سلیمانی

سلیمانی

انبیاء کی سرزمین مقدس فلسطین پر بسنے والے فلسطینی عرب گذشتہ ایک سو سال یعنی جس دن سے برطانوی استعمار کے عہدیدار بالفور نے Rothschild کو ایک خط کے ذریعہ اعلان نامہ پھیجا کہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے لئے ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کی جائے، اس دن سے آج تک ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطینی عرب صہیونیوں کے ظلم و ستم کے رحم و کرم پر ہے۔ غاصب صہیونیوں نے پہلے جنگوں اور قتل و غارت کے ذریعہ فلسطین کا استحصال کیا، بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے دباؤ کو فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے ساتھ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ بہرحال ہر دو صورتحال میں اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فلسطین کی اراضی پر مسلسل صہیونیوں نے قبضہ جاری رکھا۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونی آباد کاری کے ذریعے فلسطین کے مغربی کنارے کو صہیونی آبادی کے تناسب سے فلسطینی آبادی پر برتری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے علاقہ کو مغربی کنارے سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہاں گذشتہ بارہ برس سے غاصب اسرائیل کا مصری حکومت کے ساتھ مشترکہ محاصرہ کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔

موجودہ زمانہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود امریکی عوام کے لئے بھی ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہیں، انہوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ پیش کرتے ہوئے پہلے فلسطین کے ابدی دارالحکومت قدس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں اسی کوشش کو یقینی بنانے کے لئے امریکی حکومت نے تل ابیب سے قدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل ان سب باتوں کا مقصد امریکی صدر یہ بتانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر اب مکمل اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں امریکہ کی پیش رو انتظامیہ نے فلسطینی پی ایل او کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی ضمانت دی تھی کہ اسرائیل امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے 1967ء کی سرحدوں تک چلا جائے گا۔ بعد ازاں یہ ہونا بھی آج تک اسی طرح سے ناممکن رہا ہے کہ جس طرح اعلان بالفور میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل قائم کیا جائے گا، لیکن غیر یہودی قوموں کو فلسطین سے نہیں نکالا جائے گا۔ حقیقت اس کے بھی برعکس ثابت ہوئی، اسرائیل قائم کر لیا گیا، لیکن فلسطینی عربوں کو فلسطین سے نکال پھینکا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء کو منظور ہونے والی بڑی قرارداد میں طے پایا کہ فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، لیکن اس پر بھی آج تک اقوام متحدہ عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، البتہ اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔

اب حالیہ دنوں اسرائیل امریکی سرپرستی میں امریکی صدر کے شیطانی منصوبہ صدی کی ڈیل پر تکیہ لگائے ہوئے ہے۔ اب غرب اردن کے علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے یا الحاق کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یعنی صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارا اب اسرائیل کے ساتھ شامل کیا جانے کا ناپاک ارادہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالہ سے امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ جولائی 2020ء میں غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یقیناً ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ 1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں، بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا، جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔

اسی عنوان پر فلسطین کے سابق وزیر اور تجزیہ نگار وصفی قبہا نے کہا ہے کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا سمیت ہر وہ حکومت، ادارہ اور عناصر بھی برابر کے شریک مجرم ہیں، جنہوں نے فلسطین کے لئے امریکہ کے منصوبہ یعنی دو ریاستی حل اور نام نہاد مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ اب اصل مسئلہ کی بات کرتے ہیں کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنے ساتھ ملحق کرنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب فلسطین باقی نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے مفادات کی خاطر مسلم امہ کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایسی حالت میں فلسطینیوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔

ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری ہیں، جو اس منصوبہ کی اعلانیہ اور مخفیانہ طور پر حمایت کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطینی قوم ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے اور واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فلسطین کے ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطینی عربوں میں صرف مسلمان اکیلے نہیں بلکہ عیسائی فلسطینی اور ایسے وہ تمام یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس سمیت دیگر گروہوں نے غرب اردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے صہیونی منصوبہ کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام مزاحمت کریں گے۔ فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے۔ فلسطینیوں نے اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ غرب اردن سے متعلق اسرائیلی غاصب حکومت کے فیصلہ اور اعلان پر آج تک عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اسرائیلی جرائم کی داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غرب ردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔ یہ وہ اصل سازش ہے، جس کا آغاز عالمی شیطان امریکہ کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگاروں کا اس تمام تر صورتحال پر کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ خطے کی متعدد عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے اس منصبوبہ کی حمایت کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں فلسطین کی حمایت میں باقی ماندہ ایک دو ممالک یا حکومتوں کے کوئی سامنے نہیں ہے۔

ماضی کے تجربات کی روشنی میں فلسطینی عوام کی مزاحمت ہی اس وقت ایسا مضبوط ہتھیار ہے، جو فلسطین کی سرزمین اور یہاں امت کے مقدسات کا دفاع کرسکتی ہے، وہ ہتھیار فلسطینیوں کی مزاحمت ہے۔ اسی مزاحمت نے ہی فلسطین کو باقی رکھا ہے، ورنہ امریکی و صہیونی اتحاد کئی سال پہلے ہی فلسطین کا مسئلہ نابود کرچکے ہوتے۔ فلسطینی قوم کی سماجی، سفارتی، سیاسی اور قانونی محاذوں پر فلسطین کے دفاع کے لیے کام کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت بھی جاری رہنا ضروری امر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ حل کی کوشش کریں، جس کا مقصد فلسطین فلسطینیوں کے لئے ہو۔ غاصب دشمن کو حق نہ دیا جائے کہ وہ فلسطین پر مزید تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
غاصب و قابض رہے۔ مسلم دنیا کا اسرائیل کی کاسہ لیسی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔

تحریر: ساجد مطہری

جیسا کہ مشہور ہے ’’سیاست میں کوئی دوست اور رشتہ دار نہیں ہوتا‘‘ کچھ ایسی ہی داستان عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹوں مامون اور امین کی ہے، جب  مامون کو اپنے بھائی امین سے خطرہ لاحق ہوا تو اپنے سگے بھائی کے خلاف تلوار کھینچ لی، ہزاروں لوگوں کے قتل عام کے بعد مامون اپنے بھائی امین پر فائق آیا اور اس کا سر قلم کرکے اقتدار کی کرسی بچا لی۔ مامون عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ ذہین، فطین اور شاطر مزاج آدمی تھا، لہذا امین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد اسے مدینہ منورہ میں علویوں کی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا، اسے خبر پہنچ چکی تھی کہ دور دور سے لوگ امام رضا (ع) کے پاس جمع ہو کر ان کے فیوضات اور برکات سے سیراب ہو رہے ہیں اور ان کی بارگاہ اقدس میں زانو تلمذ خم کرکے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہ بات مامون کے لیے انتہائی ناگوار اور ناقابل برداشت تھی، دوسری جانب مدینہ منورہ، مرو (خراسان) سے بہت دور تھا، وہ امام رضا (ع) کی علمی اور سیاسی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا، لہذا اس نے امام رضا (ع) کو "مرو" بلانے کا مصمم ارادہ کیا، اپنے وزیر فضل بن سہل کو بلایا اور اس سے مشورہ کرنے کے بعد امام رضا (ع) کو خراسان بلانے کے بعد ولایت عہدی کا عہدہ ان کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔[1]

