سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے طلباء تنظیموں کے نمائندوں سے آن لائن اور براہ راست خطاب میں انقلابی ، انصاف پسند ، اینٹی کرپشن اور نوجوانوں پر یقین رکھنے والی حکومت تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلام نے اپنے خطاب میں دنیائے اسلام میں حالیہ دنوں میں افغانستان اور فلسطین میں رونما ہونے والے دو تلخ اور درد ناک واقعات کی طرف  اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  اللہ تعالی ایسے درندہ صفت افراد پر لعنت کرے جنھوں نے افغانستان میں معصوم غنچوں، کلیوں اور بےگناہ بچیوں کو بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ  قتل کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسجد الاقصی میں صہیونیوں کی بربریت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم عالمی برادری کے سامنے ہیں اور عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ممالک کو فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینیوں کی استقامت اور پائداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیلی حکومت منہ زور حکومت ہے اور وہ صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اصولوں کی حفاظت اور استحکام کے سلسلے میں خلاقیت، تحول اور نو آوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ برسوں میں ملک نے خاطرہ خواہ پیشرفت و ترقی کی ہے لیکن اس کے ساتھ بعض شعبوں میں پسماندگی بھی پائی جاتی ہے ہمیں اپنی پیشرفت اور ترقی کے ساتھ ساتھ پسماندگی کو بھی دور کرنے پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی یونیورسٹیوں میں مختلف طلباء انجمنوں کے وجود کو عظیم سرمایہ قراردیتے ہوئے فرمایا: طلباء انجمنیں فکری تحول اور پیداوار میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ نوجوان نسل کی میدان میں موجودگی اہم ہے۔ انجمنوں کو ملکی اور عالمی مسائل پر قریبی نظر رکھنی چاہیے اور عالمی حالات کا قریب سے جائزہ لینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے ذریعہ ملکی حکام کے  انتخاب کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کی انتخابات میں بھر پور شرکت کا ملک کی طاقت اور قدرت میں کافی اثر ہوتا ہے اور عوام کو چاہیے کہ وہ  اچھے افراد کو انتخاب کریں جو ملک اور عوام کی خدمت کریں اور ملک کی پیشرفت اور ترقی کے سلسلے میں تلاش و کوشش کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جس شخص کا دفاعی ، اقتصادی ، سیاسی اور صنعتی شعبوں میں ملکی توانائیوں پر یقین نہیں ،وہ  شخص حکمرانی کے لائق نہیں ہے، ملکی انتظام اور مدریت ایسے افراد کے حوالے کرنی چاہیے جو ملکی توانائیوں اور جوانوں پر یقین رکھتے ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنےخطاب میں انقلابی ، انصاف پسند ، اینٹی کرپشن اور نوجوانوں پر یقین رکھنے والی حکومت تشکیل دینے کی سفارش کی ۔

 

 الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطین کی اسلامی  مزاحمتی تنظیموں نے مسجد الاقصی میں صہیونیوں کی بربریت کے جواب میں  غزہ کے اطراف میں صہیونی بستیوں پر میزائل فائر کئے ہیں ،جس کے بعد مقبوضہ فلسطین میں خطرے کے آلارم بجنا شروع ہوگئے ہیں۔

 

عزالدین قسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ ہم مسجد الاقصی میں اسرائيلی بربریت کے جواب میں مقبوضہ فلسطین پر میزائل برسا رہے ہیں۔ صہیونی ذرائع کے مطابق کئی درجن میزائل مقبوضہ فلسطین میں گرے ہیں۔ عزالدین قسام بریگيڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مسجد الاقصی میں اسرائیلی بربریت کا بھر پور جواب دیا جائےگا۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصی کا محاصرہ کررکھا ہے اور مسجد الاقصی اور اس کے اطراف میں صہیونی فوج نے فائرنگ کرکے اب تک  350 سے زائد فلسطینیوں کو زخمی کردیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت کا سلسلہ جاری ہے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 20 افراد شہید اور 65 زخمی ہوگئے ہیں۔ جبکہ عرب ممالک خاموش تماشائي بنے ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق غزہ میں طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ ہوائی حملوں میں 20 افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں 9 بچے بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیلی جنگی طیارون کی بمباری کے نتیجے میں 65 افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی بربریت کے جواب میں فلسطینی کیم زآحتمی تنظیموں نے بھی مقبوضہ علاقوں پر راکٹوں کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات دارالحکومت کابل میں کئی بم دھماکوں کی صورت میں سامنے آئے۔ ان شدید دھماکوں نے پورے ملک پر غم و اندوہ کی فضا طاری کر دی ہے اور مختلف ذرائع ابلاغ میں پہلی سرخی کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ کابل کے مغربی حصے میں ہونے والے یہ بم دھماکے، دہشت گردانہ نوعیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ تین دیگر اہم خصوصیات بھی رکھتے تھے: ایک یہ کہ یہ دھماکے کابل کے شیعہ اکثریتی علاقے میں انجام پائے ہیں، دوسرا ان بم دھماکوں سے "سید الشہداء" گرلز اسکول کی طالبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور تیسری خصوصیت یہ کہ یہ دہشت گردانہ اقدام رمضان کے مبارک مہینے اور عیدالفطر کے قریب واقع ہوئے ہیں۔
 
