
سلیمانی
امریکی صدر کے منہ سے باعظمت ایران کے سرینڈر ہونے کی بات، چھوٹا منہ بڑی بات ہے، صیہونی حکومت ایران کی ضرب سے کچل دی گئي
ایران کی عزیز اور عظیم قوم پر بے شمار درود و سلام ہو۔ سب سے پہلے میں حالیہ واقعات کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شہید کمانڈرز، شہید سائنسداں جو حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ کے لیے گرانقدر تھے اور انھوں نے بڑی خدمات سر انجام دیں اور آج پروردگار عالم کے یہاں اپنی نمایاں خدمات کا صلہ حاصل کر رہے ہیں، ان شاء اللہ۔
میں ایران کی عظیم قوم کو مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں قوم کو کئی ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں:
پہلی، جعلی صیہونی حکومت پر فتح کی مبارکباد ہے۔ اتنے زیادہ شور ہنگامے، اتنے زیادہ دعووں کے باوجود صیہونی حکومت، اسلامی جمہوریہ کی ضرب سے تقریباً زمیں بوس ہو گئي اور اور کچل دی گئي۔ ان کے تصور میں اور ان کے ذہن میں کبھی یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ممکن ہے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے اس حکومت کو ایسی ضرب پڑے، لیکن ایسا ہوا۔
ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہماری مسلح فورسز کی مدد کی اور وہ صیہونیوں کے پیشرفتہ ڈیفنس کے کئی لیئرز کو عبور کر گئیں اور انھوں نے ان کے بہت سے شہری اور فوجی علاقوں کو اپنے میزائيلوں کے ذریعے اور اپنے پیشرفتہ ہتھیاروں کے مضبوط حملے سے مٹی میں ملا دیا۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف جارحیت کی اسے قیمت چکانی پڑے گي، قیمت ادا کرنی پڑے گی، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگي اور بحمد اللہ یہ کام بھی ہوا۔ اس کا افتخار مسلح فورسز اور ہمارے عزیز عوام سے متعلق ہے جنھوں نے اپنے درمیان سے ان مسلح فورسز کو پیدا کیا، ان کی پرورش کی، ان کی حمایت کی اور اس طرح کے ایک بڑے کام کے لیے ان کے بازو مضبوط کیے۔
دوسری مبارکباد، امریکی حکومت پر ہمارے عزیز ایران کی فتح سے متعلق ہے۔ امریکی حکومت، جنگ میں، براہ راست جنگ میں شامل ہو گئی کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ جنگ میں شامل نہ ہوئی تو صیہونی حکومت پوری طرح سے نابود ہو جائے گي۔ وہ جنگ میں اس لیے شامل ہوئی کہ اسے نجات دے لیکن اسے اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ہمارے ایٹمی مراکز پر حملہ کیا، جو علیحدہ طور پر کسی عالمی عدالت میں قانونی مقدمے کے لائق ہے لیکن وہ کوئي اہم کام نہیں کر سکے۔ امریکی صدر نے جو کچھ ہوا تھا، اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ جو بھی ان باتوں کو سنتا وہ سمجھ جاتا کہ ان ظاہری باتوں کے پیچھے ایک الگ حقیقت پائي جاتی ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکے، جو ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے، اسے حاصل نہیں کر سکے۔ اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپائيں اور اسے پوشیدہ رکھیں۔ یہاں بھی اسلامی جمہوریہ فتحیاب ہوئی اور اسلامی جمہوریہ نے جواب میں امریکا کے رخسار پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ اس نے خطے میں امریکا کے ایک اہم اڈے، العدید بیس پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اُس مسئلے میں جن لوگوں نے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، انھوں نے اِس مسئلے میں بات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوشش کی، یہ کہا کہ کچھ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ مستقبل میں بھی یہ واقعہ دوہرایا جا سکتا ہے، اگر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو دشمن کو بھاری قیمت، جارح کو یقینی طور پر بہت بھاری قیمت چکانی ہوگی۔
تیسری مبارکباد ایرانی قوم کے غیر معمولی اتحاد اور اتفاق رائے کی ہے۔ بحمد اللہ قریب نو کروڑ کی آبادی والی ایک قوم، متحدہ طور پر، ایک آواز ہو کر، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، مطالبات اور اہداف میں بغیر کسی اختلاف کے ڈٹ گئی، نعرے لگائے، بیان دئے، مسلح فورسز کی کارروائيوں کی حمایت کی، آئیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
ایرانی قوم نے اس مسئلے میں اپنی عظمت کو، اپنی نمایاں اور ممتاز شخصیت کو دکھا دیا اور بتا دیا کہ ضروری موقع پر اس قوم سے ایک ہی آواز سنائی دے گي اور بحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔
میں اپنے معروضات میں ایک بنیادی نکتے کے طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ایرانی قوم کو سر جھکانا ہوگا، سرینڈر کرنا ہوگا، اب یورینیم کی افزودگي کی بات نہیں ہے، ایٹمی صنعت کی بات نہیں ہے، بات ایران کے سرینڈر ہونے کی ہے۔ امریکی صدر کی یہ بات، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہے۔ اتنی عظمت والے ایران، تاریخ رکھنے والے ایران، ثقافت رکھنے والے ایران، ایسا فولادی قومی عزم رکھنے والے ایران اور ایسے ملک کے لیے سرینڈر ہونے کی بات ان لوگوں کی نظر میں مضحکہ خیز ہے جو ایرانی قوم کو پہچانتے ہیں لیکن ان کی اس بات نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ امریکی، انقلاب کی ابتداء سے ایران اسلامی سے جنگ کر رہے ہیں، متصادم ہیں۔ وہ ہر بار کوئي نہ کوئي بہانہ لے آتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق ہے، کبھی جمہوریت کا دفاع ہے، کبھی خواتین کے حقوق کی بات ہے، کبھی یورینیم کی افزودگي ہے، کبھی ایٹمی مسئلے کی ہی بات ہے، کبھی میزائیل بنانے کا مسئلہ ہے، وہ مختلف بہانے پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں صرف ایک ہی بات ہے اور وہ ہے ایران کا سر جھکا دینا، سرینڈر ہو جانا۔ پہلے والے یہ بات نہیں کہتے تھے کیونکہ یہ قابل قبول نہیں، کسی بھی انسانی منطق میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ایک قوم سے کہا جائے کہ وہ سرینڈر کر دے۔ لہذا وہ اسے دوسرے ناموں کے پیچھے چھپا دیا کرتے تھے۔ اس شخص نے اسے برملا کر دیا، اس حقیقت کو عیاں کر دیا، اس نے سمجھا دیا کہ امریکی صرف ایران کے سرینڈر ہونے پر ہی راضی ہوں گے، اس سے کم پر نہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایرانی قوم جان لے کہ امریکا سے ٹکراؤ اسی بات پر ہے۔ امریکی، ایرانی قوم کی اتنی بڑی توہین کر رہے ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے، ایران ایک مضبوط اور وسیع و عریض ملک ہے، ایران قدیم تمدن کا مالک ہے، ہمارا ثقافتی اور تمدنی سرمایہ، امریکا اور امریکا جیسوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ کوئي ایران سے یہ توقع رکھے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، یہ پوری طرح سے بکواس اور ہرزہ سرائی ہے جس کا یقینی طور پر عقلمند اور دانا افراد مذاق اڑائيں گے۔ ایرانی قوم، صاحب وقار ہے اور صاحب وقار رہے گی۔ وہ فاتح ہے اور اللہ کی توفیق سے فاتح ہی رہے گي۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اپنے لطف و کرم سے اس قوم کو ہمیشہ باعزت اور باشرف رکھے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درجات بلند کرے، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کو اس قوم سے راضی و خوشنود رکھے اور ان کی مدد، اس قوم کی پشت پناہ رہے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
دربار حسیؑن میں ایک حاضری، جس نے سارے محاذوں پر سکتہ طاری کر دیا
اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف صیہونی اور امریکی جارحیت کے دوران نفسیاتی جنگ اور موساد سے وابستہ روایتی اور جدید نشریاتی و اشاعتی ذرائع ابلاغ، انقلاب اسلامی کا چراغ خاموش دکھانے کی سعی میں رہبریت کا خلا ظاہر کرنے اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی سلامتی اور حضور کے بارے میں افواہیں پھیلانے کی پوری کوشش کر رہے تھے، اس دوران دس محرم کی رات کو مجلس امام حسین علیہ السلام میں رہبر انقلاب کی حاضری کی ایک ویڈیو نے دشمن کے تمام حربے ناکام بنا دیئے، جیسے صہیونیوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہوں۔
امام عالی مقام، امام حسین علیہ السلام کے دربار میں ایک حاضری نے دشمن کے تمام تر پروپیگنڈا کو تہس نہس کر دیا۔ رہبر معظم انقلاب تحسین انگیز، پرسکون اور بے مثال وقار کے ساتھ، شب عاشور کو حسینیہ امام خمینی تہران میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور نہ ہی کوئی تردید جاری کی، لیکن مجلس امام حسیؑن میں ان کی حاضری، تمام جھوٹی افواہوں کا فصیح و بلیغ جواب تھا۔ وہ لوگ جو پے در پے مواد تیار کر کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرکے رہبریت کی عدم موجودگی کا جواز بنانا چاہتے تھے، اب صرف ایک تصویر، ایک قدم اور ایک فاتحانہ حاضری سے رسوا ہو چکے ہیں۔
میڈیا کے اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ تصویروں کے دور میں، لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کا ان کے ذہنوں پر کسی بھی تجزیئے یا تقریر سے زیادہ اثر پڑتا ہے، دشمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ "جعلی تصاویر،" "بصری افواہوں،" اور "قیادت و رہبری کی عدم موجودگی" کا یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ایک نفسیاتی حربے کے طور پر عام افراد کو قیادت کی عدم موجودگی یا دوری کا احساس دلایا جائے۔ لیکن اس بار ایک حقیقی ویڈیو نے بغیر کسی ہنگامے کے، ان تمام منصوبوں کو بے اثر کر دیا۔
غیر ملکی خدمات کے لئے جاری انٹیلی جنس پراجیکٹس میں براہ راست کردار ادا کرنے والے "مملکتہ" اور "وحید آن لائن" جیسے میڈیا آؤٹ لیٹس نے جعلی اور خودساختہ انداز میں اپنی تمام تر توجہ قیادت کی حیثیت کو کم کر کے دکھانے پر مرکوز کر رکھی تھی۔ لیکن حقیقت کہیں چھپ نہیں سکتی، رہبر انقلاب ایک سچائی کے طور پر حسینیہ امام خمینی میں داخل ہوئے۔ رہبر معظم انقلاب اپنے معمول کے مطابق سکون کے ساتھ، لیکن انتہائی حساس لمحے میں وارد میدان ہوئے۔ یہ صرف ایک افواہ کا جواب نہیں تھا، یہ پوری قوت و اقتدار کی رونمائی تھی۔
یہ ا؎ایک ایسا پیغام تھا جس نے ظاہر کیا کہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ میں کہیں کوئی خلا ایجاد نہیں ہوا، بلکہ طاقت کے ستون پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں، یہ موجودگی امن و سلامتی کا پیغام بھی تھا۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا کے کونے کونے میں مجلس، ماتم، جلوس ہائے عزا میں لبیک یا حسیؑن اور یاحسیؑن یاحسیؑن پکارنے والوں کو یقین ہو گیا کہ اب دشمن جنگ کے ہر میدان میں شکست کھا چکا ہے، سب کی توجہ پردہ غیبیت میں موجود فرزند زہراؑ سلام اللہ علیھا کی جانب گئی اور ظہور ایک قدم نزدیک محسوس ہونے لگا۔
70 فیصد ورکرز اسرائیل کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟
حال ہی میں کیے گئے اس سروے کے نتائج کے مطابق تقریباً 73 فیصد اسرائیلی کارکن بیرون ملک ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں، یہ معاملہ اسرائیلی معاشرے میں بڑھتے ہوئے خدشات، عدم استحکام اور صیہونی رجیم پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیلی ایمپلائمنٹ پلیٹ فارم فرسٹ جابز کے ذریعے ہونیوالے سروے کی رپورٹ میں ایود احرونوت اخبار کی طرف سے شائع کیے جانے والے گزشتہ سال کے سروے کے مقابلے میں ہجرت کی خواہش میں 18 فیصد کا نمایاں اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ پانچ سالوں میں پہلی بار 70 فیصد سے زیادہ اسرائیلی کارکنوں نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور پر بھی اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تشویش اور ہجرت کی وجوہات
