سلیمانی

سلیمانی

درجہ  ذیل چیزوں پر خمس  واجب ہوتا ہے :

(1) مال غنیمت: اگرمسلمان امام علیہ السلام کے حکم سے کفارسے جنگ کریں اورجو چیزیں جنگ میں ان کے ہاتھ لگیں انہیں ’’غنیمت‘‘ کہاجاتاہے اورجومال، خاص امام علیہ السلام کاحق ہے اسے علیٰحدہ کرنے کے بعد باقی ماندہ پرخمس اداکیاجائے۔مال غنیمت پرخمس ثابت ہونے میں اشیائے منقولہ اورغیر منقولہ میں کوئی فرق نہیں ۔اگرمسلمان کافروں سے امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر جنگ کریں اور ان سے مال غنیمت حاصل ہوتوجوغنیمت حاصل ہووہ امام علیہ السلام کی ملکیت ہے اورجنگ کرنے والوں کااس میں کوئی حق نہیں ۔اگراس کامالک محترم المال( یعنی مسلمان یاذمی کافر یا جس سے معاہدہ ہوا ہو)تو اس پرغنیمت کے احکام جاری نہیں ہوں گے اسی شخص کو واپس کرنا واجب ہے۔

 (2)معدنیات: اس میں زمین سے نکلنے والی تمام معدنیات شامل ہیں، جیسے سونے، چاندی، سیسے، تانبے، لوہے، (جیسی دھاتوں کی کانیں ) نیز پیٹرولیم، کوئلے، فیروزے، عقیق، پھٹکری یانمک کی کانیں اور (اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمرے میں آتی ہیں۔ مرجع اعلی آیۃ اللہ سید علی سیستانی کے نزدیک ،احتیاط لازم کی بنا پر جپسم،چونا،چکنی مٹی اورسرخ مٹی پرمعدنی چیزوں کے حکم کااطلاق ہوتاہے۔  لہٰذااگریہ چیزیں حدنصاب تک پہنچ جائیں توسال بھر کے اخراجات نکالنے سے پہلے ان کاخمس دیناضروری ہے۔کان سے نکلی ہوئی چیزکانصاب (۱۵؍)مثقال مروجہ سکہ دار سوناہے یعنی اگرکان سے نکالی ہوئی کسی چیز کی قیمت (۱۵؍)مثقال سکہ دار سونے تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس پرجواخراجات آئے ہوں انہیں منہاکرکے اگر اس کی مقدار پندرہ مثقال مروجہ آنے کے سکہ تک پہونچے تو اس کے بعد کے اخراجات من جملہ اس کےتصفیہ وغیرہ کے خرچ منہا کرنے کے بعد جوباقی بچے اس کاخمس دے۔

 (3)دفینہ:  دفینہ منتقل ہونے والا وہ مال ہے جو چھپا ہوا ہے اور لوگوں کی دسترسی سے دور ہے جوزمین ،درخت ،پہاڑ یادیوارمیں گڑاہواہو اور ایسی جگہوں پر عام طورسے نہ پایاجاتا ہو۔اگرانسان کوکسی ایسی زمین سے دفینہ ملے جوکسی کی ملکیت نہ ہو یا مردہ ہے اور وہ خود ا س زمین کو آباد کرے اور اس میں کوئی دفینہ مل جائے تو وہ اسے اپنے قبضے میں لے سکتاہے لیکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

 (4)غوطہ خوری  سے حاصل کئے ہوئے موتی: اگر کوئی  نہر یا  سمندرمیں غوطہ لگا کر  لُو ٔلُو ٔ،مرجان یا دوسرے موتی نکالے  توخواہ وہ ایسی چیزوں میں سے ہوں جواگتی ہیں یا معدنیات میں سے ہوں تو نصاب کے مطابق   ضروری ہے کہ اس کا خمس دیاجائے ۔مچھلیوں اوران دوسرے (آبی)جانوروں کاخمس جنہیں انسان سمندر میں غوطہ لگائے بغیرحاصل کرتاہے اس صورت میں واجب ہوتاہے جب ان چیزوں سے حاصل کردہ منافع تنہایاکاروبار کے دوسرے منافع سے مل کراس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔

 (5)وہ زمین جوذمی کافرکسی مسلمان سے خریدے: اگرذمی کافر مسلمان سے زمین خریدے تومشہورقول کی بناپر اس کا خمس اسی زمین سے یااپنے کسی دوسرے مال سے دے لیکن آیت اللہ سیستانی کے نزدیک خمس کے عام قواعدکے مطابق اس صورت میں خمس کے واجب ہونے میں اشکال ہے۔

