
سلیمانی
طالبان کا افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف آپریشن جاری رہےگا
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان کا افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف آپریشن جاری رہےگا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم امریکہ طیارے کو گرانے کے حوالے سے دقیق اطلاعات کسی کو فراہم نہیں کریں گے اور امریکہ کے خلاف مستقبل میں ایسے حملے جاری رہیں گے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ہم افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف آپریشن جاری رکھیں گے اور امریکی فوج کو افغانتسان سے نکلنے پر مجبور کریں گے۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوجی طیارے میں 80 سے زائد امریکی اعلی فوجی افسر ہلاک ہوئے ہیں جن میں سی آئی اے کے اعلی اہلکار بھی شامل ہیں ۔ ہلاک ہونے والے امریکی افسروں میں شہید عماد مغنیہ اور شہید قاسم سلیمانی کو شہید کرنے والا ماسٹر مائند کمانڈر مائیک اندوریا بھی شامل ہے۔ لیکن امریکی حکومت نے ابھی تک اس کی ہلاکت کے بارے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
امریکہ نے ایران کے حملے میں اب 50 فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کرلیا
امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے اب عراق میں امریکی فوجی اڈے پر ایرانی میزائل حملے میں 50 امریکی فوجی اہلکاروں کے زخمی ہونے اور دماغ فعل ہونے کا اعتراف کیا، اور ان میں سے اکثر تاحال زیر علاج ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے صدر دفتر پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل تھامس کیمپبیل نے اپنے حالیہ بیان میں اعتراف کیا ہے کہ عراق میں عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملوں سے متاثر ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 50 ہوگئی ہے۔ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان اہلکاروں کو شدید دماغی چوٹیں آئی ہیں اور وہ سر درد، چکر آنا، متلی ہونا اور روشنی سے حساسیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ جن میں سے اکثر زیرعلاج ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ 15 نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل تھامس کیمپبیل نے بتایا کہ 18 امریکی فوجیوں کو علاج کے لیے جرمنی اور ایک کو کویت بھی بھیجا گیا جب کہ 31 اہلکاروں کا علاج عراق میں ہوا اور وہ ڈیوٹی پر واپس آگئے ہیں۔واضح رہے کہ 8 جنوری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حملے پر پالیسی بیان میں امریکی فوجیوں کے زخمی یا ہلاک ہونے کی تردید کی تھی تاہم بعد میں پینٹاگون نے 31 اہلکاروں کے زخمی ہونے کا اعتراف کرلیا تھا۔
امریکی صدر نے سینچری ڈیل کی رونمائی کر دی
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں دعوی کیا کہ آج مشرق وسطی میں امن کی جانب ایک بڑا قدم اٹھایا گیا۔ انہوں نے اسی طرح دعوی کیا کہ صیہونی حکومت امن کے درپے ہے۔
امریکی صدر نے سینچری ڈیل کے نام سے مشہور امریکی- صیہونی نام نہاد منصوبے کے بارے میں کہا کہ لینڈن جانسن کے دور حکومت کے زمانے سے اب تک اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے لئے متعدد کوششیں ہوئی ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن جو منصوبہ میں نے تیار کیا ہے وہ امن کا بہت ہی تفصیلی منصوبہ ہے جو 80 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں بہت زیادہ تفصیلات شامل ہیں۔
امریکی صدر نے دعوی کیا کہ امریکی-صیہونی امن منصوبے کی بنیاد پر امریکا، بیت المقدس کے تمام علاقوں کو اسرائیل کا حصہ سمجھے گا اور مقبوضہ جولان پر اس حکومت کے قبضے کو بھی باضابطہ قبول کرتا ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ہماری تجویز، دونوں فریق کی جیت جیت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینی دونوں ہی امن کے خواہشمند ہیں۔ میں وزیر اعظم نتن یاہو کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جرآتمندانہ طریقے سے یہ قدم اٹھایا۔
