
سلیمانی
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام اسماعیل ہنیہ کا دوسرا خط/فلسطین کی تازہ ترین صورتحال بیان
فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور فلسطین کے سابق وزير اعظم اسماعیل ہنیہ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نام اپنے دوسرے خط میں فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے۔
اسماعیل ہنیہ نے اپنے خط میں غزہ پر اسرائیل کے جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں میں جانی اور مالی نقصانات ، محلہ شیخ جراح، مسجد الاقصی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی تازہ ترین صورتحال بیان کی ہے۔ حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ نے فلسطینی عوام اور مقدسات اسلامی کے خلاف اسرائیل حملوں کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے بھی گذشتہ ایک ہفتہ میں اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا ہے اور اس کے بعد بھی اسرائيل کو دنداں شکن جواب دیا جائےگا۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ حماس کے سربراہ نے عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی اور عربی ممالک کو اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات انجام دینے چاہییں اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم کردینا چاہیے۔ اسماعیل ہنیہ نے اس سے قبل بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ مسجد الاقصی کی بے حرمتی اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا حماس نے منہ توڑ اور دنداں شکن جواب دینے کا عزم کررکھا ہے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے متوقف ہونے تک جوابی اور دفاعی حملوں کا سلسلہ جاری رہےگا۔ اس سے قبل فلسطین کی پانچ مزاحمتی تنظیموں نے بھی علیحدہ علیحدہ خطوط میں فلسطین کی حمایت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا۔
حالیہ غزہ جنگ میں رونما ہونے والے تین نئے حقائق
گذشتہ چند دنوں سے غزہ کی پٹی میں شروع ہونے والی جنگ، 2014ء کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور غزہ میں مقیم فلسطینی گروہوں کے درمیان شدید ترین فوجی جھڑپ قرار دی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں رونما ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لینے سے چند ایسے نئے حقائق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ نئے حقائق صرف غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی فوجی طاقت میں خاطرخواہ اضافے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے لیکن بعض ایسے نئے حقائق ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہیں ماضی کی نسبت بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 73 ویں سال ان نئے حقائق کا ظہور خاص اہمیت رکھتا ہے۔
1)۔ پہلی حقیقت امریکی کانگریس سے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں اٹھنے والی آواز پر مشتمل ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کے خلاف خود امریکہ کے اندر سے صدائے احتجاج بلند ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ معروف تھیوریشن نوآم چامسکی یا ریاست ویرمانٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز جیسی اہم شخصیات کی جانب سے اٹھنی والی یہ آواز نئی بات نہیں لیکن کیپیٹل ہل (امریکہ میں قانون سازی کی علامت) میں کانگریس کے ایک رکن کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کیلئے اٹھنے والی آواز بے سابقہ ہے۔ رشیدہ طلیب اور ایلہان عمر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کانگریس کی دو رکن خواتین ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکی ایوان نمائندگان میں فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے۔