 (6)وہ حلال مال جوحرام مال میں مخلوط ہوجائے:  اگرحلال مال حرام مال کے ساتھ اس طرح مل جائے کہ انسان انہیں ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے اورحرام مال کے مالک اوراس مال کی مقدار کابھی علم نہ ہو اور یہ بھی علم نہ ہوکہ حرام مال کی مقدارخمس سے کم ہے یازیادہ توتمام مال کاخمس دینے سے حلال ہوجائے گا ۔

 (7)کاروبار کامنافع: جب انسان تجارت، صنعت وحرفت یادوسرے کام وغیرہ س پیسہ کمائے اور یہ خود اوراس کے اہل و عیال کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ زائد کمائی کا خمس( یعنی پانچواں حصہ)   بلکہ ہر مال مملوک  جیسے کسی  کو کمائی کئے بغیر کوئی آمدنی ہوجائے مثلاً  کسی کو کوئی  تحفہ  ،  میراث ، انعا م ، ہبہ، یا مال وقف سے کوئی فائدہ حاصل ہوجائے اس پر بھی خمس واجب ہے۔ لیکن وہ عورت  جو شوہر سے خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا ہے اور اسی طرح ملنے والی دیت پرخمس نہیں ہے۔

روسی خبر رساں ایجنسیTASS  نے امریکی محکمہ توانائی سے منسلک سانڈیا نیشنل لیبارٹریز کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ  امریکہ  نے وار ہیڈ کے بغیر ایٹم بم (B61-12) کا یہ کامیاب تجربہ موسم گرما کے وسط میں کیا تھا۔

 بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تجربات 19 سے 21 اگست تک نیواڈا میں ایک ٹیسٹ سائٹ پر کیے گئے۔ تجربات کے دوران، پانچویں نسل کے F-35 لڑاکا طیاروں نے غیر فعال وار ہیڈز کے ساتھ ہتھیاروں  کو کامیابی کے ساتھ لوڈ اور فرضی اہداف پر گرایا۔

یہ ٹیسٹ نیشنل نیوکلیئر سیکورٹی ایڈمنسٹریشن (NNSA) کے ساتھ مل کر کیے گئے۔ بیان کے مطابق، نیشنل نیوکلیئر سیکورٹی ایجنسی نے 2024 کے آخر میں ان فضائی بموں کی سروس لائف کو 20 سال تک بڑھانے کا  منصوبہ بھی ممکل کرلیا ہے۔

 ارنا کے مطابق رزنامہ العربی الجدید نے اپنی تازہ رپورٹ میں  ماحولیات سے متعلق صیہونی حکومت کے سامراجی منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔

 اس رپورٹ کے مطابق صیہونی حکام مقبوضہ بیت المقدس کے شمال میں واقع قلندیا میں کچرا جلانے کا ایک کارخانہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔    

 یہ پروجیکٹ کچرے کی مینجمنٹ سے بالاتر ہوکر ان پالیسیوں کے وسیلے میں تبدیل ہورہا ہے جن کا مقصد فلسطینیوں پر رصہ حیات تنگ کرنا ہے۔

 کچرا،ایک سامراجی وسیلہ کے زیر عنوان اس رپورٹ میں آیا ہے کہ غرب اردن میں کچرا دفن کرنے کے تقریبا 70 غیر منظم مراکزموجود ہیں جہاں دسیوں ٹرک کچرا خالی کرتے ہیں۔   

   اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ان مراکز ميں فلسطینیوں کا کچرا صرف 10 فیصد ہے اور 90 فیصد صیہونی آبادی کے علاقوں سے  لاکر گرایا جاتا ہے۔

صیہونی کالونیوں کے کچرے کا بڑا حصہ غرب اردن میں قائم کئے گئے کچرے کے ان مراکز میں، مقامی آبادی کے لوگوں کی صحتمند زندگی کے حق  اور ماحولیات کے قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے گرایا جاتا ہے۔   

خود صیہونی حکومت کے شہری امور کے محکمے کے اعتراف سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بحران کتنا وسیع ہے۔

صیہونی حکومت کے شہری امور کے محکمے نے اعلان کیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے درمیان، ان ٹرکوں کی تعداد  میں جو صیہونی کارخانوں کا کچرا غرب اردن لے جاتے ہیں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ ناقص اعتراف ہے جس میں حقیقت کے ہزارویں حصے کا بھی اقرار نہیں کیا گیا ہے۔