امریکی صدر نے دہشت گردانہ واقعے میں شہید قاسم سلیمانی اور ابومھدی کو مارنے کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اچھے کام نہیں کرتے تھے وہ اسرائیل سے نفرت کرتے اور آزادی قدس کے لییے جنگ کے خواہشمند تھے۔/
فلسطینی صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کے صدی معاملے کو مسترد کردیا
فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدی معاملے کو فلسطینیوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت قراردیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے پیش کردہ امن منصوبے " صدی معاملے " کے رد عمل میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی، یہ ڈیل سازش ہے جو کامیاب نہیں ہو گی اور ہم اس ڈیل کو ایک ہزار بار مسترد کرتے ہیں۔
فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ اگر مقبوضہ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہیں تو ہم اسے کیسے قبول کریں گے، امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم سے کہتا ہوں مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینوں کے حقوق برائے فروخت نہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی اس منصوبے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں فلسطین اور اسرائیل امن منصوبے کا اعلان کیا جسے " ڈیل آف دی سینچری" کا نام دیا گیا اور اس میں ٹرمپ نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا اٹوٹ دارالحکومت ہی رہے گا۔
صدی معاملہ ، اس صدی کی سب سے بڑی خیانت
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے صدی معاملے کو اس صدی کی سب سے بڑی خیانت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ صدی معاملے میں فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز اور اسرائیل کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ فلسطینی سرزمین فلسطینیوں کی ہے اور دنیائے اسلام فلسطینی سرزمین کے بارے میں کسی بھی معاملے کو قبول نہیں کرےگی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غاصب حکومت ہے اورغاصب حکومت کا خاتمہ کئۓ بغیر مسئلہ فلسطین کا حل ممکن نہیں ہے مسئلہ فلسطین کا بہترین راہ حل جمہوری ہےاور فلسطین کے اصلی باشندے ہی اسے حل کرسکتے ہیں۔ سید عباس موسوی نے صدی معاملے میں بعض اسلامی ممالک کی طرف سے امریکہ کی حمایت کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب اور اسلامی ممالک فلسطین اور بیت المقدس کا سودا کرکے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آشکارا خیانت کررہے ہیں جنھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرےگی۔
سعودی عرب اور امارات کا صدی معاملے کی مالی حمایت کا اعلان
یمن کی قبائلی کونسل نے ایک بیان میں فاش کیا ہے کہ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں بڑے شیطان امریکہ کے صدی معاملے کی مکمل مالی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
یمنی قبائلی کونسل نے کہا کہ یمنی عوام ، صدی معاملے کو سازشی معاملہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس معاملے میں فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز اور اسرائیل کے حقوق کو تحفظ فراہم فراہم کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ صدی معاملے کا کل امریکی صدرٹرمپ نے ایک تقریب میں اعلان کیا اس تقریب میں بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور عمان کے سفراء بھی موجود تھے۔
عمودی یا افقی، انتخاب آپ کا
تحریر: محمد صرفی
مغربی ایشیا میں امریکی فوجی مداخلت کی تاریخ تقریباً 60 سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ امریکہ کے 34 ویں صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے اپنے دوسرے صدارتی دورے میں نئی ڈاکٹرائن کا اعلان کیا جسے کانگریس میں بھی منظور کر لیا گیا۔ یہ نئی حکمت عملی جو "آئزن ہاور ڈاکٹرائن" کے نام سے معروف ہوئی دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کی حامی حکومتوں کی پشت پناہی کیلئے فوجی طاقت کے استعمال پر مبنی تھی۔ البتہ اس سے پہلے سابق امریکی صدر ٹرومین کے دور میں امریکہ نے یورپ میں سابق سوویت یونین کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے وہاں فوجی موجودگی قائم کر رکھی تھی۔ آئزن ہاور کی جانب سے نئی ڈاکٹرائن کے اعلان کے بعد امریکہ نے سرکاری سطح پر 1958ء میں لبنان میں فوج بھیج دی اور یوں مغربی ایشیا میں امریکی فوجی موجودگی کا آغاز ہو گیا۔ لبنان میں فوج بھیجنے کیلئے امریکہ نے وہاں کی عیسائی حکومت کے تحفظ اور حمایت کا بہانہ بنایا۔ آئزن ہاور نے اس خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو "پینڈورا باکس" نام دیا تھا۔ آج تک پیش آنے والے حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پیشن گوئی اور تجزیہ درست تھا۔
البتہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا سلسلہ آئزن ہاور ڈاکٹرائن کے سرکاری اعلان سے کافی عرصہ پہلے شروع ہو چکا تھا۔ 1953ء میں آئزن ہاور کے پہلے صدارتی دورے میں ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف بغاوت درحقیقت امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے انجام پائی۔ یہ اقدام تاریخ میں بیرونی مداخلت کا معروف ترین نمونہ جانا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں تقریباً 25 مرتبہ فوجی اور سکیورٹی مداخلت انجام دی ہے۔ یعنی تقریباً ہر تین برس میں ایک بار مداخلت کی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مداخلت نہ صرف کم نہیں ہوئی بلکہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر، شدید تر اور زیادہ مالی اور جانی نقصان کے ہمراہ ہوتا چلا گیا ہے۔ نائن الیون واقعے کے بہانے افغانستان اور پھر عراق پر فوجی قبضہ فوجی مداخلت پر مبنی ان اقدامات میں سے واضح ترین مصداق ہیں۔ اکثر سیاسی ماہرین حتی امریکی تجزیہ کاروں نے انہیں "نہ ختم ہونے والی جنگوں" کا نام دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی تمام تر فوجی مداخلتیں ڈکٹیٹر اور آمر حکمرانوں سے مقابلے کے عنوان سے انجام پائی ہیں۔
امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ ہر جنگ شروع کرنے سے پہلے روشن مستقبل، ملک کی تقدیر عوام کے سپرد کرنے، ظلم و ستم کا شکار عوام کو آزادی اور انصاف فراہم کرنے جیسے کھوکھلے وعدوں کا سہارا لیا ہے۔ لیکن ہمیشہ امریکہ کی فوجی جارحیتوں کا نتیجہ اس ملک میں بدامنی اور انارکی میں اضافے، عام شہریوں کے قتل عام، دہشت گرد گروہوں کے فروغ اور شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ وہی عوام جنہیں آزادی اور انصاف دلوانے کے وعدے کئے گئے تھے بے دردی سے قتل عام کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ گولوں اور بموں کے ذریعے امریکی جمہوریت کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے امریکہ کے تھنک ٹینکس اور میڈیا نے فوجی جارحیت کے بعد عوامی نظام حکومت تشکیل پانے پر مبنی امریکی حکمرانوں کے نظریے کی توجیہات پیش کرتے ہوئے اس کی نظریاتی بنیادیں فراہم کی ہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے فوجی اقدامات نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ نعرے، وعدے اور نظریے محض فریب اور دھوکہ تھے اور خالص حماقت تھی۔ بمباری اور تباہی پھیلانے کے ذریعے آزاد قوم اور ریاست کا قیام ایک سفید جھوٹ ہے۔
اب تک امریکہ کی ان تمام جنگوں کے اخراجات وہ بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ادا کرتی آئی ہیں جن کی بقا اور منفعت انہی جنگوں پر منحصر تھی۔ یہ کمپنیاں درحقیقت موت کی سوداگر ہیں۔ مغربی ایشیا خطے میں بدامنی اور سکیورٹی بحران ایک طرف امریکہ کی مختلف کمپنیوں کے حصص میں گراوٹ کا باعث بنا ہے جبکہ دوسری طرف بڑی بڑی امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے حصص چوٹی پر جا پہنچے ہیں۔ ان کمپنیوں میں نارتروپ گرومین، لاک ہیڈ مارٹن، ایل تھری ہیریس ٹیکنالوجیز، ریتھیون، ہنٹنگٹن انگلز، ٹرانس ڈائم گروپ اور جنرل ڈائنامیکس کا نام قابل ذکر ہے۔ فوجی صنعتی کمپلکسز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کے اخراجات فراہم کرنا بھی ایک انتہائی دلچسپ اور تفصیلی ٹاپک ہے جس کیلئے علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا سات امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں 400 ارب ڈالر کے اثاثے رکھتی ہیں اور پینٹاگون کی شراکت سے خلیج عرب ریاستوں اور دیگر ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والی سب سے بڑی کمپنیاں شمار ہوتی ہیں۔ میزائل، جنگی طیارے، ریڈار وغیرہ موت کی سوداگر ان کمپنیوں کی تازہ ترین مصنوعات شمار کی جاتی ہیں۔ اسلحہ کی ساخت اور فروخت کیلئے ایک مفروضہ اور نقلی دشمن کا ہونا ضروری ہے۔
