  کے مشن اور اہداف کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے صرف دو گروہ ہیں۔ ایک وہ ہیں جو  61 ھجری میں بھی یزید کے ہمراہ تھے، آج بھی اس کے ہمراہ ہیں اور دوسرے وہ ہیں، جو کربلا میں اگر موجود تھے تو شہید ہوگئے اور اگر موجود نہیں تھے تو وہ شہادتِ امام حسینؑ کی خبر سن کر سخت غمزدہ ہوئے اور آج بھی غمگین ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں، جو حضرت امام حسینؑ کو حق پر سمجھتے ہیں اور یزید کو مطلقاً باطل قرار دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ شہادت امام حسینؑ کے بعد مسلمانوں کے دو گروہ ہیں: ایک جو  بظاہر یا اندرونِ خانہ اس خونریزی پر خوش ہیں اور یزید کے مظالم پر سکوت اختیار کرنے کا پرچار کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں، جو اس ظلم و بربریت پر خاموشی کو بھی ظلم اور یزید کے ساتھ محشور ہونے کا باعث سمجھتے ہیں، وہ مسلسل چودہ سو سالوں سے غم ِامام حسینؑ مناتے ہیں اور یزید کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ پس اب کربلا کے نکتہ نظر سے دو طرح کے مسلمان ہیں: حسینی و یزیدی۔ باقی فقہی و فرعی تقسیم صرف نماز و روزے کے انجام دینے کے طریقے کی حد تک درست ہے۔

اب یہاں پر ان چیزوں کا بھی ذکر کیا جانا ضروری ہے کہ جو ہمارے معاشرتی رویوں، ذاتی دلچسبیوں اور عوامی جہالت کی پیداوار ہیں۔ خواص کو چاہیئے کہ وہ وسعت قلبی کے ساتھ، سارے فرقوں سے برتر ہو کر عوام کو ایسی عزاداری منانے کی دعوت دیں، جو خدا اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرنے کی باعث بنے۔ یہاں پر ضروری ہے کہ عوام کو یہ آگاہی دی جائے کہ بدعات اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بدعت کا مفہوم اور مصادیق سمجھائے جائیں۔ مفاہیم اور مصادیق کو واضح کئے بغیر صرف بدعت کا فتویٰ دینے سے مسائل نہیں سلجھیں گے۔
ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہر ایسا کام جس کی قرآن مجید اور پیغمبر ِاسلام کی زندگی میں مثال نہ ملے، اُسے بدعت کہتے ہیں۔ آسان لفظوں میں جو کام دینِ اسلام میں نہ ہو، اُسے دینی فعل کہہ کر دین میں داخل کرنے کا نام یا دین سے حذف کرنے کا نام بدعت ہے۔

مزید آسانی کیلئے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ بدعت کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ یا کمی کرنا۔
۲۔ کسی بھی فعل کو اپنی طرف سے ایجاد کرکے اس کے احترام، ثواب یا عذاب کا عقیدہ رکھ لینا۔
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ دینِ اسلام میں کسی بھی نوآوری کی ممانعت نہیں۔ ممانعت تب ہے، جب مسلمان کسی نئی چیز کو اختراع کرے اور اسے دین کہنا شروع کر دے۔ لہذا دین کے لیبل کے بغیر کوئی چاہے جتنی مرضی ہے تقریبات منعقد کرے اور جو مرضی ہے کرے، اُسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ ذکرِ امام حسینؑ اور عزاداری و ماتم میں چونکہ عوام کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، لہذا عام لوگ جو سوچتے ہیں، اُسے ہی اپنے طور پر ثواب سمجھ کر انجام دینا شروع کر دیتے ہیں، جو کہ گمراہی کا سبب ہے۔ عوام کو چاہیئے کہ وہ اپنی طرف سے دین سمجھ کر کسی چیز کا اضافہ کرنے کے بجائے اپنے دیندار اور باشعور علماء خصوصاً مراجع کرام اور مجتہدین سے رجوع کریں۔ ان سے پوچھیں کہ ہمارا یہ فعل کہیں بدعت اور گمراہی تو نہیں۔