2)۔ دوسری حقیقت مقبوضہ فلسطین کے اندر مقیم فلسطینی مسلمان شہریوں کا قیام اور شدت پسند صہیونیوں کے خلاف ان کے صف آرا ہونے پر مبنی ہے۔ اس ٹکراو کی شدت کے باعث غاصب صہیونی رژیم تاریخ میں پہلی بار "اللاد" نامی شہر میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس شہر کے میئر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ شہر کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور شہر کے گلی کوچے فلسطینی مسلمانوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان سول وار یا خانہ جنگی کی صورتحال کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس نے صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے اس شہر میں فوج تعینات کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم اب تک مقبوضہ فلسطین میں ان مسلمان شہریوں کی موجودگی کو یہودی آبادکاروں اور مقامی عرب باشندوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے پرچار کیلئے استعمال کرتی آئی ہے۔
اس میں خاص بات یہ ہے کہ ان مسلمان عرب باشندوں کا غاصب صہیونی رژیم اور مسلمان فلسطینی شہریوں میں ٹکراو کے آغاز میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن جب اس ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا تو یہ باشندے بھی ان کی حمایت میں گھروں سے باہر نکل آئے۔ مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں جیسے اللاد، عکا اور حیفا میں مقامی باشندوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان جھڑپوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان شہروں کے مسلمان فلسطینی باشندے اب محض تماشائی نہیں رہے اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف کھل کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اس صورتحال سے مجبور ہو کر صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اعلانیہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ "وہ دو محاذون پر لڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔" یہ غاصب صہیونی رژیم اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے درمیان ٹکراو میں اہم اور تاریخی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
3)۔ حالیہ غزہ جنگ کے دوران رونما ہونے والی تیسری نئی حقیقت غاصب صہیونی رژیم کی ایک عدالت کی جانب سے مشرقی بیت المقدس میں واقع محلے "شیخ جراح" کے انخلاء کا حکم جاری کئے جانے پر مشتمل ہے۔ درحقیقت حالیہ ٹکراو اور جھڑپوں کی بنیادی وجہ ہی یہ عدالتی حکم اور اس کی بنیاد پر صہیونی فورسز کی جانب سے شیخ جراح محلے پر دھاوا بول دینا قرار پایا ہے۔ صہیونی فورسز نے اس محلے سے مسلمان فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنے کیلئے گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا جس کے خلاف مقامی افراد اٹھ کھڑے ہوئے اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ جب اس ٹکراو میں اچھی خاصی شدت پیدا ہوئی تو غزہ میں موجود اسلامی مزاحمتی گروہوں نے بھی مقامی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کو یہ آپریشن روک دینے کا الٹی میٹم دے دیا۔
مقامی فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر اپنے آبائی گھر چھوڑ کر جلاوطنی پر مجبور کرنا گذشتہ 73 برس سے غاصب صہیونی رژیم کا معمول بن چکا ہے۔ اگرچہ صہیونی رژیم کا یہ اقدام ہمیشہ مسلمان فلسطینی شہریوں کی جانب سے مزاحمت سے روبرو رہا ہے لیکن حالیہ مزاحمت اس قدر بے مثال اور شدید ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اس کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صہیونی رژیم کے اٹارنی جنرل نے انٹیلی جنس اور فوجی اداروں کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر عدالت سے اس حکم کو ملتوی کر دینے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ اس حکم کو صرف ملتوی کیا گیا ہے لیکن صہیونی رژیم کی اس حد تک پسپائی بھی فلسطین کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہ اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی فتح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم صرف مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی زبان سمجھتی ہے۔
