سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حسینیہ امام خمینی (رہ) میں سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کی یاد میں  پہلی مجلس عزا منعقد ہوئی۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی کورونا وائرس کی روک تھام اور رہبر معظم انقلاب اسلامی  کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید کی روشنی میں مجالس عزا میں عوام کو دعوت نہیں دی گئی ۔ مجالس عزا کا سلسلہ محرم الحرام کی ساتویں شب سے لیکر بارہویں شب تک جاری رہےگا۔مجالس عزا کا پروگرام ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جائےگا۔

Sunday, 15 August 2021 09:22

مستقبل کا افغانستان


طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی جاری ہے۔ طالبان اندازوں سے کہیں زیادہ سرعت سے کابل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ غزنی اور قندھار کے بعد مزار شریف بھی طالبان کے ہاتھوں سقوط کر گیا ہے۔ افغانستان کے شہر مزار شریف کے مکمل سقوط کر جانے کی خـبریں کنفرم ہوچکی ہیں۔ طالبان کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صوبہ بلخ کا صدر مقام مزار شریف مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا ہے۔ مزار شریف شمالی افغانستان کا اہم ترین شہر شمار ہوتا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد مزار شریف جیل میں موجود تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ مزار شریف ماضی میں طالبان سے فتح نہیں ہوسکا تھا۔ اس بار طالبان نے جنگی حکمت  عملی تبدیل کرکے اس اہم شھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمانڈر عطاء محمد نور اور مارشل دوستم جو مزار شریف کا دفاع کر رہے تھے، حیرتان نامی علاقے کی جانب کوچ کرگئے ہیں، بعض خبروں میں ان کے تاجکستان فرار کی خبریں موصول ہوئي ہیں۔

طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ اب نوشتہ دیوار ہے۔ ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک ان کو تسلیم کرنے پر تیار  نظر آرہے ہیں۔ ایران کی پہلی ترجیح افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء ہے۔ امریکہ پینترا بدل کر پلان بی پر عمل درآمد ضرور کرے گا۔ افغانستان میں ناامنی جاری رہے گی اور یہی امریکی خواہش ہے۔ امریکہ کا بی پلان کیا ہے، اس ہر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فوجی انخلاء کے باوجود ایک فور اسٹار امریکی جرنیل کی تعیناتی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مزار شریف پر قبضے سے پہلے طالبان گروہ، شبرغان، نیمروز، قندوز، سرپل، سمنگان، پلخمری، تخار اور فراہ پر قبضہ کرچکا ہے جبکہ غزنی، ہلمند، قندھار اور ہرات پر بھی طالبان کا تسلط ہے۔ ادھر امریکی ذرائع ابلاغ دارالحکومت کابل پر قبضے کی بات کر رہے ہیں۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ  افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ سی آئی اے کی پیش گوئی سے پہلے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد چھے ماہ سے ایک سال کے اندر طالبان کابل میں داخل ہوسکتے ہیں، لیکن اب ایک انٹیلی جینس افسر نے صاف صاف کہا ہے کہ ہر چیز غلط راستے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ ہم نے بیس سال کے دوران ٹریلینز ڈالر افغانستان پر خرچ کیے ہیں اور اب افغانیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے لیے خود جنگ کریں۔ افغانستان کے عوامی اور سیاسی رہنماء ملک کی موجودہ صورتحال کو امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ معاہدے کا نتیجہ قرار  دے رہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری دوہزار بیس میں ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغانستان سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، یہ عمل گیارہ ستمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں حملے تیز کر دیئے تھے اور  اس وقت ملک کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چین، روس ایران اور پاکستان طالبان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغان صدر اقتدار سے الگ ہونے کے لئے جو شرط عائد کر رہے ہیں، طالبان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اشرف غنی انتخابات یا موجودہ آئین کے اندر رہ کر شرکت اقتدار کی بات کرتے ہیں جبکہ طالبان موجودہ افغان آئین کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور امارت اسلامی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ کابل پر طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے کو قبول نہیں کیا جائیگا، ایک واضح اشارہ ہے کہ طالبان مختلف گروہوں کو ملا کر اقتدار میں آئے۔ طالبان کی حکمت عملی کے پیچھے اسلام آباد کے بالواسطہ مشورے شامل ہیں اور طالبان کابل کے مکمل محاصرے کے بعد مختلف گروہوں کو ملا کر شرکت اقتدار کا ایک جامع منصوبہ سامنے لائے گا، جس کو پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک حتی عالمی ادارے بھی تسلیم کر لیں گے۔ طالبان کے عمل و کردار میں ماضی کی نسبت کیا تبدیلی آسکتی ہے، وہ ان کی مرکزی قیادت میں تو قابل درک ہے، لیکن مقامی قدامت پسند اور روایتی ملاں مرکزی قیادت سے کتنے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ امریکہ بہادر، چین، روس اور ایران کو ایسا افغانستان ہرگز نہیں دے سکتا، جو امریکی مفادات کی بجائے ان ممالک کے لئے سودمند ثابت ہو۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