   غرب اردن میں لاکر گرائے جانے والے کچرے میں خطرناک کچرے بھی شامل ہیں۔  ان ميں سیور لائن کے کیچڑ، الیکٹرانک کوڑے کرکٹ اور کیمیائی مواد سے لے کر، اسپتالوں کے کچرے،عمارتوں کے کوڑے، گھروں کے کچرے اور ایسے کیمیکلس  کہ جن کے لئے معلوم نہیں ہے کہ کہاں سے لائے لاجاتے ہیں، سبھی کچھ شامل ہے اورکچرے کے یہ ڈھیر فلسطین کے ماحول حیات کو برباد کررہے ہیں۔   

اس رپورٹ کے ایک اور حصے میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی کارخانوں کے مالکین  کچرا اٹھانے والے ٹرکوں کے ڈرائیوروں سے براہ راست معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے کارخانوں کا کچرا رات میں لے جاکر غرب اردن میں گرائيں گے۔

عام طور پر یہ کام غرب اردن کے ساکنین کو کوئی طلاع دیئے بغیر کیا جاتا ہے۔

 صیہونی کارخانے غرب اردن میں خطرناک، مضر صحت اور ماحول حیات ختم کردینے والا کچرا پہنچا نے میں ایسی حالت میں سرگرم ہیں کہ  اس سلسلے میں نہ کوئی نگرانی ہے اور نہ ہی قانون، اور قانون نیز نگرانی کا یہ خلا اتفاقیہ یا عارضی نہیں ہے بلکہ یہ فقدان اور خلا  دانستہ تیار کیا گیا ہے تاکہ کسی خرچے اور کسی معیار اور قانون کی کوئی پروا کئے بغیرفلسطینی آبادی کے اندر یہ انتہائی تخریبی سرگرمیاں جاری رہیں۔          

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی امور کے ماہر میر قاسم مومنی نے کہا ہے کہ اگرچہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی مدت قانونی طور پر ختم ہو چکی ہے، لیکن ایران نے اپنی مزاحمتی صلاحیت اور داخلی خود انحصاری کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ پابندیوں کے بعد کے دور سے کامیابی سے نمٹنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔

انہوں نے مہر نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231، جس میں 2015 کے جوہری معاہدے کی توثیق کی گئی تھی، اپنی 10 سالہ مدت مکمل کرچکی ہے، جس سے JCPOA قانونی طور پر ختم ہوگیا ہے۔ اس قرارداد کے تحت اسلحہ کی تجارت، جہاز رانی اور تجارتی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں اب ختم ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق ایران کے نقطۂ نظر اور وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق یہ قرارداد اپنی مدت پوری کرچکی ہے۔ اگرچہ P5+1 ممالک نے JCPOA کے اختتام کو تسلیم کرلیا ہے، لیکن امریکہ اب بھی دیگر ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرسکے۔

انہوں نے ایران کی مزاحمتی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ایران ایک خودمختار ملک ہے جو "نہ مشرق، نہ مغرب" کی پالیسی کے تحت اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ بیرونی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود قومی اتحاد اور اندرونی صلاحیتوں پر انحصار ہی ایران کی ترقی کا راز ہے۔

مومنی نے کہا کہ تہران نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے بین الاقوامی دباؤ اور قراردادوں کا کامیابی سے سامنا کیا ہے۔ جس طرح ایران نے ماضی کی پابندیوں کو شکست دی، اسی طرح اس نئے مرحلے سے بھی کامیابی سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔

واضح رہے کہ JCPOA جولائی 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے اپنے پرامن جوہری پروگرام پر متعدد پابندیاں قبول کیں، جن میں یورینیم کی افزودگی میں کمی، سینٹری فیوجز کی تعداد محدود کرنا، اور اراک ری ایکٹر کی ازسرنو تشکیل شامل تھی تاہم مغربی ممالک حتی کہ اوباما انتظامیہ کے دور میں بھی ایران سے کیے گئے اقتصادی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی اور یورپی مالیاتی نظام INSTEX بھی ایران کو پابندیوں کے اثرات سے بچانے میں ناکام رہا۔

18 اکتوبر 2025 کو اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کی مدت خودبخود ختم ہو گئی، جس کے ساتھ ہی JCPOA کا قانونی دور بھی باضابطہ طور پر اختتام پذیر ہوگیا۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سیاسی امور کے نائب کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یدالله جوانی نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کو فطری اور اسٹریٹجک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنازعہ وقتی یا سطحی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے مفادات کے تصادم پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 46 سالوں میں امریکی حکومت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایرانی قوم کی مکمل اطاعت کے سوا کسی چیز پر راضی نہیں ہوتی۔  12 روزہ جنگ کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے غیر مشروط طور پر شکست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس سے امریکہ کی جارحانہ حکمت عملی واضح ہوگئی۔