اگر دشمن نہ ہو تو خطے میں موجود دودھ دینے والی گائیوں کو کیسے دوہا جائے؟ خطے میں اپنے فوجی اڈوں کے خاتمے اور فوجی موجودگی ختم کرنے سے متعلق پائی جانے والی رائے عاملہ کے سامنے امریکی حکمرانوں کی مزاحمت درحقیقت انہی وجوہات کی بنا پر ہے۔ امریکی حکام یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراقی قوم اور حکومت کی حفاظت کیلئے اس ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اب جب عراقی حکومت اور عوام دونوں نے امریکہ سے فوجی انخلا کا بھرپور مطالبہ کر دیا ہے تو امریکی حکمران انتہائی بے شرمی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراق چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ جمعہ 24 جنوری کے دن عراق میں امریکی فوجی انخلا کا بل منظور کرنے پر پارلیمنٹ کی حمایت میں ملین مارچ کا انعقاد ہوا۔ یہ ملین مارچ درحقیقت ملک سے امریکہ کے فوجی انخلا کے بارے میں ایک عوامی ریفرنڈم تھا۔ عراقی عوام امریکہ کو نہ صرف نجات دہندہ تصور نہیں کرتے بلکہ اس سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ یہ ملین مارچ دہشت گرد امریکی فوج کو عراقی عوام کی اتمام حجت تھی۔ عراقی عوام ابھی ابوغریب جیل میں امریکی فوجیوں کے غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کو نہیں بھولے۔
امریکہ جو اس بات کا دعویدار تھا کہ وہ عراقیوں کی درخواست پر اس ملک میں آیا ہے گذشتہ چند ہفتوں سے انتہائی گستاکی اور بدمعاشی سے عراقی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ڈٹ کر کہہ رہا ہے کہ عراق سے باہر نہیں نکلے گا۔ عراقی قوم اور حکومت کے اس قانونی اور برحق مطالبے کے مقابلے میں امریکی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ عراق سے باہر نکلتے ہیں تو داعش دوبارہ سرگرم عمل ہو جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق میں داعش کا بیج خود امریکہ نے بویا تھا اور جب تک امریکہ شام اور عراق میں موجود ہے اس وقت تک داعش مکمل طور پر نابود نہیں ہو گی۔ داعش درحقیقت امریکہ کی جانب سے اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کیلئے ایک شیطانی ہتھکنڈہ ہے۔ جمعہ 24 جنوری کے روز امریکہ کے خلاف عراقی عوام کا ملین مارچ ایک قومی ریفرنڈم تھا اور اس کا نتیجہ تمام دنیا والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس بھرپور عوامی ریفرنڈم کے بعد عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی ایک نیا معنی و مفہوم رکھتی ہے۔ اب یہ فوجی موجودگی قبضے، غصب اور استعمار کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکی حکمرانوں کیلئے عراقی عوام کا یہ واضح پیغام تھا کہ تمہیں عراق سے نکلنا ہو گا اور عمودی جانا ہے یا افقی یہ انتخاب آپ کا ہے۔
جب تک عراق میں امریکی موجودگی باقی رہے گی اس ملک میں سکون اور امن و امان پیدا نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اس قدر گستاخ ہو گیا ہے کہ عراق میں ایران اور عراق کے دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کر چکا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اس کی نظر میں عراق کی خودمختاری اور خود اردیت ذرہ برابر اہمیت نہیں رکھتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی عوام میں حالیہ بیداری کی لہر شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے پاکیزہ خون کی برکت سے ہے۔ ان پاکیزہ اور متقی افراد کا خون دنیا کے شقی ترین اور ظالم ترین شخص کے ہاتھوں بہایا گیا ہے۔ ایران اور عراق کے ان دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ایک جگہ شہادت نے ایرانی اور عراقی قوموں کے درمیان ایک اٹوٹ اور گہرا تعلق قائم کر دیا ہے اور اب یہ نعرہ سننے میں آ رہا ہے کہ "ایران و العراق لا یمکن الفراق"۔ عراق کے ملین مارچ میں لگنے والا یہ نعرہ امریکی حکمرانوں کو عراقی عوام کا واضح پیغام ہے۔ اگر امریکی حکمران اس واضح پیغام کو نہیں سنتے تو یقیناً اس کے نتیجے میں ایک نئی صورتحال پیدا ہو گی۔ اس وقت گیند ٹرمپ کے کورٹ میں ہے اور اسے یہ حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ عراقی عوام کا یہ پیغام سننا ہے یا کسی دوسری زبان میں ردعمل سے روبرو ہونا ہے۔
