
سلیمانی
قدس پر جارحیت "پورے خطے کی جنگ" جبکہ اسرائیل کا خاتمہ حتمی ہے، سید حسن نصراللہ
جنوبی لبنان سے غاصب صیہونیوں کی ذلت آمیز شکست کی 21ویں سالگرہ کی مناسبت سے لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ اپنی تاریخ کی بہترین حالت میں ہے، اطلاع دی کہ رمضان المبارک کے بعد سے ان کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ ان کی علالت تھی۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب کے آغاز میں لبنان سے اسرائیل کی تاریخی شکست کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے آغاز سے لے کر حالیہ حوادث تک میں لبنان اور اس سے باہر موجود بھائیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے تمام حالات کا جائزہ لے رہا تھا جبکہ اب ہم ماہ مئی میں 2 عظیم کامیابیوں؛ 25 مئی 2000ء کے روز لبنان میں اور 21 مئی 2021ء کے روز غزہ میں (غاصب صیہونی رژیم کی شکست کے حوالے سے) حاصل ہونے والی فتوحات پر جشن منایا کریں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے جنوبی لبنان کی آزادی میں موثر کردار ادا کرنے پر شہدائے مزاحمت کے سردار جنرل قاسم سلیمانی سمیت لبنانی، فلسطینی و عرب ممالک کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور تاکید کی کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں نے غزہ کے حالیہ معرکے میں خوب جوہر دکھائے ہیں۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے سال 2000ء میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حاصل ہونے والی تاریخی فتح کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ سال 2000ء میں لبنانی قوم و مزاحمتی محاذ کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابی درحقیقت لبنانی عوامی تحریکوں اور قومی جماعتوں کی فداکاری کا نتیجہ تھا جبکہ سال 2000ء کی فتح کا اہم ترین محرک اس وقت کے لبنانی صدر "امیل لحود"، چیئرمین پارلیمنٹ "نبیہ بری" اور وزیراعظم "سلیم الحص" سمیت لبنانی حکام کا سرکاری و دوٹوک موقف تھا۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سال 2000ء کی فتح ایک تاریخی و تزویراتی کامیابی تھی اور یہی وجہ ہے کہ دشمن صیہونی حکام نے اس تزویراتی شکست کے برے نتائج
پر خبردار بھی کیا ہے، جبکہ اس کامیابی نے مسئلۂ فلسطین اور اس کے متعلقہ معرکوں کے حوالے سے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن فریقوں کو بھی مختلف تزویراتی رستوں پر گامزن کر دیا ہے۔
عرب چینل المنار کے مطابق اپنے خطاب میں سید حسن نصراللہ نے تاکید کی ہے کہ قدس کو لاحق خطرہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی عسکری کمان کی جانب سے تاریخی و دوٹوک موقف کے اختیار کئے جانے کا محرک بنا ہے جبکہ غزہ کی حالیہ جنگ کی اصلی وجہ صیہونی دشمن کی حماقت، اس کی جانب سے مزاحمتی محاذ کو کمزور سمجھنا اور (صیہونی) دشمن کے حساب کتاب کی غلطی تھی۔ سید مقاومت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ قدس کو یہودی بنائے جانے کے اس کے گھناؤنے منصوبے پر سامنے آمنے والا ردعمل "بیان" سے بڑھ کر نہیں ہوگا جبکہ دشمن کے حساب کتاب کی سب سے اہم غلطی یہ تھی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غزہ اس قسم کا کوئی تاریخی فیصلہ بھی اٹھا سکتا ہے، درحالیکہ غزہ نے اپنے اس فیصلے اور قدس میں انجام پانے والے قابض صیہونی رژیم کے گھناؤنے اقدامات پر اپنے دندان شکن جواب سے دوست و دشمن دونوں کو ہی چونکا کر رکھ دیا ہے!
