سلیمانی

سلیمانی

: ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ  اہم مناسبتوں کو  بھی سمیٹے ہوئے ہے  ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اہم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔

جہاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنہیں اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انہوں نے ہمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان ِعمل میں قدم رکھا تو  ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ  کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوہر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا   جہاں ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھتی ہے وہیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ہوگا اور اس کے  پیش ِ نظر خدا ہوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے  نہیں ہٹ سکتے ۔

ان ایام میں  ۲۴ رجب کی تاریخ جہاں اس لحاظ سے اہم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وہیں   ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے  کہ ۲۲ رجب ہی کی تاریخ میں جب ایک طرف یہودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بہت ہی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ہاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یہودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لہرا سکی [۱]۔
[۱:۵۵ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۳] ‪‎‪+98 921 011 3821‬‬: یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں  لیکن یہ تب ہوگا جب ہم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ  کے ان کرداروں کو پہچانیں گے جنہوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو انکے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے  اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نہیں کیا انکا ہر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے ہر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا  ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب  رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ہم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انہیں دنیا میں سربلند کر کے علی ع بنا دیا وہ علی ع جسکی فکر بھی بلند ، جسکا عمل بھی بلند جسکا نام بھی بلند  ی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جہاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بہادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے وہیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رہا ہے  ایک مناسبت وہ ہے جہاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جہاں جناب جعفر کی حبشہ  سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراہٹ آئی  ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے کرداروں کو پیش کر رہے ہیں  لیکن جن منفی  کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور انکی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہاں ہمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں صرف اس لئے پیش نہیں کیا گیا کہ ہم   اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے والے لوگوں کے  سیادہ  کارناموں کو ہم سن کر انہیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیہودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا انکا یہ عمل لائق مذمت ہے اور انکی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ہی نہیں کہ ہم دوسروں کی ملامت کرتے رہیں ہم ہی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رہی ہے اہم یہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ  آج کے خیبر میں ہم کہاں ہیں آج جب یہودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نہیں  ۲۲ رجب کی تاریخ ہمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ہی تھے آج ہم کہاں پر

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "عید سعید مبعث رسول اکرم(ص)" اور نئے ایرانی سال کے آغاز کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں کرونا وائرس کے وبائی مرض کے جلد خاتمے کی دعا کرتے ہوئے پوری دنیا کے انسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ طبی ہدایات پر عمل کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 27 رجب المرجب کے روز حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کی مناسبت سے منائی جانے والی عید مبعث رسول خدا(ص) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت پر مبنی حقائق کو پوری تاریخ میں انسانیت کی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ بعثت کی حقیقتوں پر عمل، خصوصا صبر و استقامت ہی ایرانی قوم کے ترقی اور قوت کی چوٹیوں تک پہنچنے کا واحد رستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا واقعہ اتنا عظیم ہے کہ خداوند متعال نے اس کے حوالے سے قرآن مجید میں تمام بڑے انبیاءؑ سے عہد لیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر وہ آپؐ پر ایمان لائیں اور آپؐ کی امت کے ایمان میں لانے مدد کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے دین مبین اسلام کے عظیم و الہی پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آزادی اور اجتماعی عدالت جیسے مفاہیم کا سرچشمہ مغربی دنیا ہے جبکہ مغربی دنیا صرف 3 یا 4 صدیوں سے ہی ان عظیم مفاہیم سے آگاہ ہوئی ہے البتہ اسلام وہ دین ہے جس نے آج سے 1400 سال قبل انسانیت کو یہ گراں بہا مفاہیم عطا کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل انسان کو ان مفاہیم سے روشناس کروایا ہے بلکہ، مغرب کے جھوٹے دعووں کے برعکس، اسلام نے ہر جگہ پر ان مفاہیم کو عملی جامہ بھی پہنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معارف سے پروان چڑھنے والے اسلامی احکام نہ صرف اسلامی اقدار کے مطابق ہیں بلکہ بلندیوں کی طرف انسان کے سفر میں ممد و معاون بھی ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ نے اسلام کے سیاسی پہلو اور اسلامی حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر (اسلامی) سیاسی طاقت تشکیل نہ پائے تو غنڈے، مستکبر اور آزادی و اجتماعی عدالت کی مخالف تمام قوتیں (اسلامی) مفاہیم، اقدار اور احکام کو ہرگز عملی جامہ پہنانے نہ دیں جبکہ اس صورت میں انسان نجات و ترقی کے راستے پر گامزن ہونے سے قطعی طور پر محروم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پہلی فرصت میں اسلامی حکومت کو تشکیل دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلامی حقائق کو انتہائی گہرائی کے ساتھ درک کرتے ہوئے "بعثت" پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر اپنے گہرے ایمان، خدا پر توکل اور ایرانی عوام کے سہارے کرپٹ، ظالم اور استکباری طاقتوں کے کٹھ پتلی پہلوی شہنشاہی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی حکومتی نظام کو رائج کیا تاکہ "بعثت" کے معارف، اقدار اور احکام کی بنیاد پر ایرانی قوم کو فلاح و بہبود کی طرف ہدایت کر سکیں۔

مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے قرآن کریم کے اندر انبیاءِ الہی اور خصوصا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ برتی گئی وسیع دشمنیوں اور اسلامی نظام حکومت کے ساتھ برتی جانی والی دشمنی میں پائی جانے والی مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی دشمنوں میں امریکہ سب سے زیادہ خبیث اور کینہ پرور ہے کیونکہ اس کے حکام کے اندر جھوٹ، بے ایمانی، لالچ، گستاخی اور چرب زبانی و مکاری جیسی انواع و اقسام کی اخلاقی برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی حکام انتہائی ظالم، دہشتگرد اور پرلے درجے کے بے رحم و سنگدل بھی ہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس حوالے سے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت کے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بعثت کے شروع سے ہی دشمنیوں سے نمٹنے کے لئے ایک خاص اصول عطا فرمایا تھا جو "صبر" یعنی؛ "قیام"، "مزاحمت"، "اپنے حساب کتاب کو دشمن کی دھوکہ بازی سے تبدیل نہ کرنا"، "اختیار کردہ اعلی اہداف کے حصول کے لئے عزمِ راسخ کے ساتھ جدوجہد کرنا" اور "اپنے رستے پر گامزن رہنا" ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کو دی جانے والی دھوکہ و فریب پر مبنی امریکی مدد کی متعدد پیشکشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے یہ بیانات مضحکہ خیز ہیں کیونکہ وہ خود اس بیماری (کرونا وائرس) کی دواؤں اور متعلقہ طبی سازوسامان کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا بعض امریکی حکام نے کھل کر اعتراف بھی کیا ہے کہ امریکہ میں دواؤں اور طبی سامان کی کمی "وحشتناک" ہے لہذا (انہیں ہمارا جواب یہ ہے کہ) اگر ان کے پاس وسائل موجود ہیں تو وہ امریکی عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے یہ کہ جب امریکہ اس خطرناک وائرس کے بنائے اور پھیلائے جانے کا "ملزم" ہے تو کون سا عقلمند شخص امریکی حکام کی مدد کو قبول کر سکتا ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی حکام کسی طور اعتماد کے قابل نہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ امریکہ سے بھیجی جانے والی امدادی دوائیں ایران میں اس وائرس کو مزید پھیلانے یا لمبے عرصے تک باقی رہنے کا باعث بنیں یا ان کی طرف سے بھیجے جانے والے طبی ماہرین ایرانی عوام پر اس وائرس کے اثرات کی تحقیق کرنے کا ہدف رکھتے ہوں کیونکہ اس وائرس کے بارے میں محققین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کی ایک قسم خصوصی طور پر ایرانی عوام کے لئے بنائی گئی ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی نظام حکومت کے ساتھ عالمی استکباری طاقتوں کی 40 سالہ دشمنی کے تجربے اور ایران کے اندر ان دشمنیوں اور مشکلات سے مقابلے کی موجود بھرپور صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اندر خدادادی صلاحتیں بہت زیادہ ہیں جبکہ انہیں ٹھیک طرح پہچاننے اور ان سے بہتر استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عالمی وبا "کرونا وائرس" سے بچاؤ کے حوالے سے طبی ہدایات پر عملدرآمد کو "شرعی ذمہ داری" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان طبی ہدایات پر عملدرآمد کی خاطر حتی دینی اجتماعات اور اہلبیت علیہم السلام کے حرم مبارک بھی بند کر دیئے گئے ہیں جبکہ پوری تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور رستہ موجود نہیں تھا اور اسی میں عوام کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو اللہ تعالی سے اس دعا پر تمام کیا کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو اس مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارا عطا فرمائے۔

تحریر: اکبر حسین مخلصی

مقاومتی بلاک کے نام سے ہم سب آشنا ہیں، لیکن فقط نام تک کی آشنائی کافی نہیں، اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے مقاومتی بلاک کی اصطلاح، قیام اور حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقاومتی بلاک کی تشکیل کا خلاصہ یہ ہے کہ غربی استعمار کی جارحانہ عسکری اور ثقافتی یلغار نے مستضعف قوموں کو non aligned movement جیسے کاونٹر فورم اور اسلامی مقاومتی بلاک کی تشکیل پر مجبور کیا۔ یہ اتحاد مشرق وسطیٰ میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کر رہا ہے۔ سامراجی قوتیں استقامتی بلاک کو داخلی خلفشار کی خلیج میں دھکیلنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈرامہ رچا رہی ہیں۔ اس پلان کو حاصل کرنے کے لیے خطے کے عرب آمروں کو 34 ملکی اتحاد کا برگ حشیش دے کر مسلم دنیا کی آنکھوں میں وار آن ٹیرر کی دھول جھونکی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پالیسی غیر متوقع حد تک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ مقاومتی بلاک کے تزویراتی اقدامات زیادہ موثر اور فیصلہ کن نتائج رکھتے ہیں۔