ملک چھوڑنے کے حوالے سے اگرچہ روایتی محرکات جیسے کہ زندگی کے معیار کو بہتر بنانا (59%)، بین الاقوامی تجربہ حاصل کرنا (48%) اور کیریئر میں ترقی (38%) اب بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان وجوہات میں نئے اور پریشان کن عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔ سروے میں تقریباً 30% شرکاء نے ذاتی تحفظ سے متعلق خدشات کی بات کی، 24% نے سیاسی عدم استحکام کا حوالہ دیا اور 24% نے "حکومت سے مایوسی" کو اس کی وجہ قرار دیا ہے۔ وی پی آف کریئر ڈیولپمنٹ اینڈ ریکروٹمنٹ فرسٹ جابز کے لیئٹ بین ٹورا شوشن کہتے ہیں کہ "ہم ہجرت کے بارے میں ملازمین کے رویوں میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں؛ یہ اب صرف ایک اسٹریٹجک پیشہ ورانہ فیصلہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا فیصلہ جو جذبات، سلامتی اور معاشی خدشات سے زیادہ کارفرما ہے"۔
نئے ٹھکانے
امریکہ اسرائیلی تارکین وطن کے لیے سب سے زیادہ مقبول مقام ہے، جہاں 44 فیصد شرکاء نے امریکہ کا انتخاب کیا وہاں نیویارک شہر 17 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول ہے، اس کے بعد 11 فیصد کے ساتھ لاس اینجلس اور 8 فیصد کے ساتھ میامی ہے۔ جبکہ یورپ کا حصہ صرف 26 فیصد ہے، یہ تعداد پچھلے سالوں سے کم ہے، ممکنہ وجوہات میں "یہود دشمنی" اور یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات ہیں۔ کچھ جواب دہندگان نے قریب ترین مقامات جیسے یونان اور قبرص (11 فیصد) میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ (6 فیصد)، مشرقی ایشیا (8 فیصد) اور افریقہ (1 فیصد) کم مقبول تھے۔
خدشات اور چیلنجز
اگرچہ امیگریشن ایک پرکشش آپشن لگتا ہے، لیکن بہت سے اسرائیلی اس کے ساتھ جڑے چیلنجوں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ 56 فیصد جواب دہندگان نے اعتراف کیا ہے کہ امیگریشن کا عمل، اس کی کشش کے باوجود، آسان نہیں ہے، پہلے کی نسبت اس بار سروے میں خدشات کا اظہار زیادہ کیا گیا ہے۔ یہ سروے پورے اسرائیل سے 22 سال سے زیادہ عمر کے 611 اسرائیلی کارکنوں کو شامل کر کے کیا گیا۔ یہ تشویشناک اعدادوشمار صیہونی معاشرے کی نازک صورتحال اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ طویل المدتی جنگ، علاقائی کشیدگی، خاص طور پر ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی مزاحمت نے نہ صرف صیہونی رجیم کے سیاسی اور سلامتی کے ماحول کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ اسرائیلی معیشت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، یہ صورتحال ایران، یمن، لبنان اور فلسطینی گروہوں کی طاقت اور مزاحمت کو ظاہر کرتی ہے، صیہونی رجیم کے زیر سایہ معاشرے کی ناپائیداری اس کا ثبوت ہے۔
دوبارہ جارحیت کی صورت میں انتہائی سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ صدر ایران
صدر ایران نے بدھ کی رات یورپی کونسل کے صدر ایٹونیوکوسٹا سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے تازہ ترین بین الاقوامی معاملات بالخصوص ایران کے خلاف 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے بعد کی صورتحال نیز تہران اور یورپی یونین کے درمیان تعاون کے امکان کا جائزہ لیا۔
صدر پزشکیان نے دنیا کے ساتھ تعمیری تعاون اور مذاکرات کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بھی تہران علاقائی اور بین الاقوامی امن، استحکام اور سلامتی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کو عالمی امن و سلامتی کے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ صیہونی حکومت اور امریکہ نے ایران کو اس وقت جارحیت کا نشانہ بنایا ہم مذاکرات کر رہے تھے۔
صدر کا کہنا تھا جب امریکہ اور اسرائيل کو ایران کی جانب سے فیصلہ کن جواب کا سامنا کرنا پڑا تو وہ امن اور جنگ بندی کی دھائي دینے لگے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کی اجازت کے بغیر اسرائيل ایران پر جارحیت نہیں کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ایران اور آئي اے ای اے کے درمیان تاریخی تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے تعاون کا انحصار ایران کے تنئيں اس عالمی ادارے کے رویئے میں تبدیلی پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئي اے ای اے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں رپورٹوں کی تیاری میں غیر جانبداری کے اصولوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے۔
صدر نے کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر کھلی جارحیت کا نوٹس نہ لینا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہنا ایسی مثالیں ہیں جن کے نتیجے میں آئی اے ای اے کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچا ہے اور ایرانی پارلیمنٹ کو عالمی ادارے کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا بل پاس کرنا پڑا۔
ایران کے صدر نے واضح کیا کہ آئی اے ای اے جیسے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے متوازن حمایت اور رکنیت کے فوائد سے مستفید ہونا ان اداروں میں شمولیت کی بنیادی وجہ ہے بصورت دیگر، ان اداروں کا رکن ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے اس موقع پر موجودہ مسائل کے حل کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے یورپی یونین کی خواہش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ بین الاقوامی اداروں کو کسی بھی دوہرے معیار سے گریز کرنا چاہیے۔
ایٹونیو کوسٹا نے مزید کہا کہ یورپی یونین ایرانی قوم کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا گہرا احترام کرتی ہے اور بات چیت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
عالمی برادری غزہ میں نسل کشی کا بس نظارہ دیکھنے میں مصروف ہے/ صیہونیوں کو ایلات بندرگاہ کو بحال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے: انصاراللہ یمن کے سربراہ
انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے عالمی برادری پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا، بس فلسطین میں نسل کشی کا منظر دیکھنے میں مصروف ہے۔
اپنے تازہ خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس ہفتے دنیا کی نظروں کے سامنے قاتل صیہونی حکومت نے متعدد وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل، تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے شرمناک تنزلی اور ضمیروں کی اجتماعی موت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
لاکھوں بچے ایک ٹکڑا روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور دودھ پینا ان کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔
سید عبدالملک بدرالدین حوثی نے کہا کہ غاصب صیہونیوں نے حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو ایسے حال میں قتل کیا کہ وہ بھوکے تھے اور یہ دنیا ایسی حالت میں ترقی یافتہ ہونے کے دعوے کر رہی ہے کہ لاکھوں بچے ایک ٹکڑا روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور دودھ پینا ان کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔
انصاراللہ کے رہبر نے زور دیکر کہا کہ اسرائیلی دشمن فلسطینیوں کو جبری طور پر کوچ کرانے کے لیے انہیں ابتدائی ترین وسائل سے محروم کیے ہوئے ہے اور عینی شاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق، بھوک کے ذریعے بھی فلسطینیوں کا قتل ہو رہا ہے اور اشیائے خورد و نوش کے مراکز پر انہیں نشانہ بناکر بھی ان کی جان لی جا رہی ہے۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ صیہونی حکومت غزہ کو 9 حصوں میں بانٹ کر اپنے کرائے کے فوجی وہاں تعینات کرنا چاہتی ہے لیکن خدا کی مدد سے ان کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا۔
صیہونیوں نے سب سے زیادہ مسلم امہ کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا بہت ہی بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجاہد غزہ میں مزاحمت جاری رکھتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو بے اثر کر رہے ہیں جبکہ گزشتہ 21 مہینے سے امریکہ کی مکمل حمایت کے ساتھ غزہ کا شدید محاصرہ کیا گیا ہے۔
انصاراللہ کے سربراہ نے کہا کہ دشمن کی کمزوریاں بہت زیادہ اور اہم ہیں لیکن صیہونیوں نے سب سے زیادہ مسلم امہ کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا بہت ہی بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دشمن اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا جو ان کی نفسیاتی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اگر امریکہ اور مغربی دنیا کی حمایت اور مسلمانوں کی لاپرواہی نہ ہوتی تو صیہونی حکومت فلسطین، لبنان اور ایران پر جارحیت نہ کرپاتی۔
ایلات بندرگاہ پر صیہونیوں کو سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی: سید عبدالملک الحوثی
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ سرزمینوں کو 45 ہائیپرسونک میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا گیا اور بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت سے وابستہ یا اسرائیل کی بندرگاہوں کی جانب جانے والے جہازوں کو ڈرون بوٹس کے ذریعے نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے اعلان کیا کہ بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحیرہ عرب میں غاصب صیہونی حکومت کی بحری نقل و حمل اور تجارت پر پابندی بدستور برقرار ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی حکومت ام الرشراش (ایلات) بندرگاہ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم یمن کا اس سلسلے میں موقف واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بندرگاہ کی سرگرمیوں کو بحال ہونے نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے انتباہ دیا کہ گزشتہ دنوں کے واقعات تمام شپنگ کمپنیوں کے لیے ایک کھلا پیغام ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون پر پابندی ہے اور ہر اس جہاز کو نشانہ بنایا جائے گا جو اس پابندی کی خلاف ورزی کرے۔
ہم ہمیشہ مظلوموں کیساتھ ہیں چاہے وہ بوسنیا میں ہوں یا فلسطین میں، سید عباس عراقچی
سلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی"نے آج جمعرات کو سریبرینیکا میں ہونے والی نسل کشی کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ اگر دنیا نے واقعی سریبرینیکا کے سانحے سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم غزہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک اور نسل کشی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے 11 جولائی کو Srebrenica میں ہونے والی نسل کشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ دن ان لوگوں کے لیے شرم کی بات ہے جنہوں نے یا تو اس وحشیانہ جرم میں حصہ لیا یا پھر خاموشی اختیار کر کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کا راستہ ہموار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس دردناک سانحے کی 30ویں سالگرہ پر، اسلامی جمہوریہ ایران اس نسل کشی کے بے گناہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جب کہ زندہ بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں سید عباس عراقچی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک ٹویٹ پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا نے واقعی Srebrenica کے المیے سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم مسلمانوں کے خلاف غزہ میں ایک اور نسل کشی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہے گا، خواہ وہ بوسنیا میں ہوں یا ہرزیگووینا میں یا فلسطین میں۔
قیام کربلا، درس حریت
