سلیمانی

سلیمانی

مام  علیدور ا نقی الہادی(ع) کے سخت ترین حالات اور آپکا طرز امامت

تحریر: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

امام ہادی علیہ السلام نے ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۴ ہجری میں مدینہ منورہ کے علاقے '' صريا،، (۱)میں آنکھیں کھولیں آپکو نجیب ،ناصح، متوکل ، مرتضی، ہادی و نقی جیسے القاب سے یاد کیا جاتا(۲) ہے آپکی کنیت ابوالحسن ثالث بیان کی گئی ہے(۳) جیسا کہ واضح ہے آپ امام جواد علیہ السلام کے فرزند ہیں  آپکی والدہ گرامی کا نام تاریخ میں  والدہ سمانہ(۴) یا سوسن(۵) بیان کیا گیا ہے ، آپ اور آپکے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کو امامین عسکریین(۶) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے بظاہر اسکی وجہ عباسی خلفا ء کی جانب سے آپ دونوں بزرگواروں کو سنہ 233 ہجری میں سامرا لے جاکر چھاونی میں رکھنا ہے چنانچہ آپ آخرِ عمر تک سامرہ میں ہی نظر بند رہے جو کہ اس وقت ایک ایسا علاقہ تھا جسے چھاونی کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
آپ کا علم اوراخلاقی فضائل
آپ علم و حلم میں لا ثانی تواخلاقی فضائل خاص کر سخاوت و بخشش میں بے نظیر و یکتائے روزگار تھے آپکی زندگی میں فقراء و محروم طبقہ کو خاص حیثیت حاصل تھی آپ انہیں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے انکی مشکلوں کو حل کرتے انکے مسائل کو سنتے اور انکی حاجتوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ، آپ مدینہ میں موجود کھجوروں کے باغات میں خود بھی کام کرتے اور جن کے پاس کام نہ ہوتا انہیں بھی ضروریات زندگی کے لئے کام پر لگا دیتے کھیتی باڑی کرتے اورطلب رزق حلال کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کرتے ،آپ انکے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے جو لوگ آپکا برا چاہتے ، شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر ائمہ کے سلسلہ سے امامت کے دعویدار نظر آتے ہیں لیکن آپکی امامت پر تمام ہی بزرگان شیعہ متفق نظر آتے ہیں اور کمسنی میں امامت کے باوجود کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے(۷)
آپکے دور کے سیاسی حالات:
آپکی زندگی کے سات سال معتصم عباسی کی خلافت کے دور میں گزرے ، اور یہ سات سال کا عرصہ آپ پر بہت سخت وگراں گزرا ، ان سات سالوں میں مدینہ میں آپکی کڑی نگرانی ہوتی، آپ پر لوگوں سے ملنے جلنے پر پابندی تھی یہاں تک "بصریا" نامی جگہ پر آپ پر نظر رکھنے کے لئے بھی کچھ گماشتوں کو رکھا گیا تھا(۸) سامرا و بغداد کی صورت حال بھی مدینہ سے الگ نہ تھی یہاں پر بھی آپکے ساتھ آپکے شیعوں پر بھی آپ ہی کی طرح حکومت وقت کی جانب سے پابندیاں تھیں اور جو شیعہ آپ سے ملتے جلتے وہ بھی تقیہ کی حالت میں ملتے تھے(۹)
معتصم کے مرنے کے بعد ۲۲۷ ہجری میں اسکا بیٹا واثق خلیفہ بنا اور اس نے مامون کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے علمی نشستوں کا اہتمام کرنا شروع کیا کبھی علمی گفتگو ترتیب دی جاتی کبھی مناظرے ہوتے اس طرح ایک اچھا علمی ماحول فراہم ہوا لیکن یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا اور انجام کار ۲۳۲ ھ میں دو ترک سرداروں کی تحریک پر قتل کر دیا گیا اور اسکا بھائی جعفر جسے متوکل بھی کہا جاتا ہے مسند نشین ہوا(۱۰)
متوکل ایک شرابی ، تند خو اور بہت ہی متعصب قسم کا آدمی تھا اسکے نظریات بھی بہت خشک اور متہجرانہ تھے اور ان پر سختی بھی بہت کرتا تھا چنانچہ *اس دور میں معتزلہ کے خلق قرآن کے عقیدے پر اس نے بہت سختی کی اور ان تمام لوگوں کو کافر قرار دیا جو معتزلہ کے عقیدے کے قائل تھے اور اسکے مقابل احمد بن حنبل و اہل حدیث کے نظریات کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے انکی حمایت کی، شیعوں سے اسکی دشمنی بہت شدید تھی اور اہلبیت و شیعوں سے شدید عناد رکھتا تھا، شیعوں اور اور اہل بیت اطہار علیھم السلام سے اسکی دشمنی کا عالم یہ تھا کہ اس نے مقامات مقدسہ کی زیارت کو ممنوع قراردے دیا تھا حتی ۲۳۵ ھجری میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کو منہدم کرنے کا حکم(۱۱) دے کر اس نے نہ صرف اپنی سفاکیت بلکہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ اپنی شدید دشمنی کا واضح طور پر اعلان کر دیا ، متوکل کے دور حکومت میں بہت سے شیعوں کو دار پر چڑھا دیا گیا بہت سوں کو سخت ترین ایذائیں دے کر شہید کر دیا ،نہ جانے کتنوں کو زندانوں میں ڈال ڈال کر مار دیا انجام کار خود اپنے بیٹے کے حکم سے ۲۴۷ ھ میں واصل جہنم ہوا(۱۲) متوکل کے بعد اسکے بیٹے منتصر نے ۶ مہینہ سے زیادہ خلافت نہ کی لیکن ہر طرف فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو گیا مصرو خراسان اور سیستان عباسی سلطنت سے خارج ہو گئے سیستان میں یعقوب لیث صفاری کا سکہ چلا تو بغداد میں لوگوں نے مستعین کے نیچے سے تخت حکومت کھینچ لیا اور اسکی جگہ معتز عباسی کو بٹھا دیا تین سال بعد اسکی جگہ پر واثق کا بیٹا محمد مھتدی خلیفہ بنا(۱۳) ان تمام حوادث کے درمیان امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں حالات کا مشاہدہ کرتے رہے ،آپکو ۲۳۳ ھ میں متوکل …