عرب خطے کی عوامی قوتیں مغرب کے اخلاقی دوہرے پن اور انسانی حقوق کے پرفریب نعروں کو تہذیبوں کے تصادم جیسے انتہاء پسندانہ پس منظر کی حامل نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف استعماری قوتوں کا منفی پروپیگنڈا عالمی سطح پر نہ صرف فلاپ ہوا ہے بلکہ معکوس نتائج دینے لگا ہے۔ اسی لیے پسماندہ ترین سیاسی نظام رکھنے والے عرب ممالک کی رائے عامہ مغربی استکبار کے سیاسی دوغلے پن کو جمہوریت مخالف رویئے کے طور پر لیتی ہے۔ عرب رائے عامہ میں پائی جانے والی یہ تشویش بتدریج مغرب مخالف تحریکوں کی شکل اختیار کرکے عرب ممالک میں آمریت نوازی کے سامراجی پلان کو چیلینج کرتے ہوئے مقاومتی بلاک کی کاونٹر پالیسی کو تزویراتی بیک اپ دے گی۔ یوں استقامتی بلاک مشرق وسطی میں دفاعی پوزیشن سے اقدامی پوزیشن کی طرف سفر کریگا، جس کے ابتدایی نتائج شام، عراق اور یمن کے محاذ میں مقاومتی بلاک کی عسکری حکمت عملی کی واضح کامیابی کے طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔

گریٹر مشرق وسطیٰ کا ناقوس بجانے والی غربی، عبری اور عربی ٹرائیکا یمن کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور پراکسی وار کی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے شام میں سیف زون کا اسٹریٹیجک محاذ کھول کر مقاومتی بلاک کو انگیج رکھنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے ترکی کو خلافت کا جھانسہ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے، جو  فلسطینی انتفاضہ کی مزاحمتی طاقت کو مضمحل کرکے اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دے گا۔  لطف کی بات یہ ہے کہ سیف زون کا کیموفلاج جہاں اسرائیل کو وقتی طور پر تحفظ دے گا، وہیں فلسطین کاز کے حل کے لیے استقامتی بلاک کو مزاحمتی سرگرمیوں کے لیے وسیع میدان بھی فراہم کرے گا، جس سے غاصب صہیونی دجالیت کو عبرتناک انجام تک پہنچانے میں بنیادی مدد ملے گی۔ البتہ اس پس منظر میں مخصوص مسلکی رجحانات کی حامل تکفیری قوتوں کے منافقانہ کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو امپورٹیڈ جہادی عناصر کے ذریعے مقاومتی بلاک کو داخلی محاذ میں الجھانے کا ٹاسک رکھتی ہیں۔

جس کا اہم ہدف ایران فوبیا کے نفسیاتی داو پیچ استعمال کرکے عرب دنیا کی مزاحمتی قوتوں کو مقاومتی بلاک سے جدا کرنا ہے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو رہی، کیونکہ خطے کی رائے عامہ عرب آمریتوں کے جہادی ایجنڈے کی حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔ اس تناظر میں معروضی حقائق اس بات کا کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی عالمگیریت کا خواب، مغرب کو ناگزیر طور پر نظام مہدویت سے براہ راست محاذ آرایی کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اب وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل جیسا غاصب اور جارح ملک جلد ہی ہمیشہ کے لیے مشرق وسطیٰ کے نقشے سے معدوم ہونے والا ہے۔ البتہ اس کیلئے سارے مسلمانوں کو ایران فوبیا سے نکلنا ہوگا، چونکہ مشرق وسطیٰ میں اسوقت ایران ہی مقاومتی بلاک کا مرکزی ستون ہے۔

یورپ کی نام نہاد جمہوری حکومتیں اور خلیجی ممالک کی آمریتیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے تکفیری جہادیوں کو مجاہدین کا لقب دے کر مشرق وسطیٰ میں مضبوط کر رہی ہیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ فلسطین کی آزادی کا حل مقاومت نہیں بلکہ پرامن ٹیبل ٹاک ہے۔ دو ریاستی حل جیسے امریکی ایجنڈے کو مسلم دنیا کے ردعمل سے بچنے کے لیے غیر سفارتی انداز میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ پی ایل او اور الفتح جیسی تنظیمیں مجوزہ حل کے تباہ کن نتائج کو نظرانداز کرکے سکیورٹی کونسل سے آس لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عمل درحقیقت اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کرکے فلسطینیوں کو اپنی دھرتی سے محروم کرنے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل  کا باعث بنے گا۔