اسی طرح بہت سارے ایسے سلسلے جو ماضی سے چلے آرہے ہیں، اُن پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ مثلا نوحہ خوانی، مرثیہ خوانی اور تقاریر میں عصرِ حاضر کے یزیدوں سے مقابلے کا عنصر بھی ہونا چاہیئے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیئے کہ آج اگر امام حسینؑ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ آج مسلمانوں کی پسماندگی، جہالت، فرقہ واریت، شدت پسندی ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازی، کشمیر اور فلسطین کی ماوں بہنوں کے حوالے سے ملت اسلامیہ کو کیا پیغام دیتے!؟ امام حسین کے مکتوبات و خطبات کو عصرِ حاضر کے تناظر میں بیان کیا جانا چاہیئے، تاکہ دنیا بھر کے مسلمان امام عالی مقام ؑ کے نقشِ قدم پر چل سکیں۔ راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ امام حسینؑ نے اپنا فریضہ اور ذمہ داری انجام دے دی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے مسالک اور فرقوں کی دکانوں سے بلند ہو کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر  کے تحت اپنے اپنے مسالک و مکاتب کے عوام کی اصلاح کریں اور کربلا والوں کا فریضہ انجام دیں۔ اگر آج بھی ہم امام عالی مقام ؑ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اصلاحِ معاشرہ کیلئے فعال ہیں تو ہم حسینی ہیں ورنہ۔۔۔۔۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

افغانستان پر حکمرانی اور اپنے عروج کے دنوں میں بھی طالبان کو افغانستان کے شمالی صوبے پنج شیر سے دور رکھنے میں اہم کردار احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کا تھا۔ پنج شیر کا شمار افغانستان کے قدرے پر امن اور طالبان مخالف صوبوں میں ہوتا ہے، جو دارالحکومت کابل سے 130 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ احمد شاہ مسعود کا آبائی علاقہ بھی ہے جنہوں نے پہلے سوویت یونین اور بعد میں طالبان کے خلاف اپنے علاقے کا کامیاب دفاع کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود ایک ممتاز افغان جنگجو کمانڈر رہے ہیں اور انہوں نے سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد کی جنگ میں دوسرے افغان رہنماؤں کی طرح اس جنگ میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہندوکش کی برف پوش پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں واقع پنج شیر میں سوویت شکست کے آثار اب بھی موجود ہیں روسی فوج نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کئی بار فوج کشی کی مگر ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

القاعدہ اور طالبان جنگجوں سے بیک وقت نمبرد آزما احمد شاہ مسعود نے اتنہائی کٹھن حالات میں بھی طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک مزاحمت کروں گا جب تک میرے پاس میرے سر جتنی جگہ باقی ہوگی۔ احمد شاہ مسعود کو 9 ستمبر 2011ء کو افغانستان کے صوبے پنج شیر میں 2 عرب حملہ آوروں نے بم حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ حملہ آور صحافیوں کے بھیس میں احمد شاہ مسعود سے ملنے گئے تھے۔ طالبان جنگجوؤں کا خیال تھا کہ احمد شاہ مسعود کی موت کے بعد وہ افغانستان پر اپنے نامکمل قبضے کو مکمل کرلیں گے تاہم نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے باعث طالبان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور امریکا شمالی اتحاد کے مدد سے کابل میں متبادل حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور پنج شیر احمد شاہ مسعود کے ہلاکت کے بعد بھی ناقابل تسخیر ہی رہا۔

احمد مسعود کا اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی ہے تاہم پنج شیر میں موجود سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ اشرف غنی کی غیر موجودگی میں نگراں افغان صدر ہیں اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ طالبان کے دوبارہ کابل پر قبضے کے بعد آج بھی پنج شیر واحد صوبہ ہے جو طالبان کے کنٹرول سے باہر ہے اور وہاں پر احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور ان کے سینئر ساتھی امراللہ صالح اس وقت طالبان کے خلاف ایک بار پھر مزاحمت کی تیاری کررہے ہیں۔ جہاں ایک طرف امرللہ صالح تمام طالبان مخالف دھڑوں کو مزاحمتی تحریک کا حصہ بننے کی دعوت دے رہے ہیں، وہیں احمد مسعود بیرونی سطح پر طالبان کے خلاف جنگ کے لئے اتحادی ڈھونڈنے کے لئے کوشاں ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک حالیہ مضمون میں احمد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر امریکی حکومت ان کو اسلحہ مہیا کرے تو وہ انتہا پسند طالبان کو پنج شیر پر قبضے سے روک سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کے ہمراہ طالبان کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہوں۔ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ امریکی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ امریکا کو افغان عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر تنہا نہیں چھوڑنا چاہیئے بلکہ طالبان مخالف قوتوں کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیئے۔ طالبان اپنے حریفوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرچکے ہیں اور انسانی و خواتین کے حقوق کی ضمانت بھی دے رہے ہیں، تاہم طالبان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے افغان عوام میں اس حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

