رہبر انقلاب اسلامی کا حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی 100 ویں سالگرہ پر پیغام

Rate this item
(0 votes)
رہبر انقلاب اسلامی کا حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی 100 ویں سالگرہ پر پیغام
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی سوویں سالگرہ کی مناسبت سے پیغام دیتے ہوئے حوزہ کے اہم عناصر اور اس کی کارکردگیوں کی وضاحت کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی سوویں سالگرہ کی مناسبت سے پیغام دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حوزہ کے اہم عناصر اور اس کی کارکردگیوں کی وضاحت کی اور ایک پیشرو اور ممتاز حوزہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: نوآوری، ترقی، عصری تقاضوں کے مطابق رہنا، جدید مسائل کا جواب دینا، مہذب اور انقلابی روح کے حامل ہونا، اور معاشرتی نظامات تشکیل دینے کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے۔ رہبر معظم نے تاکید کی کہ حوزہ کی سب سے بڑی ذمہ داری "روشن تبلیغ" (بلاغ مبین) ہے، جس کا بہترین نمونہ نئی اسلامی تہذیب کے بنیادی و فرعی خطوط کی وضاحت، ترویج اور معاشرتی ثقافت سازی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام کی ابتداء میں چودہویں صدی ہجری شمسی کے آغاز میں پیش آنے والے عظیم اور سنگین واقعات کے درمیان حوزہ مبارکہ قم کی تشکیل کی تاریخ اور آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی حوزہ کی جدید بنیاد اور اس کی بقا اور ترقی میں کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا: حوزہ علمیہ قم کا ایک بڑا فخر یہ ہے کہ یہاں سے حضرت روح اللہ (امام خمینیؒ) جیسا سورج طلوع ہوا اور اس حوزے نے صرف چھ دہائیوں کے اندر اپنی روحانی طاقت اور عوامی مقبولیت کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ عوامی طاقت کے ذریعے ایک غدار، فاسد اور گناہگار بادشاہی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور صدیوں بعد اسلام کو ملک میں سیاسی حکمرانی کے مقام پر پہنچانے میں کامیاب ہوا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس نکتے پر زور دیا کہ حوزہ علمیہ محض تدریس و تعلیم کا ادارہ نہیں بلکہ علم، تربیت اور سماجی و سیاسی فعالیتوں کا ایک ہمہ گیر مجموعہ ہے۔ آپ نے ان نکات کی وضاحت کی جو حوزہ کو حقیقت میں "پیشرو اور سرآمد" بنا سکتے ہیں۔

پہلے نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حوزہ قم شیعہ علمی سرمایے کا مرکز ہے، جو ہزاروں دینی علماء کی صدیوں پر محیط فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ علماء فقہ، کلام، فلسفہ، تفسیر اور حدیث جیسے علوم میں نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

رہبر انقلاب نے عصر حاضر میں انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل اور بے مثال سوالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج اسلامی نظام کے قیام کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ شارع مقدس نے انسانی زندگی کے فردی اور اجتماعی پہلوؤں پر کس زاویے سے عمومی نگاہ ڈالی ہے، اور ہر فقیہ کا فتویٰ اسی عمومی نظریے کا مظہر ہونا چاہیے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حوزہ علمیہ کی ایک اہم ذمہ داری یہ قرار دی کہ وہ اسلامی حکمرانی اور معاشرتی نظم و نسق سے متعلق مسائل کا فقہی جواب فراہم کرے۔ آپ نے حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات، ریاست کا بین الاقوامی روابط میں کردار، نظام اقتصادی، اسلامی حکومت کے بنیادی اصول، حاکمیت کا منبع، عوام کا کردار اور نظام سلطہ کے مقابلے میں مؤقف، عدل کا مفہوم اور دیگر اساسی و حیاتی موضوعات کو ایسے مسائل قرار دیا جن پر فقہی بنیاد پر مکمل اور جامع جواب تیار ہونا ضروری ہے۔

دوسرے نکتے میں، آپ نے اس بات پر زور دیا کہ حوزہ ایک برون گرا ادارہ ہے جس کی پیداوار فکر و ثقافتِ انسانی کی خدمت کے لئے ہونی چاہئے۔ آپ نے حوزے کی سب سے اہم ذمہ داری "بلاغ مبین" یعنی واضح اور روشن تبلیغ قرار دی اور فرمایا کہ اس فرض کی ادائیگی کے لئے مہذب اور کارآمد افراد کی تربیت لازمی ہے۔

