اہل سنت علماء کا اعتراف: معاویہ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں!

Rate this item
(0 votes)
اہل سنت علماء کا اعتراف: معاویہ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں!

علمی نشست "اہل بیتؑ کے مقابلے میں بنو امیہ کی سیاسی جماعت" میں بنو امیہ کے فکری پس منظر اور تاریخی جرائم پر گفتگو کی گئی، نیز اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ قرآن نے اس خاندان کو "شجرۂ ملعونہ" کیوں کہا ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، "اہل بیتؑ کے مقابلے میں بنی امیہ کی سیاسی جماعت" کے عنوان سے منعقد ہونے والی سلسلہ وار تخصصی نشستوں کی پہلی نشست حوزہ علمیہ قم کے جید استاد اور "جامعہ مدرسین" کے رکن آیت اللہ نجم‌الدین طبسی کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔ اس نشست میں بنی امیہ کی فکری بنیادوں، ان کے عملی کردار، معاویہ کی جانب سے اسلامی مفاہیم کی تحریف اور اموی جرائم پر مبنی تحقیقی آثار کا جائزہ لیا گیا۔

آیت اللہ نجم‌الدین طبسی، جو "مع الرکب الحسینی" اور "صوم عاشورا؛ بین السنة النبویة و البدعة الامویة" جیسے گرانقدر کتابوں کے مؤلف ہیں، نے اس نشست میں بعض اہم نکات بیان کیے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بنی امیہ اور خاص طور پر معاویہ کا تاریخی پس منظر

آیت اللہ طبسی نے کہا: بنی امیہ کو کبھی ایک سیاسی جریان کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کبھی فردی سطح پر ان کے کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ حقیقی مسلمان نہیں تھے بلکہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بیانات اور بزرگ علما جیسے علامہ مجلسیؒ کی معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عربی شناخت بھی جعلی تھی۔

بعض تاریخی تحقیقات کے مطابق بنی امیہ کا اصل نسب یورپی علاقوں، خصوصاً قدیم جرمنی سے تھا اور وہ بعد میں جزیرہ العرب میں آ بسے۔ ان کی ظاہری جسمانی علامات جیسے نیلی آنکھیں (زاغ چشمیں)، جو عربوں میں نایاب تھیں، اسی غیر عربی نسب کی دلیل ہیں۔

در حقیقت "امیہ" جسے اس خاندان کا جدّ اعلیٰ مانا جاتا ہے، ایک غلام تھا جسے جزیرہ العرب لایا گیا۔ امام علی علیہ السلام اور حضرت ابوطالب علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ لوگ عرب نہ تھے بلکہ عربوں میں داخل کر دیے گئے تھے، گویا جیسے آج کل کوئی "جعلی شہریت" حاصل کر لے۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے اسلام لانے میں بھی شدید شکوک و شبہات موجود ہیں۔

معاویہ کی حقیقت اہل سنت کی کتب کی روشنی میں

علامہ طبری اپنی مشہور کتاب تاریخ طبری میں نقل کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ معاویہ زمانۂ رسول (ص) میں مسلمان تھا لیکن بعد میں منافق بن گیا۔ اس کے جواب میں آیا: نہیں! بلکہ وہ رسول خدا (ص) کے زمانے میں بھی کبھی مؤمن نہیں تھا، وہ ہمیشہ منافق ہی رہا، اور نبی کریم (ص) کی وفات کے بعد اپنے کفر اور بے دینی کا کھلم کھلا اظہار کیا۔

اسی طرح عمدة القاری (صحیح بخاری کی شرح) میں ایک روایت ہے کہ نبی اکرم (ص) نے خواب میں بنی امیہ کو بندروں کی شکل میں اپنے منبر پر چڑھتے دیکھا، جس سے نبی کریم (ص) اس قدر غمگین ہوئے کہ زندگی بھر پھر کبھی مسکراتے نظر نہ آئے۔ اس واقعے کے بعد سورہ اسراء کی آیت نازل ہوئی: "وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ"

امام صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی کہ اس آیت میں مذکور "شجرۂ ملعونہ" سے بنی امیہ مراد ہے۔

اہل بیتؑ کا بنی امیہ سے اختلاف

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "ہمارا بنی امیہ سے اختلاف شخصی یا خاندانی نہیں بلکہ عقیدتی اور اصولی ہے۔ ہم اللہ کی خاطر ان سے ٹکراؤ رکھتے ہیں۔"

تاریخ گواہ ہے کہ:ابوسفیان نے رسول خدا (ص) سے جنگ کی،معاویہ نے امیرالمؤمنین (ع) سے،یزید نے امام حسین (ع) کو شہید کیا،اور آخری زمانے کا سفیانی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