تحریر: سید ثاقب اکبر

جب کبھی مسلمان خاص طور پر عرب فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں بظاہر سنجیدہ تھے، بھارت اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مخفی رکھے ہوئے تھا۔ اب فلسطینی حقوق کے دعویدار عرب اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں بھارت کو اسرائیل سے اپنے خفیہ مراسم اور دیرینہ آشنائی کو چھپانے کی کیا ضرورت پڑی ہے، لہذا بات اب سر بام آگئی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان تعلقات کا منحوس سایہ مسئلہ کشمیر اور اہلیان کشمیر کے حقوق پر پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کو ایسے سنجیدہ موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ کشمیریوں کے بزعم خویش سفیر کے دور حکومت میں ہمارا وزیر خارجہ بھارتی استبداد اور کشمیر میں وحشیانہ اقدامات کے جواب میں قوم کو ایک منٹ کی خاموشی تجویز کر رہا ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شد  پنبہ کجا کجا نہم

بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بھارت نے سترہ ستمبر 1950ء کو اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد ممبئی میں اسرائیل کا ایک امیگریشن دفتر کھول لیا گیا، جس کا نام ٹریڈ اینڈ کونسلنگ سینٹر رکھا گیا۔ یہ دراصل اسرائیل کا سفارتخانہ تھا جسے سفارتخانے کا نام نہیں دیا گیا۔ اس زمانے میں اسرائیل کو سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت تھی کہ پوری دنیا سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں منتقل کیا جائے، چنانچہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودی باشندوں کو بھارت سے اسرائیل کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سلسلہ گذشتہ دہائی تک جاری رہا ہے، جب بھارت کے شمال مشرقی حصوں سے بڑی تعداد میں یہودی اسرائیل بھجوائے گئے۔

 1992ء میں حالات کو سازگار پا کر دونوں ملکوں نے باقاعدہ سفارت خانے کھول لیے۔ بھارت اور اسرائیل کے مابین سائنس، ٹیکنالوجی، انڈسٹری، تعلیم وغیرہ جیسے اہم شعبوں میں گہرے تعلقات قائم ہیں لیکن سب سے اہم عسکری اور فوجی تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے بھارت نے اس قدر اسلحہ خریدا ہے کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے برس بھی آئے کہ جب بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار قرار پایا۔ چنانچہ 2017ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا ۔ بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پاونڈ کے عوض راڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل خریدے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے میانمار کو بھی سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان مشقوں کی تفصیلات بہت حیران کن ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے گہرے تعلقات کا بیشتر حصہ اور تفصیلات پردہ اخفاء میں ہیں اور دونوں ملک بیشتر تزویراتی کام خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔

1999ء میں جب کارگل کا معرکہ پیش آیا تو اس کے بعد بھارت نے اسرائیل سے 6.1 ارب ڈالر کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اسرائیل میں اسلحہ سازی کے 150 سے زیادہ کارخانے ہیں جو بھارت اور دیگر ملکوں کے آرڈرز کے مطابق دن رات اسلحہ تیار کرتے ہیں۔ 2006ء تک بھارت اسرائیل سے 4.4 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ 2013ء میں اسرائیل کا ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد بھارت آیا، جس سے بھارتی حکام نے اپنی افواج کی ٹریننگ اور ان کو جدید ہتھیار مہیا کرنے کے لیے 3 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا، تاہم اسرائیل کو یہ تشویش تھی کہ کہیں بھارت کے ذریعہ اسرائیل کی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ایران منتقل نہ ہو جائے، جس کے لیے بھارت نے اسرائیل کو ہر طرح کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ حالیہ دنوں میں بھارت اور ایران کے مابین اقتصادی معاہدوں کے ختم ہونے کے پیچھے امریکہ کے علاوہ اسرائیل کا بھی ہاتھ ہو۔

دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین بہت دیرینہ روابط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ را اور موساد 1968ء سے رابطے میں ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ مودی کے دور میں ہونے والے معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دونوں ملک ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ سے مقابلے کے لیے اسرائیل بھارتی کمانڈوز کو باقاعدہ تربیت دے رہا ہے۔ یادر رہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظلوم مسلمانوں اسلامی شدت پسند قرار دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کے باوجود اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔

گذشتہ برس بھارت نے کشمیریوں کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالا ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور پھر کشمیریوں کے خلاف جو پے در پے اقدامات کیے اسے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، اہم ترین مناصب سے مسلمانوں کو ہٹا کر ہندوں اور سکھوں کو تعینات کرنا، مختلف حیلوں سے مسلمانوں کی سرزمینوں پر قبضہ کرنا، سرکاری ملازمتوں میں غیر مسلموں کو ترجیح دینا، کشمیر میں کاروبار کو بھارت کے طاقتور سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے سے کنٹرول کرنا، انتخابات کے لیے ایسی نئی حلقہ بندیاں کرنا جس سے غیر مسلموں کو زیادہ مواقع میسر آسکیں، مسلمان نوجوانوں کو بغیر مقدمے کے اٹھا لینا، مقابلے کے نام پر قتل کرنا اور خوف و وحشت کی فضا پیدا کرنا یہ سب اقدامات اسرائیلی ماڈل کا حصہ ہیں۔ کیا ان سب کے جواب میں پاکستانی قوم کو احتجاج کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا چاہیے؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بات تو کہ دی ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہولناک دھماکے سے درجنوں افراد کے ہلاک اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ دھماکہ اتنا شدید اور ہولناک تھا کہ اس کی آواز ڈھائی سو کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ لبنان کے ایک نجی خبر رساں ادارے نے اس دھماکے کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے دھماکے کی گونج سے مثال دی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق بیروت کی بندرگاہ  کے علاقے میں ہولناک دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں گردو نواح کے علاقے لرز گئے اور شہر کے مختلف علاقوں کی عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ برطانوی خبر ایجینسی کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں لبنان کے سابق وزیراعظم سعد حریری کا گھر بھی شامل ہے۔ مقامی خبر ایجنسی کے مطابق دھماکا ایک ایسے گودام میں ہوا ہے جہاں ضبط کیا گیا دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔ لبنان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گودام میں  سال قبل ایک بحری جہاز سے ضبط کیا گیا سوڈیم نائٹریٹ رکھا گیا تھا اور اسے ضایع کیا جانا تھا۔ دھماکے کی  آواز 240 کلومیٹر دور تک سنی گئی اور دور تک عمارتیں اس کی شدت سے لرز گئیں۔ اس سے قبل لبنان کے وزیر صحت حماد حسن نے دھماکے میں سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ علاوہ ازیں دھماکے کے مقام کی قریبی عمارتوں سے  لی گئی تصاویر اور ویڈٰیوز میں دھماکے کی شدت کے باعث ہونے والی تباہی اور گردو ونواح میں پھیلنے والا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک عالمی خبر رساں ادارے نے بیروت دھماکے میں کم از کم 500 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ 

 رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایران کے اندر منائی جانے والی "عید الاضحی" کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم کے ساتھ براہِ راست خطاب کیا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایرانی قوم سمیت پوری امتِ مسلمہ اور ادیانِ ابراہیمیؑ کو عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عید کے پر مسرت موقع پر قوم کو بڑھ چڑھ کر "کمزور طبقات کی مالی مدد اور عوامی صحت کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ تعاون" کی دعوت دی۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران نے ماہ مبارک ذی الحج کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کے پہلے عشرے کو عظیم ماضی کی یادگار، راہِ حق کی جانب ہدایت کرنے والا اور تضرع و زاری و توسل کا عشرہ قرار دیا اور کہا کہ اس مبارک مہینے کا دوسرا عشرہ، "عید غدیر" کے سبب "عشرۂ ولایت" ہے جبکہ الہی احکام کے درمیان "ولایت" ایک اعلی مقام کی حامل ہے کیونکہ یہی "ولایت"؛ تمام احکاماتِ الہی کے اجراء کی ضمانت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس مبارک مہینے کا تیسرا عشرہ بھی "عید مباہلہ" سمیت متعدد مناسبتوں کے حوالے سے ایک اہم عشرہ ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امید ہے کہ امتِ مسلمہ کے لئے اس عظیم مہینے کا نہ صرف پہلا عشرہ بابرکت ثابت ہوا ہو گا بلکہ بعد میں آنے والے دو عشرے بھی امت مسلمہ کے لئے "اللہ تعالی کی رضا اور امت کی خوشبختی" کا باعث بنیں گے۔ رہبر انقلاب نے محرم الحرام کے ایام عزاء کی مناسبت سے پیروان مکتب حسینیؑ کو بھرپور عزاداری کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے سلسلے میں سفارش شدہ احتیاطی تدابیر پر بھی مکمل عملدرآمد کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے ماہ محرم کے دوران عزاداروں کے لئے نذر و نیاز کے اہتمام کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام میں بھی مکمل احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کے ساتھ نذر و نیاز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ملک کے خلاف عائد غیرقانونی امریکی پابندیوں کے فوری، درمیانے عرصے اور لمبے عرصے کے اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن نے ملک و قوم کے خلاف پابندیوں کے ساتھ ساتھ حقائق مسخ کرنے کی مہم بھی چلا رکھی ہے تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ایرانی قوم کی بیداری و عقلمندی اور اسے حاصل امریکہ کی گہری پہچان کے بدولت دشمن اپنے کسی بھی ہدف تک پہنچ نہیں پایا اور نہ ہی کبھی پہنچ پائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران؛ صبر و استحکام اور عوام کے اقتصادی مسائل کے حل و ملک میں موجود اندرونی وسائل سے بھرپور استفادے کے لئے حکام کی پہلے سے بڑھ کر کی جانے والی کوششوں کے ذریعے اپنے روشن مستقبل کی جانب گامزن رہے گا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے غیرقانونی امریکی پابندیوں کو ایرانی قوم کے خلاف عظیم جرم قرار دیا اور کہا کہ خبیث دشمن؛ پوری ایرانی قوم کو نشانے پر لے لینے والی ان پابندیوں کے ذریعے مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رہبر انقلاب نے ایران کے خلاف غیر قانونی امریکی پابندیوں کے فوری مقصد کو "ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ عوام کو آپس میں الجھا کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئے اور یہی وجہ ہے وہ اس حوالے سے "شدید گرمی کے موسم" (Hot Summer) کی اصلاح کو مسلسل استعمال کر رہا ہے تاہم اس وقت وہ خود ہی "شدید گرمی کے موسم" میں گرفتار ہو چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "مُلک و قوم کی بالخصوص علمی میدان میں ترقی کو روکنا" غیرقانونی امریکی پابندیوں کا درمیانی مدت کا ہدف قرار دیا اور کہا کہ "ملک کو دیوالیہ کر کے معاشی ناکامی کا شکار بنانا" دشمن کا لمبے عرصے کا ہدف ہے کیونکہ ایسی صورت میں کوئی ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں "اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے کے مزاحمتی مراکز سے کاٹ دینے" کو امریکی پابندیوں کا ضمنی ہدف قرار دیا اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن اپنی سازشوں میں ناکام رہا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے امریکیوں کا اصلی مقصد ملک و قوم کی انتہائی اہم صلاحیتیں سلب کرنا ہے تاہم موجودہ امریکی صدر اپنے ذاتی و انتخاباتی مفادات کی فکر میں ہے جیسا کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات سے انتخاباتی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جاری امریکی حادثات "راکھ تلے چھپی چنگاری" تھے جو، دبائے جانے کے باوجود اب بھڑک کر شعلوں میں بدل چکے ہیں اور یہی حوادث موجودہ امریکی حکومتی نظام کے خاتمے کا سبب بنیں گے کیونکہ اس حکومتی نظام کا سیاسی و معاشی فلسفہ غلط اور قابل مذمت ہے۔