عباسی خاندان کے لوگ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے جبکہ دربار اور مامون کے حلقہ احباب میں بھی اس فیصلے سے متعلق آپس میں چہ میگویاں ہو رہی تھیں۔ چنانچہ مامون کو اپنے فیصلے کے پیچھے پوشیدہ راز آشکار کرنے پڑے، ان میں سے کچھ اہم اغراض و مقاصد یہ ہیں:
1۔ خلافت عباسیہ کی تثبیت و تائید
 مامون الرشید نے امام  رضا(ع) کے خراسان بلانے کا مقصد صراحت کے ساتھ بیان کیا  ہے، ’’میں ابو الحسن (ع) کو یہاں بلا کر ولایت عہدی کی پیشکش کروں گا، اب اگر امام رضا (ع) نے قبول کر لیا تو گویا انہوں نے خلافتِ عباسیہ کو قبول کیا ہے۔‘‘[2]
2۔ امام رضا (ع) کی سرگرمیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
 مامون چاہتے تھے کہ اس طریقے سے امام (ع) کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کنٹرول میں رکھے، کیونکہ اگر امام رضا (ع) ولایت عہدی کے منصب کو قبول کر لیتے تو آپ خلافت عباسی کے زیر سایہ ایک ولی عہد کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیتے اور آپ کی کاوشیں خلافت عباسیہ کی تشہیر و ترویج کا باعث ہوتیں، یوں اس بات کا خطرہ ٹل جاتا کہ امام رضا (ع) مامون کے راستے میں رکاوٹ بن کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے گا۔[3]

3۔ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان و عظمت گھٹانا
 مامون کا اس فیصلے سے ایک اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان اور عظمت گھٹائی جائے، کیونکہ جب امام (ع) ولایت عہدی کے منصب پر راضی ہو جاتا تو عاشقان، دلدادگان اور موالیان اہل بیت (ع) کو یہ باور کروایا جاتا کہ امام (ع) کی تمام تر سرگرمیاں دنیاوی لالچ کے حصول کے لیے تھیں، رفتہ رفتہ امام عالی مقام (ع) کا وقار اور رعب و دبدبہ ان کے چاہنے والوں کی نظروں میں ماند پڑ جاتا اور ان کے سینوں میں امام (ع) کے ساتھ جذبہ اور عشق و ولولہ ٹھنڈا ہو جاتا۔[4]
4۔ عراق اور یمن میں حکومت کیخلاف ہونیوالے قیاموں کا سدّباب
 عراق اور یمن کے بیشتر شہروں میں مامون کے خلاف قیام کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں اور واضح سی بات ہے کہ ہر دنیا پرست سیاستدان کی طرح مامون بھی ان تمام تر ممکنہ خطرات کو مول لینا نہیں چاہتا تھا اور بروز ہونے سے قبل ہی فتنہ دفن کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے مامون کی نظر میں بہتر فیصلہ یہی تھا کہ امام رضا (ع) کو خراسان بلا کر ان کی تمام تر سرگرمیاں زیرِ نظر رکھی جائیں۔[5]
5۔  خراسان کے شیعوں کے دل موہ لینا
خراسان میں آلِ علی اور اہل بیت (ع) کے شیعوں کی اکثریت تھی، مامون کی کوشش تھی کہ ولایت عہدی کی پیشکش کے ذریعے انہیں بھی اپنی جانب رغبت دلا سکے اور یہ تاثر ظاہر کرے کہ میں بھی اہل بیت (ع) کا نام لیوا اور دلداہ ہوں، یوں علویوں کے خراسان میں عباسی حکومت کے خلاف ممکنہ اقدامات کا سدباب کیا جا سکے گا۔[6]

تحلیل و تجریہ:
لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ عیاں اور آشکار ہو جاتا ہے کہ مامون کسی طرح بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، کیونکہ جب امام رضا (ع) خراسان پہنچے اور انہیں تعظیم و تکریم کے ساتھ ولایت عہدی کی پیشکس ہوئی تو امام (ع) نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور فرمایا: ’’اگر تم ہی خلافت کے لیے سزاوار ہو تو تیرے اس لباس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنانا جائز نہیں ہے اور خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تجھے اسے مجھے سپرد کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ امام عالی مقام کے اس جواب سے مامون کے ذہن میں چھپے پشت پردہ عزائم خاک میں مل گئے، لہذا مامون کو اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا، آگ بگولہ ہو کر تھدید آمیز لہجے میں کہنے لگا: ’’اے اباالحسن! اگر آپ نے ولایت عہدی کی پیشکش ٹھکرا دی تو میں وہی سلوک کروں گا، جو خلیفہ ثانی نے اپنے بعد شوریٰ بناتے وقت کیا تھا کہ جو بھی شوریٰ کے انتخاب میں شرکت نہیں کرے گا، اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘[7]

شہید مطہری (رہ) لکھتے ہیں: ’’ امام رضا (ع) ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن حالات کی نزاکت کے باعث انہیں با دل نخواستہ ایسا کرنا قبول کرنا پڑا، کیونکہ ولایت عہدی کا مطلب یہی یہ ہے کہ مامون اس منصب کا حقدار تھا اور اب وہ کسی کو اپنا جانشین بنا رہا ہے۔‘‘ [8] اور جیسا کہ اس بات کی طرف امام رضا (ع) نے خود  اشارہ کیا ہے، فرمایا ’’جیسا کہ میرے جدّ علی ابن ابی طالب کو شوریٰ قبول کرنا پڑی تھی، میں بھی ایسے ہی ولایت عہدی قبول کر رہا ہوں‘‘ [9] بنابرایں،  امام رضا (ع) نے منصب ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے شرائط رکھیں کہ وہ عزل و نصب نہیں کریں گے اور ہر طرح کا حکم دینے سے کناہ کش رہیں گے۔ یوں آپ نے اپنے دامن کو ظلم و استبداد پر مبنی حکومتی اقدامات کی تائید سے الگ کر دیا اور  ریاستی امور میں مداخلت سے کنارہ کش ہو کر اسلام کی ترویج و تشہیر میں مشغول ہوگئے، لوگ دور دور سے امام (ع) کی قدم بوسی اور زیارت کے لیے خراسان کا رخ کرنے لگے، امام (ع) کا حلقہ عشاق بڑھتا گیا، مامون کے لیے یہ حالت ناقابل برداشت تھی کہ ظاہری طور پر منصب خلافت کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود دربار میں بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں، جبکہ لوگوں کے دلوں کے اعماق پر امام (ع) کی حکومت و سلطنت ہے۔

