
سلیمانی
کیا یہ وہی ایران ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
گذشتہ دنوں ایران نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی سیٹلائیٹ نور کو اپنے ہی ملک میں تیار ہونے والے لانچر کے ذریعے کامیابی سے فضا میں پہنچا دیا، سیٹلائیٹ نے لانچ ہونے کے نوے منٹ بعد اپنے زمینی مرکز پر سگنل دینے شروع کر دیئے تھے۔ ویسے تو خلا میں کئی ایک ممالک کی سیٹلائٹس موجود ہیں، تاہم ہر ملک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹلائیٹ کو خود خلا میں بھیج سکے۔ اس مقصد کے لیے غریب ممالک کو اکثر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایران نے اس سیٹلائیٹ کو فضا میں بھیجنے کے لیے اس سے قبل دو تجربات کیے تھے، جن میں اسے ناکامی ہوئی تھی، تاہم اس مرتبہ وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نور اگرچہ فوجی سیٹلائیٹ ہے، لیکن اس کو غیر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کو مدار میں پہنچانے کے لیے جو لانچر استعمال کیا گیا ہے، اس کے بارے مین یہ اطلاعات ہیں کہ اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹھوس ایندھن کو لانچر میں استعمال کرنے کی استعداد دنیا میں گنے چنے ممالک کے پاس ہے۔ ایران ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایندھن کے استعمال کے لیے پیچیدہ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ نور کے کامیاب تجربہ سے یہ چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ ایران نے یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔
ایران نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو میزائل سسٹم میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تاہم یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو اس لانچنگ پر تشویش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ سیٹلائیٹ لانچ کرکے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ویسے امریکہ بہادر تو اپنے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے لانچ کی جانے والی سیٹلائیٹ کو عالمی قوانین کے مطابق نہیں سمجھتا، اسی لیے اس نے چین اور جنوبی کوریا کو بھی متعدد مواقع پر ایسی ہی دھمکیاں دی ہیں، جنہیں یہ ممالک اب زیادہ قابل اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ میرا حیرت سے بھرپور سوال واقعاً دنیا کے اعلیٰ دماغوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ایران جو امریکا، یورپ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ تین دہائیوں سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں میزائل ٹیکنالوجی، توانائی، سائنس کے مختلف شعبہ جات، فوجی اداروں اور شخصیات، بینکوں، کرنسی، کاروبار، ہوائی انڈسٹری، بحری انڈسٹری اور دیگر کئی ایک شعبوں پر عالمی پابندیاں ہیں، جس کی معیشت کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا، اس نے کیسے سیٹلائیٹ بنائی اور پھر اسے خود ہی مدار میں پہنچا دیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پورا ایران کرونا کی زد پر ہے اور اس کے سینکڑوں شہری اس آفت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
ایران نے اس سے قبل بھی دنیا کو متعدد مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، کبھی امریکی ڈرون اتار کر، کبھی پیچیدہ ترین ڈرون کو فضاء میں تباہ کرکے، کبھی عراق میں امریکوں اڈوں کو نشانہ بنا کر۔ تاہم اس بار تو ایران نے سبھی حدیں ہی عبور کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ ایران کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایرانی قوم کی پیشرفت اور ترقی کا سفر کسی حال میں بھی نہیں تھم سکتا ہے۔ اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا، جو اتنے عرصے سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ فی الحال فضا میں غبارے چھوڑنے سے اوپر جا سکا ہوتا۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نیز اس کے فیصلہ سازوں نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی اور خود انحصاری کا فیصلہ کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ ایرانیوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ معاشی، اقتصادی، علمی پابندیاں ترقی کی رفتار کو سست تو کرسکتی ہیں، تاہم مکمل طور پر روکنا ان پابندیوں سے بس سے باہر ہے۔