چند دن پہلے لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع شبعا کھیتوں میں ایک بہت عجیب واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ واقعہ اسرائیل آرمی کے ماتھے پر کلنک کا داغ بن گیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ اسرائیل آرمی نے غلطی سے اپنے ہی افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ گذشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیل کے فضائی حملے میں حزب اللہ لبنان کے ایک اعلی کمانڈر علی کمال محسن شہید ہو گئے جس کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل آرمی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ لبنان کی سرحد کے قریب شبعا کھیتوں میں گشت کرنے والی ایک اسرائیلی یونٹ کو یوں محسوس ہوا گویا حزب اللہ لبنان کے کمانڈوز نے ان پر حملہ کر دیا ہے جس پر انہوں نے بوکھلا کر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔
 
لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی فوجیوں کو نشانہ بنا ڈالا تھا۔ اب انہوں نے شرمندگی سے بچنے کیلئے یہ خبر اڑا دی کہ اسرائیل آرمی نے حزب اللہ لبنان کا کمانڈو ایکشن ناکام بنا دیا ہے۔ جب ان سے ثبوت کے طور پر جھڑپ میں مارے جانے والے افراد کی تصاویر کا مطالبہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زندہ بچنے والے حزب اللہ کے کمانڈوز اپنے ساتھیوں کی لاشیں اپنے ساتھ واپس لے گئے ہیں۔ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ اس فائرنگ اور گولہ باری میں اسرائیل آرمی نے اپنے ہی پانچ فوجی ہلاک اور بارہ زخمی کر دیے ہیں۔ واقعے کے کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے اپنے سرکاری بیان میں واضح کیا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے اندر کوئی کاروائی انجام نہیں دی اور ان کا کوئی مجاہد زخمی یا شہید نہیں ہوا۔
 
حزب اللہ لبنان نے اس واقعہ پر دو قسم کی حکمت عملی اپنائی۔ ایک "اسٹریٹجک خاموشی" اور دوسری "بامقصد ابہام" پر مبنی تھی۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ مدت کیلئے خاموشی اختیار کئے جانا اسرائیلیوں کیلئے ہر بیانئے یا دھمکی سے زیادہ دردناک تھا۔ اس خاموشی نے صہیونی رژیم کو شدید قسم کے اوہام کا شکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس کا خوف و ہراس اپنے عروج تک جا پہنچا۔ اس واقعہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آپس میں لڑنے میں مصروف تھے۔ اس دوران حزب اللہ لبنان نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ یوں حزب اللہ لبنان نے ایک گولی بھی چلائے بغیر محض اسٹریٹجک خاموشی اور بامقصد ابہام کے ذریعے شبعا کھیتوں میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم حزب اللہ لبنان سے اس قدر خوفزدہ ہو چکی ہے کہ نہ صرف حزب اللہ کے مجاہدین بلکہ مجاہدین کے سائے سے بھی وحشت زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجی حتی مجاہدین کی موجودگی کا وہم و گمان کر کے بھی گولہ باری اور فائرنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ تاریخ میں یہ حقیقت لکھی جائے گی کہ ایسے احمق بھی تھے جو خوف کا شکار ہو کر میدان جنگ میں اترتے تھے اور فرضی دشمن کے خلاف کاروائی انجام دیتے تھے۔ گویا اسرائیل حزب اللہ لبنان سے خوفزدہ ہو کر خودکشی پر اتر آیا ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دمشق میں شہید ہونے والے اپنے فوجی کمانڈر کا بدلہ لے کر رہے گی۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری کردہ بیانئے میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے شہید کمانڈر کا بدلہ ضرور لیں گے۔
 
لہذا شبعا کے کھیتوں میں غلطی سے اپنے ہی فوجی مارنے اور زخمی کرنے کے باوجود اسرائیل کی سکیورٹی فورسز بدستور ہائی الرٹ پر ہیں۔ خود اسرائیل بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ حزب اللہ لبنان جس اقدام کا اعلان کرتی ہے اسے انجام دیتی ہے۔ چند سال پہلے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے اور آج کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم دنیا کے جس حصے میں بھی ہمارے خلاف کسی قسم کا دہشت گردانہ اقدام انجام دے گی ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ لہذا ماضی میں بھی حزب اللہ لبنان اپنے اعلی سطحی کمانڈرز کی شہادت کے بدلے باقاعدہ پہلے سے اعلان کر کے مقبوضہ فلسطین کے اندر غاصب صہیونی فوجیوں کے خلاف انتقامی کاروائی انجام دیتی آئی ہے۔
 