قرآن بنی امیہ کو "شجرۂ ملعونہ" کہتا ہے،امام حسینؑ نے معاویہ کو طاغوت اور امیرالمؤمنینؑ نے شیطان رجیم کہا – وہ شیطان جو اللہ کی رحمت سے محروم ہے اور انسان کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے: جب ابوسفیان اونٹ پر سوار تھا، معاویہ آگے سے اونٹ کو کھینچ رہا تھا اور یزید پیچھے سے چل رہا تھا تو نبی اکرم (ص) نے فرمایا: "اللہ کی لعنت ہو اس پر جو اونٹ کو آگے سے کھینچ رہا ہے، جو پیچھے چل رہا ہے اور جو اس پر سوار ہے!"

شجرۂ ملعونہ: پوری امت کا متفقہ نظریہ

علامہ طبری، خلیفہ مأمون کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ کا اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ مذکورہ آیت "شجرہ ملعونه" بنی امیہ کے بارے میں نازل ہوئی۔

آیت اللہ طبسی نے کہا: "ایک تاریخ دان کی حیثیت سے میں کہتا ہوں کہ اگر حکومت مسلمانوں کے بجائے یہودیوں یا عیسائیوں کو دے دی جاتی، تو بھی وہ معاویہ جتنے ظلم و جنایت نہ کرتے۔"

قاضی نعمان کتاب مثالب میں لکھتے ہیں:"معاویہ نے اتنے مسلمانوں کو قتل کیا کہ اس کا شمار صرف اللہ جانتا ہے۔"

اگر نتانیاہو جیسے صہیونی مجرم نے دو سال میں ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کیا، تو معاویہ نے یمن پر ایک حملے میں تیس ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور کئی دیگر علاقوں میں بھی قتل عام کروایا۔ یعنی اگر کسی یہودی کو اسلامی حکومت سونپی جاتی، تو بھی وہ معاویہ سے زیادہ انسانیت کا خون نہ بہاتا۔

بنی امیہ: ظلم، تکبر اور اخلاقی پستی کا مظہر

آیت اللہ طبسی نے کہا: "میں اس خاندان کی بات کر رہا ہوں جسے امام حسینؑ نے "طغاة"، یعنی طاغوتوں کا طاغوت اور امیرالمؤمنینؑ نے شیطان قرار دیا۔ یہ خاندان قتل و غارت، ظلم، تکبر، غرور، بے حیائی اور اخلاقی انحطاط کا پیکر ہے۔ کوئی اخلاقی رذیلت ایسی نہیں جس کا مظہر یہ نہ ہوں۔ان کا تشدد مشہور، اور ان کے جرائم بے شمار ہیں۔"

نہ اسرائیلی مظالم کا دفاع، نہ ظلم کے خلاف خاموشی

میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اسرائیل جیسے مجرموں کی صفائی دوں خداوند ان کی جڑیں زمین سے اکھاڑ پھینکے اور ان پر ایسے لوگ مسلط کرے جو اُن پر ذرا بھی رحم نہ کریں!

لیکن جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ جیسے خاندان کی جنایتیں اتنی ہولناک تھیں کہ آج جب ہم امریکہ اور نیتن یاہو جیسے مجرموں کے ظلم دیکھتے ہیں تو یقین آتا ہے کہ تاریخ میں بھی ایسے مظالم ممکن تھے۔

جرم کا انداز مختلف ہے، لیکن جرم باقی ہے

میں نے نہیں سنا کہ اسرائیلی فوجیوں نے کسی فلسطینی کو زندہ گرفتار کرکے ذلت آمیز کھیل یا مقابلے کا حصہ بنایا ہو۔ ہاں، وہ بمباری کرتے ہیں، ہزاروں کو شہید کرتے ہیں، لیکن بنی امیہ جیسے براہِ راست تذلیل اور زندہ مسخروں میں بدلنے جیسے مظالم شاید نہ کیے ہوں۔

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟

اگر آج امریکہ اور اسرائیل کے ظلم نہ ہوتے، تو شاید ہم یقین ہی نہ کرتے کہ تاریخ میں بھی ایسے ظلم ہو چکے ہیں۔ لیکن اب جب ان مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو ماضی کی حقیقتوں کو بھی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بنی امیہ ظلم و ستم کی مکمل مثال تھے، اور آج بھی اُن کے پیروکار انہی راہوں پر گامزن ہیں۔

یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام رواج بنایا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے معصوم بچوں کے قتل کی قباحت مٹا دی۔

آج اگر ہزاروں فلسطینی بچے شہید ہو رہے ہیں، تو اس ظلم کی بنیاد اسی معاویہ اور اس کے قبیلے نے رکھی تھی۔

معاویہ: چار افراد کے درمیان مشکوک نسب کا بچہ!