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ نے جو کچھ حالیہ معرکے میں پیش کیا ہے، وہ نہ صرف ایک تاریخی قدم بلکہ اسرائیلی دشمن کے ساتھ جہاد کی پوری تاریخ میں ایک منفرد اقدام تھا، جبکہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن کے سبب آنے والی اہم ترین تاریخی تبدیلی یہ تھی کہ غزہ نے صرف اور صرف قدس اور اس کے رہائشیوں کی خاطر اس جنگ میں قدم رکھا تھا، نہ کہ خود غزہ کے دفاع کے لئے! انہوں نے کہا کہ غزہ کے رہائشی اور اس کا مزاحمتی محاذ قدس و مسجد اقصیٰ کے دفاع میں اپنی جان نثار کر دینے کو تیار تھے اور یہی وجہ ہے کہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن نے ایک ایسی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ جسے غاصب صیہونیوں کو سمجھ لینا اور اس کی بنیاد پر اپنے حساب کتاب کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیئے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے
کہ قدس، اس کے مقدس مقامات اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت، ان کی کسی بھی دوسری شرارت سے مختلف ہے، جبکہ (قدس شریف اور اس کے مقدس مقامات کے خلاف) اس جارحیت کا تعلق صرف غزہ تک ہی محدود نہیں رہے گا، کیونکہ اگر قدس شریف میں اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کو خطرہ لاحق ہوا تو کوئی ریڈلائن باقی نہیں رہے گی!
سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران غاصب صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ قدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت کا مطلب پورے خطے کی جنگ ہے! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب اسرائیلی دشمن نے جان لیا کہ وہ اس دفاعی مساوات سے روبرو ہے تو پھر وہ یہ بھی جان لے گا کہ مستقبل میں اٹھایا جانے والا ہر اقدام اس (غیر قانونی) رژیم کے زوال پر ہی منتج ہوگا۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے دوران پوری دنیا نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ ایک ایسی "متحد فلسطینی قوم" کے روبرو کھڑی ہے، جو پوری کی پوری واحد ہدف کے حصول لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن نے نہ صرف عالمی سطح پر مسئلۂ فلسطین کو دوبارہ اجاگر کرکے پوری دنیا کے میڈیا کو اس کی کوریج پر مجبور کر دیا ہے بلکہ اس معرکے نے یہ ثابت کرتے ہوئے کہ مقبوضہ سرزمینوں کو واپس لینے کا واحد رستہ "مزاحمت" ہے، مزاحمتی ثقافت میں نئی روح بھی پھونک دی ہے۔
سید مقاومت نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ سیف القدس آپریشن کے بعد ہم یہ بات بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ "صدی کی ڈیل" زوال پذیر ہوچکی ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کے اپارتھائیڈ نظام حکومت سمیت اس کا گھناؤنا چہرہ عیاں کرنا بھی ہے، جبکہ خطے کی رائے عامہ کو حقیقی دشمن کی جانب موڑ دینا اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور اہم نتیجہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے سبب پورے فلسطینی دفاعی نظام میں غزہ کی پٹی کی اہمیت دوبالا ہوگئی ہے، جو اس معرکے کے باعث وجود
میں آنے والی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جبکہ غزہ میں مزاحمتی محاذ کو حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں میں سے ایک؛ پہلے سے اعلان کردہ وقت پر بڑی تعداد میں میزائل فائر کرنے کی صلاحیت ہے، درحالیکہ حالیہ معرکہ؛ تعداد، کیفیت اور میزائلوں کے رینج کے اعتبار سے مزاحمتی محاذ کی مختلف نئی صلاحیتوں کو بھی منظر عام پر لے آیا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں تاکید کی کہ فلسطین میں موجود کوئی ایک صیہونی بھی جب غیر محفوظ ہونے کا احساس کرے گا تو اس کا کم از کم کام یہ ہوگا کہ وہ فلسطین کو ترک کر دے، جبکہ سیف القدس آپریشن کے اہم ترین نتائج میں سے ایک غاصب صیہونی رژیم کے امن و امان کا درہم برہم ہو جانا ہے، جو ایک تاریخی و اہم فوجی کامیابی ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ہم ایک ایسی رژیم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو سر تا پا مکمل طور پر مسلح اور اس انتہائی کم رقبے کی حامل "غزہ کی پٹی" کے مقابلے میں انتہائی طاقتور فضائیہ کی حامل ہے، جو گذشتہ 15 سال خود اسی رژیم کے مکمل محاصرے میں موجود ہے جبکہ غزہ میں ایک ایسا مزاحمتی محاذ موجود ہے، جس نے اپنا اسلحہ یا تو خفیہ طریقے سے وہاں پہنچایا ہے یا مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) سے خریدا اور یا خود بنایا ہے.. لہذا ہم کوئی 2 بڑے ممالک کے بارے بات نہیں کر رہے، ہم غزہ کے مزاحمتی محاذ کے مقابلے میں "سر تا پا مسلح رژیم" کے بارے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ معرکے نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے بارے "غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پرامن مقام" کے سابقہ تصور کو بھی توڑ ڈالا ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کے دوسرے نتائج میں ایک اور اہم نتیجہ؛ سال 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے رہائشیوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں بھرپور شرکت تھی، درحالیکہ (صیہونی) دشمن اس امر کو "اپنے وجود کے لئے خطرہ" گردانتا ہے۔ سید مقاومت نے تاکید کی کہ اس معرکے کا ایک اور اہم نتیجہ مزاحمتی محاذ کی جانب سے فائر کئے جانے والے راکٹوں کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست
تھی، جو اس غاصب رژیم کی انٹیلیجنس ناکامی کو ظاہر کرتی ہے، درحالیکہ اگر "آئرن ڈوم" کہلانے والا دفاعی نظام کامیاب ہو جاتا تو (بنجمن) نیتن یاہو ہر جگہ اس پر فخر کرتا نظر آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس مزاحمتی آپریشن کی ایک اور کامیابی مزاحمتی محاذ کے ان میزائلوں کے زرادخانوں کو نشانہ بنانے میں اسرائیلی ناکامی ہے، جو تاحال فائر نہیں کئے گئے جبکہ غزہ اور 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے ردعمل کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں صیہونی شکست بھی اس آپریشن کی ایک اور اہم کامیابی ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ حالیہ معرکے میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست کی واضح ترین علامت غزہ کے خلاف صیہونی دشمن کا زمینی جنگ میں داخل نہ ہونا ہے، جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خود کو "خطے کی طاقتور ترین" کہلوانے والی فوج "زمینی جنگ" سے بری طرح ہراساں ہے جبکہ یہ کوئی عام نہیں بلکہ ایک تزویراتی شکست ہے، تاہم اس سے بڑھ کر یہ کہ دشمن اپنی فتح کے بارے کوئی تصور دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ بعد ازاں خطاب کے دوران انہوں نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن سے حاصل ہونے والے دوسرے نتائج کے حوالے سے اس جنگ میں کسی بھی تزویراتی ہدف کے حصول، مزاحمتی محاذ کی اصلی عسکری کمان کے مقامات کی تشخیص، (حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر) برادر محمد الضیف سمیت مزاحمتی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ اور مزاحمتی محاذ کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست کا ذکر کیا۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے اپنے خطاب کے دوران اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج لبنانی مزاحمتی محاذ فوجی سازوسامان اور اپنی تیاری کے حوالے سے تاریخ کے کسی بھی دوسرے وقت کی نسبت سب سے زیادہ تیار ہے۔ سید حسن نصراللہ نے صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کے بارے حساب کتاب میں ایسی کوئی غلطی نہ کرنا، جو تم نے غزہ میں کی ہے اور جان لو کہ ہماری صورتحال یکسر مختلف ہے اور اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ انتہائی طاقتور ہوچکا ہے۔ انہوں نے شہید قدس "محمد طحان" کو یاد کرتے
ہوئے کہا کہ یہ شہید آج کی اس نسل کا نمائندہ ہے، جو بغیر کسی اسلحے کے تمام سرحدیں و دیواریں عبور کرنے کو بالکل تیار ہے جبکہ مزاحمتی محاذ ہی فلسطینی قوم کی کامیابی کا اصلی راز ہے۔
سید حسن نصراللہ نے مسئلۂ فلسطین کو حاصل عراقی عوامی حمایت، عراق کے موجودہ حالات اور مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہر دوست و دشمن کو چاہیئے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے بارے آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان پر توجہ دے۔ سید مقاومت نے مسئلۂ فلسطین کے بارے یمنی عوام کی حمایت کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ یمنی قوم اور ان کے رہبر "سید عبدالملک الحوثی" کی یکجہتی کے تصور سے شکرانے کے آنسو بہہ نکلتے ہیں جبکہ یمنی قوم مزاحمتی محاذ کے لئے ایک بڑی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں یہ بات سنتا ہوں کہ جناب عبدالملک جو خود اپنے پورے ملک کے ہمراہ سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ اپنے تمام وسائل تقسیم کرنے پر تیار ہیں، تو میں واقعا بہت متاثر ہو جاتا ہوں۔
سید مقاومت نے اپنی آنکھوں میں امڈے آنسو پیتے ہوئے کہا کہ میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ تو خود سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی رژیم کا زوال انتہائی نزدیک اور اس کا خاتمہ حتمی ہے جبکہ اس حوالے سے صرف اور صرف وقت اہم ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ آج کا اہم ترین موضوع خطے کے مختلف مقامات پر وجود میں آنے والی وہ مزاحمت، استقامت اور قیام ہے کہ جس نے آج فلسطین میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران پائیدار و استوار ہے جبکہ جیسا کہ "جان بولٹن" چاہتا تھا، ویسا بالکل نہیں ہوا.. جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اب جنگ کی دھمکی بھی نہیں دی جا سکتی، درحالیکہ وہ اس وقت عائد پابندیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صدارتی انتخابات میں مصروف ہے۔
ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ ہیں / آپ نہائی فتح کو مشاہدہ کریں گے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے رہنماؤں اسماعیل ہنیہ اور زیاد النخالہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ ہیں۔آپ کی دائمی کامیابی کے لئے ہماری دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان شاء اللہ ، آپ نہائی فتح اور کامیابی کو مشاہدہ کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور جہاد اسلامی کے سکریٹری زیادہ النخالہ کے خطوط کے جواب میں غاصب صہیونی حکومت کے خلاف جد و جہد کو کفر اور ظلم کے خلاف استقامت قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسماعیل ہنیہ اور زیاد النخالہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ کا جہاد اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی کے مطابق ہے ۔ اللہ تعالی اپنے وعدوں میں سچا ہے اور وہ آپ کو نہائی کامیابی عطا فرمائے گا ۔ آپ کا جہاد اورآپ کی جد وجہد قرآن مجید کی اس آیہ " اِن تَنصُروا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم " کا مصداق ہے۔ آپ صہیونیوں کے ناپاک وجود سے فلسطین کو پاک ہوتے ہوئے مشاہدہ کریں گے۔ ہماری دعائیں مسلسل آپ کی جد وجہد کے ساتھ ہیں۔
سعودی عرب نے سال 2021 کے حج کے لیے شرائط کا اعلان کردیا
مہر خبررساں ایجنسی نے العربیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب نے سال 2021 کے حج کے لیے کورونا وائرس کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اور شرائط کا اعلان کردیا ہے ، جس کے تحت 18 سال سے زائد عمر کے 60 ہزار ملکی اور غیر ملکی عازمین حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے۔
سعودی وزارت صحت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل دستاویز جاری کی گئی ہے جس میں حج کے حوالے سے مختلف شرائط کا ذکر کیا گیا جسے حرمین شریفین سے منسلک آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا گیا ہے۔
مذکورہ نکات کے مطابق عازمینِ حج کا صحت مند ہونا ضروری ہے اور انہیں حج کا سفر کرنے سے 6 ماہ قبل تک کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل نہ ہونا پڑا ہو جبکہ اس بات کا ثبوت دینا بھی لازمی ہے۔
اس کے علاوہ عازمین حج کے لیے ویکسینز کی دونوں خوراکیں لگوانا اور بطور ثبوت اپنے ملک کی وزارت صحت یا حکام سے جاری کردہ ویکسینیشن کارڈ فراہم کرنا ضروری ہوگا۔
حج پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی مملکت کی وزارت صحت کی جانب سے منظور کردہ ویکسین کی فہرست میں شامل ویکسین ہی لگوانا لازم ہے۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت نے سعودی عرب میں آنے والے مسافروں کے لیے صرف فائزر، ایسٹرا زینیکا اور موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی منظوری دی ہے۔
ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ عازمین کو 2 خوراکوں والی ویکسین کی پہلی خوراک یکم شوال اور دوسری خوراک سعودی عرب پہنچنے سے 14 روز پہلے لگ چکی ہو۔
اس کے باجود غیر ملکی عازمین کو سعودی عرب پہنچنے کے بعد 3 روز کے لیے قرنطینہ کرنا ہوگا جبکہ سماجی فاصلہ رکھنے، ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے کی شرط عازمین حج کے لیے برقرار رہے گی۔
غزہ جنگ میں اسرائیلی کی شکست کے بعد مقبوضہ فلسطین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ جنگ میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی شکست و ناکامی کا اعتراف کیا ہے جس کے بعد غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی شہریوں میں شادی اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
فلسطینی عوام کو اللہ تعالی نے ان چند دنوں کے امتحان میں سرافرازی اور کامیابی عطا کی