لہذا عوام میں امام (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کم کرنے کے لیے مامون نے مختلف مذاہب و مسالک کے نامور علماء کو دربار بلانا شروع کیا، لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارساز نہ ہوا، مناظرے پر بلائے گئے تمام فرقوں کے علماء نے امام (ع) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب پورے خراسان میں امام (ع) کی شہرت کا بول بالا تھا اور مامون ان کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دے رہے تھے، اس کی تمام تر تجاویز اور ترکیبیں جواب دے چکی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، خشکسالی اور قحط سالی سے رنجیدہ لوگ اپنا مدعا لے کر خلیفہ وقت کے پاس آئے، اب مامون کو پاس امام (ع) کی آزمائش کا ایک اور موقع ہاتھ آیا، وہ لوگوں کو  اپنے ساتھ لے کر امام (ع) کی بارگاہ میں آیا اور کہنے لگا: ’’ اے اباالحسن! آپ امام اور اللہ تعالیٰ کی مقرب مخلوق ہیں، آپ ہی بارش کے لیے دعا کیجیے!‘‘

مامون کو پورا یقین تھا کہ بھلا اس چلچلاتی دھوپ میں کیسے بارش ہوسکتی ہے؟! اب امام (ع) بھی دعا سے انکار نہیں کرسکتے اور اگر ہاتھ اٹھا کر بارش کے لیے دعا مانگیں اور بارش نہ ہو تو لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی عظمت ختم جائے گی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: "سب نماز استسقاء کے لیے صحرا کی طرف نکل آؤ، امام نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے، اچانک آسمان سے بادل نمودار ہوئے اور بجلی گرجنے لگی، لوگ بارش کے تصور میں اپنے لیے سر چھپانے کی تلاس میں ادھر ادھر دوڑے۔ امام (ع) نے فرمایا: یہ بادل فلاں علاقے پر برسیں گے، دس مرتبہ بادل نمودار ہوئے اور امام عالی مقام نے بادل برسنے کی جگہ کی نشاندہی کی، اب جو بادل آئے تو امام (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ بادل تمہارے لیے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔"[10]

اس واقعہ نے مامون کی کمر توڑ دی، اب مامون امام (ع) کے سامنے عاجز اور بے بس ہوچکا تھا، خراسان میں قیام کے مختصر عرصہ (صرف دو ہی برسوں) میں امام (ع) کی شہرت آسمانوں کو چھو گئی تھی، لہذا مامون کے پاس امام (ع) کو شہید کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا اور آخرکار ایسا ہی ہوا، 201 ہجری کو امام رضا (ع) خراسان تشریف لائے تھے اور  30 صفر 203 ہجری کو امام عالی مقام نے مامون کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مفيد، ارشاد، قم، مؤسسہ آل البيت، چھاپ اول، 1413، جلد2، ص261۔
[2]۔ صدوق، عيون الاخبار الرضا، تہران، انتشارات اعلمي، چھاپ اول، جلد2، ص 167۔
[3]۔ ابن صباغ مالكي، فصول المهمہ في معرفۃ الائمہ، قم، دارالحديث، چھاپ اول، 1422، جلد2، ص1027۔
[4]۔ صدوق، عیون اخبار الرضا، ص241۔
[5]۔ عاملي، جعفر مرتضيٰ، حياة السياسيه للامام رضا، قم، انتشارات جامعہ مدرسين، چھاپ جلد 2، 1362، ص 192. و حسن ابراهيم حسن، تاريخ سياسي اسلام، ترجمہ ابوالقاسم پاينده، تہران، انتشارات جاويدان، چھاپ نهم، 1376، جلد2، ص 174۔
[6]۔ گذشتہ حوالہ
[7]۔ اصفہاني، ابوالفرج، مقاتل الطالبيين، ترجمہ رسولي محلاتی، تہران، نشر صدوق، چھاپ دوئم، ‌بي‌تا، ص 524۔
[8]۔ شهيد مطہری، سيري در سيره ائمہ اطهار، جلد 27، تہران، صدرا، 1384، ص 207
[9]۔ شيخ صدوق، عيون اخبار الرضا، جلد 2، ص 141
[10]۔ مستدرک عوالم العلوم، محمد باقر ابطحی، مشہد مقدس، انتشارات بنیاد بین المللی فرھنگی ھنری امام رضا، ص421
 
 
 

گذشتہ دو ہفتوں ميں افغانستان میں اہلسنت کی مساجد پردہشت گردوں کے  بم دھماکوں میں ایسے علماء دین کو نشانہ بنایا گيا جو اسلامی مسالک کے درمیان تقریبی نظریہ رکھتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کابل یونیورسٹی کے استاد اور وزیر محمد اکبر خان مسجد کے امام مولوی محمد ایاز نیازی کو اس مسجد میں ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا۔ ادھر صوبہ تخار میں بھی وہابی دہشت گردوں نے مولوی عین اللہ خلیانی کو شہید کردیا جبکہ کابل میں شدت پسندوں نے  ایک اور حملے میں مولوی عزیز اللہ مفلح کو شہید کردیا ۔ افغانستان میں ممتاز مذہبی رہنماؤں کا بہیمانہ قتل ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے ۔ افغانستان میں شہید ہونے والے علماء اسلامی مسالک کے درمیان اتحاد اور تقریب کے حامی اور طرفدار تھے لہذا وہ طاقتیں جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی سے خوفزدہ ہیں ، ان کا ہاتھ افغان علماء کے قتل کے پيچھے نمایاں ہے۔

ایک طرف افغانستان میں صلح کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف افغانستان کے ممتاز علماء اور تقریبی نظریہ طرفدار اور حامی علماء کا سلسلہ وار قتل اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام اور افغان دشمن طاقتیں ان علماء کو درمیان سے اٹھانا چاہتی ہیں جو اسلامی وحدت و یکجہتی کے طرفدار ہیں ۔

افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کا آغاز کیا ہے جس کے بعد افغان انٹرا مذاکرات کے آغاز ہونے کا امکان ہوگیا ہے۔  لیکن وہ طاقتيں جو افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتیں وہ افغانتسان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے ذریعہ افغانیوں کو ایکدوسرے کے خلاف صف آراء کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا افغانستان میں دائمی حضور برقرار رہے لہذآ افغانستان حکومت کو چآہیے کہ وہ ایسے افراد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے جو افغانستان میں دشمن کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تنظیم ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ پالیسی کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی  مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی  مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

مہر نیوز: کیا کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے؟ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی: دنیا جانتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایکد یرینہ متنازعہ مسئۂہ ہے جس پر دونوں ممالک کے درمیان متعدد جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ میںم سئلہ کشمیر پر قرارداد بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ متنازعہ مسئلہ ہے کشمیر میں اقوام متحدہ کے بمصرین کی موجودگی بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ امور کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی  مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی  مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں قانون سازی کی کوئی حیثيت نہیں ، کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے جسے کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

علامہ  شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو میں کشمیری مسلمانوں کو فلسطینی مسلمانوں کی طرح مظلوم قراردیتےہوئے کہا کہ دنیا بھر کے باشعور لوگ بھارت کی  اس ناپاک سازش سے آگاہ ہیں اور دنیا بالخصوص عالم اسلام کے رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کی مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہوئے بھارت پر دباو  بنائیں تاکہ جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کرایا جائے اور کشمیری عوام کو بھارت مظالم سے نجات دلائی جاسکے۔

علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کا کہنا تھا کہ بھارتی وزراء کی جانب سے تحریک پیش کرنا اور حکومت کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے ہی مختلف قانونی آرٹیکلز میں ردو بدل کرنا نہتے کشمیریوں پر کھلا ظلم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو للکارنے کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی  ہے۔جس کی ہر پہلو سے مذمت کی جاتی ہے، جہاں اس موقعہ پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ضروری ہے وہاں حکومت پاکستان کو اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے واضح پالیسی کا اعلان کر کے ان کی ہر صورت میں اخلاقی اور سیاسی  مدد کرنی چاہیے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل  نےمہر نیوز کے ساتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندو تعصب کو پروان چڑھایا گیا کہ جس کے نتیجے میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے منسلک  نریندر مودی مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتا ہے اور اپنی متعصبانہ پالیسیوں سے مسلمانان ہند کے خلاف بالعموم اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف بالخصوص ظلم کا بازار گرم کرتاہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان میں شہریت قانون کے نام پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اور نریند مودی اپنے ہی ملک کے دستور کے برخلاف کروڑوں مسلمانوں کی شہریت کو منسوخ کرنے کے درپے ہے۔

علامہ شفقت حسین شیرازی نے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام کے حقوق کو کچلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دس ماہ  سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے کہ جب، کشمیری مسلمان اپنے بنیادی ترین حقوق سے محروم ہیں۔ ریاستی دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں جوان شہید ہو چکے ہیں، سیکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے اورکشمیر میں  ظلم کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں اور ظلم کی  چکی سے نکلنے میں ان کی مدد کریں۔ نریندر مودی جیسا شخص نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ جہاں کشمیریوں سے ہمارا ایمانی رشتہ ہے وہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کی روشنی میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ حیات بھی ہے اور جب کوئی کسی کے رشتہ کو پامال کرنے کی سوچے یا  اسکی شہ رگ کی جانب ہاتھ اٹھائے تو حق بنتا ہے کہ اس ظالم کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں،ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس حوالہ سےان کی بھی مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عرب دنیا میں پوری طاقت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے عرب ممالک کی عوام کو ابھی تک مسئلہ کشمیر کے بارے میں بالکل بھی معلوم نہیں ہے جو کہ امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی لاپرواہی اور کمزوری ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کشمیری عوام کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو واضح طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کریں مخصوصا وہ افراد جو کشمیر سے باہر مقیم ہیں ان کی اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری ہے کہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لائیں تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے۔

علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو کے آخر میں کشمیر کے مظلوم اور ستمدیدہ  مسلمانوں کی حمایت کا مکمل اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی حمایت کرنا ہمارا نہ صرف سیاسی بلکہ دینی اور ایمانی فریضہ ہے اور مجلس وحدت مسلمین ہر میدان میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے اور ہمیشہ کرتی  رہے گی۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں، جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔۱۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام  علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بہت مانوس تھیں، انہیں کے پر مرن دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔

اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے  کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ حضرت معصومہ (س) گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ (س) کی عمر بہت کم تھی، لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔۲۔

مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں نخ حضرت معصومہ (س) کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا (س) کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کی جگہ معلوم  کرنے کے لئے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ (س) کی قبر ہے۔" پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے۔

امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستہ میں جب ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے، لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۳۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ ۴۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو اہل قم نے گلبارن کرتے ہوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔۵۔

بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ (س) ہے، یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ (س) کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا، جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ (س) کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ (س) کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س) کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔۶۔

امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" ۷۔ یعنی جس نے قم میں معصومہ (س) کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَهٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ؛۸۔
"خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔"
ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت ہوگا"۹۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ (س) بنت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے۔" امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔"

منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی
3۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
4۔ زندگانی حضرت معصومہ/آقائے منصوری: ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی
5۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری
6۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳
7۔ مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.

Wednesday, 24 June 2020 05:34

بیٹی گلدستہ گھرانہ

تحریر: مظفر حسین کرمانی

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت بیٹی کا وجود ہے۔ پروردگار جب کسی انسان پر بہت مہربان اور اس کے لئے بہتری چاہتا ہے تو اسے بیٹی عنایت کرتا یے۔ بیٹیاں دراصل کسی بھی گھرانے کی رونق ہوتی ہیں، ان کے وجود بابرکت سے ہی گھر چہکتا و دمکتا ہے۔ اگر کسی گھر سے بیٹی کا وجود اٹھا لیا جائے تو وہ گھر ایک ویران عمارت کی مانند ہو جاتا ہے، کیونکہ کسی بھی گھر کو رونق بخشنے والی بیٹیاں ہیں۔ عموماً بیٹوں نے اپنی رونقیں باہر کی دنیا سے وابستہ کی ہوئی ہوتی ہیں، لیکن بیٹیوں کے لئے ان کا گھر ہی سب کچھ ہوتا یے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بیٹیاں بہت کم عمری میں ہی گھر کے مسائل پر توجہ دینا اور ان کا ادراک کرنا شروع کر دیتی ہیں، انہیں حل کرنے کی جستجو اور کوشش میں ہوتی ہیں، جبکہ بیٹے بعض اوقات بڑے ہو کر بھی لاپرواہ اور ان مسائل کی بابت اس حد تک حساس نہیں ہوتے۔

اسلام نے بیٹیوں کو بہت عزت اور شرف سے نوازا ہے۔ اسلام سے قبل جاہلیت کے دور میں خواہ مشرق ہو یا مغرب، عورتوں کو بالکل عزت نہیں دی جاتی تھی، حتیٰ انہیں انسان تک نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسے آدھی مخلوق، منحوس، پلیدی کی علامت اور اس طرح کی دیگر خرافات لوگوں نے بنا رکھی تھیں، جس کی بنیاد پر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے تو وہ اپنے لئے بہت ہی شرم محسوس کرتا تھا، و چہ بسا انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر ان جاہلیت اور خرافاتی افکار کا خاتمہ کیا اور عورتوں و بیٹیوں کو وہ عزت اور مقام دیا، جو ان کے شایان شان یے۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خبر دی گئی کہ انکے ہاں بیٹی ہوئی ہے تو آپ نے دیکھا کہ اصحاب کے چہرے اتر گئے ہیں، آپ نے ان کی طرف نگاہ کی اور ان کی اس حرکت پر مذمت کرتے ہوئے فرمایا "کیوں تمہیں اس خوشخبری سے کراہت محسوس ہو رہی ہے، بیٹی وہ پھول ہے کہ جس کی خوشبو کو میں سونگھوں گا و استشمام کرونگا اور اس کے رزق کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔"(من لا یحضر الفقیہ ج 3 ص 482)