کیا طالبان اس مرتبہ پنج شیر پر قبضہ کر پائیں گے؟
نوے کی دہائی میں بھی جب طالبان نے افغانستان کے مختلف صوبوں پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بھی وہ پنج شیر کا کنٹرول حاصل نہیں کر پائے تھے۔ احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد نے پنج شیر میں طالبان کو اپنے قدم جمانے نہیں دیئے تھے۔ افغان اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ کوہ ہندو کش کی بلند و بالا پہاڑیوں میں گھری وادیٔ پنج شیر اپنے محل و وقوع کی وجہ سے طالبان کی پہنچ سے دُور رہی ہے۔ اُن کے بقول یہ قدرتی طور پر ایک محفوظ علاقہ ہے جس کا ایک ہی راستہ کابل کی طرف نکلتا ہے جب کہ تین اطراف سے یہ ایک طرح سے بند ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کسی بھی حملہ آور کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ احمد شاہ مسعود ایک پرعزم جنگجو تھا جس کے ساتھ کئی وفادار ساتھی طالبان کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔ البتہ اُن کے بقول اب صورتِ حال مختلف ہے کیوں کہ احمد مسعود کے ساتھ جو جنگجو ہیں وہ اتنے پرعزم نہیں ہیں، لہذٰا طالبان نے پنج شیر کی جانب پیش قدمی کی صورت میں وہ اس علاقے پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کو ایران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ تاہم اب ایران بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے جس کے بعد احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کے پاس بہت کم آپشنز باقی بچے ہیں۔

پنج شیر اب تک ناقابل تسخیر کیوں ہے؟
وادی پنج شير کو اس کا محل وقوع دفاعی اعتبار سے مضبوط بناتا ہے وادی تک رسائی صرف دريائے پنج شير کے ساتھ ايک تنگ راستے سے ممکن ہے۔ پنج شیر کی وادی مشہور ہندوکش پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ہے جبکہ دریائے پنچ شیر افغانستان کے اہم دریاؤں میں سے ایک ہے۔ پنج شیر اوسطً سطح سمندر سے 2200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ اس کے بعض مقامات سطح سمندر سے 6 ہزار میٹر کی بلندی پر بھی ہیں۔ پنج شیر وادی میں زمرد کی کان کنی اور افغانستان کے لئے توانائی کا ایک بڑا مرکز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ پنج شیر ہمیشہ ایک اہم شاہراہ رہا ہے، تقریباً 100 کلومیٹر لمبا یہ ہندوکش کے دو راستوں کی طرف جاتا ہے۔

خاوک پاس شمالی میدانی علاقوں کی طرف جاتا ہے اور انجمن پاس بدخشان میں داخل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم اور تیمور کی فوجوں نے انہیں استعمال کیا تھا۔ یہ خطہ دریاؤں اور ندیوں کے ایک پیچیدہ نظام پر مشتمل ہے جو گھاٹیوں سے گزرتا ہے لہذا وہ جنگ کے دوران ایک بہترین قدرتی پناہ گاہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ علاقہ ایک قلعے کی صورت میں ہے جس کے باعث یہ بیرونی حملہ آوروں کے لئے ہمیشہ سے ایک مشکل محاذ ثابت ہوا ہے۔ جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو سوویت افواج کو یہاں پر سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور متعدد کوششوں کے باوجود وہ اس وادی پر قبضہ نہیں کرسکے تھے اور یہ وادی روسی فوجیوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔

رپورٹ: ایم رضا