پاکستان کے انتہائی معروف خطیب اور مبلغ مولانا طارق جمیل کی نگرانی اور سرپرستی میں کچھ عرصہ پہلے ایک ضخیم کتاب بعنوان ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے اہل بیت رسالت کے فضائل اور تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چوتھے باب کی ایک فصل امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ اس باب میں امام حسینؑ کے بارے میں موجود مطالب کا ایک انتخاب ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ پہلی قسط میں کتاب کا پس منظر امام حسن و حسینؑ کے مشترکہ فضائل، امام حسین علیہ السلام کا بچپن اور چند دیگر مطالب اس کتاب سے پیش کیے ہیں۔ ذیل میں کچھ مزید مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں، جو واقعۂ کربلا کے پس منظر کے بیان سے شروع ہوتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ سانحہ کربلا کا پس منظر اور واقعات کتاب میں قدرے تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ کوفہ میں امام حسینؑ کے نمائندہ خصوصی حضرت مسلم بن عقیلؑ  کی جواں مردی اور پھر مظلومانہ شہادت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے مکہ مکرمہ سے قافلہ حسینی کی روانگی کے موقع پر پیش آنے والے بعض واقعات بھی سپرد قلم کیے گئے ہیں۔ حضرت علی ؑ کے بھتیجے اور داماد حضرت عبداللہ بن جعفرؑ کے بارے میں لکھا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کو جب آپؓ کی روانگی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں حضرت حسینؓ کو خط روانہ کیا، جس میں ان کو مکہ واپسی کا مشورہ دیا۔ جب یہ خط حضرت حسینؓ کو پہنچایا گیا تو آپ نے اپنے اس عزم کوفہ کو اسی طرح برقرار رکھا اور اپنے اس عزم کی ایک اور وجہ بھی بیان کی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا ہے۔ مجھے آپﷺ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے، میں اس حکم کی بجا آوری کی طرف جارہا ہوں، خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے۔ (گلدستہ اہل بیتؑ: ص ۳۴۹) کوفہ کے قریب پہنچ کر امام حسینؑ کا سامنا حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ہوا۔ اس کے حوالے سے لکھتے ہیں: حُر نے کہا: مجھے آپ سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ یہ حکم ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں، جب تک آپ کو کوفہ نہ پہنچا دوں۔ حُر مع اپنے لشکر کے، حضرت حسینؓ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔

اسی اثناء میں حضرت حسینؓ نے ایک اہم تقریر کی، جو حضرت حسینؓ  کے اس سفر کوفہ کی غرض واضح کرتی ہے، چنانچہ آپؓ نے حمد و ثناء کے بعد فرمایا: أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) قالَ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». ألا وَ إِنَّ هؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَةَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَہُ۔۔۔ "اے لوگو! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے، جو اللہ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ کے عہد کو توڑ دے، سنت رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم و عدوان کا معاملہ کرے اور یہ شخص اس بادشاہ کے ایسے افعال و اعمال دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اس ظالم بادشاہ کے ساتھ اس کے ٹھکانے (یعنی دوزخ) میں پہنچا دے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یزید اور اس کے امراء و حکام نے شیطان کی پیروی کو اختیار کر رکھا ہے، رحمن کی اطاعت کو چھوڑ رکھا ہے، زمین میں فساد پھیلا دیا ہے، حدود الٰہیہ کو معطل کر دیا ہے، اسلامی بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے اور اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا رکھا ہے۔۔۔‘‘(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۰)