مندرجہ بالا تین خصوصیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دہشت گردانہ بم حملوں میں ملوث عناصر افغانستان میں فرقہ وارانہ اختلافات اور جنگ کو ہوا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق ان بم دھماکوں کے نتیجے میں 58 افراد شہید جبکہ 150 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں سید الشہداء گرلز اسکول کی 50 طالبات شامل ہیں۔ زخمیوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر شہداء کی تعداد میں اضافہ ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کافی زیادہ تعداد میں طالبات لاپتہ بھی ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی طالبات کے اہلخانہ اپنے عزیزوں کی تلاش میں جگہ جگہ گھوم رہے ہیں۔ کبھی جائے حادثہ پر بچے کھچے ملبے میں تلاش کرتے ہیں اور کبھی اسپتالوں کے سرد خانوں میں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈتے ہیں۔
 
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین دھماکے ہوئے ہیں۔ ایک دھماکہ بارود سے بھری ٹویوٹا کرولا میں ہوا جبکہ دو دیگر دھماکے ان مائنوں سے ہوئے جو طالبات کے راستے میں نصب کی گئی تھیں۔ افغان حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دی جائے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "طالبان نے غیر قانونی جنگ میں شدت پیدا کر کے اور شدت پسندانہ اقدامات کے ذریعے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ بحران کو پرامن طریقے سے بنیادی طور پر حل کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ بنا کر امن کیلئے فراہم کردہ موقع ضائع کر دینا چاہتے ہیں۔"
 
لیکن طالبان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان بم دھماکوں سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں انجام پانے والے اس دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں طالبان کے ملوث نہ ہونے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردانہ اقدام تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی کارستانی ہے۔ اس کے باوجود افغان حکومت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور ان بم دھماکوں میں طالبان کے ہی ملوث ہونے پر اصرار کر رہی ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا: "حالیہ بم دھماکے ماضی میں انجام پانے والے بم دھماکوں سے ملتے جلتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طالبان نے انجام دیے ہیں۔" یاد رہے گذشتہ ہفتے بھی افغانستان کی ولایت لوگر میں ایسے ہی بم دھماکوں میں 27 افراد شہید اور 110 زخمی ہو گئے تھے۔
 
افغان حکومت اور طالبان کے مختلف موقف سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ نکتہ انتہائی اہم نظر آتا ہے کہ ابھی تک کسی گروہ نے ان دہشت گردانہ بم حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے ساتھ ہی بعض خفیہ قوتیں گذشتہ بیس برس سے فوجی جارحیت اور اندرونی جھگڑوں کے شکار اس ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کو ناممکن ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان میں اپنے فوجی قبضے کو جلد از جلد ختم کر دینا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکی حکام خاص مقاصد کے تحت ایسے بیان دیتے نظر آتے ہیں کہ غیر ملکی افواج کی عدم موجودگی میں افغانستان جنگ اور بحران کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
 
امریکہ کے وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہر قسم کا تصور ممکن ہے۔ دوسری طرف انٹرا افغان امن مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس تعطل کی بنیادی وجہ امریکہ کی وعدہ خلافیاں ہیں۔ امریکہ نے فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ انجام پانے والے معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا۔ اس معاہدے کی روشنی میں یہ طے پایا تھا کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج مئی 2020ء تک ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی جبکہ امریکہ نے حال ہی میں فوجی انخلاء کا آغاز کیا ہے۔ طالبان نے بھی اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی وعدہ خلافی کے پیش نظر وہ ہر قسم کی مسلح کاروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ بعض خفیہ ہاتھ افغانستان میں دوبارہ بدامنی کا بازار گرم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تحریر: علی احمدی

امام خمینی (رح) کی نگاہ میں ایک اہم اور بنیادی موضوع طالب علم اور یونیورسٹی ہے۔ موضوعِ طالب علم امام خمینی (رح) کی گفتگو میں کافی نمایاں رہا ہے اور اس سلسلہ میں آپ (رح) نے بہت زیادہ تاکید کی ہے: امام (رح) فرماتے ہیں:

ملک کی تقدیر میں طالب علم کا کردار

طالب علم قوم کے خزانے ہیں، ہمارے ملک کی آئندہ تقدیر موجودہ طالب علموں کے ہاتھ میں ہے یعنی ملک کے مختلف پہلو طالب علموں کے ہاتھوں میں ہیں اور ملکی سعادت کی چابی استاد اور طالب علم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ استاد ہی ہے جسے مختلف نوجوانوں کو تربیت کرنا چاہئے اور پھر نوجوان و طالب علم ہیں جنہیں ملک چلانا ہے اس بنا پر دنیا میں ہر ملک کی باگ ڈور استاد اور طالب علموں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

انبیاء کے راستہ کو دوام بخشنا

اے نوجوانو اور طالب علمو تم اس ملک کی امید ہو اس راستہ کو جاری رکھتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہونچانا ہے، اس تحریک میں بہت جانفشانی کی گئی ہے لہذا اسے جاری رکھنا پڑے گا، یہ سیدھا راستہ جسے انبیاء نے انسانوں تک پہونچایا ہے اور سب سے اشرف و اعلی آخری نبی حضرت محمدؐ نے بھی اسی راستہ کو دوام بخشا اور لوگوں کو سیدھے راستے کی جانب دعوت دیتے ہوئے انہیں ہدایت دی انبیاء نے انسانیت کو تمام قسم کے کفر و شرک اور ظلمات سے نکال کر نور مطلق کی جانب ہدایت کی، لہذا اے نوجوانو تمہیں اسی راستہ کو دوام بخشنا ہے تا کہ رسول اکرمؐ اور حضرت صادقؑ کے مذہب کے حقیقی پیروکار بن جاؤ۔

امت مسلمہ کی کشتی نجات

طول تاریخ میں ذمہ دار نوجوان اور بالخصوص موجودہ اور آئندہ نسل میں مسلمان طالب علم، اسلام اور اسلامی ممالک کی امید ہیں۔ یہی طالب علم و نوجوان ہیں جو اپنی ذمہ داری، ارادہ،استقامت اور پائداری کے ذریعہ اپنے ملک اور امت مسلمہ کی کشتی نجات بن سکتے ہیں، قومی ترقی، آزادی اور استقلال انہی عزیزوں کی زحمات کی مرہون منت ہے۔ استعمار اور استعماری طاقتوں کا نشانہ یہی عزیز ہیں اور سب انہیں شکار کرنا چاہتے ہیں اور ان کے شکار کے نتیجہ میں تمام ممالک اور قومیں کمزوری کا شکار بنتے ہوئے برباد ہوجاتی ہیں۔

طالب علم قوموں کی اصلاح یا بربادی کا سرچشمہ

یونیورسٹی کے عزیز جوانوں کو یونیورسٹی کے مسائل پہ توجہ رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ ایک قوم کی اصلاح ہوتی ہے اور یونیورسٹی کے ذریعہ ہی ایک قوم برباد ہوتی ہے یہ یونیورسٹی ہی کی تربیت ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوان کس جانب حرکت کریں مغرب کی طرف جائیں یا مشرق کی طرف۔ یا مغرب کا غلبہ آجائے یا مشرق کا۔ مغربی کلچر ہماری سب چیزیں ہم سے چھیننے کی کوشش میں ہے اور وہ ہماری قوم کو بربادی کی جانب لے جا رہا ہے۔ نوجوانوں و طالب علموں کو یونیورسٹیز میں اپنے ایمان کو تقویت پہونچانا چاہئے۔ ایسا ایمان جو انہیں شرافت سے لبریز کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بارگاہِ خدا میں بھی صاحب عزت بنو گے۔

اسلام کا دفاع

تمام مسلمانوں اور بالخصوص علماء کرام اور یونیورسٹیز کے عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ اسلام اور اس کے حیاتبخش احکامات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کا دفاع کریں کیونکہ اسلامی احکامات استقلال، آزادی کے ضامن ہیں۔ لہذا فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان سے مستفید ہوں یونیورسٹیز میں موجودہ طلاب کو اپنی باتیں بیان کرنا اور تحریر کرنا چاہئے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر تمام انسانی معاشروں تک پہونچانا چاہئے۔

یونیورسٹیز میں پرچم اسلام کو بلند کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، مذہبی تبلیغ کرنا چاہئے، مسجدوں کی تعمیر کریں اور با جماعت نماز ادا کرنا چاہئے۔ مذہبی اتحاد ضروری ہے اسی مذہبی اتحاد کے نتیجہ میں عظیم الشان اتحاد قائم ہوتا ہے لہذا اگر ایرانی آزادی چاہئے تو مذہبی اتحاد قائم کرو۔

منحرف عناصر کے نفوذ میں رکاوٹ ایجاد کریں

آج ہمارا ملک آزاد ہوچکا ہے مغرب و مشرق کے قید سے ہم آزاد ہو چکے ہیں ملک اور یونیورسٹیز بھی آزاد ہیں لہذا یونیورسٹیز کے جوانوں کو زیادہ سے زیادہ ملکی ترقی کی خاطر علوم و فنون حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور منحرف عناصر کے نفوذ میں رکاوٹ ایجاد کرنا چاہئے اور انہیں ہرگز یونیورسٹیز کے مقدس ماحول کو منحرف و استعمار سے وابستہ افراد کے منفی پروپگنڈوں سے آلودہ ہونے سے بچانا چاہئے

اسلام ترقی کا خواہاں ہے، اسلام ان تمام ادیان میں سرفہرست ہے جنہوں نے تعلیم  و ترقی کی تعریف کی ہے اور لوگوں کو بھی دعوت دی ہے، اس نے دعوت دی ہے کہ علم جہاں بھی ہو اسے حاصل کرو حتی اگر کافر سے حاصل کرنا پڑے البتہ اسے اسلام اور ملک کی خدمت میں لگانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو علم و تعلیم حاصک کرو اور اسے اپنے ملک کے خلاف استعمال کرو۔

تعلیم زندگی کی آخری سانسوں تک

انسان اپنی عمر کی آخری سانسوں تک تعلیم، تربیت اور پرورش کا محتاج ہے، کوئی انسان ایسا نہیں جو تعلیم، تربیت اور پرورش سے مستغنی ہو جیسا کہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہماری تعلیم کا وقت گزر چکا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ تعلیم کا کوئی معین وقت نہیں ہے، جیسا کہ تعلیم و تربیت کا کوئی معین وقت نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ گہوارہ سے لے کر قبر تک تعلیم حاصل کرو اگر انسان جان کنی کے عالم میں بھی ایک کلمہ سیکھ لے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ جاہل اس دنیا سے جائے۔

حکومت اسلامی کا استقبال

یونیورسٹیز کے طلاب بہت ہوشیار ہوتے ہیں تمہیں مطمئن ہونا چاہئے کہ اگر اسلامی حکومت اور اسلامی مذہب کو حقیقی طور پر ان کے سامنے پیش کرو گے اور اسے انہیں متعارف کراؤ گے تو یقیناً وہ اس کا استقبال کریں گے، یونیورسٹیز کے طلاب ظلم و استبداد کے مخالف ہیں وہ لوگوں کے عمومی اموال کی غارتگری کے مخالف ہیں، حرام خوری اور جھوٹ کے مخالف ہیں جس اسلام میں اجتماعی حکومت اور تعلیم و تربیت پائی جاتی ہے اس اسلام کا نہ کوئی طالب علم مخالف ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی۔