تحریر: محمود حکیمی
سوره مبارکه محمد آیه ۷ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُركُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم﴿۷﴾
فلسطین میں جنگ جاری ہے
کل مجھ سے میرے دوست نے سوال کیا کہ بھائی اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کب شروع ہوگی۔ شاید اس کا خیال یہ تھا کہ جس طرح عام حالات میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں ملک کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، شاید اب بھی اسی قسم کا کوئی اعلان ہوگا اور فوجوں کو ایک دوسرے کے خلاف علاقوں میں اتارا جائے گا۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بہت پہلے سے جاری ہے اور اب تو بڑے زور سے جاری ہے، کیونکہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر بغیر جنگی حالات کے ہزاروں کے قریب راکٹ فائر نہیں کرتا اور دوسری طرف کوئی بھی ملک چند منٹوں میں سینکڑوں میزائل فائر نہیں کرتا۔
اس کا دوسرا سوال یہ تھا کہ فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے تو مسلمانوں نے فلسطین کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کی، جس کا شاید میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، فقط یہ کہنے کے کہ بھائی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کا نظریہ تب تک حقیقی نہیں ہوتا، جب تک اسے اس ملک کی عوام قبول نہ کرے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر حکومت کا نظریہ اور ہوتا ہے اور عوام کا نظریہ اور ہوتا ہے۔ جو نظریہ حکومت کا ہوتا ہے، وہ نظریہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے اور جو نظریہ عوامی ہوتا ہے، وہ نظریہ حقیقی اور اصلی ہوتا ہے۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ روئے زمین پر جہاں بھی مسلمان بستے ہیں، چاہے وہ امیر ہیں یا غریب، ان کا دل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔
ان کا دل ہر مظلوم کے ساتھ دھڑکتا ہے اور ان کا دل کشمیر اور فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے، جبکہ دنیا میں جہاں بھی صاحبان اقتدار یا اقتدار میں حصہ دار ہیں، ان کا دل فقط اور فقط اپنی کرسی کے ساتھ ہی حرکت کرتا ہے۔ جب ان کا اقتدار خطرے میں ہو تو یہ وہ بھی کرتے ہیں، جو کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ ان کے پاس اقتدار ہو تو یہ فرعون بن جاتے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں کرسکتے کہ مظلوم کی حمایت میں آواز بلند کرسکیں۔ آواز بلند کرتے بھی ہیں تو بالکل کھوکھلی۔ ان کی آواز سے نہ تو کسی دوست کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ دشمن ناراض ہوتا ہے، بلکہ یہ مصحلت آمیز حمایت ہوتی ہے، جبکہ یہ حمایت نہیں ہوتی۔
قدس کے شہیدوں کے نام
بلاشبہ جب قدس کی تاریخ رقم کی جائے گی تو ان برگوں کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا، جنہوں نے گلوں کو خاروں سے نجات دی ہے اور دے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اپنی حیات گلشن کی آبیاری اور راہ نجات میں راہ حیات صرف کرچکے ہے اور بہت سے کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ مظلوم لوگ بہت جلد اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ ان شاء اللہ بہت جلد اس افق پر ایک ایسا چاند اور خورشید نمودار ہوگا، جس میں فلسطین آزاد ہوگا اور ظالمین کا کہیں بھی وجود نہ ہوگا اور ہر طرف سے مستضعفین جہاں وارث جہاں ہوں گے، کیونکہ یہ وعدہ خدا ہے، جو ایک دن لازمی وفا ہوگا اور وہ لوگ جو زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ان پر ظلم کیا گیا ہے، ایک دن ہنسی خوشی اپنے چمن کو شادمان ہو کر لوٹیں گے اور ان ویرانوں کو پھر سے آباد کریں گے، جو ان سے چھین لیے گئے ہیں۔ یقیناً یہ دن ظالمین، مجرمین اور مفسدین کے لیے سخت ترین دن ہوگا۔ یقیناً یہ فیصلے کا دن ہوگا اور یقیناً فیصلے کا دن بہت قریب ہوگا۔