ایسے حساس سناریو میں مقاومتی بلاک ہی وہ واحد طاقت ہے، جو انتفاضہ کی ڈگمگاتی قیادت کو روشن مستقبل کی امید دلا کر مظلوم فلسطینی نسلوں میں آبرومندانہ آزادی کی امنگ پیدا کر رہا ہے اور اسرائیل کی نابودی کے لیے کاونٹ ڈاون ایکسپیڈیشن لانچ کر رہا ہے۔ اگر استقامت جاری رہی تو ایک دن ارض مقدس سے صہیونی تسلط کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے اور بیت المقدس کے افق پر آزادی کی کرنیں جگمگائیں گی۔ یوں صہیونی سامراج کا نیو ورلڈ آرڈر، مقاومتی بلاک کے ہاتھوں عبرتناک انجام کو پہنچے گا اور فلسفہ انتظار مقتدرانہ حیثیت میں عالمی نجات دہندہ کے ظہور کی زمینہ سازی کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ نتیجتاً عالمی معاشرے کا انسان نظام مہدویت کے سائے میں حقیقی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ بقول اقبال رہ:  
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید  سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

تحریر: علی احمدی

امریکہ کی اقتصاد اور معیشت انجان پانیوں میں ڈوب رہی ہے۔ ماہرین اقتصاد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک جمود اور بحران کی جانب گامزن ہے۔ چونکہ اس وقت امریکہ کی اقتصادی سرگرمیاں اور کاروبار کرونا وائرس کے سائے میں جام ہو کر رہ گئی ہیں۔ البتہ یہ پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ اقتصادی جمود اور بحران کس حد تک شدت اختیار کرے گا اور اس سے نکلنے میں امریکہ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ آکسفورڈ ایکنامکس سے وابستہ اعلی سطحی ماہر اقتصاد جرج ڈیکو کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت آئندہ چھ ماہ میں جمود کے کم از کم دو مرحلے طے کرے گی۔ پہلے تین ماہ کے دوران امریکہ کی اقتصادی ترقی کی شرح 0.4 فیصد جبکہ اگلے تین ماہ میں 12 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہو گی۔ یہ امریکہ کی تاریخ میں معیشت میں سب سے بڑا موسمی جمود ہو گا۔ اس جمود کی شدت اور ترقی یافتہ معیشت میں تقریباً تمام بڑے شہروں کی بندش ایک بے سابقہ امر ہے اور معیشتی بحران سے زیادہ جنگ جیسی صورتحال سے ملتا جلتا ہے۔

مورگن اسٹینلے سے وابستہ ماہر اقتصاد ایلن زینتھنر کا کہنا ہے: "حتی گذشتہ حکومتوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں کو گھر سے باہر جانے یا مختلف قسم کے اجتماعات میں شرکت کرنے سے روکا گیا ہو۔" انہوں نے مزید کہا: "چھٹی کمپنیوں کو انتہائی شدید دھچکہ پہنچے گا کیونکہ ان کی مالی ذخائر تک رسائی محدود ہے جبکہ بینکوں میں کافی حد تک سرمائے سے بھے برخوردار نہیں ہیں۔ لہذا ممکنہ اقتصادی بحران کی صورت میں چھوٹے پیمانے پر جاری کاروبار اور اقتصادی سرگرمیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔" روز بروز بیروزگاری میں اضافے، تجارت اور سیر و سیاحت میں کمی کے باعث ماہرین اقتصاد روزانہ کی بنیاد پر اپنی معلومات اور ماڈلز کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقبل قریب میں اقتصادی معلومات نہ صرف غیر معتبر بلکہ ناقابل تشخیص ہو جائیں گی۔ جرج ڈیکو کا خیال ہے کہ اپریل کے مہینے میں امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچے گی۔ یہ مقدار ماضی کے تناظر میں بے سابقہ ہے جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیون مینوچین نے حکومت کی جانب سے موثر اقدامات انجام نہ دینے کی صورت میں بیروزگاری کی شرح 20 درصد بڑھ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اگر جرج ڈیکو کی پیشن گوئی کے مطابق امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ 16.5 ملین افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ یہ تعداد فروری میں 5.8 ملین بیروزگار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف روس اور سعودی عرب کے درمیان خام تیل کی صنعت کے شعبے میں جنگ نے بھی امریکہ کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی فراہمی میں اضافے کے باعث خام تیل کی قیمت میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس نے امریکہ کی خام تیل کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ امریکن یونیورسٹی کے لیکچرر اور اقتصادی تاریخ کے ماہر گیبریل میٹی اس بارے میں کہتے ہیں: "یہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا جمود اور بحران ہے جو سہولیات کے شعبے میں شروع ہو رہا ہے۔ ہم اندرونی خالص پیداوار میں اضافے کی نسبت روزگار کے مواقع میں زیادہ تیزی سے کمی کے شاہد ہوں گے۔" اس وقت امریکہ میں کرونا وائرس کا مسئلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