تعلیم یافتہ بالخصوص یونیورسٹی کے طلاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہوشیاری کے ساتھ اسلام اور اپنے ملک کی خدمت کریں اور تمام قسم کے حالات و ماحول کو مد نظر رکھیں کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں تعلیم و تربیت کے بڑے بڑے ادارے انہی مسائل کی جانب گامزن نہ ہو جائیں جن میں وہ پہلے مبتلا تھے۔

حوالہ: hawzeh.net                  

 اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغرب میں مدرسہ سید الشہداء کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت اور افغان قوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ خطیب زادہ نے کہا کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کی بزدلی اور بربریت کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سید الشہداء مدرسہ کے قریب ہونے والے 3 بم دھماکوں میں 25 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے ۔

ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بم دھماکوں کیم ذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل کے مغرب میںم درسہ سید الشہداء کے قریب ہونے والے بم دھماکوں میں داعش دہشت گرد ملوث ہیں جو خطے میں امریکی ایجنٹ ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا اور امن مذاکرات میں تعطل کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں شیعہ نشین علاقہ میں خونریز بم دھماکے اس بات کا مظہر ہیں کہ سامراجی طاقتیں افغانستان کا بحران  جاری رکھنے کی تلاش و کوشش کررہی ہیں۔

 

 

 

انفجارهای کابل/ بن بست مذاکرات صلح و نقش آمریکا

 

اطلاعات کے مطابق کل سہ پہر کو مقامی وقت کے مطابق پانچ بجے کابل کے شیعہ نشین علاقہ میں لڑکیوں کے سید الشہداء مدرسہ  کے قریب  تین بم دھماکے کئے گئے، جس کے بعد عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان دھماکوں میں تین پہلو پیش نظر ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ دھماکے شیعہ نشین علاقے میں ہوئے، دوسرا پہلو یہ کہ دھماکے میں لڑکیوں کے سید الشہداء مدرسہ کو نشانہ بنایا گیا اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ دھماکے رمضان المبارک کے اختتامی ایام اور عید سعید فطر سے چند روز پہلے کئے گئے۔ مذکورہ تین پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردوں کی پہچان کوئی مشکل کام نہیں ، دہشت گرد سب سے پہلے مذہبی اور قومی اتحاد کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے انھوں نے شیعہ مدرسے  کا انتخاب کیا۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں اب تک  58 افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں 50 طالبات شامل ہیں۔

انفجارهای کابل/ بن بست مذاکرات صلح و نقش آمریکا

عینی شاہدین کے مطابق پہلا بم دھماکہ ایک گاڑی کے ذریعہ کیا گیا جبکہ دو بم دھماکے طالبات کے مدرسے سے نکلتے وقت دو بم  پھٹنے سے ہوئے، افغان حکومت اس حادثے کا ذمہ دار طالبان کو قراردے رہی ہے ، افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان نے ملک میں جنگ اور تشدد کا سلسلہ  جاری رکھا ہوا ہے اور وہ افغان عوام کے دشمن ہیں اور انھیں امن و صلح سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ افغانستان میں پائدار امن کے خلاف ہے امریکہ افغانستان میں ایک طرف افغان حکومت اور دوسری طرف  طالبان اور داعش دہشت گردوں کی بھی پشتپناہی کررہا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں شیعہ نشین علاقہ میں بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں میں امریکہ کے حامی داعش دہشت گرد ملوث ہیں۔ امریکہ  افغانستان میں اس بار طالبان کے بجائے داعش دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہا ہے اور وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کے باقی رہنے کا جواز پیدا کررہا ہے۔ ادھر افغانستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمائے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگر طالبان نے تشدد کا راستہ ترک نہ کیا تو امریکی فوج دوبارہ افغانستان پہنچ سکتی ہے۔ خلیل زاد کے اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کی آڑ میں افغانتسان سے نکلنا نہیں چاہتا اور امریکہ کا افغانستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے ہاتھ نمایاں ہے۔

 