تاریخی شواہد کے مطابق، معاویہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی ولادت کے وقت چار مختلف افراد نے دعویٰ کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے:عمارة بن ولید بن مغیرہ،مسافر بن عمرو،ابوسفیان اور ایک نامعلوم شخص جسے "صباح" کہا گیا۔

یعنی اگر آج کی زبان میں کہا جائے تو معاویہ "زنا سے پیدا ہونے والا ایک بچہ تھا، جس کے چار ممکنہ باپ تھے!"

یہ شرمناک حقیقت اس خاندان کے اندرونی فساد اور اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی خاندانی بنیاد پر انہوں نے جنایت و ستم کی عمارت کھڑی کی، اور آج بھی ان کے وارث اسی راہ پر چل رہے ہیں۔

یہ اسلام دشمنی کہاں سے آئی؟

جب کسی کا نسب ناپاک ہو، اور خاندان حرام میں پلا بڑھا ہو، تو ایسے فرد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

یہ خاندان اسلام سے سخت عداوت رکھتا تھا۔

ابوسفیان نے اپنی زندگی کا ہر تیر اسلام کے خلاف چلایا۔

جنگِ خندق، احد اور مدینہ کا محاصرہ — سب انہی کے زیر سایہ تھا۔

کیا معاویہ مسلمان تھا؟ جھوٹ کا پردہ چاک

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاویہ عمرۂ قضا یا خیبر سے پہلے مسلمان ہوا۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔ حتیٰ کہ خود معاویہ نے اپنے باپ ابوسفیان کو سرزنش کی کہ اگر تم اسلام لے آئے تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی!

اور یہ کہنا کہ وہ رسول خدا (ص) کے خلاف جنگوں میں شریک نہیں ہوا، سراسر جھوٹ ہے۔

تاریخ کہتی ہے: ابوسفیان کے تین بیٹے: حنظلہ، عمرو اور معاویہ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ ایک مارا گیا، ایک قید ہوا اور معاویہ فرار ہو گیا۔ وہ اتنی تیز بھاگا کہ آج اولمپکس میں دوڑتا تو تمغہ جیت لیتا!

معاویہ کبھی دل سے اسلام پر ایمان نہیں لایا

وہ اسلام کا کھلا دشمن تھا، اور مرتے دم تک اسلام کے خلاف سرگرم رہا۔

یہاں تک کہ جب مغیرہ بن شعبہ معاویہ سے ملا، تو واپسی پر کہا: "جب تک میں زندہ ہوں، محمد (ص) کا نام اس دنیا سے مٹا دوں گا!" (نعوذ باللہ)

معاویہ کے 'کاتبِ وحی' ہونے کا بڑا جھوٹ اور اس کے لیے جعلی فضائل کی ایجاد

یہ دعویٰ کہ معاویہ کاتبِ وحی تھا، ان بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے جو تاریخ پر تھوپ دیے گئے۔ اہل سنت کے معاصر عالم عبدالرحیم خطیب اپنی کتاب میں وضاحت سے لکھتے ہیں:"معاویہ ہرگز کاتبِ وحی نہیں تھا! وہ صرف کبھی کبھار عام قسم کے خطوط نبی اکرمؐ کے لیے لکھتا تھا، جس کی بنیاد پر بعض لوگوں نے غلطی سے اسے کاتبِ وحی سمجھ لیا۔"

اسی طرح عبداللہ بن عمر بھی تاکید کرتا ہے:"معاویہ اور خالد بن سعید صرف عام خطوط لکھا کرتے تھے، وحی لکھنے والے نہ تھے!"

اس کی وجہ بھی صاف ہے: اس زمانے میں لکھنے پڑھنے والے کم تھے، اور یہ چند افراد تھے جنہیں لکھنا آتا تھا۔

ابوریہ، جو مصر کے ایک معروف سنی عالم ہیں، لکھتے ہیں:"بعض لوگ معاویہ کو خوش کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑ بیٹھے کہ وہ کاتبِ وحی تھا۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی گھڑ لیا کہ اس نے آیت الکرسی کو سونے کی قلم سے لکھا اور جبرئیلؑ اسے آسمان سے لایا! یہ سراسر من گھڑت اور عقل سے ماوراء قصہ ہے۔"

بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبرؐ اسلام ایسے شخص کو، جو کل تک اسلام کا دشمن تھا، اعتماد دے کر وحی لکھوانے والا بنا دیں؟!

حتیٰ کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ وہ عام خطوط لکھتا تھا، تو کیا آپ ایک بھی ایسی آیت دکھا سکتے ہیں جسے معاویہ نے لکھا ہو؟

اور اگر مان بھی لیں کہ وہ "کاتبِ وحی" تھا، تو عبداللہ بن ابی سرح بھی کاتبِ وحی تھا، لیکن وہ بعد میں مرتد ہو کر کفارِ مکہ کا ساتھ دینے لگا۔

لہٰذا، کاتبِ وحی ہونا کوئی فضیلت نہیں، جیسا کہ بعض لوگ یہ جھوٹ گھڑ کر معاویہ کی عظمت دکھانا چاہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ پیغمبرؐ پر بھی جھوٹ باندھنے سے گریز نہیں کرتے!

میں اہل سنت کے کئی علماء کے حوالے سے کہتا ہوں:"ہمارے پاس معاویہ کے فضائل میں ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں!"

یہاں تک کہ خود ابن تیمیہ، جو معاویہ کے زبردست حامی ہیں، اعتراف کرتے ہیں:"بعض لوگوں نے معاویہ کے لیے فضائل گھڑ لیے اور ان احادیث کو نبی اکرمؐ کی طرف جھوٹ باندھا۔"

مشہور محدث امام ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:"نبی اکرمؐ سے جو بھی روایات معاویہ کے فضائل میں نقل کی گئی ہیں، وہ سب جعلی ہیں!"

اور ابن حجر عسقلانی (شارح صحیح بخاری) عمدۃ القاری میں صاف لکھتے ہیں:"معاویہ کے فضائل میں ایک بھی صحیح، معتبر اور سند والی حدیث موجود نہیں!"

لہٰذا، ان دعوؤں کی کوئی بنیاد نہیں، اور سچ یہ ہے کہ تاریخ معاویہ اور اس کے خاندان کا اصل چہرہ بے نقاب کرتی ہے۔

معاویہ کے جعلی فضائل کی تلخ حقیقت اور اہل سنت علما کے اعترافات

اسحاق مراغی اور نسائی بھی اسی مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔

شوکانی، جو پہلے زیدی تھے اور بعد میں سنی ہوئے، اپنی کتاب الفوائد المجموعہ میں صاف لکھتے ہیں:"تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ معاویہ کے کسی بھی فضیلت پر مبنی روایت کی سند صحیح نہیں!"

ابن حجر، اسحاق سوسی کے بارے میں لکھتے ہیں: "یہ وہ جاہل اور نادان شخص ہے جس نے ایسی موضوع اور جھوٹی احادیث گھڑی ہیں، جنہیں سننا بھی گوارا نہیں، تاکہ معاویہ کی فضیلت ظاہر کی جا سکے!"

عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبل) سے پوچھا: علیؑ اور معاویہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

والد نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا: "کیا کہوں؟ علیؑ کے بہت دشمن تھے، انہوں نے اس میں کوئی نقص نکالنے کی کوشش کی، مگر کچھ نہ پایا۔ پھر وہ معاویہ کی طرف گئے، جو علیؑ سے جنگ آزما تھا، اور اس کے لیے فضائل گھڑنے لگے تاکہ اپنے بغضِ علیؑ کو ظاہر کر سکیں!"

حیرت کی بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں "باب فضائل علیؑ" واضح طور پر موجود ہے،لیکن جب بات معاویہ کی آتی ہے تو صرف "باب ذکر معاویہ" موجود ہے یعنی صرف اس کا نام لیا گیا ہے،کوئی ایک بھی حدیث اس کے فضائل میں ذکر نہیں کی گئی!

اگر ہم اس موضوع میں مزید گہرائی میں جائیں تو بحث طویل ہو جائے گی۔

مطالعے کے لیے سفارش

میں تمام قارئین کو سفارش کرتا ہوں کہ کتاب "امیر معاویہ را بشناسیم" کا مطالعہ کریں۔

یہ کتاب سادہ فارسی زبان میں ہے اور ترجمہ شدہ بھی ہے۔اس میں معاویہ کی جنایتوں کی حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔

نتیجہ: معاویہ، شر و فتنہ کا پیکر

معاویہ ایسا شخص تھا جو نہ اصولوں کا پابند تھا، نہ دین کا۔ اگر آپ آج کے دور میں اس کی مثال ڈھونڈ نا چاہیں تو نیتن یاہو، ٹرمپ، اور صہیونی رہنماؤں سے دی جا سکتی ہے۔ وہ بیس سال حکومت میں رہا اور بے شمار ظلم کیے۔

خداوند اسلام کو ان ظاہری مسلمانوں اور باطنی منافقوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

Read 11 times