ایران نے نور سیٹلائیٹ کو کامیابی سے مدار میں پہنچانے کا تجربہ کرکے جہاں سائنسی اور علمی میدان میں اپنی پیشرفت اور خود کفالت کا اعلان کیا ہے، وہیں اس نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایسی ہی ترقی اور پیشرفت کے مواقع روشن کر دیئے ہیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے بہت جلد ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جن سے ملک میں اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایران میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد چین کے بعد سب سے زیادہ ہے، ایران میں اب تک نوے ہزار کرونا کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا ستر ہزار کے قریب صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت ایران میں کویڈ 19 کے تقریباً پندرہ ہزار کیسز موجود ہیں، جبکہ اموات کی تعداد پانچ ہزار سات سو کے قریب ہے۔ ایران کی اس پیشرفت اور خود کفالت کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ دنیائے اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جو مغربی ممالک کی پابندیوں کا ایران کی مانند سامنا کر رہا ہو اور ان تمام معاشی، اقتصادی، تجارتی، علمی اور سائنسی پابندیوں کے باوجود ایسے معجزات رونما کرے۔ سائنسی ترقی کے یہ مظاہر اور ان شعبوں میں خود کفالت ایرانی قوم اور اس کی قیادت کا طرہ امتیاز اور ایمان باللہ کی بین دلیل ہے۔ اللہ کریم دنیا کی تمام اقوام اور ریاستوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
.بقره 185رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں
ایرانی دفاعی سیٹیلائٹ، آج مشرق وسطی میں ایران طاقتور اور امریکہ کمزور ہو چکا ہے، کرس مرفی کا دردنامہ
امریکہ کی جنوبی ریاست کنیکٹیکٹ سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ایران کی طرف سے اپنے پہلے دفاعی سیٹیلائٹ "نور" کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کے اقدام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ایران کی طرف سے اپنے دفاعی سیٹیلائٹ کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کا اقدام بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کے حوالے سے اختیار کردہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف ایران کو مضبوط کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ اب ایران کا رویہ بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ کریس مرفی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران مشرق وسطی میں ایران ہر لحاظ سے طاقتور اور امریکہ کمزور ہوا ہے۔
امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں دعوی کیا ہے کہ قبل ازیں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی تب ایران، عراق کے اندر موجود امریکیوں کو نشانہ نہیں بناتا تھا لیکن اب ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز منظم طور پر امریکی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ امریکی سینیٹر نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیں کہا تھا کہ (شہید جنرل قاسم) سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ایرانی دفاع میں کمزوری کا باعث بنے گی لیکن ان کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سے امریکی فورسز پر حملے بڑھے ہی ہیں کم نہیں ہوئے۔ کرس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر نے (ایرانی) جوہری معاہدہ توڑ کر ہمیں یہ تسلی دی کہ ایک نئے سسٹم اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے ایران کو مجبور کر کے پہلے سے بہتر ایک نیا معاہدہ طے کر لیا جائے گا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل کر رہ گیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ کسی (بین الاقوامی فریق) نے ایران پر جدید پابندیاں عائد کئے جانے کی حمایت نہیں کی جبکہ ایران نے اپنا جوہری پروگرام بھی ازسرنو شروع کر لیا ہے درحالیکہ نیا معاہدہ بھی طے نہیں پایا۔
ایران امریکی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہو گا اور ہر جارحیت کا بھرپور جواب دیگا، میریوسفی
اقوام متحدہ کے لئے ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے اپنے ایک بیان میں ایرانی دفاعی سیٹیلائٹ اور ایرانی فوجی بحری بیڑے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو دی جانے والے دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ ایران اپنے ملک و قوم کے دفاع کی خاطر کسی قسم کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس حوالے سے امریکی ہفت روزہ اخبار "نیوز ویک" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے رعب و دبدبے اور دھمکیوں کے سامنے جھکنے والا نہیں اور اپنے ملک و قوم کے دفاع میں ہر قسم کی جارحیت کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھرپور جواب دے گا۔
