
سلیمانی
نھج البلاغہ میں عبادت کے اقسام

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر
عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ھیں۔”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[1]
”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ھیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ھیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ھیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔ اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
پھلی قسم :تاجروں کی عبادت
فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“
یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ھیں۔ امام فرماتے ھیں یہ حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے تاجر حضرات کا ھم و غم فقط نفع اور انعام ھوتا ہے۔ کسی کی اھمیت اُس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نھیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رھا ھوتا ہے۔
دوسری قسم :غلاموں کی عبادت
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔
امام فرماتے ھیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ھیں یہ بھی حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نھیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رھا ہے۔
تیسری قسم :حقیقی عبادت:
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔
امام فرماتے ھیں کہ کچھ لوگ ایسے ھیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ھیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے۔ چونکہ یھاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ھیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ھیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔
عبادة کے آثار میں سے ایک اھم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ھیں:
”إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔(2)
امام علی(ع) فرماتے ھیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ھیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ھیں“
حوالہ:
[1] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔
[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔
امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا نیا انداز
تحریر: حسین الموسوی
دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ دشمنی پر مبنی ہر ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں مدمقابل شخص یا افراد میں رعب اور وحشت کی فضا پیدا ہو جائے اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی ہر ایسا عمل ہے جو حکومتیں اپنے شہریوں یا غیر ملکی گروہوں اور حکومتوں کے خلاف انجام دیں جس کے نتیجے میں وہ غیر ملکی حکومت یا اس کے شہری خوف و ہراس کا شکار ہو جائیں اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اگر ہم ریاستی دہشت گردی کی اس تعریف کو سامنے رکھیں تو ہمیں امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف انجام پانے والے اقدامات میں اس کی بہت سی مثالیں اور نمونے مل جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے اقدامات کے انداز بھی بدلتے رہے ہیں۔
حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے دو جنگی طیارے تہران سے بیروت جانے والے ماہان ایئر کے مسافر بردار طیارے سے انتہائی قریب ہوئے جس کے نتیجے میں مسافرین میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوا۔ پائلٹ نے بھی ممکنہ خطرناک صورتحال سے بچنے کیلئے انتہائی تیزی سے اپنی اونچائی کم کی جس کے نتیجے میں کئی مسافر زخمی بھی ہو گئے۔ یہ ایران کے خلاف امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ تھا اور اس کا انداز بھی ماضی میں انجام پانے والے ریاستی دہشت گردی کے واقعات سے بہت مختلف تھی۔ یاد رہے امریکی حکومت نے ایران کی فضائی کمپنی ماہان ایئر کے خلاف بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ماہان ایئر کے طیارے فوجی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہیں۔
تہران سے بیروت جانے والی مذکورہ بالا پرواز ایک مسافر بردار طیارے کی صورت میں تھی۔ لہذا اسے جنگی طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی ملک پر عائد کردہ پابندیاں صرف امریکہ کے قانون کے تحت انجام پاتی ہیں اور بین الاقوامی قانون میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایران کا لبنان جانے والا مسافر بردار طیارہ جس وقت امریکی جنگی طیاروں کی جانب سے خطرے کا شکار ہوا شام کی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔ یعنی یہ طیارہ امریکہ کی فضائی حدود میں نہیں تھا۔ دوسری طرف اس کا فضائی روٹ اور پرواز تمام تر بین الاقوامی فضائی قوانین کے عین مطابق تھا۔ جبکہ شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے جنگی طیاروں کی موجودگی اس ملک کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کے عین مخالف تھی۔