شبعا کے کھیت مقبوضہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر واقع ہیں۔ یہ علاقہ درحقیقت لبنان کی سرزمین کا حصہ ہے جس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ ایسے ہی جیسے اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائٹس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ جب تک لبنان کی خاک کا ایک چپہ بھی غاصب صہیونی رژیم کے قبضے میں ہے یہ تنظیم اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔ حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہید علی کمال محسن کے خون کا بدلہ لینے کیلئے مناسب وقت اور جگہ کا انتخاب خود کرے گی۔ اسرائیلی حکمرانوں کے خوف اور وحشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے وقت، جگہ اور نوعیت سے لاعلم ہیں۔

یوم عرفہ ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے۔ یہ دن  اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری نیز دعا اور توبہ قبول ہونے کا اہم دن ہے۔

اللہ تعالی نے اس دن اپنے بندوں کے لئے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دسترخوان بچھا دیئے ہیں یوم عرفہ اللہ تعالی کی عطا اور بخشش کا دن ہے۔  بعض دینی ذرائع کے مطابق یوم عرفہ کو عید کے عنوان سے بھی یاد کیا گیا ہے، مفاتیح الجنان کے مطابق یوم عرفہ اور نویں ذالحجہ بڑی اعیاد میں سے ہے اگر چہ روایات میں عید کے نام سے موسوم نہیں ہوا ہے لیکن یہ دن بھی اہم ایام میں شامل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے۔ اس دن لوگ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور جود و سخا سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔عرفہ کے معنی پہچان اور شناخت کے ہیں اس دن لوگ اپنے حقیقی معبود اور خالق کو پہچانتے ہیں اس کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اس سے مدد اور نصرت طلب کرتے ہیں ۔ آج کے اعمال میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زيارت اہم ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج کربلائے معلی میں اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین (ع)  کے روضہ پرحاضر ہو کر اپنے معبود برحق سے راز و نیاز کررہے ہیں۔آج کے دن کی دعاؤں میں یوم عرفہ میدان عرفات میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا معروف ہے جو عبد و معبود کے درمیان گہرے  رابطہ کا مظہر ہےجو اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا مظہر ہے۔

اس دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور کربلائے معلی میں حاضر ہونے کی سخت تاکید کی گئی جس کے نتیجے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت اور جلالت دو چنداں ہوجاتی ہے بعض روایات کے مطابق عرفہ کے دن اللہ تعالی پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہے اور اس کے بعد عرفات میں حاضر ہونے والے حجاج پر نظر کرتا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " انّ اللّه تبارک و تعالی یتجلّی لزوّار قبر الحسین(ع) قبل اهل العرفات و یقضی حوائجهم و یغفر ذنوبهم و یشفّعهم فی مسائلهم ثمّ یأتی اهل عرفه فیفعل بهم ذلک." اللہ تعالی عرفات سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہےان کی توبہ کوقبول کرتا ہے ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے مسائل اور مشکلات کو حل کرتا ہے اور اس کے بعد اہل عرفہ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم عرفہ دعا ، توبہ اور انابہ کے لحاظ سے بہت ہی اہم دن ہے اور مؤمنین کو اس دن کے فیوض اور برکات سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

 آج اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مقدس اور مذہبی مقامات پر طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ  اس دعا کی تلاوت کی جائے گی اور مؤمنین اس دعا کے ذریعہ اپنے گناہوں کی بخشش اور قرب خدا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوم عرفہ حضرت آدم اور حضرت داؤد کی توبہ قبول ہوئی یہ دن اللہ تعالی سے  دعا ، رحمت اور مغفرفت طلب کرنے کا دن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی ویرانی ، تباہی، بربادی  اور پسماندگی کا سبب بن گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت و بربریت کے مقابلے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ، فلسطینی مسلمانوں ، یمن کے مظلوم اور ستمدیدہ مسلمانوں نیز دنیا کے دیگر علاقوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے مظلوم مسلمانوں کی حمایت  پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بعض اسلامی ممالک کے سربراہان اپنے شخصی اور ذاتی مفادات کے لئے  اسرائيل کی غاصب اور ظالم حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر فلسطینیوں کی زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مسلم ممالک کے سربراہان کو اس ذلت آمیز رفتار سے پرہیز کرنے کی سفارش کی اور مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی مغربی ایشیائي ممالک میں فوجی موجودگی  اس خطے میں ویرانی ، تباہی اور پسماندگی کا سبب بن گئی ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم امریکہ کے رونما ہونے والے حالات میں امریکہ کے مظلوم عوام کے ساتھ  ہیں اور امریکی حکومت کے نسل پرستانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال حج کے محدود پیمانے پر منعقد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں خانہ کعبہ کی غربت کا احساس ہے اور ہمارے دل اس صورتحال میں بھی خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ ان شا اللہ ہم سب پہلی شان و شوکت کے ساتھ  آئندہ سال حج کا فریضہ ادا کریں گے۔