جمعۃ الوداع کی اہمیت سب جانتے ہیں اور اس کا پہلا محرک یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ اِس جمعہ کو بہت اہتمام کیا کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی فرماتے تھے۔ دوسری جو اہم مناسبت ہے، وہ یہ ہے کہ امام خمینی نے ماہِ صیام کے اس آخری جمعہ کو "یوم القدس یعنی آزادی قدس" کے عنوان سے موسوم کیا ہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اس دن کو قدس کے نام سے برپا کریں۔ یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے۔ بہت سارے اسلامی ممالک ایسے ہیں، جن میں لوگوں کو خبر بھی نہیں ہے کہ یہ کونسا دن ہے اور اِس کو کیوں برگزار کیا جاتا ہے؟ بلکہ اس کے بارے میں شبہات بھی رکھتے ہیں، مثلاً عام مسلمان سوچتے ہیں کہ ہم کیوں جمعۃ الوداع کو روزِ قدس، روزِ آزادی فلسطین، روزِ آزادی قبلہ اول کے طور پر برپا کریں۔؟ اس موضوع کی تفسیر و تبیین یعنی اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کس پسِ منظر کے تحت امام خمینی نے روزِ قدس کو بعنوانِ یوم اللہ قرار دیا؟ تمام مسلمانوں سے توقع بھی نہیں ہے کہ وہ اتنی بصیرت کے ساتھ ایسے امور کو درک کر پائیں، جو کہ ایک طبعی بات ہے۔

جہانِ اسلام میں بصیرت بہت ہی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل عرصہ سے مسلمانوں کو سیاسی دین سے دور کرکے خانقاہی اور صوفیانہ دین کی طرف مائل کیا گیا، یعنی دین کو ایسا بنا کر پیش کیا گیا، جس کا سیاسی امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ سیاسی امور کو ایک طرح کی بے دینی تصور کیا گیا۔ آج بھی ایسی شخصیات دیکھنے کو ملتی ہیں، جو سیاسی امور میں مداخلت کرنا خلاف ِ تقویٰ سمجھتی ہیں۔ کیا ستم ہے کہ مسجد کا محراب جسے حرب کی جگہ قرار دیا گیا، اُسی اسلام کے نام لیوا خود کو سیاسی امور میں مداخلت سے دور رکھیں۔ اس فکر نے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنے نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں پہنچایا۔ اسی وجہ سے سیاسی دین کی بصیرت عوام، علماء اور خواص میں پیدا ہی نہیں ہوئی، جس کے نتائج جہانِ اسلام کے لیے تباہ کن نکلے اور اُس کی ایک عملی تصویر سالوں سے جاری فلسطین کی آزادی کی کوششوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔

راہ خدا میں قیام کا نام دین ہے۔ قیام کرنے اور کروانے کو نہضت کہتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے امام خمینی کو جو صلاحیت دی تھی کہ جو قوم جمود کی حالت میں تھی، اُس کے اندر تحرک پیدا کیا اور اسی کام کو نہضت کہتے ہیں۔ نہض اٹھانے کو کہتے ہیں اور نہضت یعنی اٹھانا۔ کسی قوم کو مقصد کے حصول کے لیے قیام کرانے کو نہضت کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی بہت ساری آیات ہیں، جن میں طاغوتوں، ظالموں اور غاصبوں کے خلاف قیام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے امام خمینی فرمایا کرتے تھے کہ اسلام مذہبِ قیام ہے۔ قیام سے مراد کسی مقصد کے لیے نکلنا، اٹھنا اور تحرک اور حرکت کرنا ہے۔ جو شخص مسلمین کے امور سے لاتعلق رہتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ رسولِ خداﷺ کی معروف حدیث ہے کہ:*من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔"ایک اورحدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔"

مسئلہ قدس کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے، لہذا اسے جہان اسلام کے لیے ایک عالمی نہضت قرار دیا گیا، کیونکہ قدس امتِ مسلمہ کے لیے ایک دینی اور خالصتاً اسلامی موضوع ہے اور یوم القدس کا تعلق فقط آزدی فلسطین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ مسئلہ اہداف کے لحاظ سے پوری دنیائے اسلام کی حد تک وسیع ہے۔ یعنی شروع میں فلسطین، قدس اور مسجد اقصیٰ محرک ہیں، لیکن اس کا غایت و ہدف بہت وسیع ہے، یعنی یہ نہضت صرف فلسطین کو اسرائیل کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے تک محدود نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کو ہر اُس طاقت سے آزاد کرانے کے لیے ہے، جو اس پر غالب اور مسلط ہے۔ آج ہر اسلامی سرزمین بلآخر کسی نہ کسی طرح کسی بیرونی یا اندرونی شیطانی طاقت کے چنگل میں گرفتار ہے۔ اسی طرح عرب سرزمینیں جتنی بھی ہیں، یہ مغربی مہروں کے اختیار میں  ہیں اور ان سرزمینوں کو بھی آزاد کروانا ہے۔