اقوام متحدہ کے اندر ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے امریکہ میں کرونا وائرس کی وسیع تباہ کاریوں کے حوالے سے جاری بدترین صورتحال میں امریکی حکومت کی ناکامی اور بین الاقوام سطح پر تناؤ میں اضافے کے امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ کے درمیان جب پوری دنیا کی توجہ اس وبا سے نپٹنے پر مرکوز ہے تو امریکی فوج اپنے ملک سے 7 ہزار کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع خلیج فارس کے پانیوں میں کیا کر رہی ہے؟
واضح رہے کہ ایرانی سمندری حدود کے قریب خلیج فارس میں سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے ایک بیان میں لکھا گیا تھا کہ میں نے امریکی فورسز کو حکم دیے دیا ہے کہ ہر یا تمام ایرانی کشتیوں کی طرف جو سمندر میں موجود ہمارے بحری بیڑوں کو روکنے کی کوشش کریں، فائر کر کے انہیں تباہ کر دیا جائے۔
یاد رہے کہ امریکی بحریہ کی طرف سے ایرانی سمندر حدود کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی خلاف پر ایرانی سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر ایرانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ خلیج فارس 2 لاکھ 50 ہزار کلومیٹرز رقبے پر موجود ایک بند سمندر ہے جس میں موجود کسی ایٹمی بحری بیڑے کو اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا تو کم از کم 10 بارہ سال تک وہاں کوئی زندہ چیز یا قابل استعمال پانی باقی نہیں بچے گا جو انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی۔
"عین الاسد کارروائی" کے امریکی جواب پر مزید 400 امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا، جنرل حاجی زادہ
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ملکی ٹیلیویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ خلائی پروگرام کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور مزید طاقت کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حکم دے رکھا ہے کہ امریکہ کے شر سے بچنے کے لئے ملکی قوت میں اضافہ کیا جائے اور ہم یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ظاہری رعب داب کے برعکس وہ ایرانی پر حملہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے امریکی دہشتگردی کی کارروائی میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں موجود سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر ایرانی جوابی کارروائی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ تب امریکی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کی توقع تھی لیکن ایرانی کارروائی کے جواب میں امریکہ کچھ نہیں کر پایا۔ ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ اگر امریکہ کی طرف سے عین الاسد پر ایرانی کارروائی کا جواب دیا جاتا تو پھر اس کے جواب میں فوری طور پر مزید 400 امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا جن کی فہرست پہلے سے تیار کی جا چکی تھی۔
فوجی شعبے میں ایران کا پہلا فضائی قدم
تحریر: رضا اصلانی
چند روز پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے کامیابی سے اپنا پہلا فوجی سیٹلائٹ فضائی مدار میں قرار دے دیا ہے۔ یہ فوجی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ اس فوجی سیٹلائٹ کا نام "نور" ہے اور اسے "قاصد" نامی لانچر کے ذریعے فضا میں بھیجا گیا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لانچر اور سیٹلائٹ دونوں مکمل طور پر ایران کے تیار کردہ ہیں۔ نور سیٹلائٹ کو زمین سے 425 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے مدار میں قرار دیا گیا ہے۔ لانچنگ پیڈ سے فائر ہونے کے 90 منٹ بعد ہی نور سیٹلائٹ نے زمین پر سگنل بھیجنا شروع کر دیے تھے جس سے یقین ہو گیا کہ یہ سیٹلائٹ کامیابی سے اپنے مدار میں چلا گیا ہے۔ اس بارے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ نور سیٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے کیلئے جس لانچر کا استعمال کیا گیا اس کے بالائی حصے میں ٹھوس ایندھن کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لازم الذکر ہے کہ ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے انجن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے اعلی فنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔
اس وقت دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جو فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کیلئے ٹھوس ایندھن والے انجن کے حامل لانچر کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حامل چند ایک لانچرز میں سے جاپان کا ایسیلیون لانچر، یورپین اسپیس ایجنسی کا ویگا لانچر اور امریکہ کے پاس موجود فوجی سیٹلائٹس فضا میں بھیجنے کیلئے مینماٹین لانچر قابل ذکر ہیں۔ ٹھوس ایندھن استعمال کرنے والے لانچرز کے شعبے میں جاپان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے لانچر "قاصد" کا استعمال فضائی شعبے میں ٹیکنالوجی کی اٹھان ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اس سے پہلے دو بار فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ دونوں بار اصل مسئلہ لانچر کے بالائی حصے میں تھا۔ لیکن فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے حالیہ کامیاب تجربے کے بعد ایران اس مسئلے پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس وقت زمین کے اردگرد مختلف مداروں میں تقریباً دو ہزار سے زائد سیٹلائٹ موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم تعداد ایسے سیٹلائٹس کی ہے جنہیں باقاعدہ طور پر فوجی سیٹلائٹ قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت جو فوجی سیٹلائٹس فضا میں موجود ہیں ان کی اکثریت امریکہ یا نیٹو نے فوجی مقاصد کیلئے فضا میں بھیج رکھا ہے۔ یہ نکتہ بھی شاید آپ کیلئے دلچسپ ہو کہ فضا میں موجود بین الاقوامی فضائی اسٹیشن بھیجے جانے والے بعض امریکی خلابازوں کو بھی فوجی نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس فضائی اسٹیشن پر امریکی اور روسی انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی اداروں نے بھی بڑی تعداد میں جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہیں۔ ایران کی جانب سے فضا میں بھیجے جانے والا نور سیٹلائٹ اگرچہ فوجی اداروں سے متعلق ہے لیکن محض فوجی مقاصد سے مخصوص نہیں۔ نور سیٹلائٹ غیر فوجی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور قدرتی آفات یا ماحولیات کے بارے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ فضا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کی اجازت درکار ہو۔ لیکن امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں فضائی ٹیکنالوجی کو اپنے ساتھ مخصوص رکھنا چاہتی ہیں اور دیگر ممالک کو اس شعبے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ امریکہ اب تک کئی ممالک کی جانب سے فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کر چکا ہے جن میں جنوبی کوریا اور چین سرفہرست ہیں۔
امریکہ نے جنوبی کوریا کو فضائی شعبے میں ایک سے زیادہ تجربہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ یہ ایک تجربہ بھی جنوبی کوریا کے دباو اور سیاسی عزم کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف چین نے 2007ء میں اپنا پہلا سیٹلائٹ فضا میں بھیجا۔ چین نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ فضائی شعبے میں ترقی کی راہ پر چلنے کیلئے پرعزم ہے اور اگر امریکہ نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اسے بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے کامیابی سے پہلا فوجی سیٹلائٹ فضا میں بھیجنا دنیا والوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایران نے جدید ٹیکنالوجی کی چوٹی پر پہنچنے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ قاصد لانچر میں زیر استعمال ٹیکنالوجی اس کے میزائل پروگرام میں مفید ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اصولی طور پر بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری ایران کی دفاعی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور سیٹلائٹ سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں ترقی کیلئے مفید واقع ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود یہ عظیم کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ جو قوم اپنے پاوں پر کھڑی ہوتی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
اولاد کی تربیت میں محبت کا کردار
امریکہ نے غیر انسانی اقدامات کے ذریعہ دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے میں مدد کی