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے بیٹیوں کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث و روایات منقول ہیں، جن میں بیٹیوں کو گھر کی برکت، گھر کا پھول، باقیات الصالحات، قرب خداوندی کا ذریعہ اور ماں باپ کے لئے باعث نجات عذاب آخرت قرار دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کی اچھی تربیت اور انہیں تعلیم سے آراستہ کرنے والے کو بہت ہی اجر عظیم دینے کا وعدہ کیا گیا یے، حتیٰ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں ایسے شخص کو اپنے نزدیک افراد میں شمار کیا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کی رپورٹ یا آئی اے ای اے کے بورڈز آف گورنرز کی قرارداد کے نتیجے میں امریکہ اور چند یورپی ممالک کی جانب سے ایران پر دباو میں مزید شدت آ جانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران کو اس کے مقابلے میں کیا کرنا چاہئے؟ گذشتہ 17 برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کئی بار یورپ سے لے کر امریکہ تک اپنے دشمن ممالک کو آزما چکا ہے اور ہر بار اسے تقریباً واضح جواب موصول ہوا ہے۔ ایران کے اندر بعض بااثر شخصیات اور سیاسی قوتیں ابتدا سے ہی خبردار کرتے آئے ہیں کہ نہ تو امریکہ اور نہ ہی یورپی ممالک اس قابل نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔ حتی ایسے سیاسی حلقے جو امریکہ یا یورپی ممالک سے مثبت توقعات قائم کئے ہوئے تھے بھی اب اس نتیجے پر آن پہنچے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے گذشتہ 17 برس کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک سے مذاکرات کے دوران انتہائی قیمتی تجربات حاصل کئے ہیں۔ یہ تجربات مستقبل میں ایران اور دیگر ممالک کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ چند اہم تجربات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بنا کر شدید دباو ڈالا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن امور کا سہارا لے کر ایران پر سیاسی اور اقتصادی دباو ڈالا گیا ان کا ایران کے جوہری پروگرام سے دور دور تک کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا اصلی ترین مقصد ایران کو اسلامی انقلاب سے پہلے والی حالت میں واپس لوٹانا ہے جب ایران مغرب کی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا۔
2)۔ اس وقت ایران کے دشمن ممالک کے پاس جو واحد ہتھکنڈہ باقی بچ گیا ہے وہ اقتصادی نوعیت کا ہے۔ یہ بات منطقی لحاظ سے بھی انتہائی واضح ہے اور امریکہ اور مغربی حکمرانوں کے اعترافات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس اقتصاد سے ہٹ کر جنگ یا فوجی ہتھکنڈہ ہوتا تو وہ اسے ضرور ایران کے خلاف بروئے کار لاتے۔ کیونکہ اقتصادی جنگ کے مقابلے میں فوجی جنگ بہت زیادہ آسان اور کم پیچیدگیوں کی حامل ہے۔ لہذا اگر امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے خلاف شدیدترین بیان بازی کے بعد اقتصادی ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فوجی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔
 
3)۔ دشمن ممالک کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اقتصادی دباو بذات خود اصلی مقصد نہیں بلکہ وہ ایرانی حکمرانوں اور عوام کی سوچ اور اعتقادات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا بانی رچرڈ نفیو اپنی کتاب "پابندیوں کا فن" میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں ایرانی حکومت اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل مقصد ایران کو امریکہ اور یورپ کا پیرو اور تابعدار بنانا ہے۔
4)۔ امریکہ کی بنیادی پالیسیوں میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ اگرچہ ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سیاست دان شدت پسندانہ سوچ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ سیاست دان پرامن سوچ کے مالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وحشیانہ پن اور بربریت میں ڈیموکریٹک پارٹی کسی طور ریپبلکن پارٹی سے کم نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلئے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کے خلاف سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے زیادہ موثر اقتصادی پابندیاں براک اوباما کے دور میں عائد کی گئی تھیں۔ اس بات کی تصدیق امریکہ کے اعلی سطحی مذاکرات کار ویلیم برنز نے اپنی کتاب "درپردہ کینال" میں کی ہے۔
 
5)۔ دشمن کے ہاتھ میں موجود واحد ہتھکنڈے کے طور پر اقتصادی پابندیاں بھی بے نہایت اور نامحدود نہیں ہیں۔ جیسا کہ رچرڈ نفیو نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے اور امریکی اور یورپی حکمران بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایک حد تک موثر ہیں۔ اس وقت ایران کے خلاف عائد پابندیاں اپنی شدید ترین حد تک ہیں۔ لہذا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ وہ ایران کے خلاف وسیع ترین پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تو رچرڈ نفیو نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "میں یہ بات سن کر بہت خوش ہوا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام پابندیاں 2011ء میں ہی عائد کر دی گئی تھیں۔ لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔"
البتہ امریکہ اور مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کو زیادہ موثر بنانے کیلئے نفسیاتی جنگ کا سہارا لیتے ہیں اور اقتصادی دباو کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ گذشتہ سترہ برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کے جارحانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اپنے مسلمہ حقوق کا دفاع کیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امریکہ اور مغربی ممالک ایران میں حتی ایک سنٹریفیوج بھی چلنے کے مخالف تھے لیکن ایران کی استقامت اور شجاعت کے باعث محدود پیمانے پر یورینیم انرچمنٹ کا حق حاصل کر چکا ہے۔
 
 
 

تحریر و ترتیب: مجتبیٰ ابن شجاعی

طلوع اسلام سے قبل مختلف ادیان میں عورت کے بارے میں دل دہلانے والے شرمناک اور افسوسناک عقائد و افکار تھے۔ مکتبِ جاہلیت کے پروردہ انسان نما درندوں نے جنسیت کی بناء پر عورت کے مقام کو نیچے گرا دیا تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا۔ سنگ دل باپ شرم و عار محسوس کرکے بے رحمانہ انداز میں اپنی معصوم کلی کو زندہ درگور کرتا تھا۔ قرآن پاک اس دردناک واقعہ کی تصویر کشی کرتا ہے ”اور جب خود ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی تھی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا تھا اور خون کے گھونٹ پینے لگتا تھا، گویا بہت بری خبر سنائی گئی ہے۔“(سورہ نحل آیت نمبر 58-59) اسی واقعہ کے تناظر میں کلام پاک ان ظالم اور جابر افراد کے احساسات و اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں ارشاد فرماتا ہے ”جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ انہیں کس خطاء میں مارا گیا۔“(سورہ التکویرآیت نمبر 8-9)

جہالت کے گھٹا ٹوپ دور میں جب صدر اسلام کا نور چمکا تو آپ نے عورت کو عزت، وقار، رتبہ اور مقام و منزلت بخشا۔ مساوات، برادری اور برابری کا نظریہ پیش کیا۔ جنسیت، حسب و نسب رنگ اور نسل کو مرد و عورت کے درمیان برتری و بلندی کا میعار قرار نہیں دیا بلکہ واضع الفاظ میں بیان فرمایا کہ ”اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہے۔“(سورہ الحجرات آیت 13) کلام پاک کی رو سے مرد اور عورت از لحاظ جنسیت ایک دوسرے کے مساوی ہیں۔ کلی طور پر اگر دیکھا جائے تو مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے دونوں کے مقام و منزلت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں جنس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جو صرف مردوں یا صرف خواتین پر مشتمل ہو۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ”تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔“ قرآن پاک میں عورت کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں، جن کے ذریعے عورت کی فضیلت مقام و مرتبے کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور یہ آیات قرآنی مرد و عورت کے مابین فرق کے نظریہ کو خارج کر دیتے ہیں۔