تحریر: مہر عدنان حیدر
ہشترود کی جامع مسجد میں اسلامی اور ایرانی ہنر کے جلوے
غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری/ اب تک 58 بچے اور 34 خواتین شہید
اسرائیلی افواج نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی رہنماں کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں و درخواستوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زمینی و فضائی حملوں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 200 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں 58 بچے اور 34 خواتین شامل ہیں۔
غزہ اور غرب اردن پر اسرائیل کے تازہ ترین حملوں میں مزید 54 شہید ہوگئے ہیں ۔شہدا میں سے 21 کا تعلق غرب اردن اور 33 کا غزہ کے علاقے سے ہے۔ کل شہدا کی تعداد 200 سے زائد ہو گئی ہے۔
عرب ذرائع کے مطابق اسرائیلی افواج نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں بھی اب جارحانہ اور پر تشدد کارروائیاں شروع کردی ہیں جس کے باعث 21 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے میں بھی گولہ باری کی ہے اورغزہ پر پوری رات فضائی حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں مزید 33 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق شہر میں اسرائیلی افواج کے فضائی حملوں میں تباہ شدہ عمارات کے ملبے کوہٹایا جارہا ہے اور اس کو کھود کر دبے ہوئے زخمیوں و لاشوں کو نکالا جارہا ہے۔اس ضمن میں امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل افواج کی جانب سے کی جانے والی فضائی بمباری میں شہید ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کے خدشات موجود ہیں۔فلسطین اتھارٹی کی وزارت صحت کے مطابق پیر سے جاری فضائی حملوں میں اب تک صرف غزہ میں 200 سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ شہدا میں 58 کم سن بچے اور 34 خواتین بھی شامل ہیں۔
غزہ اور مسجد الاقصی پر حملہ دنیائے اسلام پر حملہ ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اور مسجد الاقصی پر حملہ دنیائے اسلام پر حملہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر راشد الخریجی الغنوشی نے ٹیلیفون پر گفتگو میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ۔ ایرانی اسپیکر نے اسرائیل کی درندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ اور اسلامی ممالک کو متحد ہوکر کارروائی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مسجد الاقصی اور غزہ پر اسرائیل کا حملہ در حقیقت عالم اسلام پر حملہ ہے۔
اس گفتگو میں الغنوشی نے بھی فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اس سال مسلمانوں پر عید فطر کو تلخ کردیا ہے تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے اسلامی ممالک پر زوردیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے فلسطینیوں کی عملی حمایت کا ثبوت دیں۔
الغنوشی نے فلسطین کے بارے میں ایران کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام ایران کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں۔ الغنوشی نے ایران اور تیونس کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے پر بھی زوردیا۔
عید الفطر کے اعمال و فرائض، امام امام علی علیہ السلام کی نظر میں
امام علی علیہ السلام نے عید الفطر کے دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ اس خطبہ کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے۔ اس خطبہ بیان اہم اور محوری و مرکزی حیثیت رکھنے والے مطالب حسب ذیل ہیں:
۱۔ توحید کا اقرار، توحید در خالقیت و مالکیت اور استعانت کا اعتراف اور اسی سے مدد چاہنا:
وَ نَشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ الّا اللهُ وَحْدَهُ لاشَریک لَهُ؛ ۔خَلَقَ الْسَّمواتِ.لَهُ ما فِی الْسَّمواتِ وَ ما فِی اْلاَرْضِ»۔هُوَ اَهْلُهُ وَ نَسْتَعِینُهُ۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا اللہ نہیں ہے، وہ ایک اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی نے آسمانوں کو خلق کیا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ اور وہی اس کا مالک ہے۔ اور ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں۔
