سلیمانی

سلیمانی

حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت كی نویں كڑی ہیں.

آپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اور مادر گرامی حضرت بی بی حمیده  خاتون هیں جو مکتب جعفری کے تربیت یافته هونے کے ناطے طهارت باطنی اور پاکیزگی روح کے اعلا درجات تک پهنچ گئی تھیں که امام جعفر صادق علیه السلام نے ان کے بارے میں فرمایا : «حمیدة مصفاة من الادناس کسبیکة الذهب ما زالت الاملاک تحرسها حتی ادیت الی کرامة من الله لی والحجة من بعدی » . [1]

حمیده خالص سونے کی مانند آلودگیوں سے پاک هیں مجھ تک پهنچنے تک فرشتے همیشه ان کی حفاظت کرتے تھے یه الله کی کرم هے مجھ پر اور میرے بعد والی حجت پر .

 امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون كے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔

ولادت با سعادت  :

ابوبصیر کهتا هے که هم حضرت امام صادق علیه السلام کے ساتھ حج په جا رهے تھے جب ابواء کے مقام پر پهنچے تو آپ نے همارے لئے ناشتے کا اهتمام کیا  هم ناشته کرنے میں مصروف تھے اتنے میں حضرت امام صادق علیه السلام کی زوجه کی طرف سے ایک شخص خبر لے کرآیا که ان کی حالت خراب هو گئی هے اور درد زه شروع هو چکا هے چونکه آپ نے فرمایا تھا جلدی اس بارے میں خبر دوں اس لئے حاضر هوا هوں.آپ علیه السلام اسی وقت کھڑے هو گئے اور اس شخص کے ساتھ زوجه کے پاس چلے گئے تھوڑی دیر بعد واپس آگئے آپ کو شاد مان دیکھ کر هم نے مبارکباد کها اور زوجه کی صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : الله تعالی نے حمیده کو سلامتی  عطا کی هے اور مجھے ایک بیٹا دیا هے جو مخلوقات میں سب سے بهتر هے میری زوجه نے اس بچه کے بارے میں ایک مطلب مجھے بیان کیا اور گمان کررهی تھی که مجھے معلوم نهیں هے لیکن میں اس بارے میں ان سے زیاده جانتا هوں.

میں (ابو بصیر) نے اس مطلب کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :" حمیده کهه رهی تھی که جب یه بچه پیدا هوا تو هاتھوں کو زمین پر رکھا اور سر آسمان کی طرف بلند کیا " تو میں نے حمیده  سے کها یه رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد والے وصی کی نشانی هے .[2]

اس طرح حضرت ابو الحسن موسی کاظم علیه السلام هفتم صفر المظفر سنه 128ھ (بمطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ء) بروز هفته سر زمین ابواء (مکه اور مدینه کے درمیان ) میں پیدا هوئے .[3] ولادت كے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں كو زمین پر ٹیك كر آسمان كی طرف رخ كركے كلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالكل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) كے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ كے داہنے بازو پر یہ كلمہ ” تمت كلمۃ ربك صدقا وعدلا “ لكھا ہوا تھا۔

حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام کے القاب :

آپ کا نام موسی  کنیت :ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی، ابو ابراهیم، ابو علی، ابو اسماعیل اورآپ کے القاب :کاظم، عبدصالح، نفس زکیه، زین المجتهدین، وفی، صابر، امین اور زاهر هے. ابن شهرآشوب کهتے هیں :چونکه آپ اخلاق کریمه کے ساتھ چمک گئے اس لئے «زاهر» اور چونکه غصوں کو پی لیتے تھے اس لئے  «کاظم » مشهور هو گئے .[4]

 ولادت سے امامت تک :

حضرت امام موسی کاظم علیه السلام اپنے اجداد طاهرین کے مانند ولادت کے وقت سے هی خاندان اهلبیت (علیهم السلام ) میں ایک خورشید تابنده کی طرح چمک رهے تھےدوران بچگی سے هی آثار امامت آپ میں نمایاں تھیں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے آپ کی ولادت کے بعد شیعوں کو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی امامت کے متعلق آگاه فرمایا اور اس طرح فرمایا : «فعلقوا بابنی هذا المولود... فهو والله صاحبکم من بعدی ».میرے اس فرزند کے ساتھ لٹک جاو ...الله کی قسم یه میرے بعد تمهارے صاحب (امام )هیں. [5]

یعقوب بن سراج کهتا هے که "- ایک مرتبه -میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے پاس گیا تو دیکھا که آپ اپنے فرزند موسی کے گهوارے کے پاس کھڑے هیں اور آپ کا فرزند گهواره میں هے امام علیه السلام نے تھوڑی دیر ان کے ساتھ راز وگفتگوکی اور گفتگو تمام هونے کے بعد میں قریب گیا تو مجھ سے فرمایا : اپنے مولا کے پاس جا کر سلام کرو . میں نےگهواره کے نزدیک  جا کر سلام  کیا  تو موسی بن جعفر علیه السلام نے جبکه گهوارے میں تھا  اچھےانداز میں میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " جا کر اپنی بیٹی کیلئے کل جو نام (حمیرا )انتخاب کیا هےتبدیل کرو  پھر میرے پاس آجاؤ  چونکه الله تعالی ایسا نام پسند نهیں کرتا  "تو میں جاکر ان کا نام تبدیل کر دیا .[6]

حضرت امام موسی کاظم اهلسنت علماء کی نظر میں:

إبن حجر الهیتمی، الصواعق المحرقة میں کهتا هے: امام موسی کاظم علیہ السلام  اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد تھے [7] أبو الفرج کهتا هے : ان کی عبادت ان کی کوشش ان کی محنت کی وجہ سے ان کو (عبد صالح ) کہا جاتا تھا ۔ [8]
ذھبی لکھتا ہے : « قد کان موسی من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاء» (حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے) ۔ [9] تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :« کان موسی بن جعفر من اشد الناس عبادة »

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے ۔[10]
جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (مطالب السوال) کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں : ان کی عبادت مشهور اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے ۔ شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت مین گزارتے تھے روز کو صدقہ اور روزے سے تمام کرتے تھے ۔ [11]
شفیق بلخی کہتا ہے : سنه ۱۴۹ ھ قمری میں حج کے انجام کے لئے نکلا اور قادسیہ پہنچا وہاں میں نے بہت بڑی جمعیت کو دیکھا جو حج انجام دینے کے لئے جانے کو آمادہ تھے جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنے پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے وہ چاہتا هے کہ لوگ راستہ بھر اس کو اپنے سر پر بٹھاے رہیں ۔
اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انھوں نے فرمایا کہ «شقیق! اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے ، اپنے راستے ہو لئے میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواهی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے تھے ۔ جب میں واقصہ پہنچا تو دیکھا وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا ۔ میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں کھڑا رہا تاکہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا ۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو: وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى»‏ پھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے ہو لئے ۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے ۔ جب منزل زبالہ پہنچے ، تو دیکھا کہ کنواں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لئے کھڑے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں ۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں :
انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت
خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔
اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باهر نکالا ۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے ، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے ۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کی انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں ۔ انھوں نے فرمایا : شفیق مسلسل خدا کے ظاهری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں ۔ خدا کے لئے حسن ظن رکھو کوزے میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کاپانی پیا دیکھا اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے ۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہں پیا تھا ۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ۔ اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہے ۔ اس طرح وہ صبح تک تھے ۔ یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی ، اور نماز کے لئے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنی شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی ۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باهر چلے گئے ۔ میں ان کے آگے بڑھا ۔ تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں ۔ اور بہت سارے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں ۔ اور ان کے حکم کے منتظر ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں ۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان بزرگوار سے ہی ہونگے ۔ [12]

 

 


[1] -) اصول کافی، ج 1 ص 477.

[2] - اصول کافی، ج 1 ص 385، حدیث 1، باب موالید ائمه و المحاسن ص 314.

[3] -  129 هجری بھی نقل هوا هے کافی ج 1 ص 476، بحار الانوار ج 48 ص 2، ارشاد مفید ص 269، کشف الغمه ج 2، ص 212 و اعلام الوری ص 286، و 310،

[4] - مناقب ابن شهرآشوب، ج 2 ص 382، کشف الغمة، ج 2 ص 212، الارشاد مفید ص 270 و فصول المهمة، ص 214.

[5] - محاسن برقی، ج 2، ص 314.

[6] - اصول کافی، ج 1، ص 310.

[7] - ابو عباس أحمد بن محمد بن محمد بن علی إبن حجر الهیتمی؛ الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593؛ تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط ، مؤسسة الرسالة – بیروت، اول ، 1997م.

[8] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م.

[9] - ذهبی؛ میزان الاعتدال ، ج 4 ، ص 204؛ بیروت ، دار المعرفة ، { بی تا }.