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے المنار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے اپنے نامعقول اور غیر انسانی اقدامات کے ذریعہ دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے میں مدد کی ہے۔ مہر کے مطابق حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے اپریل سن 1996 میں جنوب لبنان پر اسرائیلی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی حکومت ، لبنانی قوم اور لبنانی فوج نے باہمی اتحاد ، یکجہتی اور استقامت کے ساتھ اسرائيل کو جنوب لبنان سے خارج ہونے پر مجبور کردیا۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ جنوب لبنان سے اسرائیلی فوج کا انخلا درحقیقت اسرائیل کی شکست کا آغاز اور اسلامی مزاحمت کے استحکام اور پائداری کا مظہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیل مزید کوئي حملہ کرتا ہے تو اسے منہ توڑ اور دنداں شکن جواب دیا جائےگا۔ مہر کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غیر انسانی طریقہ سے امریکہ کے اندر اور باہر کورونا وائرس کے پھیلنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ امریکہ کی ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیاں کورونا وائرس کے پھیلنے میں مددگار ہیں ۔ امریکہ کے صدر پہلے کورونا وائرس کو چينی وائرس قراردیتے رہے اور کورونا وائرس کا مذاق کرتے رہے اور امریکی صدر کے غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے آج امریکی عوام کو شدید نقصان اور پریشانی کا سامنا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ امریکہ کورونا وائرس کے سلسلے میں ہونے والے تجربات کو اپنے کنٹرول میں لینے کی تلاش و کوشش کررہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے بہترین اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں حزب اللہ کا لبنانی حکومت کے ساتھ قریبی تعاون جاری ہے۔
امریکی پابندیوں کے نرغے میں سربلند "جمہوری اسلامی ایران"
ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ ہوا کرتا ہے۔ 1979ء تک امریکہ مشرق وسطیٰ کا فرعون بنا رہا، اسے کوئی روک ٹوک نہ تھی، اپنی مرضی سے آنا، اپنی مرضی سے جانا۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً ایران کو وہ اپنی چھاونی سمجھتا تھا، جہاں کوئی اسے کوئی للکار نہیں سکتا تھا۔ خطے کے بڑے بڑے حکمران اس کے مقابل کھڑا ہونے کی جرات نہیں رکھتے تھے۔ شاہِ ایران خطے میں امریکی پولیس مین کا کردار ادا کر رہا تھا۔ سب کچھ امریکی مفادات کے حوالے سے اچھا چل رہا تھا کہ اچانک حالات نے پلٹا کھایا، 11 فروری 1979ء کا سورج انقلاب اسلامی کی نوید لیکر طلوع ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پہ کاری ضرب پڑی۔ امام خمینی موسیٰ کے روپ میں فرعونِ زمان کے مقابل کھڑے ہوگئے۔ امریکی پولیس مین راہ فرار اختیار کرچکا تھا۔ امریکہ اور اس کے حواری سمجھ گئے کہ جب تک خمینی و فرزندانِ خمینی موجود ہیں، خطے میں ہماری کامیابی ممکن نہیں۔ اسلام دشمنان سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس مشکل کا توڑ کیسے نکالا جائے۔
یہاں یاد دلاتا چلوں کہ موجودہ دور میں جس ملک و ملت پہ غلبہ کرنا مقصود ہو، اس پہ بجائے اس کے کہ جنگی جہازوں سے حملے کئے جائیں یا میزائل برسائے جائیں، اس کی اقتصاد پہ حملہ کیا جاتا ہے۔ اقتصادی لحاظ سے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، اس ملک کی معیشت کو تباہ کرکے اسے جھکنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن انقلابِ اسلامی کا خطرہ امریکہ کے لئے اتنا بڑا تھا کہ اس نے دونوں طرف سے حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا۔ ایک طرف جمہوری اسلامی کا اقتصادی پابندیوں سے گھیراو شروع کیا تو دوسری جانب صدام کے ذریعے ایران پہ حملہ آور ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کا آغاز 1980ء سے ہوا، جب ایک طرف 22 مئی 1980ء کو امریکہ نے ایران کا اقتصادی گھیراو شروع کیا، دوسری طرف اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے 22 ستمبر 1980ء کو ایران پر ایک ایسی جنگ مسلط کی، جس کے نہ صرف یہ کہ دونوں مسلمان ممالک بلکہ مشرق وسطیٰ بھی قطعی طور پر ایسی کسی جنگ کا متحمل نہیں تھا۔ دونوں طرف سے بے گناہ انسان مارے جانے لگے۔