ورلڈ میٹر نامی ویب سائٹ پر آنے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 3 لاکھ 8 ہزار 257 افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے 13068 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں سے 95 ہزار 828 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا کے چار ممالک میں کرونا وائرس کی وبا سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ممالک بالترتیب اٹلی، امریکہ، اسپین، اور جرمنی ہیں۔ ان چار ممالک میں کرونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اٹلی میں گذشتہ ایک روز میں کرونا وائرس کے 6557 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اٹلی کے بعد امریکہ ایسا ملک ہے جہاں کرونا وائرس کے پھیلاو میں بہت تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکہ میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں 6674 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک امریکہ میں 26 ہزار 868 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی معیشت پر کرونا وائرس کے ممکنہ اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ امریکی معیشت انتہائی کٹھن حالات کی جانب گامزن ہے جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
 
 
 

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام موسی  کاظم علیہ السلام کے روز شہادت کے موقع پر نئے ہجری شمسی سال 1399 کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی مقدس بارگاہ میں سلام اور درود پیش کیا اور عید مبعث اور عید نوروز کی مناسبت سے ایرانی قوم خاص طور پر شہیدوں، جانبازوں کے اہلخانہ اور اسی طرح صحت کے شعبے میں سرگرم مجاہدوں اور دن رات کام کرنے والوں کو مبارکباد پیش کی اور نئے سال کو "پیداوار کے فروغ اور ترقی"  کے نام سے موسوم کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال 1398 ہجری شمسی کے شہیدوں منجملہ شہدائے مدافع حرم، سرحدوں کے شہداء اور سرفہرست سپاہ اسلام کے عظیم شہید جنرل سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی شہیدوں کے اہلخانہ کو مبارکباد اور تعزیت پیش کی، اسی طرح کرمان کے حادثے کے شہداء ، طیارہ حادثے کے شہداء اور صحت کے شعبہ سے منسلک شہداء کے اہلخانہ کو بھی تبریک اور تعزیت پیش کی اور گزشتہ سال "1398"  ہجری شمسی کو مختلف نشیب و فراز کا سال قرار دیتے ہوئے فرمایا: گزشتہ سال کا آغاز سیلاب سے ہوا اور اختتام  کورونا پر ہوا اور سال کے دوران بھی زلزلہ اور اقتصادی پابندیوں جیسےمختلف اور گوناگون حوادث رونما ہوئے لیکن ان حوادث میں سب سے عظیم حادثہ، اسلام و ایران کے نامور اور عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گزشتہ سال سخت اور دشوار سال تھا اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان سختیوں کے ساتھ  ساتھ بعض بے نظیر اور اہم کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور ایرانی قوم کی درخشندگی نمایاں رہی۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ پابندیوں کی وجہ سے نقصانات  کے ساتھ ساتھ بہت فائدے بھی ہوئے اور ان پابندیوں نے ہمیں ملکی سطح پر ضروریات زندگی کی اشیاء اور سامان کی پیداوار کی جانب قدم  بڑھانے پر ترغیب دلائی اور یہ سلسلہ انشاء الله اسی طرح جاری رہے گا۔

 ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں

 ۔ مائدہ55

پہلی بات تو یہ ہے کہ جب مجسمے کی رونمائی کی گئی تو وہاں موجود لبنانیوں کے زبردست اجتماع میں جنرل قاسم سلیمانی کے دونوں بیٹے بھی موجود تھے جبکہ حزب اللہ کے متعدد بڑے کمانڈر اور جنوبی لبنان کے عوام بھی وہاں موجود تھے۔ دوسری بات جس نے سبھی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی وہ مجسمے کے پیچھے نظر آنے والا فلسطین کا پرچم تھا اور جنرل قاسم سلیمانی اپنی انگلی سے الجلیل شہر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جو فلسطینی شہر ہے تاہم اسرائیل نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔

جہاں ایک طرف معرالنوراس میں جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کی رونمائی کی گئی وہیں دوسری جانب اسی وقت عراق کے دار الحکومت بغداد کے گرین زون علاقے میں واقع امریکی سفارتخانے کے پاس امریکی چھاونی پر تین راکٹ فائر کئے گئے جبکہ شمالی شہر کرکوک میں امریکی چھاونی پر کے-1 میزائل فائر کئے گئے۔

ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایران اور مقاومتی محاذ کی جانب سے پوری کوشش ہو رہی ہے کہ جنرل قاسم زندہ جاوید ہو جائیں اور ان کی تصاویر کروڑوں افراد کے اذہان میں ہمیشہ زندہ رہے۔ مارون الرأس میں نصب کئے گئے جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کو دیکھنے کے لئے ہر روز بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی پیغام دیا جا رہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام رکنے والا نہیں ہے۔ عین الاسد پر ایران کا میزائل حملہ پورا انتقام نہیں بلکہ انتقام کا آغاز تھا۔

جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کے پیچھے فلسطین کا پرچم اور الجلیل شہر کی جانب اشارہ کرتی ان کی انگلی خاص پیغام دینے کے لئے ہے۔ اس سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس عظیم کمانڈر نے فلسطینی تنظیموں کی بے مثال مدد کی۔ لبنان میں حماس کے نمائندے نے بتایا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے غزہ پٹی کا خفیہ دورہ بھی کیا ۔ اس کمانڈر کو انہیں عظیم خدمات کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ اس لئے ہم اگر کبھی اچانک سنیں کہ اسرائیلی اور امریکی مفاد پر بڑے پیمانے پر حملے شروع ہوگئے تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

