دربار شام ميں حضرت امام سجاد علیہ السلام کا تاريخي خطبہ

Rate this item
(0 votes)

دربار شام ميں حضرت امام سجاد علیہ السلام کا تاريخي خطبہ

فرزند رسول حضرت امام سجاد علیہ السلام خاندان رسالت (ص) کے ہمراہ کوفہ اور شام لے جائے گئے اور اپني پھوپھي زينب (س) کے ہمراہ فاسد و بدعنوان اموي خاندان کي حقيقت بےنقاب اور امام علیہ السلام کے مقدس مشن کو صحيح اور سيدھے راستے کے طور پر متعارف کرکے حسيني مشن کي تکميل کا اہتمام کيا-

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے کوفہ اور شام اور راہ کوفہ و شام ميں بھي، اپنے خطبوں کے ذريعے قيام حسيني کے اصولوں اور فلسفوں سے لوگوں کو آگاہ فرمايا۔

... يزيد نے اپنے ايک درباري خطيب کو حکم ديا کہ علي اور آل علي کي مذمت اور الميۂ کربلا کي توجيہ اور يزيد کي تعريف کرے- خطيب منبر پر گيا اور خدا کي حمد و ثناء کے بعد اميرالمومنين اور امام حسين عليہما السلام کي بدگوئي اور يزيد اور اس كي باپ کي تمجيد و تعريف ميں طويل خطبہ ديا- اسي حال ميں امام سجاد عليہ السلام نے کرائے کے خطيب سے مخاطب ہو کر بآواز بلند فرمايا: اے خطيب! وائے ہو تم پر کہ تم نے مخلوق کي خوشنودي کے وسيلے سے خالق کا غضب خريد ليا- اب تم دوزخ کي بھڑکتي ہوئي آگ ميں اپنا ٹھکانہ تيار سمجھو اورخود کو اس کے لئے تيار کرلو- اور پھر يزيد سے مخاطب ہوئے اور فرمايا: اجازت دو گے کہ ميں بھي لوگوں سے بات کروں؟ امام علیہ السلام نے حمد و ثناء الہی کے بعد فرمایا: میں اس کا بیٹا ہوں جو حجاز کے شير اور عراق کے سيد و آقا ہيں جو مکي و مدني و خيفي و عقبي، بدري و اُحُدي و شجري اور مہاجري ہيں جو تمام ميدانوں ميں حاضر رہے اور وہ سيدالعرب ہيں، ميدان جنگ کے شير دلاور، اور دو مشعروں کے وارث سبطين "حسن و حسين (ع)" کے والد ہيں؛ ہاں! يہ ميرے دادا علي ابن ابي طالب عليہ السلام ہيں- ميں دو جہانوں کي سيدہ فاطمہ زہراء عليہا السلام کا بيٹا ہوں۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے يہ مفاخرہ آميز کلام اس قدر جاري رکھا کہ لوگوں کي آوازيں آہ و بکاء سے بلند ہوگئيں- يزيد پر شديد خوف و ہراس طاری ہوگیا کہ کہيں اہل شام اس کے خلاف اٹھ نہ کھڑے ہوں چنانچہ اس نےموذن کو حکم ديا کہ اٹھ کر اذان دے اور امام سجاد کے کلام کو قطع کردے-

جب موذن نے اللہ اکبر کہا: تو حضرت سجاد علیہ السلام نے فرمايا: کوئي چيز خدا سے بڑي نہيں ہے- جب موذن نےاشھد ان لاالہ الا اللہ کہا: تو علي بن الحسين (ع) فرمايا: ميرے بال، ميري جلد، ميرا گوشت اور ميرا خون سب اللہ کي وحدانيت پر گواہي ديتے ہيں- جب موذن نے اشھد ان محمدا رسول اللہ کہا: تو امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور موذن سے مخاطب ہوکر فرمايا: اے موذن! تمہيں اسي محمد کا واسطہ، ٹھہر جا ، تا کہ ميں ايک بات کہہ دوں؛ اور پھر يزيد بن معاويہ بن ابي سفيان سے مخاطب ہوئے اور فرمايا: اے يزيد! کيا يہ محمد ميرے نانا ہيں يا تمہارے ؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہيں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاۆگے اور اگر سمجھتے ہو کہ ميرے نانا ہيں تو بتاۆ کہ تم نے کيوں ان کي عترت اور خاندان کو ظلم کے ساتھ قتل کيا، ان کے اموال کو لوٹ ليا اور ان کے خاندان کو اسير بنايا؟! پھر فرمايا: خدا کي قسم! اگر اس دنيا ميں کسی کے جدّ رسول اللہ ہیں تو وہ صرف ميں ہوں؛ پس تم نے ميرے باپ کو کيوں قتل کيا اور ہميں روميوں کي طرح قيد کيوں کيا- اور پھر فرمايا: اے يزيد تو اس عظيم جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد بھي کہتا ہے کہ "محمد رسول خدا ہيں؟! وائے ہو تجھ پر! قيامت کے روز ميرے جد رسول اللہ اور اميرالمومنين اور ميرے بابا امام حسين تمہارے دشمن ہيں-

امام سجاد عليہ السلام نے اپنا بليغ خطبہ مکمل کيا جس نے مسجد ميں موجود لوگوں کو سخت متاثر اور ان کو بيدار کرديا اور انہيں تنقيد و احتجاج کي جرات ملی۔

Read 4249 times