ایک ملک کے جنگی طیاروں کا غیر قانونی طور پر دوسرے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہو کر تیسرے ملک کے مسافر بردار طیارے کو خطرے کا شکار کرنا ریاستی دہشت گردی کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ عراق میں اس کے جنگی طیارے داعش کے خلاف تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے تحت موجود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد داعش مخالف فوجی اتحاد کو نہ تو عالمی برادری اور نہ ہی اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی قانونی جواز حاصل ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ کے اس اقدام کے بعض ممکنہ انتہائی خطرناک قسم کے اہداف بھی سامنے آ رہے ہیں۔ لبنان میں شام کے سفیر عدنان محمود نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دے کر ایرانی مسافر بردار طیارے کو میزائلوں کا نشانہ بنانا بھی ہو سکتا ہے۔
عدنان محمود نے کہا ہے: "میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کے حالیہ اقدام کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دینا تھا۔ امریکی جنگی طیارے چاہتے تھے کہ شام کا میزائل ڈیفنس سسٹم ان کی جانب میزائل فائر کرے اور وہ میزائل ایرانی مسافر طیارے کو آن لگیں۔ لہذا یہ اقدام ایک بین الاقوامی جرم قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو اس پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔ جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ قانون توڑنے والی قوتوں کو اس سے پہلے کہ کوئی بڑی تباہی پھیلا دیں روکنے کی ضرورت ہے۔" لہذا ریاستی دہشت گردی کے بارے میں اپنی ہی تعریف کی رو سے امریکہ کا یہ اقدام ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔
امریکہ گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف مختلف قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کا ارتکاب کرتا آیا ہے جن میں اقتصادی، سیاسی اور فوجی دہشت گردی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ حکومت اندرونی سطح پر بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ ایسے اقدامات کے ذریعے اپنی عوام کی توجہ ملک سے باہر مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکہ نے ریاستی دہشت گردی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے اپنے جنگی بحری جہازوں کے ذریعے ایران کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا۔ حالیہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت شدید بحرانی صورتحال کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ صرف ایسی صورت میں ہی کوئی حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو ڈرانے دھمکانے لگتی ہے۔
آیا صوفیا مسجد کی تاریخ
ترک عدالت نے قانون اور بازنطینی حکمرانوں کے ساتھ کئے گئے سلطان محمد کے معاہدے کی رو سے مسجد کی بحالی کا حکم دے دیا۔ صدر طیب اردگان عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لئے پہلے سے ہی آمادہ تھے، 10 جولائی کو طیب اردگان کی ڈگری کے اجراء کے بعد تاریخی مسجد آیا صوفیا کا قدیم تشخص بحال کرتے ہوئے اسے عجائب خانہ سے دوبارہ مسجد میں بدلنے کا عمل جاری ہے۔ آرائش و تزئین کے بعد اسے نماز کے لئے کھول دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آیا صوفیا مسجد میں سیاحوں کی آمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ مخصوص اوقات کار میں سیاح آ سکیں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب بیت المقدس کی آزادی کی کا وقت قریب آگیا ہے۔ نوٹر ڈیم کیتھڈرل میں عبادت بھی ہوتی ہے اور سیاحوں کے لئے بھی کھلا ہے، یہی پوزیشن صوفیا مسجد کی بھی ہوگی۔ عدالتی فیصلہ سنتے ہی متعدد افراد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے مسجد پہنچ گئے تھے، صدر ترکی طیب اردگان کے حکم پر 85 برس بعد پہلی نماز 25 جولائی کو ادا کی جائے گی۔ استنبول کی شان اور ترک ثقافت کی پہچان مسجد آیا صوفیا (خدا کی حکمت) کئی سو برس پرانی ہے۔ 500 برس تک ترکی میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکانے کی بہترین جگہ تھی۔ 9 صدیوں تک آیا صوفیا کو دنیا کے ایک بڑے شاہی مرکز اور گرجا گھر کی کی حیثیت حاصل رہی۔
مسجد بنانے کے مخالفین
مسجد کے کھلنے کا حکم جاری ہوتے ہی کئی ممالک میں کہرام مچا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی مسجد کی بحالی قبول نہیں کی۔ یہ سب مسجد کی جگہ عجائب خانہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ روس اور امریکہ کے صدر ترکی کے فیصلے کو قدامت پرست فیصلہ کہہ رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومیو کا مخالفانہ بیان کوئی انوکھی بات نہیں۔ روسی سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کونستاتن کوسا شیف نے انتباہ کیا کہ فیصلے پر انتہائی منفی ردعمل آسکتا ہے۔ فرینکفرٹ میں قائم عالمی کونسل برائے چرچز نے صدر کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس فیصلے پر گہرے رنج و غم اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
یونیسف نے بھی ترکی کی انتطامیہ کو لکھے گئے ایک خط میں مسجد کی بحالی کو بنا سوچے سمجھ اٹھایا گیا فیصلہ قرار دیا ہے، عالمی عجائب گھر ہونے کے ناطے مسجد کی بحالی سے پہلے عالمی شخصیات سے بات چیت بھی ضروری تھی، یکطرفہ طور خود سے مسجد کی بحالی درست نہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی فیصلے کو تبدیل کرنے کا ذکر کیا ہے۔ عالمی ثقافتی ورثہ کو مسجد میں بدلنے پر یورپی یونین بھی خوش نہیں۔ یورپی یونین نے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے عجائب گھر قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مسیحیوں کی عالمی تنظیم نے بھی ترکی کے صدر سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعض عیساائی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پرانے تشخص کی بحالی سے دنیا ایک بار پھر مشرق اور مغرب میں بٹ جائے گی، کسی نے کہا کہ اس سے 30 کروڑ قدامت پرستوں کے جذبات مجروح ہونگے۔ بھارت میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس بھارت میں جہاں 80 لاکھ کشمیریوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، جس کے مرکزی شہر دلی میں اسلامی نام رکھنے پر 39 افراد 23 فروری سے 26 فروری تک خاک اور خون میں نہلا دیئے گئے۔
کیا پورا گرجا گھر مسجد میں بدلا گیا؟
ہرگز نہیں۔ گرجا گھر میں سات اہم علوم کی تعلیم کے لئے عظیم الشان یونیورسٹی بنائی گئی تھی، لیکن یہ یونیورسٹی خستہ ہونے کے باعث بند کردی گئی تھی۔ سلطان نے نئی جگہ پر عالی شان یونیورسٹی قائم کی۔ ان کا تعمیراتی پلان منفرد تھا۔ انہوں نے اس عمارت میں مسجد کے لئے بہت سی تعمیرات کیں، جن کا ذکر الگ بھی کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال، مدرسہ، اسکول، لائبریری، باغ، مہمان خانہ، سرائے اور مقابر کے علاوہ دیگر تعمیرات بھی شامل تھیں۔ یہ سب سلطان کی حکمت علمی کا نتیجہ ہیں۔
گرجا گھر پر قبضے
مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس عمارت نے کئی رنگ روپ بدلے۔ آیا صوفیا 900 برس گرجا گھر رہا لیکن کئی بار اجڑا۔ رومیوں اور بازنطینی آپس میں لڑتے رہے اور گرجا گھر کا تشخص بدلتے رہے۔ موقع ملنے پر یونانیوں نے بھی گرجا گھر کی شکل بدل ڈالی۔ آیئے دیکھتے ہیں
537ء تا 1054ء: یہ بطور بازنطینی کرسچین گرجا گھر قائم رہا۔
1054ء تا 1204ء: یونانیوں نے قبضہ کرکے قدامت پرست کیتھڈرل بنا دیا۔
1204ء تا 1261ء :رومیوں نے قبضہ کرکے رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل کردیا، دوسرے گروہوں کی تمام نشانیاں ایک بار پھر مٹا دی گئیں۔
1261ء تا 1453ء: اسے یونانی آرتھوڈکس میں بدل دیا گیا۔
مسجد مذہبی پیشواؤں کے کہنے پر بنائی گئی تھی
1453ء میں خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم کو فاتح قسطنطنیہ بھی کہا جاتا ہے، ان کی فتوحات اس قدر تھیں کہ انہیں فاتح ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا، فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد نے 1453ء میں رومیوں اور یونانیوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ جس کے بعد 29 مئی 1453ء کو خستہ حالت میں یہ عمارت ان کی سلطنت کا حصہ بن گئی۔ شکست خوردہ بازنطینی حکمرانوں نے اس عمارت کے حسن کو برقرار رکھنے کی التجا کی جسے مسلمانوں نے مان لیا۔ ایک مغربی دستاویز میں لکھا ہے کہ سلطان محمد فاتح مذہبی پیشواؤں کی مدد سے آگے بڑھتے رہے اور نئے روم کی بنیاد رکھنے کی جانب پیشرفت کر رہے تھے۔ قسطنطنیہ کے سلطان اور اوپر تلے بدلنے والے کئی پوپ بھی آپس میں سیاست کرتے رہے جس سے سلطان کو موقع مل گیا۔
سیاست کے جوڑ توڑ اور بنتے بگڑتے اتحادوں میں وینس کا کردار بھی کلیدی رہا۔ اٹلی کے حکمران کئی اہم شہروں (جیسا کہ فلورینس، وینس، نیپلز اور ریمینی) کا تبادلہ کرتے رہے لیکن ان تبدیلیوں کا فائدہ سلطان محمد کو پہنچا۔ جنوبی اٹلی میں ’’Otranto‘‘ نامی علاقے پر قبضہ ان کی آخری پیش قدمی تھی وہ اپنی سلطنت کو متحد اور منظم کئے بغیر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، جس سے ترکی کی خلافت عثمانیہ کو زبردست دھچکا لگا۔ امریکہ میں ایک ہزار سے زائد ریڈیو سٹیشنز اور جرائد کو چلانے والے ادارے npr نے 10 جولائی 2020ء کو لکھا، ’’Turkey Converts Istanbuls Iconic Hagia Sophia Back into A Mosque‘‘ یعنی ترکی نے مشہور زمانہ آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد میں بدل دیا۔ دیگر کئی عالمی مضامین میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ترکی میں آیا صوفیا کا اسلامی تشخص بحال کردیا گیا ہے۔
نیو یورپ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق بازنطینی حکمران نے ہی اسے مسجد میں بدلنے کی التجا کی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ آرائش و تزئین کے بعد اسے مسجد میں ڈھال دیا جائے۔ سلطان محمد دوئم سے رابطوں کی تصدیق کئی دیگر جرائد و مضامین سے بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں کیا گیا معاہدہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ سلطان محمد کی منشاء یہ ہرگز نہ تھی، وہ شاہی محل اور شاہی خاندان کی عبادت گاہ کے طور پر ہی اسے قائم و دائم رکھنا چاہتے تھے لیکن سابق حکمرانوں کی خواہش کے آگے سر جھکائے بنا نہ بنی۔ آخر کار انہوں نے چار میناروں کی تعمیر کے بعد اس شاہی محل نما عمارت کو مسجد میں بدل دیا۔ خلافت عثمانیہ کے پاس شاہی انجینئرز اور ماہرین تعمیرات کی کمی نہ تھی،سابق حکمران کے دل کی آواز کو سنتے ہوئے اسی وقت اسے مسجد میں ڈھالنے کا حکم دے دیا گیا۔
1453ء میں اسے مکمل طور پر مسجد کے قالب میں ڈھال دیا گیا اور یہاں اذان کی آواز گونجنے لگی۔ مرکزی حصے میں قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی پہچان بنانے والے آیا صوفیا کو منفرد حیثیت حاصل تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کردیئے گئے اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی سربراہی میں روشن خیال حکومت برسراقتدار آگئی۔ کمال اتاترک نے 1935ء میں اولین حکم میں مسجد کا تشخص ختم کرتے ہوئے اس عظیم الشان عبادت گاہ کو عجائب گھر میں بدل دیا۔ کئی سو سال پرانی مسجد آیا صوفیا کو عجائب خانہ بنانے کی ڈگری جاری کردی گئی۔ سیکولر وزارتی کونسل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آیا صوفیا کی منفرد تاریخی اہمیت اور استنبول کے مرکز میں واقع ہونے کے پیش نظر اسے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
یہ عجائب گھر پوری مشرقی دنیا کے سیاحوں کے لئے اہمیت کاحامل ہوگا جس سے اقوام عالم کو نئے علوم سے روشناس ہونے میں مدد ملے گی‘‘۔ (بحوالہ کتاب ’’آیا صوفیا، ہولی وزڈم، ماڈرن مونیومنٹ مصنف رابرٹ نیلسن)۔ دنیا کے اس حصے کو نئے علم سے روشناس کرانے کے نام پر عالم اسلام کو پر شکوہ عبادت گاہ سے محروم کردیا گیا۔ قریب قریب دو صدیوں میں یہاں کروڑوں مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے لیکن مصطفیٰ کمال نے جذبات کی پرواہ نہ کی۔ کیونکہ ہر سال لاکھوں افرد جوتوں سمیت اس پاک جگہ میں داخل ہوتے رہے۔
شائد مغرب کی حمایت کا حصول ان کے پیش نظر ہو، ان کا خیال ہوگا کہ خلافت عثمانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرکے ہی وہ مغرب کے ساتھ زندہ رہ سکتے تھے جیسے مغرب خوش ویسے ہی وہ بھی خوش۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے شکست خوردہ سابق حکمران کی خواہش کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے خود اس جگہ پر مسجد بنانے کی درخواست کی تھی۔ ان کے فیصلے کے خلاف کسی غیر ملکی نے یہ نہیں کہا کہ جناب آپ اسلامی تشخص کا خاتمہ کیوں کر رہے ہو۔ تاریخی حیثیت میں تبدیلی کی مخالفت کسی عالمی تنظیم یا ادارے نے نہیں کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ترک عوام نے مصطفیٰ کمال اتاترک کا یہ فیصلہ کبھی تسلیم نہیں کیا۔
بناوٹ، گنبد اور مینار
مسجد کے 197 فٹ بلند چار مینار اللہ کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ پنسل کی مانند بلند و بالا یہ چاروں مینار اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ اتنے بلند، پنسل سے مشابہہ مینار دنیا کے کسی اور حصے میں قائم نہیں۔ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد بنایا گیا اسلامی سمٹ مینار بھی اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مرکزی گنبد کا قطر 102 فٹ ہے۔ گنبد کی بناوٹ آسمان سے مشابہہ رکھی گئی ہے۔ گنبد دیکھ کر اندر سے ایسے لگتا ہے جیسے آسمان سر پر سایہ فگن ہو۔ آسمان سے مشابہہ رکھنے کے لئے چھت کئی حصے نیلے رنگ سے ڈھانپ دیئے گئے۔ کہیں کہیں زرد رنگ بھی نمایاں ہے۔ مرکزی گنبد کے چاروں طرف 40 کھڑکیاں ہیں، جبکہ اندرونی حصے میں اسلامی خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں، چھت کے اندرونی حصوں پر کی گئی پچی کاری کی اپنی ہی شان ہے۔
ہر نمازی کے دل و دماغ میں اللہ کی شان اور اس کی عظمت کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ خطاطی کے یہ تمام نمونے درجہ کمال پر ہیں، کسی بھی عالمی شاہکار سے کم نہیں۔ مسجد کے چاروں بنائے گئے چھوٹے گنبد اسے دیگر مساجد سے ممتاز حیثیت عطا کرتے ہیں۔ یہ خلافت عثمانیہ کے انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ کاوشوں کا نمونہ ہیں۔ بظاہر یہ عجائب گھر تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کی خطاطی اورحضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے نام مبارک اسے عجائب گھر سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کا فیصلہ ترک عوام نے کبھی قبول نہیں کیا، وہ برسوں سے نماز پڑھنے کی جستجو کررہے ہیں، مسجد کی بحالی کے لئے کئی مرتبہ قانونی اور عدالتی کارروائیاں کی گئیں لیکن عوام کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آخری مقدمہ 16 برس قبل دائر کیا گیا تھا، جس میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا تھا کہ آیا صوفیا کی زمین دراصل سلطان محمد کی ملکیت تھی اور انہوں نے ہی اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا، کمال اتاترک سلطان کا فیصلہ تبدیل کرنے کا مجاز نہ تھے۔
مسئلہ کشمیر و فلسطین، امتِ مسلمہ کا اتحاد ضروری ہے
گذشتہ دنوں سوپور میں ساٹھ سالہ بزرگ بشیر احمد کو قابض بھارتی افواج نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت لاش پہ بیٹھے اس کے تین سالہ معصوم نواسے عیاد کی مسلمان حکمرانوں کی بزدلی پہ ماتم کناں تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بچے کی معصومیت بھری اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو لرزا دیا۔ یہ اس طرح کی پہلی تصویر نہیں ہے جو منظرِ عام پہ آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی تصاویر یمن، شام اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے سامنے آتی رہی ہیں۔ سال 2015ء میں ترکی کے ساحل سمندر پہ اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ شائع ہوئی تو اس نے پوری دنیائے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک آنکھ سے محروم دو ماہ کے معصوم بچے کی تصویر نے ہر آنکھ نم کر دی، یمن سے بھی آئے روز غذائی قلت سے دوچار بچوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر سامنے آتی ہیں، مگر افسوس یہ تمام تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد ذمے داروں کے خواب آلود ضمیر نہ جگا سکیں۔
سوپور میں پیش آنے والا یہ دردناک واقعہ بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ان مظالم پر مکمل اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے کشمیری مسلمان بھائی گذشتہ برس سے شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ اس دوران مسلم کش مودی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون نافذ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار نفرت کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب مودی سرکار صیہونی پالیسی پہ عمل پیرا ہو کر وادی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کا گھناونا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اب کوئی راز نہیں ہیں، مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور برسرِ اقتدار آتے ہی اس دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مسلم دشمنی کے لئے کمر کس لی۔
بلا شبہ بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک ہے، دونوں اسلام و مسلم دشمنی میں ایک جیسی پالیسیوں پہ عمل پیرا ہیں۔ اس وقت کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ درست اسی طرح جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم کرنے لئے یہودیوں کی آباد کاری کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 1917ء میں جب صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت پورے فلسطین میں یہودی آبادی 10 فیصد یا اس سے بھی کم تھی، لیکن پھر ایک گھناونی سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ دوسری طرف آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ ان سے ان کی املاک چھین لی گئیں، اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ یوں آج فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔
کشمیر میں بھی بالکل اسی طرح مودی سرکار نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب 25 ہزار ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے کر اس علاقے کا رہائشی بنایا جا رہا ہے، جس کے بعد انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہوگا اور وہ اس علاقے میں ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ اس بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے بعد غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ مقبوضہ وادی کا اسلامی تشخص برقرار نہ رہے۔ اس طرح جب اس علاقے کے اصلی وارث کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور غیر مسلم آبادی بڑھا دی جائے گی تو وہاں کا اسلامی تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھارت استصواب رائے پہ رضامندی ظاہر کرے گا، کیونکہ اب کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔
بلاشبہ اس وقت کشمیر اور فلسطین مسلم امہ کے سینے پہ دو رستے ہوئے زخم ہیں۔ انہیں ظالم سامراج سے بچانا انتہائی ضروری ہے، لیکن امت مسلمہ کے نگہبان کہاں ہیں۔ ننھے عیاد جیسے کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً او آئی سی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ کشمیر ایشو پہ بہترین سفارت کاری کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں پہ واضح کیا ہے کہ کس طرح مظلوم کشمیریوں پہ زندگی کے ایام تنگ کئے جا رہے ہیں، لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کہاں ہیں اور مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
کشمیر اور فلسطین کے علاوہ یمن، شام و عراق سمیت اور بھی کئی ایسے ایشوز ہیں، جن کے حل کے لئے مسلمان ممالک کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اس وقت مردہ گھوڑا اور عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں جان ڈالنا انتہائی ضروری ہے یا پھر ان تمام مسائل کے حل کے لئے کوئی دوسرا راہ حل نکالنا پڑے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستیں اگر باہمی رنجشیں اور اختلاف بھلا کر ایکا کر لیں تو کشمیر اور فلسطین سمیت تمام ایشوز بطریقِ احسن حل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ
پھرتمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
تحریر: محمد ثقلین واحدی
امریکہ و غاصب صیہونی رژیم پر انتہائی سخت دن آنیوالے ہیں، جنرل اسمعیل قاآنی
ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ امریکی بے جا طور پر (اس حادثے کے) ذمہ داروں کا کھوج نہ لگائیں اور دوسروں کو قصوروار بھی نہ ٹھہرائیں، کیونکہ (امریکی جنگی بحری بیڑے کو لگی) یہ آگ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی بھڑکائی ہے، جس نے اب انہیں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جنرل قاآنی نے کہا کہ امریکیوں کو کہا جانا چاہیئے کہ پیش آنے والا یہ حادثہ تمہارے اپنے جرائم کا نتیجہ ہے، جبکہ یہ حادثہ بھی خود تمہارے ہی چیلوں کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہوں نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہیں سزا دے رہا ہے۔
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاحال تمہارے خوشی کے دن چل رہے ہیں، جبکہ بہت جلد تمہارے اوپر سختی کے دن آنے والے ہیں، جن میں تمہیں اور غاصب صیہونی رژیم (اسرائیل) کو شدید حادثات کے ساتھ روبرو ہونا پڑے گا۔ جنرل اسمعیل قاآنی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج اب تھک کر فرسودہ اور اس کا فوجی سازوسامان لوہے کے کباڑ میں بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدتوں سے امریکی بحریہ کے کمانڈرز یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکی جنگی بحری بیڑے اب لوہے کے کسی ڈھیر سے بڑھ کر کچھ نہیں رہے۔ سپاہ قدس کے کمانڈر نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ناگفتہ بہ صورتحال کو قبول کرتے ہوئے انسانیت پر مزید ظلم و ستم ڈھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے۔
علماء و مشائخ کا فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا اعلان
جامعہ بیت القرآن گلبرگ لاہور میں ملک کے جید علماء ومشائخ اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی اتحاد امت کانفرنس۔ فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا عزم، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی قبول نہیں کریں گے۔ مفتی سید عاشق حسین کی زیر نگرانی اتحاد امت کانفرنس میں پیر سید حبیب عرفانی، میاں جلیل احمد شرقپوری، مفتی عاشق حسین، پیر علی جمیل خان، سجادہ نشین دربار عالیہ سندر شریف، مرکزی صدر پی ٹی آئی مذہبی امور ونگ پیر سید حبیب عرفانی، سجادہ نشین شرقپور شریف و رکن صوبائی اسمبلی میاں جلیل احمد شرقپوری، دربار میاں میر کے سجادہ نشین پیر سید علی رضا گیلانی، کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا محمد عاصم مخدوم، زیب آستانہ عالیہ دیوان علی عظمت سید محمد، آستانہ عالیہ ڈی ایچ اے لاہور خواجہ اسرارالحق نظامی، دربار عالیہ ملتان سے خواجہ محمد اکمل اویسی، دربار عالیہ پیر فضل شاہ ولی کے سجادہ نشین پیر علی رضا، پی ٹی آئی علماء و مشائخ ونگ کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عارف چشتی اور سابق صوبائی ایڈوائزر جمیل خان نے شرکت کی۔
کانفرنس میں پیر اختر رسول قادری، پیر سید ارشد حسین گردیزی، مفتی شبیر انجم، علامہ پرویز اکبر ساقی، بابا محمد شفیق بٹ، مفتی لیاقت علی صدیقی، قاری محمد اعظم، علامہ محمد حسین گولڑوی، پیر محمد رمضان رضوی سیفی، مولانا محمد شفیق اللہ اجمل، پیر محمد امین ساجد، پیر، قاسم علی قاسمی، پیر عثمان نوری، ڈاکٹر امجد حسین چشتی، سید محمد شاہ ہمدانی و دیگر علمائے کرام و مشائخ عظام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شریک علماء نے متفقہ طور پر عزم کیا کہ اتحاد امت کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملک میں مسلکی، فرقہ وارانہ بحث نہیں چھڑنے دینگے، ملک کسی بھی قسم کی افراتفری اور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف کاروائی کرے۔ مشائخ عظام نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، قیام امن کیلئے اپنے ریاستی اداروں اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی برداشت نہیں کریں گے۔
یہ وقت مناظرہ بازی کا نہیں
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصہ سے کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے بیچ ہی آن لائن اور آف لائن مناظرہ بازی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، اس نے یہاں کے ذی حس طبقوں کو انتہائی مضطرب کر دیا ہے اور گذشتہ چند روز سے سوشل اور روایتی میڈیا کے توسط سے مسلسل اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ اس طرح کی تفرقہ بازی سے اجتناب کیا جائے۔ مقامی سول سوسائٹی نے بارہا علماء دین اور مذہبی جماعتوں کو معاملہ کی نزاکت سمجھتے ہوئے باہمی اخوت کو فروغ دینے کی تاکید کرتے ہوئے مسلکی اور گروہی افتراق کو پنپنے نہ دینے کی اپیل کرکے عوام سے کہا کہ وہ دین کے بنیادی عقائد پر جمع ہوکر آپسی اتحاد و اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بنیادی عقائد ایک ہیں تو پھر جھگڑوں کا کیا جواز بنتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اخوت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے، مگر جموں و کشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص مذہب و مسلک کے نام پر جس انداز میں قوم کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ماضی قریب تک مقبوضہ وادی کشمیر میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے بلکہ اسلامیان کشمیر بنیادی عقائد پر مجتمع ہوکر ملی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے، تاہم اب جو ہوا چلنے لگی ہے، اگر فوری طور پر اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو کل یہ ہوا ایک آندھی کی شکل اختیار کرکے ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا کام کرے گی اور اس وقت ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی تباہ کاریوں سے کوئی نا آشنا نہیں ہے۔ ایسے ہی فروعی معاملات کو لیکر کئی مسلم ممالک کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس کے باوجود بھی اگر کشمیر میں کوئی اس سمت میں جانے کی کوشش کرے تو وہ مذہب اور ملت کا بہی خواہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی عالم اسلام اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک مربوط مہم چل رہی ہے، جس کو اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اس مہم کے تحت مسلمانوں کو انتہاء پسندوں اور انسانیت دشمنوں کے طور پیش کرنے کی مکروہ کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ اسی مہم کے تحت مسلک اور پارٹیوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اس نازک ترین صورتحال میں اگر امتِ مسلمہ طبقوں میں تقسیم ہو جائے تو اس کا براہ راست فائدہ ایسی قوتوں کو ہوگا، جنہیں ملت اسلامیہ کا وجود ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا ہے۔ اتحاد میں طاقت اور وحدت ہی مسلم امہ کو موجودہ پریشان کن دور سے باہر نکال سکتی ہے۔ انتشار و افتراق کی صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے، کیونکہ جب قرآن ایک ہے، نبی (ص) ایک ہے، قبلہ ایک ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد مشترک ہیں تو کون سی چیز ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔ ملت میں انتشار و افتراق ہمیں بنیادی اہداف سے کوسوں دور لے جائے گا، لہٰذا قوم کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے میں ادراک سے کام لے۔
علماء کرام، جن کا کام اسلام کی اشاعت ہے، ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں روز قیامت میں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اصلاح معاشرہ اور اتحاد ملت کے لئے کون سی ذمہ داریاں انجام دیں۔ وعظ و تبلیغ کا فریضہ انجام دیکر ہی مبغلین اسلام، مفتیاں کرام، ائمہ مساجد، علماء دین اور مذہبی اسکالر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملت کو اُس ڈگر پر لے جائیں، جس پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخروئی مقدر بن سکے۔ ملت اسلامیہ میں پھیلی بیماریوں پر ان علماء سے جوابدہی ہوگی، لہٰذا انہیں بھی خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی طور پر اتحاد ملت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قائدین، سماجی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سماج کے ہر باشعور فرد کو انفرادی طور بھی اپنے آپ کو اس سنگین مسئلہ سے لاتعلق رکھنے کی بجائے اس کا تدارک کرنے کے لئے ہاتھ بٹانا چاہیئے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ بھولیں گے اور نہ ہی معاف کرینگے، ایران
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء سمیت ٹارگٹ کلنگ کی امریکی کارروائی کو بزدلانہ اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سید عباس موسوی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ہمارے خطے میں انسداد دہشتگردی کے ہیرو، جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی بزدلانہ (امریکی) کارروائی نہ صرف ایک "خودسرانہ قتل" بلکہ اقوام متحدہ کے منشور کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے لکھا کہ امریکہ اس مجرمانہ اقدام کا ذمہ دار ہے جس سے وہ اقوام متحدہ پر اپنی شدید تنقید کے ذریعے "بری" نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ ہم اس (گھناؤنے امریکی جرم) کو بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے!
.jpg)
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی شکست
گذشتہ روز عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایران اور چار جمع ایک ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے جائزے پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ امریکہ نے حسب معمول اور حسب توقع اس آن لائن اجلاس میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں برقرار رکھنے پر تاکید کی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اکتوبر 2020ء میں ایران پر اسلحہ جاتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو یہ سہولت حاصل نہ ہو اور اس پر اسلحہ جاتی پابندیاں بدستور برقرار رہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس آن لائن اجلاس میں امریکی موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے اور ایران پر پابندیوں کا سلسلہ باقی رہے تو گویا عالمی ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ڈاکٹر جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور ایران کیخلاف اپنائی گئی پالیسیوں کو ماننا گویا جنگل کے قانون کو تسلیم کرنا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی معاہدہ مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کا اقدام سفارتی کامیابی تھی اور اگر اس سفارتی کوشش اور اقدام کو امریکہ کے دباؤ پر مسترد کر دیا تو عالمی برادری کا سفارتی کوششوں اور سفارتی اقدامات پر اعتماد اٹھ جائیگا۔
گذشتہ روز سلامتی کونسل کے آن لائن اجلاس میں امریکہ کے علاوہ تمام اراکین نے عالمی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے پر زور دیا۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ عالمی معاہدہ کے حوالے سے تنہائی کا شکار ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ایران کو سیاسی و سفارتی سطح پر تنہاء کرنے کی جو کوششیں کی ہیں، وہ بری طرح ناکام رہیں۔ گذشتہ رات کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے وزیر خارجہ اس قدر تنہاء رہ گئے کہ وہ وقت سے پہلے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایرانی جوہری معاہدے بارے سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر پابندیاں برقرار رکھنے کی امریکی کوشش کیخلاف ہیں، امریکہ معاہدے میں واپس آجائے، چین
ایرانی جوہری پروگرام (JCPOA) کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے ویڈیو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مسقل نمائندے وانگ کان نے کہا ہے کہ اس بحران کی اصلی جڑ ایرانی جوہری پروگرام سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر عائد ہونے والی امریکی پابندیاں ہیں۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بتایا جا چکا ہے؛ ایران پر لگائے جانے والے الزامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 کے متن کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے وانگ کان نے کہا کہ ایران کے خلاف اسلحے کے پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں نے ایرانی جوہری معاہدہ (JCPOA) بچانے کے مشترکہ اقدامات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وانگ کان نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی غیرقانونی پابندیوں کو فورا اٹھا لے اور ایرانی جوہری معاہدے پر عملدرآمد شروع کر دے۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ چین ایران کے خلاف اسلحے کی پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں کے خلاف ہے جبکہ امریکہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے باعث "ٹرگر میکینزم" استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