سورہ مبارکہ نحل آیت نمبر 97 میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبان ایمان ہو، ہم اسے پاکیزہ حیات عطاء کریں گے۔“ اس آیہ کریمہ میں مرد و عورت کو از لحاظ جنسیت مساوی حیثیت دے کر واضح کر دیا گیا کہ جنسی اعتبار سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں، اگر ایک دوسرے پر فوقیت ہے تو وہ صرف ایمان، اخلاق، تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ہے، یعنی تقویٰ و پرہیزگاری کو محبوبیت کا بنیادی عنصر قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری آیت میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: ”اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے، تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔“(سورہ حجرات آیت نمبر 13) اسی طرح سورہ مبارکہ روم آیت نمبر 31 میں زن و مرد کے مساوی ہونے کی دلیل پیش کی گئی ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے حسین بیویاں پیدا کیں، تاکہ تمہیں سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔“

سورہ بقرہ میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے، اسی طرح سورہ احقاف آیت نمبر 15 میں دوران حمل ماں کی زحمت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے والدین (ماں باپ) کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ گویا قرآن کریم کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کا وجود مساوی ہے۔ کلام پاک کے علاوہ رسول اکرم و ائمہ اطہار ؑکی نگاہ میں بھی مرد و عورت جنسیت، حسب و نسب اور رنگ و نسل کے اعتبار سے مساوی ہیں۔ پیامبر گرامی اسلام کا ارشاد ہے کہ ”لڑکیاں تمہاری بہترین اولاد ہیں۔“(مکارم الاخلاق ص 219)۔ روایات میں ہے کہ جب رسول گرامی اسلام کو بیٹی کی پیدائس کی بشات دی گئی تو اصحاب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اصحاب کے چہرے سے کراہیت سی ظاہر ہونے لگی تو رسول اسلام نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ "تمہیں کیا ہوگیا، لڑکی ایک پھول ہے، جسے ہم سونگھتے ہیں اور اس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپر ہے۔“(بحار الانوار جلد 20)

اس طرح سے قرآن و احادیث مرد و عورت کے مساوی ہونے کی وکالت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت انسانی معاشرہ کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہے۔ انسانی معاشرہ کا نصف حصہ مثل ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ نسل انسانی کا ذریعہ ہے۔ مرد کی ترقی، کامیابی اور کامرانی میں اس صنف نازک کا ایک اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ بڑے دلکش انداز میں اہمیت عورت کی تصویر کشی کرکے فرماتے ہیں:
وجود زن سے ہیں تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
طول تاریخ میں مثالی خواتین نے وقتاً فوقتاً ایک کردار نبھایا۔ وحدانیت، رسالت اور امامت کے پرچار میں شانہ بشانہ مردوں کا ساتھ نبھایا۔ عظیم الشان خواتین نے انبیاء و اولیاء ﷲکے مقدس مشن کی آبیاری میں اپنا آرام حرام کر دیا۔ مریم ؑ ، آسیہ، ہاجرہ ؑ، بی بی آمنہ، فاطمہ بنت اسدؑ، حضرت خدیجہ، دیگر امہات المومنین، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا ؑ اور شیر دل خاتون جناب زینب ؑ جیسی مثالی، نڈر اور باہمت خواتین نے دین مبین اسلام کے تئیں بیش بہا خدمات انجام دے کر اسلامی و انسانی معاشرے کا لازمی کردار ہونے کا ثبوت پیش کیا۔

عصر حاضر میں سید علی خامنہ ای شہید قاسم سلیمانی، شہید محسن حججی، شیخ زکزکی، شیخ باقر نمر النمر، سید حسن نصراللہ، خالد مشعل جیسے عظیم المرتبت مجاہدین اور شہدائے اسلام کی خواتین نے جس انداز سے اپنے مرد مجاہدوں کا حوصلہ بڑھایا، جہاد برائے اسلام میں ان کا ساتھ نبھایا اور اسلامی معاشرے میں خواتین کی آزادی کا جیتا جاگتا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ صدیوں کی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مغربی اور یورپی نظام کی پروردہ خواتین کو ”نام نہاد آزادی نسواں“ کے نظریئے کے باوجود بھی اس طرح کی آزادی نصیب نہیں ہوگی۔ امام خمینی (رہ) فرما رہے ہیں کہ ”مرد در دامن زن بہ معراج می رود“(صحیفہ امام) یعنی ایک مرد کے کمال تک پہنچنے میں خاتون کا اہم رول ہوتا ہے اور زن باہوش کے بلند قامت حوصلوں کے سائے تلے ایک مرد قرب خدا کی معراج حاصل کرسکتا ہے۔ قول خمینی ؒ کی تازہ مثال شہید قاسم سلیمانی، شہید حججی جیسے شہداء ہیں، جن کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت میں ان کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کا حوصلہ اور ہمت پوشیدہ ہے۔ علامہ اقبال (رہ) نے عورت کی اہمیت دلکش الفاظ میں بیان کی ہے:
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

افسوس کا مقام ہے کہ اگرچہ عورت شعور و ادراک کے اعتبار سے ناقص نہیں تو پھر معاشرے میں عورت کے مقام کو کیوں کر اور کس طرح گرا دیا گیا۔ عورت پس سے پست ترین اور کمزور مخلوق کیوں سمجھی گی۔ کمتری کا برتاو کرکے عورت کو صرف گھر کی نوکرانی کے روپ میں پیش کیا گیا۔ نرم اور نازک مزاج عورت پر آئے روز دست درازی، محض مرد کی جنسی تسکین کا ذریعہ اور کھلونا کیوں سمجھا جا رہا ہے۔ ان سختیوں اور اذیتوں نے صنف نازک کو احساس کمتری کا شکار بنا دیا۔ تاریخ کے جھروکوں سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی پستی اور گراوٹ کا ذمہ دار مغرب کا استعماری نظام ہے، جس نے نام نہاد آزادی نسواں کے نام پر عورت کا استحصال کیا۔ عورت کو نوکرانی کے روپ میں پیش کرکے اس کا مقام حد درجہ گرا دیا۔ آزادی زن کے پرچم تلے عورت کی عصمت اور شرم و حیا کا سودا کیا۔ جنسی آزادی کے نام پر خواتین کو ہوس کے غلیظ و بدترین قید خانے کی جانب دھکیل دیا۔

آج کے انسانی معاشرے میں اگر کسی جگہ عورت کے ساتھ دست درازی، عصمت دری، چھیڑ خوانی اور قتل و غارتگری کے واقعات رونما ہو رہے ہیں تو یہ مغرب کی ہی دین ہے۔ اسلامی نظام کے ہوتے ہوئے کسی کی مجال نہیں تھی کہ کہ عورت کی جانب میلی نظروں سے دیکھے۔ استعماری نظام کے ہوتے ہوئے ان نظروں کی ہمت بڑھ گئی اور بے چاری عورت ہوس و درندگی کا شکار بن گئی، یہ مخلوق مظلوم تر بن گئی۔ بقول ڈاکٹر شریعتی ”مغرب کے استعماری نظام کا سب سے گھناونا حربہ فرائڈزم کی جنسی آزادی کا تصور تھا۔“ ڈاکٹر شریعتی کہتے ہیں کہ ”ہمارے دور میں مشرقی عورت کی تین قسمیں ہیں، ایک وہ جو روایات کہنہ کا شکار ہے اور ان روایات کو مذہب سمجھ کر انہیں ناقابل تغیر سمجھتی ہے، عورتوں کی دوسری قسم وہ ہے، جو مغرب کی نقالی کو اپنی نجات اور آزادی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ عورتوں کی تیسری قسم وہ ہے، جو آگاہ اور باشعور ہے، جو اپنے لیے خود انتخاب کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ عورت ہے، جو نہ چہرہ موروثی کو قبول کرتی ہے اور نہ مغرب سے درآمد شدہ مکروہ اور انسانیت دشمن نظریات میں گرفتار ہونا چاہتی ہے۔“