تحریر: سید اسد عباس
 
موسم حج آن پہنچا، تاہم اس مرتبہ حج گذشتہ روایات سے ہٹ کر انجام دیا جائے گا۔ کرونا کے سبب حکومت سعودیہ نے اعلان کیا ہے کہ اس مرتبہ دنیا بھر سے مسلمان حج کی سعادت سے بہرہ ور نہیں ہوسکیں گے۔ سعودیہ میں مقیم افراد نیز سعودیہ کے اقامہ ہولڈر ہی اس سعادت سے فیضیاب ہوں گے۔ حج کے حوالے سے یقیناً ایس او پیز کی تیاری بھی جاری ہوگی۔ یہ شاید کعبۃ اللہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ حج کو ایسی پابندیوں کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم دنیا کو اس وبائی مرض سے نجات عطا فرمائے، تاکہ ایک مرتبہ پھر بلاد حرم، زیارات مقدسہ اور مساجد و عبادت خانوں کی رونقیں بحال ہوسکیں۔ حج کے اجتماع کے حوالے سے مسلم مفکرین نے مختلف انداز سے اس اجتماع کی غرض و غایت کو بیان کیا ہے۔ ان مفکرین کی آراء کو اگر جمع کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں انھوں نے اس عظیم عبادت کے عبادی اور معنوی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، وہیں اس کے اجتماعی، سیاسی اور اقتصادی گوشوں پر بھی گفتگو کی ہے۔

گذشتہ دنوں مجھے چند ایک مسلم مفکرین کے حج کے حوالے سے مضامین پڑھنے کا موقع ملا، جن میں مولانا مودودی، مولانا ابو الکلام آزاد، امام خمینی، شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید باقر الصدر شامل ہیں۔ یقیناً درج بالا نام ان چند شخصیات کے ہیں جنھوں نے اس عظیم عبادت کے فلسفہ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ حج کے عبادی اور معنوی پہلوؤں پر تو تقریباً سبھی مفکرین کا اتفاق ہے، تاہم بعض کے نزدیک یہ عبادت فقط انفرادی، عبادی اور معنوی حیثیت کی حامل نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے لیے اجتماعی پیغامات بھی موجود ہیں۔ حج کے سیاسی اور اجتماعی پہلو کے حوالے سے امام خمینی، شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید باقر الصدر نے متعدد تحریریں قلمبند کیں۔
 
روایات اور سیرت معصومین علیہم السلام میں حج کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں حج کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب امیر کائنات حالت سجدہ میں 19 رمضان المبارک کو ابن ملجم لعین کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور جب زہر کا اثر جسم مبارک میں پوری طرح اثر انداز کر گیا تو مولائے متقیان نے اپنی اولاد و اقارب کو جمع کرکے جو آخری وصیت فرمائی، اس میں ”حج“ کی بھی تلقین فرمائی۔ آپ نے فرمایا ”یہ میری وصیت ہر اس شخص کو ہے (قیامت تک) کہ جس تک یہ میری وصیت پہنچے، اس میں نماز اور قرآن کے ساتھ عبادت الٰہی میں جس چیز کے متعلق انتباہ ضروری خیال فرمایا وہ حج ہے۔ فرمایا:
اللّٰہ اللّٰہ فی بیت ربکم فانہ ان ترک لم ینظروا“ ترجمہ: "دیکھو اللہ سے ڈرنا اپنے پروردگار کے گھر (خانہ کعبہ) کے بارے میں کہ اگر اس کا حج موقوف ہو جائے تو پھر خلق خدا کو عذاب الہیٰ سے مہلت نہیں مل سکتی۔" ایک اور جگہ مولائے متقیان علیہ السلام نے فرمایا: "لا تترکوا حج بیت ربکم، فتھلکوا" ترجمہ: "دیکھو! اپنے پروردگار کے گھر (خانہ کعبہ) کا حج ترک نہ کرنا، ورنہ ہلاکت سے دوچار ہو جاؤ گے۔"(ثواب الاعمال ص: 212)
 
