اہل فلسطین اور قبلہ اول سے خیانت

Rate this item
(0 votes)
اہل فلسطین اور قبلہ اول سے خیانت

بدھ 14 جولائی کے روز تل ابیب میں متحدہ عرب امارات کے سفارتی مشن نے باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس اقدام کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے، تاہم افتتاح کے اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے سفیر نے اپنے ایک خطاب میں  دعویٰ کیا کہ ہم نے جو مشن شروع کیا ہے، وہ علاقے میں قیام امن اور جاری تنازعات کے خاتمے کے لئے مثالی ہوگا۔ اس تقریب میں شریک صیہونی صدر اسحاق ہرٹزوگ نے بھی انتہائی ڈھٹائی سے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی ایشیاء کے لئے ایک بڑا قدم اٹھا لیا گیا ہے اور اب ابراہیم سازشی منصوبے کے تحت دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات تیزی سے استوار کئیے جائیں گے۔ متحدہ عرب امارات نے یہ اقدام ایسے عالم میں انجام دیا ہے کہ "سیف القدس" کارروائی میں شہید ہونے والے فلسطینی شہیدوں کے کفن بھی ابھی میلے نہیں ہوئے ہیں۔ فلسطینی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی نے اسرائیل میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے افتتاح کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

حماس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ اقدام فلسطینی قوم اور خطے میں آباد تمام قوموں کے حق میں سب سے بڑا ظلم ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اس اقدام سے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف ظلم اور مقدس مقامات کی توہین کا سلسلہ جاری رکھنے کی مزید ترغیب ملے گی۔ حماس کے بیان میں آیا ہے کہ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ صیہونی دشمن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ملکوں کو فلسطینی قوم اور علاقے کی دیگر اقوام کے خلاف اپنے اس مجرمانہ اقدام کے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاد اسلامی فلسطین کے ترجمان طارق سلمی نے بھی تل ابیت میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے افتتاح کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے گی کہ ابوظہبی کے حکام نے ایسے وقت میں مقبوضہ فلسطین میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا ہے، جب اسرائیل نے القدس شریف اور مسجد الاقصیٰ کے خلاف اپنے مجرمانہ اقدامات اور فلسطینیوں کے گھروں کے انہدام کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا سفارت خانہ بھی سن انیس سو اڑتالیس میں بے گھر ہونے والے کسی فلسطینی کے تباہ شدہ مکان کے ملبے پر قائم ہوا ہو۔ جہاد اسلامی کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام فلسطینی عوام اور اسلامی دنیا کے خلاف سب سے بڑی خیانت ہے۔ واضح رہے کہ
متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکام خطے میں تنازعات کے حل کی بات ایک ایسے وقت کر رہے ہیں کہ جب اس غاصب حکومت نے اوسلو امن معاہدے سے لے کر آج تک کسی بھی معاہدے کو درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے خود کو کسی قانون یا معاہدے کا پابند نہیں سمجھا ہے۔ غاصب اسرائیل کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے آج تک کسی عالمی یا علاقائی ادارے کی بات، قرارداد یا فیصلے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی بیسیوں قراردادیں ہوں یا او آئی سی کے فیصلہ جات، غاصب اسرائیل انہیں اہمیت دینے کے لئیے تیار نہیں۔

 اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بعض عرب حکومتیں، عالمی ایجنسیاں اور عالم اسلام کے بعض مغرب زدہ افراد اس بات میں کوشاں ہیں کہ امت مسلمہ کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے عادی سازی کی جانب لے جائیں اور اسرائیل کی غاصب حکومت سے جوڑ دیں، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی غاصب اسرائیلی حکومت کے فریب کا شکار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ تعلقات کی بحالی کے شکست خوردہ راہ و روش کے ذریعے مسلمانوں کے قبلہ اول کے مسئلہ میں کھلم کھلا خیانت کا ارتکاب کریں، انہیں جان لینا چاہیئے کہ جس کا رابطہ غاصب اسرائیل اور صہیونزم جیسے شجر ملعونہ سے ہوگا، ان کا انجام ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 348 times