۲۔ خدا کی حمد و ثنا
اَلْحَمْدُ لِلّهِ اْلَّذِی خَلَقَ اْلْسَمواتِ وَ اْلْاَرْضَ وَ جَعَلَ اْلْظُّلُماتِ وَ اْلْنُّورَ؛
ساری تعریفیں اس اللہ کی جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور نور اور تاریکیاں بنائیں۔
وَ الْحَمْدُ لِلّهِ اْلَّذِی لَهُ ما فِی الْسَّمواتِ وَ ما فِی اْلاَرْضِ؛
ساری تعریفیں اس پروردگار کی کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہےسب کا مالک وہی ہے۔
وَ لَهُ الْحَمْدُ فِی الآخِرَةِ وَ هُوَ الْحَکیمُ الْخَبِیرُ یعْلَمُ ما یلِجُ فِی الْاَرْضِ وَ ما یخْرُجُ مِنها وَ ما ینْزِلُ مِنْ الْسَّماءِ وَ ما یعْرُجُ فِیها۔
اسی کی حمد و ثنا آخرت میں بھی ہے۔ وہی صاحب حکمت اور ہر چیز سے باخبر ہے، زمین میں جو کچھ داخل ہوتا ہے اور اس سے جو کچھ نکلتا ہے، آسمان سے جو کچھ نازل ہوتا ہے اور جو کچھ آسمان کی طرف جاتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔
یعْلَمُ ما تُخْفِی الْنُفُوسُ وَ ما تَجِنُّ الْبِحارُ وَ ما تَواری مِنهُ ظُلْمَةٌ وَ لا تَغِیبُ عَنْهُ غائِبَةٌ؛
وہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جنھیں دل چھپاتے ہیں، سمندریں پوشیدہ رکھتے ہیں اور تاریکیاں ان پر پردے ڈال دیتی ہیں۔ کوئی بھی مخفی شے اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔
وَالْحَمْدُ لِلّهِ الْذِی یمْسِک الْسَّماءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلّا بِأِذْنِهِ؛
ساری تعریفیں اس اللہ کی جس نے آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے روک رکھا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کی اجازت ہوگی تو گرپڑے گا۔
وَالْحَمْدُ لِلّهِ الَّذی لا مَقْنُوطٌ مِنْ رَحْمَتِهِ وَ لا مَخْلُوٌّ مِنْ نِعْمَتِهِ وَ لا مُؤیسٌ مِنْ رَوْحِهِ؛
ساری تعریفیں اس اللہ کی جس کی رحمت سے کوئی مایوسی نہیں ہے، جس کی نعمت سے کوئی خالی نہیں ہے اور جس کی برکتوں سے کوئی ناامیدی نہیں ہے۔
وَ نَحْمَدُهُ کما حَمِدَ نَفْسَهُ وَ کما اَهْلُهُ؛
اور ہم اس کی اسی طرح حمد و ثان کرتے ہیں جس طرح اس نے خود اپنی حمد و ثنا ہی ہے اور جیسی حمد کا وہ اہل ہے۔
۳۔ رسالت کی گواہی
وَ نَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ نَبِیهُ وَ رَسُولُهُ اِلی خَلْقِهِ وَ اَمِینُهُ عَلی وَحْیهِ وَ اَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ رِسالاتِ رَبِّهِ وَ جاهَدَ فی اللهِ الحائِدینَ عنه العادِلینَ بِهِ؛
اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندہ ، نبی اور مخلوقات کی جانب اس کے فرستادہ اور وحی پر اس کے امین ہیں۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خدا کے پیغامات پہچادیئے اور راہ خدا میں کفار اور مشرکین سے جہاد کیا۔
۴۔ تقویٰ کی نصیحت و وصیت
اُوْصِیکمْ بِتَقْوَی اللهِ الَّذی لاتَبْرَحُ مِنْهُ نِعْمَةٌ…؛
میں تم سب کو تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتاہوں کہ جس کی نعمتیں ہر لمحہ قائم و جاری ہیں۔
اّلَّذی رَغَّبَ فِی الْتَّقْوی وَ زهَّدَ فِی الْدُّنیا وَ حَذَّرَ المَعاصِی؛
جس نے تقویٰ کی طرف رغبت دلائی ہے، دنیا میں زہد اختیار کرنے کا تشویق کی ہے اور نافرمانیوں سے ہوشیار کیا ہے۔
عَصَمنا اللهُ وَاِیاکمْ بِالتَّقوی؛
اللہ ہمیں اور تمہیں تقویٰ کے ذریعہ محفوظ رکھے۔
۵۔ دنیا کے اوصاف
وَ الدُّنیا دارٌ کتَبَ اللهُ لَها الفَناءَ وَ لِاَهلِها مِنها الجَلاءَ فأکثَرُهُمْ ینْوی بَقائَها۔
دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کے لئے اللہ نے فنا و نابودی اور اس کے باشندوں کے لئے وہاں سے کوچ کو لکھ دیا ہے۔ پھر بھی اکثر بسنے والے اس گھر کی بقا کی خواہش رکھتے ہیں۔
دنیا کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے:
۱۔ کوچ کر جاؤ :فَارتَحِلُوا مِنها.