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
تحریک پاکستان کے رہنماء، معروف شاعر اور صحافی مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا:
قتل حسین ؑاصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
روزنامہ ہمدرد کے ایڈیٹر مولانا محمد علی جوہر نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ جب اسلام پر مشکل وقت آجائے اور مسند اقتدار پر بیٹھے افراد اپنی مرضی کرنے لگیں، لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے، حق کی حمایت میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہ ہو تو قربانی دینا واجب ہو جاتا ہے، تاکہ لوگ دین مبین کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ معاشرے میں ایک گروہ واقعہ کربلا میں یزید کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جبکہ اسلام کے ماننے والوں کی غالب اکثریت کربلا کے شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کربلا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو کربلا کو برپا کرتے رہنا ہوگا، یعنی قربانی دیتے رہنا ہوگی۔ تاریخ انسانیت میں کربلا جیسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ امام حسین علیہ السلام نے کمال انتظامات کیساتھ یزید کیخلاف قیام کیا اور کربلا میں وارد ہوئے، جس میں ہر صنف انسانیت کا کوئی نہ کوئی کردار موجود ہے۔
چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغرؑ سے لیکر 80 سال کے ضعیف حبیب ابن مظاہرؓ جیسے انسان بھی کربلا میں مردوں کی نمائندگی کرتے اور شہادت کا درجہ پاتے نظر آتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے رشتوں کے حوالے سے بہن، بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور سیاہ فام جون جیسے غلام سے لیکر حرؓ جیسے کمانڈر بھی واقعہ کربلا میں قربان ہوگئے۔ آج دنیا کے اندر کہیں بھی آزادی کیلئے کوئی سماجی یا مذہبی تحریک ہو یا آمریت کیخلاف سیاسی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس کے لیڈر تحریک کربلا سے متاثر ہو کر یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی طرح جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے وہ کربلا کے شہداء کی اقتداء میں جان دینے کو بھی تیار ہیں۔
تصور کریں کہ عاشورہ محرم 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کا کوئی ساتھی نظر نہیں آتا تھا، سب یزید کیساتھ کھڑے تھے، جبکہ اب صدیوں کا عرصہ گزر چکا ہے، آج کربلا کی یاد منانے اور اسے زندہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی یزید کے ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آتا، وہ جو یزید کیلئے کوئی تھوڑا بہت نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں، وہ بھی اس کے عمل کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے حق میں مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ کربلا نے انسان کو اتنا بیدار کیا ہے کہ حسینیت کا پیروکار ہونے کیلئے مسلمان نہیں، انسان ہونا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام صرف مسلمانوں ہی کیلئے نہیں، غیر مسلموں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں، وہ محسن انسانیت ہیں۔ ہر انصاف پسند اور غیرت مند انسان امام عالی مقام کی مظلومیت اور قربانی سے متاثر ہے۔ تکریم انسانیت اور آزادی کی جو بھی تحریکیں چلتی ہیں یا کہیں بنی نوع انسان کے شعور اور انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے، مذہب و دین کے حوالے سے تشنہ فکر افراد کی رہنمائی صرف کربلا ہی سے ہوتی ہے۔
چھٹے تاجدار امامت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ”ہر دن عاشور ہے اور ہر زمین کربلا ہے۔ ان کے جد بزرگوار امام حسین ؑنے جس انداز سے قربانی دی، وہ آج بھی آزادی کی تحریک چلانے والے گروہوں، جماعتوں اور اقوام کو کربلا سے منسلک کرتی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فکر کربلا سے حاصل کی ہے۔ کرہ ارض پر نظر دوڑائیں کہ آج کے دور میں جتنی بھی تحریکیں دنیا میں چل رہی ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جب امام حسینؑ مکہ سے کوفہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے اس لمبے سفر میں جہاں امام رُکے تو بہت سے قبائل نے آپ کیساتھ ملاقاتیں کیں، مگرآپ نے کسی سے نہیں کہا کہ ٓاپ میرے ہمسفر بنیں، آپ کو اقتدار میں آکر فلاں عہدہ دوں گا، بلکہ وہ واشگاف الفاظ میں کہتے تھے کہ مجھے دین محمدی (ص) کو بچانا ہے اور یہ بھی کہا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور یہ درس پوری دنیا کیلئے ہے، یعنی بندگان خدا حق کی حفاظت کیلئے باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
امام عالی مقام کربلا کی طرف سفر کے دوران بار بار اعلان کرتے رہے اور ساتھیوں کو حالات سے آگاہی دیتے رہے کہ یزیدی فوج کے ہاتھوں ہماری شہادت یقینی ہے، جو واپس جانا چاہے، چلا جائے۔ شب عاشور تو آپ نے اپنے اصحاب باوفا کو اکٹھا کرکے پھر حالات سے آگاہی دی اور چراغ بجھا دیا اور کہا کل ہم شہید ہو جائیں گے، جو جانا چاہتا ہے، چلا جائے، مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا، مگر حیرت ہے کہ امام کے جانثاروں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ حتیٰ کہ مسلم ابن عوسجہ کا جواب تاریخی تھا ”اے امام! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ 70 مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا“ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے قربانی کی ایسی شاندار مثال پیش کی کہ دنیا یاد کرتی ہے۔