امریکی فوجی طیارے کی تباہی، سب سے بڑا نقصان ہے
وان نامی ویب سائٹ کے تجزیہ نگار جوزف ڈمپسی نے اس واقعے پر اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی طیارے کی سرنگونی، حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی نقصان سمجھا جاتا ہے۔
برطانوی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ طیارے کی سرنگونی میں ہلاکتوں کی تعداد کی تائید نہیں کی جاسکتی لیکن گزشتہ پانج سال کے دوران افغانستان میں امریکا کا یہ سب سے بڑا فوجی نقصان ہے۔
امریکی وزارت دفاع نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں ایک طیارے کی سرنگونی کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر حادثے سے متعلق جاری ہونے والی فوٹیج سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طیارہ ای الیون قسم کا تھا جیسے امریکی فوج افغانستان میں جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اس سے پہلے آمدہ خبروں میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی قومی ایئر لائن آریانا کا مسافر طیارہ غزنی میں گر کر تباہ ہوگیا ہے تاہم افغانستان کے شہری ہوابازی کے ادارے نے اس کی تردید کردی تھی۔
طالبان کے ترجمان نے مذکورہ طیارے کو مار گرانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا کہ طیارے میں سوار متعدد اعلی افسران سمیت تمام امریکی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
تصویری رپورٹ/ عراق میں دھشتگرد امریکہ کے خلاف ملین مارچ
امریکی منصوبہ، عراق کے تین ٹکڑے ہونگے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
عراق عظیم ملک ہے، اسے انبیاء کی سرزمین کہتے ہیں، یہاں ائمہ اہلبیتؑ کے مزارات ہیں اور کروڑوں لوگوں کی عقیدتوں کے مرکز کربلا و نجف عراق میں ہیں۔ تہذیب و تاریخ سے متعلق لوگوں کے لیے بابل اور دجلہ و فرات میں تشکیل پانے والی تہذیبیں رومانوی سی لگتی ہیں۔ یہاں کے شہر بھی تاریخی ہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، کربلا اور نجف، ان کے نام سنتے ہی ان شہروں سے منسلک تاریخی واقعات سامنے آنے لگتے ہیں۔ عراق کی بدقسمتی ہے کہ صدام کے جبر سے نکلتے ہی براہ راست بین الاقوامی استعمار کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ تو یہاں کی مرجعیت کی حکمت عملی تھی کہ جو کام طالبان ہزاروں شہریوں کے مروانے اور اتنا بڑا انفراسٹکچر برباد کروانے کے باوجود نہ کرسکے، مرجعیت نے چند سال میں ہی کر دیا۔ امریکہ نے عراق میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری وہاں سے جلدی نکلنے کے لیے نہیں کی تھی اور نہ ہی امریکہ اتنا اچھا ہے کہ عراقی عوام کو ایک ڈکٹیٹر سے نجات دلانے کے لیے اس نے اتنا بڑا جنگی اقدام کیا ہو۔
امریکہ واپسی پر مجبور ہوا، مگر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ واپس آیا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ داعش کو اگلے بیس سال تک خطے میں فعال رکھا جائے گا اور ہر دو چار ماہ بعد ان سے کوئی ایسا کام کرایا جائے گا، جس سے اسلام بدنام ہو، اہل مغرب مطمئن رہیں کہ امریکہ انسانیت دوستی کا کام کر رہا ہے اور اس گروہ کی سرکوبی بہت ضروری ہے۔ امریکہ کی یہ چال بری طرح ناکام رہی اور اللہ نے اپنی تدبیر کے ذریعے انہیں ناکام کر دیا۔ داعش جس پر اتنی سرمایہ کاری کی گئی تھی، مرجعیت کے ایک فتویٰ سے ہوا کا ڈھیر ثابت ہوئی اور جنرل قاسم سلیمانی شہید کی کامیاب حکمت عملی سے نہ صرف اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے بلکہ وہ انتہائی مختصر عرصے میں شہروں سے تتر بتر کر دیئے گئے۔ ان کے آمدن کے ذرائع ختم کر دیئے گئے اور وہ صحراوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، جہاں پر ان کا پیچھا جاری ہے۔
جب امریکہ نے دیکھا کہ اس کی اور اس کے اتحادیوں کی ساری محنت ضائع ہو رہی ہے اور ان کا بہت نقصان ہو رہا ہے تو انہوں نے براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا اور امریکی افواج داعش سے لڑنے کے نام پر عراق میں داخل ہوگئیں۔ یہ داعش سے لڑیں یا داعش کی سپورٹ کرتی رہیں، یہ سب بھی راز نہیں ہے۔ امریکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں کہ ہم داعش سے لڑ رہے ہیں اور ہماری وجہ سے داعش محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر امریکی صدر ٹرمپ کی تقاریر سنیں تو وہ اپنی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی داعش کے خلاف موثر کارروائی کو قرار دیتے ہیں۔ امریکہ نہ تو داعش سے لڑنے آیا تھا اور نہ ہی ان کا مقصد اہل عراق کو اس انسانیت دشمن گروہ سے نجات دلانا تھا، یہ تو افغانستان میں بیس سال سے طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ صرف شکست نہیں دے سکے، الٹا ابھی ان سے امن معاہدے کے لیے پاکستان سے بھیک مانگ رہے ہیں اور کہہ رہیں کہ ہمیں پرامن انخلا کی گارنٹی لے کر دو۔
جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امریکی پلان یہ تھا کہ ڈرا دھمکا کر ہم عراق میں اپنے پاوں مزید مستحکم کریں گے۔ عراق کی غیور عوام اور وہاں کی پرعزم قیادت نے بھرپور انداز میں امریکی حملے کو عراق پر حملہ قرار دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے قرارداد منطور کرتے ہوئے فوری طور پر امریکی افواج کے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ اس پر امریکی صدر کا ردعمل غیر سفارتی اور غیر اخلاقی تھا کہ ہم عراق پر ایسی پابندیاں لگائیں گے، جیسی پابندیاں پہلے کسی پر نہیں لگی ہوں گی اور یہ ایران پر پابندیوں کو بھول جائیں گے۔ اقوام کے تعلقات باہمی احترام اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے پر مبنی ہوتے ہیں، یہ وار لارڈز کے تعلقات کی طرح نہیں ہوتے، جن کی بنیاد ہی طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔
کل عراقی تاریخ کے عظیم الشان مظاہرے ہوئے ہیں اور ان کا فقط اور فقط ایجنڈا امریکی افواج کو عراق سے بے دخل کرنا تھا۔ عراقی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اب امریکی افواج کو تہذیب یافتہ طریقے سے نکل جانا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں قابض فورسز شمار کیا جائے گا، جن کے خلاف نہ صرف مزاحمت درست ہوتی بلکہ پوری دنیا میں انہیں غیر مہذب سمجھا جائے گا۔
ویسے عجیب بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اب داعش کی طرح ایک اور حماقت کرنے جا رہی ہے، جس سے امریکی انتظامیہ کو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی حکومت اس منصوبے پر کام کر رہی ہے کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، پہلا حصہ شیعہ عراق ہو، دوسرا کردستان کی شکل میں ہو اور تیسرا حصہ سنی عراق ہو۔ اس پر کافی عرصہ پہلے بھی غور کیا گیا تھا، مگر ردعمل کے خوف سے اسے ختم کر دیا گیا تھا، اب دوبارہ اس پر غور و فکر جاری ہے۔
اربیل میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے عراق کے سنی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی ہے، اسی طرح عراق کے مضبوط سنی اراکین پارلیمنٹ کو عرب امارات لے جایا گیا ہے، جہاں ان کی ملاقاتیں عرب اور امریکی آفیشلز سے کرائی گئی ہیں اور انہیں اس پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ عرب امارات اور سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس سب سے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ شام کے بارڈر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے اور لبنان، شام، عراق اور ایران کے درمیان جو براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوا ہے، اسے ختم کر دیا جائے۔ عراق کی خود مختاری کا جنازہ تو پہلے نکالا جا چکا ہے، اب عراقی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ جیسے پہلے اس منصوبے میں ناکام ہوئے تھے، اب بھی اس منصوبے میں ناکام ہوں گے اور عراق اپنے وحدت پر باقی رہے گا۔ ویسے ان تمام حالات سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بین الاقوامی قانون محض غریب ممالک کو دبانے کا ہتھیار ہے، یہ طاقتور کو تجاوز کرنے سے بالکل نہیں روکتا۔