
سلیمانی
صادق اور امین ٹرمپ
تحریر: زین عباس
4) چوتھا اور حتمی امکان یہ ہے کہ میزائل نشانے پہ جا لگے اور مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنائے، جس کے نیتجے میں نقصان پہنچ جائے، جو کہ پہنچنے شرمندگی اور ذلت کی بات ہے۔۔۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ اپنی عزت بچانے اور لوگوں کا ابہام میں رکھنے کے لیے وہی کام انجام دیا جاتا ہے، جو امریکہ نے انجام دیا۔۔۔
اس حوالے سے چند چیزیں جو اب تک سامنے آچکی ہیں، ان میں رائٹرز اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں کی طرف سے دی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر ہیں کہ جن میں کم از کم پانچ ہوائی اڈوں کو منہدم ہوا دیکھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، کنٹرول ٹاور اور رن ویز کی تباہی کے ساتھ ساتھ دس ملٹری ٹینٹس کی بربادی اور ایک پریڈیٹر ڈرون کو نقصان پہنچنے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے باوجود بھی جانی نقصان سے مطلق انکار کرنا اس جھوٹ کو بالکل ہی واضح کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نیوز ویک کا کہنا ہے کہ جانی نقصان کا نہ ہونا عراقی انٹیلیجنس کی طرف سے ہوشیار کیے جانے کے سبب ممکن ہوا کہ جس کے نیتجے میں فوجیوں کو محفوط مقامات پہ پہنچا دیا گیا۔
البتہ یہ بات بعید از قیاس ہے، کیونکہ فوجی اڈے پہ ایمرجنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوج چوکنی ہو جائے، نہ یہ کہ سب فوجی دبک کر بیٹھ جائیں، دوسرے یہ کہ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ میزائل حملوں کے فوراً بعد براہ راست حملہ کر دیا جاتا، کیونکہ عراقی امریکی بیس کے اطراف میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ سب فوجی محفوط مقامات پہ پناہ لے لیں اور حتٰی ائیر کنٹرول ٹاور میں بھی کوئی موجود نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے ایک رکن نے امریکی صدر کی بریفنگ کو اس حساس موضوع پہ بدترین بریفنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کل کے خطاب میں اس حملے کے علاوہ دنیا کے تمام اہم موضوعات پہ روشنی ڈالی ہے اور ان نقصانات کی تفصیلات جو فوجی قاعدے کے مطابق جاری کی جاتی ہیں، نہیں بتائی گئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ذرائع سے نقصانات کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں، جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ چند روز تک مارے جانے والے افراد کی لاشیں بھی سامنے آہی جائیں گی۔ بہرحال ٹرمپ صاحب اگر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی بجائے اگر چند فوجیوں کی ہلاکت کی خبر بھی سنا دیتے تو شاید دنیا کے لیے ماننا آسان ہوتا اور اگرچہ ٹرمپ کی سیاسی ناکامی سامنے آجاتی، لیکن کچھ نہ کچھ سچے ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔
قاسم سلیمانی کی شہادت، امریکہ اپنے ہی گڑھے میں گرگیا
القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایران اور عراق کے عوام میں پیدا ہوتی دُوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ عراقی اب ایرانیوں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ کل تک یہ حقیقت ہے کہ عراقی امریکہ کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، جس نے صدام جیسے آمر سے انہیں نجات دلائی تھی، مگر اب انہیں سمجھ آ گئی کہ امریکہ یہاں عراقی عوام کی بہبود کیلئے نہیں، بلکہ تیل کے لالچ میں آیا تھا۔ جبکہ داعش کو قائم کرکے امریکہ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ شام اور عراق پر قبضہ کرلے گا۔ مگر جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی نے امریکہ کا یہ خواب چکنا چُور کر دیا۔ اس میں امریکہ کو نہ صرف تذلیل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ امریکہ کو اتنا مجبور کر دیا گیا کہ اسے خود اپنی ہی بنائی ہوئی داعش کے خاتمے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے خطے میں جاری امریکی سازشوں سے پردہ فاش کیا۔ اس حملے سے واضح ہو گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے، جو جسے چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے نشانہ بنا دیتا ہے۔ امریکہ قانون کا احترام کرتا ہے نہ اںسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملایشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، قاسم سلیمانی پر حملے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں اور کسی کی کہی ہوئی سخت بات کسی کو اگر پسند نہیں آتی تو وہ کسی دوسرے ملک کے ڈرون حملے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق ان کی سچی باتیں پسند نہ آنے کی صورت میں شاید انہیں بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔ مہاتیر محمد کا یہ بیان امت مسلمہ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ ملایشیاء کانفرنس بھی اتحاد امت کے اسی سلسلے کی کڑی تھی، مگر پاکستان نے سعودی عرب کے دباو میں آ کر اس میں شرکت نہ کرکے اپنا وقار مجروح کر لیا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے ایران کو بھی اب محفوظ بنا دیا ہے۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کیخلاف عوامی ردعمل آ رہا تھا۔ مظاہروں کو بیرونی سازشوں کے تحت ہوا دی جا رہی تھی۔ مگر اب حکومت کیخلاف مظاہرے کرنے والے بھی نم دیدہ ہیں کہ ان کا محافظ شہید ہو گیا۔ حکومت کیخلاف نعرے لگانے، جلاؤ گھیراؤ کرنیوالوں نے بھی اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ وہ لوگ جو تہران حکومت کیخلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے، اب خاموش ہیں اور قاسم سلیمانی کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں۔ قاسم سلیمانی زندہ تھے تو ایران کے محافظت کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی انہوں نے ایران کو اور زیادہ محفوظ بنا دیا۔ اب امریکہ کی وہ ساری ’’سرمایہ کاری‘‘ خاک ہو چکی ہے، جو اس نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کیلئے تہران کیخلاف ایران میں کی تھی۔
دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک امریکہ کے اس اقدام کو جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد ہو سکتی ہے، مگر اب حالیہ صورتحال دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایران نے نہایت حکمت عملی کیساتھ امریکہ سے انتقام لینے کا پلان تیار کیا ہے۔ فوری ردعمل کے طور پر 2 امریکی ایئربیسز پر حملوں کو تو ایرانی قیادت نے صرف ’’تھپڑ‘‘ قرار دیا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ ابھی انتقام تو باقی ہے۔ ایران نے تھپڑ کے طور پر اگر امریکہ کے دو ایئر بیس مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے ہیں تو انتقام کتنا شدید ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ابھی بھی کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ دفاعی اعتبار سے مضبوط ہے، اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ دنیا کی بڑی فوج ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ مبصرین یہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے امریکہ کے 2 ایئر بیسز پر حملے کر کے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کے جدید ہتھیار ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ گو کہ امریکہ نے ابھی تک مذکورہ بالا دونوں ایئر بیسز پر ہونیوالی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کیا جبکہ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ 80 امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ حقائق بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بیدار اور متحد کیا ہے، وہیں ان کی شہادت سے پاکستان میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ مختلف گروپوں میں تقسیم اہل تشیع متحد ہو گئے ہیں۔ پہلے پاکستان کے اہل تشیع شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، تحریک بیداری امت مصطفی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگر ناموں کیساتھ مختلف جماعتوں میں تقسیم تھے، مدارس الگ الگ ڈگر پرچل رہے تھے، مگر جنرل سلیمانی کی شہادت اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان میں سازشوں کیخلاف یہ تمام جماعتیں، مدارس اور دھڑے ’’اتحاد امت فورم‘‘ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے ہیں اور تمام قائدین نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر بند باندھیں گے۔ اس حوالے سے 12 جنوری کو لاہور سمیت ملک بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے لاہور میں پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک ریلی نکالی جائے گی، جس میں تمام جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان کے اہلسنت نے بھی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی سازشوں کا ادراک کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو امریکہ کی بربادی سے تعبیر کیا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ نے جنرل سلیمانی کو شہید کرکے مشرق وسطیٰ کی زمین اپنے لئے تنگ کر لی ہے، اب وہ مزید مشرق وسطیٰ میں قیام نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر اعجاز ہاشمی اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے پیر معصوم نقوی سمیت دیگر علمائے و قائدین نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کو امریکی جارحیت قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے لاہور میں ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات کی اور امریکی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ پاکستان کی اہل تشیع جماعتوں کیساتھ ساتھ اہلسنت جماعتیں بھی اس محاذ پر ایران کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مذہبی قائدین نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین ایران کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اُدھر ایران کی کامیابیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ نے کویت سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے کویت کے وزیر دفاع کو خط پہنچا دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کویت سے 3 روز میں اپنی فوجیں نکال لے گا۔ کویت کے عارف جان کیمپ میں امریکہ کے میرین کوسٹ گارڈ، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار تعینات ہیں۔ اسی طرح عراق کی پارلیمنٹ بھی امریکی فوج کے عراق سے فوری انخلاء کی منظوری دے چکی ہے۔ امریکہ نے مستقل بنیادوں پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرے ڈالے تھے اور علاقے کے وسائل اور تیل کیلئے یہاں اڈے بنائے، مگر اب جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کا علاقے میں قیام ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکہ نے قاسم سلیمانی کو شہید نہیں کیا بلکہ اپنے مفادات کا سر قلم کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بعد امریکہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کے اندر بھی مزاحمتی تحریک سر اُٹھا رہی ہے، جسے قابو کرنا شائد امریکہ کے بس میں نہ رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کیا ہے، وہیں امریکہ کیلئے خطرناک مستقبل کی بنیاد بھی رکھ دی ہے اور شائد یہی وہ سخت انتقام ہے جس کا آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ دیا تھا۔ صیاد خود اپنے دام میں آ چکا ہے۔
ایرانیوں کا سخت انتقام یا اندھا انتقام
تحریر: نذر حافی
فوجی اڈہ کیا ہوتا ہے؟ بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں لارہ اڈے جیسی ہی کوئی چیز ہوتی ہے، کچھ کے اذہان میں فوجی اڈہ ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے، جس میں کچھ فوجی بیرکیں ہوتی ہیں، وہاں فوجی حضرات رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور ورزش وغیرہ کرتے ہیں۔ المختصر جتنی جس کی معلومات ہوتی ہیں، ویسا ہی اس کے ذہن میں فوجی اڈے کے بارے میں نقشہ بھی ہوتا ہے۔ ایرانیوں نے کہا تھا کہ ہم سخت انتقام لیں گے، انہوں نے یہ انتقامی حملہ چھپ چھپا کر، اچانک اور خاموشی سے نہیں کیا بلکہ پانچ دن اور رات مسلسل وارننگ دینے کے بعد عین رات کے اسی وقت یہ حملہ کیا، جس وقت قاسم سلیمانی پر حملہ کیا گیا تھا۔ اگر یہ حملہ چھپ چھپا کر ہوتا تو پھر شاید امریکیوں میں اور ایرانیوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نہ ہوتا۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ عراق میں حشد الشعبی کے ذریعے پہلے دن سے عراقی عوام کو امریکی اڈوں سے دور رہنے کی بار بار تاکید کی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں کوئی ایک بے گناہ عراقی بھی ہلاک نہیں ہوا اور اس بات کی حکومت عراق نے بھی تصدیق کی ہے۔ تیسری اور اہم بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ ایران نے حملے سے پہلے عراق کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عراقی حکومت سے باقاعدہ اجازت لی، یعنی امریکہ کی طرح نہیں کہ جہاں چاہا، وہاں حملہ کر دیا اور جتنے لوگ مرتے ہیں، مر جائیں۔
اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران نے عین الاسد کے فوجی اڈے کو ہی نشانہ کیوں بنایا!؟ حالانکہ اس سے پہلے اور نزدیک ترین امریکی اڈے موجود تھے، جو آسانی سے نشانہ بن سکتے تھے۔ جو لوگ جغرافیے، تحقیق اور جنگی تدابیر پر نظر رکھتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فوجی اڈہ عراق کے مغرب میں، صوبہ الانبار میں اور شام کی سرحد کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ یعنی ایران نے تقریباً سب سے دور ترین اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس قدر دور ترین مقام پر حملہ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس حملے سے ایران نے جہاں ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی عسکری طاقت کے حوالے سے جب عین الاسد کو ویران کرسکتا ہے تو باقی اڈے تو اس کی بغل میں ہیں۔ دوسری بات جو عین الاسد پر حملے کا باعث بنی، وہ خود عین الاسد کی اہمیت ہے۔