معرکۂ کربلا کی تاریخ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ لشکر یزید کا سپہ سالار عمر بن سعد آپ سے مذاکرات کرتا رہا اور اس کی خبر کوفہ میں یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو دیتا رہا، لیکن بالآخر ابن زیاد نے شمر ابن ذی الجوشن کے ہاتھ عمر ابن سعد کے نام ایک مکتوب روانہ کیا۔ کتاب میں اس مکتوب کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اما بعد! میں نے تمھیں اس لیے نہیں بھیجا کہ تم جنگ سے بچو، یا ان کو مہلت دو، یا ان کی سفارش کرو۔ سنو! اگر حسین اور ان کے ساتھی میرے ہی حکم پر صلح کرنا اور میرے پاس حاضر ہونا چاہتے ہیں تو ان کو صحیح سالم یہاں پہنچا دو، ورنہ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ ان کو قتل کر دو۔ مُثلہ کرو (یعنی۔ نعوذ باللہ۔ ان کے ناک، کان، ہاتھ، پائوں کاٹ دو) کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں اور پھر قتل کے بعد ان کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالو۔ اگر تم نے ہمارے اس حکم کی تعمیل کی تو تم کو ایک فرمانبردار کی طرح انعام ملے گا اور اگر اس کی تعمیل نہیں کرتے تو ہمارے لشکر کو فوراً چھوڑ دو اور چارج شمر کے سپرد کردو۔ والسلام۔‘‘ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۲)

امام حسینؑ لشکر یزید کے سامنے آئے اور بقول مصنف ’’دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے ایک درد انگیز اور دلوں کو ہلا دینے والی تقریر کی۔‘‘ اس تقریر کا ایک اقتباس ان الفاظ میں درج کیا گیا ہے: "اے لوگو! تم میرا نسب دیکھو، میں کون ہوں؟ پھر اپنے دلوں میں نگاہ ڈالو: کیا تمھارے لیے جائز ہے کہ تم مجھے قتل کرو اور میری عزت پر ہاتھ ڈالو؟ کیا میں تمھارے نبیﷺ کی صاحبزادی سلام اللہ و رضوانہ علیہا کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا یہ مشہور حدیث تمھیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اور میرے بھائی حسنؓ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا ہے؟" (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۳و۳۵۴) شہدائے کربلا میں سے مختلف شخصیات کا ذکر کرنے کے بعد امام حسینؑ کی شہادت کو ان الفاظ میں بیان کو گیا ہے: اس کے بعد شمر دس آدمی ساتھ لے کر حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا (کہ عمر بن سعد نے شمر کو لشکر کے بائیں حصے کا امیر مقرر کر رکھا تھا)۔

آپؓ کی جب اس پر نظر پڑی تو فرمایا: اللہ اور اس کے رسولﷺ سچ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: كَأَنّي أنظُرُ إلى كَلبٍ أبقَعَ يَلَغُ في دِماءِ أهلِ بَيتي’’ گویا میں ایک دھبے دار جسم والے کتے کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ میرے اہل بیت کا خون پی رہا ہے۔‘‘(بدبخت شمر کو برص کی بیماری تھی، جس سے جسم پر سفید دھبے بن جاتے ہیں)۔ حضرت حسینؓ شدید پیاس اور اپنے زخموں کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کر رہے تھے اور جس طرف بڑھتے تو یہ لوگ ایسے بھاگتے نظر آتے تھے، جیسے شیر کے سامنے بکریاں بھاگتی ہیں۔ اہل تاریخ نے کہا ہے کہ یہ ایک بے مثل واقعہ ہے کہ جس شخص کی اولاد اور اہل خانہ قتل کر دیے گئے ہوں، خود اس کو شدید زخم لگے ہوں اور وہ شدت پیاس کے باوجود پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہو اور وہ اس حالت میں اس طرح ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہا ہے کہ جس طرف رخ کرتا ہے، مسلح سپاہی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگنے لگتے ہیں۔ شمر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت حسینؓ کو قتل کرنے سے ہر شخص بچنا چاہتا ہے تو آواز دی کہ سب مل کر اکٹھے حملہ کرو۔ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے، نیزوں اور تلواروں سے ایک دم اکٹھے حملہ کیا اور رسول اللہﷺ کے اس صاحبزادے اور اس وقت کی روئے زمین کی سب سے عظیم ہستی نے ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے حق کی خاطر جان دے دی اور شہید ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۵و۳۵۶)