ایران نے علاقے میں مزاحمت کا جو محاذ بنایا ہے وہ بہت طاقتور ہے اور اس کا صبر بھی بہت زیادہ ہے وہ جلد بازی کے بغیر اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتا ہے۔ عراق کے اندر 18 فوجی چھاونیوں میں 5200 امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا فیصلہ، عراقی پارلیمنٹ سے جاری ہو چکا ہے اور بغداد اور کرکوک میں امریکی چھاونیوں پر حملے یا تو انتقام کی تیاری ہے یا پھر بڑی تبدیلی کا آغاز ہے۔ 

ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال

واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میںایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔
امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میںبہ کثرت کہا کرو:
اَسْتَغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَۃَ
’’ میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں‘‘
ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسول (ص) ! واﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوںسے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول (ص)! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟
آپ (ص)نے فرمایا: اے سالم!
جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔
واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔
سُبْحانَ الْاِلہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ
پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے
سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ ٲَھْلٌ ۔
پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔

ماہ رجب کے مشترکہ اعمال


دعایہ روزانہ ماہ رجب

یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔
﴿۱﴾
رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:
یَا مَنْ یَمْلِکُ حَوائِجَ السَّائِلِینَ، وَیَعْلَمُ ضَمِیرَ الصَّامِتِینَ، لِکُلِّ مَسْٲَلَۃٍ مِنْکَ سَمْعٌ
اے وہ جوسائلین کی حاجتوں کامالک ہے اور خاموش لوگوں کے دلوں کی باتیں جانتا ہے ہر وہ سوال جو تجھ سے کیا جائے تیرا
حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِیدٌ ۔ اَللّٰھُمَّ وَمَواعِیدُکَ الصَّادِقَۃُ، وَٲَیادِیکَ الْفَاضِلَۃُ، وَرَحْمَتُکَ
کان اسے سنتا ہے اور اس کا جواب تیار ہے اے معبود تیرے سب وعدے یقینا سچے ہیں تیری نعمتیں بہت عمدہ ہیں اور تیری رحمت
الْوَاسِعَۃُ فَٲَسْٲَلُکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَقْضِیَ حَوائِجِی لِلدُّنْیا
بڑی وسیع ہے پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد(ص)(ص)وآل(ع) محمد(ص)(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میری دنیا اور اور آخرت کی حاجتیں
وَالاَْخِرَۃِ، إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۔
پوری فرما بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
﴿۲﴾
یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔
خابَ الْوافِدُونَ عَلَی غَیْرِکَ، وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إلاَّ لَکَ، وَضاعَ الْمُلِمُّونَ إلاَّ بِکَ
نا امید ہوئے تیرے غیرکی طرف جانے والے گھاٹے میں رہے تیرے غیر سے سوال کرنے والے تباہ ہوئے تیرے غیر کے ہاں
وَٲَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَکَ بَابُکَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِینَ وَخَیْرُکَ مَبْذُولٌ
جانے والے، قحط کاشکار ہوئے تیرے فضل کے غیر سے روزی طلب کرنے والے تیرا در اہل رغبت کیلئے کھلا ہے تیری بھلائی طلب
لِلطَّالِبِینَ، وَفَضْلُکَ مُباحٌ لِلسَّائِلِینَ، وَنَیْلُکَ مُتَاحٌ لِلاَْمِلِینَ، وَرِزْقُکَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ
گاروں کو بہت ملتی ہے تیرا فضل سائلوں کیلئے عام ہے اور تیری عطا امید واروں کیلئے آمادہ ہے تیرا رزق نافرمانوں کیلئے بھی فراواں
عَصَاکَ وَحِلْمُکَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاکَ عَادَتُکَ الْاِحْسانُ إلَی الْمُسِیئِینَ وَسَبِیلُکَ
ہے تیری بردباری دشمن کے لیے ظاہر و عیاں ہے گناہگاروں پر احسان کرنا تیری عادت ہے اور ظالموں کو باقی رہنے دینا
الْاِ بْقائُ عَلَی الْمُعْتَدِینَ اَللّٰھُمَّ فَاھْدِنِی ھُدَی الْمُھْتَدِینَ وَارْزُقْنِی اجْتِہادَ الْمُجْتَھِدِینَ