عین الاسد عراق میں امریکہ کا سب سے مرکزی، مضبوط اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوجی اڈہ تھا۔ اس کی مساحت اور رقبہ پچاس کلومیٹر مربع میل ہے۔ اس میں حملے کے وقت چار ہزار امریکی فوجی، بیس ہیلی کاپٹر اور تیس لڑاکا تیارے موجود تھے۔ صرف یہی نہیں، یہ اڈہ دراصل امریکیوں کی جنت کہلاتا تھا، اس میں ایک ایسا شہر آباد تھا، جس میں عیش و نوش اور دنیا کی ہر عیاشی کا سامان تھا، یہی وہ اڈہ ہے، جہاں پر داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد ٹولوں کو تربیت دینے کے بعد آگے دھکیلا جاتا تھا، اس اڈے میں دہشت گردوں کے لئے ایک شاندار مسجد بھی بنائی گئی تھی۔ اس اڈے کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ کی اعلیٰ شخصیات جب عراق آتی تھیں تو اسی اڈے میں قیام پذیر ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ گذشتہ سال ٹرمپ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ جب عراق آیا تھا تو اسی اڈے پر اس کا استقبال کیا گیا تھا اور یہی اڈہ اس کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ چنانچہ اس اڈے کو عراق میں امریکہ کا دارالحکومت کہا جاتا تھا۔
جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے جاری کیا تھا، اس حکم پر عملدرآمد کا پیغام اسی عین الاسد کے اڈے سے اجرا کیا گیا تھا۔ چنانچہ عین الاسد کی یہ اہمیت خود یہ تقاضا کرتی تھی کہ اگر قاسم سلیمانی کا انتقام لینا ہے تو پھر کم از کم عین الاسد کے اڈے سے انتقام شروع کیا جائے۔ یہاں تک ایک بات ہر عقل مند اور سمجھدار آدمی کو سمجھ آتی ہے کہ ایرانیوں نے سخت انتقام کا آغاز ضرور کیا ہے، لیکن ایرانی اندھے انتقام کے قائل نہیں ہیں، ایرانیوں کا یہ عسکری انتقام اپنی جگہ جاری رہے گا، لیکن دراصل اقتصادی، سیاسی، ثقافتی، سفارتکاری اور اسلامی وحدت کے میدانوں میں امریکی و اسرائیلی مفادات کا صفایا کرنے میں ایرانی تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکی و اسرائیلی مفادات کے خلاف مختلف میدانوں میں ایران کی اس وقت کیا صورتحال ہے، اس پر ان شاء اللہ اگلی قسط میں بات کریں گے۔
شام کے عوام کا شہید قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت
امریکی دادا گیری کے خاتمے کا آغاز ہوگیا ہے، سربراہ انصار اللہ
بدھ کو یوم شہید کے موقع پر اپنے خطاب میں انصار اللہ کے سیکریٹری جنرل عبدالملک بدرالدین الحوثی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرکے عالمی قوانین کو پامال اور ریڈ لائن کو توڑا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل اسلام کے اصل دشمن ہیں اور وہ اپنی شیطانی چالوں کے ذریعے مسلمانوں کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انصار اللہ یمن کے سربراہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ خطے کی بعض حکومتیں امریکہ کی غلام ہیں اور واشنگٹن کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کرنا عین جہاد ہے۔عبدالملک بدرالدین الحوثی نے واضح کیا کہ ان کی تنظیم ایران، لبنان، عراق، شام، فلسطین اور ہر اس ملک کے ساتھ ہے جسے امریکہ کی جارحیت کا سامنا ہے۔انہوں نے امریکہ کا کاسہ لیس بن جانے کے باعث سعودی عرب پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکام ایسے وقت میں امریکی صدر کی تعریفوں کے پل باندھ رہے جب خود امریکی عوام انہیں احمق قرار دیتے ہیں۔
حضرت فاطمہ پوری دنیا کی خواتین کیلئے رول ماڈل
اسلامی جمہوریہ ایران اور دنیا کے گوشہ وکنار میں تیرہ جمادی الاول سے جو ایک روایت کے مطابق شہزادی کی تاریخ شہادت ہے ایام فاطمیہ کی مجالس کا آغاز ہوجاتا ہے اور تین جمادی الثانی تک جو دیگر روایتوں کے مطابق شہزادی کونین کی تاریخ شہادت ہے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بیس جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال مکہ مکرمہ میں اس دنیا میں تشریف لائیں اور سرکار دوعالم کی آغوش میں پرورش پائی اور اعلی الہی تعلیمات کی حامل بنیں۔ شہزادی کونین علوم الہی کے سرچشمے سے سیراب ہوئی تھیں اور یوں آپ خداوند عالم کے مقربین میں سے تھیں۔ ایک روایت کے مطابق تیرہ جمادی الاول گیارہ ہجری قمری اور ایک روایت کے مطابق تین جمادی الثانی گیارہ ہجری قمری کو صرف اٹھارہ سال کی عمرمیں آپ شہید ہوئیں۔