جنرل جوانی کے مطابق، ایران اس تنازعے کو صرف ایک سیاسی یا سفارتی اختلاف نہیں بلکہ ایک اصولی اور طویل مدتی چیلنج قرار دیتا ہے، جس میں قومی خودمختاری اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، براعظم امریکا کے ممالک میں تعیینات ایرانی سفیروں کے ساتھ تعلیمی سفارت کاری پر مبنی ایک مشاورتی نشست منعقد ہوئی، جس میں معاون وزیر تعلیم سعید حبیبا، معاون برائے اسکالرشپ عباس قنبری، اور بین الاقوامی طلبہ کے امور کے ڈائریکٹر محمد باقر جعفری نے شرکت کی۔

سعید حبیبا نے کہا کہ ساتویں ترقیاتی منصوبے کے اختتام تک 3 لاکھ 20 ہزار غیر ملکی طلبہ کو ایران میں داخلہ دینا ایک قانونی ہدف ہے۔ انہوں نے ایران کے اعلیٰ تعلیمی نظام کی علمی ساکھ اور کم اخراجات کو بین الاقوامی طلبہ کی دلچسپی کے دو اہم عوامل قرار دیا۔

فی الوقت ایران میں 65 ہزار غیر ملکی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جن میں 6 ہزار نئے طلبہ رواں تعلیمی سال میں شامل ہوں گے۔ ان میں سے 2 ہزار طلبہ ایران میں اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

عباس قنبری نے بتایا کہ وزارت علوم کے تحت 60 اعلیٰ جامعات 2 لاکھ 80 ہزار بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جب کہ 31 ممتاز جامعات کو دوسری زبان میں کورسز کروانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ ایران میں تعلیم کو مزید پرکشش بنایا جا سکے۔

انہوں نے آن لائن تعلیم کو براعظم امریکہ سے طلبہ کو جذب کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا۔

محمد باقر جعفری نے براعظم امریکہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی موجودہ تعلیمی صورتحال پر تفصیلی اعداد و شمار پیش کیے۔

نشست میں ایرانی سفیروں نے بین الاقوامی طلبہ کے داخلہ کے مواقع اور چیلنجز پر گفتگو کی، جن میں تعلیمی سفارت کاری، فارسی زبان کے اساتذہ کی صلاحیت، ثقافتی فرق، فاصلے اور اخراجات جیسے مسائل شامل تھا۔

ارنا  کے مطابق امریکی مصنف اور سیاسیات کے پروفیسر اور  واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کے طور پر کام کرتے ہیں امریکی میگزین "ٹائم" میں لکھتے ہیں: امریکی منافقت سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم اسے بے نقاب کرتے ہیں، اس پر ہنستے ہیں، اور اس سے نفرت کرنے کا بہانہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر سیاست میں منافقت نہ صرف ناگزیر بلکہ ضروری بھی ہو تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا اگر وہی چیز جو ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کمزور کرتی ہے دراصل وہی چیز ہے جو ہمیں مضبوط کرتی ہے؟ امریکی منافقت کی تاریخ المناک حد تک طویل ہے۔ میں اپنے ملک کے لیے جو بھی خواہشات رکھتا ہوں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری منافقت ختم ہو۔ میری اب بھی یہ آرزو ہے ، لیکن اس کا یقین نہیں ہے۔

ایک وقت تھا جب میں سمجھتا تھا کہ منافقت سب سے بڑی اخلاقی برائی ہے، شاید سب سے بڑی۔ جب میں فلاڈیلفیا کے مضافاتی علاقے میں ایک اسلامی اسکول میں پڑھتا تھا تو منافق ایک بہت ہی دلکش اور پراسرار شخصیت تھا۔ قرآن مجید میں منافقین ایک مخصوص گروہ ہیں جن کا ذکر 29 سورتوں میں بار بار آیا ہے۔ انہیں سب سے برا قرار دیا گیا ہے، کیونکہ وہ تمہارے کھلے دشمنوں سے زیادہ خطرناک تھے، کیونکہ وہ تمہارے دوست ہونے کا دعوی کرتے تھے جب کہ حقیقت میں وہ دوست نہیں تھے۔