امام حسینؑ کے فضائل کے حصے میں متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں۔ چند ایک ملاحظہ کیجیے:
۱۔ حُسَیْنُ مِنّی وأنا مِنَ الحسین، أحَبَّ اللہُ مَنْ أحَبَّ حُسَیْنًا، حُسَینٌ سِبطٌ مِنَ الا سباطِ  ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں(یعنی حسین کا مجھ سے گہرا تعلق ہے)۔ اللہ اس سے محبت کرے، جو حسین سے محبت کرے۔ حسین (میرا خاص) نواسہ ہے۔"(بحوالہ:سنن ابن ماجہ:۱/۵۱)
۲۔ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک لایا گیا، تو وہ بدبخت آپؓ کے سر کو ایک ’’طشت‘‘میں رکھ کر اسے چھڑی سے کریدنے لگا اور آپؓ کے حسن و جمال کے بارے میں کوئی نازیبا بات بھی کہی۔ مشہور صحابی حضرت انسؓ وہاں موجود تھے، انھوں نے جرأت کرکے اس سے کہا: ’’یہ تو حضورﷺ کے بہت مشابہ تھے۔‘‘ اس وقت حضرت امام حسینؓ کے بالوں میں ’’وسمہ‘‘ کا خضاب لگا ہوا تھا۔(بحوالہ:صحیح البخاری:۵/۲۶)
۳۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہٗ فَاَ حِبَّہٗ ۔۔۔اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔( بحوالہ:المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۳/۱۹۶)
۴۔ حضورؐ نے حضرت امام حسینؓ کے بارے میں فرمایا: مَنْ أَحَبَّ ھَذَا فَقَدَ أَحَبَّنِی۔ جس نے اس سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔(بحوالہ:مجمع الزوائد و منبع الفوائد:۹/۱۸۶ )(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۶۹و۳۷۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اس حصے میں تمام عبارتیں جن میں قوسین کے اندر موجود عبارتیں بھی شامل ہیں، اصل کتاب سے من و عن نقل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ راقم کے مضمون کی عبارتیں واضح طور پر جدا موجود ہیں۔ حوالہ جات بھی کتاب ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ ہی سے درج کیے گئے ہیں۔
 
 تحریر: ثاقب اکبر
 

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ محرم الحرام   وہ مقدس مہینہ ہے جس میں دین اسلام کی بقا اور دوام کے لئے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) نے اپنا پورا کنبہ لٹا دیا، اور اپنے اعزا و اقربا اور اصحاب کے  خون سے اسلام کی آبیاری کی۔ ۔واقعہ کربلا محض ایک  واقعہ یا اسلامی تاریخ کا ایک باب نہیں  بلکہ یہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک واضح مثال ہے۔سانحہ کربلا نے دنیا میں  بنی نوعِ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور حق و باطل کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ آج بھی ایک  گروہ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کا پیروکار اور شیعہ ہے جو حق اور سچ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ دوسرا گروہ یزید ، معاویہ ، ابوسفیان اور ہندہ جگر خوارہ کا طرفدار ہے جو آج بھی ظلم اور ظالم کا طرفدار ہے۔

واقعہ کربلا کی  حقانیت  آج بھی ہر باضمیر  انسان  کےچہرے سےچھلکتی ہے،اگرچہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو ۔اگر کسی بھی شخص کا   ضمیر زندہ ہے اور اسکے دل میں انسانیت کے لئے درد پنہاں ہے تو وہ حسینی (ع)  ہے ۔ 

کربلا کے معرکے کے بارے میں سوچیں تو روح تھر تھرکانپ جاتی ہے اور  جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا خونچکاں  واقعہ ہے  جس میں ایک جانب اطاعت خداوندی ،ایثار ، قربانی  اور عبادات کے پہلو ملتے ہیں تو دوسری جانب ظالم حکمران کا  اپنی عددی طاقت کی بنا پر غرور اور کبر نظر آتا ہے ۔ کربلا کی سرزمین تو وہ ہےجس کو امام حسین (ع)  کے مقدس خون کی وجہ سے بے مثال مقام مل گیا ۔ آج اسی سرزمین ننیوا کو  کربلائے معلیٰ کہا جاتا ہے۔  یہ ایک ایسے  مظلوم کا مقتل ہے  جو نبی کریم کے خاندان کا چشم و چراغ اور آنحضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،جو کل بھی دینِ محمد(ص) کا محافظ تھا اور آج بھی محافظ  ہے ۔ تاریخ میں ہے کہ جب نواسہ رسول (ص) سرزمین کربلا پر  اترے  اور آپؓ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے تو آپ  سن کر بہت روئے اور فرمایا کہ یہاں سے ایک  مشت خاک اٹھا کر مجھے دے دو ۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ امام عالی مقامؓ نے وہ مٹی سونگھی   اور پھر اپنے کرتے کی جیب میں سے ایک مٹھی مٹی نکالی  اور فرمایا کہ یہ وہی مٹی ہے  کہ جو جبرائیل علیہ السلام کے توسط سے اللہ تعالی نے میرے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیل و آلہ وسلم کو بھیجی تھی  اور کہا تھا کہ یہی حسین (ع) کی تربت کی مٹی ہے ۔