ایام فاطمیہ کی مناسبت سے ایران، پاکستان، ہندوستان ،عراق و لبنان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں مجالس عزا کا سلسلہ جاری ہے اور ذاکرین اہلبیت عصمت و طہارت صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے فضائل و مصائب بیان کررہے ہیں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لخت جگر، شہزادی کونین، حضرت فاطمہ زہرا (س) کے یوم شہادت کی مناسبت سے سحر عالمی نیٹ ورک، اہلبیت اطہار علیہم السلام کے تمام چاہنے والوں کی خدمت میں بادل مغموم تعزیت پیش کرتا ہے۔
ٹرمپ کی پریس کانفرنس
ٹرمپ کی پریس کانفرنس۔
ماضی میں جس طرح اعتماد کے ساتھ اِترا اِترا کر ایکشن کے ساتھ پریس سے خطاب کیا کرتا تھا ، آج مختلف نظر آیا۔۔۔۔۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگویج بالکل مختلف نظر آئی، زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی، سانس پھول رہا تھا اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔
ٹرمپ کانفرنس میں آدھا گھنٹہ لیٹ آیا اور ڈائس پر لکھی ھوئی تقریر پڑھی ۔ جسے اختتام پر وائٹ ہاوس کا ایک بندہ آکر واپس لے گیا۔ عرصہ بعد کسی وائٹ ہاؤس اہلکار کے کتاب میں ذکر آئیگا کہ ٹرمپ کیا کہنا چاہتے تھے جسے اسے منع کیاگیا۔
ٹرمپ نے ایران کے خلاف جاریحانہ رویہ نہیں اپنایا اور بظاہر ایران کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ یہ بھی اعلان شکست کے مترادف ھے کہ امریکا جواب میں کوئی فوجی کاروائی نہیں کرے گا بلکہ مزید سخت Sanctions لگائے گا ۔ یاد رھے کہ ٹرمپ نے عراق میں جنرل قاسم پر اپنے حملے کے بعد کہا تھا کہ ھماری طاقتور ترین فوج ھے ، ھم ایران کے 52 جگہوں کو نشانہ بنائیں گے ،اور ایران کو بھر پور جواب دیں گے ۔۔۔۔۔
تو آج جوابی حملہ نہ کرنے کا اعلان شکست نہیں تو کیا ھے۔
اسے کہتے ھیں ایران کو خدائی مدد ۔۔۔۔۔
جو لوگ خدا کی مدد کرتے ھیں خدا ان کی مدد کرتا ھے اور ثابت قدم رکھتا ھے
طویل شور و ہنگامے کے بعد ٹرمپ کی بیہودہ اور غیر معقول تقریر
ڈونلڈ ٹرمپ نے جن کے چہرے پر شکست کے آثار نمایاں تھے ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کی تکرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدہ ایک احمقانہ معاہدہ تھا۔ انھوں نے یہ گھسا پٹا دعوی ایک ایسے وقت کیا ہے جب آئی اے ای اے نے اپنی پندرہ سے زیادہ رپورٹوں میں اس بات کی تائید کی ہےکہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر پوری طرح سے عمل کیا ہے۔
ٹرمپ نے دہشت گرد امریکی فوج کی عین الاسد چھاؤنی پر ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کامیاب حملے کو، جس میں کم سے کم اسّی امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں کم اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے دعوی کیا ہے کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ فوجی چھاؤنی کو نقصان پہنچا ہے۔ کوئی فوجی نقصان نہ ہونے کا دعوی ٹرمپ نے ایک ایسے وقت کیا ہے جب ایران سے فائر کئے گئے سبھی میزائل عین الاسد فوجی چھاؤنی پر جاکر لگے ہیں اور پوری فوجی چھاؤنی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والے امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف ایک بار پھر دہشت گردی کی حمایت کا الزام دوہرایا۔ انھوں نے ایران کے خلاف اس الزام کا اعادہ ایسی حالت میں کیا ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے خود اس بات کا اعلان کیا تھا کہ دہشت گرد گروہ داعش کو امریکا نے ہی بنایا ہے۔ ٹرمپ نے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تازہ دہشت گردانہ اقدام کا اعتراف کیا اور کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو میرے حکم پر قتل کیا گیا ہے کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی نے حزب اللہ جیسے کئی گروہوں کو ٹریننگ دی تھی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق میں جنرل قاسم سلیمانی اور جنرل ابو مہدی المہندس کو شہید کرنے کے امریکا کے دہشت گردانہ اقدام کی عراق اور دنیا کے بیشتر ملکوں نے مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قراردیا ہے۔
ٹرمپ نے انتہائی بے بسی اور ساتھ ہی بےشرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران سے کہا کہ داعش ہم دونوں کا دشمن ہے اس لئے ہم دونوں کو اس کے خلاف مل کر لڑنا چاہئے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ کی یہ پریس کانفرنس، وائٹ ہاؤس کے ذریعے ایک وسیع پروپیگنڈے کے بعد انجام پائی ہے جس میں کہا جارہا تھا کہ امریکی صدر ایک اہم پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔
امریکہ کی دوبارہ غلطی پرمزید سخت جواب دیا جائےگا
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرامریکہ نے دوبارہ کوئی حماقت کی تو مزید سخت جواب دیا جائےگا ۔ عراق میں امریکی میزائل حملے میں شہید ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام لینے کے بعد ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے کہا کہ اگر امریکہ نے کسی اور حماقت کا ارتکاب کیا تو اسے منہ توڑ جوابد یا جائےگا۔ میجر جنرل محمد باقری نے کہا ہے کہ عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرحملہ ایرانی فورسز کی صلاحیتوں کا بہت چھوٹا سا مظاہرہ تھا۔ واضح رہے کہ ایران کی جانب سے عراق میں امریکہ کے دو فوجی اڈوں عین الاسد اور اربیل پر میزائل حملوں کے نتیجے میں 80 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ امریکی ہیلی کاپٹرز اور فوجی ساز و سامان کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ہلاکتوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔
صرف تھپڑ مارا ہے انتقام باقی ہے- رھبر انقلاب
رھبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے بدھ کے روز قم سے آئے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کیا ۔ یہ خطاب نو جنوری انیس و چپھن میں شہر قم میں ہونے والے عوامی قیام کی سالگرہ کی آمد پر انجام پایا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےشجاعت، بصیرت اور راہ خدا میں اخلاص کو شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ممتاز خصوصیات میں شمار کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کی خصوصیات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ شجاع بھی تھے اور صاحب بصیرت و تدبیر بھی ۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ بعض لوگوں میں شجاعت ہوتی ہے لیکن ان میں صحیح تدبیر اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کرنے کی توانائی نہیں پائی جاتی۔آپ نے فرمایا کہ اسی طرح بعض لوگوں میں بصیرت اور سوجھ بوجھ ہوتی ہے لیکن ان کے اندر میدان عمل میں قدم رکھنے کی جرائت اور شجاعت نہیں ہوتی۔ لیکن شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اندر بصیرت، سوجھ بوجھ اور تدبیر بھی پائی جاتی تھی اور اسکے ساتھ ساتھ خطرات میں کود پڑنے کی شجاعت بھی موجود تھی ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اخلاص کو شہید جنرل قاسم سلیمانی کی سب سے بڑی خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی سوجھ بوجھ، بصیرت و تدبیر اور شجاعت کو راہ خدا میں استعمال کرتے تھے ۔
آپ نے جنرل قاسم سلیمانی کے رفیق اور انکے ساتھ شہید ہونے والے عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر شہید ابو مہدی المہندس کی محبوب شخصیت کی جانب اشارہ کیا اورانہیں استقامتی محاذ کا ایک نورانی اور مؤثر چہرہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی کے ساتھ عراق میں امریکا کے عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کی جانب ایک مختصر اشارہ کیا اور فرمایا کہ گزشتہ شب دشمن کے منھ پر ایک طمانچہ رسید کیا گیا، یہ ٹھیک ہے ، لیکن فوجی نقطہ نگاہ سے یہ کافی نہیں ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ اس علاقے میں امریکا کی فتنہ انگیز موجودگی ختم ہونا چاہئے ۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی اس خطے میں جنگ لائے ، اختلاف و فتنہ اور تباہی لائے اور انہوں نے خطے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا ۔
آپ نے فرمایا کہ امریکی جہاں بھی گئے یہی کیا لیکن ہم فی الحال اپنے علاقے کی بات کررہے ہیں ۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی ایران میں بھی وہی کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے مذاکرات پر اصرار بھی کررہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ امریکیوں سے مذاکرات ان کی مداخلت کا پیش خیمہ ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر خطے میں امریکا کی موجودگی ختم ہونے پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس خطے کی اقوام کو امریکا کی موجودگی برداشت نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن شناسی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سے مراد امریکا اور صیہونی حکومت ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ سامراجی نظام سے ہماری مراد صرف حکومتیں نہیں ہیں بلکہ اس نظام میں سامراجی حکومتوں کے ساتھ ساتھ وہ کمپنیاں ، لٹیرے اور ظالم بھی شامل ہیں جو ہر اس مرکز کے مخالف ہیں جو ظلم و غارتگری کا مخالف ہو۔