بعد میں جب کالج میں گیا،  تو میں جنگ مخالف کارکن کی حثیت سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ریکارڈ سے  سخت نالاں تھا ،  میں نے امریکی خارجہ پالیسی کی بے ایمانی اور منافقت کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔

امریکہ جمہوریت کا دم بھرتا ہے لیکن انتہائی سفاک آمروں کی حمایت کرتا ہے۔ میں ایسے اجتجاجی خیمے بھی لگائے کہ امریکہ اپنی ہائپوکریسی کی وجہ سے امریکہ عالمی قیادت کے لیے نااہل ہوچکا ہے۔ ہمارے یعنی امریکیوں کے  قول اور فعل کے درمیان تضاد ان تمام اقدار کے ساتھ غداری ہے جنہیں میں پسند کرتا ہوں۔

عراق جنگ نے ظاہر کیا کہ آزادی اور جمہوریت کی ہماری بیان بازی کتنی کھوکھلی ہے۔ اچانک، ایک بلا اشتعال حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے، ہم "عرب جمہوریت" پر ایمان لے آئے تھے؟ لیکن عراق جنگ اس سے مستثنیٰ نہیں تھی بلکہ یہ امریکہ میں ایک طویل روایت کا تسلسل تھا، خود کو معصوم ظاہرکرکے اپنے اندر کی بد خوئی پر پردہ ڈالنا۔

ہم کئی دہائیوں سے جمہوریت کی آڑ میں چلی سے لے کر ایران تک اور ایران سے لے کر کانگو تک منتخب عوامی لیڈروں کے خلاف بغاوتیں کر رہے ہیں۔ 

1953 میں ایران میں "آپریشن ایجیکس" پر غور کریں۔ تھیوڈور روزویلٹ کا پوتا کرمٹ روزویلٹ، منتخب ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنے کے مشن کے ساتھ تہران پہنچا کیونکہ مصدق نے  ملک کی تیل کی صنعت کو قومیانے کی جسارت کی تھی۔ سی آئی اے نے جعلی پروپیگنڈہ کیا، کرائے کے فوجیوں کا ہجوم اکٹھا کیا، اور چند ہی دنوں میں بغاوت کامیاب ہوگئی۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں روزویلٹس میں کچھ مشترک تھا: تھیوڈور لاطینی امریکہ میں اپنی "چھڑی" کے ساتھ اور کرمٹ مشرق وسطی میں اپنے "پیسے سے بھرے سوٹ کیس" کے ساتھ۔

 حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون، معروف خاندانی مشیر نے ایک والدین کے سوال کا جواب دیتے ہوئے “پریشان اور خوف زدہ بچے کو ذہنی سکون اور اطمینان کیسے دیا جائے؟” کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔

سوال : میرا آٹھ سالہ بیٹا گھر بدلنے کے بعد بہت مضطرب رہتا ہے۔ وہ اکیلے سونے سے ڈرتا ہے اور ماں سے بہت زیادہ وابستگی رکھتا ہے۔ میں اسے کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟

جواب : میں اپنی بات کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے فرمان سے کرتا ہوں:“خوف کا پھل، امان ہے۔

یعنی خوف دراصل ایک فطری اور خدائی نظام ہے جو انسان کو خطرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر بچہ ڈرے تو والدین کو گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ کوئی غیر معمولی کیفیت نہیں بلکہ ذہنی صحت کی علامت ہے۔

والدین کے بیان سے ظاہر ہے کہ یہ خاندان ماضی میں کسی ناخوشگوار یا صدمہ دینے والے واقعے سے گزرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک آٹھ یا نو سالہ بچہ ایسی صورتحال کے بعد خوف و اضطراب کا شکار ہو سکتا ہے۔

? پہلا اصول:

بچے کے ڈر پر پرسکون ردِعمل دکھائیں، منطقی باتوں سے نہیں۔

اکثر والدین تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں: “فکر نہ کرو، ہمارا نیا محلہ محفوظ ہے” یا “دروازہ بند ہے، کوئی نہیں آئے گا” یا “چھت کا راستہ بند کر دیا ہے”