تیرا شیوہ ہے اے معبود مجھے ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ پر لگا اور مجھے کوشش کرنے والوں کی سی کوشش نصیب فرما
وَلاَ تَجْعَلْنِی مِنَ الْغَافِلِینَ الْمُبْعَدِینَ، وَاغْفِرْ لِی یَوْمَ الدِّینِ ۔
مجھے غافل اور دورکیے ہوئے لوگوں میں سے قرار نہ دے اور یوم جزا میں مجھے بخش دے۔
﴿۳﴾
شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپ(ع) نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ صَبْرَ الشَّاکِرِینَ لَکَ، وَعَمَلَ الْخَائِفِینَ مِنْکَ، وَیَقِینَ الْعَابِدِینَ
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے شکر گزاروں کا صبر ڈرنے والوں کا عمل اور عبادت گزاروں کا یقین عطا
لَکَ اَللّٰھُمَّ ٲَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ وَٲَنَا عَبْدُکَ الْبَائِسُ الْفَقِیرُ ٲَنْتَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ وَٲَنَا
فرما اے معبود تو بلند و بزرگ ہے اور میں تیرا حاجت مند اور بے مال ومنال بندہ ہوں تو بے حاجت اور تعریف والا ہے اور میں تیرا
الْعَبْدُ الذَّلِیلُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَامْنُنْ بِغِنَاکَ عَلَی فَقْرِی، وَبِحِلْمِکَ عَلَی
پست تر بندہ ہوں اے معبود محمد(ص)(ص) اور انکی آل(ع) پر رحمت نازل فرما اور میری محتاجی پر اپنی تونگری سے میری نادانی پر اپنی ملائمت و بردباری
جَھْلِی وَبِقُوَّتِکَ عَلَی ضَعْفِی یَا قَوِیُّ یَا عَزِیزُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الْاَوْصِیائِ
سے اور اپنی قوت سے میری کمزوری پر احسان فرما اے قوت والے اسے زبردست اے معبود محمد(ص) اورانکی آل(ع) پر رحمت نازل فرما
الْمَرْضِیِّینَ وَاکْفِنِی مَا ٲَھَمَّنِی مِنْ ٲَمْرِ الدُّنْیا وَالاَْخِرَۃِ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ
جو پسندیدہ وصی اور جانشین ہیں اور دنیا و آخرت کے اہم معاملوں میں میری کفایت فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
مؤلف کہتے ہیں کہ کتاب اقبال میں سید بن طائوس نے بھی اس دعا کی روایت کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ جامع ترین دعا ہے اور اسے ہروقت پڑھاجاسکتا ہے۔
﴿۴﴾شیخ فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔
اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَۃِ وَالاَْلاَئِ الْوَازِعَۃِ وَالرَّحْمَۃِ الْوَاسِعَۃِ، وَالْقُدْرَۃِ الْجَامِعَۃِ
اے معبود اے مسلسل نعمتوں والے اور عطا شدہ نعمتوں والے اے کشادہ رحمت والے۔ اے پوری قدرت والے۔
وَالنِّعَمِ الْجَسِیمَۃِ وَالْمَواھِبِ الْعَظِیمَۃِ وَالْاَیادِی الْجَمِیلَۃِ وَالْعَطایَا الْجَزِیلَۃِ یَا مَنْ
اے بڑی نعمتوں والے اے بڑی عطائوں والے اے پسندیدہ بخششوںوالے اور اے عظیم عطائوں والے اے وہ جس کے وصف
لاَ یُنْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَلاَ یُمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَلاَ یُغْلَبُ بِظَھِیرٍ یَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَٲَلْھَمَ فَٲَنْطَقَ
کیلئے کوئی مثال نہیں اور جسکا کوئی ثانی نہیں جسے کسی کی مدد سے مغلوب نہیںکیا جاسکتا اے وہ جس نے پیدا کیاتوروزی دی الہام کیاتو
وَابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَعَلا فَارْتَفَعَ، وَقَدَّرَ فَٲَحْسَنَ، وَصَوَّرَ فَٲَتْقَنَ، وَاحْتَجَّ فَٲَبْلَغَ،
گویائی بخشی نئے نقوش بنائے تورواں کردیئے بلند ہوا تو بہت بلند ہوا اندازہ کیا تو خوب کیا صورت بنائی تو پائیدار بنائی حجت قائم کی
وَٲَنْعَمَ فَٲَسْبَغَ، وَٲَعْطی فَٲَجْزَلَ، وَمَنَحَ فَٲَفْضَلَ یَا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفاتَ نَواظِرَ
تو پہنچائی نعمت دی تو لگاتار دی عطا کیا تو بہت زیادہ اور دیا تو بڑھاتا گیا اے وہ جو عزت میں بلند ہوا تو ایسا بلند کہ
الْاَ بْصارِ، وَدَنا فِی اللُّطْفِ فَجازَ ھَواجِسَ الْاَفْکارِ یَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْکِ فَلا نِدَّ لَہُ
آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور تو لطف و کرم میں قریب ہوا تو فکر و خیال سے بھی آگے نکل گیا اے وہ جو بادشاہت میں