[10] - احمد بن ابی یعقوب ؛ تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414 ، قم ، مؤسسه و نشر فرهنگ اهلبیت .

[11] - نقل از مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6 . عطاردی ، عزیز الله ، مسند الامام الکاظم ، اول ، مشهد ، 1409ق .

[12] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت

تحریر :مصطفی علی فخری

(۱)
” قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم “ ( ۱)
ترجمہ:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جو شخص ھر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے وہ ھم میںسے نھیں ھے “۔

(۲)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ایاک ان تمنع فی طاعت الله، فتنفق مثلیه فی معصیة الله “(۲)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” اطاعت خدا میں مال خرچ کرنے سے پرھیز نہ کرو ، ورنہ دو برابر خدا کی معصیت میں خرچ ھو جائے گا “۔

(۳)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ان الزرع ینبت فی السهل و لا ینبت فی الصفا فکذالک الحکمة تعمر فی قلب المتواضع و لا تعمر فی قلب المتکبر الجبار !“ (۳)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جس طریقے سے زراعت نرم زمین میں ھوتی ھے نہ کہ سخت زمین میں، اسی طرح سے علم و حکمت متواضع انسان کے دل میں پروان چڑھتے ھیںنہ کہ متکبر و جبار کے “۔

(۴)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:الموٴمن مثل کفتی المیزان کلما زید فی ایمانه زید فی بلائه “(۴)
ترجمہ:
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” مومن ترازو کے دو پلڑوں کے مانند ھے جتنا ایمان میں اضافہ ھو گا اتنا بلا و مصیبت میں بھی اضافہ ھو گا “۔

(۵)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:المصیبة للصابر واحدة و للجازع اثنتان “(۵)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
”صبر کرنے والوں کے لئے ایک مصیبت ھے لیکن جزع وفزع کرنے والوں کے لئے دو مصیبتیں ھیں “۔


حوالہ:

۱۔اقوال الائمہ ج۱ ص۲۱۶
۲۔ تحف العقول ص ۳۰۵
۳۔تحف العقول ص ۲۹۶
۴۔ تحف العقول ص۸۴۴
۵۔ تحف العقول ص ۷۵۴

 

 نائیجریا کے عدالت عظمیٰ نے نا‏ئجیریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی اور انکی اہلیہ زینب کو 6 سال کی سخت ترین اسیری کے بعد آج تمام مقدمات  باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

یاد رہے کہ نائجیریا کی حکومت شیخ زکزاکی کے 6 بیٹوں سمیت سینکڑوں شیعوں کو شہید کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ شیخ زکزاکی کی صاحبزادی سہیلہ زکزاکی  نے اس سے قبل مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے والدین کی آزادی کے بارے میں امید کا اظہار کیا تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے صدرحسن روحانی اور ان کی کابینہ کے اراکین کے ساتھ آخری ملاقات میں فرمایا: اس حکومت میں ، یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک  پر اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید سعید غدیر کی مناسبت سے تمام مسلمانوں اور خاص طور پر ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کی اور عوامی خدمت کو اللہ تعالی کی نعمت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نعمت کا شکر ادا کرنے اور انقلاب اسلامی کے اہداف تک پہنچنے کے لئے اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واقعہ غدیر کو اسلام کے مسلّم اور ناقابل انکار واقعات میں قراردیتے ہوئے فرمایا:  غدیر خم کے واقعہ کو شیعہ اور سنی علماء نے 110 صحابہ اور معتبر اسلامی اسناد کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اہلسنت کے بعض بزرگ علماء نے بھی اس واقعہ کو اسلام کا اہم اور تارخی واقعہ قراردیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بارہویں حکومت کے بعض اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کے بعض اقدامات توقعات کے مطابق تھے لیکن بعض اقدامات  توقعات کے مطابق نہیں تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں اور بارہویں حکومتوں کے تجربات کو تیرہویں حکومت کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ایک اہم تجربہ جو اس حکومت میں حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مغربی ممالک ناقابل اعتماد ہیں وہ اپنے اہداف کی تلاش وکوشش میں ہیں اور ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ امریکہ  اور مغربی ممالک پر بالکل اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے اندرونی منصوبوں کو مغربی ممالک کے منصوبوں سے منسلک نہیں کرنا چاہیے جہاں ہم نے کام خود انجام دیا وہاں ہم کامیاب ہوئے اور جہاں ہم نے کام کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ملکر شروع کرنے کی کوشش کی ، وہاں ہمیں شکست اور ناکامی کا سامنا ہوا، لہذا تجربات کی روشنی مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ آج بھی مذاکرات میں مستقبل میں معاہدے کو نقض نہ کرنے کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کی خباثت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کو توڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کابینہ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: اللہ تعالی مدد فرمائے جہاں بھی آپ رہیں اپنی دینی اور انقلابی ذمہ داریوں پر عمل کرتے رہیں ۔

Wednesday, 28 July 2021 19:21

عید غدیر خم اور ہم

فاران؛ ہر قوم اور ہر مذہب میں ایک ایسا بڑا دن ضرور ہوتا ہے جو کسی بڑے واقعہ کی یادگار قرار پاتا ہے اس دن خاص پروگرام ہوتے ہیں ،ایسے دن کی تجلیل و ہر قوم و مذہب میں ہوتی ہے جس کے ذریعہ کسی قوم و مذہب کی تاریخ میں ایک بڑا فیصلہ کن موڑ آیا ہو دین اسلام میں بھی ایسے بہت سے یادگار واقعات ہیں جن میں یا تو کسی خاص سبب اللہ نے انہیں عید قرار دیتے ہوئے اس میں خوشی منانے اور مخصوص عبادتوں کو انجام دینے کا حکم دیا ہے یا پھر خود پروردگار نے انعام و اکرام کے طور پر اسے عید قرار دیا ہے جیسے عید سعید فطر رب العزت کی طرف سے اپنے ان بندوں کو ایک تحفہ ہے جنہوں نے پورے ایک مہینہ اللہ کی عبادت و بندگی میں گزارا اسی طرح اگر بڑے واقعہ کی مناسبت کو دیکھا جائے تو عید قربان کو عید قرار دیا گیا ہے چنانچہ روایات میں ایسے بڑے ایام اور یادگار دنوں کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی سبب مالک حقیقی کے نزدیک پسندیدہ ہیں حتی ان ایام کے بارے میں ہے کہ یہ خدا کے حضور روز قیامت ویسے ہی جائیں گے جیسے عروس نو حجلہ عروسی کی طرف جاتی ہے [۱]لیکن اسلام میں جو مرتبہ عید غدیر کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں اور چونکہ اس دن حضور سرورکائنات نے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا جانشین و خلیفہ مقرر کیا تھا جسکی بنیاد پر اسلام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا اسی سبب اس دن کو عید قرار دیا گیا[۲] بلکہ یہ عید سب سے بڑی عید ہے اور روایات میں اس دن کو عید اکبر[۳] کہا گیا ہے اور سب سے افضل عید [۴]کے طور پر پہچنوایا گیا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس عید کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے یہ دیکھا جائے کہ اس عید میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ اس عید کی عظمت کے ادراک کے ساتھ ساتھ ہم وہ سب کر سکیں جس کا اس دن ہم سے مطالبہ و تقاضا کیا گیا ہے۔
خوشی و مسرت کے ساتھ حمد و شکر الہی بجا لانے کا دن :
یہ وہ دن ہے جب ہم سے مطالبہ کیا گیا کہ خوش رہیں اور خوشی کا اظہار کریں[۵] ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹیں کہ پروردگار نے ہمارے اوپر احسان کیا اور نعمت ولایت کو ہمیں عطا کیا ۔ عید غدیر اتنی بڑی عید ہے کہ پروردگار کی خاص طور پر حمد بجا لانے کی روایات میں تاکید کی گئی ہے اور اسکا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یقینا اگر اس نے ہمیں اس ولایت کی عظیم نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم کہاں ہوتے نہیں معلوم کس راہ پر چل رہے ہوتے کچھ پتہ نہیں اس لئے یہ دن خاص کر شکر و حمد الہی بجا لانے کا دن ہے اور شکر و حمد الہی کا ایک طریقہ روزہ رکھنا ہے جس کی اس دن بہت تاکید کی گئی ہے [۶]۔
روزہ رکھنا وہ عمل ہے جس کے لئے صرف ہم سے ہی مطالبہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام و اصیاء الہی بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے [۷]یہ دن انکے عمل کی تاسسی کا دن بھی ہے اسلئے کہ یہ دن ان کے لئے بھی عید کا دن تھا ۔
آسمانی عید :
یہ وہ عید ہے جس کے لئے روایات میں ملتا ہے کہ زمین سے زیادہ آسمانوں میں اس کی بات ہے[۸] یہ عید زمین پر بھلے ہی مظلوم واقع ہو لیکن آسمانوں پر اس کی شہرت کہیں زیادہ ہے، اور آسمانوں میں زمین سے زیادہ اسکی اہمیت کا ہونا اس بات کو بیان کرنے کے لئیے کافی ہے کہ اس آسمانی عید کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھیر کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہیے ۔
عہد و پیمان کی عید :
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں یہ عید اتنی بڑی عید ہے کہ اس میں گشایش و وسعت حاصل ہوئی، منزلت کو اوج ملی خدا کی حجتیں روشن اور اس کے براہین و واضح ہو گئے یہ وہ دن ہے جب دین الہی کامل ہوا یہ دن عہد و پیمان کا دن ہے [۹]۔
تابندہ و روشن اور بابرکت عید :
روز غدیر عید فطر و عید اضحی و جمعہ کے دن ایسے ہی ہے جیسے ستاروں کے دیگر کواکب کے درمیان درخشاں چاند [۱۰] اتنا ہی نہیں اس دن کی اتنی فضیلت ہے کہ روایتوں کے بموجب اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو دن میں دس بار ملائک ہم سے مصافحہ کرتے [۱۱] یعنی اس دن کی فضیلت کو سمجھنے کی بنا پر ہمارے وجود میں اتنا نکھار آ جاتا کہ ملائک بھی ہم سے مصافحہ کے خواہش مند ہوتے یہ عید اس قدر برکت کی حامل ہے کہ اس میں مومنین کی تنگیاں دور ہوتی ہیں ان کے امور حل ہوتے ہیں معاملات میں گشایش حاصل ہوتی ہے لہذا اس عید کی برکتوں کے حصول کے لءے ضروری ہے کہ اپنے ظرف وجودی کو اتنا وسیع بنائیں کہ اس کی برکات سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے خاص کر ضروری ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس دن سختی و تنگی کے ساتھ پیش نہ آئیں تاکہ خدا بھی ہمارے ساتھ وسعت و بخشش سے پیش آئے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے لئیے ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس د ن اپنے اہل و عیال کے ساتھ فراخ دلی سے پیش آو [۱۲] اس دن کی برکتوں ہی کے پیش نظر کھانا کھلانے اور دوسروں کو ہدیہ و تحفہ و تحائف دینے کی تاکید کی گئی ہے[۱۳] ایک دوسرے کی دیکھ بھال اور مومنین کی کفالت کا بھی اس دن سے گہرا تعلق ہے لہذا کوشش کرنا چاہیے کہ اس دن کسی تنگدست کا ہاتھ تھام لیا جائے کسی کی کفالت کر لی جائے[۱۴] کہ عید اکبر سے بڑھ کر اور کونسا دن لوگوں کی امداد رسی کے لئیے بہتر ہوگا کہ اس دن ایک درہم اگر اللہ کی راہ میں دیا جائے تو وہ ہزارکے برابر ہے [۱۵]۔
اپنے امام سے تجدید بیعت کا دن :
چونکہ اس عید کو تجدید بیعت و عہد کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے[۱۶] لہذا ضروری ہے تمام شیعان حیدر کرار اس عظیم دن جمع ہو کر اپنے آقا و مولا کے حضور تجدید بیعت کریں اور عہد کریں کہ اسی راہ پر زندگی گزاریں گے جو مولا کا راستہ ہے اور اسی راہ پر چلیں گے جسے راہ علوی کہا جاتا ہے اب یہ ہر ایک مومن کے اوپر ہے کہ وہ اپنے مولا سے کیا عہد و پیمان کرتا ہے ، زندگی کی کامیابی سے لیکر قوم و معاشرہ کی ترقی میں حصہ لینے اور بے نقص و عیب زندگی گزارنے تک کا عہد ہم اپنے مولا سے اس دن کر سکتے ہیں اور یقینا اگر ہم نے یہ عیدا کیا تو ہمارے مولا ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر اس جگہ ہمارا ہاتھ تھامیں گے جہاں ہمارے پیروں میں لغزش ہو۔ راہ مولا پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ کمزور وضعیف طبقہ کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور ان لوگوں پر توجہ دی جائے جو کسی بھی سبب معاشرہ میں تنہا پڑ گئے ہیں اور ضعیف و ناتواں ہیں اور شاید اسی لئیے اس دن سب سے مسکرا کر ملنے سلام کرنے اور فقیروں کی ضرورت کو پورا کرنے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دینے پر زور دیا گیا ہے [۱۷] تجدید عہد کو یاد گار بنانے کے لئے ہی شاید یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ جب مومنین ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو تہنیت و مبارکباد پیش کریں [۱۸]تاکہ جب وہ مبارکباد پیش کریں تو ان کے ذہن میں رہے کہ جس ولایت کا ہم جشن منا رہے ہیں اور اسکی تہنیت و مبارکباد پیش کر رہے ہیں اس کے ہم سے تقاضے کیا ہیں ۔
ایک دوسرے سے ملاقات اور مبارکباد دینے کا دن :
یوں تو اسلام کے اکثر و بیشتر اراکین و اعمال میں اجتماعی پہلو غالب ہے وہ نماز جماعت ہو کہ نماز جمعہ مسجد میں نماز کی فضیلت ہو کہ حج کی نورانی فضا ہر ایک جگہ خاص اہتمام ہے کہ مومنین ایک دوسرے سے ملیں اسی طرح مختلف اعیاد میں بھی ایک دوسرے سے ملاقات کو مطلوب و مناسب قرار دیا گیا ہے لیکن عید غدیر میں یہ ایک خاص اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے متبسم ہو کر ملنا خندہ روئی کے ساتھ گلے لگنا اور عید کی مبارک باد دینا اس دن بہت اہم جانا گیا [۱۹] بلکہ خاص کر اس دن کو یوم تبسم قرار دیا گیا ہے [۲۰] مومن کا ایک دوسرے سے ملنا اتنا فضیلت کا حامل ہے حدیث میں ہے کہ ایک مومن اگر اس دن کسی مومن کے گھر جاتا ہے تو خدا ستر انوار سے اسکی قبر کو منور کرےگا ۔ نماز روزہ اور نیکیوں کے ذریعہ قرب الہی کو حاصل کرنے کا دن قرار دے [۲۱]کر روایات نے ہمیں اس کی عظمت و فضیلت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔
عید غدیر پر ہماری بڑی ذمہ داری :
یقینا عید غدیر کے تمام اعمال و تمام تر عبادتیں بہت اہم ہیں جنہیں ہم سب کے لئیے بجا لانا اس لئیے ضروری ہے کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی دولت ایمان ہے جو کچھ بھی شعور انسانیت ہے زندہ احساس ہے سب غدیر کے طفیل ہے ایسے میں ان عبادتوں کے ساتھ ساتھ غدیر کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ سے ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے ان پر ظلم ہو رہا ہے ہم اسکی مخالفت کریں اور مظلوموں کا ساتھ دیں آج یمن کے جو حالات ہیں جس طرح معصوم بچوں کو وہاں پر بڑی طاقتوں کی ایماء پر کچھ مسلمان حکومتیں نشانہ بنا رہی ہیں یہ سب وہ باتیں ہیں جنکے بارے میں ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ سب ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کوئی تو آگے بڑھے جو انکے مسائل کی چارہ جوئی کرے ۔ سوشل میڈیا پر اپنے اپنے طریقہ سے دنیا میں ہونے والے ظلم کے خلاف لوگوں کو متحد کریں اور جہاں لوگ پریشانیوں میں گھر ے ہیں ان سب کی امداد کے سلسلہ سے ایک بیدای کی مہم چلائیں ،ہندوستان جیسے ملک میں تمام ہی ادیان و مذاہب کے صلح پسند افراد کے ساتھ مل کر دنیا کے ظالمین کے خلاف خاص کر یمن پر مسلسل بم برسانے والے بہروپیوں کے خلاف احتجاج کریں کہ یہ غدیر کا ہم سے اولین مطالبہ ہے ۔ انشاء اللہ عید اکبر کے جشن کے ساتھ ساتھ ہم دیگر اعمال و عبادتوں کی انجام دہی کے ہمراہ دنیا کے مظلوم مسلمانوں اور یمن کے معصوم بچوں اور غزہ کے محصور باشندوں کو فراموش نہیں کریں گے ۔
حواشی :
[۱] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :اذا کان يوم القيامة زفت اربعة يام الى الله عز و جل کما تزف العروس الى خدرها :يوم الفطر و يوم الاضحى و يوم الجمعةو يوم غدير خم . ( اقبال سيد بن طاووس : .۴۶۶ )
[۲] ۔ روى زياد بن محمد قال :دخلت على ابى عبد الله (ع) فقلت :للمسلمين عيد غير يوم الجمعة والفطر والاضحى ؟
قال : نعم ، اليوم الذى نصب فيه رسول الله (ص) اميرالمؤمنين (ع) . مصباح المتهجد : .۷۳۶، قيل لابى عبد الله (ع)
للمؤمنين من الاعياد غير العيدين و الجمعة ؟قال : نعم لهم ما هو اعظم من هذا ، يوم اقيم اميرالمؤمنين (ع) فعقد له رسول الله الولية فى اعناق الرجال والنساء بغدير خم . ( وسائل الشيعه ، ۷: ۳۲۵، ح .۵ )
[۳] ۔عن الصادق(ع) قال: هو عيد الله الاکبر،و ما بعث الله نبيا الا و تعيد فى هذا اليوم و عرف حرمته و اسمه فى السماء يوم العهد المعهود و فى الارض يوم الميثاق الماخوذ و الجمع المشهود. وسائل الشيعه، ۵: ۲۲۴، ح ۱٫
[۴] ۔ يوم غدير خم افضل اعياد امتى و هو اليوم الذى امرنى الله تعالى ذکره فيه بنصب اخى على بن ابى طالب علما لامتى، يهتدون به من بعدى و هو اليوم الذى کمل الله فيه الدين و اتم على امتى فيه النعمة و رضى لهم الاسلام دينا . ( امالى صدوق : ۱۲۵، ح .۸ )
[۵] قال ابو عبد الله (ع) :انه يوم عيد و فرح و سرورو يوم صوم شکرا لله تعالى . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۶، ح .۱۰ )
[۶] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :… هو يوم عبادة و صلوة و شکر لله و حمد له ، و سرور لما من الله به عليکم من ولايتنا ، و انى احب لکم ان تصوموه . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۸، ح .۱۳ )
[۷] ۔ … تذکرون الله عز ذکره فيه بالصيام والعبادة و الذکر لمحمد و آل محمد ، فان رسول الله (ص) اوصى اميرالمؤمنين ان يتخذ ذلک اليوم عيدا ، و کذلک کانت الانبياء تفعل ، کانوا يوصون أوصيائهم بذلک فيتخذونه عيدا . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۷، ح .۱ )
[۸] ۔ قال الرضا (ع) : حدثنى ابى ، عن ابيه (ع) قال : إن يوم الغدير فى السماء اشهر منه فى الارض . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۹] ۔ امام على (ع) :إن هذا يوم عظيم الشأن ، فيه وقع الفرج ، ورفعت الدرج و وضحت الحجج و هو يوم اليضاح والافصاح من المقام الصراح ، ويوم کمال الدين و يوم العهد المعهود … ( بحارالانوار ، ۹۷: .۱۱۶ )
[۱۰] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :… و يوم غدير بين الفطر والاضحى و يوم الجمعة کالقمر بين الکوکب . ( اقبال سيد بن طاووس : .۴۶۶ )
[۱۱] ۔ والله لو عرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقته لصافحتهم الملائکة فى کل يوم عشر مرات …و ما اعطى الله لمن عرفه ما ليحصى بعدد . ( مصباح المتهجد : .۷۳۸ )
[۱۳] ۔… و انه اليوم الذى اقام رسول الله (ص) عليا (ع) للناس علما و ابان فيه فضله و وصيه فصام شکرا لله عزوجل ذلک اليوم و انه ليوم صيام و اطعام و صلة الاخوان و فيه مرضاة الرحمن ، و مرغمة الشيطان . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۸، ضمن حديث .۱۲ )، و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ۔۔۔، امرنى رسول الله (ص) بذلک . ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۴] ۔ عن امير المؤمنين (ع) قال :فکيف بمن تکفل عددا من المؤمنين والمؤمنات و أنا ضمينه على الله تعالى الامان من الکفر والفقر ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۵] ۔… و لدرهم فيه بألف درهم لإخوانک العارفين ، فأفضل على اخوانک فى هذا اليوم و سر فيه کل مؤمن و مؤمنة . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۱۶] ۔ عن عمار بن حريز قال دخلت على ابى عبد الله (ع) فى يوم الثامن عشر من ذى الحجة فوجدته صائما فقال لى : هذا يوم عظيم عظم الله حرمته على المؤمنين و کمل لهم فيه الدين و تمم عليهم النعمة و جدد لهم ما أخذ عليهم من العهد و الميثاق . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۱۷] … اذا تلاقيتم فتصافحوا بالتسليم و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ، و ليبلغ الحاضر الغائب ، والشاهد البين ، وليعد الغنى الفقير و القوى على الضعيف امرنى رسول الله (ص) بذلک . ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۸] قال على (ع) :عودوا رحمکم الله بعد انقضاء مجمعکم بالتوسعة على عيالکم ، والبر باخوانکم و الشکر لله عزوجل على ما منحکم ، و اجتمعوا يجمع الله شملکم ، و تباروا يصل الله الفتکم ، و تهانؤا نعمة الله کما هنا کم الله بالثواب فيه على أضعاف الاعياد قبله و بعده الا فى مثله … ( بحارالانوار ۹۷: .۱۱۷ )۔
[۱۹] ۔ عن على بن موسى الرضا (ع) :من زار فيه مؤمنا أدخل الله قبره سبعين نورا و وسع فى قبره و يزور قبره کل يوم سبعون ألف ملک و يبشرونه بالجنة . ( اقبال الاعمال : .۷۷۸ )
[۲۰] ۔ عن الرضا (ع) قال :… و هو يوم التهنئة يهنئ بعضکم بعضا ، فاذا لقى المؤمن أخاه يقول :« الحمد لله الذى جعلنا من المتمسکين بولية أمير المؤمنين و الائمة (ع) »و هو يوم التبسم فى وجوه الناس من اهل الايمان … ( اقبال : .۴۶۴ )
[۲۱] ۔ ينبغى لکم ان تتقربوا الى الله تعالى بالبر و الصوم و الصلوة و صلة الرحم و صلة الاخوان ، فان الانبياء عليهم السلام کانوا اذا اقاموا اوصياء هم فعلوا ذلک و امروا به . ( مصباح المتهجد : .۷۳۶ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