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں بارہ روزہ جنگ میں فلسطینی عوام کو کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینی عوام کو اللہ تعالی نے ان چند دنوں کے امتحان میں سرافرازی اور کامیابی عطا فرمائي ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطین کے غیور، طاقتور، شجاع اور بہادر عوام اور جوانوں کو سلام پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا مقابلہ کرنے والی تمام فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو مبارکباد پیش کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فلسطین کے مجاہدین اور مؤمنین کی عظیم کامیابی اور سرافرازی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں راہ حق میں شہداء پیش کرنے والے خاندانوں کے لئے صبر و تحمل کی دعا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی شہداء پر رحمت اور بخشش مرحمت اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا عنایت فرمائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کی درندہ صفت اور غاصب حکومت نے مظلوم فلسطینیوں پر بیشمار جرائم اور مظالم کا ارتکاب کیا ہے، جو اسرائیل کی ناتوانی اور ناکامی کا مظہر ہے۔ فلسطینی جوانوں نے غاصب صہیونی حکومت کا شجاعانہ اور دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا اور اسے ایک بار پھر تاریخي شکست سے دوچار کردیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام پر زوردیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنی آمادگی کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکہ بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی تک غاصب صہیونی حکومت کے خلاف نبرد کا سلسلہ جاری رہےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کی حمایت اور مدد اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کی دینی، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے مسلم ممالک کو ہر لحاظ سے فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے کیونکہ فلسطینی غاصب صہیونی حکومت کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کررہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کے سلسلے میں مسلمانوں کو اپنی حکومتوں سے بھر پور مطالبہ کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کے سفاک ،ظالم و جابر، بے رحم اور بچوں کے قاتل وزير اعظم نیتن یاہوکے خلاف جنگی جرائم کے تحت عالمی عدالت میں کارروائی ہونی چاہیے اور اسرائيل کے سفاک وزیراعظم کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ تمام فلسطینیوں کو ان کی اسقتامت اور شجاعت پر انھیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور فلسطین و بیت المقدس کی نبرد میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
سیف القدس پیکار میں اسرائیل کو ایک اور تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا
حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو 11 روزہ سیف القدس پیکار میں اسرائيل پر کامیابی اور فتح کے سلسلے میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیف القدس پیکار میں اسرائیل کو ایک اور شکست ہوئی ہے۔ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔
حزب اللہ لبنان نے اپنے بیان میں اسرائيل پر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی 11 روزہ جنگ میں کامیابی کو تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیموں نے 11 روزہ سیف القدس جنگ میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس ، جہاد اسلامی اور دیگر تنظیموں نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل کا گھر مکڑي کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہے۔فلسطین اوربیت المقدس کی کامیابی قریب پہنچ گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے آج صبح 2 بجے سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی قبول کرتے ہوئے شیخ جراح علاقہ سے خارج ہونے کا اعلان کردیا ہے جنگ بندی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
ایران نے فلسطین اورغزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں ہر قسم کی مدد فراہم کی
مہر خبررساں ایجنسی فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینی تنظیم جماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی بھر پوراور بے لوث حمایت کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے فلسطینیوں اور غزہ کے عوام کو ہر لحاظ سے مدد فراہم کی اور کسی بھی قسم کی مدد سے دریغ نہیں کیا۔
اسماعیل ہنیہ نے سیف القدس جنگ میں فلسطینیوں کی کامیابی کو اسٹراٹیجک کامیابی قراردیتے ہوئے کہا کہ قدس اور مسجد الاقصی ہماری ریڈ لائنیں ہیں ۔ سیف القدس دفاعی جنگ میں اسلامی مزاحمت کے کمانڈروں نے اسرائيلی فوج کوایک بار پھر ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، میں حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر محمد ضیف اور دیگر کمانڈروں کواس اسٹراٹیجک کامیابی پر سلام پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سیف القدس جنگ میں کامیابی کسی گروہ کی کامیابی نہیں بلکہ پوری ملت فلسطین کی کامیابی ہے اور ہم اس عظیم کامیابی پر فلسطینی قوم اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کے انہدام وہابی دلائل کی چھان بین
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیت کی اہم دلیل:
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیوں کی ایک اہم دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت علی عَلَیہ السَّلَام کو مدینہ کی قبروں کو مسمار کرنے کی ذمہ داری سونپا تھا ۔
«عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟»
علی (علیہ السلام) سے روایت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی جنازہ کی تشییع میں شریک تھے کہ فرمایا : تم میں سے کون ہے جو مدینہ جا کے تمام بتوں کو توڑ سکتا ہے ، تمام قبروں کو ہموار ، اور تمام تصویروں کو مٹا سکتا ہے؟
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛ ج 1، ص 87، ح 657
اس روایت کی سند سے قطع نظر، اس کے الفاظ کو بھی اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو بھی وہابیوں کا دعوا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ روایت کے الفاظ ہیں : «ولا قبرا إلا سواه» یہ نہیں کہا : «ولا قبرا إلا خربته» یا «ولا قبرا إلا هدمته» لہذا روایت میں خراب کرنے یا مسمار کرنے کا حکم نہیں ،بلکہ حکم «تسویة القبر» ہے؛ یعنی قبروں کو ہموار کرنے کا حکم ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں قبروں کو اونٹ کے کوبڑ کی طرح بنایا کرتے تھے لہذا رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے یہ حکم دیا تھا۔ اس کے باجود وہابیوں کے مطابق اس روایت کی رو سے جو بھی قبروں کو اونچا بنائے منجملہ «ابوحنیفہ» کی قبر اور اس کے لئے گنبد و بارگاہ بنائے وہ کافر ہوگا ۔ وہابی لوگ اس روایت سے بہت استدلال کرتے جب کہ مزہ کی بات یہ ہے کہ ان کا معروف اور معتبر عالم «شعیب أرنؤوط» اس روایت کے ذیل میں لکھتا ہے: «إسناده ضعیف» اس کی سند ضعیف ہے۔
روایت کی سند کے بارے میں بحث :
«شعیب أرنؤوط» کے ساتھ ، نہایت معتبر وہابی عالم «ألبانی» جس کے اعتبار کی حیثیت یہ ہے کہ وہابیوں میں اسے بخاری ثانی کہا جاتا ہے، وہ بھی کتاب «ارواء الغلیل» جلد سوم صفحہ 206 میں یہی بحث پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :«ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر أبی المودع أو أبی محمد, فهو مجهول کما قال فی " التقریب " وغیره» حالانکہ اس کے رجال، شیخین کی نظر میں ثقہ ہیں لیکن أبی المودع یا أبی محمد تو بالکل مجہول ہیں جیسا کہ کتاب " التقریب " میں یا دوسری کتابوں میں مذکور ہے.
إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، الطبعة: الثانیة - 1405، ج 3، ص 210، ح 759
ظاہر سی بات ہے مجہول کی روایت، ضعیف ہوا کرتی ہے ۔
تیسرا نکتہ یہ کہ کتاب «صحیح مسلم» میں روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری سفر میں مکہ و مدینہ کے درمیان اپنی والدہ بزرگوار کے مرقد پہ حاضر ہوئے، خود بھی گریہ فرمایا اور آپ کے گرد سب لوگوں نے بھی گریہ کیا : «زَارَ النبی قَبْرَ أُمِّهِ فَبَکی وَأَبْکی من حَوْلَهُ» سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیدیا تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی پہچان کیسے ہوئی ؟!
انبیاء و اولیا کے قبور کی تعمیر، قرآن کی نظر میں :
پہلی آیہ: آیہ 36 سورہ مبارکہ نور:
«ثعلبی» نقل کرتا ہے : پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک شخص اٹھ کے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! یہ کون سا گھر مراد ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا : انبیاء کا گھر مراد ہے ۔ پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟! حضرت نے فرمایا: ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
الکشف والبیان؛ المؤلف: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم الثعلبی النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - لبنان - 1422 هـ - 2002 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، ج 7، ص 107
اسی طرح «جلال الدین سیوطی» کی کتاب «تفسیر در المنثور» میں، نیز «ألوسی» کی کتاب « تفسیر روح المعانی» میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے ۔
ملاحظہ کیجئے رفعت سے مراد کیا ؟! خداوند عالم سورہ بقرہ آیہ 127 میں ارشاد فرماتا ہے :
(وَ إِذْ یرْفَعُ إِبْراهِیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَ إِسْماعِیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّک أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم) اس آیہ شریفہ میں (یرْفَعُ) کس معنی میں ہے؟! ظاہر سی بات ہے عمارت کو اٹھانے ، بلند کرنے اور اونچا کرنے کے معنی میں ہے؛ اسی سے حرم، گنبد، ضریح اور بارگاہ بنانے کا اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی عمارت کو اونچا کیا.
«ابن جوزی» کہتا ہے:
«والثانی أن تبنی قاله مجاهد وقتادة» دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قبور پر عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جیسا کہ مجاہد اور قتادہ قائل ہیں ۔
زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 6، ص 46، النور: (36)
اسی طرح کتاب «تفسیر بحر المحیط» میں «ابو حیان أندلسی» بھی یہی روایت نقل کرتے ہیں : «وإذنه تعالی وأمره بأن (تُرْفَعَ) أی یعظم قدرها قاله الحسن والضحاک» خداوند عالم نے اذن اور حکم دیا ہے کہ ان کی تکریم و تعظیم ہو اور اسے حسن بصری اور ضحاک نے کہا ہے «وقال ابن عباس ومجاهد: تبنی وتعلی» او ر ابن عباس و مجاہد کا کہنا ہے کہ : ان کے قبور پر عمارت تعمیر ہو اور وہ دوسرے گھروں سے اونچی ہو ۔
تفسیر البحر المحیط، اسم المؤلف: محمد بن یوسف الشهیر بأبی حیان الأندلسی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - لبنان/ بیروت - 1422 هـ -2001 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علی محمد معوض، ج 6، ص 421، باب النور: (36)
دوسری آیت: آیہ 23 سورہ مبارکہ کہف: (فَقالُوا ابْنُوا عَلَیهِمْ بُنْیاناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلی أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَسْجِداً إِذْ یتَنازَعُونَ بَینَهُمْ أَمْرَهُم)
اگر قبروں پہ مسجد بنانا کفر اور بدعت کا مصداق ہوتا تو خداوند عالم اس سورہ میں اس جگہ ضرور مذمت کرتا جبکہ خداوند عالم نہ صرف مذمت نہیں کر رہا ہے بلکہ تائید کر رہا ہے!
«زمخشری» کتاب «الکشاف» میں کہتا ہے : «{ لَنَتَّخِذَنَّ } علی باب الکهف {مَّسْجِدًا} یصلی فیه المسلمون ویتبرکون بمکانهم» مراد یہ ہے کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے تا کہ مومنین یہاں نماز پڑھیں ، اور اصحاب کہف کے اس مقدس مقام سے برکتیں حاصل کریں ۔
الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوه التأویل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی، تحقیق عبد الرزاق المهدی، الناشر دار إحیاء التراث العربی، عدد الأجزاء 4، ج 2، ص 665
«طبری» کتاب «تفسیر طبری» جلد 15 میں لکھتے ہیں: «وقال المسلمون نحن أحق بهم هم منا نبنی علیهم مسجدا نصلی فیه ونعبد الله فیه» مومنوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، ہم اصحاب کہف کی قبر پہ مسجد بنائیں گے، اور وہاں نماز پڑھیں گے اور خدا کی عبادت کریں گے ۔
«ابن جوزی» متوفای 597 کتاب «زاد المسیر» میں کہتے ہیں : «فقال المسلمون نبنی علیهم مسجدا لأنهم علی دیننا» مومنین نے کہا کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے کیونکہ وہ لوگ ہمارے دین پر تھے ۔
قبور پر تعمیر سیرت صحابه :
اہل سنت کی برجستہ شخصیت اور بزرگ عالم دین «سمہودی» اپنی کتاب «وفاء الوفا» کی دوسری جلد صفحہ 109 میں رقم طراز ہیں : «وکان بیت عائشة رضی الله عنها أحد الأربعة المذکورة. لکن سیأتی من روایة ابن سعد أنه لم یکن علیه حائط زمن النبی صلّی الله علیه وسلّم، وأن أول من بنی علیه جدارا عمر بن الخطاب» رسول اسلام صلّی الله علیه و آلہ و سلّم کے زمانے میں عائشہ کے حجرہ اور مسجد میں دیوار نہیں تھی، اس پر سب سے پہلے عمر نے دیوار بنائی ۔
یعنی قبر رسول صلی الله علیه و آله وسلم اور عائشہ کے حجرہ کے درمیان عمر نے دیوار بنائی ۔ اب اگر قبر پر کسی طرح کی تعمیر حرام ہوتی تو قبر کو تو مسمار کر دینا چاہئے تھا ، اس پر دیوار بنانے کا کیا مطلب ؟ اور دیوار کو بھی کسی اور نے نہیں خلیفہ دوم نے بنوایا!
کتاب «البدایة و النهایة» میں بیان ہوا ہے . «فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد» پھر نبی کا حجرہ، عائشہ کا حجرہ، نبی کی قبر، مسجد میں داخل کر لی گئی ۔
البداية والنهاية ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت؛ ج9، ص 75
دوسری روایت اسی کتاب «وفاء الوفاء» میں یہی «سمہودی» جناب «فاطمہ بنت اسد» کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : «فلما توفیت خرج رسول الله صلی الله علیه وسلم، فأمر بقبرها فحفر فی موضع المسجد الذی یقال له الیوم قبر فاطمة» جب فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اس مکان میں جہاں مسجد تھی کھود کر ان کے لئے قبر تیار کی جائے ۔
اسرائیل کی غزہ پر 25 منٹ میں 122 مرتبہ بمباری/ اب تک 218 فلسطینی شہید
غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ اور مجرمانہ فضائی حملوں کا سلسلہ دسویں روزبھی جاری ہے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں اب تک 218 فلسطینی شہید اور 1508 زخمی ہوگئے ہیں۔ ادھر حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر محمد ضیف کو قتل کرنے کی اسرائیل کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی شمشیر قدس نامی جوابی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حماس نے اسرائیلی شرائط کے تحت جنگ بندی کی مصری تجویز کو بھی رد کردیا ہے۔
حماس کے سیاسی شعبہ کے رکن عزت الرشق نے کہا ہے کہ حماس کی طرف سے جمعرات سے جنگ بندی پر مبنی خبریں غیر مصدقہ ہیں۔ جنگ بندی کے سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔
فلسطین کے اسپتال ذرائع کے مطابق مغربی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں 26 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ جبکہ غزہ اسرائیل کی وحشیانہ اور ظالمانہ بمباری کے نتیجے میں 72 ہزار افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسرائیل کی طرف سے حماس کے بعض اہم رہنماؤں کو شہید کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اسرائیل نے رہائشی عمارتوں کو اپنی بربریت اور جارحیت کا نشانہ بنایا ہے جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں نے بھی جوابی کارروائی میں صہیونیوں کے آرام و سکون کو سلب کرلیا ہے۔
اسرائیلی افواج نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی رہنماں کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں و درخواستوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زمینی و فضائی حملوں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 218 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔
فلسطینی تنظیموں نے غزہ کے اطراف میں صہیونی علاقوں پر راکٹ فائر کئے ہیں ۔ عرب ذرائع کے مطابق اسرائیلی افواج نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں بھی اب جارحانہ اور پر تشدد کارروائیاں شروع کردی ہیں جس کے باعث متعدد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں کے سید علی خامنہ ای کے نام خطوط
فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں نے خطوط ارسال کرکے رہبر انقلاب اسلامی کی یوم قدس کی تقریر کی قدردانی کی۔
فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں نے خطوط ارسال کرکے رہبر انقلاب اسلامی کی یوم قدس کی تقریر کی قدردانی کی۔
ان خطوط میں فلسطین کے عوام کی مزاحمت کی حمایت اور صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی قدردانی کی گئی ہے اور زور دیکر کہا گیا ہے کہ قدس کی آزادی تک مزاحمت جاری رہے گی اور یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب در حقیقت فلسطین کی آزادی کا روڈ میپ ہے۔
عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین، تحریک فتح انتفاضہ، فلسطین عوامی مزاحمتی محاذ اور فلسطینی فورسز الاینس نے ان خطوط میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی ممالک میں اتحاد و استقامت کا محور قرار دیا اور فلسطین کی امنگوں کو نئی زندگی دینے والے شہید سردار قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سات مئی 2021 کو یوم قدس پر دو حصوں فارسی اور عربی پر مشتمل اپنی تقریر میں مزاحمتی فورسز کی قوت و توانائی میں قابل لحاظ اضافے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طاقت کا توازن دنیائے اسلام کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ صیہونی حکومت رو بزوال و نابودی ہے اور اس غاصب حکومت سے مقابلے کا منطقی طریقہ اس وقت تک مزاحمت جاری رکھنا ہے جب تک وہ فلسطین کے مستقبل کا تعین کرنے والے سیاسی نظام کی تشکیل کے لئے فلسطینی علاقوں کے اندر اور باہر ریفرنڈم کرانے پر مجبور نہ ہو جائے۔
قابل ذکر ہے کہ تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی 10 مئی 2021 کو رہبر انقلاب اسلامی کے نام اپنے پیغام میں فلسطین کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی قدردانی کی تھی اور قدس کے رہائشیوں کی حمایت میں اور غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کو رکوانے کے لئے عالم اسلام کے دو ٹوک موقف کی ضرورت پر زور دیا تھا۔