 حضرت امام حسین علیہ السلام  وہ  عظیم اور ذی وقار ہستی ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، جس نے اس سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نےا سے اذیت دی اس نے گویا مجھے اذیت دی ‘ لیکن حیف ہے ایسی جاہل اُمت پرکہ جنہوں نے کلمہ پڑھ کر امام حسین (ع) کی گردن پر کند خنجر چلا دیا ۔ اس گردن کو تہ تیغ کر دیا جس پر ہمارے پیارے نبی (ص)  بوسے دیا کرتے تھے ۔ 

دیکھا جائے تو کربلا کے شہیدوں نے ہمیں حقیقی معنوں میں  اطاعتِ خداوندی اور حریت کا درس دیا ۔انھوں نے بتایا  کہ  صرف نمازیں پڑھنا یا اذانیں دینا ہی کافی نہیں،قرآن کے ساتھ ساتھ ناطقِ قرآن کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ 

کربلا کا معرکہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ آج بھی ایک جانب مظلوم اور محکوم اقوام ہیں تو دوسری جانب  ظالم اور جابرحکمراں ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ فلسطین، یمن ، لبنان اور دیگر مقامات پر جاری ہے جہاں ایک طرف اس دور کے یزید امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور ایک طرف فلسطین ، یمن اور لبنان کی مظلوم اقوام ہیں۔

 لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سيد حسن نصر اللہ نے محرم الحرام کی تیسری شب کے حوالے سے خطاب میں نفسیاتی جنگ کے بارے خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ بعض عناصر لبنان میں فتنے کا بازار گرم کرنے کے لئے زمینہ فراہم کر رہے ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے۔ العہد کے مطابق سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو چند ایک نصیحتیں کیں اور حقیقت نقل کرنے میں صداقت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بغیر ثبوت کے کسی پر افتراء نہیں باندھنا چاہئے، کسی پر الزام عائد نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی کو برا بھلا کہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ اختلاف نظر کا مطلب اس پر حملہ نہیں.. تنقید ایک چیز ہے اور حملہ دوسری۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ علماء یا میڈیا پرسنز میں سے اگر کوئی سیاست کے بارے کچھ کہہ دے تو ہمیں اس کا جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس شخص پر حملہ کئے بغیر.. کیونکہ برا بھلا کہنا اور توہین کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ سربراہ حزب اللہ نے کہا کہ حزب اللہ میں موجود تمام ذمہ دار افراد و علماء وغیرہ سے توقع ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اس کے بارے وضاحت پیش کریں اور نفسیاتی جنگ کو ہلکا نہ سمجھیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تاکید کی کہ ہمارا ملک انتہائی حساس مرحلے میں اور ہم ایک سخت و طولانی معرکے میں ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک شخص ایک ذمہ داری اٹھا لے۔

واضح رہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے خلاف حزب اللہ لبنان کی جانب سے صیہونی اہداف پر ہونے والے جوابی حملے کے بعد لبنان کے میرونائٹ عیسائیوں کے سربراہ بشاره پطرس الراعی نے حزب اللہ کے خلاف بیان دیتے ہوئے لبنانی فوج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس تنظیم کو روکے جس کے بعد لبنانی مزاحمتی محاذ میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی تھی جس کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کا آج 75 واں یوم آزادی منایا جارہا ہے اس موقع پر دارالحكومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحكومتوں میں 21،21 توپوں كی سلامی دی گئی۔

پاکستان میں جشن آزادی کے حوالے سے مرکزی تقریب دارالحکومت اسلام آباد میں ہوئی جس میں صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزرا، اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور مختلف ممالک کے سفرا نے شرکت کی، اس کے علاوہ کراچی میں مزار قائد اور لاہور میں مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی روایتی تقاریب منعقد ہوئیں۔

،رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ گيارہ اگست کی صبح کورونا کی بیماری کی صورتحال کے بارے میں ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے اپنے ایک پیغام میں اسے ملک کا پہلا اور فوری مسئلہ بتایا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے اس پیغام کے آغاز میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کو سلام عرض کیا اور ملک کے حکام اور عوام کے لیے کچھ اہم نکات بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی سرکش بیماری بے تحاشا پھیل رہی ہے، صرف ایران میں نہیں بلکہ تقریبا پوری دنیا میں یہ تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ دشمن یعنی کورونا وائرس نئي شکل اختیار کر لیتا ہے تو ہماری دفاعی حکمت عملی اور کام کا طریقہ بھی اسی کے حساب سے بدل جانا چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کورونا کو ملک کا فوری مسئلہ بتایا اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے اور مرنے والوں کے اعداد و شمار دردناک ہیں، صدر مملکت کی جانب سے کورونا کی نئي لہر سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت معین کیے جانے کو سراہا۔

انہوں نے میڈیکل کے شعبے کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کے کام کو جہاد سے تعبیر کیا اور کہا: مجھے حقیقت میں دل کی گہرائي سے ان افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، البتہ ہمارے شکریے کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اصل شکریہ خدا کی طرف سے ہے جو شاکر و علیم ہے اور ان افراد کی زحمتوں کو دیکھ رہا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ سفارشات کیں اور کورونا کے مریضوں کی پہچان کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کیے جانے کو ایک اچھا اقدام بتایا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ٹیسٹ مفت اور ملک گیر سطح پر ہونے چاہیے۔

انہوں نے ایران کو ویکسین بیچنے کے مسئلے میں مغربی ملکوں کی وعدہ خلافی کے بارے میں کہا: درآمدات کا مسئلہ اس طرح کا تھا کہ حکومت اور وزارت صحت نے پیسے دے کر بعض جگہوں سے ویکسین خریدی تھی، بعض ملکوں کو ویکسین کی قیمت بھی ادا کر دی گئی تھی لیکن انھوں نے وعدہ خلافی کی اور ویکسین نہیں دی۔ جب خود ہماری ویکسین بازار میں آ گئي اور لوگوں نے ٹیکے لگوانے شروع کر دیے تو یہ معاملہ بہتر ہو گيا یعنی درآمد کا راستہ بھی کھل گيا۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی کے ساتھ کہا کہ بہرحال درآمدات کے لیے بھی اور ملکی پیداوار کے لیے بھی دوہری کوشش ہونی چاہیے اور جس طرح سے بھی ممکن ہو لوگوں تک ویکسین کو پہنچایا جانا چاہیے۔ ویکسین کے دسیوں لاکھ ڈوز ہمارے پاس ہونے چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح دواؤں اور ان کی تقسیم کے نیٹ ورک کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں ہونے والی خلاف ورزیوں اور دلالی سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے جس کی وجہ سے دواؤں تک عوام کی رسائی محدود ہو گئی ہے۔

انھوں نے کورونا کے ابتدائي پھیلاؤ کے دوران مسلح فورسز اور عوامی رضاکاروں کی مدد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے ان فورسز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ضرورت پر تاکید کی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے کچھ سفارشات کرتے ہوئے ان سے اپیل کی کہ میڈیکل پروٹوکولز کی  پابندی کریں کیونکہ ایسا نہ کرنا، معاشرے کی صحت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

انہوں نے محرم میں مجالس عزا کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان مجالس کو رحمت الہی کا موجب قرار دیا اور کہا: ہمیں ان مجالس کی ضرورت ہے، یہ مجالس ہونی چاہیے لیکن پوری ہوشیاری کے ساتھ اور میڈیکل پروٹوکولز کی پوری پابندی کے ساتھ منعقد ہونی چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کورونا کے پھیلاؤ کے اس وقت میں رضاکارانہ امداد جاری رکھیں۔
انھوں نے اپنے اس  پیغام کے آخر میں کہا کہ میری آخری نصیحت، خدا کے حضور دعا، توسل اور گڑگڑانا ہے۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ عزاداری کی مجلسوں میں توسل اور گریہ و زاری کے ساتھ خداوند عالم سے لطف و کرم کی التجا کریں تاکہ ان شاء اللہ وہ اس خبیث بیماری سے ایران اور پوری دنیا کے لوگوں کو نجات دے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اصفہان/حجۃ الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے اتوار کی شام اصفہان کے مبلغین کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران مبلغین سے امسال ایام محرم الحرام میں ملتِ امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سورۂ مبارکۂ مؤمنون میں مؤمنین کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں،سورۂ مبارکۂ توبہ کے آخر میں شہداء کے لئے 9خصوصیات اور اسی طرح سورۂ مبارکۂ رعد میں عقلمندوں کی خصوصیت بیان ہوئی ہے لہذا ایام عزا میں ان سب پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کی اساتذہ انجمن کے رکن نے کہا کہ ان خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ عاشورا کے دن اصحاب ابا عبداللہ الحسین (ع) کی کیا خصوصیات تھیں جو امام(ع) پر جانثاری کرنے کے لئے کربلا میں جمع ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی پہلی خصوصیت خدا پرستی ہے۔ اگر انسان خدائی بن جائے تو وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ خلوص، ابا عبداللہ الحسین(ع) کے ساتھیوں کی دوسری خصوصیت ہے۔

استاد رفیعی نے کہا کہ شجاعت،ملتِ امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کی تیسری خصوصیت ہے؛شجاعت کا مطلب ہے غصے پر قابو پانا،شجاعت کی علامت صداقت ہے۔ایک بہادر اور شجاع آدمی کی زندگی میں خوف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ولایت مداری،ملتِ امام حسین (ع) کی ایک اور خصوصیت ہے۔حضرت قمر بنی ہاشم (ع) اس کی واضح مثال ہیں، ابو الفضل العباس (ع) نے اپنی زندگی کے دوران کبھی اپنے وجود کا اظہار نہیں کیا،کیونکہ آپ(ع)امام معصوم کے ساتھ تھے۔

استاد حوزہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عہد و پیمان کی وفاداری،ملتِ امام حسین علیہ السلام کی ایک اور خصوصیت ہے۔عہد کی وفاداری مومن کی نشانی اور عہد کی وفاداری نہ کرنا مشرک کی نشانی ہے۔

آخر میں، استاد رفیعی نے کہا کہ دشمن شناسی،ملتِ امام حسین (ع) اور کے ساتھیوں کی ایک اور خصوصیت ہے اس کے علاوہ ، دشمن کے دھوکے میں نہ آنا اور دشمن کی بے وفائی کو سمجھنا امام کے ساتھیوں کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔

 محرم الحرام سن 1443 ہجری قمری کا چاند کربلا کے میدان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلبیت (ع) کی اسلام کو بچانے کے سلسلے میں عظیم قربانی کی یاد لیکر پہنچ گيا ہے۔ محرم کا مہینہ اہلبیت (ع) کے ساتھ محبت اور وفاداری کا مہینہ ہے۔ محرم کا مہینہ در حقیقت محمد اور آل محمد (ص) کی فتح و کامیابی اور بنی امیہ اور باطل پرست طاقتوں کی شکست اور ناکامی کا مہینہ ہے۔ محرم دین اسلام کی ابدی حیات کا پیغام لے کر پنہچ گيا ہے کربلا والوں کی یاد ایران سمیت دنیا بھر میں مذہبی اور دینی عقیدت ، جوش و ولولہ اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔

جس میں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت شرکت کرتے ہیں ۔ اس سال کا محرم بھی گذشتہ سال کی طرح طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ منایا جائےگا ۔ ایران میں طبی پروٹوکول کے ساتھ  مجالس عزا کا انعقاد گذشتہ شب سے شروع ہوگيا ہے۔ کھلی جگہوں اور سڑکوں پر مجالس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ٹی وی چینلوں اور ریڈیو پر بھی فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو بیان کیا جارہا ہے۔ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مساجد اور امامبارگاہوں کو سیاہ پش کردیا گیا ہے ہر طرف مجالس عزا کا سلسلہ شروع ہوگيا ہے۔ ایران کی فضاؤں میں  لبیک یا رسول اللہ (ص)، لبیک یاحسین (ع)  اور لیبیک یا ابو الفضل العباس(ع)  کی صدائیں  گونج رہی ہیں۔ ادھر پاکستان ، عراق ، شام ، ترکی، کویت ، بحرین، قطر، افغانستان ، سعودی عرب ، یمن لبنان ، فلسطین، یورپ، امریکہ  اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی عزاداری اور مجالس عزائے سید الشہداء کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔مجالس عزا میں علماء اور خطباء فضائل اور مصائب اہلبیت علیھم السلام پیش کریں گے  اور کربلا والوں کی عظيم قربانی پر روشنی ڈالیں گے۔