یہ سب باتیں بظاہر تسلی بخش لگتی ہیں، مگر دراصل بچے کے ذہن میں پرانی خوفناک یادیں تازہ کر دیتی ہیں۔بہتر یہ ہے کہ والدین اپنے رویّے سے اسے اطمینان دلائیں۔اگر بچہ صرف اس وقت پرسکون ہوتا ہے جب ماں پاس ہو، تو ماں کچھ وقت کے لیے بطور مہمان اس کے کمرے میں سو سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ماں اپنا پورا بستر وہاں لے جائے تاکہ بچے کو لگے وہ ہمیشہ وہیں رہے گی۔بس ایک ہلکا بستر اور تکیہ لے کر اسے کہنا چاہیے: “چونکہ تم اس وقت ڈر رہے ہو، میں تمہارے ساتھ ہوں تاکہ تمہیں سکون ملے۔” یہ عارضی قربت بچے کے اندر اعتماد اور ذہنی سکون پیدا کرتی ہے۔

? دوسرا اصول:

بچے کی اضافی توانائی کو دن میں خرچ کرنے کا موقع دیں۔ اکثر ایسے بچے جو رات کو سونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، دن میں کم سرگرم رہتے ہیں۔ ان کے جسم میں توانائی جمع رہ جاتی ہے جو سوتے وقت بےچینی پیدا کرتی ہے۔

لہٰذا والدین کو چاہیے کہ دن کے اوقات میں کھیل، دوڑ، یا جسمانی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کریں تاکہ بچہ شام تک تھک جائے۔

ایسا بچہ جب بستر پر سر رکھتا ہے تو بغیر کسی پریشانی کے جلد سو جاتا ہے۔

✳️ خلاصہ:

بچے کے رات کے خوف کو ختم کرنے کے لیے دو بنیادی اصول یاد رکھیں:

1. ماں یا والدین کی موجودگی سے بچے میں اعتماد اور ذہنی سکون پیدا کریں۔

2. دن کے وقت کھیل اور سرگرمیوں کے ذریعے اس کی توانائی کو خرچ ہونے دیں۔

اگر والدین صبر اور نرمی سے ان اصولوں پر عمل کریں تو بچے کے رات کے ڈر آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گے اور وہ پھر سے پُرسکون نیند لینے لگے گا۔

مغربی ذرائع ابلاغ اب بھی پابندیوں کی دوبارہ واپسی کی خبریں نشر کر رہے ہیں، لیکن انہی نیٹ ورکس کے ماہرین اب اس منصوبے کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ بی بی سی اور ایران انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹس کے مطابق ایران کے تیل فروخت کرنے کے نیٹ ورک نے پابندیوں کے اثرات کو تقریباً غیر مؤثر بنا دیا ہے، اور ٹرمپ دور کی پابندیوں کی پالیسی مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ ایران انٹرنیشنل اور بی بی سی جیسے ادارے، جو برسوں سے امریکہ کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے موافق بیانیے کو آگے بڑھاتے رہے، اب مغرب کے لیے ایک تلخ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ پابندیاں اور دھمکیاں نہ صرف ایران کو نہیں روک سکیں، بلکہ عملاً ایران کی مقامی صلاحیتوں کی تقویت اور تیل برآمدات میں اضافہ کا باعث بنی ہیں۔

لندن اور تل ابیب کے اسٹوڈیوز میں نمایاں اضطراب:
گزشتہ دنوں ایران انٹرنیشنل اور حتیٰ کہ بی بی سی کے ماہرین و مبصرین نے اپنے تجزیوں میں حیرت اور برہمی کے ملے جلے لہجے میں اسنپ بیک (Snapback) پابندیوں کے بے اثر ہونے پر گفتگو کی ہے۔ ان کا سوال ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سلامتی کونسل کی پابندیوں کی واپسی اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کے تسلسل کے باوجود ایران نہ صرف تیل کی برآمد جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنی آمدنی میں بھی اضافہ کر چکا ہے؟۔ مغربی تجزیہ کار یہ سمجھتے تھے کہ اقتصادی دباؤ سے ایران کے سیاسی نظام کو کمزور کیا جا سکتا ہے، اب ایران کی طرف سے زیادہ طاقت کیساتھ مزاحمت اور پابندیوں کو ناکام بنانے کے عملی طریقۂ کار کے سامنے ششدر ہیں۔ 

خود مغربی ماہرین تسلیم کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی ایران کے رویّے میں تبدیلی نہیں لا سکی، بلکہ نتیجتاً واشنگٹن کی عالمی تنہائی میں اضافہ ہوا۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق 2025 میں ایران کی تیل برآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں اور بعض اندازوں کے مطابق پابندیوں سے قبل کی سطح کو بھی عبور کر چکی ہیں۔ مغربی میڈیا نے تیل بردار جہازوں کی نگرانی کرنے والی کمپنیوں کے ڈیٹا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے مشرقی ممالک کی منڈیوں میں تیل فروخت کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کر لیا ہے، یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو ان ہی کے الفاظ میں پابندیوں کو بے اثر کر چکا ہے۔