کیسے ممکن ہے کہ قدس کا تذکرہ ہو شہید قدس اور مدافعین حرم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ آج جو ہم باآسانی "قدس قریب است" کے نعرے بلند ہوتے سن رہے ہیں، یہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور مدافعین حرم کے مرہون منت ہیں۔ جنرل سلیمانی نے فلسطین اور تحریک مزاحمت کو عروج تک پہنچایا، اس کو مقتدر اور طاقتور بنایا اور اپنے آپ کو فلسطین اور فلسطینی عوام کی خاطر قربان کر دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید کے جنازے پہ حاضر ہو کر کہا: *شہید سلیمانی شہید قدس ہیں؛ شہید قدس ہیں، شہید قدس ہیں* آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ قدس کی ریلی میں جانے سے کیا ہوگا۔؟ کیا ہمارے جانے سے  فلسطین آزاد ہو جائے گا؟ ایسے تمام لوگوں کے لیے مدافعانِ حرم شہید ساجد کی داستان قابل مطالعہ ہے، جو زینبیون کے سب سے کم عمر شہید تھے۔

شہید ساجد فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے، جب اُنہیں معلوم ہوا کہ نواسی رسول کو ایک بار پھر اسیر کر لیا گیا ہے، آپ اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے سیدہ زینب سلام علہیا کے حرم کی حفاظت پر گئے۔ آپ نے فقط حرمِ سیدہؑ کی حفاظت تک خود کو محدود نہ کیا بلکہ واپس آکر قدس کی ریلیوں میں شرکت کے لیے انتظامی امور میں بھی پیش پیش رہے۔ جب شہید کی والدہ نے شکوہ کرنا چاہا کہ آپ ابھی سوریا سے لوٹے ہیں، ریلی میں نہ جائیں تو بی بی زینبؑ کے اس حقیقی سپاہی نے کیا خوبصورت جملہ کہا کہ *فقط دفاع سوریا میں نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں مظلومین ہیں، چاہے وہ شام میں ہوں، فلسطین میں ہوں، یمن میں ہوں یا پاکستان میں، اُن سب کی حمایت اور اُن کا دفاع واجب ہے۔* مدافعین حرم کے اس کم عمر شہید کا جملہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، جو بلاوجہ کی عذر خواہی کرتے ہیں۔ مدافعین حرم اور شہید قدس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور آج وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کاش ہم اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔ اپنے ذاتی اختلافات کو مکتب پر قربان کر دیتے تو شاید بیت اول کی آزادی میں جاری سالوں کی یہ کوششیں جلد رنگ لے آتیں۔

عالمی یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے سلسلے میں ہندوستان ، پاکستان ، کشمیر ، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد کئے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق مجلس علماء ہند نے آن لائن احتجاجی پروگرام منعقد کیا ، پروگرام کے شرکاء نے فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے بعض اسلامی اور عرب  ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ادھر کشمیر کے مختلف شہروں میں بھی علماء اور دانشوروں نے یوم قدس کے موقع پر عوام  کولائن پروگرام  میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیل مظالم سے آگاہ کیا ۔ کشمیر کے ضلع کرگل میں عوام نے خود جوش ریلی نکالی اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی اور فلسطین کی فتح کے سلسلے میں دعا کی۔ ادھر پاکستان کے مختلف صوبوں اور  شہروں میں بھی عالمی یوم قدس کی مناسبت سے ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد کئے مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے پاکستان کے تمام شہروں میں پروگرام منعقد کئے گئے۔ لاہور ، اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں پاکستانی شہریوں نے فلسطینی عوام  کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادی عرب حکمرانوں کی گھناؤنی سازشوں کی بھر پور الفاظ میں مذمت کی۔  ادھر افغانستان، ترکی، شام، لبنان، فلسطین، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یوم قدس انسانی، مذہبی اور اخلاقی ہمدردی کے تحت منایا گيا۔