۲۔ کم پر بھی قانع ہوجاؤ: وَ لا تَطْلُبوا مِنها أَکثَرَ مِن الْقَلیلِ؛
مقدار سے زیادہ نہ مانگو
وَ لاتَسْأَلوا مِنها فَوْقَ الکفافِ
لاابالی دولتمندوں جیسا برتاؤ نہ کرو: وَ لاتَمُدُّنَّ اَعْینَکمْ مِنها اِلی ما مُتِّعَ المُترِفُونَ بِهِ؛
۵۔ دنیا کو آسان سمجھو:وَ اسْتَهِینوا بِها
۶۔ دنیا کو وطن نہ بناؤ:وَ لاتُوَطِّنوها
۷ْ۔ رنج و الم کا استقبال کرو :وَ اَضِرُّوا بِاَنْفُسِکمْ فیها
۸۔ دنیا کی چمک دمک سے دور رہو: وَ اِیاکمْ وَالْتَّنَعُّم؛
بیہودی باتوں سے دور رہو: وَ التَّلَهّی وَالفاکهاتِ…»
۱۰۔موت سے پہلے توبہ کرلو: اَلا اَفَلا تائِبٌ مِنْ خَطِیئَتِهِ قَبْلَ یوْمِ مَنِیتِهِ؛
۱۱۔ دنیا عمل کا گھر ہے: اَلا عامِلٌ لِنَفْسِهِ قَبْلَ یوْمِ بُؤْسِهِ وَ فَقْرِهِ؛
۶۔ عید اور ہماری ذمہ داریاں
اَلا اِنَّ هذا الْیوْمَ یوْمٌ جَعَلَهُ اللهُ لَکمْ عِیداً وَ جَعَلَکمْ لَهُ اَهْلاً؛
آگاہ ہو جاؤ کہ آج وہ دن ہے کہ جسے اللہ نے تمہارے لئے عید قرار دیا ہے اور تمہیں اس کا اہل قرار دیا ہے۔
۱۔ خدا کو یاد کریں:
فَاذْکروا اللهَ یذکرُکمْ؛
خدا کو یاد رکھو کہ وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا۔
۲۔ دعا اور حاجت طلب کریں: وَادْعُوهُ یسْتَجِبْ لَکمْ؛
اس سے دعا کرو کہ وہ تمہاری دعائیں مستجاب کرے گا۔
۳۔ فطرہ نکالیں:
وَاَدُّوا فِطْرَتَکمْ فَاِنَّها سُنَّةُ نَبِیکمْ وَ فَرِیضَةٌ واجِبَةٌ مِنْ رَبِّکمْ؛
فطرہ نکالو کہ یہ تمہارے نبی کی سنت اور تمہارے پروردگار کی جانب سے واجب و فریضہ ہے۔
۴۔ اوامر الٰہیہ کی اطاعت کریں:
وَ اَطِیعُوا اللهَ فِیما فَرَضَ عَلَیکمْ وَ اَمَرَکمْ بِهِ؛
خدا نے تم پر کو کچھ فرض کیا ہے اور تمہیں جن باتوں کا حکم دیا ہے، ان میں اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔
منجملہ :
نماز قائم کرو: مِنْ اِقامِ الْصَّلوةِ
زکوٰۃ نکالو:وَ اِیتاءِ الْزَّکوةِ
حج کرو :وَ حِجَّ البَیتِ
ماہ رمضان کے روزے رکھو:وَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضانَ۔
نیکیوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو: وَالاَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ الْنَّهْی عَنِ الْمُنْکرِ
اہل و عیال کے ساتھ نیکی کرو : وَالاِحْسانِ اِلی نِسائِکمْ وَ…
۵۔ محرمات کے قریب نہ جائیں:
وَ اَطِیعُوا اللهَ فِیما نَهاکمْ عَنْهُ
خدا نے تمہیں جن چیزوں سے منع کیا ہے ان میں خدا کی اطاعت کرو۔
منجملہ :
۱۔ کسی پر بدکاری کی تہمت نہ لگاؤ: مِنْ قَذْفِ المُحْصَنَةِ
۲۔ خود بدکاری نہ کرو: وَ اِتْیانِ الْفاحِشَةِ
۳۔شراب نوشی نہ کرو: وَ شُرْبِ الْخَمْرِ
۴۔ کم نہ تولو: وَ بَخْسِ الْمِکیالِ وَ نَقْصِ الْمِیزانِ
۵۔ جھوٹی گواہی نہ دو: وَ شَهادَةِ الزُّورِ
۶۔ میدان سے فرار نہ کرو: وَ الْفَرار مِنَ الزَّحْفِ۔
تحریر: حجت الاسلام فیروز علی بنارسی
عید الفطر کو سادگی اور تجدید عہد القدس کے طور پر منائیں، علامہ ساجد نقوی
،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میںکہا کہ مختلف مذاہب ، معاشروں، تہذیبوں اور خطوں میں عید کا تصور مختلف اور جدا ہے جس کے بعض پہلووں سے اتفاق اور بعض سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اگرچہ عید کا عمومی اور دنیاوی تصور فقط خوشی‘ نشاط‘ سرگرمی‘ گرمجوشی اور مسرت کے ساتھ مربوط نظر آتا ہے۔لیکن اسلام میں عید کا تصور قدرے حسین ، مسحور کن ، جاذب اور دنیوی و اخروی لحاظ سے فائدہ مند بنایا گیا ہے ۔