مغربی ماہرین کا اسنپ‌بیک کی ناکامی پر اعتراف:
واشنگٹن اور بعض یورپی حکومتیں اسنپ‌ بیک (Snapback) پابندیوں کو دھمکی کے طور پر پیش کر رہی تھیں، اب وہ خود مغربی تجزیاتی حلقوں میں بھی غیر سنجیدہ اور غیر مؤثر سمجھی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے نفاذ کے لیے کوئی عالمی اتفاقِ رائے موجود نہیں، اور چین، روس سمیت کئی علاقائی ممالک اس منصوبے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں۔ جبکہ ایران مخالف میڈیا بے بسی  اور پریشانی کے ساتھ "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی کی ناکامی پر گفتگو کر رہا ہے، دوسری جانب مغربی سفارت کار بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ تہران سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر ازسرِ نو غور ضروری ہے۔ یہاں تک کہ بعض امریکی تھنک ٹینکس نے سفارش کی ہے کہ واشنگٹن کو پابندیوں کی بجائے تدریجی اور تعلقات کی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے۔

ایران، ایک فعال اور پراعتماد کھلاڑی:
ایران کی چین اور روس کے ساتھ اقتصادی شراکت داریوں میں توسیع، نئی برآمدی راہداریوں کی ترقی، اور توانائی کے شعبے میں نجی و سرکاری کمپنیوں کی مؤثر فعالیت اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ ایران نہ صرف پابندیوں کے مرحلے سے گزر چکا ہے بلکہ اب ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں عالمی توانائی منڈی کے بڑے کھلاڑی بھی تہران کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ تل ابیب کے ٹی وی اور سوشل میڈیا چینلوں سے لے کر لندن کے سرکاری نیٹ ورکس تک ایک ہی لہجہ سنائی دیتا ہے، ایران کی مزاحمت پر حیرت اور مغرب کی ناکامی پر خفگی کا اظہار۔ ان کے اپنے مبصرین کا اعتراف ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی شکست دراصل اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال مزاحمتی حکمتِ عملی کی کامیابی کا ثبوت ہے، ایسی حکمتِ عملی جس نے پیچیدہ ترین پابندیوں کے جال کو غیر مؤثر زنجیر میں بدل دیا۔


 

بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں کسی بھی وقت بدل سکتی ہے۔ اس فارمولے کی بنیاد پر ایران میں رہنے والے بعض افراد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اختلافات کو ختم کیا جانا چاہیئے اور اس ملک کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ملک کے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع معاہدہ ہونا چاہیئے۔ اس نظریہ اور مفروضے کے برعکس ایک اور قول یہ ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر ایران اور امریکہ کے درمیان مصالحت ممکن نہیں ہے۔ اس نظریئے میں سب سے آگے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے سیاسی اور گروہی نظریات سے بالاتر ہو کر سمجھنا چاہیئے کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے اور کون سا غلط ہے۔؟

اس معاملے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے، جب قومی مفادات کے تناظر میں ہر فریق کے اسباب اور نکات پر غور کیا جائے۔ مثال کے طور پر پہلا نظریہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کے ہر طرح کے دباؤ اور پابندیوں کی وجہ سے ایران کے لیے ترقی کا راستہ بند ہوگیا ہے اور اس ملک کی ترقی کا واحد راستہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے بارے میں امام خمینی (رح) کے اسی نقطہ نظر کے ساتھ تاکید کی ہے کہ ایران کی حقیقی ترقی کی شرط یہ ہے کہ امریکہ آگے نہ آئےو کیونکہ امریکہ ایران کی ترقی کا سخت مخالف ہے۔ سیاسی عقلیت کی کسوٹی پر اور قومی مفادات کے اشاریہ کی بنیاد پر ان دو آراء کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

رہبر معظم کے نقطہ نظر سے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مکتب، روحانیت، انصاف اور عقلیت کی تین جہتوں کا حامل ہے۔ درحقیقت امریکہ کے بارے میں امام کا نظریہ جو یہ کہتا ہے کہ امریکہ بڑا شیطان ہے اور ہم امریکہ سے تعلقات نہیں چاہتے ہیں، ایک مضبوط دلیل پر مبنی ہے۔ امام کا استدلال یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ہر ملک دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ امام کا خیال تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات نہ صرف ایرانی قوم کے لیے  فائدہ مند نہیں ہیں، بلکہ یہ تعلق ہمارے ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک مثال کے ساتھ واضح کیا کہ اس تعلق سے ایران کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ رشتہ بھیڑیئے اور بھیڑ کا رشتہ ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ بھیڑ کے بھیڑیئے کے قریب آتے ہی کیا ہوگا اور کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان ہوگا۔ یہ مثال عقلی دلیل پر مبنی ہے۔ بھیڑیئے کی دلچسپی بھیڑوں کی جان لینے میں ہے۔