امریکہ نے دونوں جانب سے اپنا کھیل جاری رکھا۔ صدام اور صدامیوں کو اسلحہ بھی پہنچاتا رہا جبکہ دوسرے محاذ پہ ایران کو سخت ترین پابندیوں میں جکڑنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ ان پابندیوں میں مزید سختی 1995ء میں دیکھنے میں آئی، جب بل کلنٹن نے امریکی تیل و گیس کمپنیوں کو ایرانی تیل کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے روک دیا۔ سال 2001ء میں ان پابندیوں میں تسلسل کے ساتھ ساتھ ایک تبدیلی یہ آئی کہ پہلے صرف ایرانی سرکاری افراد اور کمپنیوں کا گھیراو کیا جاتا تھا، اب غیر سرکاری افراد اور ادارے بھی ان پابندیوں کی زد میں آنے لگے۔ اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام جو آٹھ سالہ زبردستی مسلط کی گئی جنگ کی وجہ سے کمزور پڑ چکا تھا، اس میں دوبارہ طاقت آچکی تھی اور اس پہ زور و شور سے کام جاری تھا۔ طاقت کے توازن میں تبدیلی دیکھتے ہوئے امریکہ نے بھی پینترا بدلا اور غیر سرکاری افراد و کمپنیاں بھی اب زیرِ عتاب آنے لگے امریکہ کی دیکھا دیکھی اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی انقلابِ اسلامی کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے ایران پہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں، لیکن انقلاب کا جو بیج امام راحل نے بویا تھا، وہ اب ایک تن آور درخت بن چکا تھا۔
جمہوری اسلامی ایران نے رہبرِ حکیم کی سرپرستی میں اس شدید ترین اقتصادی محاصرے میں بھی ترقی کا عمل جاری و ساری رکھا۔ خود رہبرِ انقلاب، ان کے مشیران اور ایرانی وزیر خارجہ سمیت متعدد اہم افراد ان غیر قانونی و غیر انسانی پابندیوں کا شکار ہوئے، لیکن رہبرِ انقلاب نے ہمیشہ یہی فرمایا "محنت جاری رکھیں، یہ پابندیاں ہمارے لئے نعمت ثابت ہونگی۔" اوباما دور میں مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر ایران کے ساتھ ایک معاہدہ تشکیل دیا گیا، جسے ٹرمپ نے آتے ہی منسوخ کیا اور یوں ٹرمپ دور میں جمہوری اسلامی پر پابندیوں کا شدید ترین دور شروع ہوا۔ 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کو دوائیں اور طبی آلات سپلائی کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ بقول رہبر معظم انقلاب بظاہر پینٹ کوٹ پہنے اور خوشبو و ٹائی لگائے بظاہر مہذب نظر آنے والے اندر سے کتنے غیر مہذب ہیں، جنہیں دوائوں کے نہ ہونے کے باعث انسانی جانوں کے ضیاع کا کوئی احساس نہیں۔
اسوقت جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے، تقریباً 18 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوچکے، جبکہ ایک لاکھ سے زائد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران جو پہلے سے ان غیر قانونی و غیر انسانی پابندیوں کی زد میں تھا، کورونا کا شکار ہوا۔ 70 ہزار سے زیادہ افراد کورونا کا شکار ہوئے، جس میں سے چار ہزار سے زیادہ جان دے چکے ہیں، شدید ترین پابندیوں کے نرغے میں ہونے کے باوجود مریضوں کا علاج کامیابی سے جاری ہے۔ تقریباً 42 ہزار افراد اس وائرس سے صحتیاب ہوچکے ہیں۔ کورونا کے اوج کے دنوں میں بھی ایران میں غذائی اشیاء سمیت کسی چیز کی کمی محسوس نہیں کی گئی۔ عام دکانوں سے لیکر سپر مارکیٹس تک سب کچھ آسانی سے مل رہا تھا۔ یورپ، امریکہ و برطانیہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ بڑی بڑی مارکیٹیں خالی ہوچکی ہیں۔ لوگوں کو غذائی اشیاء بھی نہیں مل رہیں۔
لیکن ان بدترین حالات میں بھی امریکی بدمعاشی جاری ہے، ہر چند ہفتوں بعد نئی پابندیاں لگ رہی ہیں، جبکہ پاکستان، روس، چین اور اقوام متحدہ سمیت متعدد ممالک و شخصیات امریکہ کی اس اقتصادی دہشتگردی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بہرحال جمہوری اسلامی ایران اپنے رہبرِ عظیم الشان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی قیادت و سرپرستی میں سربلند ہے۔ ان کا حکیمانہ قول حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہا ہے، پابندیاں نعمت بن چکی ہیں، جمہوری اسلامی تنِ تنہا کورونا وائرس کو شکست دینے کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔ بقول شاعر۔۔۔۔۔وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اہل بیت(ع) فاؤنڈیشن آف انڈیا کی جانب سے ضرورتمند مومنین کے درمیان اشیائے خوردنی تقسیم+
دنیا بھر میں کورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔
اس دوران بھارت میں بھی ۲۱ دن کے لیے لاک ڈٓاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے تمام لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں۔
ایسے دشوار حالات میں لاکھوں کی تعداد میں غریب و فقیر افراد جو روزانہ کی محنت و مزدوری سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرتے تھے بے روزگار ہو چکے ہیں اور تنگدستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اہل بیت(ع) فاؤنڈیشن آف انڈیا نے ایک قابل قدر کاوش انجام دے کر کچھ بے سہارا مومنین کو امداد رسانی کی ہے اور کئی علاقوں میں اشیائے خوردنی کو مومنین تک پہنچایا ہے۔
فاؤنڈیشن کے صدر حجۃ الاسلام سید سرور عباس نقوی نے اس بارے میں کہا: تا حال ۲۰۰ سے زائد اشیائے خوردنی پر مشتمل پیکیج ضرورتمند مومنین کے گھروں پر پہنچائے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ماہ مبارک کے آخر تک جاری رہے گا۔