رہبر انقلاب نے "بلاغ مبین" کے دائرہ کار کو توحید کے اعلیٰ معارف سے لے کر شرعی فرائض، اسلامی نظام کے بیان، اس کے ڈھانچے، طرز زندگی، ماحولیات اور انسانی حیات کے دیگر تمام پہلوؤں تک پھیلا ہوا قرار دیا۔ آپ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج حوزہ کی تبلیغی پیداوار فکری و ثقافتی میدان میں، خصوصاً نوجوانوں کے درمیان، معاشرتی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور چند سو مضامین، رسائل اور تقریریں مغالطہ آمیز سیلاب کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "بلاغ مبین" کی مؤثر ادائیگی کو دو بنیادی عناصر یعنی "تعلیم" اور "تزکیہ" سے مشروط قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ طلبہ کو قوی دلائل کے ذریعے قائل کرنے کے طریقے، گفت و شنید کی مہارت، عوامی ذہنیت کو سمجھنے اور میڈیا و مجازی دنیا سے تعامل کا فن، نیز مخالفین کے ساتھ علمی و منظم انداز میں مکالمہ کرنے کے طریقے سکھانے چاہئیں، اور ان امور میں مسلسل مشق کے ذریعے انہیں میدان عمل کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ تبلیغ میں مثبت اور حملہ آورانہ انداز، دفاعی انداز سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ اس مقصد کے لئے حوزہ کو "ثقافتی مجاہد" تیار کرنے چاہئیں، جو نہ صرف ملکی نظام میں خصوصی ذمہ داریاں ادا کریں بلکہ حوزہ کے اندرونی انتظام و انصرام کو بھی مضبوط بنائیں۔

تیسرے نکتے میں، رہبر انقلاب نے حوزے کی "جہادی شناخت" کو پہچاننے، محفوظ رکھنے اور تقویت دینے پر زور دیا۔ آپ نے امام خمینیؒ کے سن ۱۳۶۷ھ ش میں روحانیت کے نام آخری پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امام نے علماء کو جہاد اور وطن و مظلومین کی حمایت میں پیشرو قرار دیا تھا، اور خبردار کیا تھا کہ تحجر اور مقدس نمائی کا خطرہ حوزے کو دین و سیاست کی جدائی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ بعض غلط ذہنیتیں دینی قدسیت کو جہاد، سیاسی اور سماجی فعالیت سے متصادم سمجھتی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دینی قدسیت فکری، سیاسی اور عسکری جہاد کے میدان میں ہی نمایاں ہوتی ہے اور دین کے علمبرداروں کی قربانیوں سے مستحکم ہوتی ہے۔ لہٰذا حوزہ علمیہ کو اپنی معنوی ساکھ کی حفاظت کرتے ہوئے، عوام و معاشرے سے کبھی جدا نہیں ہونا چاہیے اور ہر قسم کے جہاد کو اپنی قطعی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔

چوتھے نکتے میں، آپ نے "حکومتی اور معاشرتی نظامات کی تشکیل و تبیین" میں حوزہ کے کردار پر زور دیا اور فرمایا: آج کے دور میں فقاہت کو محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا۔ "امت ساز فقہ" وہ ہے جو معاشرتی نظام کی تشکیل میں بھی راہنما ہو۔

آپ نے دنیا کی تازہ ترین علمی دریافتوں سے آگاہی اور یونیورسٹیوں سے علمی تعاون کو معاشرتی نظام سازی کے لئے ضروری قرار دیا۔

پانچویں نکتے میں، رہبر انقلاب نے "تمدنی نوآوری" کو بیان کیا اور فرمایا: حوزہ علمیہ کی سب سے اہم ذمہ داری "اسلامی تمدن" کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ایسا تمدن جس میں علم و ٹیکنالوجی، انسانی اور قدرتی وسائل، سیاسی نظام، فوجی طاقت اور ہر انسانی قوت کو عدل عامہ، رفاہ عامہ، طبقاتی فاصلوں میں کمی، روحانی تربیت اور علم و ایمان کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔

آپ نے موجودہ مادی اور انحرافی تمدن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے فرمایا کہ یہ باطل تمدن فطری قوانین کے مطابق نابود ہونے والا ہے، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی نابودی میں کردار ادا کریں اور ایک برتر تمدن کی نظری و عملی بنیاد رکھیں۔ حوزہ علمیہ پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تمدن کے اہم اور فرعی خطوط کو متعین کرے، ان کی وضاحت کرے اور انہیں معاشرت میں رائج کرے۔ یہ "بلاغ مبین" کا بہترین مصداق ہوگا۔

آخر میں، حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اجتہاد میں زمان و مکان کی رعایت اور نوتراشی کے نام پر دین کی خالصت کو نقصان پہنچنے سے بچانے پر زور دیتے ہوئے موجودہ حوزہ علمیہ قم کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا: آج قم میں ہزاروں مدرسین، مصنفین، محققین اور خطباء موجود ہیں، علمی و تحقیقی رسائل شائع ہو رہے ہیں، تخصصی اور عوامی سطح پر مقالات تحریر ہو رہے ہیں، فکری و انقلابی سرگرمیوں میں طلاب و فضلاء بھرپور حصہ لے رہے ہیں، دنیا بھر کے طلبہ کی تربیت جاری ہے اور جوان فضلاء قرآن کریم اور اسلامی معارف کی گہرائیوں میں غور و فکر کر رہے ہیں۔ نیز، خواتین کے لئے حوزات علمیہ کا قیام ایک اہم اور مثبت اقدام ہے۔ یہ تمام امور اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ حوزہ علمیہ قم ایک زندہ اور متحرک مجموعہ ہے۔
https://taghribnews.com/vdch6-n-623nqxd.4lt2.html
Read 3 times