مسلمانوں کے ہاں عید کے موقع پر بھر پور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خداتعالی کی عبودیت اور اس کی نعمات کا شکر ادا کیا جاتا ہے اور ایسے امور سے مکمل پرہیز اختےار کرنے کا عہد کیا جاتا ہے جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ مومن کے لئے ہر وہ دن روز عید قرار پایا ہے جس روز وہ معصیت خدا نہ کرے۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ عید کا دن اپنے محاسبے اور احتساب کا دن ہے۔ اس روز اگر ہم اپنے گذشتہ سال کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا جائزہ لیں اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں تو ہم خود احتسابی کا عمل جاری کرکے اپنی ذاتی اور معاشرتی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور پھر دنیا کو حسین جنت بناسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان سمیت عالم اسلام اس بار عید الفطر ایسے عالم میں منا رہا ہے جب اسے ایک وبائی مرض کا سامنا ہے جس کا مقابلہ طبی حوالوں سے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ممکن ہے اور اسی طرح اس سے متاثرہ خاندان اور اس وبا کے سبب کسی بھی حوالے سے متاثر ہونے والے افراد امداد‘ ہمدردی اور دلجوئی کے زیادہ مستحق ہیں چنانچہ امت مسلمہ حقوق العباد کے فریضے سے کسی طور بھی غافل نہ ہو۔
عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ ابھی افغانستان میں کم سن طالبات کی سسکیاں تھمی نہ تھیں کہ ارض فلسطین سے بھی آہ و بکا کی آوازیںسنائی دینے لگیں، 27 رمضان المبارک سے آخری اطلاعات تک اسرائیل کی نہتے فلسطینی عوام، نمازیوں، بچوں، بزرگوں پرمظالم جاری ہےں ایسے عالم میں عید الفطر کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں، پورے عالم اسلام میں سوگ و غم کی سی کیفیت ہے، نماز عید و جمعہ کے اجتماعات میں مظلوم فلسطینیوں، کشمیریوں سمیت تمام مظلوموں کو یاد رکھا جائے، القدس کی آزادی کے لئے خصوصی و اجتماعی دعاو¿وں کا اہتمام کیا جائے اور فلسطینی عوام سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یوم عید کو القدس کے ساتھ تجدید عہد کے طور پر منایا جائے- انہوں نے مزید کہاکہ او آئی سی امت مسلمہ کا متفقہ پلیٹ فارم ہے، اسے صرف رسمی اجلاس کی بجائے عملی اقدام اٹھانا ہوگا، او آئی سی حقیقی معنوں میں نمائندگی کا حق ادا کرے کیوں کہ یہ وقت اسی بات کا متقاضی ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سانحہ کابل کے شہداءکے خانوادوں اور مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہاکہ غم اور مشکل کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم آپ کے غم میں نہ صرف برابر کی شریک ہے بلکہ فلسطینی عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت بھی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتی ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کرونا وائرس کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کےلئے اپنی ذمہ داریا ں ادا کریںاور کورونا وائرس سے خود بچنے اور دوسروںکو بچانے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریںاور کورونا وائرس سے متاثرین، مستحق نادار افراد کی بھر پور امداد کریں ۔
ایران میں شوال کا چاند نظر آگیا / کل عید سعید فطر منائی جائےگی
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے بیان کے مطابق شوال المکرم کا چاند نظر آگیا ہے لہذا کل بروز جمعرات ایران بھر میں عید سعید فطر منائي جائےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے بیان کے مطابق ملک بھر میں مختلف ٹیموں نے شوال المکرم کا چاند دیکھنے کے سلسلے میں اقدام کیا اور بدھ کے روز غروب کے وقت رہبر معظم انقلاب کے لئے شوال کا چاند نظر آنے کے ٹھوس شواہد مل گئے لہذا کل ایران بھر میں عید سعید فطرعقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جائےگی۔