آج حماس کی مزاحمتی تحریک کو دیکھ لیں، جس کے نوجوان امام حسین علیہ السلام کی راہ کو اپناتے ہوئے شہادت قبول کر رہے ہیں، مگر اسرائیل کی بالادستی اور اس کا قبضہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بار بار واضح کر رہے ہیں کہ وہ ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ وہ آج کے یزید اور شمر کیخلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ اسی طرح لبنانی فلسطینی یمنی اور عراقی مزاحمتی تحریکیں مکمل طور پر امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا پیغام انسانیت کے ہر طبقے کیلئے ہے۔ مختلف مکاتب فکر اور مذاہب خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، نواسہ رسول سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے لوگ بھی امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتے اور ان سے درس حریت لیتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ جو کربلا سے رہنمائی لیکر جدوجہد کرتا ہے، وہ فکر حسینؑ سے دور نہیں، بلکہ منسلک ہے۔ حماس اور حزب اللہ لبنان کی شہید قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح عصر حاضر میں فکر حسینیؑ کے قافلہ سالار ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ یزید وقت نے انہیں قتل کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کے دعوے کئے مگر ناکام رہے۔
صہیونی کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تین اہم کامیابیاں
12 روزہ جنگ اور ایران کی سرزمین پر طفل کُش صہیونی ریاست کی دہشت گردانہ جارحیت، اگرچہ ایک دشمنانہ اور بے مثال اقدام تھا، لیکن اس تصادم میں ایران کے ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائلوں کے فیصلہ کن جواب نے اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی آمادگی، عسکری طاقت اور معلوماتی بالادستی کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے اہم کامیابیاں حاصل کیں۔
داخلی اور خارجی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران نہ صرف میدان جنگ میں فاتح رہا بلکہ اس نے بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
حسن بشتی پور، سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ماہر نے فارس نیوز ایجنسی کے سیاسی نامہ نگار سے گفتگو میں اس جنگ میں ایران کی تین اہم کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ کامیابیاں قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور دفاعی و تسدیدی صلاحیتوں (Deterrence) کے شعبوں میں گہری تبدیلیوں کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
دشمن کی دراندازی کی گہرائیوں کی شناخت اور ملکی سلامتی کے ڈھانچے میں خنوں کا مقابلہ
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس جنگ میں ایران کی پہلی اور شاید سب سے اہم حکمت عملی کامیابی دشمن کی سلامتی کے ڈھانچوں میں نفوذ کی گہرائی اور پیمانے کی شناخت تھی۔
ایران اس جنگ کے دوران اور اس سے پہلے اور بعد کے واقعات میں صہیونیت سے وابستہ عناصر کی دراندازی کے نیٹ ورک کا ایک حصہ دریافت اور ختم کرنے میں کامیاب رہا۔
یہ کامیابی محض ایک معلوماتی (اور انٹیلی جنس کے شعبے کی) کامیابی نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر سلامتی کا از سر نو جائزہ لینے کے ایک نئے دور کی راہ کھولتی ہے۔ 12 روزہ جنگ میں ایران ان دراندازیوں کی شناخت کے بعد اب سائبر دفاع، کے جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے حفظ ما تقدم کے کے طور پر خطروں کا ہوشیارانہ مقابلہ کر سکتا ہے کیونکہ 12 روزہ جنگ کے تجربے نے ظاہر کیا کہ دشمن عسکری جنگ کے بجائے معلوماتی رخنوں کے ذریعے ملک کے اندرونی عزم اور طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس بار بھی یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔
جارحانہ طاقت کا مظاہرہ
ماہرین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی دوسری بڑی کامیابی عسکری اور تزویراتی پہلوؤں سے متعلق ہے۔ ایران نے اس جنگ میں مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے درست نشانہ بنانے والے میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جارحانہ طاقت کا مظاہرہ کیا اور دشمن کو یہ پیغام دیا کہ مقبوضہ علاقوں کا کوئی بھی نقطہ اس کے لئے محفوظ نہیں رہے گا۔
اس جنگ نے ایران کی دفاعی کمزوریوں کی شناخت میں بھی مدد کی جن کے ازالے کے لئے منصوبہ بندی یقیناً شروع ہو چکی ہے۔
قومی بیداری کا استحکام اور مغرب کی حقیقی فطرت کا ادراک
ایک اور کامیابی جنگ کے میدان میں نہیں بلکہ ایرانی قوم کی رائے عامہ اور سیاسی بیداری کے میدان میں حاصل ہوئی۔ اس جنگ اور اس پر بین الاقوامی ردعمل سے ظاہر ہؤا کہ ایران کے عوام مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھ چکے ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی جیسے افسانے جو مغرب کی مداخلت کو جواز دینے کے لئے پروپیگنڈے کے اوزار تھے، اس بار ایرانی رائے عامہ میں مکمل طور پر غیر معتبر ہو گئے۔
ایرانی عوام جان گئے ہیں کہ ان کے ملک کے قومی مفادات مغرب پر انحصار کرنے میں نہیں بلکہ خود انحصاری، اپنی ہی صلاحیتوں پر بھروسے، اندرونی اتحاد اور اپنی قومی طاقت پر اعتماد کرکے حاصل ہوتے ہیں۔ عوام نے اچھی طرح دیکھا کہ جوہری مسئلہ ـ مغرب کے دعوؤں کے مطابق ـ قیام امن کے لئے حقیقی فکرمندی نہیں بلکہ ۔ صرف دباؤ ڈالنے کا بہانہ ہے۔ یہ عوامی ادراک قومی تسدید کے ستونوں میں سے ایک ہے جس کی بنا پر ملک کے اندرونی عدم استحکام کا کوئی بھی منصوبہ بہت مہنگا پڑے گا۔
خلاصہ
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ 12 روزہ جنگ ایک عسکری تصادم سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یہ جنگ ایران کی معلوماتی صلاحیت، عسکری طاقت، قابل تلافی کمزوریوں کی شناخت اور عوام کی سیاسی بیداری کی نمائش تھی۔
جمهوری اسلامی ایران با شناسایی شبکههای نفوذ، آزمون ساختار پدافندی، و تثبیت رویکرد استقلالطلبانه در میان مردم، سه دستاورد مهم و راهبردی را بهدست آورد.