اگر اجتماعی طور پر دیکھا جائے کہ ان تینوں قسموں میں دوسری قسم کی عورت سب سے زیادہ ہوس کا شکار بن رہی ہے۔ اس قسم کی عورت نے مغربی نظام کے ساتھ اپنے جسم کا سودا کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سودا کرنے والی عورت کا جنسی ہوس کا شکار ہونا یقینی ہے۔ افسوس صد افسوس اس قسم کے طبقے میں مغرب نقال مسلم خواتین کی ایک تعداد شیطانی خواتین کے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنی زندگی برباد اور معاشرہ آلودہ کر رہی ہیں۔ ہماری وادی کشمیر جسے ایک وقت ”پیرہ واری“ کے نام سے جانا جاتا تھا، میں بھی مغرب نقال خواتین کی ایک بڑی تعداد صاف و پاک معاشرے کو آلودہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ بے جا نہ ہوگا کہ اس وادی گلپوش میں آئے روز عصمت دری اور چھیڑ خوانی کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، اس کی ذمہ دار مغرب نقال خواتین ہیں۔ بڑی حد تک مغرب پرست والدین بھی ہیں، جو اپنے اولاد کی تربیت شیطان کو سونپ رہے ہیں۔

ڈاکٹر شریعتی مزید کہتے ہیں کہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات انسانیت اور حرمت کے دشمن ہیں، یہ آزادی کے نام پر عورت کو جنسی بے راہ روی کے دام میں گرفتار کرکے اپنے مذموم مفادات اور پست مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔(مسلمان عورت اور عہد حاضر کے تقاضے) اگرچہ آزادی ہر فرد کا بنیادی اور فطری حق ہے، لیکن انقلاب فرانس کے بعد اس اصطلاح کو ہائی جیک کرکے مغربی اور یورپی نظام نے آزادی زن کے نام پر انسانی معاشرہ کو آلودہ کیا۔ اس غلیظ ترین نظام نے بیہودہ اور جاہلانہ قوانین تیار کرکے آزادی کے نام پر عورت ذات کا استحصال کروایا۔ اس نظام نے عورت کا مقام مفلوج زدہ کر دیا۔ ڈریس کوڑ اور دیگر ذرائع سے عورت کی عصمت کو سرعام نیلام کر دیا۔ حماقت کی بات ہے کہ آزادی زن کے نام پر مغرب کے اس بیہودہ تصور نے بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی تمدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سادہ لوح مسلمان نے تعلیمات قرآنی اور اسوہ معصومین کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کے فرسودہ نظام کا جوش و جذبہ کے ساتھ استقبال کیا اور اپنے بدنصیب کندھوں پر شریعت کا جنازہ نکال کر اپنی پستی، ذلالت و رسوائی کا اعلان کر دیا۔

مغرب نے سب سے پہلے حجاب کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا، مسلمان خواتین کے ایک طبقے نے بے شرم معاشرہ کی نقالی کرتے ہوئے اپنے سروں سے حجاب اتار دیا۔ اپنے تنوں کو تنگ لباس سے عریاں کر دیا، یہ بے حجابی ان کی تذلیل و تحقیر کا بنیادی سبب بنی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نام نہاد آزادی زن کے ڈھنڈورے پر فرماتے ہیں کہ ”مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہے، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گیا ہے؟ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گیا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں، اسے چاہیئے کہ سجے سنورے، تاکہ مردوں کو اچھے لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔“

قرآن پاک بھی بے حجابی، بیہودگی اور عریانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے: ”اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناو سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز کی ادائیگی کرو، زکواۃ دو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو۔“(احزاب آیت 33) الغرض مغربی نظام نے آزادی نسواں کے نام پر جس عورت کو کھلونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسلام نے اسی مخلوق کو حجاب کے سائے میں عظیم رتبہ اور مقام دیا ہے۔ عورت اس وقت جو احساس کمتری کا شکار ہوگئی ہے، ظلم و تشدد کا نشانہ بن گئی ہے، اس میں زیادہ تر عورت کا ہی ہاتھ ہے، ساتھ ہی ساتھ والدین اور چھوٹے بڑے مسلم حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ دورحاضر کی خواتین اگر خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ اور ثانی الزہراؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائیں تو ان کی تمام مشکلات کا حل بغیر کسی کے جھنڈے تلے حل ہو جائیں گے۔ خواتین کا جو طبقہ رسول اسلام کی میلاد کو یوم رہبر، مولائے کائنات کے یوم ولادت کو یوم پدر، حضرت زہرا ؑ کے میلاد باسعاد کو یوم مادر اور جناب ذینب ؑ کے یوم ولادت کو یوم خواہر کے طور پر مناتا ہے اور ان کی سیرت پر عمل پیرا ہوتا ہے، وہ طبقہ دین و دنیا میں سرخرو ہے۔ مادران را اسوہ کامل بتول ؑ۔(اقبال)

ابتدائے اسلام میں خواتین کا کردار
  مصنف: ظہور احمد اظہر
ادیان عالم کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں بلکہ ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے۔ یہ تو گزشتہ ایک دو صدیوں کی بات ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیا لیکن اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے، قابل تحسین کارنامہ بھی اور قابل فخر تاریخ بھی! بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلام کی تاریخ کی تو ابتدا ہی عورت کے شاندار کردار سے ہوتی ہے۔ اس دین حق کا تونقطہ آغاز ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے عبارت ہے! یہ بات الگ ہے کہ آج ترقی یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والی دنیا حقوق نسواں کی علمبردار بنی ہوئی ہے اور چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغار اور مسلسل لوٹ مار کے ستائے ہوئے مسلمان معاشروں میں جہالت و پسماندگی کے باعث مسلمان عورت سے اس کا تاریخ ساز کردار بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے بھی محروم کردی گئی ہے جو اسے دین اسلام نے سونپا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ تو شروع ہی عورت کے تعمیری و تاریخی کردار سے ہوتی ہے ہماری تاریخ تو عورت کی ہمت، دانائی، حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور قابل فخر کردار سے معمور ہے۔ ہمارا نقطہ آغاز تو حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہوتا ہے جب ضعیف و ناتواں سمجھی جانے والی صنف نازک ہمت و عظمت کا ایک پہاڑ اور حوصلہ افزائی کا ایک سرچشمہ بن کر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کھڑی ہوجاتی ہے اور ایک غیر متزلزل ستون کی طرح سہارا بن جاتی ہے۔ غار حراء سے اتر کر اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے تو گھبراہٹ اور پریشانی کے سائے آپ کا پیچھا کر رہے تھے مگر اپنے شوہر کی پاکبازی، بلند اخلاق اور انسان دوست کردار کی گواہ بن کر نبوت پر سب سے پہلے ایمان لے آئیں اور فرمایا کہ ’’اے مجسمہ صدق و امانت! اللہ تعالیٰ آپ جیسے بلند کردار کو کبھی پریشانی اور گھبراہٹ کے سایوں کے سپرد نہیں کرے گا۔ آپ انسانی معاشرہ کے لئے اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ جس انسان کا یہ مرتبہ و کردار ہو اللہ تعالیٰ اسے بھلا تنہا چھوڑ سکتے ہیں۔ آپ یقینا اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں اور یہ جو پیغام آپ کو ملا ہے اس کا لانے والا وہی جبریل امین، وہی ناموس حق اور وہی فرشتہ ہے جو ابراہیم، خلیل اللہ علیہ السلام اور موسیٰ، کلیم اللہ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام حق لے کر آتا رہا ہے۔ آیئے میں اس کی تصدیق آپ کو اپنے بھائی ورقہ بن نوفل سے کرائے دیتی ہوں جو مقدس صحیفوں کے عالم ہیں اور نبیوں کے احوال سے بخوبی آگاہ ہیں‘‘۔
غار حراء میں گوشت پوست سے عبارت ایک فرد بشر کا سامنا عالم ملکوت کی دنیا کے سرخیل حضرت جبریل امین علیہ السلام سے ہوا یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ عرش سے فرش کے ارتباط کی بنیاد پڑی تھی۔ اس کے وقوع پذیر ہونے پر سیّد وُلِدَ آدَمَ حضرت سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پریشانی اور گھبراہٹ ایک فطرتی بات تھی بلکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ غیر فطری بات ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ حواء کی بیٹی کی عظمت کو انسان بھول گئے ہیں اس کی عظمت رفتہ کو اجاگر کرنے اور عورت کا مرتبہ ہمیشہ کے لئے منوانے کی غرض سے ایک خدیجۃ الکبریٰ کے کردار کی ضرورت ہے۔ ایسا کردار جس کے سامنے انسانیت ہمیشہ جھکتی رہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حج اور عمرہ مکمل کرنے کے لئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت کو لازم ٹھہرا دیا گیا ہے اسی طرح سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے عظیم الشان کردار سے عورت کی عظمت کو ہمیشہ کے لئے تسلیم کروا لیا جائے۔
اس کے بعد دعوت اسلام میں سب سے زیادہ اذیت بھی خواتین نے اٹھائی۔ دعوت الی اللہ کی خاطر سب سے پہلی شہادت بھی عورت کے حصہ میں آئی جب حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے شہادت قبول کرکے ظلم کو ٹھکرا دیا۔ سب سے پہلے ہجرت کرنے والوں میں بھی خواتین پیش پیش تھیں۔ حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرت کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ اللہ کی راہ میں پہلے ہجرت کرنے والے ہیں۔ ہجرت کے بعد قیام حبشہ کے دوران مسلم خواتین کا کردار بھی تاریخ ساز ہے۔
ابتدائے اسلام یا دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں مسلم خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بھرپور کردار ادا کیا اور بڑی آزادی اور خوشی کے ساتھ ادا کیا۔ علم سیکھنے سکھلانے کا میدان ہو یا معاشرتی خدمات کا میدان، اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع ہو یا سیاست و حکومت کے معاملات ہوں، سب میں خواتین کا واضح، روشن اور اہم کردار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین سب ایک ساتھ شریک ہوتے تھے اور دین کی باتیں پوچھتے اور سمجھتے تھے۔ صحابیات رضی اللہ عنہن نے شکایت کی کہ خواتین سے متعلق کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم اپنے باپ دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے ایک دن الگ سے مخصوص کردیا جس میں مرد شریک نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح چھ دن مردوں کے ساتھ اور ایک دن الگ سے حاضر ہو کر اپنے مسائل کا حل پوچھتی تھیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک خواتین کی تعلیم و تربیت مردوں سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔
میدان جنگ میں مسلم خواتین، مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور اس کار خیر میں کسی بڑے یا چھوٹے کی تفریق و تمیز نہیں تھی حتی کہ غزوہ احد میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے موجود تھیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی مسلم خواتین نے اپنے ایسے ہی کارہائے خیر میں بھرپور کردار ادا کیا، ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا جو طب کا علم کامل رکھتی تھیں ان کا خیمہ ایک ڈسپنسری اور ہسپتال کا کام دیتا رہا۔ اس ابتدائی عہد اسلام میں مسلم خواتین نے مشاورت میں بھی اپنا تعمیری کردار ادا کیا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ جہاں کوئی حیلہ کارگر ثابت نہیں ہورہا تھا وہاں ایک مسلم خاتون کی صائب اور درست رائے نے مسئلہ کا کامیاب حل پیش کرکے حالات کا رخ ہی بدل دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مکرمہ کے قرب و جوار سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کئی سال بعد آئے تھے مگر عمرہ و زیارت بیت اللہ کے بغیر واپس ہونے پر مجبور ہونا پڑا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام کھول کر واپس جانے کا اعلان فرما دیا تھا مگر زیارت بیت اللہ کے لئے تڑپنے والی نیک روحیں جیسے بے جان ہوکر بیٹھ گئی ہوں، آپ فکر مند تھے کہ یہ غمزدہ ساتھی ٹس سے مس نہیں ہو رہے انہیں احرام کھولنے پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ آپ اسی حال میں اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ لیا، اہل ایمان کی روحانی ماں اپنے فرزندوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھیں۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ جانتے ہیں کہ آپ کے جانثار تو آپ کے نقش قدم پر چلنے کے منتظر رہتے ہیں، اگر آپ احرام کھول دیں اور وضو کرکے نفل سے فارغ ہو کر تیاری کرلیں تو یہ لوگ بھی دوڑ کر آپ کے نقش قدم پر چل پڑیں گے چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ جب آپ احرام کھول کر تیار ہوئے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ کی پیروی کی اور چند لمحوں میں غمزدہ قافلہ مدینہ منورہ کی طرف رواں دواں تھا۔
وصال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے تعلیم قرآن کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی مسائل کی تعلیم بھی دینا شروع کردی حتّٰی کہ ام المومنین رضی اللہ عنہما کا اپنا حجرہ ایک درسگاہ نظر آنے لگا۔ امہات المومنین کی پیروی میں دیگر خواتین اسلام نے بھی اشاعت علم اور فہم دین کو اپنے لئے لازم ٹھہرا لیا۔ اس طرح علم کی تدریس، تعلیم کے فروغ اور حدیث کی روایت میں ابتدائی دور کی مسلم خواتین نے سرگرم کردار ادا کیا۔ یہ سب باتیں ایک حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ ابتدائے اسلام میں مسلم خواتین نے اپنا بھرپور تعمیری اور مثبت کردار ادا کرکے آنے والے وقتوں کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ اور قابل تقلید مثالیں قائم کردی ہیں جو آج بھی مسلمان عورت کے لئے مشعل راہ ہیں اور رہیں گی۔