3سورة المائدة

Monday, 26 July 2021 19:16

خلافت علی (ع) کے دلائل

مسلمانوں کا وہ گروہ جو خلافت و امامت کو مصو ص من اللہ قرار دیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں انکا موقف بڑا ٹھوس اور واضح ہے ۔وہ گروہ یہ کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے ہجرت کے دسویں سال حج بیت اللہ کا ارادہ کیا اور تمام عرب میں اس کی منادی کرائی گئی ۔مسلمان پورے جزیرہ عرب سے سمٹ کر حج کے لئے آئے اور اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے ۔
جناب رسول خدا(ص) مناسک حج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مدینہ واپس آرہے تھے اور جب غدیر خم پر پہنچے اور یہ مقام جحقہ کے قریب ہے اور یہاں سے ہی مصر اور عراق کی راہیں جداہوتی ہیں ۔
اس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب پر یہ آیت نازل فرمائی :- "یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس ان الله لایهدی القوم الکافرین "(المائده نمبر 67)"
اے رسول ! اس حکم کو پہنچائیں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا ۔ بے شک اللہ منکر قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔
اس آیت مجیدہ کے نزول کے بعد آپ نے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنوایا اور تمام لوگ جمع ہوگئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور حضرت علی کے بازو کو بلند کرکے اعلان کیا :-" ان اللہ مولای و انا مولی المومنین " اللہ میرا مولا ہے اور میں اہل ایمان کا مولا ہوں پھر فرمایا :- "من کنت مولاه فعلی مولاه "(1) جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی :- " الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا " (المائدہ)
آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے شکر کرتے ہوئے کہا
"الحمد الله علی اکمال الدین واتمام النعمة ۔۔۔۔۔۔۔و الولایة لعلی " تکمیل دین اور تمام نعمت اور ولایت علی پر اللہ کی حمد ہے
۔
اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقعہ کی یاد گار کے طور پر شیعہ عید غدیر کا جشن منانے لگے ۔مقریزی نے اس جشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
"جاننا چا ہئیے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں عید غدیر کے نام سے کوئی عید نہیں منائی جاتی تھی اور سلف صالحین سے بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔یہ عید سب سے پہلے سن 352 ھ میں معز الدولہ علی بن بابویہ کے دور میں عراق میں منائی گئی اور اس کی بنیاد اس حدیث پر تھی ۔جس کی روایت امام احمد نے اپنی مسند کبیر میں براء بن عازب کی زبانی کی ہے وہ کہتے ہیں :-
ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو "الصلواۃ جامعۃ " کی منادی ہوئی اور دو درختوں کے درمیان جھاڑو دی گئی اور
حضور اکرم نے نماز ظہر آدا کی اور خطبہ دیا ۔ خطبہ کے دوران لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا :- الستم تعلمون انی اولی بالمو منین من انفسھم " کیا تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں مومنوں کی جان سے بھی زیادہ ان پر حق حکومت رکھتا ہوں ؟
سامعین نے کہا جی ہاں ! پھر آپ نے علی (ع) کا بازو پکڑ کر بلند فرمایا اور اعلان کیا :- من کنت مولاہ فعلی مولاه ،اللهم وال من والاه وعادمن عاداه " جس کا میں ہوں اس کا علی مولا ہے ۔اے اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ۔اس کے بعد حضرت عمر ،حضرت علی (ع) کو ملے اور کہا :- ھنیا لک یا بن ابی طالب اصبحت مولی کل مومن ومومنۃ " ابو طالب کے فرزند ! تمہیں مبارک ہو تم ہر مومن مرد وعورت کے مولا بن گئے ہو ۔
غدیر خم کا مقام جحفہ سے بائیں طرف تین میل کے فاصلے پر ہے وہاں پر ایک چشمہ پھوٹتا ہے اور اس کے ارد گرد بہت سے درخت ہیں ۔
اس واقعہ کی یاد کے طور پر شیعہ اٹھارہ ذی الحجہ کو عید مناتے تھے ۔ ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دورکعت نماز شکر انہ ادا کرتے تھے ۔ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرتے تھے اور اس دن نیا لباس پہنتے تھے اور غلام آزاد کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ خیرات بانٹتے اور جانور ذبح کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے جب ۔شیعوں نے یہ عید منانی شروع کی تو اہل سنت نے ان کے مقابلہ میں پورے آٹھ دن بعد ایک عید منانی شروع کردی اور وہ بھی اپنی عید پر خوب جشن مناتے تھے اور کہتے تھے کہ اس دن رسول خدا (ص) اور حضرت ابو بکر غار میں داخل ہوئے تے (2)۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (1):- تفصیلی حوالے کے لئے عبقات الانوار جلد حدیث ولایت کے مطالعہ فرمائیں

(2):-کتاب المواعظ والاعتبار۔

مؤلف: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی ذرائع: اقتباس از کتاب "المیہ جمعرات"

 

ان الله لا یضیع اجر المحسنین- ترجمہ: بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے

حضرت علی علیہ السلام کے  اسلام اور مسلمین کےلئے خدمات اور قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خدا وند منان نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں حضرت علی علیہ السلام کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زبان مبارک سے بھی آپ ؑکے فضائل بیان ہیں ۔ ذیل میں احادیث نبویﷺ کی روشنی میں ترتیب سے، پہلے حضرت علی علیہ السلام کے وہ فضائل جو حضرتؑ کو صفت الہی سے متجلّی کرتے ہیں بیان کئے جائیں گے، پھر رسول گرامی اسلامﷺ سےمتعلق صفات بیان کی جائیں گی اور آخر میں حضرتؑ کے دیگر فضائل رسول رحمتﷺ کی زبانی بیان کیے جائیں گے۔

 

علی ؑ کا صفات الہی میں متجلّی ہونا:

 

کلام رسول گرامی اسلام ﷺ میں وہ احادیث جو صفات الہی کی تجلی علی علیہ السلام  میں قرار دیتی ہیں ،درج ذیل ہیں۔

 

علی ؑ نور الہی:

 

حضرت علی ؑ کے نور الہی ہونے کے متعلق سرور کائنات سے ابن عباسؓ یوں حدیث نقل کرتے ہیں : (( سمعت رسول الله(ص) یقول لعلی ؑ خلقت انا و انت من نور الله تعالی ))  ترجمہ:میں (ابن عباس) نے رسول خدا ﷺ کو علی ؑ سے فرماتے ہوئے سنا:میں اور تم(علیؑ) خداوند متعال کے نور سے  پیدا ہوئے ہیں۔

اس حدیث کے مطابق رسول رحمت ﷺاور امیر المؤمنینؑ دونوں نور الہی سے وجود میں آئے ہیں؛ لہذا یہ عظیم ہستیاں عالم تشریع میں ساتھ ہونے کے علاوہ عالم تکوین وخلقت میں بھی ہم قرین ہیں۔

 

علی ؑ انتخاب الہی:

 

رسول گرامی اسلامﷺ اپنی  پیاری بیٹی سے حضرت علی ؑ کے عظمت کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

(( یا فاطمه اما ترضین ان الله عزوجل اطلع الی اهل الارض فاختار رجلین: احدهما ابو ک والآخر بعلک))  ترجمہ:اے فاطمہ (س)کیا آپ(س) راضی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے زمین والوں کی طرف توجہ کی اور دومردوں کو انتخاب کیا جن میں سے ایک آپ (س)کے بابا(رسول اللہ) اور دوسرے آپ (س)کے شوہر علی ؑ ہیں!یعنی خداوند  متعال نے انسانوں میں سے ان دو ہستیوں کو چنا اور ایک کو سرکار انبیاءﷺ اور دوسرے کو سید الاوصیاءؑ قرار دیا۔

 

علی ؑ محبوب الہی:

 

حضرت علی علیہ السلام کے محبوب الہی ہونے کے متعلق،احادیث کی کتابوں میں رسول اعظم ﷺ سے مختلف احادیث منقول ہیں جن میں سے (الطائر المشوی) بھنی ہو ئی مرغی زیادہ مشہور اور تواتر سے مختلف صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے: ایک بار رسول گرامی اسلام ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی مرغی ہدیہ کے طور پر لائی گئی اور وہ مرغی رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھی گئی حضرت ﷺنے خداوند  متعال سے یوں دعا فرمائی :  (( اللهم ائتنی بأحب خلقک الیک یاکل معی))  ترجمہ: خدایا میرے پاس اپنے محبوب ترین شخص کو بھیج دے تاکہ میرے ساتھ یہ کھانا کھائے۔ علی علیہ السلام آئے اور دروازے پر دستک دی  ۔ رسول کے خادم  انس نے پوچھا کون ہے؟ اورجواب میں کہا کہ رسول خدا ﷺ مشغول ہیں حضرت علی ؑ چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی انس نے پھر پوچھا اور جواب میں کہا رسول اللہ ﷺ مصروف ہیں اور حضرت علی علیہ السلام چلے گئے رسول رحمت ﷺ اپنی دعا تکرار کرتے رہے تھوڑی دیر بعد علی علیہ السلام پھر آئے اور دروازے پر دستک دینے کے ساتھ اونچی آواز میں سلام کیا،رسول ﷺنے سننے کے بعد فرمایا: اے انس دورازہ کھول دو ؛ انس نے دروازہ کھولا اور علی علیہ السلام رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول ﷺ نے فرمایا: اے خدایا میں نے تجھ سے مانگا تھا کہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھیج دے جو میرے ساتھ مرغی کھائے ؛ تو نے علی ؑ کو بھیجا اے اللہ علی مجھ محمدﷺ کو بھی ساری مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں۔  اس حدیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ساری مخلوقات میں نہ صرف خداوند متعال بلکہ رسول خدا ﷺ کی بھی محبوب ترین ہستی ہیں۔

مذکورہ حدیث معمولی اختلاف کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے۔

 

علی علیہ السلام خدا کی مضبوط رسی:

 

نبی مکرم اسلام ﷺ سے منقول ہے کہ میرے بعد جب فتنے کی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی تو وہ نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا اور مضبوط رسی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حدیث کی تفصیل یوں ہے: (( روی عن رسول الله انه قال ستکون بعدی فتنه مظلمة ،الناجی منها، من تمسّک بعروة الله الوثقی فقیل: یارسول الله وماالعروة الوثقی؟ قالﷺ : ولایة سیّد الوصیّین قیل :یا رسول الله ومن سیّد الوصیین؟ قال امیر المومنین قیل: ومن امیر المومنین؟ قال مولی المسلمین وامامهم بعدی قیل؟ ومن مولی المسلمین؟ قال اخی علی  بن ابی طالب۔ ترجمہ: رسول اللہ (ص) سے منقول ہے :عنقریب میرے بعد شدید فتنہ بپا ہو گا ۔ اس فتنے سے وہی نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا ،پوچھا گیا :مضبوط رسی سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔مضبوط رسی سےمراد سید الوصیین کی ولایت مراد ہے ۔دوبارہ سوال کیا گیا کہ سید الوصیین کون ہیں؟ حضرت(ص) نے فرمایا: جو امیر المومنین ہے وہی سید الوصیین ہے ۔پھر پوچھا گیا امیر المومنین کون ہے؟ حضرت نے فرمایا: مسلمانوں کا مولا اور میرے بعد ان کا امام ۔ سوال ہوا مسلمانوں کا مولاکون ہے؟ رسول (ص) نے فرمایا میرے بھائی علی ابن ابی طالبؑ مسلمانوں کے امام اور مولا ہیں۔

اس حدیث کے مطابق مولا علی علیہ السلام ہی خداوند کی مضبوط رسی اور مسلمانوں کے امام اور امیر المومنین ہیں۔

 

علیؑ تلوار الہی:

حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کے واقعات  سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور حضرتؑ کے میدان جنگ کے کارناموں کو بیان کئے بغیر تاریخ اسلام ادھوری ہے جیسے  کہ درج ذیل حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: (( عن انس بن مالک قال: صعد رسول الله المنبر فحمد الله واثنی علیه الی ان قال :این علی ابن ابی طالب، فقام علی و قال:انا ذا یارسول الله فقال النبی(ص) ادن منی فدنا منه فضمّه الیّ صدره وقبّل ما بین عینیه وقال بأعلی صوته" یامعاشر المسلمین هذا علی بن ابی طالب۔۔۔۔هذا اسد الله فی ارضه وسیفه علی اعدائه۔۔۔۔)) ترجمہ: انس بن مالک سے منقول ہے رسول اللہ(ص) منبر پہ تشریف لے گئے اور حمد و ثنا الہی کے بعد فرمایا علی ؑ کہاں ہے؟علی ؑ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے رسول (ص)میں حاضر ہوں ۔ رسول(ص) نے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ علی علیہ السلام رسول کے قریب ہوئے اور رسول(ص) نے علیؑ کو اپنے سینے سے لگایا اور علی ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما اور فرمایا اے لوگوں! یہ علی ابن ابی طالبؑ ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا شیر ہے اور خدا کے دشمنوں کے مقابلے میں خدا کی تلوار ہے۔  اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اعظم (ص) نے غدیر کی طرح متعدد مواقع پر  حضرت علی علیہ السلام کی فضلیت کا لوگوں میں اعلان فرمایا ؛  تاکہ آپ ؑ کی ولایت اور شان و منزلت کے سلسلے میں امت پر اتمام حجت ہو اور مولا کی عظمت کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

 

علیؑ رسول اعظمﷺ کا جلوہ :

 

رسول رحمت (ص) نے اپنے عہد رسالت میں متعدد مواقع پر حضرت علی ؑ کا اپنا ولی ،وصی ،دوست ،امین ،ہم نشین ،راز دار اور علمبردار کے طور پر تعارف کروایا ہے۔ذیل میں اس نوعیت کی احادیث بیان کی جا رہی  ہیں:

 

حضرت علیؑ ختم مرتب کے پہلا ساتھی:

 

رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؑ کی شان میں یوں فرماتے ہیں:

یا علی انت اول من أمن بی و صدقنی و انت اول من اعاننی علی امری و جاهد معی عدوی و انت اول من صلی معی و الناس یومئذ فی غفله الجهالة  ترجمہ: اے علیؑ تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی اور تم ہی نے سب سے پہلے امر رسالت میں میری مدد کی اور میرے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا اور تم ہی نے سب سے پہلے میرے ساتھ نماز اداء کی جبکہ لوگ اس وقت جہالت کی غفلت میں تھے۔ اس حدیث کے مطابق، اسلام کے سارے امو ر میں علی ؑ رسول رحمت ﷺ کے پہلے یار و ناصر تھے۔ اور اسلام کے سارے امور میں علی ؑ کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے ۔

 

حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے دوست:

 

ہر لمحہ اور ہر قدم پر رسول ﷺ کے شانہ بشانہ رہنے والے امیر المومنین ؑ کے متعلق سرور کونین ﷺ نے متعدد مقامات پر دوست اور ساتھی کے القابات بیان فرمائے ہیں جیسے کہ ذیل کے واقعہ میں عائشہ یوں کہتی ہیں: (( عن عائشة قالت: قال رسول الله وهو فی بیتها لمّا حضر الموت ادعوا لی حبیبی فدعوت له ابا بکر فنظر الیه ثم وضع راسه ثم قال : ادعوا  لی حبیبی فدعوا  له عمر! فلمّا نظر الیه وضع راسه ثم قال ادعوا  لی حبیبی فقلت ویلکم! ادعوا  له علی ابن ابی طالب فوالله مایرید غیره فلمّا راه  افرج التوب الذی علیه ثم ادخله فیه فلم یزل محتضنه حتی قبض صلی الله علیه وآله وسلم و یده علیه))

ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے رسول خداﷺ نے فرمایا  (جب احتضار کے وقت رسول خدا ﷺ عائشہ کے گھر میں تھے) میرے پاس میرے دوست کو بلاؤ۔ میں (عائشہ) نے ابو بکر کو بلایا، حضور نے ابو بکرکو دیکھ کر دوبارہ سر رکھا اور پھر فرمایا میرے دوست کو میرے لئے بلاؤ عمر کو بلایا گیا۔ جب حضورﷺ نے عمر کو دیکھا تو دوبارہ سر رکھ کر فرمایا میرے دوست کو میرے لیے بلاؤ،پس میں(عائشہ) نے کہا تم لوگوں پر وای ہو علی ؑ کو ان کے لئے بلاؤ  خدا کی قسم حضرتﷺ کی مرادعلیؑ کے سوا کوئی اور نہیں، جب حضور ﷺنے علی ؑ کو دیکھا تو اپنی چادر کو کھولا اور علی ؑ پیغمبر ﷺکی چادر میں داخل ہوئے اور ہم آغوش ہوئے یہاں تک کہ رسول خداﷺ کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی  اور حضورﷺ  کا ہاتھ علی ؑ پر تھا۔

 اور اسی طرح سرور کائناتﷺ علی ؑ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

(یا علی انت رفیقی فی الجنة)   ( اے علیؑ تم جنت میں میرے ہم نشین ہو)۔ عائشہ کی اس حدیث کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کی طرح آخری لمحات میں بھی سب پر واضح کردیا کہ علیؑ سب سے زیادہ آنحضرتﷺ سے قریب ہیں۔

 

علی ؑ نفس اور روح رسول ﷺ:

 

رسول رحمت ﷺ نےعلی علیہ السلام کو بعض روایات میں اپنی جان اورنفس قرار دیا ہے جیسے کہ اس حدیث میں پڑھتے ہیں:

 (( علی منی کنفسی  طاعته، طاعتی و معصیته معصیتی))  ترجمہ: علی ؑمیرےنفس کی مانند ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔

اسی طرح دوسری حدیث میں رسول رحمت ﷺ مولا علی ؑ کو اپنی  روح قرار دیتے ہیں:

(علی بن ابی طالب منی کروحی فی جسدی)  ترجمہ: علی ابن ابی طالبؑ میرے بدن میں۔ میرے روح کی مانند ہے۔ اسی طرح سرور کونینﷺ علی ؑ کو اپنے بدن کےسر کی مانند قرار دیتے ہیں۔

((علی منی بمنزلة  راس من جسدی))  (علیؑ کا مجھ سے واسطہ میرے سر کا جسم سے واسطے کی مانند ہے)۔ دو آخری حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ لینا بے جانہ ہو گا کہ جیسے روح اور سر کے بغیر جسم نا مکمل ہے اسی طرح سرور کائنات بھی علی ؑ کے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل قرار دے رہے ہیں۔

 

علی ؑ رسول ﷺ کے امین اور راز دان:

 

رسول اکرم ﷺ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے، اہل قریش آنحضرت ﷺکو امین کہتے تھے ۔ واقعاً جسے دشمن امین کہے وہ کرامت کے بلند مرتبے پر فائز ہے اسی طرح علی علیہ السلام کا مقام بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ رسول رحمت ﷺ دنیا والوں کے امین جبکہ علی ؑ ان کے  امین ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں رسول رحمت ﷺ کی زبانی پڑھتےہیں:

(( قال فی علی قد علمته علمی واستودعه سری وهو امینی علی امتی))  ترجمہ:رسول خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: میں نے علیؑ کو اپنا علم دیا اور ان کے پاس اپنے راز امانت رکھے اور وہ امت پر میرے امین ہیں ۔

اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے یوں روایت نقل ہوئی ہے :

(روی عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله لکل نبی صاحب سرّ و صاحب سری علی بن ابی طالب)  ترجمہ: سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ سرور کائنات ﷺنے فرمایا : ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرا راز دار علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔ ان دو احادیث کی روشنی میں ہر صاحب خرد کے لیے واضح ہے کہ رسول  اکرم ﷺ کا  امین اور رازدار ہی رسول کے جانشین اور خلیفہ ہو سکتا ہے اورجب تک راز دار اور امین ہو تو کسی اور کی مسند رسول ﷺ سنبھالنے کے باری نہیں آتی ہے۔

 

رسول ﷺکے علم کے وارث:

 

رسول گرامی اسلام ﷺ نے مختلف احادیث میں حضرت علی ؑ کو اپنے علم کا وارث اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنےوالا قرار دیا ہے جیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتے ہیں:

(( عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله:اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب))  ترجمہ:سلمان فارسیؓ سے منقول ہے ۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والا علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ انبیاء کرام خدا وند متعال کی جانب سے علم کے خزانے ہوتے ہیں اورختمی مرتبت کے پا س تو سارے انبیاء کا علم موجود تھا۔ اس حدیث کےمطابق، رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ علم حضرت علی ؑ کے پا س تھا لہذا علیؑ ہی رسول ﷺکے واقعی جانشین بن سکتے ہیں ۔

 

حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے علمدار:

 

حضرت علی علیہ السلام کے دیگر امتیازات میں سے رسول ﷺ کا علمدار ہونا ہےجیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتےہیں:

((یا ابا برزة: علی امینی غداً علی حوض وصاحب لوائی))  ترجمہ:اے ابا برزۃ علیؑ روز محشر حوض(کوثر)پر میرے امین اور میرے پرچم کے مالک ہوں گے۔ اس لواء سے مراد الحمد بھی ہو سکتا ہے اور میدان جنگ کے علم بھی ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ علی علیہ السلام متعدد جنگوں میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔

 

حضرت علیؑ کے دیگر فضائل رسول ﷺ کی زبانی:

 

حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل میں سے رسولﷺ کی زبانی درج ذیل فضائل قابل ذکر ہیں :

 

حضرت علی ؑ کو دیکھنا عبادت:

 

رسول گرامی اسلام ﷺ کی مشہور روایت ہے:((النظر الی علی عبادة) علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔

 

ذکر علیؑ عبادت:

 

رسول رحمت ﷺ علی ؑ کے ذکر کے متعلق فرماتے ہیں: ((ذکر علی عبادة)   ( علی ؑ کا ذکر کرنا عبادت ہے) ۔ جبکہ دوسری حدیث میں رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی مجالس کو ذکر علیؑ سےمزین کریں:       ((عن جابر عبد الله الانصاری قال: قال رسول الله : زیّنو مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب))  ترجمہ: جابر بن عبد اللہ انصاری سےمنقول ہے  رسول خداﷺ نے فرمایا اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالبؑ سے مزین کرو۔

 

علیؑ خیر البشر:

 

رسول گرامی اسلامﷺ متعدد روایات میں علیؑ کو خیر البشر قرار دیتے ہیں جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے:( عن ابن عباس قال: قال رسول الله : علی خیر البشر من شک فیه کفر))                          ترجمہ: ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا: علی ؑ خیر البشر ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے۔

 

علیؑ ایمان اور نفاق کا معیار:

 

نبی مکرم اسلامﷺ حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور نفاق کے معیار ہونے  کے متعلق یوں فرماتے ہیں:(علی لا یحبه الا مؤمن ولا یبغضه الا منافق))                             

ترجمہ: حضرت علیؑ سے محبت نہیں کرتا مگر مومن اور علی ؑ سے دشمنی نہیں کرتا مگر منافق، یعنی مولا علیؑ ایمان اور نفاق کو پرکھنے  کےلئے معیار ہیں۔

 

علی ؑ قرآن کے ساتھ:

 

رسول رحمت ﷺ علیؑ کو قرآن کا ساتھی اور قرین قرار دیتے ہیں جیساکہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں:

((عن ام سلمة قالت: لقد سمعت رسول الله یقول:علی مع القرآن و القرآن مع علی،لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض)) ترجمہ:ام سلمہ کہتی ہیں :میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ، حضرتﷺ فرماتے ہیں :علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔

 

علیؑ حق کے ساتھ:

 

سر ور کائناتﷺ حضرت علیؑ کو حق قرار دیتے ہیں:

((قال الرسول الله : علی مع الحق و الحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة)) ترجمہ:رسول خداﷺ نے فرمایا: علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ اور یہ دونوں اکھٹے رہیں گے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملیں گے۔

 

علیؑ کعبے کی مانند:

 

رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؑ کو کعبے کی مانند قرار دیا ہے: (یا علی انت بمنزلة الکعبة)  ( اے علیؑ تو کعبہ کی مانند ہے) ۔

 

علی ؑ علم کے شہر کا دروازہ:

 

ختمی مرتبت ﷺ اپنے آپ کو شہر علم اور حضرت علی ؑ کو اس شہر کا دروازہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن عباس ؓسے بیان ہوا ہے :

((عن ابن عباس قال: قال رسول الله:انا مدینة العلم و علیٌّ بابها فمن اراد المدینة فلیات الباب)) ترجمہ:ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: میںﷺ علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے جو شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے سے آئے۔

 

علیؑ  انبیاء کی صفات کا مجموعہ:

 

ہر نبی کی ایک خاص صفت  ہوتی ہے جبکہ رسول ﷺ کی درج ذیل حدیث کے مطابق، علی ؑ سارے انبیاءؑ کی صفات کے مالک ہیں:

((قال رسول الله من اراد  ان ینظر الی آدم فی علمه و الی ابراهیم فی حلمه و الی نوح فی فهمه و الی یحیی بن زکریا فی زهده والی موسی بن عمران ( فی بطشه ولینظر الی علی بن ابی طالب)

ترجمہ: سرور انبیاءﷺ نے فرمایا: جو چاہے کہ آدمؑ کو اس کے علم میں اور ابراہیمؑ کو اس کے حلم میں (بردباری) نوحؑ کو اس کے فہم میں اور یحییؑ بن زکریا کو اس کے زہد میں اور موسی بن عمرانؑ کو اس کے غضب میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب ؑ کو دیکھے۔

 

حضرت علی ؑ اولیاء کے پیشوا:

 

سرور انبیاء ﷺ حضرت علیؑ کے سید الاوصیاء ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:

 ((عن انس بن مالک قال:قال رسول الله:ان الله عهد الیّ فی علی عهداً  فقال: علی رایة الهدی و منار الایمان وامام الاولیاء و نوری جمیع من اطاعنی))

 ترجمہ:انس بن مالک سے منقول ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: خداوند  متعال نے حضرت علی ؑ کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے :علیؑ ہدایت کا پرچم ،  ایمان کی نشانی ،  اولیاء کا پیشوا  اور جو میری اطاعت کرتے ہیں سب کا نور ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کے متعلق رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے فریقین ( شیعہ و اہلسنت )کی کتابیں بھری ہو ئی ہیں۔  کچھ احادیث نمونے کے طور پر پیش کی گئیں ؛  تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی ہو کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل میں رسول خدا ﷺ سے بیان شدہ  احادیث کن کن کتابوں میں دستیاب ہے خداوند  متعال ہمیں توفیق دے کہ حق کو سمجھ کر  اُس پر عمل پیرا ہوں۔(آمین)

 

والسلام علی من اتبع الهدی

............................

 

منابع :


1 ۔سورہ توبہ،آیہ 120۔

2۔الجوینی ،فرائد السمطین ،ج۱،ص۴۰۔

3۔النیشاپوری،حاکم،المستدرک علی الصحیحین ،ج۳،ص۱۴۰۔

4۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

5  ۔  ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

6  ۔  مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ج۳۷، ص۳۰۸۔

7۔ طبری،محب ذخائر العقبی،ص۹۲۔

8۔ عیون اخبار الرضا،ج۱،ص۳۰۳۔

9  ۔حنفی،مناقب خوارزمی،ص۶۷۔ابن شہر آشوب،مناقب ، ج۱،ص۲۳۶۔

10۔ بغدادی، خطیب،تاریخ بغداد، ج۱۲،ص۲۶۸۔

11۔ صدوق ،الخصال،ص۴۹۶،امالی صدوق ص۱۴۹۔

11۔ بدخشی،مفتاح النجاشی،ص۴۳۔

13۔ کنز العمال ج۱۱،ص۶۳۸،نمبر۳۳۰۶۲۔

14۔بحار الانوار ج۳۶،ص۱۴۵۔

15۔دیلمی،فردوس الاخبار،ج۲،ص۴۰۳۔

16  ۔  شافعی،جوینی، فرائد السمطین،ج۱،ص۹۷؛کنز العمال ج۱۱،ص۶۱۴،نمبر ۳۲۹۷۸۔

17۔ عسقلانی ۔ابن حجر،لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔

18۔موحد،محمد ابراہیم،الامام علی فی الاحادیث النبویہ،ص۱۳۴۔

19۔  الصواعق المحرقہ،ج۲،ص۳۶۰۔

20۔ کنز العمال،ج۱۱،ص۶۰۱،نمبر،۳۲۸۹۴۔

21۔بحار الانوار ،ج۳۸،ص۱۹۹۔

22۔کنز العمال،ج۶،ص۱۵۹۔

23۔ الطبرانی،معجم الکبیر، ج۲۳،نمبر ۸۸۵۔

24۔حاکم نیشاپوری،مستدرک ،حاکم ،ج۳،ص۱۲۴۔

25۔بغدادی،خطیب،تاریخ بغداد،ج۱۴،ص۳۲۱۔

26۔اسد الغابۃ۔ج۴،ص۳۱۔

27۔حاکم نیشاپوری،مستدرک الصحیحین،ج۳،ص۱۲۶۔

28۔ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،ج۷،ص۳۵۶۔

29۔عسقلانی،ابن حجر، لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔

مؤلف: تحریر : محمد عارف حیدر 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے وزير خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثآنی تہران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات  اورگفتگو کی ۔ اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قراردیا۔

ایران کے نئے صدر نے قطر کو ایران کا برادر اور دوست ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ قطر ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی پرگامزن ہے ۔ آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہترین اور قابل اعتماد ہے۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران ہمسایہ ممالک کی سلامتی،  ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے۔ قطر کے وزیر خآرجہ نے بھی اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ قطر کے بادشاہ کا سلام بھی پیش کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر زوردیا۔

ایام غدیر
ہر ایک انسان کا ہر دور میں کوئی شخص رول ماڈل ہوتا ہے، ہر دور میں ہر انسان کا ہر دن سے گہرا تعلق ہوتا ہے، انسان زندگی کے ہر پہلو میں اپنے پسندیدہ شخص کو دیکھ کر زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتا ہے، تاکہ اپنی پسندیدہ شخصیت کے معیار کے مطابق زندگی بسر کرسکے۔ اسی طرح انسان کا ہر دن بھی اس کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جو دن جس مناسبت سے مخصوص کیا جائے، اس دن کے آنے پر انسان خاص انداز میں وہ دن مناتا ہے، تاکہ اس دن کی اہمیت لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ آجکل کے معاشرے میں کچھ ایام ملکی طور پر منائے جاتے ہیں، جیسا کہ ماں کا دن، استاد کا دن، مزدور کا دن وغیرہ۔ ہم جن ایام اور شخصیات کی بات کرنے لگے ہیں، وہ کوئی عام ایام اور کوئی عام انسان نہیں ہیں، جن دنوں کی بات ہم کرنے جا رہے ہیں، ان دنوں کو عالم اسلام میں منانے کا حکم خداوند متعال نے خود دیا ہے۔١ جن ہستیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے، ان کے بارے میں قرآن پاک میں بہت واضح کئی بار ذکر کیا گیا ہے، ان عظیم ہستیوں کو انسان اگر زندگی کے ہر پہلو میں دیکھے تو اس کے لیے باعث فخر ہوگا، ان ہستیوں کی گفتار میں ہمیشہ سچائی ملے گی۔

دس ذوالحجہ (١)
عید قربان
مسلمانوں کی بڑی عید ہے، اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم پر اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے آمادہ کیا اور ان کے گلے پر چھری چلائی، تاکہ خداوند عالم کے حکم کی تعمیل ہوسکے، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ آسمان سے نازل ہوا اور ان کی جگہ ذبح ہوا۔ وحی نازل ہوئی، اے ابراہیم علیہ السلام، آپ امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ اسی وجہ سے سے مسلمان اللہ کے نبی کی سنت کی یاد تازہ کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں۔1

دس ذوالحجہ (٢)
حضرت ابو طالب علیہ السلام کی عظیم دعوت
تاریخ میں دس ذوالحجہ کے روز ایک اور واقعہ رونما ہوا، بہت کم لوگ اس واقعے سے آشنا ہیں۔ اس دن بہت بڑی قربانی کا اہتمام کیا گیا، اس عظیم انسان کی خاطر جس کا مقام پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد خدا کے نزدیک بلند ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام 13 رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو کچھ سالوں کے بعد حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے فرزند کے عقیقے کا اہتمام کیا، جس کے بارے میں اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ملتا ہے کہ اس سے بڑھ کر نہ کسی کا عقیقہ کیا، نہ ہی قربانی کی گئی۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے عقیقے کے لیے جو جانور ذبح کئے تھے، ان کی تعداد کچھ یوں ہے، 300 اونٹ 1000 گائے اور بکرے، تاکہ خداوند عالم کی بارگاہ میں اس بابرکت فرزند جو وصی رسول علیہ السلام ہے، حقیقی ولایت اور امامت کے حقدار ہیں، خدا کا شکرانہ ادا کیا جا سکے۔ اس سارے اہتمام کی یہ شرط تھی کہ طواف کعبہ کرنے والے حجاج کو دعوت دی جائے، جو کہ خدا کے خاص مہمان تھے، اس لحاظ سے یہ دعوت بہت عظیم تھی۔2

دس ذوالحجہ (٣)
مشرکین سے برائت کا اعلان
فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ھجری سورہ برائت کی آیات نازل ہوئیں (مشرکین سے بیزاری)۔ مشرکین کو دو کاموں کا حکم دیا گیا۔ اسلام لے آئیں یا مکہ سے اور حج بیت اللہ کے مراسم سے خارج ہو جائیں۔ یہ پیغام توحیدی تھا اور مکہ مکرمہ میں کفار اور مشرکین کے درمیان جا کر بیان کرنا تھا۔ لوگوں نے رائے دی کہ حضرت ابو بکر کو بھیجا جائے، تاکہ مکہ والوں کے سامنے ان آیات کو بیان کیا جائے، چونکہ جنگوں میں کوئی بھی مشرک ابوبکر کے ہاتھوں زخمی نہیں ہوا تھا، اسی لیے مشرکین مکہ ان سے کینہ نہیں رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو بلایا اور سورہ برائت کی آیات ان کے سپرد کیں اور حکم دیا کہ ان آیات کو حج بیت اللہ ادا کرنے والوں کے سامنے بیان کرو، لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ جبرائیل رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے محمد! اس کام کو خود انجام دیں یا کسی ایسے شخص کے ذمے لگائیں، جو آپ جیسا انجام دے سکے۔3

یہ کام کسی دوسرے سے صحیح انجام نہیں دیا جائے گا، یعنی لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ حکومت اسلامی کی بنیاد اور مشرکین و کفار سے برائت کا اعلان ہر کسی کا کام نہیں۔ بلا فاصلہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو سورہ برائت کی آیات کا اعلان کرنے کے لیے مکہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت علی نے رسول اکرم کے حکم کے مطابق آیات کو ابوبکر سے لیا اور خود حج بیت اللہ کے مراسم میں شرکت کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شجاعت اور دلیری کے ساتھ مشرکین کے درمیان کھڑے ہو کر کئی بار ان آیات کو بلند آواز کے ساتھ بیان کرتے رہے۔ ابوبکر راستے سے مدینہ روانہ ہوگئے اور یہ واقعہ دس ذوالحجہ کو پیش آیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام 11، 12، اور 13 ذوالحجہ کو اسی طرح ان آیات کو معانی کے ساتھ بیان فرماتے رہے۔

حضرت علی علیہ السلام اس سارے واقعے کو اس طرح بیان فرماتے ہیں، جس وقت مکہ میں آیا، تاکہ سورہ برائت کی آیات کو مشرکین کے سامنے پڑھوں، کوئی بھی مکہ میں نہیں تھا۔4 و 5 وہ سب جو مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، حتی کہ میرا جسم اگر کہیں تھوڑی سی خطا کرتا تو مجھے سزا دینے کے لئے آمادہ تھے، اس حد تک کہ جان و مال اور خاندان کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ مجھے تکلیف دے سکیں۔ اس خطرناک حالت میں آیات قرآن کو ابلاغ کیا۔ میرے آیات سنانے کے بعد سب نے مجھے سخت جواب دیئے اور مردوں اور عورتوں نے میرے ساتھ دشمنی کا اظہار کیا، لیکن میں نے بہترین انداز میں ان سوالوں کے جواب دیئے۔6

دس ذوالحجہ (٤)
حدیث ثقلین کا اجمالی تعارف
پیامبر اکرم مختلف جگہوں اور اوقات میں بیان فرماتے رہے ہیں، حدیث ثقلین کو جگہ جگہ واضح فرمایا، ان میں سے آپ کا سفر حج اور روز عید قربان اور 11 ذوالحجہ وغیرہ اور غدیر خم 10 ھجری یعنی حجۃ الوداع ہے۔ کافی اصحاب نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کا راویان اور سند کے اعتبار سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ سب مسلمان اس کو نقل کرتے ہیں۔ متن حدیث مبارکہ ..إِنِّی تَارِک فِیکمْ أَمْرَینِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا- کتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ أَهْلَ بَیتِی عِتْرَتِی أَیهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَ قَدْ بَلَّغْتُ إِنَّکمْ سَتَرِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُکمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِی الثَّقَلَینِ وَ الثَّقَلَانِ کتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِکرُهُ وَ أَهْلُ بَیتِی‏..
(٣بصائر الدرجات، ج ١، ص ٤١٣)
(٤ تقویم غدیر، ص ٢٢،٢٣)
(فضائل صحابہ، ص ٤٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ (خصال، ج ١، ص ٤٣٣)
2۔ (امالی طوسی، ص ٧٠٩)
3۔ (سنن ترمذی، ج ٢، ص ١٨٣)
4۔ (خصال ٢، ص ١٢٨)
5۔ تقویم غدیر ٢٠
6۔ (خصال ٢ ص ١٢٨)
7۔ (٣بصائر الدرجات ج ١ ص ٤١٣)
 (فضائل صحابہ ص ٤٥)

تحریر: ظہیر عباس
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.