لہٰذ، اسلامی جمہوریہ ایران نے دراندازی کے نیٹ ورک کی شناخت، دفاعی ڈھانچہ آزمانے اور عوام میں خود مختارانہ رجحان کی تقویت کے ذریعے تین اہم اور تزویراتی کامیابیاں حاصل کیں۔
آخری بات یہ کہ، 12 روزہ جنگ نے نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پوزیشن کو مستحکم کیا بلکہ دشمنوں کو ایک واضح پیغام دیا اور وہ یہ کہ ایران نہ صرف حملے میں بلکہ خطرات کا ادراک کرکے انہیں مناسب مواقع میں بدلنے میں بھی باصلاحیت اور بالکل تیار ہے۔
زینبی طرزِ زندگی، عصرِ آخرالزمان میں مؤمن خواتین کی اہم ترین ضرورت ہے
جزیرہ قشم میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ علمیہ ریحانه الرسول (س) قشم کی مدیر محترمہ خدیجہ غلامی نے کہا: ایک مؤمن عورت کو زینبی مقام تک پہنچنے کے لیے ایمان کو محض علم کے درجے پر نہ رکھنا چاہیے بلکہ اسے عمل میں ڈھالنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: زینبی طرزِ زندگی، عصرِ آخرالزمان میں مؤمن خواتین کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا صرف ایک عالمہ نہ تھیں بلکہ عالمۂ عاملہ تھیں۔ جب آپ نے ابن زیاد اور یزید کے دربار میں استقامت دکھائی تو وہ آپ کے عمیق ایمان اور اللہ کی قدرت پر یقین کا نتیجہ تھا۔ ایسا ایمان صرف مطالعے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ تقویٰ، نفس کی تربیت اور مسلسل مجاہدہ سے پیدا ہوتا ہے۔
مدیر مدرسہ علمیہ قشم نے مزید کہا: الہی راہ کا پہلا قدم ایمان کی حفاظت ہے۔ ایمان ہوا میں جلتی شمع کی مانند ہے؛ اگر مؤمن عورت محتاط نہ ہو تو جنّ و انس کے شیطان مختلف راستوں سے آ کر اس کے صبر، حیاء اور پردے کو نشانہ بناتے ہیں۔ تقویٰ دل کا قفل اور دینداری کا محافظ ہے۔
محترمہ غلامی نے کہا: مسلمان عورت کو زیب و زینت یا لوگوں کی توجہ سے پہلے خدا کی نظر پر توجہ دینی چاہیے۔ اس طرزِ زندگی میں نگاہ، گفتگو، برتاؤ، میل جول اور حتیٰ کہ لباس بھی تقویٰ کے معیار پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے توکل کو زندگی کے طوفانوں میں سکون کی کنجی قرار دیتے ہوئے کہا: مؤمن عورت کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ رزق اور عزت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ "لا حول و لا قوۃ الا باللہ" پر ایمان، اسے لوگوں کی رائے، نگاہوں اور تعریف کے دباؤ سے آزاد کرتا ہے اور اسے عزت نفس اور شجاعت عطا کرتا ہے۔
امام زین العابدین (علیہ السلام) کی 34 سالہ امامت پر ایک نظر
امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام) کے یوم شہادت پر پورا عالم اسلام گہرے سوگ اور غم میں ڈوبا ہؤا ہے، یہ اس ہستی کی شہادت کا دن ہے جس نے واقعۂ کربلا کے بعد ظلم و ستم سے بھرے دور میں امامت کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی؛ اور ایک منفرد طریقے سے تاریکیوں میں ہدایت کا چراغ روشن رکھا۔
"چیخوں کے بیچ خاموشی" یہ جملہ ان کی 34 سالہ امامت کے معمے کو بخوبی بیان کرتا ہے؛ وہ دور جس میں حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے نئے ذرائع اور وسائل سے عاشورا کی تحریک کو زندہ رکھا، اور اسلام و تشیّع اور تشیع کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔
10 محرم (عاشورا) سنہ 61 ہجری کو کربلا کا میدان صرف قتل گاہ نہیں تھا، بلکہ بے انتہا مظلومیت کا منظر اور آنے والوں کے لئے ایک الٰہی آزمائش بن گیا۔
امام سجاد (علیہ السلام) اس روز اگرچہ بیماری کی حالت میں تھے اور اپنے والد کی فوج کے ساتھ شامل ہونے سے قاصر تھے، لیکن آپ نے حقیقت کی بیدار آنکھیں تمام واقعات پر کھول دیں۔
آپ اس سانحے کے گواہ تھے، اپنے والد کے بے سر جسم سے لے کر خیموں میں یزیدیوں کی لگائی ہوئی آگ اور پھوپھی زینب کے آنسوؤں اور اسیری کے راستے میں بکھرے ہوئے کانٹوں تک۔
اس گہرے تجربے نے آپ کی روح کو جلا بخشی اور انہیں امامت کی بھاری ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار کیا۔ چنانچہ عاشورا کے بعد امامت آپ کے سپرد ہوئی؛ جبکہ یزیدیوں نے کربلا میں موجود تمام ہاشمی مردوں کو شہید کر دیا تھا اور آپ واحد ہاشمی مرد تھے جو بقید حیات تھے۔ یزیدی لشکر آپ کی گردن میں زنجیر ڈال کر اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام لے گیا۔
یہ دور، ظاہری طور پر سرکاری جبر اور اہل حق کی مظلومیت کے عروج کا دور تھا لیکن ساتھ ہی یہ حق و عدل کے لئے آواز بلند کرنے کا نقطۂ آغاز بھی تھا اور اسی نقطے پر ہی آپ کی آواز تاریخ کی بلندیوں پر گونج اٹھی۔ دربار یزید میں آپ کے زبردست خطاب نے تحریک حسینی کو ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کر دیا۔ اور حَق طَلَبی کی روح کو دلوں میں زندہ رکھا۔ آپ نے بے مثال ہمت اور فصاحت کے ساتھ اپنا تعارف کرایا، اور یزید کو ـ جو طاقت اور غرور کے نشے سے سرشار تھا ـ رسوا کر دیا۔