ایران کے روحانی پیشوا رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے آن لائن خطاب میں اسرائیل کے اضمحلال اور زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوگيا ہے جس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا۔

دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی اپنے حقوق کے حصول اور بیت المقدس کی آزادی  کے لئے جد وجہد میں مصروف ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

فلسطینیوں نے کبھی بھی اپنی سرزمین سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے وطن اور اپنے گھروں کی واپسی کے سلسلے میں بیشمار قربانیاں پیش کرچکے ہیں اور قربانیاں پیش کررہے ہیں، اور فلسطین کے موجودہ حالات اس بات کے گواہ ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی اتحاد، یکجہتی ، استقامت اور پائداری کی صورت میں اپنے اہداف تک پہنچ جائیں گے کیونکہ آج اسرائيلی حکومت داخلی بحران کا شکار ہے اور اسرائیل کی اندرونی سطح پر تباہی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران اسلامی مزاحمتی محور میں طاقتور ملک ہے جس نے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔

News Code 1906424

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے آن لائن خطاب میں اسرائیل کے اضمحلال اور زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوگيا ہے جس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا۔

فلسطین دنیائے اسلام کا اہم مسئلہ

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو دنیائے اسلام کا اہم مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی سامراجی طاقتوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کو اپنے وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر کرکے  ان کی جگہ غیر علاقائی صہیونیوں کو آباد کیا ۔

اسرائیل کا مقابلہ سب کا فریضہ ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: غاصب صہیونی حکومت کا مقابلہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمہ د اری ہے کہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کریں۔

امت مسلمہ میں تفرقہ ، ضعف اور اختلاف فلسطین کے غصب کا اصلی سبب

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: غاصب صہیونی حکومت کی 1948 میں  تاسیس کی گئی لیکن اسلام کے اس حساس علاقہ پر قبضہ کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گيا تھا۔ اس دوران مغربی ممالک کی اسلامی ممالک میں مداخلت نمایاں رہی اور انھوں نے اسلامی ممالک پر ایسے حکمرانوں کی حمایت کی، جو ان کے حامی اور تربیت یافتہ تھے۔ مغربی ممالک نے ایران ، ترکی، عرب ممالک ، مغربی ایشیاء سے لیکر شمال افریقہ تک اپنے عمال کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ، جس سے یہ تلخ حقیقت نمایاں ہوجاتی ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے فلسطین کا المیہ رونما ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیائے اسلام کے پیکر پر کاری ضرب وارد کی۔

مسلم ممالک میں فلسطین کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی پر تاکید

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک پر زوردیا کہ وہ فلسطین کی بنیاد پر آپسی اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط بنائیں اور اپنے آّپ کو سامراجی طاقتوں سے مستقل رکھنے اور امت اسلامی کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو مضبوط بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ مسلم ممالک کے اتحاد سے امریکہ اور مغربی ممالک خائف ہیں اگر مسلم ممالک متحدہ ہوجائیں اور فلسطین کی آزادی کو اپنا نصب العین بنالیں تو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

مسئلہ فلسطین میں دو فیصلہ کن عوامل

رہبر معظم نے دو عوامل کو مستقبل کے لئے فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: پہلا اور اہم عامل یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں استقامت اور پائداری کا سلسلہ پوری قوت اور قدرت کے ساتھ جاری رہنا چاہیے اور دوسرا عامل یہ ہے کہ تمام مسلمان اورمسلم ممالک فلسطینی مجاہدین  کی بھر پور حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ خیانت اور غداری کو ناقابل معاف جرم قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی خائن اور غداروں کو کبھی معاف نہیں کرےگا۔

لبنانی اور فلسطینی شہیدوں کو خراج تحسین

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عربی زبان میں اپنے بیان میں لبنانی اور فلسطینی شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی مزاحمت کے شہیدوں کے خون کی برکت سے آج پرچم فلسطین پوری دنیا میں لہرا رہا ہے اور ایران سمیت دنیا بھر کے مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم فلسطین کی مکمل آزادی تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں فلسطین صرف فلسطینیوں سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم اسلام سے ہے اور اسلامی ممالک کو فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں فلسطین کے مظلوم عوام کی فتح پر یقین ہے اور اللہ تعالی فلسطینیوں کو کامیابی اور فتح نصیب کرےگا۔