امام حسن ؑکے بارے ملتا ہے کہ آپ نے بیس (20) حج پا پیادہ کیے۔ بعض روایات کے مطابق پچیس (25) پا پیادہ حج کیے۔ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے پچیس (25) حج پا پیادہ کیے اور تین دفعہ آپ نے اپنا کل اثاثہ خدا کی راہ میں لُٹا کر حج کیا۔ امام زین العابدین علی الحسین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
"حجوا واعتمروا وتضح اجسامکم و تتسع ارزاقکم، ویصلح ایمانکم وتکفوا مونۃ عیالاتکم" ترجمہ: "حج اور عمرہ بجا لایا کرو، جسمانی طور پر تندرست رہو گے، رزق میں اضافہ اور برکت ہوگی، ایمان میں اصلاح ہوگی(تمہارے مال میں اتنی وسعت ہوگی کہ لوگوں کی ضرورت پوری کرسکو گے)۔" حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "الحاج و المعتمر وفد اللہ ان سئلوہ اعطاھم و ان دعوہ اجابھم، و ان شفعوا شفعھم، وان سکتوا ابتداھم ویعضون بالدرھم الف الف درھم۔" ترجمہ: "حج اور عمرہ کرنے والے خداوند عالم کی بارگاہ میں حاضر ہونے والا (ایسا وفد ہے) کہ اگر یہ لوگ اس سے کچھ مانگیں تو عطا کرے گا، اگر اسے پکاریں تو جواب دے گا، کسی کی سفارش کریں تو اس کی سفارش کو قبول کرے گا، اگر خاموش رہیں تو وہ خود ابتدا کرے گا اور ہر درہم کے بدلے انھیں ہزار ہزار درہم دیے جائیں گے۔"
 
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "من مات ولم یحج حجۃ الاسلام ولم یمنعہ من ذلک حاجۃ تجحف بہ او مرض لا یطیق الحج من اجلہ او سلطان یمنعہ فلیمت ان شاء یھودیا و  ان شآء نصرانیا۔"ترجمہ: "اگر کسی شخص نے (استطاعت کے باوجود) حج کا اسلامی فریضہ ادا نہیں کیا، جبکہ نہ کوئی ایسا ضروری کام درپیش تھا، جو اس کے لیے رکاوٹ بنے، نہ ایسا بیمار تھا کہ جس کی وجہ سے حج کر ہی نہ سکے اور نہ (حکم وقت) کسی جابر سلطان نے اسے منع کیا تھا، تو وہ چاہے یہودی مرے یا عیسائی۔" ایک اور جگہ امام صادقؑ نے فرمایا: "من حج یرید بہ اللہ ولا یرید بہ ریاء ولا سمعۃ، غفراللہ لہ البتۃ۔"(ثواب الاعمال، صف ۲۶) ترجمہ: "جو شخص حج کرے اور اس کا مقصد صرف خداوند عالم (کی خوشنودی) ہو، نہ ریاکاری پیش نظر ہو، نہ شہرت(وغیرہ) تو خداوند عالم، یقیناً اس کی مغفرت فرمائے گا۔"
 
 حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "اعلم یرحمک اللہ، ان الحج فریضۃ من فرائض اللہ جل و عز اللازمۃ الواجبۃ من استطاع الیہ سبیلاً، وقد وجب فی طول العمر مرۃ واحدۃ، ووعد علیھا من الثواب الجنۃ والمعفومن الذنوب، وسمی تارکہ کافرا، وتوعد علی تارکہ بالنار فنعوذ باللہ من النار۔" ترجمہ: "یاد رکھو! خدا تم پر رحم کرے کہ ”حج“ خداوند عالم کے مقرر کردہ فرائض میں سے ایک اہم، واجب و لازم فریضہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جس کو وہاں جانے کی استطاعت حاصل ہو۔ یہ پوری زندگی میں صرف ایک بار واجب ہے۔ خداوند عالم نے اس (کی ادائیگی) پر گناہوں کی مغفرت اور اس کے ثواب کے طور پر جنت کا وعدہ کیا ہے۔ اسے ترک کرنے والے کو کافر کے نام سے یاد کیا ہے اور حج نہ کرنے والے کو جہنم کے عذاب کی خبر دی ہے۔" ہم آتش جہنم سے خداوند عالم کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ کریم ہر مسلمان کو اس عظیم عبادت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ افراد جو اس برس کوویڈ 19 کے سبب حج کی سعادت سے محروم رہے ہیں، خدا انہیں اگلے برس حج بیت اللہ سے سرفراز فرمائے، نیز ان احباب کو اپنے اموال کو راہ خدا میں صرف کرنے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین