جمہوریت کے گہوارے میں برتنوں کے ذریعے احتجاج

Rate this item
(0 votes)
جمہوریت کے گہوارے میں برتنوں کے ذریعے احتجاج


 
کچھ دن پہلے کی بات ہے جب پیرس کے سیکٹر 10 میں حکومت مخالف مظاہرین دیگچیاں، فرائی پین اور مختلف قسم کے چمچ اور دھاتی برتن لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے بعد اب تک شہر کے مختلف حصوں میں ان برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ یوں فرانس میں احتجاج کے طور پر دھاتی برتنوں کو آپس میں ٹکرانے کی روایت دوبارہ زندہ ہو چکی ہے اور وزراء جہاں بھی جاتے ہیں ان آوازوں سے روبرو ہوتے ہیں۔ دوسری طرف میکرون حکومت اس قسم کے احتجاج کو روکنے کیلئے عجیب قسم کے اقدامات انجام دینا شروع ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر عوامی مظاہروں میں دھاتی برتن لانا قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا گیا ہے۔ فرانس کی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اگر مظاہرے میں کسی کے پاس دھاتی برتن پائے گئے تو اس سے ضبط کر لئے جائیں گے۔
 
دھاتی برتنوں پر پابندی کے قانون نے فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون اور ان کی حکومت کو تمسخر آمیز بیانات کا نشانہ بنا دیا ہے۔ فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں ایسا قانون بنائے جانے کی توقع نہیں تھی جس میں فرائی پین پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ گرین پارٹی کی معروف رکن پارلیمنٹ سینڈرین روسو نے کہا: "کیا فرائی پین پر پابندی عائد کر کے جمہوری بحران سے نمٹا جا سکتا ہے؟" اسی طرح ذرائع ابلاغ کی بڑی تعداد نے مظاہرین کے مقابلے میں پولیس اور میکرون کے ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی اخبار "ٹائمز" نے اس بارے میں ایک کارٹون شائع کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ دھاتی برتن فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون کے اقتدار کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔
 
فرانس میں گذشتہ چند ہفتوں سے عوامی احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں چند سال کا اضافہ کر دیا۔ فرانس کی وزیراعظم الزبتھ بورن نے صدر میکرون کے حکم پر کہا تھا کہ آئین کی شق 43 کے پیراگراف تین کی روشنی میں اس قانون کی تشکیل کیلئے حکومت کو اسے پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں فرانسیسی حکومت نے 14 اپریل کے دن ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال سے بڑھا کر 64 سال کر دی۔ اب ایمونوئیل میکرون نے اپنے ٹی وی خطاب میں وزیراعظم کو حکم دیا ہے کہ وہ اگلے سو دن کے اندر اندر ملک بھر میں جاری احتجاجی مہم کو کنٹرول کریں۔ فرانسیسی اخبار "لومونڈ" نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایمونوئیل میکرون کو "بحرانوں کا صدر" قرار دیا ہے۔
 
معروف فرانسیسی سیاست دان میرین لوپن کا کہنا ہے کہ صدر ایمونوئیل میکرون نے ریٹائرمنٹ کا نیا قانون تشکیل دے کر اپنے اور عوام کے درمیان گہری خلیج پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ وزیراعظم سے اگلے سو دن کے اندر اندر ملک بھر میں جاری عوامی مظاہرے کنٹرول کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یاد رہے ریٹائرمنٹ کے نئے قانون کی تشکیل کے بعد فرانسیسی حکومت بری طرح متزلزل ہوئی تھی اور اسے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ البتہ بہت کم ووٹوں سے یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ ایک سروے کے مطابق 74 فیصد فرانسیسی شہریوں کا خیال ہے کہ صدر ایمونوئیل میکرون نے عوامی غیض و غضب سے بچنے کیلئے فوری طور پر اس متنازعہ قانون کو منظور کر کے لاگو کر دیا ہے۔
 
میکرون نے ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون کی تشکیل کے مسئلے میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے قانون کو بھی بالائے طاق رکھنے پر تیار ہیں۔ اخبار ایکسپریس نے اپنی ایک رپورٹ میں میکرون کو زبردستی اقدامات والا صدر قرار دیا اور لکھا: "جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ریٹائرمنٹ کے قانون میں اصلاحی تبدیلی ایک مجبوری تھی اور اس سے زیادہ بہتر راستہ موجود نہیں تھا تو انہوں نے اپنے بارے میں ایک ایسی تصویر پیش کی جو مختلف سیاسی مسائل میں نظر آنے والی ان کی ہمیشہ کی تصویر سے بہت مختلف تھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ فرانس کے صدر نے اپنی حالیہ تقریر میں پانچ سالہ منصوبے کے دیگر حصوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ قانون میں مذکورہ بالا تبدیلی کو حتمی تصور کرتے ہیں۔"
 
کئی سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمونوئیل میکرون کی محبوبیت 26 فیصد کی کمترین حد تک آن پہنچی ہے۔ ریٹائرمنٹ قانون میں اصلاحات کے بعد ان کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ سروے ان کی اس حالیہ تقریر کے بعد انجام پائے ہیں جس میں انہوں نے وزیراعظم کو عوامی مظاہرے ختم کرنے کیلئے سو دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ ماہر تاریخ پیپر روزنوالون کے بقول فرانس حکومت نے اپنے اقدامات کے ذریعے قانون کی روح کی بے حرمتی کی ہے اور یوں ملک کو الجزائر جنگ کے خاتمے کے بعد شدید ترین جمہوری بحران کا شکار کر دیا ہے۔ عوامی مظاہرین کے خلاف حکومتی اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت کا گہوارہ ہونے جیسے عناوین محض دکھاوا ہیں اور جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق جیسے خوبصورت نعرے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔

 

تحریر: فاطمہ محمدی
 

Read 166 times