امریکہ ایک متکبر مزاج ملک ہے اور وہ دوسروں پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ امریکہ دنیا کی غالب طاقت بن کر دوسروں کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ اس ملک کے قائدین پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایران کو دنیا پر امریکہ کے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم کے اہم مفادات اور فطری حقوق جیسے سیاسی آزادی، قومی وقار، علاقائی سالمیت کا تحفظ اور امریکہ کے غلبہ اور تسلط پسندانہ مفادات کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ مفادات کا یہ تصادم حکمت عملی کی نوعیت کا نہیں ہے، جسے دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات سٹریٹجک اور متضاد مفادات کی سطح پر فطری ہیں۔

گذشتہ 46 سالوں کے دوران امریکہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایرانی قوم کے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے کم کسی چیز پر مطمئن نہیں ہوگا۔ 12 روزہ جنگ کے پہلے ہی دن ٹرمپ نے اس جنگ میں فتح کا تصور کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ بنیادی طور پر امریکہ ایران جیسے ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کے حامل ایک آزاد ملک کو برداشت نہیں کرتا، وہ بھی ایسا ملک جس کا ترقی پذیر جغرافیائی محل وقوع اتنا اہم اور اسٹریٹجک ہو۔ ایرانی قوم کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کی تمام تر وجوہات میں سب سے اہم اسلامی انقلاب سے اس کی دشمنی ہے۔ یہ دشمنی امریکہ کی زیادتیوں میں پنہاں ہے۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم کو طاقت کے حصول کی راہ پر ہوشیاری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے۔ ایک مضبوط ایران کی تعمیر کا نظریہ، جس پر کئی سالوں سے رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیا اور تاکید کی ہے، اسی مقصد کے لیے ہے۔

ایرانی قوم کا روشن مستقبل ایرانی قوم کی مضبوطی پر منحصر ہے۔ ایران اور ایرانیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ تسلط پسند امریکہ کے خلاف مضبوط اور ہمہ گیر پیشرفت کریں۔ امریکہ کی غنڈہ گردی اور جبر کا مقابلہ، مضبوط ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ملک کے مسائل مذاکرات، مفاہمت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ذریعے حل کرنے کی سوچ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایرانی قوم عقلیت سے کام لیتی ہے اور خارجہ پالیسی میں قومی مفادات کے اشاریہ کے ساتھ عقلیت اور حساب کتاب کی بنیاد پر اپنے طرز عمل کو منظم کرتی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے تاریخی تجربات سے سبق حاصل کرنے کا بھی خیال رکھتی ہے۔ انگلستان کے شر سے چھٹکارا پانے کے لیے مصدق کا امریکہ سے رابطہ کرنے کا تجربہ، جس کی وجہ سے بالآخر اینگلو امریکن بغاوت کے ذریعے ڈاکٹر محمد مصدق کی قومی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ تجربہ ایرانی قوم کے سامنے ہے۔

یا کرنل قذافی کے دور میں لیبیا کا تجربہ، جس نے مغرب اور امریکیوں پر بھروسہ کرکے ملک کو زوال اور تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ سوڈان اور عمر البشیر کے امریکہ کے قریب پہنچنے میں غلط حساب کتاب کا تجربہ، جس کا نتیجہ سوڈان کی تقسیم اور تباہ کن خانہ جنگیوں کی صورت میں نکلا۔ ایرانی قوم نے ایران اور امریکہ کے درمیان عدم مفاہمت کی وجہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا ہے اور اسی بنیاد پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زیادتیوں کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کی پالیسی اور نقطہ نظر کا انتخاب کیا ہے۔ قومی اتحاد اور سماجی یکجہتی کی روشنی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی رہنمائی میں ملک کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش اور محنت سے ایک مضبوط ایران کی تعمیر سے تمام مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس راستے پر ایمان اور روحانیت کی طاقت پر بھروسہ نیز اللہ تعالیٰ کی مدد پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے، جو مومنوں کو  سکون بخشتا ہے: "ولا تهنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین"

تحریر: یداللہ جوانی