افکار امام خمینی (رہ) اور بین الاقوامی ایشوز(1)

Rate this item
(0 votes)
افکار امام خمینی (رہ) اور بین الاقوامی ایشوز(1)

عالمی نظام نے موجودہ مقام تک پہنچنے کیلئے مختلف ادوار طے کئے ہیں۔ اس نظام پر حکمفرما عقائد اور اصول کی تاریخ نیشن – اسٹیٹس وجود میں آنے سے بھی پرانی ہے۔ آج کی دنیا میں بین الاقوامی تعلقات عامہ پر “ہابز” کا نظریہ غالب ہے۔ اس نظریے کی رو سے عالمی سطح پر سیاسی کھلاڑیوں کے عمل کا واحد محرک ذاتی مفادات ہیں اور مفادات سے بڑھ کر کوئی دوسرا محرک نہیں پایا جاتا۔ اس تناظر میں انصاف، امن، سلامتی، امانت اور دیانت جیسے امور محض سیاسی مذاق ہیں جن کا کوئی اطلاق نہیں ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر ایک موثر ملک ہونے کے ناطے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے حامی دیگر اسلامی ممالک، دنیا کے ساتھ معاملات انجام دینے کیلئے مذکورہ بالا نظریات کے حامل ممالک سے لین دین پر مجبور ہیں۔ لہذا اہم بین الاقوامی امور کے بارے میں امام خمینی (رہ) کے افکار کا جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ ان کی روشنی میں موجودہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی فضا کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ تحریر حاضر میں عالمی سطح پر بعض اہم ترین ایشوز کے بارے میں امام خمینی (رہ) کے افکار کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

1)۔ عالمی تنظیمیں
ایران سمیت اسلامی ممالک کو درپیش خدشات اور مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں سے کیسے نمٹا جائے؟ کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک نے ان تنظیموں سے بھرپور تعلقات استوار کر رکھے ہیں، جبکہ ان کی نوعیت کو پہچانے بغیر ان سے تعلقات استوار کرنا ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہذا اس بارے میں امام خمینی (رہ) کے افکار سے رجوع مفید واقع ہوسکتا ہے۔ امام خمینی (رہ) عالمی تنظیموں کی تشکیل کا بنیادی مقصد عالمی طاقتوں کی حمایت سمجھتے ہیں اور اس بارے میں فرماتے ہیں: “یہ تنظیمیں عالمی طاقتوں کی جانب سے کمزوروں پر غلبہ پانے اور دنیا کے محروموں کا خون چوسنے کیلئے بنائی گئی ہیں۔ ہم نے کبھی انسانی حقوق کے حامیوں کو اپنی کمزور حکومت اور مظلوم قوم کے حقوق کا دفاع کرتے نہیں دیکھا۔” اسی طرح امام خمینی (رہ) بین الاقوامی تنظیموں سے متعلق مغربی ممالک کے اقدامات نیز عالمی طاقتوں کے بارے میں ان تنظیموں کے اقدامات کا واحد مقصد سپر پاورز کے مفادات کی تکمیل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “انہوں نے اپنے لئے جو یہ تنظیمیں بنا رکھی ہیں، صرف اور صرف مغرب کے مفادات کیلئے ہیں اور مظلوموں سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔”

 

امام خمینی (رہ) ان تنظیموں کو محض کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اور ان کی تشکیل کا مقصد کمزور قوموں کو دھوکہ دینا قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح امام خمینی (رہ) اس عمل کو دنیا کا بدترین جرم اور بربریت گردانتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) سپر پاورز کو ویٹو کا اختیار حاصل ہونے کو جنگل کی حکمرانی سے تشبیہ دیتے ہیں اور بعض جگہ تو اسے جنگل کی حکمرانی سے بھی بدتر قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ وہ ایک جگہ فرماتے ہیں: “جنگل کی حکومتیں بھی ایک جبلت رکھتی ہیں اور اپنی اس جبلت کی بنیاد پر آمریت کرتی ہیں، لیکن یہ تنظیمیں اور انہیں تشکیل دینے والے ظالم اور مجرم ہاتھ، بنی نوع انسان کی پوری حیثیت اور انسانیت کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔” ایک اور جگہ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ کوئی بھی عقلمند انسان اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ پوری دنیا انصاف سے بھری ہو، لیکن ان عالمی تنظیموں کا اختیار چند مخصوص ہاتھوں میں ہو اور جب بھی یہ بین الاقوامی تنظیمیں انہیں روکنے کی کوشش کریں، وہ فوراً ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے انہیں کام کرنے سے روک دیں۔

2)۔ مغربی ثقافت
ایک اور اہم عالمی ایشو، جس پر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی ہمیشہ تاکید کی ہے، مغرب کی ثقافتی یلغار اور اسلام کیلئے اس ثقافت کا نقصان دہ ہونا ہے۔ امام خمینی (رہ) نے بہت اچھے انداز میں مغربی ثقافت کی حقیقت واضح کی ہے اور اس کے بارے میں یہ اصطلاحات استعمال کی ہیں: مغربی ثقافت، بدتہذیبی پر مبنی ثقافت، کرپٹ مغربی ثقافت اور بوسیدہ مغربی ثقافت وغیرہ۔ یہ اصطلاحات عام طور پر مغربی ثقافت کی بنیادی خصوصیات کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو درحقیقت مغربی ثقافت اور اسلامی ثقافت کے درمیان بنیادی فرق بھی قرار پاتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) اسلامی اور مغربی ثقافت کے درمیان بنیادی ترین فرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انسانیت کو الہیٰ مکتب میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم نے بنی نوع انسان کو اس کی انسانیت سے محروم کر ڈالا ہے۔

اس بارے میں امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: “مغربی تعلیم نے انسان کو اس کی انسانیت سے عاری کر دیا ہے اور اس کی جگہ ایک قاتل جانور نے لے لی ہے۔۔۔۔۔ مغرب انسان نہیں بناتا بلکہ یہ الہی مکاتب اور درسگاہیں ہیں جو انسان بناتی ہیں۔” امام خمینی (رہ) کا بیان کردہ مغربی اور اسلامی تہذیب میں ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب میں صرف مادی امور پر توجہ دی گئی ہے جبکہ روحانی امور کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: “مغرب نے مادی لحاظ سے ترقی کی ہے، لیکن ان کے پاس روحانیت نہیں ہے۔ اسلام اور توحیدی مکاتب انسان بنانا چاہتے ہیں جبکہ مغرب کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔” امام خمینی (رہ) کی نظر میں اسلامی اور مغربی ثقافت میں تضاد کی بنیادی وجہ انسانی اور اخلاقی اصول ہیں، جن پر اسلامی ثقافت میں تو توجہ دی جاتی ہے، لیکن مغربی ثقافت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے.

۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

تحریر: محمد رضا مرادی

Read 674 times