فِی مَلَکُوتِ سُلْطَانِہِ وَتَفَرَّدَ بِالاَْلاَئِ وَالْکِبْرِیائِ فَلاَ ضِدَّ لَہُ فِی جَبَرُوتِ شَٲْنِہِ یَا مَنْ
یکتا ہے کہ جسکی بادشاہی کے اقتدار میں کوئی شریک نہیں وہ اپنی نعمتوں اور اپنی بڑائی میںیکتا ہے پس شان و عظمت میں کوئی اسکا
حارَتْ فِی کِبْرِیائِ ھَیْبَتِہِ دَقائِقُ لَطائِفِ الْاَوْہامِ، وَانْحَسَرَتْ دُونَ إدْراکِ عَظَمَتِہِ
مقابل نہیں اے وہ جس کے دبدبہ کی عظمت میں خیالوں کی باریکیاں حیرت زدہ ہیں اور اس کی بزرگی کو پہچاننے میں مخلوق
خَطَائِفُ ٲَبْصَارِ الْاَنامِ ۔ یَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوھُ لِھَیْبَتِہِ، وَخَضَعَتِ الرِّقابُ لِعَظَمَتِہِ،
کی نگاہیں عاجز ہیں اے وہ جس کے رعب کے آگے چہرے جھکے ہوئے ہیں اور گردنیں اسکی بڑائی کے سامنے نیچی ہیں
وَوَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِہِ ٲَسْٲَلُکَ بِھَذِہِ الْمِدْحَۃِ الَّتِی لاَ تَنْبَغِی إلاَّ لَکَ وَبِما وَٲَیْتَ
اور دل اسکے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں میں سوال کرتا ہوں تیری اس تعریف کے ذریعے جو سوائے تیرے کسی کو زیب نہیں اور اس
بِہِ عَلَی نَفْسِکَ لِداعِیکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَبِما ضَمِنْتَ الْاِجابَۃَ فِیہِ عَلَی نَفْسِکَ
کے واسطے جو کچھ تو نے اپنے ذمہ لیا پکارنے والوں کی خاطر جو کہ مومنوں میں سے ہیں اس کے واسطے جسے تونے پکارنے والوں کی
لِلدَّاعِینَ یَا ٲَسْمَعَ السَّامِعِینَ، وَٲَبْصَرَ النَّاظِرِینَ، وَٲَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ، یَا ذَا الْقُوَّۃِ
دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رکھی ہے اے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے زیادہ دیکھنے والے اے تیز تر حساب کرنے
الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ وَعَلَی ٲَھْلِ بَیْتِہِ وَاقْسِمْ لِی فِی شَھْرِنا ہذَا
والے اے محکم تر قوت والے محمد(ص)(ص) پر رحمت نازل فرما جو خاتم الانبیائ ہیں اور ان کے اہلبیت پر بھی اور اس مہینے میں مجھے اس سے بہتر
خَیْرَ مَا قَسَمْتَ وَاحْتِمْ لِی فِی قَضَائِکَ خَیْرَ مَا حَتَمْتَ، وَاخْتِمْ لِی بالسَّعادَۃِ فِیمَنْ
حصہ دے جو تو تقسیم کرے اور اپنے فیصلوں میں میرے لیے بہتر و یقینی فیصلہ فرما کر مجھے نواز اور اس مہینے کو میرے لیے خوش بختی پر
خَتَمْتَ وَٲَحْیِنِی مَا ٲَحْیَیْتَنِی مَوْفُوراً وَٲمِتْنِی مَسْرُوراً وَمَغْفُوراً وَتَوَلَّ ٲَنْتَ نَجَاتِی
تمام کر دے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے فراواں روزی سے زندہ رکھ اور مجھے خوشی و بخشش کی حالت میں موت دے
مِنْ مُسائَلَۃِ البَرْزَخِ وَادْرٲْ عَنِّی مُنکَراً وَنَکِیراً، وَٲَرِ عَیْنِی مُبَشِّراً وَبَشِیراً، وَاجْعَلْ
اور برزخ کی گفتگو میں تو خود میرا سرپرست بن جامنکر و نکیر کو مجھ سے دور اور مبشر و بشیر کو میری آنکھوں کے سامنے لا اور مجھے اپنی رضا
لِی إلَی رِضْوَانِکَ وَجِنانِکَ مَصِیراً وَعَیْشاً قَرِیراً، وَمُلْکاً کَبِیراً، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
مندی اور بہشت کے راستے پر گامزن کر دے وہاں آنکھوں کو روشن کرنے والی زندگی اور بڑی حکومت عطا فرما اور تو محمد(ص)(ص) پر اور ان کی
وَآلِہِ کَثِیراً ۔
آل(ع) پر رحمت نازل فرما بہت زیادہ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہندوستانی مسلمانوں  کے ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی شدید الفاظ ميں مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ہندوستانی حکومت کومسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل اور انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مہر نیوز کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر حفظ و نشر آثار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے پر زوردیتے ہوئے فرمایا: ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مجروح ہوئے ہیں اور بھارتی حکومت کو مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے سلسلے میں ہندو انتہا پسندوں اور ان سے وابستہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور ہندوستان کو دنیائے اسلام سے الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہیے۔