یہ ایک مظلومانہ امامت کا آغاز تھا جو 34 سال تک قائم رہی، جس کے ہر لمحے میں امام نے الہی حکمت و دانائی کے ساتھ کربلا کے مشن کو آگے بڑھایا۔
اگر امام حسین (علیہ السلام) خون اور قیام کے امام تھے، تو امام سجاد (علیہ السلام) آنسوؤں اور دعا کے امام تھے۔ آپ نے شدید دباؤ اور گھٹن کے دشوار دور میں اپنی عبادتوں کے ذریعے توحید اور ہدایت کی آواز بلند کی۔
روحانی جدوجہد کی یہ روش حکمرانوں کے خوف سے نہیں بلکہ الہی حکمت جنم لیتی تھی؛ کیونکہ اس وقت کا معاشرہ جہالت اور برائیوں کے اندھیرے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اور خالص اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکا تھا۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے اس روش سے سے روحوں کی پاکیزگی، فکری تجدید (یا فکری تعمیر نو)، اور شیعہ مکتب کے پیروکاروں کے لئے مضبوط روحانی بنیاد رکھنے کے لئے کوشاں تھے۔
صحیفۂ سجادیہ ایک الہی خزانہ اور آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے، جس کو بجا طور پر "زبور آل محمد(ص)" کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی ورثہ، راز و نیاز، اخلاق، عرفان اور حتی کہ سیاست پر مشتمل ہے۔ ان دعاؤں میں توحید، معرفت، معاشرت اور حقوق کے گہرے معارف سمیٹ لئے گئے ہیں۔
آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے "زین العابدین" کا لقب ملا لیکن یہ لقب (عبادت کرنے والوں کی زینت) محض امام کا ایک رسمی نام نہیں بلکہ یہ آپ کی سیرت اور زندگی کا آئینہ دار ہے۔ راتوں کے اندھیرے میں عبادت، طویل سجدے اور ہر حال میں دعا، اس مظلوم امام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی پیشانی پر، کثرت سجدہ سے، گُٹا پڑ گیا تھا جو خالق کائنات کے سامنے بے پناہ خضوع و انکسار کی علامت تھا۔
آپ ایسی ہستی تھے جو زمانے کے دکھوں کو ذکر الٰہی سے تسکین دیتے تھے، اور حتی کہ شدید تنہائی میں بھی اپنے رب سے اپنا تعلق منقطع نہ ہونے دیتے تھے۔ خالق کے ساتھ یہ گہرا تعلق ہی آپ کی قوت اور مصیبتوں میں سکون کا بنیادی سرچشمہ تھا۔
مروی ہے کہ آبِ وضو کے پاس جاتے تو آپ کا جسم کانپنے لگتا تھا اور چہرہ متغیر ہو جاتا۔ جب آپ سے اس کیفیت کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: "کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں؟"
یہ روحانی عظمت اور مقامِ بندگی کی گہری سمجھ بوجھ ہی طوفانوں میں آپ کے سکون کا راز تھی۔ امویوں کی تشددآمیز اور گمراہ حکمرانی کے دور میں امام سجاد (علیہ السلام) نے نہ صرف دعاؤں کے ذریعے اپنا مشن آگے بڑھایا، بلکہ ابو حمزہ ثمالی، ابوخالد کابلی، یحیی بن ام الطویل، محمد بن جبیر بن مطعم، سعید بن مسیب مخزومی، عامر بن واثله کنانی (اباالطفیل)، سعید بن جبیر کوفی اور جبیر بن مطعم جیسے ممتاز شاگردوں کی تربیت کرکے تشیّع کی علمی و فکری تحریک کی بنیاد رکھی۔ آپ کے یہ شاگرد اہل بیت (علیہم السلام) کے علم و معرفت کے مبلغ و مروج بنے، اور امام کے فکری ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچایا۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے خاموش مجاہدت کے ان برسوں میں راتوں کی عبادت اور دنوں کو مفکرین کی ایک نسل کی تربیت کے بعد، بالآخر 95 ہجری میں مدینہ میں اموی بادشاہ عبدالملک بن مروان کے گماشتوں کے ہاتھوں مسموم ہوکر جام شہادت نوش کیا۔
اہل بیت (علیہ السلام) کے دشمن آپ کی خاموشی اور عبادت اور درگاہ پروردگار میں آپ کے راز و نیاز کو بھی برداشت نہ کر سکے، کیونکہ اور امام کے روحانی اثر و رسوخ سے خوفزدہ تھے اور یہ بھی جان گئے تھے کہ آپ نے اپنی دانائی سے یزید بن معاویہ کے مشن کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔
شیعیان اہل بیت(ع) کے چوتھے امام کا پیکر مبارک جنت البقیع میں مدفون ہے؛ امام حسن مجتبیٰ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) کے پہلو میں۔
آپ کا مقام تدفین کسی وقت عظیم الشان گنبد اور روشن زیارت گاہ ہوا کرتا تھا، مگر آج وہ صرف مٹی کا ایک ڈھیر ہے، بے نشان، بے چراغ اور مظلوم۔
بقیع کی تنہائی ائمۂ شیعہ (علیہم السلام) کی تنہائی کا مظہر ہے۔ آج یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت نہ صرف خواتین کے لئے ممنوع ہے، بلکہ مردوں کو بھی محدود گھڑیوں میں، بہت سختی سے، حاضری دینے کی اجازت ہے۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے ہمیں سکھایا کہ مشکل ترین حالات میں بھی دعا کے ذریعے بات کی جا سکتی ہے اور ایمان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
آپ نے بغیر تلوار اٹھائے استقامت کا درس دیا، سپاہ و لشکرکے بغیر جدوجہد کی، اور اشک آلود لفظوں سے جہاد کیا۔
آج صحیفۂ سجادیہ نہ صرف عرفانی خلوتوں کی کتاب ہے، بلکہ اس شوریدہ دور اور جدید دور کی جاہلیت کے اندھیروں میں زندگی گذارنے کے لئے چراغ راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مریم سادات آجودانی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی