
سلیمانی
شہداء قومی ہیرو ہیں؛ شہداء کے لواحقین جہاد بالنفس کے واضح نمونہ ہیں، رہبرِ انقلاب اسلامی
حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج علی الصبح ایرانی شہداء کے والدین، ورثاء اور بیواؤں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس موقع پر آپ نے شہداء کو قومی اور تاریخی ہیرو قرار دیتے ہوئے ہنرمندوں پر شہداء کے لواحقین کے قرآنی، جہادی، انسانی اور اجتماعی مقام کو مختلف زاویوں سے بیان کرنے پر زور دیا۔
حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور بیواؤں کی قرآنی خدمات کو قابلِ قدر قرار دیتے ہوئے انہیں دیگر مؤمنین سے افضل اور صابر قرار دیا اور فرمایا کہ شہداء کے لواحقین پر خداوند عالم درود بھیجتا ہے۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی نے شہیدوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنے والے والدین اور بیواؤں کے اس عمل کو خدا کی راہ میں نیکی اور انقاق قرار دیا اور مزید فرمایا کہ شہداء کے لواحقین جہاد بالنفس کے واضح نمونہ ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے نفس، محبت اور عشق کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کو میدان جہاد میں بھیجا۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی نے دفاع مقدس کے دوران مجاہدین کی ہر ممکن مدد کرنے والوں کو شہداء کے شریک قرار دیا اور فرمایا کہ دفاع مقدس کے دوران تمام مشکلوں کو برداشت کر کے اپنے عزیزوں کو جہادِ فی سبیل اللہ کیلئے روانہ کرنے والے دفاع مقدس کی فتح میں برابر کے شریک ہیں۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شہداء کے فقدان کے حوالے سے لواحقین کے دکھ درد کو عظیم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ البتہ عزیزوں کی جدائی کا یہ دکھ درد بہت ہی سخت ہے لیکن عظمت اور عزت کا نیز ذریعہ ہے اور اس حوالے سے خداوند عالم ان صابر اور شاکر انسانوں کو عظیم درجہ عطاء فرمائے گا۔
آخر میں، رہبرِ انقلابِ اسلامی نے صحافیوں اور ہنرمندوں سے شہداء کی یاد کو مزید تازہ کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی تاکید کی اور فرمایا حالیہ برسوں شہداء سے متعلق کتابیں اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں تاہم ان عظیم شہداء کی یاد کو مزید تازہ کرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ازبک صدر کی ایرانی سپریم لیڈر سے ملاقات
ایران اور پاکستان کا میری ٹائم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون کی یادداشت پر دستخط
اسلام آباد، ارنا – نائب پاکستانی نائب وزیر دفاع کے تہران کے سرکاری دورے کے دوران ایرانی بارڈر پولیس اور پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے درمیان تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کردیا گیا۔
پاکستانی وزارت دفاع نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ حمود الزمان خان نے ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر تاکید کی اور باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے اصولوں کی بنیاد پر ان تعلقات کی مسلسل توسیع پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
نائب پاکستانی نائب وزیر دفاع اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد نے پیر کے روز ایران میں سرحدی پولیس کے کمانڈر میجر جنرل احمد علی گودرزی سمیت اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کی۔
پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور ایرانی بارڈر پولیس کے درمیان بحری تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، مشترکہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات اور علاقائی اقتصادی باہمی انحصار کو یقینی بنانا دونوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، پاکستانی وفد کا دورہ تہران، ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی کے کل رات اسلام آباد کے سرکاری دورے کے ساتھ مل کر ہوگا، جس کے تین روزہ دورے کے دوران وہ اپنے پاکستانی ہم منصب اور دیگر سے ملاقاتیں کریں گے۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے امامت کے بارے میں لوگوں کے شبہات کو دور کیا
حوزہ علمیہ تہران کے استاد حجت الاسلام علم الھدی کی مہر نیوز کے نمائندے سے گفتگو
تیس ذی القعدہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ تین اماموں کو بچپن میں امامت کا عظیم منصب ملا؛ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو سات سال کی عمر میں امامت ملی، حضرت امام علی نقی علیہ السلام نو سال اور حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ پانچ سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔
امامت کے عہدے کے عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوعمری میں کس طرح اس عظیم منصب سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ معمولا انسان پندرہ سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچتا ہے اور چالیس کے بعد اس کی عقل کامل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت کے حوالے سے کئی لوگوں سے سوالات کئے کہ ایک سات سالہ بچہ کس طرح معاشرے کی ہدایت کی عظیم ذمہ داری لے سکتا ہے؟ کیا سات سال کا بچہ بڑی عمر کے انسان کی طرح دواندیشی اور فہم و فراست سے یہ فریضہ انجام دے سکے گا؟
اس دور میں خاص و عام میں یہ سوال گردش کرتا تھا خصوصا عباسی حکومت کے طرفداروں اور اہل بیت کے دشمنوں نے اس سوال کو ہر جگہ دہرایا۔ مامون عباسی نے اس نکتے کو لے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی۔
انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور اس زمانے کے جید علماء کے درمیان علمی مناظرے کی محفلیں سجائیں لیکن امام عالی مقام نے دندان شکن جواب دے کر ہر قسم کے شک و تردید کو ختم کیا اور دشمنوں کی سازشوں کا ناکام بنایا۔
اس حوالے سے مہر نیوز کے نمائندے نے حوزہ علمیہ تہران کے استاد حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی سے گفتگو کی اور اسی موضوع کے حوالے سے کئی سوالات کئے۔
ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئیں کے لئے پیش کی جاتی ہے؛
حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی نے کہا کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ علیہم السلام نے غیر مسلم دانشوروں کے ساتھ بھی علمی گفتگو اور مناظرے کئے۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اہل بیت علیہم السلام علمی مرکز ہیں۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے مختلف علمی محافل میں شرکت کرکے حاضرین کو اپنے برجستہ جوابات سے حیرت زدہ کردیا۔ امام عالی مقام کو چھوٹی عمر میں امامت نصیب ہوئی اس کے باوجود آپ نے علمی مناظروں میں حصہ لیا اور دوسرے کو حیرت میں ڈال دیا۔ شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ علم الہی کے حامل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام جود علیہ السلام کم عمری میں ہی علمی محافل میں شریک ہوتے تھے اور لوگوں کو حق اور حقیقت سے آگاہ کرتے تھے۔ ایک سال حج کے ایام میں تقریبا 80 علماء اور دانشور حج کے لئے بغداد سے روانہ ہوئے۔ مدینہ میں انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملاقات کی۔ اس وقت آپ کے چچا عبداللہ بن موسی بھی آپ کے گھر میں داخل ہوئے۔ محفل میں موجود کسی شخص نے عبداللہ بن موسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرزند رسول ہیں۔ جو پوچھنا چاہیں پوچھیں۔
بغداد سے آنے والے علماء نے کچھ سوالات کئے لیکن عبداللہ ان کا جواب نہ دے سکے۔ محفل میں موجود شیعہ غمگین ہوئے اور کہنے لگے کہ کاش کوئی ان کے سوالوں کا جواب دینے والا ہوتا! اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا غلام داخل ہوا اور کہا کہ امام عالی مقام تشریف لارہے ہیں۔ لوگ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے۔ امام جواد علیہ السلام جو اس وقت نوجوان تھے، نے سب کے سوالوں کا الگ الگ اور اطمینان بخش جواب دیا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون عباسی نے خود اہل بیت کا دوست اور محب ثابت کرنے کے لئے اپنی بیٹی کا حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے عقد کرایا۔ مامون امام کی علمی منزلت اور فہم و فراست سے آگاہ تھا اس لئے سے امام کو ابتدا میں سرکوب کرنے کے لئے شادی سے پہلے مناظرے کی ایک محفل سجادی جس میں بزرگ علماء اور دانشوروں کو دعوت دی تاکہ ان کے مشکل سوالات کا امام جواب نہ دے سکیں اور ان کے علمی مقام میں کمی آئے۔
مامون نے اپنے دور کے مشہور عالم اور قاضی یحیی ابن اکثم کو کہا کہ ہر ممکن طریقے سے امام کو لاجواب کردے۔ یحیی نے بھی مامون سے وعدہ کیا اور کامیابی کی صورت میں مالی فوائد کا اقرار لیا۔
جب محفل سجائی گئی تو یحیی نے مامون سے اجازت لی تاکہ امام سے کچھ سوالات کرے۔ اس نے سوال کیا کہ کوئی احرام کی حالت میں شکار کرے تو کیا حکم ہے؟
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شخص شکار کرتے وقت حرم کے احاطے میں تھا یا باہر؟ شکار حرام ہونے کا علم رکھتا تھا یا نہیں؟
عمدا شکار کیا تھا یا غلطی سے؟ آزاد تھا یا غلام؟ بچہ تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا کئی مرتبہ؟ پرندے کا شکار کیا تھا یا کسی اور جانور کا؟ جانور چھوٹا تھا یا بڑا؟ دوبارہ شکار کا ارادہ رکھتا ہے یا پشیمان ہوا ہے؟ دن کو شکار کیا تھا یا رات کو؟ حج کے احرام میں تھا یا عمرہ کے؟
ان سوالوں کے سننے کے بعد یحیی پریشان ہوگیا اور اس کی زبان جواب دے گئی۔ محفل میں حاضر شرکاء نے امام کو داد تحسین دی۔ اس وقت مامون نے کہا کہ جیسا میں نے سوچا وہی ہوا۔
حجت الاسلام علم الھدی نے حضرت امام جود علیہ السلام کے ایک علمی مناظرے کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ معتصم عباسی کے دور میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ ایک شخص نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا تقاضا کیا تو معتصم نے علماء سے سوال کیا کہ ہاتھ کو کہاں سے کاٹا جائے۔ بعض نے کہا کہ کلائی سے کاٹیں؛ بعض نے کہنی سے کاٹنے کا مشورہ دیا۔
معتصم نے امام جواد علیہ السلام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ چور کی انگلیاں کاٹی جائیں۔ کیونک اللہ نے فرمایا ہے کہ سجدہ کے اعضاء خدا کے لئے ہیں۔ جو اعضاء خدا کے لئے ہوں ان کو کاٹا نہیں جاسکتا۔
انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے مناظروں اور دوسرے طریقوں سے درباری علماء اور قاضیوں کی کم علمی اور بے بضاعتی کو ثابت کیا اور علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہوئے خود کو امامت کے عظیم عہدے کا لائق ثابت کیا۔ امام عالی مقام نے اس طرح عمومی اذہان میں عقیدہ امامت کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی کے سربراہ کی ایرانی صدر سے ملاقات؛ اسرائیل فلسطینی جوانوں میں مایوسی پھیلانا چاہتا ہے/کامیابی مقاومت کو ملے گی یہی اللہ کا وعدہ ہے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صدر آیت اللہ رئیسی نے تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سربراہ زیاد النخالہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ کائنات کا نظام حق پر مبنی ہے جس میں باطل کو قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک زمانے میں سب کی نظریں مذاکرات پر مرکوز تھیں لیکن آج مذاکرات کے حامی بھی مقاومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کامیابی مقاومت کو ملے گی یہی اللہ کا وعدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صبر اور استقامت کی وجہ سے فلسطینیوں کو غاصب صہیونی حکومت پر فتح نصیب ہوگی اور فلسطینی عوام سرخرو ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت فلسطیقنی جوانوں کے اندر مایوسی پھیلانا چاہتی ہے۔ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا مقصد فلسطینی علاقوں کی واپسی کو ناکام بنانا ہے لیکن صہیونی حکومت کو ان کوششوں میں ناکامی ہوگی کیونکہ اسلامی ممالک کے عوام صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے خلاف ہیں۔
صدر رئیسی نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام پہلے سے عزم اور حوصلے کے ساتھ صہیونی حکومت کے سامنے کھڑے ہیں۔ آج دنیا کی نظریں فسلطینی عوام پر مرکوز ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی سمیت مقاومت کے شہداء کا خون رنگ لائے گا اور کامیابی فلسطینی عوام کے قدم چومے گی۔
اس موقع پر تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سربراہ زیاد النخالہ نے فلسطین کی حمایت کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایران آج خطے اور عالمی سطح پر فیصلہ کن کردار ادا کررہا ہے۔ صدر رئیسی کے دورہ لاطینی امریکہ نے امریکی غیر منصفانہ پابندیوں کو بے اثر کردیا ہے۔ ہمیں ان کامیابیوں پر فخر ہے۔
انہوں نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی پانچ روزہ جنگ کے بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس جنگ سے صہیونی حکومت کی کمزوریاں کھل سامنے آئی ہیں۔ یہ جنگ فسلطینی عوام کی صہیونیوں پر بڑی فتح تھی۔
حج بے مثل و بے نظیر راہ خدا میں عاشقانہ سفر ہے: مولانا علی حیدر فرشتہ
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بانی و سرپرست اعلیٰ مجمع علماءوخطباء حیدرآباد دکن حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ نے ایام حج کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا ہے جس کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حج اصل میں اہل اسلام کے لئے عالمی اسلامی اسمبلی ہے۔ہر مسلمان پر فرض ہے کہ بشرط ِصحت و استطاعت زندگی میں ایک بار حج ِ بیت اللہ کے لئے ضرور سفر کرے۔اگر خدانخواستہ وجوب حج کے لئے شرائط ِ حج کی موجودگی کے باوجود کوئی مسلمان عمداً حج نہ کرے تو حدیثوں میں اس کی موت کو مسلمان کی موت نہیں بلکہ یہودی یا نصرانی کی موت بتایا گیا ہے۔قابل توجہ یہ امر ہے کہ جب کعبہ کی زیارت کی اتنی اہمیت ہے تو مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی کتنی اہمیت ہوگی۔
حج میں سب سے پہلے حاجی کو جس چیز کا تجربہ ہوتا ہے وہ صعوبات سفر سے آشنائی ہے۔اہل و عیال، گاؤں گھر شہر ،دوست احباب،مال و منال سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اللہ کی محبت میں سفر کرنا نہایت صبر آزما مرحلہ ہو تا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ سفر ِحج سفرِ آخرت کے لئے بہترین تربیت اور ٹریننگ ہے۔ حج راہ خدا میں بے مثل و بے نظیر عاشقانہ سفر ہے اورایک مرکز و محور پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کا روح پرور اجتماع ہےجس سے میدان ِمحشر پر عقیدہ مزید پختہ ہوتا ہے۔حج کے بے شمار فیوض و فوائد دنیوی بھی ہیں اور اخروی بھی ۔حج کا مکمل فلسفہ ہے جو انسانی فکر و شعور کو روشن و منور کرتا ہے۔دنیا میں کوئی شخص بلاوجہ بغیر کسی مقصد کے کہیں کا سفر نہیں کرتا ،عازمین ِحج کے سفر کا مقصد اتنا بلنداور قیمتی ہے کہ حاجی عشق الٰہی میں دنیاوی ہر چیز سے دست بردار ہوکر کفن بردار بن جاتے ہیں۔
ان مختصر الفاظ کے ساتھ ہم مجمع علماء وخطباء حیدرآباد کی جانب سے تمام حجاج کرام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔اور تمام مسلمانان عالم کی خدمت میں ’’پیغام حج ‘‘کے عنوان سے ذیل میں عرض ہے کہ مرحوم علامہ مجلسی ؒکی کتاب بحار الانوار میں آیا ہے حج کا فلسفہ یہ ہے کہ لوگ خداکا خا ص مہمان بن جائیں اور خدا سے رزق اورروزی میں کشادگی،علم میں ترقی اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کریں ۔
عظمت اسلام کی سب سے بڑی علامت اور اسلام کے اہم تعلیمات زندگی میں سے ایک ،حج اور اس کے اعمال ہیں ۔اکثر لوگ ہر سال حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں لیکن حج کے اعمال اور اسکے اسرار کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں اور اسکےاصل ہدف کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام اعمال شرع مقدس اسلام کے احکام کے مطابق ہو ں اور فقہ اصغر (احکام ) کے ذریعے فقہ اکبر (حج) تک پہنچ جائے‘‘۔
فقط والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مکہ کی تمام مساجد میں حج سیزن کے دوران نماز جمعہ کی اجازت
ایکنا- جیو نیوز کے مطابق سعودی وزیر اسلامی امور ڈاکٹر عبدالطیف آل الشیخ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام لاکھوں عازمین کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے، اس اقدام سے عازمین کو حرم تک آمد و رفت کی پریشانی نہیں ہوگی۔
وزیر اسلامی امور نے کہا کہ حج سیزن کے دوران جب لاکھوں کی تعداد میں عازمین حج مکہ مکرمہ میں موجود ہیں تو ایسے میں شہر میں قائم تمام چھوٹی اوربڑی مساجد میں جمعہ 16 جون سے حج سیزن کے اختتام تک جمعے کی نماز پڑھائی جائے۔
عرب میڈیا کے مطابق مکہ میں ایسی مساجد کی تعداد 554 ہے جہاں نماز جمعہ نہیں پڑھائی جاتی لیکن اب وہاں بھی نماز پڑھائی جائے گی۔
خیال رہے کہ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے نزدیک اور چھوٹی مساجد میں عام طورپرجمعہ کی نماز نہیں پڑھائی جاتی کیونکہ نماز جمعہ مسجد الحرام میں ادا کی جاتی ہے۔
جعلی صیہونی حکومت سمیت مسلمانوں کے دشمن ایران سعودی تعاون سے ناخوش ہے: صدر رئیسی
تہران، ارنا - ایرانی صدر مملکت نے کہا ہے کہ جعلی صیہونی حکومت سمیت مسلمانوں کے دشمن اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ اور علاقائی تعاون سے ناخوش ہے۔
یہ بات علامہ سید ابراہیم رئیسی نے ہفتہ کے روز تہران کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تمام مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ مختلف اسلامی ممالک نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے جو کہ عالم اسلام کی دو اہم ریاستیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جعلی صیہونی حکومت سمیت صرف مسلمانوں کے دشمن ہی تہران اور ریاض کے درمیان دوطرفہ اور علاقائی تعاون کی توسیع سے ناخوش ہیں۔
ایرانی صدر نے یہ بھی کہا کہ ناجائز صیہونی حکومت نہ صرف فلسطینیوں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے، جعلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے سلامتی کے تحفظ میں مدد نہیں ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی ممالک کو ان مسائل کو مذاکرات اور تعاون کے ذریعے حل کرنا چاہیے اور غیر ملکیوں کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
اعلیٰ سعودی سفارت کار نے اپنی طرف سے اپنے ملک اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریق اب سنہری مرحلے پر ہیں۔
فیصل بن فرحان نے سعودی فرمانروا کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف ورکنگ گروپس کی تشکیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹجک سطح تک بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کے کچھ ممالک نہیں چاہتے کہ مغربی ایشیا امن اور ترقی کا مشاہدہ کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر تمام اسلامی ممالک کے درمیان یکساں تعامل ہو جو ایران اور سعودی عرب کو حاصل ہے تو بڑی کامیابیاں حاصل ہوں گی جو ہمارے خطے میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو روکنے کی ضمانت کے طور پر کام کرے گی۔
اسرائیل میں خوف و ہراس کا ماحول، یہ اسرائیل کے تابوت پر آخری کیل تو نہیں؟
سحر نیوز/ دنیا: اسرائیل کے سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ برسوں کی بہ نسبت، حالیہ برس میں ویسٹ بینک کے شمالی علاقوں پر وسیع حملے کئے ہیں اور اس نے اس علاقے پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہیں۔
ویسٹ بینک میں اسرائیلی فوج کے اقدامات اور حملوں کی وجہ سے مستقبل قریب میں اسرائیلی فوج اس علاقے پر بڑا حملہ کر سکتی ہے۔
اسرائیل نے اپنے سیکورٹی اور فوجی ادارے کی مدد سے اسرائیلی فوجیاور صیہونی کالونیوں کے آبادکاروں کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے مزاحمتی کارروائیوں کی سرکوبی کی کوشش کی اور اس کا مقصد ہے کہ وہ ویسٹ بینک کے شہروں میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو ٹارگٹ کرے۔
اسرائیلی ویب سائٹ اسرائیل-24 نے بتایا کہ 2023 کی شروعات سے ویسٹ بینک اور غور الاردن میں فائرنگ کے واقعے میں 7 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیلی بستیوں کے آبادکاروں کی گاڑیوںپر فائرنگ کے چار واقعے انجام پائے۔
سعودی عرب کے ایران کے قریب آنے کی وجوہات
سعودی عرب کے وزیر خارجہ آج ہفتے کے روز تہران میں ایرانی حکام کے مہمان ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا یہ پہلا دورہ ایران ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی دعوت کے جواب میں انجام پا رہا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ایران اور سعودی عرب قریبی سیاسی اور سکیورٹی تعلقات کی طرف بڑھے ہیں اور کئی بالمشافہ ملاقاتوں کے بعد دوطرفہ سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ "رائے الیوم" اخبار نے لبنان کے بعض سیاسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "فیصل بن فرحان شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے صدر ابراہیم رئیسی کے لیے خصوصی پیغام لائے ہیں، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی و فروغ پر تاکید ہے۔" اس ذریعے نے مزید کہا ہے کہ بن فرحان اس سفر کے دوران ایران کے صدر اور کئی دیگر حکام سے ملاقاتیں اور بات چیت کریں گے، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ایران ریاض اور تہران کے درمیان 7 سال کے وقفے اور اختلاف کے بعد تعلقات کی بحالی کی طرف ایک اور قدم ہے۔
خلیج فارس کی نئی تشکیل
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا سیاسی معاہدہ ان بڑی تبدیلیوں کا حصہ ہے، جو ہم ان دنوں خلیج فارس میں دیکھ رہے ہیں۔ خلیج فارس کے تمام ممالک چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر رہے ہیں اور چین اب خطے کے ممالک کی توانائی کی سب سے بڑی منڈی بن رہا ہے۔ 2001ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت صرف 4 بلین ڈالر تھی، جو کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ سعودی عرب کی تجارت کا دسواں حصہ تھی، لیکن 2021ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت تقریباً 87 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ سعودی عرب کی امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تجارت سے دوگنی ہے۔ 2022ء اور 2023ء سے اقتصادی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کے نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ وسیع تعلقات ہیں بلکہ بیجنگ بیک وقت متحدہ عرب امارات میں بھی ایک بڑی فوجی تنصیب بنا رہا ہے۔
سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک امریکہ سے مکمل طلاق و علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ صرف واشنگٹن پر انحصار کرنے کے بجائے خارجہ پالیسی میں آزادی اور اپنے غیر ملکی شراکت داروں میں تنوع چاہتے ہیں۔ خلیج فارس کے عرب ایک طرف چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ امریکہ کے ساتھ ایران سمیت کسی بھی سیاسی کشیدگی میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ریاض نے تہران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی خواہشات کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کی توسیع کا خیرمقدم کیا ہے۔ تہران کی طرف ریاض کے اس اقدام کا اندازہ بیجنگ اور ماسکو کے تہران کے ساتھ قریبی روابط کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ریاض، چین و روس اور ایران کے ساتھ اتحاد کے ساتھ مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے، البتہ وہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ سعودی عرب سے پہلے پچھلے چند سالوں میں متحدہ عرب امارات، عمان اور قطر کے بھی تہران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ لہذا ریاض کا تہران سے دور رہنے کا مطلب علاقائی ترقی سے دور رہنا تھا۔ ایسے حالات میں جب متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور حتیٰ کہ کویت تہران کے ساتھ سیاسی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، سعودی عرب کے لیے خطے میں اس سفارتی نقل و حرکت سے دور رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اسی لیے ریاض بھی تہران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اس میں وسعت دینے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
کم تناؤ، زیادہ متحرک معیشت
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی سعودی معیشت کی ترقی اور توسیع کے لیے محمد بن سلمان کے اقتصادی تسلسل اور ویژن 2030ء کو مکمل کرتی ہے۔ ریاض کے رہنماء اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے ملک میں اقتصادی ترقی علاقائی امن اور جنگ سے دور رہنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ریاض اپنے جنوبی پڑوسی ملک یمن کی افواج کے میزائلوں کے مسلسل خطرے میں نہیں رہ سکتا، اسی لئے ریاض کے رہنماء یمن میں جنگ کے معاملے کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودیوں کو اس بات کا علم ہے کہ یمن سے جنگ بندی کا راستہ تہران سے ہوکر جاتا ہے۔ تہران کے ساتھ اختلافات کو دور کرکے ہی وہ اس مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ سعودی عرب یمن کے حالات کو پرسکون کرکے اس جنگ کی دلدل سے نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
یمن کی جنگ سے ریاض کی دستبرداری سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی معیشت میں نئی جان ڈالے گی اور سعودی عرب کو 2030ء کے لیے محمد بن سلمان کے بلند و بالا اقتصادی اہداف کے قریب لے آئے گی۔ گذشتہ سات برسوں کے دوران شام، لبنان، یمن اور عراق میں تہران کے ساتھ ریاض کی علاقائی کشیدگی کا نہ صرف سعودیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بعض صورتوں میں سعودی اثر و رسوخ میں کمی اور لبنان جیسے ممالک میں اس کی پسپائی کا باعث بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض کے حکام تہران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شام اور یمن سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے علاقائی تعلقات کو کشیدگی اور تنازعات سے پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی